Search me

Translate

نئے_خیالات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
نئے_خیالات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پاکستانی بزرگوں کی نوجوانوں کی جانب بے رخی

ہماری معاشرتی ساخت میں ایک سنگین مسئلہ جڑ پکڑ چکا ہے، جو کہ بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ اور نوجوانوں پر اپنی رائے کو حتمی قرار دینے کا ہے۔ یہ رویہ نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبانے اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ تاریخی تناظر اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہر ترقی یافتہ قوم نے خود کو وقت کے ساتھ جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے۔ صنعتی انقلاب کے دوران یورپ نے نئی ٹیکنالوجی اور صنعتی مہارتوں کو اپنایا، جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی ناکامیوں سے سیکھ کر خود کو جدیدیت کے سانچے میں ڈھالا۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بزرگوں کے تجربات کو حرف آخر سمجھتے ہوئے نوجوانوں کو اپنی ہی طرز پر زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے، چاہے دنیا کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر چکی ہو۔

عالمی دنیا میں تبدیلی کا اصول 

 ترقی یافتہ اقوام مسلسل خود کو اپ ڈیٹ کرتی ہیں۔ تعلیمی نظام، کاروباری حکمت عملیاں اور معاشرتی اقدار سب وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہیں۔ گوگل، ایپل اور ٹیسلا جیسی کمپنیاں جدید سوچ کو فروغ دیتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں نوجوانوں کو نئے آئیڈیاز پیش کرنے سے روکا جاتا ہے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اکثر "ناپختہ" کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گوگل، ایپل اور ایمیزون جیسی کمپنیاں وجود میں نہیں آئیں کیونکہ ہم نے تخلیقی سوچ اور نئے آئیڈیاز کو فروغ نہیں دیا۔ 

صنفی امتیاز اور خواتین کا کردار

ہم نے صنفی امتیاز کو بھی فروغ کردیا ہے۔ خواتین کو اکثر ایسے کرداروں میں محدود کر دیا جاتا ہے جہاں انہیں سنجیدہ مواقع سے محروم رکھا جاتا ہے۔ جب ان سے کسی تعمیری کردار کی توقع کی جاتی ہے تو ماضی کی روایات کا حوالہ دے کر انہیں پیچھے رکھا جاتا ہے، جو کہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، چونکہ ہم عورتوں کے اندر موجود خوبیوں کو استعمال کرنے کے بجائے ان کو ضائع کررہے ہیں۔

بزرگوں کی سوچ میں یہ خود پسندانہ رویہ کیوں؟

1. خوف اور عدم تحفظ:

 بزرگ اپنے تجربات کو محفوظ ترین سمجھتے ہیں اور نئے خیالات کو خطرہ تصور کرتے ہیں۔ 

2. سماجی تسلط:

بزرگوں کو ہمیشہ حتمی اتھارٹی سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی رائے کو حرف آخر مانا جاتا ہے۔

3. تاریخی پس منظر:

ماضی کے روایتی نظام میں استاد، والدین اور بزرگوں کی رائے کو بغیر سوال کیے قبول کرنا ادب سمجھا جاتا تھا۔ توازن کی ضرورت بزرگوں کی موجودگی ہماری زندگیوں میں آکسیجن کی طرح اہم ہے، جو رہنمائی اور تجربے کا باعث بنتی ہے۔ تاہم، جیسے آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں توازن ضروری ہے، ویسے ہی بزرگوں اور نوجوانوں کی سوچ میں بھی اعتدال ضروری ہے تاکہ نہ تو تجربے کو نظر انداز کیا جائے اور نہ تخلیقی صلاحیتوں کو دبایا جائے۔

بحث کے دو رخ:

احترام بمقابلہ جوابی دلائل 

1. جوابی بحث (Tit-for-Tat Argument):

 اس میں ہر فریق دوسرے کی بات کا سخت جواب دیتا ہے جس سے اختلافات بڑھتے ہیں اور مسئلے کا حل نہیں نکلتا۔ 

2. احترام کے ساتھ بحث: 

اس میں دونوں فریق ایک دوسرے کی بات کو توجہ سے سنتے ہیں، اختلاف کو عزت کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور حل کی طرف بڑھتے ہیں۔

تبدیلی کے لیے عملی اقدامات:

1. بزرگوں کی رہنمائی:

بزرگوں کو مشورہ دینا چاہیے کہ وہ نوجوانوں کی تخلیقی سوچ کی حوصلہ افزائی کریں اور اپنی رائے کو رہنمائی کے طور پر پیش کریں۔ 

2. نوجوانوں کی تخلیقی آزادی: 

نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو آزمانے اور تجربہ کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ ان کے خیالات کو عملی شکل دی جا سکے۔ 

3. مکالمے کا فروغ: 

معاشرتی سطح پر ایسی گفتگو کو فروغ دیا جائے جس میں اختلاف رائے کو احترام سے سنا جائے۔ 

4. مسلسل سیکھنے کی روایت:

بزرگوں اور نوجوانوں دونوں کے لیے سیکھنے کے عمل کو مستقل جاری رکھا جائے تاکہ وقت کے ساتھ ترقی ممکن ہو۔ 

5. نئے آئیڈیاز کی پذیرائی: 

ایسے پلیٹ فارمز بنائے جائیں جہاں نوجوانوں کے نئے خیالات اور کاروباری منصوبوں کو فروغ دیا جائے تاکہ پاکستان میں بھی عالمی معیار کی کمپنیاں بن سکیں۔ جب تک ہم اپنے معاشرتی رویوں میں یہ تبدیلی نہیں لائیں گے، تب تک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کا خطرہ برقرار رہے گا۔ ہر نسل کی اپنی منفرد صلاحیتیں ہوتی ہیں اور انہیں دبانے کے بجائے اجاگر کرنا ہی معاشرتی ترقی کی اصل کنجی ہے۔


بلاگ میں مزید دیکھیں

You might like

$results={5}