Search me

Virus لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Virus لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہم پاکستانی اور ہماری شناخت

مجھے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئے مگر اس وقت جس era میں موجود ہیں، یہاں mind programming جس طریقے سے کی جارہی ہے، جیسے ابھی پی ایس ایل میچز کے دوران میں نے عورتوں کے exhibition matches کی پروموشن کے لئے ایک particular hashtags استعمال کیا گیا ہے، جو کہ نواز شریف کی خواہش بھی تھی، یعنی #LevelPlayingField،

اب کہنے کی بات ہے

اب میری یہ بات کہنے کے بعد کچھ لوگوں نے یہ بات ضرور کرنی ہے، کہ میں اپنا ذہن کھول کر رکھوں، مگر psychologically اگر ہم پاکستانی psyche کو مدنظر رکھیں، تو آہستہ آہستہ سے لوگوں کو کیا descenticized نہیں کیا جارہا؟ کیا ایسے hashtags استعمال کر کے ایک common ground نہیں بنایا جارہا؟ کیا ایسی چیز پہلے پاکستان میں نہیں ہوئی؟

کچھ زیادہ دور نہ جائیں

کچھ عرصہ پہلے عورتوں کے sanitary napkins کی پروموشن پاکستان میں کی گئی، تو اس کے لئے water-test کیا گیا، as usual پہلی بار یہی پاکستانی عوام کا ری ایکشن اتنا سخت تھا، جس کی بناہ پر اس کمپنی نے اس پروڈکٹ کو پروموٹ کرنا بند کردیا، مگر اس کے بعد کچھ وقت بعد دوبارہ جب کیا گیا، تو پچھلی بار کے comparatively کم ری ایکشن آیا تھا، اور اس کے بعد ان لوگوں کی مارکٹنگ strategy ایسی تھی، کہ لوگوں کی سوچ کے ساتھ tweaking کی جائے، جس کی وجہ سے وہ کمپنی 3rd time lucky رہی، کیا یہی ممکن نہیں کہ یہی چیز آج پاکستان میں دوبارہ سے کی جارہی ہے؟

ویسے بھی level playing field ایک ایسی ٹرم ہے

کیونکہ ہماری mentality جس طرح کی ہے، ایک طرح سے 3 Idiots میں Chatur کا character کی طرح ہیں، جہاں اس مووی کے اسٹارٹ میں بتایا گیا تھا، کہ امتحان میں پاس کرنے کے دو طریقے ہیں، یکم خوب دل لگا کر پڑھیں؛ بصورت دیگر دوم دوسروں کو distract کرکے دوسری چیزوں میں involve کرا کر اپنے آپ کو اوپر لائیں، ٹھیک اسی طرح جیسے آج یعنی ۵ مارچ ۲۰۲۳ کو کراچی کنگز کی صورتحال ہے، جہاں یو ٹیوب پر کراچی کنگز کا مذاق اڑایا جارہا ہے، جہاں یہ کہا گیا ہے کہ زلمی اپنے آخری ۴ میچ ہار جائے، وغیرہ وغیرہ،  

وہی حال ہمارا ہے

کیونکہ ہمارے لوگوں کی impulsive mindset کی وجہ سے یہ چیز بھی ان کے ذہنوں میں موجود ہے، جو کہ ہمارے مذہب سے بالکل دور ہے، کہ دو غلط چیزیں ہوجائیں گی تو آگے چیزیں ٹھیک ہوجائیں گیں، چلیں مان لیتیں ہے کہ فی الفور تو چیزیں ٹھیک ہوجائیں، مگر ان سب چیزوں کا ripple effect کیا ہوگا، اس کو بھی مدنظر رکھیں، مگر یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، کیونکہ یہاں میں نے ایک چیز دیکھی ہے، کہ اگر میں کسی کے ساتھ disagree کررہا ہوں، تو ایسے میں میرے اوپر personal attacks start ہوجاتے ہیں، اور ایسے میں یہ سوچا جاتا ہے کہ اپنے غلط کو اس کو غلط ثابت کر کے صحیح کرسکتے ہیں، جو کہ بحیثیت مسلمان ہمیں اجازت نہیں ہے، کیونکہ میرے نذدیک یہ بےشرمی اور بے حودگی ہے، مگر جیسے میں نے پہلے کہا ہے کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے،

ابھی جو میں دیکھ رہا ہوں

یہ لائن جو بھی پڑھ رہا ہے، وہ یہی کہے گا، کہ یہ حاجی ثنا اللہ ہے، بھائی! میرا یہ باتیں کہنے کا صرف مقصد یہی ہے کہ بے شک میں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوں، مگر جوجلد بازی کا مظاہرہ ہمارے لوگ دے رہے ہوتے ہیں، جیسے ٹریفک میں بھی وہی ٹرم یعنی لیول پلئینگ فیلڈ کے موافق چلتے ہوئے ٹریفک میں wrong way یعنی غلط راستہ استعمال کرتے ہیں، without knowing کہ ان سب کا repercussions کیا ہوسکتے ہیں، کیونکہ پڑھے لکھے لوگ ایسی صورتحال میں یہ بھی دیکھتے ہیں، کہ ان کے آج کے ایکشن کا کل کیا ری ایکشن ہوسکتا ہے، مگر معذرت کے ساتھ جیسے کراچی کی slang language میں بات کروں، جلد بازی میں لیا گیا ایکشن ایک دو بار فائدہ دے سکتا ہے مگر every day is not a Sunday، 

میں صرف یہی بات کررہا ہوں

ابھی بھی ہمارے لئے موقع ہے کہ مسلمان بن کر سوچیں، آپ کو سہولت چاہئے، تو سہولت کے لئے کم سے کم اخلاقی اقدار کو مدنظر رکھیں، respect the law کیونکہ جب تک عام عوام rule of the law کو respect نہیں دیں گے، تو ایسے میں معاشرے میں یہ ٹسل بازی چلتے رہے گی، کیونکہ یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ جیسی عوام ہوگی، ویسی ہی حکمران، تو ایسے میں کیا ہماری اوقات ہے کہ اللہ تعالی کے وعدے کے خلاف جاسکتے ہیں؟ کیا ہماری یہ اوقات ہے، کہ مان لیا کسی کو imposingly آپ نے منا لیا کہ آپ صحیح ہو، اور وہ صحیح نہیں ہے، مگر کیا اس بات کو make sure کرسکتے ہیں، کہ  وہ بندہ ہماری دل سے عزت کرے گا؟ یہ چیز اللہ تعالئ نے ہمیں بحیثیت مسلمان یہ بات بتائی ہے، جس کو یکسر ignore کر کے ہم اس domain میں اس دائیرے میں enter ہورہے ہیں، جسے narcissistic disorder syndrome  کہتے ہیں، 

یہ کیا بلا ہے؟

اس معاملے میں، میں صحیح بندہ نہیں ہوں، مگر ایک common laymen term میں بات کروں تو ایک ایسی feeling ہے جہاں سامنے والا بندہ دوسرے بندے کو نیچا دکھا کر سکون ملتا ہے، جو کہ feeling حیوانوں میں بھی ہوتی ہے، تو ایسے میں انسان ہونے کے ناطے کیا یہ ہمیں suit کرتا ہے کہ انسان ہوتے ہوئے ہم جانوروں کی طرح ایکٹ کریں؟ یہی چیز معذرت کے ساتھ میں نے خاص طور پر کراچی کے معاملے میں دیکھا ہے، مگر یہ بات بھی ماننے کی ہے کہ صرف اور صرف کراچی میں نہیں، بلکہ یہ attention seeking syndrome پورے پاکستان میں ہے، جہاں اپنے آپ کو معلوماتی دکھانے کے لئے بےشرمی کی کسی بھی حد پر جاسکتے ہیں، 


The Ripple Effect/Snowball effect/Sandstorm effect

یہ تین الگ الگ effects ہیں، مگر ان کے impacts ایک دوسرے کے ساتھ inter-related ہیں، کیونکہ ریپل effect یعنی کسی پانئ کے پونڈ میں اگر ہم پتھر پھینکتے ہیں، تو اسکی لہریں جو نکلتی ہیں، اسکو ripple effect کہتے ہیں، کیونکہ ہم نہیں جانتے ہیں کہ ہماری بات کا کیا impact ہوسکتا ہے، تو ایسے میں بڑے بزرگوں کی مانیں تو زبان سے الفاظ اور بندوق سے گولی نکلنے کے بعد نقصان کا ازالا کرنا قریباً ناممکن ہوتا ہے، تو کیا انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے لئے ضروری نہیں کہ حیوانیت دکھانے کے بجائے تھوڑا انسان بن جائیں؟؟؟

کیونکہ ہر بات کا کچھ نا کچھ ری ایکشن ضرور ہوتا ہے

اور معذرت کے ساتھ، ایک اتاولا شخص یا اتاولی عورت کبھی یہ بات سمجھ نہیں سکتا/سکتی۔۔۔

کیا ہم واقعی میں مستقبل میں ہیں؟

کس طرح ہماری مائنڈ پروگرامنگ کی جارہی ہے؟

زیادہ دور نہیں، پندرہ سال پہلے کی بات کررہا ہوں، جب آئی فون نے ایک جدت لائی تھی جہاں نوکیا اور بلیک بیری جیسے برینڈ موجود تھے، جو کہ فیچر فون کی کیٹیگری میں آتے تھے، ان کے مقابلے میں ایک ایسا فون کا مارکٹ میں آنا جس کو چلانے کے لئے ہمیں کوئی کی بورڈ کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ استعمال کے لئے اپ کی اسکرین ہی آپکا کی بورڈ بن رہا ہے، ایک جدت یعنی innovation تھی، جس کے بعد فیچر فون کے مقابلے میں فون کی ایک نئی کیٹگری کو introduce کیا گیا جسکو اسمارٹ فون کا نام دیا گیا جہاں سے اسمارٹ فون خاموشی کے ساتھ ہماری زندگیوں میں اس طرح سراعیت کی ہے، آج کے زمانے میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح اسمارٹ فونز نے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کے متبادل کے طور پر اپنے آپ کو کنفرم کردیا ہے!

مگر اس کا اِس ٹاپک سے کیا جوڑ؟؟؟

اس کا اس ٹاپک سے یقینی طور پر جوڑ ہے کیونکہ تھیوری آف ریلیٹیوٹی theory of relativity  کے حساب سے اگر کل (یعنی ماضی) اور حال کا موازنہ کریں تو میں اپنی ذاتی اور ناقص رائے کے مترادف موجودہ ٹائم پیریڈ میں ہم اس دورہے پر ہیں جہاں کے بعد ہم نئے پراسسز کو استعمال کرنے لگیں گے، اور پرانے طریقوں کو آہستہ آہستہ سے متروف کرنے لگیں گے۔

میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں؟

کیونکہ ہم پاکستانیوں کی ایک بری بات ہے کہ ہم ایک چیز کو فالو کرنے اسٹارٹ کردیتے ہیں تو ہوکا کی بنیاد پر استعمال شروع کردیتے ہیں، جیسے ۱۰ سالوں میں جس طرح سے سنیما کی جگہ سینی پلیکس Cineplex نے لی، تو ہر اینٹرٹینمنٹ گروپ نے کوشش کی، کہ اپنے شاپنگ ارینا Shopping Arena کے ساتھ ایک سینی پلیکس کی موجودگی ضروری ہے، جبکہ میں اگر ماضی میں لے کر جائوں، ۱۹۹۸ میں جب Blockbuster ایک بہت ہی زبردست وی ایچ ایس رینٹنگ سروس تھی، اُس نے مستقبل کے چلینجز کو Overlook کیا، اور نتیجہ میں آج Blockbuster کو کوئی نہیں جانتا بلکہ دنیا اب نیٹ فلکس اور اسی طرح کی متعدد اسٹریمنگ سروسز نے بلاک بسٹر کو یکسر ختم کردیا ہے، ٹھیک اسی طرح آج سینی پلیکس کے بزنس پر وہی وقت آرہا ہے جو early-2000s میں بلاک بسٹر اور کوڈیک Kodak کے ساتھ ہوا، جہاں مستقبل کے متعلق complacency کی وجہ سے آج ان کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے۔

وہ کیوں؟

ہو سکتا ہے میں Exaggerate  کررہا ہوں مگر (یہ میرا اپنی زاتی رائے ہے)، ابھی زیک اسنائڈر Zack Snyder کی Justice League ریلیز ہوئی، کیسے ہوئے، آن لائن اسٹریمنگ کے زریعے ایچ بی او میکس HBO max کے زریعے ہوئی، یعنی سطحی بات کروں تو جو کوڈیک اور بلاک بسٹر کے ساتھ ہوا تھا، اب ٹائم سینی پلیکس کے بزنس کی الٹی گنتی اسٹارٹ ہوچکی ہے جس میں تبدیلی ہم آنے والے دس سالوں میں یقینی طور پر دیکھنا اسٹارٹ کردیں گے، کیونکہ ایک سال پہلے تک کسی نے زوم کا نام بھی نہیں سنا تھا، مگر آج ہر آرگنائزیشن میں زوم پر میٹنگ، ٹریننگ کی جارہی ہوتی ہے، اور ہمارے اسمارٹ فون کے مستقل ایپلیکیشن یا ایپس میں سے ایک بن چکا ہے۔

ایسے میں

ایسے میں میری ناقص رائے کے مطابق اتاولے ہونے کا وقت نہیں ہے بلکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہمارے آس پاس جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، اس کو بغور دیکھیں اور دیکھنے کے بعد ہی اپنی opinion کو generate کریں، کیونکہ یہ زمانہ ایسا ہے جہاں بہت زیادہ تبدیلیاں آنے والی ہیں، تو اسکے حساب سے ہمیں ان تبدیلیوں کو یقینی طور پر دیکھنا ہوگا، اور ان چیزوں کو اگر ہم نے for-granted لیا تو اس کا نقصان بھی ہمیں ہی بھرنا ہوگا۔

Fifth generation warfare

یہ ایک بہت خطرناک صورتحال ہے، جہاں mind programming کو fighting tool کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جبکہ ہم ابھی بھی اس خوش فہمی میں مبتلہ ہیں کہ دشمن گولیوں، بذوکا، میزائیل وغیرہ سے ہم پر حملہ کریں گے۔

ھندی الفاظ کا اردو میں شمولیت

میں یہاں conservative mindset کا مظاہرہ نہیں کروں گا، کیونکہ اردو زبان کو پانی کی طرح fluent ہونا چاہیے جہاں نئے نئے الفاظ کو welcome کرنا چاہیئے، کیونکہ ہماری موجودہ اردو میں فارسی، عربی اور انگلش کے بہت سے الفاظ موجود ہیں، مگر اردو زبان کی اصل خوبصورتی اس کا تلفظ ہے جہاں غیر ملکی الفاظ جیسے انگلش وغیرہ بھی اردو کا حصہ لگتے ہیں، مگر آہستہ آہستہ جس طرح ہمارے بولنے کا تلفظ کو slowly تبدیل کیا جارہا ہے، ایک طرح کا slow poison ہے، کیونکہ آہستہ آہستہ "خ" بولنے کے بجائے "کھ" بولنے میں فخر سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری اپنی individuality داو پر لگی ہوئی ہے، کیونکہ پہلے اردو بولنے والے اور ہندی بولنے کے بیچ میں فرق ان کے تلفظ سے پہچانے جاتے تھے اور ہندی بولنے والے ہم اردو بولنے والوں سے خائف رہتے تھے کیونکہ ہم بہت سارے ایسے الفاظ پول لیتے تھے جو ہندی بولنے والے نہیں بول پاتے تھے، جیسے سنیل گواسکر کبھی اعجاز احمد کو اعجاز احمد بولنے کے بجائے اجاج احمد کہتے تھے، مگر آج ہماری post 2000 generation یہی accent میں بات کرنا پسند کرتی ہے as compared to ہم 1980s اور 1990s میں بیدا ہونے والے جو ابھی بھی اسی accent میں بات کرنا پسند کرتے۔

Fifth-generation warfare

"پانچویں نسل کی جنگی حکمت عملی ، آپریشنل ، اور تدبیراتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک پروپیگنڈا اور معلوماتی جنگ ہے ، بغیر کسی حد کے نقصان کے جس کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ 5 جی ڈبلیو میں ممکن ہے کہ ہدف کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ اس پر حملہ کیا گیا ہے ، اس طرح ہدف اس جنگ کو پہلے ہی ہار چکا ہے" 

اس سے مطلب ہے ہماری ideology پر حملہ، کیونکہ اب بات یہاں تک آگئی ہے کہ کسی زمانے میں ہم اپنے کلچر اور ماضی کے بارے میں فخر کرتے تھے، آج وہی ہورہا ہے جو بانگلادیش میں ہوچکا ہے، جہاں آہستہ آہستہ ہندی کلچر کو اتنا common کردیا ہے کہ دونوں ممالک میں بہت کم فرق ہے، ہالانکہ جو فرق ہے وہ بہت گہرہ ہے مگر وہ لوگ جو بانگلادیش جاچکے ہیں، میری اس بات کو second ضرور کریں۔

میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں؟

میں ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ پہلے بھی کوششیں کی جاچکیں ہیں مگر جب ہمارے بڑے ہوتے تھے، جو ان چیزوں کے بیچ میں دیوار ہوتے تھے، ورنہ اس وقت بھی "شد" یعنی پاک صاف کرنے کی مہم، جہاں ان کا کہنا ہوتا ہے کہ پہلے ھندوستان میں سارے ھندو ہوا کرتے تھے جس پر مسلمان غاصب ہوئے، اسی وجہ سے پہلے بھی کوششیں کی جاتی تھیں، انڈیا میں تو اب یہ عام ہوچکا ہے کہ مسلمان کے گھر میں ھندو مذہب کی مورتیاں موجود ہیں یا مسلمان لڑکی کا غیر مسلمان لڑکے بلکہ اب تو زمانہ اور ambitious ہوچکا ہے، جہاں لڑکی لڑکی کے relation کو positively portray کیا جارہا ہے، اور وہی کھیل اب پاکستان میں کھیلنے کی تیاری کی جارہی ہے، جیسے پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی نے اپنی بیٹی پر سختی کی کیونکہ ہمارے اپنے مذہب میں موجود ہے جو جس کسی کی پیروی کرے گا، وہ نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو vulnerable دیکھا رہا ہے، اور ایک طرح کا invitation to offer ہے کہ ہمیں plagiarize کرو۔

مذہبی point of view

مشابہت ایک حالت کا نام ہے جو انسان پر طاری ہوتی ہے، مشابہت کرنے سے جس کی مشابہت کی جائے اُسکی تعظیم ہوتی ہے، عمومی طور پر یہ نا مناسب عادت ہے، اسی لئے شریعت نے کفار سے مشابہت کے مسئلے کو کافی اہمیت دی ، اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعی طور پر حرام قرار دیا، اور فرمایا: (جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اُنہی میں سے ہے) ابو داود، (4031) اور البانی رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اس حدیث کا کم از کم یہ تقاضا ہے کہ کفار سے مشابہت حرام ہے، اگرچہ ظاہری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان سے مشابہت رکھنے والا شخص کافر ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی میں ہے:
(وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ) المائدة/51
ترجمہ: جو تم میں سے انکے ساتھ دوستی رکھے گا تو وہ اُنہی میں سے ہوگا۔

تو اس حدیث کو مطلق تشبیہ پر محمول کیا جاسکتا ہے، جو کہ کفر کا موجِب ہے، اور کم از کم اس تشبیہ کے کچھ اجزا کے حرام ہونے کا تقاضا کرتا ہے، یا اسکا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح کی مشابہت ہوگی اسی طرح کا حکم ہوگا، کفریہ کام میں مشابہت ہوگی تو کفر، گناہ کے کام میں مشابہت ہوگی تو گناہ، اور اگر ان کفار کے کسی خاص کام میں مشابہت ہوئی تو اسکا بھی حکم اُسی کام کے مطابق لگے گا، بہر حال اس حدیث کا تقاضا ہے کہ مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔ انتہی مختصراً از کتاب "اقتضاء الصراط المستقيم" (1/270، 271)

مسلمانوں کیلئے کفار سے مشابہت کی ممانعت کیلئے کیا حکمت ہے ؟ مشابہت کے نقصانات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ بھی جانی جا سکتی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں: 

1- اگر کوئی مسلمان کافر کی مشابہت اختیار کرے تو وہ اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ کافر کی شکل وصورت مسلمان سے افضل ہے، اور اس کی بنا پر اللہ کی شریعت اور اسکی مشیئت پر اعتراض آتا ہے۔
چنانچہ جو خاتون مرد کی مشابہت اختیار کرتی ہے گویا کہ وہ اللہ تعالی کی خلقت پر اعتراض کرتی ہے، اور اسے تخلیقِ الہی پسند نہیں ہے۔ 

2- کسی کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا نفسیاتی طور پر کمزور ہونے کی دلیل ہے، جس سے لگتا ہے کہ یہ شخص اندر سے شکست خوردہ ہے، جبکہ شریعت کبھی بھی مسلمانوں سے اس بات کو قبول نہیں کرے گی کہ وہ اپنی شکست خوردہ حالت کا اعلان کرتے پھریں، چاہے حقیقت میں وہ شکست خوردہ ہی کیوں نہ ہوں۔
اس لئے کہ شکست تسلیم کر لینا مزید کمزوری کا باعث بنتا ہے، جس کے باعث فاتح مزید طاقتور بن جاتا ہے، اور یہ کمزور کے طاقتور بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔
اسی لئے کسی بھی قوم کے عقل مند حضرات کبھی بھی اپنے معاشروں کو دشمنوں کے پیچھے لگ کر انکی مشابہت اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتے، بلکہ وہ اپنی پہچان اور شخصیت باقی رکھتے ہوئےاپنی میراث ، لباس، اور رسوم و رواج کی حفاظت کرتے ہیں، چاہے دشمنوں کے رسم و رواج ان سے افضل ہی کیوں نہ ہوں؛ یہ سب کچھ اس لئے کہ وہ معاشرتی اور نفسیاتی اقدار کو جانتے ہیں۔

3- ظاہری منظر میں کسی کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے دل میں اس کیلئے محبت کے اسباب پیدا کرتی ہے، اسی لئے انسان اُسی کی مشابہت اختیار کرتا ہے جس سے محبت بھی کرے، جبکہ مسلمانوں کو کفار سے تمام وسائل کے ذریعے اعلانِ براءت کا حکم ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
(لَا يَتَّخِذْ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنْ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمْ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ) آل عمران/28 .
ترجمہ: مؤمنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو ہرگز دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اسے اللہ سے کوئی واسطہ نہیں اِلاّ کہ تمہیں ان کافروں سے بچاؤ کے لیے کسی قسم کا طرز عمل اختیار کرنا پڑے، اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
(لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ) المجادلة/22
ترجمہ: جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ کبھی انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی یا کنبہ والے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا: (مضبوط ترین ایمان کا کڑا: اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے آپس میں ایک دوسرے سے میل جول رکھنا اور دشمنوں سے دشمنی رکھنا اور اللہ کی خوشنودی کے لیے کسی سے دوستی رکھنا اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے کسی سے بغض و نفرت رکھنا ہے) طبرانی اور البانی نے السلسلة الصحيحة (998) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب: "اقتضاء الصراط المستقيم" (1/549) میں کہتے ہیں:
"ظاہری طور پر کسی کے ساتھ مشابہت اپنانا دل میں اسکے بارے میں محبت پیدا کردیتا ہے، جس طرح دل میں موجود محبت ظاہری مشابہت پر ابھارتی ہے، یہ ایک ایسی بات ہے جو عام مشاہدے میں پائی جاتی ہےاور اسکا تجربہ بھی کیا گیا ہے" انتہی
4- ظاہری طور پر کفار کی مشابہت سے انسان اس سے بھی خطرناک مرحلے کی طرف بڑھتا ہے اور وہ ہے کہ اندر سے بھی انسان اِنہی کفار جیسا بن جاتا ہے، چنانچہ اِنہی جیسے اعتقادات رکھتا ہے، اور انکے افکار و نظریات کو صحیح سمجھنے لگتا ہے، اس لئے کہ انسان کی ظاہری اور باطنی حالت میں شدید تعلق پایا جاتا ہے، اور یہ دونوں ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اقتضاء الصراط المستقيم (1/548) میں کہتے ہیں:
"ظاہری طور پر مشابہت باطنی طور پر مشابہت کا باعث بنتے ہیں، اور یہ سب کچھ اتنا مخفی اور سلسلہ وار ہوتا ہے کہ احساس نہیں ہوپاتا، جیسے کہ ہم نے ان یہودو نصاری کو دیکھا ہے جو مسلم معاشرے میں رہتے تھے، ان میں دیگر یہود ونصاریٰ سے کم کفریہ نظریات پائے جاتے تھے، بعینہ ایسے وہ مسلمان جو یہود ونصاریٰ کے معاشرے میں رہتے ہیں ، وہ لوگ دیگر مسلمانوں سے کم ایمان رکھتے ہیں" انتہی
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ظاہری لباس میں مشابہت باطنی افکار میں موافقت کا باعث بنتا ہے، جیسا کہ اس کے متعلق شرعی، عقلی اور واقعی دلائل موجود ہیں، اسی لئے شریعتِ مطہرہ نے کفار ، حیوانات، شیاطین، خواتین، اور دیہاتی لوگوں سے مشابہت منع قرار دی ہے" انتہی
الفروسية ص(122)
یہ چند ظاہری حکمتیں ہیں جن کی وجہ سے شریعت نے مسلمانوں کو مشرکین کی مشابہت سے روکا ہے، اس لئے ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ اللہ تعالی کے تمام احکامات کی پیروی کرے، اور یہ بات دل میں بیٹھا لے کہ اللہ تعالی اسے کوئی بھی حکم بغیر کسی حکمت، فائدے اور مصلحت اور دنیا و آخرت میں کامیابی کے نہیں دیگا ۔
واللہ اعلم .


Unlimited Web Hosting

Long run mind programming


Best Web Hosting in Pakistan

دور اندیشی

ہمیں یہ بھی دیکھنی چاہیئے کہ نہ صرف ابھی جو ہمارے ساتھ ہورہا ہے، اس سے آگے بھی ہوکر دیکھیں کہ In the longer run ہمیں اس کا interference اور impact بھی دیکھنا چاہیئے کہ کیا ہونے لگا ہے۔

ڈر کے سائے میں

یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے جیسے English میں کہا جاتا ہے، Back-of-the-mind یعنی ہماری Psychology کو خاموشی سے Exploit اور ٰInterference کی جارہی ہے، جہاں غیر ارادری طور پر یہ چیز ہمارے اندر ڈالی جارہی ہے اور اگر یہ چیز ہمارے اندر fixed ہوجاتی ہے، تو کیا ہماری آنے والی generations کو کس طرح breed کیا جارہا ہے؟

لڑکیاں

لڑکیوں کو جس طرح اٹھاوا دیا جارہا ہے (میں مانتا ہوں یہ controversial statement ہے ) مگر میں اس لیئے کہہ رہا ہوں کیونکہ ایک مرد صرف ایک خاندان کو بناتا ہے، جبکہ ایک عورت پوری جینیریشن کو بناتی ہے، یعنی ایک عورت کی اہمیت ایک Architect کی طرح ہوتی ہے، یعنی Design بھی کرتی ہے، یعنی ایک عورت کو اگر plagiarized کردیا جائے گا تو آپ خود imagine کریں کس طرح کی جینیریشن ہم بنارہے ہیں۔ میں عورتوں کی آزادی کے against میں نہیں ہوں مگر بات ساری یہ ہے کہ آزادی کو define کریں، کیا آزادی کا مطلب exploited ہونے کی آزادی ہونی چاہیئے؟ جس طرح خاندانی نظام کا دھجیاں یورپ اور امریکہ میں بکھیر چکیں ہیں یا جس طرح بھارت میں ہورہا ہے، کیا وہ وایئرس سے ہم اپنی لڑکیوں کو plagiarized کرنا چاہتے ہیں؟

Psychologically ہم اس ڈر کو اپنے اندر encode کر ہے ہیں

Psychologically یہ چیز proven ہے کہ اگر ہم جو چیز خود سے کرنے چاہتے ہیں، تو ہمارا دماغ خود سے ایسے signals اور enzymes کو پورے جسم میں stimulate کرتا ہے جس کی وجہ سے ہمارا پورا جسم pleased محسوس کرتا ہے، اسی وجہ سے یہ دماغ کو capture کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں دماغ کو limit کرا جارہا ہے اس طرح، کیونکہ اس موقع پر انسانی دماغ ڈر کا stimulus کو produceکرتا ہے، جو کہ ایک خطرناک چیز ہے کیونکہ اس طرح انسانی دماغ ایک invisible barrier یعنی ایک رکاوٹ یا دیوار کھڑا کردیتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے غیر ارادری دماغ میں یہ بات cemented ہوجاتی ہے کہ میں یہ نہیں کر سکتا۔ خود سوچیں کتنی خطرناک بات ہے یہ۔





Unlimited Web Hosting

کرونا وائرس اور ہماری mind programming

COVID-19 cases in Pakistan gradually increased within one day or is it otherwise?

یہ بات بھی ماننے کی ہے کہ ایک دم سے پاکستان میںCOVID-19 کے کیسز میں increase کا سادہ مطلب یہی ہے کہ اس وائرس کا slump کے پیریڈ سےبہت دور ہے، بلکہ ابھی وائرل میں ابھی اور اٹھان آئے گا۔

مگر۔۔۔

یہ بات ماننے کی ہے کہ جو فگر یہاں بتائی جارہی ہے، اس کی صداقت میں شک ہیے، کیونکہ پاکستان میں صرف یہی بیماری اور انفیکشن موجود نہیں بلکہ اور بھی بیماریاں اور انفیکشن موجود ہیں، تو کیا اتنی اموات صرف اس وباٗ کی وجہ سے ہے؟ کیونکہ میں بھی آفس جارہا ہوں، اللہ کا فضل ہے مجھے کچھ نہیں ہوا، مگر مسئلہ اتنا نہیں ہے جتنا ہوا بنایا جارہا ہے، بیشک اس میں شک کی کوئی گنجائیش نہیں مگر اتنا شکی مزاج ہونا بھی ہم مسلمانوں کو ذیب نہیں دیتا۔ اس کا یہ مطلب بالکل نہیں میں اس حقیقت کو نفی کر رہا ہوں، مگر میں صرف اپنا زاویہ واضع کر رہا ہوں، جس زاویئے سے ان سب scenario کو دیکھ رہا ہوں!

امریکہ اور چین کے بیچ میں trade war

اس point سے میں agree کرتا ہوں، کہ hype یعنی ہوا بنانے میں جو دو beneficiaries موجود ہیں، وہ امریکہ اور چین ہیں، جس میں ان دونوں فریقین کے حریف اور حلیف بھی شامل ہیں، کیونکہ امریکہ کو چین سے بہت ڈر تھا کیونکہ اس سے پہلے امریکہ نے Huawei کو ban کیا پھر Google کو پابند کیا کہ Huawei کو blacklist کیا جائے، جس کے رد عمل میں Huawei نے اپنا خود کا Operating System جس کو Harmony OS کہا گیا، جو کہ Huawei version of Android ہے، یہ بات یاد رکھیں کہ Android ایک free اور opensource operating system ہے، تو کوئی بھی اسکو استعمال کرسکتا ہے مگر وہاں گوگل کی سروسز استعمال نہیں کرسکتا، اسی لیئے امریکہ نے either by hook or by crook چین کی reputation گرانے کے لیئے یہ کیا، کیونکہ امریکہ نے اپنا مقصد یقینا حاصل کیا کیونکہ اس وائرس کی وجہ سے چینی نقش والے افراد کو ہتک نظر سے دیکھا جارہا تھا۔

امریکہ خود بھی کوئی دودھ کا دھلا نہیں

کیونکہ اب ان کی خود کی عوام پوچھ رہی ہے کہ کہاں ہیں اسپتال، ایسا کوئی اس وقت کرتا ہے جب اسکو اس حوالے سے معلومات ہو۔

ڈر کی حکومت

ان لوگوں کا main منترہ ڈر اور خوف ہوتا، کیونکہ ڈر کی وجہ سے یہ لوگ اپنی policies کو implement کرنے کے لیئے ڈر کا ساتھ لیتے ہیں، کیونکہ یہی ان کا طریقہ ہوتا ہے، اگر ماضی میں بھی دیکھیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ لوگ advance level of human psychology سے کھیلتے ہیں جہاں جھوٹ کو اتنی دفعہ کہنا کہ انسانی دماغ اس بات کوآہستہ آہستہ ماننا شروع کردیتا ہے، اس tactic کو ابھی بھی استعمال کیا جارہا ہے، اسی لیئے ہمیں بھی اس حوالے سے ہمیں اپنے ماضی کے حالات و واقعات کو صحیح طریقہ سے پڑھنا چاہیئے۔

Contagion - 2011

Contagion Movie Download Link اس ویب سائٹ کو access کرنے کے لیئے VPN On کرلیں

آج کل چونکہ کورونا وائرس کی وجہ گھر پر فارغ بیٹھا ہوں، اسی وجہ سے مووی دیکھنے کا ارادہ کیا، تو ایسے ہی سرچنگ کے دوران یہ مووی پر نظر پڑی، پہلے پہل مووی دیکھنے سے پہلے IMDB پر اس مووی کی ریٹنگ اور کہانی دیکھی، تو ابھی جو صورتحال ہے، یعنی airborne virus سے related, ہو بہو وہی صورتحال 2011 میں 2020 کو بتایا گیا ہے۔

Spoiler Alert

اگر آپنے یہ مووی نہیں دیکھی ہے تو ٹائم پاس کے لیے یہ مووی پہلے دیکھ لیں پھر اسکا ریویو دیکھیں تاکہ اندازہ ہو کہ کس طرح ایک اسکرپٹڈ زندگی ہم آجکل گزار رہے ہیں۔

اس مووی میں سب سے پہلے

اس مووی میں بتایا گیا ہے کہ airborne virus کیا ہوتا ہے، اور اس مووی کی protagonist ایک خاتون ہوتی ہیں ہانگ کانگ کے کاروباری سفر سے واپسی کے فورا. بعد ، بیتھ اموف فلو یا کسی اور قسم کے انفیکشن کی وجہ سے دم توڑ گیا۔ اسی دن اس کا جوان بیٹا فوت ہوگیا۔ تاہم اس کا شوہر مچ مدافع لگتا ہے۔ اس طرح ایک مہلک انفیکشن پھیلنا شروع ہوتا ہے۔ بیماریوں کے قابو پانے کے لئے امریکی مراکز کے ڈاکٹروں اور منتظمین کے ل anyone ، کسی کو بھی اس نئے انفیکشن کی حد یا کشش ثقل کا احساس ہونے سے پہلے کئی دن گزر جاتے ہیں۔ انھیں پہلے سوال میں وائرس کی قسم کی نشاندہی کرنی ہوگی اور پھر اس سے مقابلہ کرنے کا ایک ذریعہ تلاش کرنا ہوگا ، ایسا عمل جس میں ممکنہ طور پر کئی مہینے لگیں گے۔ جیسے ہی یہ بیماری دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں میں پھیلتی ہے ، لوگوں کے گھبراہٹ کے بعد معاشرتی نظام ٹوٹنا شروع ہوتا ہے۔

دوسرا دن

بیت امہوف (گیوینتھ پیلٹرو) ائیر پورٹ کے ایک لاؤنج میں کھانسی کر رہے ہیں اور جان نیل کی آواز آئی (ڈائریکٹر اسٹیون سوڈربرگ کی آواز ، ان کے غیر منقطع کیمیو کردار میں) ، جو اس کے ساتھ ابھی جنسی تعلقات میں تھے۔ ایک جنجال جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے بہت سے لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں۔

ہانگ کانگ کا ایک نوجوان پسینہ آتے ہوئے کشتی سے اتر گیا۔ وہ اپنے گھر والوں کے پاس گھر جاتا ہے اور اس کی بہن اسے تشویش میں دیکھتی ہے۔

لندن میں ، ایک ماڈل بیمار ہوکر اپنے ہوٹل کے کمرے میں واپس چلا گیا۔ ہوٹل کا عملہ کمرے میں آیا اور اسے باتھ روم کے فرش پر مردہ پایا۔

ہوائی جہاز میں ، ایک کاروباری شخص اس کے چہرے پر ایک درد زدہ لہجے میں لالچی سے باہر آتا ہے۔ وہ واپس اپنے گھر ٹوکیو جارہا ہے۔ جب وہ منزل سے گرتا ہے ، تب آتی ہے تو بس میں ہوتا تھا۔ اس کی موت کیمرے کے فون پر قید ہے۔

ہانگ کانگ کا یہ نوجوان لفٹ میں موجود متعدد افراد کے قریب کھانسی کرتے ہوئے اپنا اپارٹمنٹ چھوڑ کر چلا گیا۔ وہ سڑکوں پر چلتا ہے ، اس کا نظارہ اور زیادہ تیز ہوتا ہے۔ وہ ٹریفک میں چلتا ہے اور ٹرک کی زد میں آکر اسے ہلاک کردیا جاتا ہے۔

آخر کار ، مینیسوٹا میں ، بیت اپنے شوہر مِچ (میٹ ڈیمون) اور بیٹے کلارک (گریفن کین) کے پاس گھر آئے ، اور ان دونوں کو گلے لگا لیا۔

تیسرا دن

ڈاکٹر ایلس شیور (لارنس فش برن) اٹلانٹا میں قائم بیماری برائے قابو پانے اور روک تھام کے مرکز (سی ڈی سی) میں کام میں آتے ہیں۔ جاتے ہوئے ، وہ راجر (جان ہاکس) نامی ایک دربان سے گزرتا ہے جو ان کے پاس فٹ بال پول کی وجہ سے دوستانہ شرائط پر ہے۔ راجر نے شیور سے اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھا چونکہ اسکول کے خیال میں اس نے اے ڈی ایچ ڈی کر لیا ہے۔ راجر نے پوچھا کہ کیا شیور اس کی طرف دیکھ سکتا ہے لیکن شیور کا کہنا ہے کہ وہ اس قسم کا ڈاکٹر نہیں ہے۔ تاہم ، وہ کچھ لوگوں کو جانتا ہے لہذا وہ اپنے بیٹے کے لئے کسی اچھے ڈاکٹر کو راجر کے حوالے کرنے کی کوشش کرے گا۔

دریں اثنا ، مچ اسکول سے کلارک سے اس چیز کو لینے جاتا ہے جو ان کے خیال میں بخار ہے۔ مِچ کلارک سے کہتا ہے کہ وہ اسے شکریہ کے ذریعہ شکست دے دے گا۔

ایک نیوز آفس میں ایلن (جوڈ لاء) کے نام سے ایک بلاگر صحافی اور سازشی تھیوریسٹ ، لورین کے نام سے ایک ایڈیٹر سے ، ٹوکیو بس واقعے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ایلن کا خیال ہے کہ اس کا تعلق دنیا بھر میں مچھلی میں پارے سے ہونے والی زہر آلودگی سے ہوسکتا ہے۔ لورین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس طرح کے آزادانہ کام کے لئے بجٹ نہیں ہے لیکن ایلن کا کہنا ہے کہ یہ کہانی 24 گھنٹوں میں دنیا بھر میں جاسکتی ہے۔ لورین کا کہنا ہے کہ وہ اسے دوسرے ایڈیٹر کے پاس بھیج دیں گی۔ ایلن نے اسے بتایا کہ اس نے یہ گفتگو ریکارڈ کی ہے اور اگر وہ اس کی کہانی چوری کرتی ہے تو وہ اس کے خلاف مقدمہ کرے گا۔

چوتھا دن

بیت خراب ہے ، گھر میں ہے۔ وہ کافی کے ایک کپ کو دیکھتی ہے اور مچ کے دن کی بات کرتے ہی اسے لینے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے بجائے وہ اس کاؤنٹر اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔ مچ اس کو صاف کرنے میں مدد کرتا ہے ، جب بیت کو دورے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مچ خوفزدہ ہے ، اور اس نے دروازے پر کلارک کو اپنی والدہ کو جھپٹتے ہوئے دیکھا۔ مچ نے اسے 911 پر کال کرتے ہوئے اوپر جانے کو کہا۔

ہسپتال میں ، مچ اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ کیا ہوا ہے اور بیت کو الرجی ہونے پر جب اسے ایک اور دورے پڑتے ہیں اور مچ کو کمرے سے باہر دھکیل دیا جاتا ہے۔ بعد میں ایک ڈاکٹر اس سے ملنے آیا اور اسے بتایا کہ بیت ابھی دم توڑ گیا ہے۔ مچ صدمے میں ہے اور اس سے بات کرنے کو کہتی ہے ، خبر کی گنتی نہیں کررہی ہے۔ ڈاکٹر یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید اس کی بیوی نے چین میں کچھ اٹھا لیا ہو لیکن اس کی علامات سے ملنے کے لئے وہاں صحت سے متعلق الرٹ نہیں ہیں۔ میڈیکل بورڈ اس بات کا تعین کرنے کے لئے پوسٹ مارٹم کا حکم دے رہا ہے کہ اس نے کیا مارا۔ مچ حیرت زدہ ہے اور چیختا ہے ، "کیا ہوا؟!"

مچ کو کال آنے پر گھر سے بھگا دیا جا رہا ہے۔ اس کا بیٹا بیمار ہے۔ وہ نینی کو 911 پر فون کرنے کو کہتے ہیں۔ جب وہ گھر پہنچتا ہے تو ، نینی کا کہنا ہے کہ کلارک کو سر میں درد تھا لہذا اس نے اسے بستر پر رکھ دیا۔ مچ کے وہاں پہنچنے تک ، بہت دیر ہوچکی ہے ، اس کا بیٹا مر گیا ہے۔

پانچواں دن

سوئٹزرلینڈ میں ، ڈاکٹر لیونورا اورینٹیس (ماریون کوٹلارڈ) ، عالمی ادارہ صحت میں کام کرنے جاتے ہیں۔ وہ اس نامعلوم وائرس اور امریکہ ، چین ، لندن اور جاپان میں انفیکشن کے واقعات کے بارے میں بریفنگ سنبھالتی ہیں۔ وہ ڈبلیو ایچ او کو اس کی تحقیقات میں پوری طرح رہنے کی ضرورت کا اظہار کرتی ہے۔ وہ بیتھ کا ذکر انفیکشن کا ممکنہ آغاز ہونے کی حیثیت سے کرتی ہے۔

ہانگ کانگ میں ، اس نوجوان کی بہن جس کو متاثر ہوا تھا اس کے جسم کا آخری رسوا کردیا گیا تھا اور بس راکھ میں دفن ہونے کے لئے راکھ لے جانے کے لئے گئی تھی۔ جب ایک لڑکی کو مردہ حالت میں پایا گیا تو ایک صفائی کرنے والی خاتون بس کی جانچ کررہی ہیں۔ مرنے سے پہلے اس کے بھائی نے بھی اسے صاف طور پر متاثر کردیا تھا۔

شکاگو میں ، بیت کے عاشق جان نیل کو اسٹریچر پر چلایا جارہا ہے۔ وہ بھی انفکشن ہوگیا ہے۔ اس کی بیوی حیرت سے حیرت سے دیکھ رہی ہے ، کیا حیرت ہے

دو طبی رہنماؤں نے اس کی کھوپڑی کھولنے پر بیتھ پر پوسٹ مارٹم کیا۔ انہوں نے اس کے دماغ کے بارے میں کچھ عجیب و غریب نوٹ کیا۔ ان میں سے ایک شخص پوچھتا ہے کہ اسے نمونہ لینا چاہئے۔ "دراصل ، میں چاہتا ہوں کہ آپ میز سے دور کھڑے ہوں!" دوسرا ٹیکنیشن اسے بتاتا ہے۔ ٹیکنیشن اپنے ساتھی سے ہر ایک کو فون کرنے کو کہتا ہے۔

چھٹا دن

ڈاکٹر ایرن مائرز (کیٹ ونسلیٹ) کو ایلیس نے پراسرار وائرس پھیلنے پر اپنی ملازمت کے بارے میں آگاہ کیا۔ وہ انفیکشن کے معاملات کی تفتیش کرے گی۔ اگر اسے کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ اسے فون کرسکتی ہے ، کوئی سوال نہیں کیا گیا۔ ایرن قریبی سی ڈی سی آفس منتقل کرنے کے لئے مینیسوٹا کا سفر کرتا ہے۔

مچ کو واپس ہسپتال لے جایا جاتا ہے اور اسے قرنطین نگاہ میں رکھا جاتا ہے۔ اس کی سابقہ ​​شادی سے اس کی نوعمر بیٹی ، جوری اموف (انا جیکبی ہیرون) پہنچ گئی۔ وہ ایک فون پر بات کرتے ہیں۔ جوری کو کلارک کی موت کے بعد وہاں نہ ہونے کا قصوروار محسوس ہوتا ہے ، لیکن مچ کا کہنا ہے کہ یہ اس کی غلطی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ، اگر وہ ہوتی تو ، اسے بھی انفکشن ہوسکتا تھا۔ وہ سب چھوڑ گئی ہے۔ مچ جوری کو اپنی ماں کے گھر جانے کو کہتے ہیں ، لیکن جوری کا کہنا ہے کہ وہ اسے نہیں چھوڑیں گی۔ وہ اس کے ساتھ ہی رہ رہی ہے۔

ایرن وائرس اور ان کو احتیاطی تدابیر کے بارے میں بریفنگ دے رہی ہے جس کی انہیں لینے کی ضرورت ہے۔ ایک عورت پوچھتی ہے کہ کیا وہ کسی ایسی چیز سے گھبرارہی ہیں جس کے بارے میں وہ بہت کم جانتے ہیں۔ "ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ لوگوں کو خوفزدہ ہونے کے لئے کیا کہنا ہے۔" میئرز نوٹ کرتا ہے کہ وائرس رابطے کا ایک عارضہ ہے۔ لہذا لوگ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو جن سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے اور بات چیت کرتے ہیں ، انفیکشن کے ممکنہ بندرگاہ ہیں۔ میئرز کا کہنا ہے کہ مسئلہ کیریئرز ہے اور جس تعداد کو وہ ممکنہ طور پر متاثر کریں گے ، آر نمبر نہیں۔ فلو عام طور پر ایک شخص ہوتا ہے۔ پولیو ، پری ویکسین ، چار سے چھ کے درمیان تھی۔ جب تک کہ وہ زیادہ جانتے ہی نہیں ، اس وائرس کی R-Nnot تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔

دو ڈاکٹر ، ایلی ہیکسٹل (جینیفر ایہل) اور ڈیوڈ آئزنبرگ (ڈیمٹری مارٹن) ایک محفوظ بائیو لیب میں جاتے ہیں اور بیت کے جسم سے لئے گئے نمونے دوسروں میں دیکھتے ہیں۔ ہیکسٹال کا کہنا ہے کہ انہیں بھیجنا ضروری ہے

دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے

اچھی خاصی کہانی تو میں نے یہاں already explain کرچکا ہوں، مگر اسکے محرکات اور happening ہماری آج کی دنیا سے بہت میل یعنی match کھا رہے ہیں، جس طرح مووی میں بتایا ہے، اصلیت میں بھی ٹھیک اسی طرح ہورہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے Terminator 2 کی روبوٹ ٹیکنولوجی ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ It is just the matter of broadening your view and perspective on the larger scale.

Act like one to be treated accordingly

اردو میں اگر اس بلوگ کا title لکھتا تو بہت harsh اور سخت زبان ہوجاتی مگر میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں، اسی وجہ سے title کو dilute کیا ہے English میں لکھ کر۔

CoronaVirus اور ہماری عوام کے رویئے

بلوگ پوسٹ میں آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات کنفرم کردوں کہ اس آرٹیکل میں CoronaVirus اور اس پر ہمارے لوگوں کی unable to flex themselves to current situation پر مبنی ہے۔

 کورونا وائرس اور یماری negligence

انسان ہونے کے ناطے یہ چیز ہمارے genes میں ہوتی تھی (ہے نہیں)، کہ ہم انسان اور مسلمان ہونے کے بجائے چلتے پھرتے حیوان بن چکے ہیں، کیونکہ یہ صرف بنکرز سے متعلق نہیں بلکہ overall پوری انسانیت کی بات ہے، بیشک بینکس اس وقت ہماری ضرورت بن چکی ہیں، اس لیئے بنکس کا کھلنا مجبوری اور وقت کی ضرورت ہے، مگر جس ہم کورونا وائرس کو پھیلا رہے ہیں، اس لوک ڈائون پیریڈ کو چھٹی کے دن کے طور پر منایا جارہا ہے، شام میں بیکری پر رش ہونے کا مطلب یہی ہے کہ چھٹی کے دن کے طور پر منایا جارہا ہے، ہالانکہ ہر کوئی یہ بات کہہ رہا ہے کہ بھیڑ نہ لگائیں مگر مجال ہے کہ پہلے مجھے کی رٹ لگانے کی جلدی ہوتی۔ ورنہ اس صورتحال میں ایران اور اٹلی کو دیکھ کر ہمیں ۱۵ دن کے لیے برداشت کرنا کوئی بڑی بات نہیں مگر میں صرف بینکس کی بات کروں، تو اس صورتحال میں دوسروں کے بارے میں سوچنے کے بجائے پہلے میں کی رٹ لگائی ہوئی ہے، آپکی جلدی کے چکر میں آپ کتنے لوگوں کی ذندگی سے کھلواڑ کر رہیں ہیں۔

جب کیش نکلانے اور ٹرانسفر کرنے کے لیئے اوپشن موجود ہیں

کیش نکالنے کے لیے آپکے پاس ATM کی صورت میں موجود ہے، جس پر اسٹیٹ بینک SBP نے limit کو 100,000/- ایک دن میں کردیا ہے جس کے بعد اس عقل کے اندھوں کو انسان ہونے کے ناطے بینک کے اندر بلاوجہ نہیں جانا چاہیئے، کیونک ایسے میں جو واقعی میں ضرورتمند ہہں انکا بھی حق مارا جارہا ہے، ورنہ اگر انسان ہونے تو اس چیز کا خیال رکھنا چاہیئے تھا، مگر ہم سب نے دیکھا کہ کس طرح بنکس میں رش لگا ہوا ہے جیسے کل کسی نے نہیں دیکھا، بالکل اسی طرح فنڈ ٹرانسفر اور بل بیمنٹس بھی ایزی پیسہ اور دوسرے مائکرو فائننس بنکس کے ذرئعے بھی ہو سکتا ہے اس کو پروموٹ کرنے کے لئے SBP نے charges کو waive کردیا ہے مگر پھر بھی عوام نے بلاوجہ کا رش لگانا ہے، ورنہ اوپشنز موجود ہیں اور یہ ان عوام کے لیئے ہی ہے، مگر افسوس صد افسوس اس عوام کی معصومیت پر

وہ عوام

  1. جو ایک فون ہر دو Whatsapp چلانا جانتی ہو
  2. جو Bigo Live اور similar apps پر پیمنٹس کرنا اور beans خریدنا جانتی ہو
  3. جو AliExpress اور Daraz.pk جیسی e-Commerce ویب سائٹ کو استعمال کرنا جانتی ہو
  4. جو ایک ساتھ 10 10 ATM کارڈ میں پیسے ڈال کر وائرس کے نمودار ہونے سے پہلے 100,000 روپے نکالتی تھی
وہ عوام اب اگر یہ کہے کہ اپنے regular chores کے لیئے ADC یعنی Alternative Distribution Channel کو استعمال کرنا نہیں آتا، تو کیا یہ ان لوگوں کے لیئے جن کو واقعی میں ان چیزوں کی سمجھ بوجھ نہیں، کیا ان لوگوں کا حق نہیں مارا جارہا ہے؟ کیا انسان ہونے کے ناطے ایسے لوگوں کا خیال کرنا نہیں چاہیئے؟

Bitcoin

اب جو باتیں سننے میں آرہیں ہیں، اب پاکستان میں بھی Bitcoin یعنی Crypto Currency کو پاکستان میں بھی Introduce کیا جائے گا، کیونکہ عوام کی اس panic buying اور panic banking کی وجہ سے اب Crypto Currency کو جو بھی پروموٹ کررہے تھے، وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکے ہیں، اسکا نقصان سب سے ذیادہ بنکس کو ہی ہوگا کیونکہ Crypto Currency کا مطلب ہے structure-less banking مطلب آپکی رقم آپ کے پاس ہوتے ہوئے بھی آپ کے پاس نہیں ہوگی، اور اسی لیے آپ کسی unknown کے اوپر dependent رہوگے کہ آپ کے صحیح غلط کا فیصلہ وہ کریں، تو اسی لیے تھوڑا صبر کا دامن ہاتھ میں رکھیں، 14 دن کی احتیاط زندگی بھر اپنی اور اپنے پچوں اور آنے والی نسلوں کو غلامی میں پھینکنا ذیادہ ضروری ہے؟سوچیئے گا ضرور۔۔۔
ِ

اس بار کا رمضان المبارک

اس بار کا رمضان المبارک شاید کچھ الگ ہو
اس بار کا رمضان المبارک کا مہینہ میرے اندازے کے مطابق کچھ الگ ہی ہوگا، کیونکہ بیشک 15 دن کے لیئے سندھ کو بند کیا جارہا ہے، مگر جو casual رویے اس وبا سے متعلق ہمارے ہیں، یہ بیماری پھر اٹھ سکتی ہے، کیونکہ صفائی ستھرائی کا معیار کا تو ہم سب کو پتہ ہے، اسی وجہ سے یہ وبا دوبارہ اٹھے گا، مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں تراویح کا اھتمام اس طرح نہیں ہوتا تھا جیسے ہمارے پاس ہوتا ہے، بلکہ عشاؑ کی نماز کے بعد واپس گھر آجاتے تھے اور بعد میں خود سے قیام الیل ادا کرتے تھے، ٹھیک اسی طرح (میں امید کرتا ہوں، کہ ایسا نہ ہو مگر جو حالات و واقعات اس وقت چل رہے ہیں) اس بار ہمیں بھی سادگی کو اپنانا ہوگا، ایک طرح سے اللہ تعالی نے ہمیں دوبارہ اپنا ایمان تازہ کرنے کا موقع دیا ہے، ماڈرن زبان میں بولوں تو Rediscover the True Spirit of Ramadan, کیونکہ صحابہ اکرام نے Community based رمضان کی بنیاد رکھی تھی، جہاں افطار کم ہوتا تھا مگر دل بڑے ہوتے تھے، شاید اللہ تعالی دوبارہ وہی cleansing procedure کو revive کروانا چاہتے ہیں، اسی وجہ سے حالات و واقعات اس طرف اشارہ دے رہے ہیں، کہ ہمیں سادگی سے رمضان گزارنا ہوگا، اور رمضان کی spirit کے مطابق ہمیں اپنے سے کم تر والوں کا specially اس مہینے میں دیکھنا ہوتا ہے، تو اس بار ہمیں اسی spirit کا مظاہرہ کرنا ہوگا، کیونکہ بیشک رمضان کے ٹائم تک بہت وقت ہوجائے گا مگر الرجی کی طرح یہ دوبارہ اٹھ سکتے ہیں، تو بحیثیت مسلمان ہمیں community کا خیال رکھنا ہوگا نہ کا صرف اپنا، اس کا اللہ تعالی کے سامنے کوئی اجر نہیں، کیونکہ یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیئے کہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا خیال رکھنا بھی یمارے ایمان کا لازمی جزو ہے۔
Picture of 22 March 2020 when people were
at a حلوہ پوری shop instead of taking
precautions against the
subjected virus

یہاں ہم سے social distancing نہیں ہو پارہی ہے اور سوشل ڈسٹنسنگ کو یوم چھٹی کے طور پر منا رہے ہیں

اور ہم ٹھیرے اسلام کے سوداگر اور ہر چیز میں اسلام کو لے آتے ہیں مسوائے وہاں جہاں ہمارے مفاد کو مسئلہ ہو، یہ حال ہوچکا ہے ہم مسلمانوں کا۔ ہم کیا روز قیامت کے دن اس بات کا جواب دے سکتے ہیں؟ سوچیئے گا ضرور اس حوالے سے

Karachi Lockdown

آج بروز پیر مارچ ۲۳، ۲۰۲۰ کراچی اور پورا صوبہ سندھ لاک ڈائون ہو رہا ہے، مگر sorry to say, لاک ڈائون اور ہڑتال میں فرق ہوتا ہے، 

Lock-down/Lockout اور Strike/ہڑتال میں فرق

Strikes are initiated by the employees and is when the workers cease work during a labor dispute.
 Lockouts are initiated by the employer and is a denial of employment during a labor dispute. ... Both sides use a work stoppage to gain leverage during negotiations and force the other side to agree to terms and conditions.
مگر ان دونوں میں ایک واضع فرق ہے، یہاں employers سے مطلب حکومت سے بھی ہوتا ہے اور یہاں Lockout کی اسٹریتیجی یہ ہے کہ کھانے پینے جیسے بیکری، دودھ، کریانہ اور گوشت کی دکانیں اور وہ کھانے پینے کی دکانیں جہاں سے drive-in کی سہولت ہو مطلب کھانے کی چیزیں لیکر جانے کی سہولت ہو، مگر وہ کھانے پینے کے ریسٹورنٹ جہاں صرف بیٹھ کر کھانا منع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ limited socialization کی اسٹریٹیجی ہے، کیونکہ یہ بیماری کو اسی طرح سے روکا جاسکتا ہے;

Shelf life کی ڈیفینیشن

Shelf life is the length of time that a commodity may be stored without becoming unfit for use, consumption, or sale. In other words, it might refer to whether a commodity should no longer be on a pantry shelf, or just no longer on a supermarket shelf
یہ ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے حساب سے ہے مگر جراثیموں کی بھی شیلف لائف ہوتی ہے کیونکہ یہ جراثیم کو host body یعنی جسم چاہیئے ہوتا ہے ورنہ جسم کے بغیر یہ جراثیم maximum/ذیادہ سے ذیادہ 14 دن تک رہ سکتا ے، ذیادہ سے ذیادہ اس لیئے کہا کیونکہ it varies, ہوا میں صرف ۳ گھنٹے کا ٹرن ارائونڈ ٹائم/TAT/Turnaround Time ہے، اسی لئے اس کے لیئے کہا ہے کہ ہاتھ صاف رکھیں اور گھر کے عام صابن سے بھی بچا جاسکتا ہے، صرف مستقل 20 سیکنڈز تک دھونا ہے، اس کا حل یہی ہے، اور جسم کی کوئی بھی opening جیسے ناک، آنکھ، کان اور اگر جسم میں کوئی گھاو ہے اس پر antiseptic لوشن یا دوائی لگئیں کیونکہ جیسے میں نے اوپر کہا ہے، اس وائرس کو جسم چاہیئے ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ مندرجہ بالا openings پر روک لگا کر ہی بچایا جاسکتا ہے، اور اگر آنکھ میں کھجلی ہوتی بھی ہے تو پانی سے صاف کریں کیونکہ ہاتھ سے بھی یہ جراثیم آنکھ کے رستہ جسم میں گھس سکتا ہے، اسی لیے اس بیماری سے صرف احتیاط سے بچا جاسکتا ہے۔

Mind programming اور CoronaVirus

کرونا وائرس کے پاکستان میں نمودار ہونے کے ساتھ ہی موسمی سائنسدانوں کا برآمد ہونا پاکستان میں ایک نارمل بات ہے۔ مگر اب مسئلہ یہ ہے کہ اسی تناظر میں جو گندا گیم کھیلا جارہا، جہاں unconscious اور sub-conscious mind میں کافی چیزوں کو encode کرا جارہا ہے، جو ابھی تو نہیں مگر مستقبل قریب میں ضرور impact کرے گا۔

مذہب سے دوری

ہمارا میڈیا جس میں YouTube کا پاکستانی میڈیا بھی شامل ہے، اس وقت وہی کام کررہا ہے جو محلہ میں جھگڑہ کرانے والی آنٹی کراتی ہیں، کیونکہ کچھ چیزیں مذہب میں unknown رکھی گئی ہیں کیونکہ کچھ چیزیں اللہ تعالی نے یم انسانوں سے پوشیدہ رکھیں ہیں تو ان میں کچھ مصلحت ضرور ہے، اب جب کرونا وائرس کے بارے میں کافی چیزیں کھل کر آرہی ہے کہ صفائی رکھیں وغیرہ وغیرہ، مگر مسئلہ دراصل یہ ہے کہ انسان کی اپنی internal-immunity mechanism کو کنٹرول کرنا ہے تاکہ انسانوں کے احساسات اور spontaneous reactions کو کنٹرول کیا جائے اور سادی زبان میں کہوں تو Hybrid Human Beings بنانے کا ارادہ ہے، جہاں انسان کی individuality کو at-stake کرنے کا ارادہ ہے، کیونکہ اس وائرس سے پہلے انسانوں کو infect کیا جارہا ہے، پھر دوائی دی جائے گی جس سے انسانوں کا immune system کو tame کیا جائے گا، یہ ان لوگوں کے لیے عید کا سماں ہے جہاں وہ جان بوجھ کر بیمار ہونا چاہتے کیونکہ وہ لوگ attention seekers ہوتے ہیں، مگر اس کی قیمت اس طرح چکائیں گے کہ اس وائرس کو طابع ہوجائیں گے، جس سے انکی اپنی individuality اور self respect ختم ہوجائے گی، کیونکہ ان کے اپنے جسم کے اندر جو natural immune system ہے جو اللہ تعالی کی جانب سے ہمیں تحفہ دیا کیا ہے اور جواب میں ہم یہ تحفہ انسانوں کے ہاتھ میں بانٹ کر اللہ تعالی کی جانب سے دیا گیا اس لازوال تحفہ کی بے حرمتی کر رہے ہیں، باقی ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ ہر چیز کا ایک reaction ہوتا ہے اور یہ موجودہ کرونا وائرس اسی کا خمیازہ ہے، کیونکہ کچھ نہ کچھ تو ایسا ضرور ہوا ہے جس کی وجہ یہ وائرس پنپ رہا ہے۔

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting