Search me

India لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
India لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

صرف اور صرف رمضان کا با برکت مہینہ ہی کیوں؟

میں یہاں بغیر کسی بکواس کے صرف ایک بات کہوں گا، کہ کیونکر پاکستان میں مذہب کو ایسا مذاق بنایا جارہا ہے؟ مانتا ہوں کہ رمضان ہمارے لئے قدرے اہمیت کے حامل مہینہ ہے، مگر ایک مستقل مزاجی کے تناظر میں بات کروں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک حلقے میں ۳۰ دن کا روزہ جبکہ پاکستان میں ۲۹ دن کا روزہ، اور یہ بیماری اگر چہ ہے تو صرف رمضان کے مہینہ میں کیونکر ابھرتی ہے؟ 
جبکہ بھارت، بانگلادیش میں عید پرسوں ہوگی، تو یہ کیسے ممکن ہے، کہ صرف رمضان کے مہینے میں چاند کو ایسا کنٹرورشل بنایا جارہا ہے، اگر بڑی پکچر میں دیکھیں تو پاکستان اسلام سے ہے، اسلام پاکستان سے نہیں، ہمیں اپنی حیثیت یاد رکھنی چاہئے، کیا عید منانے میں اتنے اتاولے ہوگئے ہیں، کہ بقایا ۹ مہینوں میں اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے، کہ کونسا مہینہ ۲۹ کا ہے، اور کتنے ۳۰ کے، اس کا حساب صرف وہ لوگ رکھتے ہوں گے، جن کے گھروں میں گیارہویں شریف منائی جاتی ہے، تو ایسے میں ایسے کنٹرورشل مہینوں بنایا جارہا ہے۔

In the long run 

یہ میرا ذاتی ذاویہ ہے، جہاں مذہب کو سائیڈ لائن کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، اور ایک منظم کوشش کے تحط لوگوں کو مذہب سے detract کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس وقت جو millinials ہیں، وہاں تک تو بات صحیح ہے، مگر اصل بات وہاں سے کھڑی ہوتی ہے، جب آج کی Gen Z جب شوہر بیوی اور رشتہ اجدواج میں ملبوس ہوجائیں گے، تو جب یہ چھوٹی سوچ والی جنریشن سے کھل کر manupulation کری جارہی ہے، کیونکہ یہ جنریشن بہت جلدی manupulated ہوتی ہے، کیونکہ یہ لوگ بہت شارٹ سائیٹڈ ہوتے ہیں، bigger picture دیکھنے کی ان کی قابلیت نہیں ہے، تو ایسے میں already میں اپنی آنکھوں کے سامنے ہمارے بڑوں کی شارٹ سائیٹڈنس دیکھ رہا ہوں، ایسے میں مزید بڑے ہوجائیں گے، تو برائی مزید پھیلے گی، مگر بحیثیت معاشرہ ہم ویسے بھی برائی کو بُرا بھی تو بالکل نہیں سمجھتے، تو ایسے میں کوئی بعید نہیں کہ آگے مزید برائی بڑھے گی۔





I can be contacted on my handler
Responsive advertisement
Best WordPress Hosting

Afghanistan doing propaganda ... against Pakistan

Whereas, someone from Afghanistan tweeting
ان خاتون سےمجھے کوئی مسئلہ نہیں، مگر پہلی بات یہ ہے کہ counterargument کرنے کے لئے آپ کے facts and figures صحیح ہونے چاہئے، اگر ایسی کوئی صورتحال ہے بھی تو صرف پاکستان میں نہیں ہے، بلکہ ایران میں بھی ہے، تو ایران کے خلاف کیوں نہیں کرتے؟

انڈین mentality کو فالو کرتے ہوئے

ان کے کی بورڈ وارئرز نے میری اس لائن کا اسکرین شاٹ لینا ہے، I don't care کیونکہ پہلی بات، 
  1. ان کی خار صرف پاکستان سے ہے
  2. پاکستان کو نیچا دکھانے کے لئے کسی بھی حد تک جائیں گے
کیا افغان illegal محاجرین صرف پاکستان میں موجود ہیں؟
ان انڈینز کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، جو کہ خود خالصتان تحریک کو دبانے کے لئے کسی بھی حد کی بے شرمی میں جانے کے لئے راضی ہیں، ٹھیک اسی نقش قدم پر افغانی بھی چل رہے ہیں، منافقت کی کوئی شکل ہونی چاہئے تو وہ افغان ہونے چاہئے، (افغانیوں، اسکرین شاٹ لو)، مگر تم لوگوں کی منافقت بتانے پر آؤں، تو اتنی سی بات انڈینز سے کہوں گا کہ ان منافقوں سے دور رہو، یہ منافق جب پاکستان میں رہتے تھے، جب ان کو کہا گیا کہ پاکستان میں رہنے کے لئے (اسلام یہ کہتا ہے کہ follow rules of the land) آپ نے پاکستان کے کونسے rules فالو گئے؟

rule of the land

یہاں میں پاکستان میں موجود laws کو عزت دی؟ ویسے بھی میرے کچھ افغانی ساتھیوں نے یہ بات کرنی ہے کہ انہوں نے بھی کیا ہے (شراب سے وضو کرنا، اور سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی) مگر افغانیوں کو ان کے سوشل میڈیا کا nick name سے نہیں بلواؤں گا، مگر rule of the land کی بات کرتے ہیں، تو کیا پاکستان میں رہتے ہوئے یہاں کے rules کو respect دی۔ ہم پاکستانی تو بے غیرت ہیں، آُپ اتنے غیرت مند ہییں تو کیونکر legacy کو فالو کرنے کے بجائے ہماری طرح بے غیرت بنو؟ ہم تو بہت بڑے بے غیرت ہیں، آپ کیونکر بنے؟

انڈینز اور ان کی attention diversion tactics

flow of events کو مدنظر رکھوں تو بھولیں نہیں، India ایک طرح سے گرم پانیوں میں تھا، خاص طور پر کینیڈا کے معاملات میں، جہاں انڈیا نے کینیڈین شہریوں کو انڈیا میں داخلے پر پابندی لگادی تھی، یاد ہے کچھ، اور یک دم ساری attention پاکستان اور افغانستان ایشو پر ڈال دی، انڈیا میں گودی میڈیا جبکہ ہمارے پاس کا بے غیرت میڈیا ہے، خاص طور پر اس معاملے میں میڈیا کی خاموشی مجھے شک میں لارہی ہے۔

میں پاکستانی ہونے کے ناطے اس بے غیرتی کو کس طرح سے سپورٹ کروں؟

بیغیرتی اس لئے کیونکہ پاکستان کو پتا نہیں کہاں  flush down the gutter کردیا ہے، کیونکہ بیغیرتی میں اس حد تک گر چکے ہیں، کہ پاکستان کے مفاد کو مدنظر نہیں رکھتے ہیں، اب انڈین ہوں یا افغانی، ان کو اس سے کوئی غرض تھوڑی ہونی چاہئے کہ ہم پاکستانی پاکستان کو کتنا عزت دیتے ہیں، یہ تو ہماری ذمہ داری ہے۔


feel free to support me via Dominance Pakistan

Support me on my ARTMO refers

I can be contacted on my handler
Responsive advertisement
Best WordPress Hosting

A bit different post than my usual blog posts, but...


میں زیادہ تر یہاں غصہ دکھا رہا ہوتا ہوں، مگر آج ایک چیز جو میرے ایک انڈین دوست، جو میری طبیعت سے آشنا ہے، کیونکہ مجھے ۲۰۰۵ سے یعنی اس وقت جب ہم Orkut استعمال کیا کرتے تھے، تو اس کی وجہ سے وہ میری پسند اور نا پسندیدگی کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے، کیونکہ ویسے بھی جب بھی کوئی انڈین مووی کا انسٹرومنٹل کیا پھر Karaoke version نکلتا ہے، تو اس نے ہمیشہ کی طرح میرے ساتھ شئیر کیا، اور ٹھیک اسی طرح آج ہی کے دن ایک لنک میرے ساتھ شئیر کیا، جس میں موجودہ کرکٹ ورلڈ کپ کے انسٹرومنٹل میوزک میرے ساتھ شئیر کیا

یہاں مجھ جیسے بندے کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان skills کا فرق کھل کر عیاں ہوا

میں یہاں یہ بات اس لئے نہیں کررہا ہوں، کہ کہیں مجھے انڈیا سے ویوورز چاہئے، بلکہ یہ ایک طرح کی confession ہے کہ ۱۹۹۰ کے دور میں ہم کہاں تھے، اور اب کہاں بیٹھے ہیں، انڈیا کے ساتھ بھی ۱۹۹۰ کا دور بہت سخت تھا، مگر اس قوم نے اس دور میں اپنا metal  دکھایا، جبکہ یہاں ہم سیاسی پناہ گزین بن چکے ہیں۔

Getting back to Instrumental

مجھے یہ میوزک آڈیو میں convert کرنی پڑی، کیونکہ ٹیلی وژن رکارڈنگ تھی، مگر جب آڈیو میں تبدیل کیا، تو جب اس میوزک میں جو ستار کا استعمال، violin کا استعمال، اور ماڈرن انڈین ریپ میوزک دکھایا گیا ہے، کیونکہ انہوں نے یہ ٹیلنٹ نا صرف اپنے پاس develop اور groom کیا، بلکہ accordingly promote بھی کیا، پرانی بالی ووڈ مووی میں جیسا دکھایا جاتا تھا، اس کے مقابلے میں ان لوگوں نے اپنی product promotion اور product placement کس پلاننگ کے ساتھ کی ہے، بیشک ہمارے competitor ہیں، مگر بات ماننے والی ہے، کہ they are at par comparison to us 

اس کے مقابلے میں ہم اپنے برینڈز کو کس طرح تذلیل کرتے ہیں

میں نے اسی وجہ سے اپنا Twitter کچھ ٹائم کے لئے suspend کیا ہے، کیونکہ جس طرح کی غلاظت وہاں چل رہی ہے، اور جس طرح پاکستان کا مذاق ہم پاکستانی خود بنا رہے ہیں، بلکہ انڈینز کو خود موقع دے رہے ہیں کہ آ بیل مار مجھے، تو کیا انڈینز کو نفلوں کا ثواب مل رہا ہے، کہ وہ فائدہ نہیں اٹھائیں؟ ہم پاکستانی بن کر سوچیں گے؟

موجودہ کرکٹ ورلڈ کپ اور پاکستان کی product placement

کیا ہم نے اس طرح چیزوں کو دیکھنے کی کوشش کی کہ اس طرح کی غلاظت کرنے سے ہم پاکستان کو دنیا میں کیسا دکھا رہے ہیں؟ ہمیں اپنے megalomaniac mindset سے باہر نکل کر سوچنا ہوگا، کہ ۱۹۹۰ کے بھارت سے آج کا بھارت دیکھو تو اس وقت بھارت ڈیفالٹ ہونے پر تھا، اور آج چاند کی ڈارک سائیڈ پر پہنچ چکا ہے، اور یہاں ہم آج بھی تحقیق کرنے کے بجائے، تعویذ جادو وغیرہ پر لگے ہوئے ہیں، as a society اگر ہماری سوچ اتنی گری ہوئی ہے تو جیسے پرویز مشرف نے ایک بات کہی تھی، کہ پاکستان کا خدا ہی حافظ، کیونکہ بات یہاں کرکٹ کی نہیں، as a nation سوچنے کی ہے، کہ کیا ہم نے پاکستان کے بارے میں کبھی کچھ سوچا ہے؟ پاکستان کو فائدہ پہنچانے میں ہمارا اپنا ہی فائدہ ہے، چیزیں ہمارے لئے سود مند ہو جائیں گی، 

پے پال پاکستان میں کہاں ہے؟

چلیں تھوڑا پاکستانی بن کر سوچتے ہیں۔ انڈیا میں UPI ہے جو ان کا alternate ہے towards پے پال، کیونکہ ان کی نیشنل پالیسی رہی ہے کہ India Only اور India Priority، تب ہی ہم چاہے جتنا بھی ان کا مذاق اڑالیں، مگر آج اپنے خود کے ملک میں گاڑیاں بنا رہے ہیں، جبکہ ہم اسمبلی لائن سے آگے نہیں پہنچ سکے، کیا ہم نے ایسا کوئی کلچر اپنے معاشرے میں پروموٹ کیا؟

ہمارے پاس ایزی پیسہ اور جاز کیش ہے

مگر کیا ان کا وہ استعمال ہم اپنے پاس کررہے ہیں، جو انڈیا اپنے homegrown app یعنی UPI کے ذریعے ناصرف انڈیا میں بلکہ قطر وغیرہ میں رہنے والے انڈینز جن کو عرف عام میں این آر آئی کہا جاتا ہے یعنی non residing Indians ٹھیک اسی طرح جیسے ہمارے پاس Overseas Pakistani کی term کو استعمال کیا جاتا ہے، بیشک مودی ہمارے لئے جیسا بھی ہو، اپنے ملک کے لئے جس طرح کام کررہا ہے، کیا ہم میں وہ قومی غیرتی ہے کہ اتنا کام کریں؟
بات صرف ایزی پیسہ یا جاز کیش کو پروموٹ کی نہیں ہے، بات اصل یہ ہے کہ جس طرح انڈینز اپنے ملک کے لئے کام کرتے ہیں، کیا اسکا چند فیصد بھی ہم نے پاکستان کے لیے کیا؟ ہمارے پاس آج کے زمانے میں بھی امپورٹڈ آئٹم استعمال کرنا فخر کی بات ہے، 

بحیثیت بینکر میں یہ چیز نوٹ کر رہا ہوں

آج کی تاریخ میں اگر آپ پاکستان میں کسی کو کال کریں، تو یا تو Pinktober کی discussion ہورہی ہوتی ہے یا پھر یہ کہ اسٹیٹ بیک آف پاکستان یا کوئی بھی organization آپ سے آپ کی تفصیل پوچھنے کا مجاز نہیں، اور بینکر ہونے کے ناطے میں نے خود یہ چیز نوٹ کی ہے، کہ لوگ اس معاملے میں لاعلم ہیں، مگر لوگوں کو ان کی لاعلمی سے لوٹا جارہا ہے، کیونکہ ہماری اکانومی کا یہ حال اسی لئے ہوا ہے، کیونکہ اپنے آپ کو دنیا کے ساتھ align نہیں کیا، skills deficiency کا اسٹینڈرڈ ہمارے پاس اور دنیا میں اتنا ہے، کہ چلیں انڈیا کی بات نہیں کرتے، ایران کی بات کرتے ہیں، وہاں بھی ہم سے زیادہ آن لائن بینکنگ استعمال کی جاتی ہے، جبکہ یہاں ابھی بھی اسکیل پنسل والی بینکنگ کی جارہی ہے، جہاں audit objection بول کر کچے رجسٹر بنوائے جارہے ہیں، اور paperless ہونے کے بجائے paper-full usage banking کررہے ہیں، جبکہ آج کل آن لائن بینکنگ پورٹل میں scheduled banking، جیسے سہولیات آچکی ہیں، مگر اس کے باوجود یہاں ابھی بھی جھگڑے ہورہے ہیں کہ اسٹمپ 95% dark ہونے کے بجائے 80% dark ہوئی تو دوبارہ اسٹمپ لگوارہے ہیں، جبکہ ٹرانزیکشن نمبر جنریٹ ہوچکا ہے، مگر اسٹمپ پکی ہونی چاہئے، جب یہ ہماری اپنی صورتحال رہے گی کہ بحیثیت قوم ہماری intent ہی نہیں ہے کہ آکے کی proactive approach رکھیں، بلکہ ٹانگ کھینچنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے (شرم کے ساتھ)

میں اپنی تعریف نہیں کررہا ہوں

مگر میں دو کارڈ استعمال کرتا ہوں، دو الگ بینک کے، ایک یونین پے ہے دوسرا پے پاک، ایک Chinese ہے جبکہ دوسری پاکستانی کمپنی، میں نے خود استعمال کرکے دیکھا کہ یونین پے والی ایپ کے کیمرے کے ذریعے پیٹرول پمپ پر موجود کیو آر کو استعمال کر کے KEENU کی رسید بھی حاصل کی، بولنے کا مقصد یہی ہے کہ ہمیں شعور ہی نہیں ہے کہ دنیا کہاں نکل چکی ہے، انٹرنیشنل پیمنٹ سسٹم، یعنی VISA, MasterCard, Union Pay اور Pay Pak جو کے اس وقت پاکستان میں استعمال ہونے والے پیمنٹ سسٹم ہیں، ان کا basic مقصد کیا ہے، کیا کبھی concept سمجھنے کی کوشش بھی کی، میں چلیں چاہل ہوں، آپ بہت عقلمند ہو، عقلمند ہو تو آگے دیکھو، وہی conformity biases میں پھنس کر کیونکر بیٹھ گئے ہو، اور نا صرف پھنس گئے ہو، بلکہ اسی کنواں میں رہنا پسند کرتے ہو۔

مجھے پتا ہے کہ 

ان سب کا ری ایکشن اچھا نہیں آنا ہے، کیونکہ ہماری سوسائٹی اس طرح کی بن چکی ہے، جہاں دلچسپیاں ختم ہوچکیں ہیں تو اس طرح کی leg pulling activities کو انٹرٹینمنٹ کت طور پر لیا جاتا ہے، جو کہ high time to recognize ہے کہ we do require to upgrade۔ میں یہاں کسی بھی طرح سے apologetic نہیں ہوں، کیونکہ بحیثیت پاکستنی، ہمیں یہ چیز acknowledge کرنی چاہئے کہ fault lies within us جب تک ہم یہ چیز identify نہیں کریں گے کہ ہم صحیح نہیں ہیں، چیزیں صحیح نہیں ہوںگی، اور گر ابھی بھی آپ کی یہی سوچ ہے کہ مجھے غلط ثابت کر کے آپ کو لائسنس مل رہا ہے go on your existing way تو یہ کوئی اچھی بات نہیں، میں اسی leg pulling pathetic طریقوں کے خلاف ہوں، کیونکہ ہم نے تمام دلچسپیوں سے اپنے آپ کو عار کر دیا ہے، again دنیا کہاں جارہی ہے اور اس کے برخلاف ہم کہاں ہیں۔جب بنی اسرائل اپنے رب سے دور ہوئی تو اللہ نے ہم مسلمانوں کو لائے، اب جب ہم مسلمان ہی ایسے ہوگئے ہیں، تو کیا یہی ممکن نہیں کہ اللہ تعالی ہمارے مقابللے میں کسی اور قوم کو پیدا کردے؟ کیا ہم نے ایسی کوئی کثر ابھی تک چھوڑی ہے کہ کہہ سکیں کہ ہم ابھی بھی اللہ کی آخری اقوام میں ہیں؟ جبکہ scientifically یہ بات proven ہے کہ سائنسدانوں نے ایک بگ بینگ کی آواز سنی ہے، (واللہ اعلم، اس میں کتنی صداقت ہے) مگر اگر ایسی کوئی بات ہے بھی تو اس بات کی امید نہیں کہ ایک نئی civilization کی development دوبارہ سے شروع ہوچکی ہے؟؟؟

دنیا ہمارے قرآنی آیات کو decipher کر کے یہاں پہنچ چکی ہے، جبکہ ہم ابھی بھی اس احساس محرومی میں موجود ہیں کہ کہیں ہم سے آگے نا نکل جائے، 
The Big Bang may have been accompanied by a shadow, "Dark" Big Bang that flooded our cosmos with mysterious dark matter, cosmologists have proposed in a new study. And we may be able to see the evidence for that event by studying ripples in the fabric of space-time.

The Dark Big Bang

In their paper the researchers explored what a Dark Big Bang would look like. First,  they hypothesized the existence of a new quantum field — a so-called "dark field," that is necessary to allow dark matter to form completely independently.

In this new scenario, the Dark Big Bang only gets underway after inflation fades away and the universe expands and cools enough to force the dark field into its own phase transition, where it transforms itself into dark matter particles.

زحل جو مریخ اور مشتری کے بعد اگلا سیارہ ہے، وہاں سے یہی 
زمین جس پر حکومت کے دعویدار ہیں، ایسی دکھتی ہے، پس تم
اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
سو ایسے میں کیا ہم صرف اس نقطہ کی مانند زمین پر "قبضہ" کرنے کے لیے بیٹھے ہویئے ہیں یا پھر اشرف الإمخلوقات  کی طرح تحقیق کرنی چاہئے کہ ہمیں کیسے زندگی گزارنی چاہئے، کیا اس طرح جہالت سے بھر پور حرکتیں کر کے ہم یہ prove کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اتنے عقلمند اور ہر فن مولا ہیں؟



feel free to support me via Dominance Pakistan

Support me on my ARTMO refers

I can be contacted on my handler
Responsive advertisement
Best WordPress Hosting

خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور یہ چیز آج prove کرتی ہے

 کیونکہ جس طرح جنرل بیپن راوت نے یہ بات کہی تھی کہ ہم کشمیریوں کا ڈی این اے تبدیل کریں گے، اور ۲۷ فروری کو ہاٹ لائن پر یہ بات کہی گئی کہ ان کو رستے سے ہٹاؤ ورنہ یہ ہمارے نشانے پر ہیں، آج ان کا انتم سنسکار ہوا ہے۔

مسلمان ہونے کے ناطے مجھے ایسا نہیں کہنا چاہئے

مگر اس طرح کے لوگ اور دیسی لبرلز جن کو یہ دکھائی دے رہا تھا کہ فیصل آباد میں عورتوں کو مبینہ طور پر برہنہ کیا گیا، حالانکہ اگر آپ اپنے آپ کو لبرل کہتے ہو، تو آپ کو کسی بھی بات کو کراس چیک کرنا چاہئے، ایسی کوئی بات کسی تصدیق کے نہیں کرنی چاہئے تھی کہ یہ ٹھیک نہیں ہوا، میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ ٹھیک بالکل نہیں ہوا، مگر ایک ٹرم جو ہم نے ہالی ووڈ سے adopt کی ہے، Cause and Effect، یعنی جو ایکشن آپ کرتے ہیں، اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں، اس کے بارے میں خیال رکھنا I guess لبرلز کی خصلت ہوتی ہے، نہ کہ یہ کہ جس ملک میں آپ رہ رہے ہیں اس میں کوئی contribution نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ اگر آپ لبرل ہیں، تو جس طرح ہہ لبرل ازم آپ لوگوں نے مائنڈ پروگرامنگ کے ذریعے سے سرعیت کی ہے، اس کا صرف ۱ فیصد اگرچہ لوگوں میں اس چیز کا شعور ڈالنے میں لگاتے کہ ٹیکس کے پیسوں کو کیسے utilize کریں، اس کا سوال کرنا سکھاتے کہ ہم ٹیکس کا پیسہ دے رہے ہیں تو اس کا فائدہ کیا مل رہا ہے، کیا یہ چیز آپ لبرلز کی ہے؟

میں لبرل نہیں

کیونکہ کم سے کم میں آپ لوگوں کی طرح منافق نہیں ہوں، خاص طور پر آپ لوگ اور ہمارے ـمعزز میڈیا والےـ کیونکہ اگر آپ کیپشن کو پڑھیں تو کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ ڈیفینیشن ہمارے میڈیا گروپ والوں پر بالکل ٹھیک بیٹھتی؟ کیا ہمارا میڈیا دنیا میں ہمیں یہ show نہیں کراتا کہ ہم (پاکستانی) دنیا کے نقشے پر بدنما داغ ہیں، اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ ہمیں یہ بھی show کیا جاتا ہے کہ ان کا معاشرہ سب سے بہترین ہے، جبکہ خود بتائیں، مجھے یہ بات یہاں لکھنی چاہئے یا نہیں مگر اب جب کھل کر بات کرنی ہے تو ایسا ہی صحیح، مگر ان کے معاشرے میں ۱۸ سال کی عمر میں اگر کوئی لڑکی کنواری رہتی ہے تو اس لڑکی کو کیا کیا القابات سے نوازا جاتا ہے، الامان الخر، بلکہ ان کے معاشرے میں یہ نارمل بات ہے کہ ۱۸ویں سالگرہ تک اپنی کنوارا پن سے جان چھوڑے، اور آپ لبرلز یہ کہہ رہے ہو کہ ہم پیک ورڈ ہیں اور ہمیں اپنی معاشرتی اقدار کو چھوڑ کر ان کو اپنانا چاہئے، جو کہ ویسے بھی بحری قذاقوں کی اولادوں میں سے ہیں، میں مانتا ہوں، غلطیاں ہماری بھی ہیں، مگر یہ بتائیں کہ کیا اس چیز کی آزادی آپ کو انڈیا میں ملے گی، جو آپ کو پاکستان میں مل رہی ہے کہ جو منہ میں آئے بھونک دو؟ انسانوں کا کام گفتگو کرنا ہوتا ہے، بھونکنا نہیں، آپ سے گزارش یہی ہے کہ براہ مہربانی جتنی energy بھونکنے میں لگاتے ہیں، اس کا ایک فیصد (پھر سے) استعمال کرلیتے تو کم سے کم اور کسی نہ کسی حد تک انسان لگتے، اور انسان کبھی منافق نہیں ہوتا ہے، منافقت غیر انسانی فطرت ہے، اور اس معاملے میں شیطانی عمل ہے، کیونکہ انسان دوست ہوتا ہے، اور دوستی و منافقت میں کوئی relation نہیں تو ایسے میں اگرچہ آپ اور ہمارا میڈیا کسی منافق سے کم نہیں۔

جس طرح فیصل آباد کو میڈیا والوں نے ٹرینڈ کیا 

اور ثالث کا کردار ادا کیا، اس سے بڑی منافقت کوئی نہیں ہے، کیونکہ مجھے یاد ہے جب سری لنکن مینیجر والا واقعہ ہوا تھا، تو ایسے میں پہلے میڈیا والوں نے بجائے constructively چیزوں کو tackle کرنے کے بجائے یعنی لوگوں کو گائڈ کرنا کہ کسی بھی معاملے میں اس طرح کا بیان دینا وہ بھی اس وقت جب prove نہیں ہوا کہ واقعی میں گستاخی ہوئی تھی یا نہیں، کیونکہ ہمارے پاس کے لوگوں میں (ہر ایک میں نہیں) مگر یہ عادت ہے کہ کوئی benefit مل رہا ہوتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ میرے ساتھی کو بھی اس میں سے کچھ مل جائے، بلکہ اب سوچ یہ ہوتی ہے کہ اس کو ملے نہ ملے، اس کا بھی مجھے مل جائے، ہمارے ٹریفک کا حال ہی دیکھ لیں، میں صفحوں کو مزید گندا نہیں کرنا چاہتا کہ ہم سب نے دیکھا ہے کہ ایک گاڑی کس طرح لائن کی پاسداری کرتی ہے، اور ٹریفک سگنل کے کتنے آگے کھڑی ہوتی، بجائے اسکے کے تھوڑا انتظار کرلے، گاڑی گزرے گی تو اس کے پیچھے گیپ میں نکلے، مگر ہمیں یہ عادت ہے کہ میں پہلے نکل جاؤں، اور انتظار کرنا میری شان کے خلاف ہے، 

مسئلہ ہم میں ہی ہے

بے شک میں لبرل نہیں مگر بات یہی ہے کہ جس طرح کے نفسا نفسی کے دور میں ہم موجود ہیں، ایسے میں ہم نے تحقیق اور کراس چیکنگ کا عنصر بھی اپنے اندر سے یکسر ختم کردیا ہے، ورنہ جن کو کلمہ پڑھنا، اس کا مفہوم اور مطلب نہیں آتا، چلو یہ تو بہت بڑی بات کررہا ہوں، شعور نہیں ہو، ان کے منہ سے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ ہم نے ناموسِ رسالت ﷺ کا خیال کیا ہے، جبکہ ہمارے مذہب میں ایسا کوئی concept نہیں ہے، 

مسجدِ نبوی ﷺ میں رفع حاجت والے واقعہ کی مثال

جہاں ایک کمزور دماغ والا بندہ غلطی سے مسجد نبوی میں پیشاب کردیتا ہے، ایسا کوئی واقعہ اگر چہ آج ہوجاتا، تو اس بندے کا بالکل اس سری لنکن منیجر کی طرح نام و نشان موجود نہیں رہتا کیونکہ ہم نے لکھنا پڑھنا اور اس کے ساتھ لکھنے پڑھنے کا شعور اپنے اندر سے بالکل ختم کردیا ہے، جبکہ آپ ﷺ نے اس وقت یہ عمل نہ صرف کرنے دیا بلکہ بعد از خود ڈول کے ذریعے پانی بہا کر جگہ صاف کردی، جس کی بدولت آپ ﷺ کے رویے سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا، ہمارے بڑوں نے اپنا رویہ کس پائے پر رکھا، اور یہاں ہم نے اپنے آپ کو حیوانیت کے دلدل میں ڈال دیا ہے۔

دشمن کے پلان میں ایندھن بننے میں ہمیں کیا اچھا لگتا ہے؟

اوپر جب میں نے جنرل بیپن راوت کا زکر کیا تو یہ کہا کہ کشمیریوں کا ڈی این اے تبدیل کریں گے، ایسا کرنے کے لئے ان کو اندر کے بھیدی چاہئے ہوتے ہیں، اور یہ ہمارے پاس کے لوگوں کی کمزوری ہے، تعلیم ہونا نہ ہونا کوئی criteria نہیں، مگر اصل بات یہی ہے کہ بندے کے اندر شعور ہونا چاہئے کہ اگر اس طریقے سے پیسے کما بھی لے گا، تو کیا وہ آزادی اس کو میسر رہے گی جو روکھی سوکھی کھا کر اس کو میسر ہوتی ہے؟ یہ بات شعور کی ہوتی ہے۔ کیونکہ فیصل آباد کے واقعے میں مجھے صاف طور پر یہ لگا کہ ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ کیسے ان کے اس ایکشن کو دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف نہ صرف استعمال کریں گے، بلکہ ان کی اپنی individuality اور respect ختم ہوچکی ہے، بلکہ ان کے اس ایکشن کی وجہ سے عورت زات کی عزت ہمارے معاشرے سے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس کی ایک مثال مذہب سے دوری بھی ہے

کیونکہ یہ دونوں واقعات لبرلز کو ایک موقع دینے کے برابر ہے جہاں ridiculing the religion and faith and beliefs ان لوگوں کا مین اور کور پروگرام ہوتا ہے، keeping in mind آج کے زمانے میں معلومات کا زخیرہ ہے جبکہ علم اٹھا لیا گیا ہے، کیونکہ معلومات ایک حیوان کو بھی ہوتی ہے مگر اس کو استعمال کرنے کا ڈھنگ ہمیں علم فراہم کرتا ہے، تو آپ خود بتائیں، اس مینجر کی لاش کے ساتھ بے حرمتی کرتے ہوئے لبیک یا رسول اللہ بولتے ہوئے آپ نے blasphemy نہیں کی؟ جبکہ آپ منافق بھی ہو، مذہب کی مانتے بالکل نہیں ہو، مگر جہاں اپنی بات آجائے، مذہب میں اپنی مطلب کی شق کو اپنے حساب سے استعمال کرنا از خود منافقت نہیں؟ جبکہ بقول سی سی ٹی وی، اس کو اردو اور عربی نہیں پڑھنی آتی تھی، تو ایسے میں it was unintentional اور جب اس کو پتا چلا کہ اس سے یہ حرکت ہوئی ہے، تو اس نے معافی بھی مانگی، مگر منافقت یہی ہے کہ اپنے personal scores کو settle کرنے کے لئے اسلام اور پاکستان کی دھجیاں بکھیرنے میں ہم لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔

اب دیکھیں ہمارے خلاف کیا ٹرینڈ چل رہا ہے

ہم نے لوگوں کو کیا موقع دے دیا ہے کہ ابھی ہم رو رہے ہوتے ہیں کہ نوکریاں نہیں ہیں، جبکہ ہمارے آج کے ایکشن سے آنے والے وقت کی نوکریاں بھی کھا چکے ہیں۔

https://twitter.com/hashtag/withdrawgspplusfrompak?src=hashtag_click

چانکیا کے نظریہ کے متصدق

آج جب میں یہ لائن لکھ رہا ہوں، پاکستان اور نیو زی لینڈ کی سیریز کو ختم ہوئے دو دن ہوگئے ہیں، اور شرم کا مقام ہم پاکستانیوں کے لئے ہے کہ ہم میں سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جو ایسے موقع پر بھی پاکستانی بننے کے بجائے ن لیگی اور پی ٹی آئی والے بننا زیادہ ضروری ہے، جو کہ ہمارے لئے بحیثیت پاکستانی شرم کا مقام ہے۔


ففتھ جنریشن وار فئیر 

Fifth Generation Warfare کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو دماغی نقشہ بندی کے اوپر depend کرتا ہے، یعنی آسان زبان میں ذہن سازی، اور ذہن سازی کی مانیں تو Hinduism کے مطابق ایک کیریکٹر چانکیا ہے، 

نظریہ چانکیا

آچاریہ چانکیا یا روایتی طور پر وشنوگپتا کے طور پر شناخت کیا گیا ایک قدیم ہندوستانی استاد ، عالم ، ماہر معاشیات ، قانون دان اور شاہی مشیر تھا۔ انہیں ارتھ شاستر کی تصنیف کا سہرا دیا جاتا ہے جو کہ دوسری صدی قبل مسیح کا ایک متن ہے۔ انہیں ہندوستان میں سیاسی علوم اور معاشیات کا علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ ان کے کام کو کلاسیکی معاشیات کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ اس کے تمام صحیفے اور مکالمے گپتا سلطنت کے قریب کھو گئے تھے اور بیسویں صدی کے اوائل میں دوبارہ مل گئے تھے۔
موریہ سلطنت کے قیام میں چانکیہ کا اہم کردار تھا۔ اس نے پہلے موریہ بادشاہ چندر گپت کو اقتدار میں آنے میں مدد اور مشورہ دیا۔ اس نے چندر گپت اور اس کے بیٹے بندوسار دونوں کے لیے بطور چیف مشیر خدمات انجام دیں۔
چانکیہ کا نظریہ تین اصولوں پر مبنی ہے۔ دام (پیسہ) ، سیم (کاجول) ، ڈنڈ (فورس) ، بیڈ (اختلاف) پہیلی کا پانچواں ٹکڑا بھی ہے لیکن پہلے ، آئیے مرکزی چار پر توجہ دیں۔

صم۔

یہ چانکیہ کے نظریے کے کئی ٹکڑوں کا پہلا ٹکڑا ہے۔ صام کا مطلب ہے کسی کو قائل کر کے کچھ کرنے پر راضی کرنا۔ یہ کئی طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔

نمبر 1 ، آپ دوسرے شخص کو بتا سکتے ہیں کہ وہ کیا حاصل کرے گا اگر اس نے وہ کام کیا جس کے لیے کہا گیا ہے۔

Numero Dos ، آپ دوسرے شخص کو دکھا سکتے ہیں کہ یہ خاص کام انہیں کیسے فائدہ پہنچائے گا۔

نمبر 3 ، دوسرے شخص کو دکھانا کہ وہ کس طرح کام سے منسلک ہیں۔ یہ خون ، مقصد یا فائدہ ہو سکتا ہے۔

آخری لیکن کم از کم نہیں۔ دوسرے شخص کو بتائیں کہ اسے دیا گیا کام کرنا اس کے لیے کتنا ثواب کا باعث ہوگا۔

سام شاید ایک حکمت عملی کی طرح لگتا ہے جو مخالف اور مرکزی کرداروں کے ذریعہ ٹی وی سیریز اور فلموں میں استعمال ہوتی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ چانکیہ کے نظریے میں پہلی چیز ہے۔ یہ اس کے نظریے کی کمزور ترین حکمت عملی ہے اور اس کا آسانی سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ بڑے بڑے درج ذیل ہیں۔

دام

ڈیم اگلی بڑی چیز ہے جو بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے کام کو پورا کرنے کے لیے پیسے استعمال کریں۔ یہ بنیادی طور پر رشوت ہے۔ آپ نے شاید یہ کام خود کیا ہے ، کچھ کھجوروں کو چکنا اور اپنے کام کو انجام دینے کے لیے ایک فائل میں ایک یا دو بل کاٹ کر۔ یہ اس کے نظریے کی مضبوط ترین حکمت عملی ہے۔ چونکہ اس میں پیسے کی شمولیت ہے اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں پیسے کی بات چیت۔

یہ قوموں کے ذریعہ بہت زیادہ استعمال ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ نہ صرف ان کے رہنما بلکہ مقامی شہری بھی۔ خاص طور پر ان قوموں میں جہاں کرپشن تیزی سے چلتی ہے اور رشوت کے بارے میں دوسری سوچ نہیں دی جاتی۔ یہاں تک کہ قومیں چانکیہ کی اس تکنیک کو گھناؤنے جرائم کے لیے استعمال کرتی ہیں اور اپنی دشمن قوم پر ظالمانہ کارروائیاں کرتی ہیں۔

دام عام طور پر یہ کہہ کر استعمال کیا جاتا ہے کہ یہ فراہم کردہ خدمات کی ادائیگی ہے اور اس کے ساتھ شاذ و نادر ہی رشوت کی اصطلاح مختص کی جاتی ہے۔ لہذا ، یہ دام حاصل کرنے والا اداکار خود کو کچھ ٹھیک محسوس کرتا ہے۔ یہ صحیح معنوں میں ایک گھناؤنا آلہ ہے جو ہندوستان اور دیگر ممالک یکساں طور پر استعمال کرتے ہیں۔ قطع نظر ہم سب کو یہ تسلیم کرنا ہوگا ، کہ یہ ایسی چیز ہے جو کام کرتی ہے۔

ڈانڈ۔

ڈانڈ یا ڈنڈا کا مطلب ہے کہ طاقت کے استعمال سے کاموں کو انجام دیا جائے۔ یہ ایک عام معلوم حقیقت ہے کہ خوف سب سے بڑا قائل ہے۔ مزید برآں ، انڈیا اور امریکہ جیسی بڑی قوموں کے لیے ڈان کو بطور پیشگی حکمت عملی استعمال کرنا بہت عام ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ڈانڈ کو بطور حکمت عملی استعمال کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ مسلسل دوسرے ممالک کو تجارتی بلاکس یا حملے کی دھمکیاں دیتا ہے اگر وہ عمل نہیں کرتے ہیں۔ ڈنڈ ایک حقیقی حکمت عملی ہے جسے 2019 میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نریندر مودی نے پاکستان کے لیے واٹر بلاکس ، ٹریڈ بلاکس اور ایئر اسپیس بلاکس لگا کر بھی اسی طرح کی حکمت عملی ترتیب دی ہے۔

بیڈ

اختلاف یا باہمی مداخلت یہ ایک حکمت عملی ہے جو حکم دیتی ہے۔ جو آپ چاہتے ہیں اسے حاصل کرنے کے لیے آپ کو اپنے دشمن کی صفوں کے درمیان آگ لگانی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دشمنوں کو آپس میں لڑائیں تاکہ وہ اندر سے کھوکھلے ہو جائیں اور ان کا تختہ الٹنا یا ان کی زمین پر قبضہ کرنا آسان ہو جائے۔

اگر آپ نے تاریخ کلاس اور اسلامیات کلاس میں تھوڑی توجہ دی ہے تو آپ آسانی سے بتا سکتے ہیں کہ یہودی اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1965 کی جنگ کے دوران یہودیوں کو بھارتی وزیر دفاع کے کان بھرنے کا سہرا بھی دیا جاتا ہے۔ بھارت کو بتانا کہ اگر وہ پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو اسے بید استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی وقت بنگلہ دیش کو الگ کرنے کے بیج بوئے گئے۔

Ideology of Chanakya and cancellation of #PAKvNZ

یہ انسانی دماغ کی خاصیت ہے کہ ایک بات اگر متعدد بار کہی جائے، چاہے جھوٹ ہی صحیح، مگر متعدد بار کہی جائے اور ایک وقت آتا ہے کہ انسانی دماغ اس چیز کو صحیح ماننے لگ جاتا ہے۔


کیونکہ

 نیو زی لینڈ کی ٹیم ۱۱ ستمبر کو پاکستان میں لینڈ کرتی ہے مگر ٹیم کے لینڈ کرنے سے پہلے ہی ۲۱ اگست ۲۰۲۱ یعنی کابل فتح ہونے کے چند دن بعد ہی انڈیا کے اخباروں میں شہ سرخی بنی ہوئی تھی کہ آنے والے دنوں میں نیوزی لینڈ کا دورہ پاکستان کینسل ہونے کی گھوشنہ ہے، ایک مہینہ پہلے کونسی ایسی چڑیا ان کے ہاتھ لگ گئی تھی؟ میرے نذدیک یہ prediction نہیں بلکہ scripted لگ رہی ہے۔
اوپر اگر بغور پڑھیں تو پڑھنے کے بعد نیچے موجود اسکرین شاٹ پڑھیں، پڑھنے کے بعد مجھےspontaneously وہی باپ بیٹے اور گدھے والی کہانی یادآرہی ہے جہاں چاہے باپ گدھے پر بیٹھے، بیٹا گدھے پر بیٹھے یا پھر کوئی بیٹھے ہی نہیں، لوگوں کا کام ہے کہ انگلیاں اٹھائیں، مگرہم نہ ہی کوئی جوکر ہیں نہ ہمارا کام ہر ایک کو خوش کرنا اور satisfy کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔
اب ایسے میں کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ بحیثیت پاکستانی، ہمیں پاکستانی ہوکر سوچنے کے بجائے ن لیگی، پی ٹی آئی والے، بن کر سوچنا زیادہ اہمیت کے حامل رہا، ورنہ ایسے موقع پر ہمیں پاکستانی ہوکر سوچنا چاہئے تھا۔ مگر افسوس کا مقام ہم پاکستانیوں کے لئے ہے جہاں بجائے یہ سوچنے کے لئے کہ ایک انٹرنیشنل گیم کا host country کو کیا فائدہ ہوتا ہے، مگر افسوس صد افسوس ہم ملک کے علاوہ سب کی سنتے ہیں۔ اب اگر میرے دائیں جانب موجود اسکرین شاٹ کی مان لوں تو یہ بتائیں کہ ۱۱ ستمبر سے NZ کی ٹیم جسے عرف عام میں بلیک کیپس بھی کہا جاتا ہے، پاکستان میں موجودہے، اگر واقعی میں سیکیورٹی کا مسئلہ تھا، تو ایسے میں بلیک کیپس کی سیکیورٹی ٹیم نے یہ چیز کیوں نہیں ہائی لائٹ کی؟ کیا بنگلادیش میں اتنی سخت سیکیورٹی نہیں تھی؟ تو سیکیورٹی کا نزلہ پاکستان کے منہ پر کیوں پھینکا جارہا ہے؟

ڈاٹس کو ملائیں اور اسٹوری دیکھیں

اب یہ بتائیں کہ انڈینز کو کیسے ۲۲ اگست کو پتا چل چکا تھا کہ کیوی ٹیم کے ساتھ پاکستان میں صورتحال صحیح نہیں ہوسکتی ہے، حالانکہ کیوی سیکیورٹی ٹیم مکمل طور پر satisfied ہوئی تھی جس کی بناہ پر بنائی گئی رپورٹ کی بنیاد پر کیوی ٹیم پاکستان ۱۱ ستمبر پاکستان لینڈ کرتی اور ۱۱ تاریخ سے ۱۶ تاریخ تک کوئی مسئلہ نہیں ہوا اور یک دم سے ۱۷ تاریخ کو ہم پاکستانیوں پر یہ خبر ٹوٹتی ہے، مجھے یاد ہے میں جلدی جلدی جمعہ کی نماز پڑھ کر نماز بریک کے دوران کھانا کھاتے ہوئے ٹاس کے لئے فون کھولا کہ ٹاس دیکھوں کہ کون ٹاس جیتنے لگا ہے، مگر خلاف توقع کچھ بھی نہیں آیا تو میں نے نیوز چینل پر متزلزل خبروں کی بھرمار تھی، کبھی آرہا تھا کہ کو وڈ کی وجہ سے، پھر سننے میں آیا کہ لوجسٹک کا مسئلہ ہوا اور دو بج کر ۱۰ منٹ پر خبر آنا اسٹارٹ ہوگئی کہ کیوی ٹیم پاکستان میں نہیں کھیلنی چاہتی، جس کے بعد پہلے اس دن کا کھیل، پھر راولپنڈی لیگ یعنی ون ڈے لیگ اور اس کے بعد پوری white ball سیریز ہی کینسل ہوگئی، وہ بھی ۲:۰۰ سے ۲:۳۰ بجے کے دوران۔ اس لئے میں ابھی بھی کہہ رہا ہوں، کہ things are not as simple as we are thinking اور ایسے میں this is the high time to think Pakistani کیونکہ اس واقعے سے زیادہ مجھے اس بات پر غصہ آیا کہ جہاں ملک کی اہمیت ہوتی ہے وہاں ہم سیاسی جماعتوں کی طرف داری کررہے ہیں۔

Vulgarity vs Fashion in Pakistan

میں عام طور پر اس طرح کے ٹاپک کو اجتناب کرتا ہوں، کیونکہ میں بلاوجہ کا اپنے آپ کو راکھی ساونت نہیں دکھانا چاہتا ہوں، مگر جب ایک پاکستانی ٹی وی چینل کے ایوارڈ شو کی کلپس لیک ہوئی تو اندازہ ہوا دنیا کہاں پہنچ چکی ہے، اور میں کہاں بیٹھا ہوں، ویسے مجھے ۲۰۰۳ میں پاکستانی میڈیا کو دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ کہیں نہ کہیں پاکستان میں بھی یہ چیزیں زور پکڑیں گی، جو کہ ۱۷ سال بعد پاکستان میں ایک reality ہے، بے شک اس کا reaction بہت سخت آیا ہے مگر یاد کریں، پاکستان میں یہی چیز پہلے بھی ہوچکی ہے جب پاکستان میں پہلی پہلی دفعہ عورتوں کے سینیٹری نیپکنز کو introduce کرایا جارہا تھا، تو پہلی بار جتنا reaction آیا تھا، تیسری بار میں سوسائٹی نے accept کرلیا تھا۔ کیونکہ implementation کے دو طریقہ کار ہوتے ہیں، ایک forcefully implement کرائی جاتی ہے اور دوسرے معاملے میں implementation at will ہے، یہاں معاملہ forcefully implementation کا ہے، جہاں یہ بات بھی ماننے کی ہے کہ ۷ بار ایک چیز کو بار بار دکھایا جائے تو آہستہ آہستہ ہمارا ذہن اس تبدیلی کو ماننا اسٹارٹ کردیتا ہے، اور یہی چیز آج پاکستان میں حاوی ہے، کہ بذریعہ زور زبردستی اپنا حکم سر خم منوائیں۔

۲۰۰۳ میں

اگر آپ یہ پکچر اور اسی طرح کی اور پکچرز دیکھیں تو ایک چیز واضع ہوتی ہے کہ ۲۰۰۶ کے فون revolution سے پہلے کے زمانے میں یہ seduction کی  tactics نہیں ہوتی تھی بلکہ اس زمانہ میں ڈوپٹہ کو seduction tools کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اور اسی بناہ پر لڑکی کے لئے لڑکا اور لڑکے کے لئے لڑکی untouchable تھے، مگر اسکی وجہ سے دونوں جنس میں متوازن فرق رکھا جاتا تھا، جو کہ اچھی بات تھی، کیونکہ اس کی وجہ سے عورتوں کو بکاؤ مال کے طور پر نہیں treat کیا جاتا تھا۔ کیونکہ اسی وجہ سے آپ غور کریں ہمارے پاس کے لڑکی لڑکوں میں وہ مچیورٹی نہیں ہے، کیونکہ خود دیکھیں ایک پاکستانی لڑکی جو کراچی میں بیٹھی ہوئی اور ایک پاکستانی لڑکی جو پاکستان سے باہر بیٹھی ہے، دونوں کے ذہنی لیول کو دیکھ لیں فرق صاف ظاہر ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ ہے وہ ہے فلاں ڈھمکانا، مگر چونکہ ہم منافق ہیں، تو یہ بات کی وجہ سے ہم نے پاکستان کو کہاں ۱۹۵۰ میں ویسٹ جرمنی کو loan دیا تھا، اور آج ہم اس پستی میں ہیں۔

۲۰۰۶ کا موبائل ریوولوشن

 ۲۰۰۶ کا موبائل ریوولوشن اس صورتحال میں وہی کام کیا جو سلگتے ہوئے کوئلوں پر پنکھا کرتا ہے، یعنی آگ ذیادہ بھڑکائی بھی نہیں، بلکہ ہلکی پھلکی آگ سلگتے ہوئے رکھی، کیونکہ اس ریوولوشن سے پہلے لیپ ٹاپ کسی کے پاس ہوتا تھا تو دوسرے اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، مگر اس کے بعد موبائل کمپیوٹنگ کا زمانہ آتا ہے، یہاں موبائل سے مراد پورٹی بلیٹی ہے، کیونکہ پہلے جو بھی کام ہوتا تھا گھر پر موجود پی سی، اور پھر وہاں سے Lexar کی یو ایس بی سے آفس کے کمپیوٹر میں ٹرنسفر ہوتا تھا، مگر پھر اس ریوولوشن کے بعد ہر چیز real time میں اپ ڈیٹ ہونے لگی، اور مجھے کچھ کچھ یاد ہے فیس بک نے اسی زمانے میں فیس بک لائیو کا concept کو reveal کیا تھا جو آج ایک common چیز ہے، مگر یہی وہ point in time تھا جہاں سے یہ سب مسائل اسٹارٹ ہوئے، لوگوں کو اپنی احساس کمتری کو satisfy کرنے کے لئے فیس بک لائیو، واٹس ایپ لائیو، اسنیپ چیٹ وغیرہ کی سہولت میسر ہوئی، مگر چونکہ ہماری ذہنی ڈیویلپمنٹ نہیں ہوئی ہے، تو ہم نے اپنے اندر کی ٹھرک پن کو تسکین پہنچانے کے لئے استعمال شروع کردیا، جبکہ دوسری جانب جائیں جو ای سی بی یعنی انگلش کرکٹ بورڈ کا بھی ٹک ٹاک ہینڈلر موجود ہے مگر کیا وہاں ای سی بی کے ماتحت کرکٹرز کیا لندن کی لڑکیوں کی ٹھرک پن کی تسکین پہنچاتے ہیں؟؟؟ بات سوچ کی ہے۔ دنیا کو ہم کیا بتا رہے ہیں، کہ پاکستان یہ ہے، سوشلی ہم اتنے ٹھرکی ہیں۔۔۔ شرم کا مقام ہے ہمارے لئے دو وجہ سے، ایک تو ٹھرک پن دوسرا کس طرح پاکستان کو دنیا بھر میں ٹھرکی دیکھا رہے ہیں!

میں یہ نہیں کہہ رہا 

کہ جو بھی اس ایوارڈ شو میں ہوا بالکل ٹھیک ہوا، مگر میرا یہ پوائینٹ آف ویو یہ ہے کہ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو ایکٹیوٹی کے نام پر کیا دیا ہے؟ اسلام کو بالکل فالو کریں مگر بات ساری یہ ہے کہ majority wise ہمارے معاشرے میں کوئی ایکٹیوٹی ہے؟ ہم نے اپنے پیارے مذہب کو تعویذ وغیرہ کی نظر کردیا ہے، یہ بتائیں کتنے astronomical sites بنی ہوئی ہیں جہاں مجھ جیسے شوقین لوگ کراچی سے بذریعہ دوربین دوسرے سیاروں، چاند وغیرہ دیکھیں؟ صرف یہی نہیں، کوئی vocational training سینٹر اسٹارٹ کیا؟ کیا ہمارے پاس ایسا کلچر ہے کہ غبارے والے کے پاس بھی بڑے پیمانے پر بینک اکاؤنٹ موجود ہو؟ میں خود کہہ رہا ہوں، ایزی پیسہ اور جیز کیش کا اکاؤنٹ ۳۰ منٹ میں کھل جاتا ہے، جبکہ conventional banking account کم سے کم بھی ۱ دن میں کھلتا ہے، تو یہ سارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے اپنی خود کی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں ہیں، جس میں، میں خود بھی شامل ہوں، کیونکہ ۱۹۴۰ تک ہمارے آباؤ اجداد continuous training کے concept کو فالو کرتے تھے، کیونکہ گھر کے بڑے اپنے سے چھوٹوں پر برہم بازی کے بجائے زندگی جینے کے طریقے سکھاتے تھے اور ان کو experience کراتے تھے، آج کے کلچر میں کیا یہ ممکن ہے؟

بے ترتیب ہم، اور ہمارے طور طریقے

ہم بے ترتیب اور haphazard ہیں، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ آگے کا پلان کرنا نہیں جانتے، اسی وجہ سے شارٹ کٹ یعنی ہماری زبان میں جگاڑ؛ اور اسی کا خمیازہ اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ لڑکیاں physical enticing کے mode میں ہوتے ہیں، جبکہ اگر نے ٹریننگ کو کلچر اپنے ملک میں اسٹارٹ کیا ہوتا تو ۲۰۰۳ سے بھی لے کرچلیں تو آج تک ایک کلچر بن چکا ہوتا جس طرح پاکستان میں ٹک ٹاک کا کلچر بن چکا ہے، تو اتنا ہی ٹائم یہاں دے دیا ہوتا تو آج کم سے کم ملک کا فائدہ ہوچکا ہوتا، مگر ملک کا کون سوچتا ہے، وہ بھی آج کے زمانے میں۔ کیونکہ میرا ذاتی پوائنٹ آف ویو ہے کہ لڑکیوں کو بکاؤ مال بنانے کے بجائے لڑکیوں کو as a resource  بناؤ جیسے تھائی لینڈ، اور متعدد ایسٹ ایشین ممالک نے بنایا، جس میں سنگا پور سر فہرست ہے، مگر اس کے لئے پراپر ووکیشنل ٹریننگ کے طریقہ کار کو laid down کرنا پڑے گا، اور یہی اصل مسئلہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا، پھل کھانے تو ہر کوئی آجاتا ہے مگر سوسائٹی میں اپنا حصہ ڈالنے کی مورل ذمہ داری کی شرم و حیا کسی میں نہیں ہے، تو ایسے میں ریاستِ مدینہ بنے گی، جب ہم خود منافق بھی ہیں، اور فرعون بھی بنے بیٹھے ہیں؟

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ

کہ لڑکیوں کو شٹل کاک میں بند کر کے رکھو،  مگر بات یہی ہے کہ جیسے ہر نئی چیز کے استعمال کا ایک user manual ہوتا ہے کہ کیسے استعمال کرنا ہے تاکہ صحیح طریقے سے استعمال کریں، کیونکہ جب ہم یعنی end user  صحٰح طریقے سے استعمال کریں گے تب ہی تو صحیح استعمال آئے گا، اور جب صحیح استعمال آئے گا تب ہی ایک maturity level بنے گا بصورتِ دیگر جب ہم میں مچیورٹی نہیں ہوگی تو اتنی اتنی سے باتوں میں arouseاور excited  ہوں گے، جیسے آج کل ہمارے چھوٹوں کو آئی فون استعمال کو ھوکا ہوچکا ہے، لینا ہے تو آئی فون ہی لینا ہے، میں خود ایک آئی فون کا اینڈ یوزر رہ چکا ہوں، اور میں نے جانا ہے کہ کس طرح آئی کلاؤڈ سے گوگل ڈرائیو پر اپنے پورے کونٹیکٹس اور کلینڈر ایکپورٹ کئے، کیونکہ معذرت کے ساتھ ایپل کے سپورٹڈ اسٹرکچر پاکستان میں فی الوقت میسر نہیں، مگر جیسے میں نے اوپر لکھا کہ ہمارے چھوٹوں کو شوق ہے کہ بس آئی فون ہو چاہے کِٹ کیٹگری کا ہی کیوں نہ ہو، مگر شو آف کرنا ہے کہ میرے پاس ایپل کے لوگو والا فون موجود ہے جس سے میں مرر ایمیج لے سکتا ہوں، خیر enough is enough اینڈ یوزر کی بات کی تو اسی ایسپیکٹ پر ایک اور چیز expose ہوئی کہ ہم consuming society ہیں، manufacturing society نہیں، ہمیں ہر چیز بنی بنائی اپنی گھر کی دہلیز پر چاہئے، جبکہ باہر کے ممالک میں اسی چیز کے لئے سوشل سروس نمبر موجود ہے جو کہ ہمارے پاس ماضی بعید میں وظیفہ کے نام پر دیا جاتا تھا، جو اب اسی طرح ختم ہوچکا ہے جیسے ڈائنو سار دنیا سے، مگر چونکہ ہم منافق بن چکے ہیں، اسی لئے ہمیں ہماری اپنی غلطی، غلطی نہیں لگتی، اور اپنا ہی تھوکا ہوا چاٹتے ہیں اور چاٹنے پر مجبور ہیں، اور اس میں حکومت سے ذیادہ ہم عوام کا قصور ہے، کیونکہ دنیا بھر میں یہی چلتا ہے کہ ڈیمانڈ اور سپلائی، یعنی طلب و رسد، اور خود دیکھیں، ہمیں کس چیز کی ہے؟؟؟ ٹھرک پن کی، اور جب ٹھرک ہماری طلب ہوگی تو ہمارے سیاست دان اور حکومتیں خوشی خوشی یہ خواہش پوری کریں گی، کیونکہ ان کو بھی اپنی حکومت پوری کرنے کے لئے حکم کا اِکا مل چکا ہوتا ہے، اور جو لفظ میں نے استعمال کیا ہے، مجھے خود استعمال کرتے ہوئے نجس لگتا ہے، ہماری ترجیع ہو، میں کیوں ترجیع کہہ رہا ہوں، میں اسی لئے کہہ رہا ہوں، کیونکہ کراچی کی کوئی بھی سڑک دیکھ لو، مردانہ کمزوری کے اشتہارات اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم بذات قوم ایک ٹھرکی قوم بن چکے ہیں، ملک کو blame نہیں کریں، blame goes to us as civilians of this gift from Allah، کیونکہ ہماری اپنی کرتوتوں کی وجہ سے پاکستان یہاں تک پہنچا ہے، کہ آج ہمارے گھروں کی لڑکیاں وہی کام کررہی ہیں جو پہلے ہیرا منڈی اور دوسری اسی طرح کے بازارِ حسن میں ہوا کرتا تھا، اور اس میں کوئی عار نہیں، کیونکہ یہ چیز ہماری ترجیحات میں شامل ہوچکی ہیں، اور ترجیحات بھی اس لیول کی کہ جب ہمیں یہ چیز ٹائم پر نہیں ملے گی، تو اس بات کی exploitation ہوگی جیسے اس بار کے ایوارڈ شو میں ہوئی،معذرت کے ساتھ نہ ہم میں فیشن سینس ہے نہ ہی عریانیت کا سینس ہے، مگر براہ مہربانی، اس طرح کی چیزوں سے پہلے پاکستان میں لوگوں کو شعور دیں، مگر معذرت کے ساتھ اگر شعور دے دیا تو ان لوگوں کی دکان کیسے چمکے گی؟ کیونکہ ان لوگوں کی دکان چل ہی ہماری ٹھرک پن پر ہے؛  تو ایسے میں پہلے پہل ہمارے گھروں کی عام لڑکیوں کے ذہن میں یہ بات لائی گئی کہ لڑکیوں کو protect کرنا ان کی exploitation ہے، جس کی وجہ سے آج ہماری لڑکیوں کو عادی بنایا پھر اس ایوارڈ کے نام پر برہنہ پن کا واٹر ٹیسٹ کیا گیا، جس کے نتیجے میں آئندہ آنے والے ۱۰ سالوں میں، میں ہمارے پاس سے بھی پاکستان کے اندر سے ایک ملکہ شراوت نکلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، کیونکہ ہم نے اپنے اندر سے دیکھنے اور سکھانے کا عنصر یک طرفہ طور پر تنسیخ کردیا ہے، میں پھر سے یہی کہوں گا کہ لڑکیاں اگر ایسے تنگ کپڑے پہنیں گی، تو اس کےmasses کو یعنی ہمارے پاس کے عام  لوگوں کو ریڈی تو کریں، لوگوں کو ٹرین تو کریں تاکہ ہماری خلقت ذہنی طور اس چیز کو accept کرے، نہ کہ لڑکیوں کو seductive figure کے طور پر ایک بکاؤ مال کے طور پر ٹریٹ کیا جائے، جو میرے نذدیک لڑکیوں کے ساتھ خود ذیادتی ہے، کیونکہ کوئی بھی شرمیلی عبایا والی لڑکی کے لئے کام کرنے کے لئے اس کلچر کے بعد گھر سے باہر نکلنا مشکل ہوجائے گا، کیونکہ اگر وہ گھر سے باہر نکلے گی تو اس چیز کا قوی امکان ہے کہ اس کو اپنا پردہ اتارنا پڑے گا، کیا ایسا کلچر ہم اپنے یہاں فروغ دینا چاہ رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے گھر میں موجود عورتوں کو دوسروں کی نظر کی تسکین کا باعث بنانے میں فخر ہے یا پھر ایک ایسا کلچر بنائیں جہاں ہر عورت گھر سے باہر اپنے امور اپنے کمفرٹ لیول میں رہتے ہوئے کرے، یا پھر ایسا کلچر جہاں گھر سے نکلنے والی ہر عورت سیکس سیمبل کے طور پر دیکھی جانی چاہئے؟ معذرت کے ساتھ یہ فسادی لبرلز سے مجھے یہی شکایت ہے ، حالانکہ میں کوئی کٹر مذہبی نہیں ہوں، (اس پر فخر نہیں ہونا چاہئے) مگر اسکا قطعی یہ مطلب نہیں کہ غلط کو غلط کہنے کی اخلاقی جرات نہیں ہو، مگر کم سے کم ایسا منافق نہیں، بلکہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ لوگوں کو شعور دیں نہ کہ انسانی حیوان اور حوس کا پجاری بنائیں، جو کہ معذرت کے ساتھ ہمارے لبرل خلقت اور میڈیا اس روش کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے کیونکہ ہمارے پاس شعور کی اشد کمی ہے، اگر شعور ہوتا تو یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس کو اتنا highlight  کیا جاتا۔

۲۰۲۱ اور بھارتی مفادات

سعودی عرب کو اندازہ ہورہا ہوگا

کہ پاکستان کتنا عرب ممالک کو اہمیت دیتا تھا,  اسکے مترادف آج بھارت نے سعودی عرب کو دیکھادیا ہے کہ بھارت کس طرح مسلمانوں کی عزت کرتا ہے، چاہے پاکستان ہو، بھارت کے اندر کے مسلمان ہوں، یا گلف ممالک یعنی عرب ممالک سب شامل ہے۔ 

تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد

یہاں پر دو aspects ہیں، 

۱۔ مسلمانوں کے اندر بکھیر کی صورتحال

یہ صورتحال گمبھیر ہے، کیونکہ مسلمانوں کے اندر اتحاد کی کمی ہے، خود دیکھ لیں، موجودہ صورتحال میں غیر مسلمانوں کے بیچ میں جو اتحاد مسلمانوں کے خلاف موجود ہے، بحیثیت مسلمان ہمارے لئے شرم کا مقام ہے۔

فلسطینی مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا

یہاں کچھ دیسی لبرلز کے بیٹ میں مروڑ ضرور مچے گی، اور یہ بھی کہیں گے کہ ترکی کے بھی تو اسرائل کے ساتھ تعلقات ہیں، تو میرا یہی جواب ہے کہ تعلقات ضرور ہیں، مگر جو لیول کے تعلقات اسرائل سے موجود ہیں، جس کی وجہ سے پچھلے کسی زمانے میں ایک ترکی کا سمندری جہاز کو capture کرکے اسرائل لے گئے تھے، جس میں پاکستانی جرنلسٹ طلعت حسین بھی شامل تھے، اگر ترکی کے تعلقات ہیں، تو وہ ریڈ کریسنٹ (ہلال احمر) کی سروسز فلسطین میں فراہم کررہے ہیں، کیا ان عرب ممالک میں کچھ شرم یا کچھ حیا ہے؟ کیا انہوں نے شاہ فیصل کے بعد کوئی ایسا regime آیا جس نے ان لوگوں کے حقوق کے لئے بات کی؟ ویسے اسے مکافات عمل بھی کہتے ہیں، کیونکہ بے شک عربوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اچھا نہیں کیا، مگر کیا فلسطینیوں نے اپنے ساتھ کچھ انصاف کیا ہے؟

۲۔ پاکستان میں پاکستانی سیاست 

یہاں معذرت کے ساتھ پراکسی وار چل رہی ہے، کیونکہ عرب ممالک نے اپنا opponent ایران کو تصور کیا ہوا ہے، اور اسی وجہ سے ان ممالک کی کوشش ہوتی ہے کہ میڈیا کے زریعے ایران کے خلاف پروپگینڈہ کرنے اور پاکستان کا ساتھ کا کوشش کرتے تھے، بلکہ جب پاکستان نے یمن کی جنگ میں اپنے آپ کو نیوٹرل رکھا تو عرب ممالک کے تن بدن میں آگ لگی، جس کی وجہ سے پاکستان کے حالات نیچے بھی گئے کیونکہ عرب ممالک نے اپنا گروپ پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کو اپنا دوست مان لیا، اسکے اوپر عرب ممالک کی پراکسی یعنی ہمارے یہاں کے سیاستدان اور سیاسی جماعتوں کا مہور عرب ممالک کی جانب ہوتی ہے، جیسے پاکستان نے شروع سے ہی ایک ہی اسٹانس رکھا ہے کہ اسرائل سے کسی طرح کا معاملہ نہیں رکھنا، مگر یہ سیاسی جماعتیں ایک طرح کا لوگوں کے زہن میں کنفیوژن رکھنا چاہتے ہیں، جیسے میں نے اوپر لکھا ہے کہ پاکستان کا اسرائل کے بارے میں کیا فارن افئیر ہے، مگر اس کے باوجود اسرائل کے خلاف احتجاج کی صورتحال ہے، یعنی لوگوں کے زہنوں میں یہ بات ڈالی جارہی ہے کہ یہ حکومت کچھ نہیں کررہی ہے، جبکہ میرا یہ کہنا ہے کہ اسرائل کے خلاف احتجاج کرنے کے بجائے عرب ممالک کے خلاف احتجاج کریں، کہ کیونکر پاکستان کو اپنی سیاست کا playground بنایا ہوا ہے؟؟؟ ان لوگوں نے کیوں اسرائل کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ پاکستان کے اوپر پریشر ڈال رہے ہیں، بلکہ یہ بھی پریشر ٹیکٹک tactic ہے، کہ پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کی طرفداری کی جانب جارہے ہیں۔ مگر مسئلہ یہی ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو accountable رکھنا ہے۔

بھارت کا سعودی عرب کو کرارا جواب

اگر آپ میری اوپر کی ایک ہیڈنگ کو پڑھیں تو میں نے لکھا ہے "تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد" کیونکہ پاکستان نے ایک طرح کی بیوقوفی کی کہ عرب ممالک پر اندھا بھروسہ کیا کہ جو عرب ممالک نے کہا، من و عن پورا کیا، کوئی سوال جواب نہیں کیا نہ اپنے مفادات دیکھے، جبکہ مفادات کو دیکھنا کوئی بری بات نہیں مگر مگر مگر اپنی سیلف رسپیکٹ یعنی عزت نفس کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا ہے، جو کہ پاکستان نے نہیں کیا جس کی وجہ سے عرب ممالک نے ہمیں یعنی پاکستانیوں کو گھر کی مرغی دال برابر کے مترادف treat کیا، مگر اس کا نقصان یعنی مکافات عمل ہے کیونکہ جو انہوں نے پاکستان کے خلاف کیا، اب انہی کے خلاف گیا، کیونکہ اب ان کی اپنی عزت نفس غیروں کے سامنے گر گئی ہے، کیونکہ ابھی تیل کی قیمتیں نیچے گری ہیں تو اس کو stabilize کرنے کے لئے ڈیمانڈ اور سپلائی کے رول کے تحت تیل کی سپلائی کو کم کیا کیونکہ اس وقت تیل کی ڈیمانڈ کم ہے تو سپلائی کو لمٹ کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے تاکہ ایک threshold کو achieve کرنا ضروری ہوتا ہے، تو ہپاں جب اسی rule کے تحت سعودی عرب اور اوپیک نے یہی چیز کی تو انڈیا کی چیخیں نکلیں ہیں، 

"ہم نے تمہاری مدد جب کی جب تمہاری مدد کوئی نہیں کررہا تھا"

یہی سننا رہ گیا تھا، کیونکہ عرب ممالک نے اپنی خوشی سے یہ decision لیا تھا، تو ایسے میں بھارت کو انہوں نے خود زبان دی کیونکہ ان لوگوں کی بیوقوفیوں کی وجہ سے بھارت اتنا چوڑا ہوا ہے، ورنہ یہی بھارت ہے چین کے سامنے بھیگی بلی بنا ہوا ہوتا ہے، اور مزیدار بات یہی ہے کہ اسی Mighty India کے اندر اروناچل پرادیش میں چین نے ۱۰۱ ہٹ نما گھر بنا کر انڈیا کے منہ پر زور دار تماچہ مارا ہے مگر اسی بھارت کے سامنے ہمارے "برادر" مسلمان ملک لیٹے جارہے ہیں، بلکہ میں ایک انڈین اخبار میں نیوز دیکھ رہا تھا کہ ابو دھبی میں ایک ہندو مندر بنایا جارہا ہے، چلو یہ بات بھی کچھ نہ کچھ accept کرلی جائے مگر construction site پر یا تو اسرائلی زبان لکھی ہوئی دیکھی، یا پھر انگلش یا پھر ہندی، جبکہ مجال ہے کہ عربی زبان کہیں لکھی ہوئی دیکھائی دی گئی ہو https://en.wikipedia.org/wiki/BAPS_Hindu_Mandir_Abu_Dhabi تو ایسے میں عرب ممالک اپنی خود کی شناخت کھو رہے ہیں، جس کی بناہ پر جو باتیں اللہ تعالی کے رسول ﷺ عربوں سے متعلق بتائی ہیں، وہ ساری میں اپنے سامنے ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔

انڈیا چین کی چھپن چھپائی اور جنگ کے نت نئے طریقے

مائکرویو اٹیک


چونکہ ہم نہ کرنے کے برابر تحقیق کرتے ہیں، جبکہ اوپر موجود اسکرین شاٹ پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح perspective development کی جارہی ہے، میں یہاں انڈیا یا چین کی طرف داری نہیں کررہا ہوں مگر میں یہی کہوں گا کہ India is facing the same music which is used to play against its neighbours واقعی میں وقت ایک سا کبھی نہیں رہتا، کیونکہ ابھی کچھ وقت پہلے بھارت پاکستان میں اپنے بند کی وجہ سے جب مُون سُون کی بارشوں میں پاکستان کی سرحد کے برابر میں موجود بند کو کھول دیتے تھے، اب چین وہی کھیل بھارت کے ساتھ کررہا ہے، کیونکہ آج سوشل میڈیا کے بُوم کی وجہ سے لوگوں کے دماغ کو ری پروگرام کرنا ویسا ہی ہے جیسے آپ اپنے اسمارٹ فون میں موجود میڈیا بلیئر کے اندر پلے Play کے بٹن کے ساتھ موجود فارورڈ، فاسٹ فارورڈ کے آپشن کو استعمال کرنے کے برابر ہے، کیونکہ چین اس وقت وہی کھیل کھیل رہا ہے جو کہ بھارت کرتا ہے اور جو منتر Mantra ہے موجودہ جنگی طریقہ کار ہے، کیونکہ آج کے زمانے میں ایک ہی چیز کو متعدد بار اور مختلف طریقوں سے influenced کیا جاتا ہے یعنی metaphorically یہ بالکل ویسی ہی بات ہے جیسے آپ اپنے فون کی بیٹری کو مکمل طور پر استعمال کرکے چارج کرتے ہیں، اور یہاں منتر Mantra چارجر ہے جو اپنی مرضی کے واٹ کے حساب سے چارجز کو تیزی سے آگے پھیلایا جاتا ہے۔

میڈیا اور چارجر؟

جی ہاں! چاہے ہمارا نیوز میڈیا ہو، یا پھر سوشل میڈیا، دونوں ایک طرح سے ایک نارمل سے کوئک چارج چارجر کی مانند ہے، کیونکہ جس طرح ذیادہ پاور کا چارجر ذیادہ طاقت سے اپنا content کونٹینٹ یعنی چارچر کے معاملے میں چرجز اور ions جبکہ میڈیا، جس میں نیوز اور سوشل میڈیا دونوں شامل ہے، ایک طرح سے نئے پاور فل ions کی مانند ہمارے دماغوں میں نئے ions کی مانند نئی acceptance کو ہمارے لئے ضروری بنایا جارہا ہے۔

ہمارا معاشرہ

کیونکہ اگر ہم اپنے آس پاس نظر دوڑائیں جو بے صبری جس طرح امڈ کر ہمارے سامنے نمودار ہورہی ہے، اور چند nano-seconds کو بچا کر لگتا ایسا ہے جیسے کوہِ ہمالیہ کو یا تو سَر کرنا ہے، یا سَر کرلیں گے، جبکہ یہ سب مائنڈ گیم کے علاوہ کچھ نہیں، جبکہ وقت میرے لئے اور آپ کے لئے ایک ہی رفتار سے چل رہا ہے، یہ نہیں ہے کہ ایک بندہ کے لئے ایک رفتار میں وقت چل رہا ہے جبکہ دوسرے کے لئے دوڑ رہا ہے جبکہ وہی وقت تیسرے بندے کے لئے کچوے کی مانند دوڑ رہا ہے، ایسا صرف اِسی لئے ہورہا ہے کیونکہ یہ ایک طریقہ کار ہوتا ہے تاکہ سامنے والے کی attention کو divert کیا جائے، اور دوسری جانب اہمیت کو اجاگر کیا جائے تاکہ ہم اپنے ٹارگٹ کو لاک کرسکیں، کیونکہ اگر آپ نے 3 idiots فلم دیکھی ہے تو بالکل اسٹارٹ کا سین یاد کریں، جس میں چَتُرکے طریقے بتائے جارہے تھے، کہ کس طرح امتحان کو پاس کیا جاسکتا ہے، یا تو خود محنت کریں، یا پھر دوسروں کی attention کو اتنا plagiarized کردیں کہ آپ کے کم مارکس بھی ان سے اوپر رہیں، اور معذرت کے ساتھ ہم یہیں پر اپنی attention کو اِدھر اُدھر کرنے میں مشغُول رہ رہے ہیں، ہالانکہ جلد بازی کا کوئی فائدہ نہیں نہ ہی گدھوں کی طرح بھونکنے میں، کیونکہ کوئی بھی ذی الشعور انسان بِلاوجہ کسی انسان کو بیچ میں نہیں ٹوکتا ہے کیونکہ یہ ایک معیوب حرکت ہوتی ہے جس کو bifurcate کرنا اور اسکو accepted action کے تحت سمجھنا ایک وجہ بالکل ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بے صبری کا عُنصَر کو مزید عیاں کرتی ہے۔ مگر یہی چیز ہمارے معاشرے میں بگاڑ کا ذریعہ ہے کیونکہ جب ہم میں یہ ہمت نہیں کہ سامنے والے کی بات کو پورا سنیں تو ایسے میں معاشرے میں کچھ نہیں ہوسکتا، کیونکہ ایک معاشرہ صرف اسی وقت پنپ سکتا ہے جب ایکسچنج آف آیئڈیاز ہوتے ہیں ورنہ decay mechanism اسٹارٹ ہوجاتا ہے، اور اسی بناہ پر مائنڈ پروگرامنگ ذیادہ آسانی سے ہوسکتی ہے، چونکہ آپ کے اندر سامنے والے کی بات کو مکمل سننے کا حوصلہ نہیں ہوتا، تو ایسے میں اگر ہمارے بڑے بوڑھے اگر کچھ سمجھاتے بھی ہیں تو سمجھتے نہیں ہیں کیونکہ ہم سمجھنا نہیں چاہتے، مگر میں personally صرف نئے لوگوں کو blame نہیں کروں گا، بلکہ ہمارے بڑے بوڑھوں کو بھی equally ذمہ دار ٹھانوں گا، کیونکہ ہمارے آج کے بڑے بوڑھے showing off کی جانب ذیادہ راغب ہوچکے ہیں، جیسے آج کورونا آیا ہے تو فیس ماسک جس کو جنوری ۲۰۲۰ سے پہلے منہ پر لگانا گوارہ نہیں کرتے تھے، آج یعنی ۱۰ پہینے بعد اپنی ضرورت بنالی ہے، ورنہ کیا کراچی میں دھول مٹی جنوری ۲۰۲۰ سے پہلے موجود نہیں تھی؟ کیا کورونا کو ذمہ دار مان کر ہمارے کچھ بڑے بوڑھوں نے جمعہ کی نماز جس کو جنوری ۲۰۲۰ سے پہلے ہم بڑے اہتمام سے تیاری کرتے تھے، آہستہ آہستہ تکریم کھوئی جارہی ہے؟ 

بچے اپنے بڑوں کو follow کرتے ہیں

 ہمارے بڑوں کو بھی یہ بات سمجھنی چاہئے کہ بچے ان کے ایکشن کا ری ایکشن کرتے ہیں، جو وہ آج کریں گے، وہی یہ بچے اپنی آنے والی نسلوں تک پہنچائیں گے، تو ایسے میں کیا آج ہمارے معاشرے میں جو unrest ہے، اسکے ذمہ دار ہم سب نہیں؟

اسکا بھارت چین سے کیا مقابلہ؟

بات مقابلے کی نہیں ہے، بات مائکرو اور میکرو لیول analysis کی ہے، کیونکہ مائکرو لیول یعنی میرے اور تمہارے لیول پر جو چیزیں ہورہی ہے، اسی کا رپل ایفیکٹ ripple effect ملکوں کے لیول پر دیکھ رہے ہیں، اور اگر مذہبی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ شاید وہی زمانہ ہے جہاں علم اُٹھالیا گیا ہے اور معلومات کا سمندر موجود ہے، مگر جب تک ہمارا دماغ کلئیر نہیں رہے گا، اور ذہن میں clarity موجود نہیں رہے گی، ہم چراغ تلے اندھیرے کی مانند ہی رہیں گے، یعنی چیز ہمارے سامنے ہی موجود رہے گی مگر چونکہ ہمارا زاویہ اور دیکھنے کا نظریہ ٹھیک طرف نہیں ہے، اسی لئے ہم بذات خود کنفیوژن کا شکار ہیں۔ اور اوپر چین-بھارت کا اسکرین شاٹ دینے کا مقصد یہی تھا کیونکہ ایک طرح کا زاویہ کو پراگندہ کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے، کیونکہ جب انڈیا 5th level hybrid warfare کے تحت اس طرح کنفیوژن بناتا ہے، کہ ایک ہی نیوز کو مختلف زویے سے ری لے relay کرکے لوگوں کے ذہن کو پروگرام کرتے ہیں، کیا چین، امریکہ/امریکا، روس اور دوسرے ممالک دودھ کے دھلے ہوئے ہیں؟ کیا مندرجہ بالا ممالک نے پروپگینڈہ کو بطور طاقت استعمال نہیں کیا ہے؟ کیا ٹرمپ کے الیکشن کے وقت روس نے ٹرمپ کے لئے پی آر نہیں کی تھی؟ کیا ٹرمپ کے الیکشن کے وقت لوگوں کی سوشل تفصیلات کو استعمال نہیں کیا گیا تھا جیسے پسند ناپسند اور کیا یہ کنفیوژ ووٹر ہے یا نہیں؟ کیونکہ یہاں کنفیوژ ووٹر سے مراد وہ ووٹر ہیں جنکو تھوڑی سی شہ دینے پر اپنا ذاویہ اور نظریہ بالکل تبدیل کرلیتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے ہیلری کلنٹن اور ٹرمپ کے الیکشن میں جہاں لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کیا گیا اور الیکٹورل ووٹنگ میں یک مشت ہیلری کلنٹن جیتنے کی پوزیشن سے ہارنا اسٹارٹ ہوگئیں۔

اسکا حل؟

میرے نذدیک تحقیق اسکا بہترین حل ہے، کیونکہ آج میڈیا اتنا کھل چکا ہے کہ virtually divide and rule کے نقشے پر چلا رہے ہیں، کیونکہ ہمارے نظریہ unattended رہے ہیں، ہمیں کنفرم نہیں ہے کہ کیا ضروری ہے اور کیا نہیں ہے، اور اگر کچھ ضروری بھی ہے تو کیونکر ہے اور کتنا ہے، اس کے بجائے ہم نے اپنے مائنڈ یعنی ذہن کو اوپِن رکھا ہے، جبکہ ہمیں ایک فرم اسٹانس firm stance رکھنا چاہئے، کیونکہ تحقیق کے بعد اس پر مستقل طور پر ایپلیکیشن وقت کی اور خاص طور پر اس زمانے میں اہم ضرورت ہے۔

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting