۱۲ ربیع الاول جو سالانہ ہم آپ ﷺ کی پیدائش کے طور پر منایا جاتا ہے، آج پاکستان میں بہت جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔
مگر
آج جمعہ کی نماز کے بعد میں نے ایک چیز دیکھی، جس پر میں ایک سوچ میں گم ہوگیا؛
- ہم متبادل کی جانب نہیں دیکھتے
- ہم ایک کنزیومر consuming society ہیں، جو صرف استعمال کرنا جانتے ہیں، بنانا نہیں، اگر ہم manufacturing/constructing society رہتے تو ہمیں چیزوں کا احساس رہتا، جیسے ہم اپنے خون پسینے کی کمائی سے بنایا ہوا گھر، گاڑی یا موٹر سائکل یا کوئی بھی ایسی قیمتی بیش قیمتی چیز کی قدر کرتے ہیں کیونکہ اس کو حاصل کرنے کے لئے ہم نے اپنا خون پسینہ ایک کیا ہوتا ہے،
ٹھیک اسی طرح
- ہم چونکہ استعمال کی چیزوں کے لئے ان پر depend کرتے ہیں، تو metaphorically اگر ہم دیکھیں تو صورتحال وہی ہے کہ دودھ کی رکھوالی بلی کو دی ہوئی ہے،
اگر ہم متبادل کی جانب اپنی direction مرکوز رکھتے
- کیونکہ معذرت کے ساتھ، پاکستان سمیت کسی بھی مسلمان ملک نے latest history میں کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں کی،
- میں مسلمانوں کو کنزیومر سوسائیٹی اسی لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ ہم نے خود کچھ بھی نہیں بنایا، جو تحقیق کی تھی ہمارے آباواجداد نے کی تھی جس کو چوری کرکے آج مغرب مغرب بنا ہے، اور مشرق جہاں سورج کی پہلی کرن نکلتی ہے، وہی سب سے ذیادہ ناخواندگی ہے، جہالت ہے،
- ہم چونکہ استعمال کرنے والی سوسائیٹی ہیں، اسی لئے ہماری مثال ٹھیک اسی طرح ہمارے اوپر suitable ہے کیونکہ اس طبیعیت کی وجہ سے ہم خود کچھ نہیں بناتے مگر ہم اُن پر depend کرتے ہیں، اور جب ان چیزوں کے لئے چونکہ ان لوگوں پر depend کرتے تو ویسے بھی مسلمانوں سے خار کھاتے ہیں، یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا، جب صلاح الدین ایوبی کے انتقال کے بعد جب یورپ میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تھی، تو صلیبیوں کا سپہ سالار نے صلاح الدین ایوبی کی قبر پر پاوں رکھ کر کہا تھا کہ "اٹھو صلاح الدین، صلیب غالب آچکی ہے" یہ بتانے کا مقصد یہی ہے کہ آج یہ لوگ اس چیز میں کامیاب ہوچکے ہیں کہ ہم چھوٹی سی سوئی کے لئے بھی ان لوگوں پر depend کرتے ہیں۔
پاکستان اسٹیل ملز کو کِیا کیا؟
- پاکستان اسٹیل ملز کو اپنے ہاتھ سے ختم کیا،
- اب اس کام کے لئے بھی ہمیں مغرب پر depend کرنے پڑتے ہیں، خود دیکھ لیں ۱۹۷۰s میں جب ہم manufacturing society میں رہا کرتے تھے، ہمارا کیا اسٹینڈرڈ ہوا کرتا تھا، ہم نے جرمنی کو قرضہ دیا تھا، کیونکہ پاکستان اپنے پاس چیزوں کو بناتا تھا، نا کہ اب کہ ہم اسمبل کرتے ہیں۔
Ideology نظریاتی جنگ
- چونکہ ہم اپنی ضروریات کے لئے بھی ان پر depend کرتے ہیں، اور ویسے بھی ماضی کے جھروکھوں میں نظر ڈالیں تو ان لوگوں کی مسلمانوں کے ساتھ ذبردست خار ہے، تو کیا ایسے میں یہ ممکن نہیں کہ ہائبرڈ وار فئیر کے طور پر بار بار ان چیزوں کو ہمارے سامنے ڈالا جاراہا ہے تاکہ retaliation آہستہ آہستہ کم ہو اور آخر میں acceptance آجائے،
- بالکل جیسے COVID-19 کے موقع پر سوشل ڈسٹنسنگ social distancing کے نام پر مساجد کو بند کیا گیا، اور ایک انہونا ڈر ہمارے ذہنوں میں مسلط کیا گیا، اور یہاں تک کہ جمعہ المبارک کے تقدس کو بھی کم کیا گیا، ورنہ یہ کوئی فخر کی بات نہیں، کوئی اگر نماز نہیں بھی پڑھتا مگر جمعہ کی فرض نماز کم سے کم ضرور پڑھتا، مگر آج چھوٹی سے چھوٹی مسئلے پر گھر پر پڑھ لیتے ہیں،
- تو کیا یہ ممکن نہیں کہ بار بار یہ چیزیں سامنے آئیں گی تو آہستہ آہستہ جمعہ کی فرض نماز پڑھنے کی urgency کم ہونا شروع ہوجائے گی یا نہیں؟
- کیونکہ میرا یہ ماننا ہے کہاس طریقہ کار سے مسلمانوں کے دل سے آپ ﷺ کی حرمت ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، کیونکہ یہ ایک انسانی psychology ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر، جب آپ ﷺ کو اس طرح degrade کیا جائے گا تو کوئی کیسا بھی بندہ ہو کیا، میرے منہ میں خاک مگر کسی نہ کسی طریقہ سے اثر تو لے گا۔
- میں ذیادہ لمبی بات نہیں کروں گا، acceptance کی زندہ مثال آپ خود ہیں، آپ کے رہن سہن میں ۲۰۰۱ سے ۲۰۲۰ تک کتنی تبدیلی آئی؟ کتنی چیزیں جو کسی زمانے میں Taboo تھی آج accepted ہیں۔ چاہے کپڑے دیکھ لیں، زبان دیکھ لیں، بول چال دیکھ لیں، رہن سہن دیکھیں فرق صاف دیکھے گا۔
اب ایسے میں
- مسئلے کو حل کرنے کے لئے مسئلے کو identify کرنا ضروری ہے,
- اب میں یہ کہتا ہوں کہ مسئلے کو حل کرنے کے لئے مسئلے میں سے "میں" ہٹائیں اور "ہم" لگائیں,
- کیا احتجاج کرنے سے مسئلہ حل ہونا ہے یا ان پلٹ کر ان کو جواب دینا کہ ہم تم پر depend نہیں کرتے تو تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے belief پر ایسا بھونڈہ مذاق کیا؟
- کیا فرانس یا کوئی بھی مغربی ملک ہولوکاسٹ جینوسائڈ پر ایک لفظ بول سکتا ہے؟ کیونکہ وہ لوگ مضبوط ہیں اور کسی پر اتنا depend نہیں کرتے کہ سامنے والا اِن کے عقائد کے ساتھ کھیلنا شروع ہوجائے،
- یہ لوگ ہمارے ساتھ اسی لئے کھیل رہے ہیں، کیونکہ پہلی بات ہم اُن پر depend کرتے ہیں، دوسری بات اُن کی اور ہماری نظریاتی جنگ ہے، جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،
لمبی کہانی کو چھوٹا کرتا ہوں
جب ہم manufacturing society سے consuming society بن جائیں گے، تو کیا یہ ممکن نہیں کہ جو manufacturing units ہیں وہ اس طرح ہمیں اپنے کنٹرول میں لانے کی نا صرف ناکام کوشش کریں بلکہ ہماری نظریات پر بھی حملہ کریں، پر ایسا حملہ جسے ہم حملہ نہیں، بلکہ ایک تبدیلی طور پر تصور کریں، جسے Hybrid War Fare کے نام سے جانا جاتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں