Search me

Translate

خود پسندی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
خود پسندی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

Pakistani society and lack of positivity - due to which frustration erupts | پاکستانی بزرگوں کا کردار اور مثبت سوچ کی کمی

پاکستانی معاشرہ روایات، عقیدت اور احترام کی بنیادوں پر قائم ہے۔ بزرگوں کا احترام اور ان کی موجودگی ہمیشہ سے ہمارے خاندانی نظام کا ایک اہم ستون رہی ہے۔ تاہم، موجودہ حالات میں ایک ایسا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے جو معاشرتی ترقی کے لیے رکاوٹ بن رہا ہے۔ بزرگوں کی جانب سے نوجوانوں کی تخلیقی سوچ کو دبانے اور ہر نئی رائے کو غیر ضروری سمجھنے کا رویہ، ہماری اجتماعی ترقی میں کمی کی ایک بڑی وجہ بن چکا ہے۔ 

تاریخی تناظر اور حالیہ صورت حال 

 اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ترقی یافتہ اقوام نے ہمیشہ اپنی روایات کے ساتھ خود کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے۔ صنعتی انقلاب کے دوران یورپ نے زرعی معیشت سے صنعتی معیشت کی طرف پیش قدمی کی اور جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی ناکامیوں سے سیکھ کر جدیدیت کو اپنایا۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں یہ تبدیلی کا رجحان بہت کمزور رہا ہے۔ بزرگوں کی خود پسندی اور اپنی رائے کو حتمی سمجھنے کا رویہ نوجوانوں کی تخلیقی آزادی کو محدود کر دیتا ہے۔ نئے خیالات کی مخالفت اور پرانی روایات پر اصرار ہمیں ایک محدود ذہنیت میں مقید رکھے ہوئے ہے۔ 

مثبت سوچ کی کمی کے اسباب 

1. خوف اور عدم تحفظ: 

بزرگ اپنے تجربات اور فیصلوں کو محفوظ ترین سمجھتے ہیں اور کسی بھی نئی سوچ کو معاشرتی بگاڑ تصور کرتے ہیں۔ 

2. سماجی تسلط: 

 ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں بزرگوں کی رائے کو حتمی مانا جاتا ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ 

3. تعلیمی اور معاشرتی جمود: 

ہمارے تعلیمی نظام میں تنقیدی سوچ اور سوال کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ 

4. روایتی سوچ کا تسلط: 

ہر نئی تبدیلی کو ایک خطرہ تصور کیا جاتا ہے اور ماضی کے تجربات کو جدید حلوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ 

پاکستان میں گوگل، ایپل اور ایمیزون کیوں نہیں؟ 

 پاکستان میں گوگل، ایپل اور ایمیزون جیسی کمپنیاں نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہی منفی اور محدود سوچ ہے۔ ہم نے کبھی نوجوانوں کے آئیڈیاز کو نہ صرف پذیرائی نہیں دی بلکہ ان کے نئے منصوبوں کو "غیر حقیقت پسندانہ" کہہ کر مسترد کر دیا۔ ایسے ماحول میں تخلیقی صلاحیتوں کا ابھرنا ممکن نہیں۔ 

دقیانوسیت کو پروموٹ کرنا

ہماری معاشرتی ساخت میں ایک سنگین مسئلہ جڑ پکڑ چکا ہے، جو کہ بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ اور نوجوانوں پر اپنی رائے کو حتمی قرار دینے کا ہے۔ یہ رویہ نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبانے اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے

بزرگوں کی موجودگی کی اہمیت اور توازن بزرگوں کی موجودگی آکسیجن کی طرح ضروری ہے،

جو ہمارے لیے رہنمائی اور تجربے کا خزانہ ہے۔ تاہم، جیسے آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں توازن ضروری ہے، ویسے ہی بزرگوں کے تجربے اور نوجوانوں کی تخلیقی سوچ میں بھی اعتدال ضروری ہے۔ نہ تو بزرگوں کو نظرانداز کیا جائے اور نہ ہی نوجوانوں کو دبایا جائے۔ 

بحث کے انداز میں فرق 

1. جوابی دلائل (Tit-for-Tat Argument): 

اس میں ہر فریق دوسرے کی بات کا سخت جواب دیتا ہے جس سے مسائل مزید بگڑ جاتے ہیں۔ 

2. احترام کے ساتھ بحث:

اس میں دونوں فریق ایک دوسرے کی بات کو احترام سے سنتے ہیں اور حل کی تلاش میں مثبت رویہ اپناتے ہیں۔ 

تبدیلی کے لیے اقدامات 

1. بزرگوں کا رہنمائی کا کردار: 
بزرگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی رائے کو حتمی فیصلے کی بجائے ایک رہنمائی کے طور پر پیش کریں۔ 

2. نوجوانوں کی تخلیقی آزادی: 

نوجوانوں کو اپنی سوچ کے مطابق تجربات کرنے دیے جائیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو آزما سکیں۔ 

3. مسلسل سیکھنے کی روایت: 

بزرگ اور نوجوان دونوں کو سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنا چاہیے تاکہ وقت کے ساتھ ترقی ممکن ہو۔ 

4. نئے آئیڈیاز کی پذیرائی:

ایسے پلیٹ فارمز بنائے جائیں جہاں نوجوانوں کے نئے خیالات اور کاروباری منصوبوں کو فروغ دیا جائے۔ 

5. تعلیمی نظام میں بہتری:

ایسے تعلیمی نصاب کو فروغ دیا جائے جو تنقیدی سوچ، سوال کرنے کی عادت اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرے۔ 

نتیجہ جب تک ہم اپنے معاشرتی رویوں میں یہ مثبت تبدیلیاں نہیں لائیں گے، تب تک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کا خطرہ برقرار رہے گا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر نسل کی اپنی منفرد صلاحیتیں ہوتی ہیں، جنہیں دبانے کے بجائے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ بزرگوں کی رہنمائی اور نوجوانوں کی تخلیقی سوچ کا امتزاج ہی پاکستان کو ایک روشن اور ترقی یافتہ قوم بنا سکتا ہے۔


بلاگ میں مزید دیکھیں

You might like

$results={5}