پاکستان اس وقت چیمپئنز ٹرافی 2025 کے بخار میں مبتلا ہے، ہر طرف جوش و خروش نظر آ رہا ہے، لیکن ایک سوال جو مجھے مسلسل پریشان کر رہا ہے: کیا ہم واقعی اس بڑے ایونٹ کے لیے تیار ہیں؟ مجھے یاد ہے جب پاکستان اور آسٹریلیا کی سیریز کے دوران ای ٹکٹنگ کا سسٹم BookMe.pk کے ذریعے ہوا تھا، تب چیزیں قدرے منظم اور آسان لگ رہی تھیں۔ میں اور میری بیوی کراچی ٹیسٹ دیکھنے گئے تھے، اور صرف دو QR کوڈ والے پرنٹس لے کر ہم باآسانی انٹری حاصل کر سکے۔ لیکن اب، کیا ہم وہی سہولت اور پروفیشنلزم چیمپئنز ٹرافی میں دیکھیں گے؟ یا پھر ایک بار وہی بدنظمی، بلیک میں ٹکٹوں کی فروخت، اور عام شائقین کے ساتھ دھوکہ دہی کا بازار گرم ہوگا؟ پاکستان میں کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں، بلکہ ایک جذباتی وابستگی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی بڑا ایونٹ آتا ہے، تو ہمارے منتظمین کی نااہلی سب پر عیاں ہو جاتی ہے۔ کیا اس بار کچھ نیا ہوگا، یا پھر وہی پرانی کہانی؟
موجودہ (ای) ٹکٹنگ سسٹم
چیمپئنز ٹرافی 2025 کے لیے ایک بار پھر وہی پرانا اور فرسودہ "آرڈر اینڈ ڈیلیور" والا نظام نافذ کر دیا گیا ہے، جہاں آپ کو پہلے PCB.TCS.COM.PK پر جا کر آرڈر دینا ہوگا۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی! ایک شناختی کارڈ پر صرف چار ٹکٹوں کی حد لگا دی گئی ہے، اور اس کے بعد آپ کو ایک یونیک نمبر یا اپنا CNIC نمبر فراہم کرنا ہوگا۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں میرا اعتراض ہے۔
یہ نظام بظاہر تو منظم لگتا ہے، مگر حقیقت میں انتہائی خطرناک ہے۔ پاکستان میں شناختی کارڈز کے ساتھ فراڈ اور ڈیٹا لیک کے
آفیشل ٹی سی ایس کا ہوم پیج اسکرین شاٹ |
سیکڑوں واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں، خاص طور پر سم کارڈز کے اجرا کے دوران جب ہزاروں لوگ اپنی لاعلمی میں کسی اور کے نام پر رجسٹرڈ سمز کے بوجھ تلے دب چکے تھے۔ تو کیا ہمیں اس بار بھی وہی دھوکہ دہی دیکھنے کو ملے گی؟
کیا واقعی PCB اور TCS کے پاس وہ سیکیورٹی میکانزم موجود ہے جو عوام کے ڈیٹا کو محفوظ رکھ سکے؟ یا پھر ہم ایک اور بڑے اسکینڈل کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ کیا اس بار بھی عام کرکٹ شائقین کے ساتھ زیادتی ہوگی، اور ٹکٹیں صرف "بااثر افراد" کے ہاتھ لگیں گی؟
پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامی صلاحیت ہمیشہ سوالیہ نشان رہی ہے، اور چیمپئنز ٹرافی 2025 کے ٹکٹنگ سسٹم کے ساتھ جو پہلا تاثر مل رہا ہے، وہ قطعی طور پر امید افزا نہیں ہے۔
رسیدیں جمع کرنے کا ہوکا
یہی بیوروکریسی کی دقیانوسی سوچ ہے جو ہر جگہ ہماری ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ کاغذ کا بے دریغ استعمال، غیر ضروری مراحل، اور عوام کو خواری میں ڈالنے والا سسٹم—یہ سب کچھ میں نے 2024 کے انتخابات میں بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک سیدھے سادے ووٹنگ کے عمل کو کتنا پیچیدہ بنا دیا گیا تھا۔ ایک ہی چھوٹے سے کمرے میں چھ مختلف پریزائیڈنگ افسران ایک کام انجام دے رہے تھے، جو ایک ہی بندہ بھی سنبھال سکتا تھا۔
- پہلا شخص صرف مجھے اندر داخل کر رہا تھا۔
- دوسرا شخص میرا CNIC چیک کرکے رجسٹر پر انٹری کر رہا تھا۔
- تیسرا شخص نیشنل اسمبلی کا ہرا بیلٹ پیپر دے رہا تھا۔
- چوتھا شخص پروونشل اسمبلی کا سفید بیلٹ پیپر دے رہا تھا۔
- پانچواں شخص یہ چیک کر رہا تھا کہ میں نے دونوں بیلٹ پیپر لے لیے ہیں۔
- اور چھٹا شخص صرف اور صرف مجھے انگوٹھے پر ٹھپہ لگانے کے لیے بیٹھا تھا!
یہ سب کیا تھا؟ صرف ایک پروسیس کو مصنوعی طور پر پیچیدہ بنا کر عوام کو استعمال کرنے کا ایک نیا طریقہ۔ افسوسناک پہلو یہ تھا کہ ہمارے عوام خود بھی اس عمل کا حصہ بننے پر فخر محسوس کر رہے تھے۔
اور اب یہی کچھ چیمپئنز ٹرافی 2025 کے ٹکٹنگ سسٹم میں دہرایا جا رہا ہے۔
- پہلے آپ PCB.TCS.COM.PK پر آرڈر کریں گے۔
- پھر صرف چار ٹکٹوں کی حد میں بندھے رہیں گے۔
- اس کے بعد آپ کو یا تو ایک "یونیک کوڈ" یا اپنا شناختی کارڈ نمبر لے کر ٹی سی ایس کے دفتر جانا ہوگا۔
- وہاں جا کر فزیکل ٹکٹ پرنٹ کرایا جائے گا۔
یہ سب فضول مشقت کیوں؟ کیا یہ کام ایک سادہ QR کوڈ پرنٹ کرکے گھر بیٹھے حل نہیں کیا جا سکتا؟ میں نے پاکستان-آسٹریلیا 2022 کے ٹیسٹ میچ کے لیے BookMe.pk کے ذریعے دو QR ٹکٹ خریدے اور آرام سے اسٹیڈیم میں انٹری لی۔ لیکن جب یہی ٹکٹنگ کا نظام 2019 کی پاکستان-سری لنکا سیریز میں TCS کے پاس تھا، تب بھی مجھے بہادرآباد کے TCS آفس جا کر فزیکل ٹکٹ پرنٹ کرانا پڑا تھا!
یہ کونسی ڈیجیٹلائزیشن ہے؟
یہ سہولت ہے یا ایک اور عذاب؟
کیا PCB اور TCS واقعی عوام کو آسانی دینا چاہتے ہیں، یا بس انہیں خواری میں ڈال کر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ "انتظامات بہت سخت ہیں"؟
یہی دقیانوسی سوچ ہمیں ترقی نہیں کرنے دیتی۔ یہاں ہر معاملے میں غیر ضروری پیچیدگیاں ڈال دی جاتی ہیں، اور عوام بھی اس کو تقدیر سمجھ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ کیا ہم کبھی اس "بیوروکریسی کے وائرس" سے آزاد ہو سکیں گے؟ یا پھر ہمیشہ کی طرح ہمیں استعمال کیا جاتا رہے گا؟
مگر میں نے یہ بھی دیکھا ہے
یہ رسیدیں جمع کرنے کا ہوکا شاید ہماری قوم کی سرشت میں شامل ہو چکا ہے۔ ایک سیدھے سادے QR کوڈ کو بھی "صحیح" پرنٹ کرانے کے لیے خوار ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے! مجھے یاد ہے کہ جب جنوبی افریقہ نے 2021 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا، تب بھی یہی بکھیڑا تھا۔ لوگ اپنے QR کوڈز کو "درست" پرنٹ کرانے کے لیے مشرق سینٹر جا رہے تھے، تاکہ وہ اسکین ہو سکے۔ یہ کونسی دقیانوسی سوچ ہے؟ QR کوڈ میں ایسی کوئی حد بندی نہیں ہوتی، یہ ایک ڈیجیٹل سسٹم ہے، نہ کہ کوئی قدیم زمانے کی مہر!
میں ہر روز بینک میں چیکس پر QR کوڈ کی ویلیڈیشن دیکھتا ہوں، جہاں بس لیزر کو ہلکی سی جھلک ملے، تو ڈیٹا فائل میں منتقل ہو جاتا ہے۔ پھر بھی، پاکستان جیسے ملک میں ایک سادہ QR کوڈ بھی اتنا بڑا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ QR کوڈ اسکین نہیں ہوتا، اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو خواری کی لت لگ چکی ہے! ہمارے لوگ رسیدیں جمع کرنے اور لائنوں میں لگنے کو "اصل سسٹم" سمجھتے ہیں، جبکہ اصل ڈیجیٹل ترقی اس کے برعکس ہے۔
یہی "کاغذ پر اندھا اعتماد" ہے جو ہمارے سسٹم کو پیچھے لے جا رہا ہے۔ ہم آج بھی فزیکل کاغذی ثبوت کے بغیر سچ کو سچ ماننے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک ہاتھ میں پرچی نہ ہو، ہماری قوم کو سکون نہیں آتا۔ ڈیجیٹل انقلاب آیا، مگر ہم اب بھی TCS کے چکر لگانے میں ہی اپنی شان سمجھتے ہیں!
ٹھپہ
پاکستانیوں کی ٹھپہ سے محبت اور کاغذی ثبوت کے بغیر نہ ماننے کی ضد مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی۔ میرے سامنے کی مثال لے لیں—میرے اپنے گھر کے K-Electric کے بل کا معاملہ۔ میں نے بل کی ادائیگی آن لائن کی، مگر پھر بھی ٹھپہ کے بغیر کسی کو یقین نہیں آیا! Due date 30 تاریخ تھی، مگر آج 5 دن گزر چکے ہیں، نہ K-Electric کی ایپ پر کوئی اپڈیٹ، نہ کسی بینکنگ ایپ پر "Payment Done" کا پیغام! یہ کونسا جدید نظام ہے جو خودکار بینکنگ کے نام پر بھی سست روی کا شکار ہے؟
یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ manual banking کو متبادل کے طور پر رکھیں، مگر خودکار بینکنگ کو مکمل طور پر اختیار تو کریں! مگر نہیں، ہماری قوم کو لائنوں میں لگنے اور ٹھپہ لگوانے کا چسکا لگ چکا ہے۔ اور جب یہی قوم غیر ضروری خواری اور وقت کے ضیاع پر اعتراض کرتی ہے، تو منافقت اور نوسر بازی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستانی کرنسی کو بھی تبدیل کیا جا رہا ہے، کیونکہ بہت سے "ایماندار" پاکستانیوں نے کالے دھن کو روپوں کی شکل میں گھروں میں چھپا رکھا ہے۔
یہ سب دیکھ کر مجھے اللہ کا وہ فرمان یاد آتا ہے:
"جیسی رعایا ہوگی، ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کیے جائیں گے۔"
اور میں یہ حقیقت اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں۔ یہی وہ قوم ہے جو خود دھوکہ دیتی ہے، پھر حکمرانوں سے شفافیت کی امید بھی رکھتی ہے۔ اپنی بددیانتی کو نظرانداز کر کے، صرف دوسروں کو کوسنا ہماری قومی عادت بن چکی ہے!