Search me

Translate

Bank لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Bank لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

انٹرنیٹ بینکنگ اور پاکستانیوں کی نالائقی

 میں اس حوالے سے یہ بالکل نہیں کہوں گا، کہ میں عقلِ قل ہوں باقی سب بیوقوف ہیں، مگر میں صرف اپنا اپنا ںظریہ یہاں پیش کروں گا، چونکہ میں نے یہ نوٹ کیا ہے، ہو سکتا ہے، میں اپنے assessment میں بالکل غلط ہوں، جو کہ میں خود invite کر رہا ہوں کہ اگر میری معلومات میں کوئی کمزوری ہو، یا نامکمل معلومات ہو، تو اس میں تصحیح کریں اور ایک collaborative individual ہونے کا حق ادا کریں، بجائے اس کے کہ Narcissistic اور Megalomaniac اپنے آپ کو پیش کریں، کیونکہ پہلے پہل ہمیں اپنے آپ کی تصحیح کرنی ضروری ہے، بجائے اسکے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے portray کریں، جیسے آپ سے بالاتر کوئی ہے ہی نہیں۔

صرف کراچی کے ٹریفک کو دیکھ لیں

وہ گاڑیاں جو باہر ممالک میں ٹرک کہلاتی ہیں، اور صرف بیرونِ شہر جانے کے لئے استعمال ہوتی ہیں، وہ ہمارے ملک میں status symbol کے طور پر استعمال ہوتی ہیں، اس چیز کو norm بنانے میں کس کا ہاتھ ہے؟ کیا کبھی ہم نے اس حوالے سے سوچنے کی زرا بھی کوشش کی ہے؟ اگر ہم دوسروں کو غلط ثابت کرنے کے لبادے سے باہر نکلیں؟

انٹرنیٹ بینکنگ اور اس کے صارف

بات ساری یہی ہے کہ knowledgeable consumer ہونا سروس provider کے لئے بھی اچھی چیز ہے، بصورت دیگر ہو بہو وہی ہوتا ہے جو اس وقت پاکستان میں ہوتا ہے، کیونکہ مجھے کراچی کی حد تک بالکل پتا ہے، دوسرے شہروں کی گارنٹی نہیں لیتا۔

جہالت

پڑھے لکھے جاہلوں کی بات کررہا ہوں، جہاں so-called Sudo-intellectuals صرف اپنی امارات (عمارات نہیں) دیکھا کر اپنی اہمیت سمجھتے ہیں، جب کہ ان کی خود کی سمجھ بوجھ اس طرح کی پستی میں ہے، کہ maturity  کے نام پرRay Ban کے کالے چشمے پہن کر اپنے آپ کو کوئی بڑی شخصیت سمجھنا شروع کردیتے ہیں، یہاں مجھے اس سے بھی مسئلہ نہیں، مجھے یہاں مسئلہ یہی ہے کہ اس چیز کو New Norm کے طور پر portray کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے ہماری معاشرتی سمجھ بوجھ ایک طرح کی پستی کا شکار ہوچکی ہے۔

???Customer is always right! but where!!!

کیا اس معاشرے میں جہاں کسٹمر کو یہی نہیں پتا کہ کے الیکٹرک کے بل کو پڑھا کیسے جاتا ہے، پچھلے زمانوں میں یہ کام کے لئے اسکول کے اساتذہ کو استعمال کیا جاتا تھا، مگر اس وقت اساتذہ کی عزت ہوا کرتی تھی، آج کے زمانے میں اگرچہ وہی اساتذہ Michael J. Fox کی طرح ٹائم مشین میں بیٹھ کر اس زمانے میں آئیں گے تو سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے، جہاں وہ یہی دیکھیں گے کہ اخلاقی طور پر کس پستی کی گہرائی میں گر چکے ہیں! میں مانتا ہوں کسٹمر کی عزت ہوتی ہے، مگر عزت کے ساتھ کچھ obligations بھی یکثر لاگو ہوتی ہیں، جن کی بناہ پر میں بغیر کسی ڈر کے یہ بات بولوں گا کہ A Well Informed Customer is always right مگر یہاں ہمارے معاشرے میں نہیں جہاں کے الیکٹرک کا بل پڑھنا اور اس کے اندر چارجز اور سر چارجز جو آپ پر لگ رہے ہیں، اس پر منہ میں تالا لگا کر بیٹھنا مگر ان شعبدے بازیوں میں اپنے آپ کو آگے سے آگے رکھنا، کہاں کی عقلمندی ہے؟

۲۰۲۵ کے زمانے میں بھی یہی کسٹمر از رائیٹ کے موافق ٹھپے والی بینکنگ ابھی بھی جاری ہے

شرم آتی ہے، انڈیا ہو یا بنگلادیش، وہاں بھی ایسی پینسل اسکیل والی بینکنگ نہیں ہوتی ہے، چلو بینکنگ تو بہت آگے کی چیز ہے، مطلب ۲۰۲۵ میں ابھی بھی لوگوں کو یہ تک نہیں پتا ہے کہ آن لائن بینکنگ میں Dispute کا مینو ہوتا ہے، وہاں آپ اہنی ٹرانزیکشن کی اسٹین آئی ڈی ڈال کر revert کر سکتے ہیں، میرا خود کا یہی ماننا ہے کہ جب تک آپ Voice Pollution کو اگنور کر کے خود سے استعمال نہیں کرو گے، چیز کبھی بہتر نہیں ہوگی، مگر یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، چیزوں کو بہتر کیا بنانا، او ٹی پی کی اہمیت کا اندازہ نہیں، اس کے بعد جو نقصان ہوتا ہے، اس سے یوٹیوب بھرا ہوا ہے، کہ آن لائن بینکنگ سے یہ ہوگیا وہ ہوگیا، سیپیج کہاں سے ہوئی؟ کس نے کی؟ کیا کبھی سمجھنے کی کوشش کی؟ 

Facebook social plugin

بلاگ میں مزید دیکھیں

You might like

$results={5}