Search me

Arrogance لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Arrogance لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

صرف اور صرف رمضان کا با برکت مہینہ ہی کیوں؟

میں یہاں بغیر کسی بکواس کے صرف ایک بات کہوں گا، کہ کیونکر پاکستان میں مذہب کو ایسا مذاق بنایا جارہا ہے؟ مانتا ہوں کہ رمضان ہمارے لئے قدرے اہمیت کے حامل مہینہ ہے، مگر ایک مستقل مزاجی کے تناظر میں بات کروں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک حلقے میں ۳۰ دن کا روزہ جبکہ پاکستان میں ۲۹ دن کا روزہ، اور یہ بیماری اگر چہ ہے تو صرف رمضان کے مہینہ میں کیونکر ابھرتی ہے؟ 
جبکہ بھارت، بانگلادیش میں عید پرسوں ہوگی، تو یہ کیسے ممکن ہے، کہ صرف رمضان کے مہینے میں چاند کو ایسا کنٹرورشل بنایا جارہا ہے، اگر بڑی پکچر میں دیکھیں تو پاکستان اسلام سے ہے، اسلام پاکستان سے نہیں، ہمیں اپنی حیثیت یاد رکھنی چاہئے، کیا عید منانے میں اتنے اتاولے ہوگئے ہیں، کہ بقایا ۹ مہینوں میں اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے، کہ کونسا مہینہ ۲۹ کا ہے، اور کتنے ۳۰ کے، اس کا حساب صرف وہ لوگ رکھتے ہوں گے، جن کے گھروں میں گیارہویں شریف منائی جاتی ہے، تو ایسے میں ایسے کنٹرورشل مہینوں بنایا جارہا ہے۔

In the long run 

یہ میرا ذاتی ذاویہ ہے، جہاں مذہب کو سائیڈ لائن کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، اور ایک منظم کوشش کے تحط لوگوں کو مذہب سے detract کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس وقت جو millinials ہیں، وہاں تک تو بات صحیح ہے، مگر اصل بات وہاں سے کھڑی ہوتی ہے، جب آج کی Gen Z جب شوہر بیوی اور رشتہ اجدواج میں ملبوس ہوجائیں گے، تو جب یہ چھوٹی سوچ والی جنریشن سے کھل کر manupulation کری جارہی ہے، کیونکہ یہ جنریشن بہت جلدی manupulated ہوتی ہے، کیونکہ یہ لوگ بہت شارٹ سائیٹڈ ہوتے ہیں، bigger picture دیکھنے کی ان کی قابلیت نہیں ہے، تو ایسے میں already میں اپنی آنکھوں کے سامنے ہمارے بڑوں کی شارٹ سائیٹڈنس دیکھ رہا ہوں، ایسے میں مزید بڑے ہوجائیں گے، تو برائی مزید پھیلے گی، مگر بحیثیت معاشرہ ہم ویسے بھی برائی کو بُرا بھی تو بالکل نہیں سمجھتے، تو ایسے میں کوئی بعید نہیں کہ آگے مزید برائی بڑھے گی۔





I can be contacted on my handler
Responsive advertisement
Best WordPress Hosting

A bit different post than my usual blog posts, but...


میں زیادہ تر یہاں غصہ دکھا رہا ہوتا ہوں، مگر آج ایک چیز جو میرے ایک انڈین دوست، جو میری طبیعت سے آشنا ہے، کیونکہ مجھے ۲۰۰۵ سے یعنی اس وقت جب ہم Orkut استعمال کیا کرتے تھے، تو اس کی وجہ سے وہ میری پسند اور نا پسندیدگی کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے، کیونکہ ویسے بھی جب بھی کوئی انڈین مووی کا انسٹرومنٹل کیا پھر Karaoke version نکلتا ہے، تو اس نے ہمیشہ کی طرح میرے ساتھ شئیر کیا، اور ٹھیک اسی طرح آج ہی کے دن ایک لنک میرے ساتھ شئیر کیا، جس میں موجودہ کرکٹ ورلڈ کپ کے انسٹرومنٹل میوزک میرے ساتھ شئیر کیا

یہاں مجھ جیسے بندے کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان skills کا فرق کھل کر عیاں ہوا

میں یہاں یہ بات اس لئے نہیں کررہا ہوں، کہ کہیں مجھے انڈیا سے ویوورز چاہئے، بلکہ یہ ایک طرح کی confession ہے کہ ۱۹۹۰ کے دور میں ہم کہاں تھے، اور اب کہاں بیٹھے ہیں، انڈیا کے ساتھ بھی ۱۹۹۰ کا دور بہت سخت تھا، مگر اس قوم نے اس دور میں اپنا metal  دکھایا، جبکہ یہاں ہم سیاسی پناہ گزین بن چکے ہیں۔

Getting back to Instrumental

مجھے یہ میوزک آڈیو میں convert کرنی پڑی، کیونکہ ٹیلی وژن رکارڈنگ تھی، مگر جب آڈیو میں تبدیل کیا، تو جب اس میوزک میں جو ستار کا استعمال، violin کا استعمال، اور ماڈرن انڈین ریپ میوزک دکھایا گیا ہے، کیونکہ انہوں نے یہ ٹیلنٹ نا صرف اپنے پاس develop اور groom کیا، بلکہ accordingly promote بھی کیا، پرانی بالی ووڈ مووی میں جیسا دکھایا جاتا تھا، اس کے مقابلے میں ان لوگوں نے اپنی product promotion اور product placement کس پلاننگ کے ساتھ کی ہے، بیشک ہمارے competitor ہیں، مگر بات ماننے والی ہے، کہ they are at par comparison to us 

اس کے مقابلے میں ہم اپنے برینڈز کو کس طرح تذلیل کرتے ہیں

میں نے اسی وجہ سے اپنا Twitter کچھ ٹائم کے لئے suspend کیا ہے، کیونکہ جس طرح کی غلاظت وہاں چل رہی ہے، اور جس طرح پاکستان کا مذاق ہم پاکستانی خود بنا رہے ہیں، بلکہ انڈینز کو خود موقع دے رہے ہیں کہ آ بیل مار مجھے، تو کیا انڈینز کو نفلوں کا ثواب مل رہا ہے، کہ وہ فائدہ نہیں اٹھائیں؟ ہم پاکستانی بن کر سوچیں گے؟

موجودہ کرکٹ ورلڈ کپ اور پاکستان کی product placement

کیا ہم نے اس طرح چیزوں کو دیکھنے کی کوشش کی کہ اس طرح کی غلاظت کرنے سے ہم پاکستان کو دنیا میں کیسا دکھا رہے ہیں؟ ہمیں اپنے megalomaniac mindset سے باہر نکل کر سوچنا ہوگا، کہ ۱۹۹۰ کے بھارت سے آج کا بھارت دیکھو تو اس وقت بھارت ڈیفالٹ ہونے پر تھا، اور آج چاند کی ڈارک سائیڈ پر پہنچ چکا ہے، اور یہاں ہم آج بھی تحقیق کرنے کے بجائے، تعویذ جادو وغیرہ پر لگے ہوئے ہیں، as a society اگر ہماری سوچ اتنی گری ہوئی ہے تو جیسے پرویز مشرف نے ایک بات کہی تھی، کہ پاکستان کا خدا ہی حافظ، کیونکہ بات یہاں کرکٹ کی نہیں، as a nation سوچنے کی ہے، کہ کیا ہم نے پاکستان کے بارے میں کبھی کچھ سوچا ہے؟ پاکستان کو فائدہ پہنچانے میں ہمارا اپنا ہی فائدہ ہے، چیزیں ہمارے لئے سود مند ہو جائیں گی، 

پے پال پاکستان میں کہاں ہے؟

چلیں تھوڑا پاکستانی بن کر سوچتے ہیں۔ انڈیا میں UPI ہے جو ان کا alternate ہے towards پے پال، کیونکہ ان کی نیشنل پالیسی رہی ہے کہ India Only اور India Priority، تب ہی ہم چاہے جتنا بھی ان کا مذاق اڑالیں، مگر آج اپنے خود کے ملک میں گاڑیاں بنا رہے ہیں، جبکہ ہم اسمبلی لائن سے آگے نہیں پہنچ سکے، کیا ہم نے ایسا کوئی کلچر اپنے معاشرے میں پروموٹ کیا؟

ہمارے پاس ایزی پیسہ اور جاز کیش ہے

مگر کیا ان کا وہ استعمال ہم اپنے پاس کررہے ہیں، جو انڈیا اپنے homegrown app یعنی UPI کے ذریعے ناصرف انڈیا میں بلکہ قطر وغیرہ میں رہنے والے انڈینز جن کو عرف عام میں این آر آئی کہا جاتا ہے یعنی non residing Indians ٹھیک اسی طرح جیسے ہمارے پاس Overseas Pakistani کی term کو استعمال کیا جاتا ہے، بیشک مودی ہمارے لئے جیسا بھی ہو، اپنے ملک کے لئے جس طرح کام کررہا ہے، کیا ہم میں وہ قومی غیرتی ہے کہ اتنا کام کریں؟
بات صرف ایزی پیسہ یا جاز کیش کو پروموٹ کی نہیں ہے، بات اصل یہ ہے کہ جس طرح انڈینز اپنے ملک کے لئے کام کرتے ہیں، کیا اسکا چند فیصد بھی ہم نے پاکستان کے لیے کیا؟ ہمارے پاس آج کے زمانے میں بھی امپورٹڈ آئٹم استعمال کرنا فخر کی بات ہے، 

بحیثیت بینکر میں یہ چیز نوٹ کر رہا ہوں

آج کی تاریخ میں اگر آپ پاکستان میں کسی کو کال کریں، تو یا تو Pinktober کی discussion ہورہی ہوتی ہے یا پھر یہ کہ اسٹیٹ بیک آف پاکستان یا کوئی بھی organization آپ سے آپ کی تفصیل پوچھنے کا مجاز نہیں، اور بینکر ہونے کے ناطے میں نے خود یہ چیز نوٹ کی ہے، کہ لوگ اس معاملے میں لاعلم ہیں، مگر لوگوں کو ان کی لاعلمی سے لوٹا جارہا ہے، کیونکہ ہماری اکانومی کا یہ حال اسی لئے ہوا ہے، کیونکہ اپنے آپ کو دنیا کے ساتھ align نہیں کیا، skills deficiency کا اسٹینڈرڈ ہمارے پاس اور دنیا میں اتنا ہے، کہ چلیں انڈیا کی بات نہیں کرتے، ایران کی بات کرتے ہیں، وہاں بھی ہم سے زیادہ آن لائن بینکنگ استعمال کی جاتی ہے، جبکہ یہاں ابھی بھی اسکیل پنسل والی بینکنگ کی جارہی ہے، جہاں audit objection بول کر کچے رجسٹر بنوائے جارہے ہیں، اور paperless ہونے کے بجائے paper-full usage banking کررہے ہیں، جبکہ آج کل آن لائن بینکنگ پورٹل میں scheduled banking، جیسے سہولیات آچکی ہیں، مگر اس کے باوجود یہاں ابھی بھی جھگڑے ہورہے ہیں کہ اسٹمپ 95% dark ہونے کے بجائے 80% dark ہوئی تو دوبارہ اسٹمپ لگوارہے ہیں، جبکہ ٹرانزیکشن نمبر جنریٹ ہوچکا ہے، مگر اسٹمپ پکی ہونی چاہئے، جب یہ ہماری اپنی صورتحال رہے گی کہ بحیثیت قوم ہماری intent ہی نہیں ہے کہ آکے کی proactive approach رکھیں، بلکہ ٹانگ کھینچنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے (شرم کے ساتھ)

میں اپنی تعریف نہیں کررہا ہوں

مگر میں دو کارڈ استعمال کرتا ہوں، دو الگ بینک کے، ایک یونین پے ہے دوسرا پے پاک، ایک Chinese ہے جبکہ دوسری پاکستانی کمپنی، میں نے خود استعمال کرکے دیکھا کہ یونین پے والی ایپ کے کیمرے کے ذریعے پیٹرول پمپ پر موجود کیو آر کو استعمال کر کے KEENU کی رسید بھی حاصل کی، بولنے کا مقصد یہی ہے کہ ہمیں شعور ہی نہیں ہے کہ دنیا کہاں نکل چکی ہے، انٹرنیشنل پیمنٹ سسٹم، یعنی VISA, MasterCard, Union Pay اور Pay Pak جو کے اس وقت پاکستان میں استعمال ہونے والے پیمنٹ سسٹم ہیں، ان کا basic مقصد کیا ہے، کیا کبھی concept سمجھنے کی کوشش بھی کی، میں چلیں چاہل ہوں، آپ بہت عقلمند ہو، عقلمند ہو تو آگے دیکھو، وہی conformity biases میں پھنس کر کیونکر بیٹھ گئے ہو، اور نا صرف پھنس گئے ہو، بلکہ اسی کنواں میں رہنا پسند کرتے ہو۔

مجھے پتا ہے کہ 

ان سب کا ری ایکشن اچھا نہیں آنا ہے، کیونکہ ہماری سوسائٹی اس طرح کی بن چکی ہے، جہاں دلچسپیاں ختم ہوچکیں ہیں تو اس طرح کی leg pulling activities کو انٹرٹینمنٹ کت طور پر لیا جاتا ہے، جو کہ high time to recognize ہے کہ we do require to upgrade۔ میں یہاں کسی بھی طرح سے apologetic نہیں ہوں، کیونکہ بحیثیت پاکستنی، ہمیں یہ چیز acknowledge کرنی چاہئے کہ fault lies within us جب تک ہم یہ چیز identify نہیں کریں گے کہ ہم صحیح نہیں ہیں، چیزیں صحیح نہیں ہوںگی، اور گر ابھی بھی آپ کی یہی سوچ ہے کہ مجھے غلط ثابت کر کے آپ کو لائسنس مل رہا ہے go on your existing way تو یہ کوئی اچھی بات نہیں، میں اسی leg pulling pathetic طریقوں کے خلاف ہوں، کیونکہ ہم نے تمام دلچسپیوں سے اپنے آپ کو عار کر دیا ہے، again دنیا کہاں جارہی ہے اور اس کے برخلاف ہم کہاں ہیں۔جب بنی اسرائل اپنے رب سے دور ہوئی تو اللہ نے ہم مسلمانوں کو لائے، اب جب ہم مسلمان ہی ایسے ہوگئے ہیں، تو کیا یہی ممکن نہیں کہ اللہ تعالی ہمارے مقابللے میں کسی اور قوم کو پیدا کردے؟ کیا ہم نے ایسی کوئی کثر ابھی تک چھوڑی ہے کہ کہہ سکیں کہ ہم ابھی بھی اللہ کی آخری اقوام میں ہیں؟ جبکہ scientifically یہ بات proven ہے کہ سائنسدانوں نے ایک بگ بینگ کی آواز سنی ہے، (واللہ اعلم، اس میں کتنی صداقت ہے) مگر اگر ایسی کوئی بات ہے بھی تو اس بات کی امید نہیں کہ ایک نئی civilization کی development دوبارہ سے شروع ہوچکی ہے؟؟؟

دنیا ہمارے قرآنی آیات کو decipher کر کے یہاں پہنچ چکی ہے، جبکہ ہم ابھی بھی اس احساس محرومی میں موجود ہیں کہ کہیں ہم سے آگے نا نکل جائے، 
The Big Bang may have been accompanied by a shadow, "Dark" Big Bang that flooded our cosmos with mysterious dark matter, cosmologists have proposed in a new study. And we may be able to see the evidence for that event by studying ripples in the fabric of space-time.

The Dark Big Bang

In their paper the researchers explored what a Dark Big Bang would look like. First,  they hypothesized the existence of a new quantum field — a so-called "dark field," that is necessary to allow dark matter to form completely independently.

In this new scenario, the Dark Big Bang only gets underway after inflation fades away and the universe expands and cools enough to force the dark field into its own phase transition, where it transforms itself into dark matter particles.

زحل جو مریخ اور مشتری کے بعد اگلا سیارہ ہے، وہاں سے یہی 
زمین جس پر حکومت کے دعویدار ہیں، ایسی دکھتی ہے، پس تم
اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
سو ایسے میں کیا ہم صرف اس نقطہ کی مانند زمین پر "قبضہ" کرنے کے لیے بیٹھے ہویئے ہیں یا پھر اشرف الإمخلوقات  کی طرح تحقیق کرنی چاہئے کہ ہمیں کیسے زندگی گزارنی چاہئے، کیا اس طرح جہالت سے بھر پور حرکتیں کر کے ہم یہ prove کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اتنے عقلمند اور ہر فن مولا ہیں؟



feel free to support me via Dominance Pakistan

Support me on my ARTMO refers

I can be contacted on my handler
Responsive advertisement
Best WordPress Hosting

After conclusion of Australia v Pakistan game | Cricket World Cup 2023

میں چونکہ کراچی سے تعلق رکھتا ہوں، اسی لئے میں جو بھی کہوں گا، کراچی کے scenario میں کہوں گا، مگر بات یہی ہے کہ narrow mindedness جو کہ ہمارے معاشرے میں موجود ہے، کیونکہ again میں یہی کہوں گا کہ میرے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہے جہاں conformity biasness دکھائی گئی بلکہ رشتہ داروں کے سامنے مجھے بے عزت کیا گیا کہ بڑوں کے مقش قدم پر چلنے کے بجائے اپنی مرضی چلا رہا ہے۔

آپ نے ہمیں کونسا اچھا معاشرہ ہمیں فراہم کیا ہے؟؟؟

میرا یہی سوال ان کے ساتھ ہوتا ہے جہاں مجھے سوالات کے جواب دینے کے بجائے شراب سے وضو کرنے کے بعد اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہوتے ہیں، اگر آپ واقعی میں ٹھیک ہیں، تو کیا ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، کیا وہ قابل زکر ہے؟

ٹھیک اسی طرح پاکستانی کرکٹرز کی بات کریں

تو میچ میں narrow mindedness ٹھیک اسی طرح سے جیسے ہمارے بڑوں نے ہمیں پروگرام کیا ہے، وہی چیز ہم یہاں پر دیکھ رہے تھے، کیونکہ ان کو یہ چیز کی تمیز نہیں ہے کہ اگر پلان A آپ کو ٹھیک نہیہں گیا ہے، تو پلان B اس چیز کے لئے ہوتا ہے کہ کیسے واپس پلان A کی جانب جا سکیں، جبکہ پلان C متبادل پلان ہوتا ہے جب in case پلان A کی جانب جانا ممکن نہیں ہو، ایک sane انسانی دماغ چلتا ہے، مگر یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، کیونکہ ہر کوئی اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں، اور ایک scapegoat کو تلاش کیا جارہا ہے، 
ٓ


Accountability aspect

جیسے میں نے اپنے کرکٹ بلاگ پر یہ الفاظ کھل کر استعمال کئے ہیں کہ نالائقی ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھری گئی ہے، کیونکہ میں تھوڑا ہمارے اوقات یاد کراؤں کہ دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے چکر میں ہم یہ بھول جارہے ہیں کہ ہم بھی کہیں نا کہیں غلط ہیں، کیونکہ accountability aspect ہماری فیلملیز میں ہی موجود نہیں، ہر کوئی اپنی دیڑھ انچ کی مسجد بنانے میں مصروف ہیں، میرا یہ کہنا ہے کہ ہماری grace کہاں گئی؟ اگر آپ اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنا ہے اور چاہتے ہیں کہ آپ کو فالو کریں، تو پہلے کوئی مثال تو پیدا کریں، کیا آپ نے اپنے آپ کو اپنی offspring کے لئے مثال بنائی؟ میں دوبارہ اپنے ساتھ ہوا واقعہ نہیں دہراؤں گا مگر کیا آپ نے ہمارے لئے مثالی معاشرہ پیش کیا ہے؟ تو جب آپ نے مثالی معاشرہ ہمارے لئے نہیں چھوڑا ہے تو ایسے میں ہمیں تو کچھ کرنے دیں، کیوں ہمارے مستقبل کو ایسے داؤ پر لگائے ہوئے ہیں، جب ہم ان بڑوں سے سوال نہیں کرسکتے کیونکہ ہمیں سوالات کے جوابات ملنے کے بجائے قتل کے مقدمے ہونے لگ جائیں  تو ہمارا معاشرہ اسی طرح سے گلے سڑے گا، مگر جب ہمارا معاشرہ ہی ایسے چل رہا ہے تو ایسے میں کرکٹ ٹیم سے کیا امید رکھیں؟؟؟

Accountability کے ناقص اقدام کی وجہ سے آج internationally ہمیں مذاق بنایا جارہا ہے

یہ ایک انڈین یوٹیوب چینل پر پاکستان کو discuss کیا جارہا ہے، جہاں ہمارے so-called ego جو کہ کسی کام کا نہیں، کیونکہ اپنے آپ کو ذاتی طور پر صحیح ثابت کرنے کے چکر میں آپ نے ایک ایسی ذہنیت کو پروموٹ کردیا ہے کہ اب یہاں سے یہ لوگ ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں، مگر یہ موقع ہم نے ان کو فراہم کیا ہےکیونکہ اپنے آپ کی ego  کو اگر پاکستان کے ساتھ لنک کرتے تو صورتحال یہاں نہیں پہنچتی، پہلے پہل رمیز راجا کے خلاف propaganda شروع کیا، اور ان کا مذاق بنایا، اب دیکھیں، وہی رمیز راجا انڈیا میں کمنٹری کررہے ہیں، ٹھیک اسی طرح اب انڈین میڈیا پر discuss یہ کیا جارہا ہے کہ بابر اعظم کو کیپٹن رہنا چاہئے کہ نہیں، اور لیڈر شپ کی گفتگو کی جارہی ہے، 

میں یہاں ان سے disagree کرتا ہوں

کیونکہ میں یہاں consistency کی بات کروں گا، Graeme Smith فارمولا بولوں گا، کیونکہ consistency کی اہمیت ہوتی ہے، کیونکہ consistent leadership کے ساتھ ساتھ uniformity ضروری ہوتی ہے، جبکہ یہاں recent past میں رمیز راجا، نجم سیٹھی اور اب موجودہ سیٹ اب ذکأ اشرف، اور یہ میں ۲۰۲۲ سے لے کر اب تک کی بات کررہا ہوں، تو کیا ایسے میں ہم پاکستان کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟ پاکستان کہاں گیا؟؟؟

میں پلئیر بیک اپ کی بات کررہا ہوں

یہ چیز ہمارے معاشرے میں insecurity موجود ہے، اس سے لنک ہے، کیونکہ ایک insecurity کی وجہ سے ہم نے پاکستان کا نام خراب کردیا ہے، جیسے وکرانت گپتا نے ناریل پھوڑنے کے لئے اسامہ میر کا نام استعمال کیا کہ اس کو استعمال کیا جائے گا، اب دل دل پاکستان کی excuse کا اس کا مذاق اڑایا جارہا ہے، ٹیم اور پاکستان کے نام کا مذاق بنادیا ہے، میرا یہی سوال ہے کہ sensitivity کو کب تک for-granted لیا جائے گا؟؟؟

ہم پاکستانی اور ہماری شناخت

مجھے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئے مگر اس وقت جس era میں موجود ہیں، یہاں mind programming جس طریقے سے کی جارہی ہے، جیسے ابھی پی ایس ایل میچز کے دوران میں نے عورتوں کے exhibition matches کی پروموشن کے لئے ایک particular hashtags استعمال کیا گیا ہے، جو کہ نواز شریف کی خواہش بھی تھی، یعنی #LevelPlayingField،

اب کہنے کی بات ہے

اب میری یہ بات کہنے کے بعد کچھ لوگوں نے یہ بات ضرور کرنی ہے، کہ میں اپنا ذہن کھول کر رکھوں، مگر psychologically اگر ہم پاکستانی psyche کو مدنظر رکھیں، تو آہستہ آہستہ سے لوگوں کو کیا descenticized نہیں کیا جارہا؟ کیا ایسے hashtags استعمال کر کے ایک common ground نہیں بنایا جارہا؟ کیا ایسی چیز پہلے پاکستان میں نہیں ہوئی؟

کچھ زیادہ دور نہ جائیں

کچھ عرصہ پہلے عورتوں کے sanitary napkins کی پروموشن پاکستان میں کی گئی، تو اس کے لئے water-test کیا گیا، as usual پہلی بار یہی پاکستانی عوام کا ری ایکشن اتنا سخت تھا، جس کی بناہ پر اس کمپنی نے اس پروڈکٹ کو پروموٹ کرنا بند کردیا، مگر اس کے بعد کچھ وقت بعد دوبارہ جب کیا گیا، تو پچھلی بار کے comparatively کم ری ایکشن آیا تھا، اور اس کے بعد ان لوگوں کی مارکٹنگ strategy ایسی تھی، کہ لوگوں کی سوچ کے ساتھ tweaking کی جائے، جس کی وجہ سے وہ کمپنی 3rd time lucky رہی، کیا یہی ممکن نہیں کہ یہی چیز آج پاکستان میں دوبارہ سے کی جارہی ہے؟

ویسے بھی level playing field ایک ایسی ٹرم ہے

کیونکہ ہماری mentality جس طرح کی ہے، ایک طرح سے 3 Idiots میں Chatur کا character کی طرح ہیں، جہاں اس مووی کے اسٹارٹ میں بتایا گیا تھا، کہ امتحان میں پاس کرنے کے دو طریقے ہیں، یکم خوب دل لگا کر پڑھیں؛ بصورت دیگر دوم دوسروں کو distract کرکے دوسری چیزوں میں involve کرا کر اپنے آپ کو اوپر لائیں، ٹھیک اسی طرح جیسے آج یعنی ۵ مارچ ۲۰۲۳ کو کراچی کنگز کی صورتحال ہے، جہاں یو ٹیوب پر کراچی کنگز کا مذاق اڑایا جارہا ہے، جہاں یہ کہا گیا ہے کہ زلمی اپنے آخری ۴ میچ ہار جائے، وغیرہ وغیرہ،  

وہی حال ہمارا ہے

کیونکہ ہمارے لوگوں کی impulsive mindset کی وجہ سے یہ چیز بھی ان کے ذہنوں میں موجود ہے، جو کہ ہمارے مذہب سے بالکل دور ہے، کہ دو غلط چیزیں ہوجائیں گی تو آگے چیزیں ٹھیک ہوجائیں گیں، چلیں مان لیتیں ہے کہ فی الفور تو چیزیں ٹھیک ہوجائیں، مگر ان سب چیزوں کا ripple effect کیا ہوگا، اس کو بھی مدنظر رکھیں، مگر یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، کیونکہ یہاں میں نے ایک چیز دیکھی ہے، کہ اگر میں کسی کے ساتھ disagree کررہا ہوں، تو ایسے میں میرے اوپر personal attacks start ہوجاتے ہیں، اور ایسے میں یہ سوچا جاتا ہے کہ اپنے غلط کو اس کو غلط ثابت کر کے صحیح کرسکتے ہیں، جو کہ بحیثیت مسلمان ہمیں اجازت نہیں ہے، کیونکہ میرے نذدیک یہ بےشرمی اور بے حودگی ہے، مگر جیسے میں نے پہلے کہا ہے کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے،

ابھی جو میں دیکھ رہا ہوں

یہ لائن جو بھی پڑھ رہا ہے، وہ یہی کہے گا، کہ یہ حاجی ثنا اللہ ہے، بھائی! میرا یہ باتیں کہنے کا صرف مقصد یہی ہے کہ بے شک میں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوں، مگر جوجلد بازی کا مظاہرہ ہمارے لوگ دے رہے ہوتے ہیں، جیسے ٹریفک میں بھی وہی ٹرم یعنی لیول پلئینگ فیلڈ کے موافق چلتے ہوئے ٹریفک میں wrong way یعنی غلط راستہ استعمال کرتے ہیں، without knowing کہ ان سب کا repercussions کیا ہوسکتے ہیں، کیونکہ پڑھے لکھے لوگ ایسی صورتحال میں یہ بھی دیکھتے ہیں، کہ ان کے آج کے ایکشن کا کل کیا ری ایکشن ہوسکتا ہے، مگر معذرت کے ساتھ جیسے کراچی کی slang language میں بات کروں، جلد بازی میں لیا گیا ایکشن ایک دو بار فائدہ دے سکتا ہے مگر every day is not a Sunday، 

میں صرف یہی بات کررہا ہوں

ابھی بھی ہمارے لئے موقع ہے کہ مسلمان بن کر سوچیں، آپ کو سہولت چاہئے، تو سہولت کے لئے کم سے کم اخلاقی اقدار کو مدنظر رکھیں، respect the law کیونکہ جب تک عام عوام rule of the law کو respect نہیں دیں گے، تو ایسے میں معاشرے میں یہ ٹسل بازی چلتے رہے گی، کیونکہ یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ جیسی عوام ہوگی، ویسی ہی حکمران، تو ایسے میں کیا ہماری اوقات ہے کہ اللہ تعالی کے وعدے کے خلاف جاسکتے ہیں؟ کیا ہماری یہ اوقات ہے، کہ مان لیا کسی کو imposingly آپ نے منا لیا کہ آپ صحیح ہو، اور وہ صحیح نہیں ہے، مگر کیا اس بات کو make sure کرسکتے ہیں، کہ  وہ بندہ ہماری دل سے عزت کرے گا؟ یہ چیز اللہ تعالئ نے ہمیں بحیثیت مسلمان یہ بات بتائی ہے، جس کو یکسر ignore کر کے ہم اس domain میں اس دائیرے میں enter ہورہے ہیں، جسے narcissistic disorder syndrome  کہتے ہیں، 

یہ کیا بلا ہے؟

اس معاملے میں، میں صحیح بندہ نہیں ہوں، مگر ایک common laymen term میں بات کروں تو ایک ایسی feeling ہے جہاں سامنے والا بندہ دوسرے بندے کو نیچا دکھا کر سکون ملتا ہے، جو کہ feeling حیوانوں میں بھی ہوتی ہے، تو ایسے میں انسان ہونے کے ناطے کیا یہ ہمیں suit کرتا ہے کہ انسان ہوتے ہوئے ہم جانوروں کی طرح ایکٹ کریں؟ یہی چیز معذرت کے ساتھ میں نے خاص طور پر کراچی کے معاملے میں دیکھا ہے، مگر یہ بات بھی ماننے کی ہے کہ صرف اور صرف کراچی میں نہیں، بلکہ یہ attention seeking syndrome پورے پاکستان میں ہے، جہاں اپنے آپ کو معلوماتی دکھانے کے لئے بےشرمی کی کسی بھی حد پر جاسکتے ہیں، 


The Ripple Effect/Snowball effect/Sandstorm effect

یہ تین الگ الگ effects ہیں، مگر ان کے impacts ایک دوسرے کے ساتھ inter-related ہیں، کیونکہ ریپل effect یعنی کسی پانئ کے پونڈ میں اگر ہم پتھر پھینکتے ہیں، تو اسکی لہریں جو نکلتی ہیں، اسکو ripple effect کہتے ہیں، کیونکہ ہم نہیں جانتے ہیں کہ ہماری بات کا کیا impact ہوسکتا ہے، تو ایسے میں بڑے بزرگوں کی مانیں تو زبان سے الفاظ اور بندوق سے گولی نکلنے کے بعد نقصان کا ازالا کرنا قریباً ناممکن ہوتا ہے، تو کیا انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے لئے ضروری نہیں کہ حیوانیت دکھانے کے بجائے تھوڑا انسان بن جائیں؟؟؟

کیونکہ ہر بات کا کچھ نا کچھ ری ایکشن ضرور ہوتا ہے

اور معذرت کے ساتھ، ایک اتاولا شخص یا اتاولی عورت کبھی یہ بات سمجھ نہیں سکتا/سکتی۔۔۔

ہمارے رویے

یہاں میں ایک پاکستانی ہونے کے ناطے کہنے لگا ہوں، کیونکہ ہمیں پاکستانی ہونے کے ناطے اپنے آپ کو سیاسی جماعتوں کے ماتحت بننا پسند ہے،

میں ایسا کیونکر کہہ رہا ہوں؟

کیونکہ بات ترجیحات کا ہوتا ہے، جس کو ہم manipulate کرتے ہیں، کیونکہ سیاسی جماعتوں کو کراچی شہر کو اپنا ووٹ بینک بنانے میں مصروف ہیں، خود بتائیں، ن لیگ نے کراچی میں کیا کام کیا ہے؟ اگر ہم ان کی contribution جو پنجاب میں کی ہے، اس کو کراچی سے موازنہ کریں، تو نا کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔

ابھی پاکستان اور آسٹریلیا کی کرکٹ سیریز کا دوسرا میچ کراچی میں ہورہا ہے

اور معذرت کے ساتھ، as usual ہم کراچی کے نیشنل اسٹیڈئم کو خالی دیکھ رہے ہیں، مگر کیا ہم نے سوچنے کی کوشش کی ہے کہ ایسا کیونکر ہورہا ہے؟ کیونکہ ہمارے رویے ایسے ہوگئے ہیں، کہ دیکھا جائےگا، consequences کا سوچنا نہیں ہے کہ ہمارے اس ایکشن کا کیا ری ایکشن ہوگا، کیونکہ میں یہاں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ کراچی کو خالی کرو، کیونکہ شہر لوگوں کے رہنے کے لئے ہوتے ہیں، جبکہ یہاں ہماری سیاسی جماععتیں، جن کو پاور ہم عوام ہی نے دی ہے، انہوں نے کراچی کو اپنا ووٹ بینک بنا لیا ہے، کیونکہ جمہوریت میں یہ چیز ہے کہ ووٹ شہر سے دیا گیا ہے، اور یہاں سیاسی جماعتوں نے بجائے نئے شہروں کو بنائیں، کراچی کو رگڑے جارہے ہیں، جہاں facilities بنانی چاہئے تھی، وہاں یاد گار شہدہ کے نام پر اپارٹمنٹ بنے ہوئے ہیں، جن کا انجام recently وہی پلازہ کی مانند ہو گا جن کا ابھی recent time میں demolition ہوا ہے، نام نہیں لوں گا، مگر ہماری سیاسی جماعتوں نے جس طرح کراچی کو over populate کردیا ہے کہ جتنا یہ شہر اپنے وہائشوں کو سہولت فراہم کرسکتا ہے اس سے زیادہ populate کردیا ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ صرف کام کرنے کراچی آتے ہیں، مگر نا کراچی کو own کرتے ہیں، اور نا اس بات کی ڈیمانڈ کرتے ہیں، کہ کراچی کیوں بھیج رہے ہو، ہمارے گاؤں کے قرب میں نوکریاں دی جائیں، مگر ہماری ترجیحات میں ملک اور شہر دور کہیں ہے پہلے اپنی ترجیحات معنی رکھتی ہیں، اور اسی وجہ سے اب کراچی اتنا congested ہوچکا ہے کہ کراچی میں انٹرنیشنل میچ دیکھنے کے لئے ۳۰۰ روپے خرچ کرنے کے لئے بھی کوئی تیار نہیں، جبکہ یہی لوگ پنجاب میں vacation منانے کے لئے میچز کو enjoy کرتے ہیں، جبکہ کراچی میں اتنا بڑا گیم ہورہا ہے، اس کو دیکھنے کے لئے کسی کے پاس ٹائم نہیں، کیونکہ کراچی کو اتنا congested جو کردیا ہے۔

مسلمان ہونے کے ناطے

میں زیادہ لمبی نہیں کروں گا، مگر مسلمان ہونے کی ہم نوٹنکی کرتے ہیں، کیونکہ ہم سب اگلے درجے کے منافق ہیں، کیونکہ ہمیں اپنی فکر ہے مگر ملک کا نہیں سوچنا ہے، کیونکہ ملک ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے، اور یہاں بھی منافقت شامل ہے کیونکہ بات چیت کی حد تک تو ہم پاکستانی ہیں مگر جب بات ہماری اور ملکی ترجیحات پر آتی ہیں، تو ایسے میں منافقت میں ہم اپنی ترجیحات دکھاتے ہیں، اور نتیجے میں یہی ہوتا ہے جو اس وقت کراچی میں ہورہا ہے، کیونکہ کراچی میں اپنی پاور دکھانے کے لئے اتنے اندھے ہوچکے ہیں، کہ کراچی کا ماحول خراب کرنے میں بھی تیار ہیں، 

خود دیکھیں

ایک تو rules and regulations کی application کا فقدان ہے، rules بالکل موجود ہیں، مگر وہ کیسے اپلائی ہوں گی، اس کا فقدان ہے، جبکہ یہی لوگ جب پاکستان سے باہر جاتے ہیں تو انسان کے بچے بنے ہوئے ہوتے ہیں، جبکہ جیسے ہی قائد اعظم انٹرنیشنل پر لینڈ ہوتے ہیں، مادر پدر آزاد ہوجاتے ہیں، کیونکہ قانون کی ایپلیکیشن اتنی مشکل ہے کہ گناہگار کو گناہ کا مرتکب کرنے میں ۲۰، ۲۰ سال لگ جاتے ہیں، کیونکہ as usual کچرے کو کراچی میں ووٹ بینک کے نام پر لا کر رکھ دیا ہے، اور قانون سیاسی جماعتوں کی رکھیل ہے، کیونکہ ہم عوام نے اپنی قبر کھودنے کا خود ارادہ کردیا ہے، 

شعور کی کمی

کیونکہ میرا یہی ماننا ہے کہ ہم عوام میں شعور کی کمی ہے اور شعور کا تعلق پڑھائی سے بالکل نہیں ہے، مگر جیسے اوپر میں نے لکھا ہے کہ ہمارے رویے ایسے ہوچکے ہیں کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا، اور ساتھ میں اس احساس کمتری کا مظاہرہ کہ ہمارے پاس پیسا ہے تو سامنے والے کو ہم نے خرید کر رکھ لیا ہے، ہمارے باپ کا خریدا ہوا نوکر ہے، میں ایک بینک میں کام کرتا ہوں، وہاں بہت دیکھا ہے کہ ایس او پی کی بات کرو کہ ایک وقت میں ایک بندہ کاؤنٹر پر رہے تو اتنی سی بات کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، پہلے میری ایک بات کا جواب دے دیں، ایسے میں بحث کر کے آپ کیا prove کرنا چاہتے ہو؟ خاموش اگر رہتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ کمزور ہیں، یا جواب نہیں دے سکتے؟ مگر خاموش اس لئے رہتے ہیں کیونکہ یہ ہماری تربیت ہوتی ہے، مگر یہ بات بھی یاد رکھیں کہ اگر کبھی یہ حرکتیں اور یہ trolling کسی نے escalate کردی، تو بات پولیس پر جاسکتی ہے، کیونکہ اگر کوئی آپ کو کاونٹر پر رش لگانے سے منع کررہا ہے، تو ایسے میں اگرچہ ٹکٹ کا سسٹم نہیں بھی ہے، تو ایسے میں کسی بھی حال میں آپ کاؤنٹر پر رش نہیں لگا سکتے ہیں، مگر معذرت کے ساتھ ہمیں جلدی اتنی ہوتی ہے کہ اپنا کام جلدی کرکے نکلنا چاہتے، جبکہ ایسی چیزوں کو پڑھاوا دینا اصل میں ہمارے character کی کمی ہے، ورنہ کیا وہ لوگ بیوقوف ہیں جو ٹکٹ نہیں ہونے کے باوجود خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں، حالانکہ ان کو بھی جلدی ہوتی ہے، مگر ایسی جلد بازی کی وجہ سے آپ ٹیلر کا نقصان کررہے ہو، کیا اس چیز کا ادراک ہے؟ اس کا تو ہمارا مذہب جس کے لبادے میں ہم کام چوری کرتے ہیں، میرے اپنے سامنے ایک واقعہ ہوا کہ ایک کسٹمر کو فارغ کر کے ٹیلر کیش سمیٹ رہا تھا، ایسے میں ایک اور کسٹمر آتا ہے اور ۵۰۰۰ کے کچھ  نوٹ کاونٹر پر پھینکتا ہے اور بولتا ہے کہ اس کو گن کر پرچی بناؤ، اب مسئلہ یہ ہوا تھا، کہ اس کا پرانا کیش اور اس کسٹمر کا کیش مکس ہوگیا اور ایسے میں جو رقم بنی تھی، ۱۵۰۰۰ کم تھی مگر اس میں ۱۵۰۰۰ زیادہ سے رقم کی سلپ بنادی، جو کہ شام میں جب balancing میں پتا چلی، جو کہ as usual ٹیلر کو اپنے خود کے پاس سے پیمنٹ کرنی پڑی، جس میں، میں نے اور اس برانچ کے آپریشن منیجر نے کچھ رقم ڈال دی تھی، مگر خود بتائیں، ایسی جلد بازی کا کیا فائدہ کہ جس کی وجہ سے ایک ٹیلر جو مشکل سے ۲۵۰۰۰ مہینے کے کماتا ہے، اور آفس کے بعد رکشہ چلاتا ہے، ایسے بندے کے لئے ۱۵۰۰۰ ایک ساتھ arrange کرنا، کتنی مشکلات کے ساتھ کی ہوگی، مگر ہم نمازیں پوری پڑھتے ہیں، نماز کے بعد حقوق العباد کے سوال پر خاموشی کے علاوہ کوئی جواب ہے؟ حالانکہ یہ چیز کو avoid کیا جاسکتا تھا مگر ایک نیا لڑکا، یہ چالاکیوں کو تھوڑی جانے گا۔ مگر یہ واقعہ بتانے کا مقصد یہی تھا کہ کتنے بڑے منافق بن چکے ہیں۔

ہماری عوام کا اتاولا پن

یہ میں ہمیشہ ہی کہتا رہا ہوں کہ ہم لوگ emotionally بہت ایکٹو ہیں، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ بہت سے لوگوں نے فوراً conclusion پر پہنچنا ہے کہ اس لڑکے کو کیا ہوا ہے ایسا کہہ رہا ہے بجائے اس کے کہ آکر پڑھیں کہ سامنے بندہ کہنا کیا جارہا ہے، اس کے بجائے ہم لوگ trollers والے ہجوم کے مانند بن رہے ہیں۔

پہلے یہ بتائیں کہ ٹرولنگ کرنے سے کیا سکون ملتا ہے؟

  • کیا ٹرولنگ کرنے سے آپ کو groove میں چڑھاؤ آتا ہے؟
  • کیا ٹرولنگ کرنے سے یا mock موک کرنے سے سامنے والا آپ کو وہ عزت یا respect دے گا، جو آپ سمجھ رہے تھے کہ آپ deserve کرتے ہیں؟
  • کیا ہر چیز میں اپنے آپ کو ـرکشہ ڈرائیورـ کی مانند ہر جگہ اپنی ٹانگ اَڑانے سے کیا آپ intelligent دکھائی پڑھتے ہیں، یا ہر چیز میں lime light میں موجودگی کیا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ قابل ہیں؟

آخر آج میں اتنا aggressive کیونکر ہورہا ہوں؟
گدھا کاری ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے

آج ایک کیس دیکھا، (میں کیس سے پہلے کچھ کہنا چاہ رہا تھا، مگر میں یہاں موک یا ٹرول نہیں کرنا چاہتا)، میرے ساتھ بلاوجہ کا بحث بازی کررہا ہے کہ نوٹ کیوں ایک جانب کررہا ہوں، ایسے ہی گنوں، اس سے پہلے میں آگے بڑھوں، میں بتادوں کہ میں آفس میں کیش ذمہ داری بھی دیکھتا ہوں، ساتھ میں دوسری ذمہ داریاں، جیسے ریپورٹنگ وغیرہ، تو اسی لئے میں نے یہ بات کہی ہے کہ میں کیش کی ذمہ داری بھی دیکھتا ہوں، تو ایسے میں ایک صاحب آئے اور مجھ پر پریشر ڈالنے لگ گئے کہ جلدی جلدی کروں، تو میں as usual پہلے نوٹوں کی اسکروٹنی، جس میں پہلے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ head count یعنی جتنے نوٹ موجود ہیں، وہ وہی رقم بن رہیں ہیں، جو ڈپازٹ سلپ پر موجود ہے، یا نہیں، تو وہاں پہلے مجھے ٹوکا، کہ گن کیوں رہے ہو، جب میں کہہ رہا ہوں، وہاں میں نے آرام سے ان سے کہا کہ سر یہ میرے لئے ضروری ہے کہ make sure رقم پوری ہے، تو جواب میں مجھے کہہ رہے ہیں، کہ ایسی کوئی ایس او پی موجود نہیں، جبکہ گلوبلی یہ right آفیسر کو دیا گیا ہے کہ وہ proper scrutiny کرے، کیونکہ آفسر کی assurity اور تصدیق ہر یہ رقم برانچ کے والٹ میں بند کیا جاتا ہے، پہلی بات یہ ہے کہ یہ گدھا کاری کی آزادی آپ کو صرف پاکستان میں موجود ہے، دبئی جو کراچی سے ۱:۳۰ گھنٹہ دور ہے، وہاں آپ ایسا بول کر دکھاؤ، labour laws وہاں کے اتنے سخت ہیں، لیبر اس بات پر آپ کو sue کرسکتا ہے، کہ آپ نے اس کے پروفیشنل پروسس میں مداخلت کی ہے، دوسری بات یہ ہے کسٹمر کے حقوق کے ساتھ کسٹمر کے ذمہ داریاں بھی موجود ہے، مگر معذرت کے ساتھ یہودیوں کی طرح جو قرآن کی ایک آیت کا حوالا دے کر اپنی بات منوانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہوتے تھے، جب کہ ہمارے مذہب میں ہر چیز کو قدرتی طور پر اٹھایا گیا ہے، میں مذہب کے معاملے میں اچھا نہیں ہوں، مگر جتنا بھی میں پڑھا ہے، اس کے حساب سے قرآن میں متعدد جگہ ذہن میں سوال پیدا ہے، اورسوال پیدا کرنے کے بعد اگلی آیت، اگلی صورت میں اس کا جواب دیا گیا ہے یہ پھر کچھ چیزوں کو متعدد بار واضع کیا گیا ہے مگر کھل کر نہیں بتایا گیا ہے (read Jerusalem) جس کو قرآن میں میری ناقص معلومات کے مطابق اشاروں میں ضرور واضع کیا گیا ہے مگر نام کہیں بھی نہیں لیا گیا، تو اتنی لمبی تمہید باندھنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ جب ہمارے اپنے قرآن مجید میں ایسی کوئی پریکٹس نہیں تو ہم جس منہ سے ایسی پریکٹس کو نا صرف implement کرتے بلکہ اس سے ذیادہ بری بات یہی ہے کہ اس act کو پروموٹ بھی کررہے ہیں، اس میں ذمہ داری ہمارے بڑوں کی ہے، کیونکہ ہمارے بڑے اب صرف ایک ہی motive یعنی اپنی اہمیت دکھانے کے لئے جتنی محنت کرتے ہیں، اتنی محنت معاشرہ بنانے میں لگاتے تو پاکستان کا یہ حال نہیں ہوتا!

اب میرے ساتھ جو ہوا، 

میرے ساتھ جو بھی ہوا، ایسے میں اگر میں کسی اور ملک میں ہوتا تو وہاں employee security رہتی ہے، جس کو make sure کرنا عوام کی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر معذرت کے ساتھ customer is always right مگر میں ساتھ میں یہ بھی add کروں گا، کہ customer is always right but customer is not a king ping, instead make customer accountable for what it is demanding. اور اب میں مدے پر آتا ہوں، جمہوریت کا سب سے بڑا نقصان اس معاشرے میں ذیادہ ہے، جہاں معاشرتی شعور کی کمی ہے، ایسی چیز کی ڈیمانڈ کرنا جو معاشرے کے کام نہیں آئے گا، اس کے بجائے کسی ایک خلقت، کسی ایک کمیونٹی، کسی ایک فرقہ کو سپورٹ دینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

ایسے میں پاکستان کہاں گیا؟

میں اوپر والے واقعے سے یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ صرف میرے ساتھ ہوا اس لئے یہ اچھی بات نہیں، کسی بھی معاملے میں


دیکھیں، ہم ہر جگہ دیکھیں، جس طرح کی مفاہمتی پالیسی کراچی میں چل رہی ہے، کیونکہ ووٹ بینک بنانے کی روِش کی بناہ پر ہر کوئی اپنے ووٹ بینک کو کراچی لا کر سیٹل کر رہے ہیں، کس لئے؟ مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں کہ یہ لوگ آرہے ہیں، مجھے مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ کراچی آکر جس ناگفتہ بہ صورتحال میں رہ رہے ہوتے ہیں، اس پر ان لوگوں کو صرف ایک بریانی کی پلیٹ پر ۵ سال کا approval مل جاتا ہے، معذرت کے ساتھ مشرف کے ٹائم کے بعد سے پاکستان میں یہی کھیل ہورہا ہے، خود دیکھیں، حکومتیں اپنا tenure مکمل کررہی ہیں، مگر کیا regime نے کیا؟ continuity نہیں ہونے کی بناہ پر پاکستان کی جو حالت ہوچکی ہے، ہم پاکستانیوں نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان اس جمہوریت میں پہنچادیا ہے، جس کا ہمیں کوئی احساس نہیں، احساس اس لئے نہیں ہے، کیونکہ ہمیں شعور نہیں، شعور ہوتا، تو پہلے پہل سوال کرتے کہ ہمارے ٹیکس کی رقم کہاں صرف ہورہی ہے! اگر ٹیکس کا پیسہ دے کر بھی ہمیں آغا خان اسپتال، یا دوسرے پرائیوٹ اسپتال میں علاج معالجہ کرانا ہے، تو کس بات کا ٹیکس آپ لے رہے ہو؟ اگر ہم میں شعور ہوتا تو تو اس بات کا سوال کرتے، بہت پہلے ہمارے اسی پاکستان میں وظیفہ کا سسٹم ہوتا تھا، اب کہاں ہے؟ جمہوریت کی وجہ سے اب یہ تمام سیاسی جماعتیں musical chair کھیلنے میں لگی ہوئی ہیں، اور اس پر سونے پہ سہاگہ، عوام کو احساس ہی نہیں ہے (کیونکہ ان کو شعور نہیں ہے) کہ ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے، یہ کہہ کر لالی پاپ دیا جاتا ہے کہ باہر جاؤ، اور رقم پاکستان بھیجو، یہ ہماری achievement ہے، شرم کا مقام ہے ہم پاکستانیوں کے لئے، کیا کبھی پاکستانی بن کر سوچا ہے؟ کیا کبھی پاکستان کے لئے بھی سوچا ہے؟

ابھی مری کا سانحہ ہوا ہے

اور اس سانحہ کے بعد مجھے کابل کی تصاویر دیکھنے کو ملی، جہاں مری سے ذیادہ برفباری ہوئی ہے۔ مگر جس طرح ان لوگوں نے حب الوطنی کا مظاہرہ کیا، وہاں کی ویڈیوز دیکھ رہا تھا، برفباری کے دوران بھی کام بھی ہورہا تھا، لوگ برفباری بھی انجوائے کررہے تھے، ٹریفک بھی چل رہا تھا، جبکہ ہمارے پاس سے کیا نیوز نکل رہی ہے، ۳۰۰۰ کا ہوٹل کا کمرا ۴۰۰۰۰ کا بیچا گیا، گاڑی کو tow out کرنے کے چارجز لئے گئے، over capacity کس بلبوطے پر کیا گیا؟ بیشک عوام کسی بھی ملک کی عقلمند نہیں ہوتی، اس چیز کی ذمہ داری یقینی طور پر حکومت وقت کی ہوتی ہے، مگر عوام بری الذمہ بالکل نہیں، کیونکہ بیشک سمجھ بوجھ بالکل نہیں مگر بات یہ ہے کہ ملکی شعور کے تقدس کا خیال رکھنا چاہئے تھا، یہ عوام کی بھی ذمہ داری تھی کہ ٹک ٹاک کے لالچ میں تمام رکاوٹوں کو بالا تاک رکھ کر اس طوفان میں آگئے، نتیجے میں نہ صرف اپنی جان گنوائی بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا یہ image باور کروائی کہ ہم پاکستانی اس قابل نہیں کہ آپ کو host کرسکیں، ہماری اوقات نہیں۔

آخر ملک کے بارے میں ہم کیونکر نہیں سوچتے؟

بیشک ہماری حکومتیں (موجودہ حکومت کو ملا کر)، یہ سب لوگ incompetent ہیں، اور جمہوریت کی آڑ میں اپنا ووٹ بینک بنانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا ہے۔

پاکستان کا ازلی دشمن،

جب بھی ہم ازلی دشمن کی بات کرتے ہیں، ہمارے ذہنوں میں سب سے پہلے بھارت کا نام آتا ہے، مگر میرے نذدیک ہمارا سب سے

بڑا دشمن ہماری ignorance ہے۔ کیونکہ پہلی بات یہی ہے کہ جمہوریت اور پارلیمانی سسٹم میں فرق کا شعور ہونا چاہئے، بصورت دیگر اگر کسی ********** کے ********* کو ایک بریانی، ایک سموسے یا پھر ایک ہزار روپے کے عیوض پانچ سال کے لئے اپنے سر پر بٹھالیتے ہیں، یا پھر کسی کی گلی میں نالا بنانے کے عیوض آپ کو کراچی میں حکومت مل جاتی ہے، بلکہ معذرت کے ساتھ کراچی میں activities کے لئے مختص vicinity کس طرح یادگار کے طور پر اپارٹمنٹس میں تبدیل پوا؟ 

کیونکہ جمہوریت میں 

جمہوریت میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ جمہور کی نمائندگی کرنا، یعنی جس طرح مسلمانوں کی صورتحال ہوچکی ہے کہ جمہور کی نمائندگی میں فتوے مل چکے ہیں جہاں مسلمان علما نے ہندوستان میں سورج کی پرستش جس کو اب بھارت میں قانون بنادیا گیا ہے، یعنی کوئی اگر ان traditions کو follow نہیں بھی کرنا چاہتا تو ایسا کوئی آپشن نہیں، کیونکہ جمہوریت کی رو سے یہ جمہور کی نمائندگی ہے، یعنی اگر پاکستان میں بھی جمہوریت کو ہمارے ہر مسائل کا حل بنا کر دکھایا جئے، جس کو ہمارے معزز سیاسی جماعتیں مفاہمتی (منفقانہ) پالیسی کو استعمال کررہی ہیں، اور کراچی میں اپنا ووٹ بینک بنارہیں ہیں، مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں، مجھے مسئلہ لوگوں سے ہے، جن کے اوپر ایک scientific جمہوریت نافذ کردیا گیا ہے، کیونکہ جیسے میں نے اوپر کہیں لکھا ہے، کسی نے آپ کے لئے کوئی کام کردیا ہے، تو جمہوریت کے رو کے حساب سے آپ کو facilitate کیا جائے گا، مگر پاکستان کہاں ہے؟

پاکستان میں اور کراچی میں جمہوریت کی وجہ سے

 جمہوریت کی رو سے اگر majority یعنی جمہور اس بات کی اجازت دے دے کہ پاکستان میں پیپسی یا کوکا کولا کی جگہ Wine، برینڈی اور Beer کو allow کردیا جائے، تو جمہوریت کی رو سے اس کو allow کردیا جائگا، اس کے لئے صرف آپ کو extensive مائنڈ پروگرامنگ کرانی پڑے گی، تاکہ علما کے قلم سے ایسے فتوے لکھوائے جائیں جس کی رو سے demand and acceptance کو create کیا جائے، جو کہ Post-Musharraf Era ہمارے سیاسی جماعتیں لگی ہوئی ہیں، بجائے اس کے کہ عوام اور پاکستان کے مسائل کو حل کرانے کے، پانچ سال ایک سرکس کی طرح اپنے ادوار مکمل کریں گے اور نتیجے میں آپ خود پی پی پی، پی ایم ایل این، اور ابھی پی ٹی آئی بھی اسی نقش قدم پر چل رہی ہے، بجائے اس کے کہ یہ سب ڈرامہ کے بجائے ہمارے اور پاکستان کے مسائل پر توجہ دینے کے، again یہاں بھی مسئلہ سیاسی شعور کی لاعلمی کی وجہ سے ہے.

ویسے بھی

سائنسی جریدے پولیٹیکل سائیکالوجی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جو لوگ سیاست کے بارے میں کم جانتے ہیں وہ اپنے سیاسی علم کے بارے میں زیادہ پراعتماد ہوتے ہیں۔ نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جب متعصبانہ شناختوں کو چالو کیا گیا تو یہ اثر بڑھ گیا۔

"Dunning-Kruger Effect کا خیال ہے کہ جن افراد کو کسی موضوع کے بارے میں بہت کم علم ہے، وہ سب سے زیادہ پراعتماد ہوں گے کہ وہ اس موضوع کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ باشعور افراد بھی اپنی علمیت میں رعایت کریں گے، "مطالعہ کے مصنف ایان آنسن، یونیورسٹی آف میری لینڈ، بالٹیمور کاؤنٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر نے وضاحت کی۔

"2016 کے انتخابات کے دوران دیگر اسکالرز کو ٹویٹر پر اس موضوع پر بحث کرنے کے مشاہدے کے بعد میں ڈننگ-کروگر اثر میں تیزی سے دلچسپی لینے لگا۔ میں متعدد سیاسی ماہر نفسیات کی پیروی کرتا ہوں جنہوں نے سوشل میڈیا پنڈت طبقے پر حیرانی کا اظہار کیا، جو کہ انتخابات کی اپنی بھرپور کوریج میں 'ڈننگ-کروگیرش رجحانات' کا بظاہر مظاہرہ کرتے ہیں۔

کراچی کو جس طرح سے exploit کیا جارہا ہے

کیونکہ ہم لوگوں میں سیاسی شعور نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہم نے ایک بریانی کی پلیٹ کے لئے پانچ سالوں کے لئے

without accountability ان چوروں کو پورے پاکستان پر مسلط کردیتے ہیں اور نتیجے میں یادگار کے نام پر یا سیاسی جماعتوں کے اثر پر پلے گراؤنڈ کی ذمین پر اپنا ووٹ بینک قائم کرلیں گے، کیونکہ یہ پاکستانی جمہوریت ہے۔ اور پاکستانی جمہوریت ہونے کے ناطے، یہ ایکشن ہمارے اپنے اندر سیاسی غیر شعوری کی عکاس ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے بھی فرمایا ہے جس کا متن یہی ہے کہ جیسی عوام ہوگی، ویسے ہی حکمران ہوں گے، کیونکہ عوام اور حکمران دونوں ایک ہی سکے کی دو الگ، الگ سائیڈ یعنی ایک سکے کا چاند ہے اور دوسرا چھاپ، مگر اس سیاسی غیر شعوری کی وجہ سے میرا اپنا یہ ماننا ہے کہ ہم پاکستانی جمہوری سیاست سے پالکل نا آشنا ہے، 

اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں، ایک subtle disclaimer 

یہاں میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا ہوں کہ کراچی صرف کسی ایک کا ہے، کراچی پورے پاکستان کا ہے، مگر کراچی کو جینے دو، اپنے ووٹ بینک کو پروان چڑھانے کے لئے مونٹیسری نہ بنایا جائے، کیونکہ اس ووٹ بینک بنانے کے چکر میں کراچی کی شکل مسخ کردی ہے، جہاں گرین بیلٹس اور storm water drainage ہونی چاہئے تھی، وہاں آبادیاں اور کالونیاں بنا دی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں کراچی اپنی جاہلیت کی وجہ سے مسخ ہورہا ہے۔


We as Pakistanis are definitely hypocrites

ہوسکتا ہے کہ میں غلط ہوں، اور دعا بھی یہی کررہا ہوں، کہ جو میں سوچ رہا ہوں، وہ واقعی میں غلط ہوں کیونکہ پاکستانی ہونے کے ناطے ہمارے لئے شرم کا مقام ہے۔

میں ایسا کیونکر کہہ رہا ہوں؟


ِیہ ویڈیو ڈالنے کا مقصد یہی ہے کہ کسی قوم کا رہن سہن دیکھنا ہے کہ وہ واقعی میں کوئی قوم ہے یا ریوڑ یا پھر ہجوم، تو ان کا ٹریفک دیکھیں، مگر معذرت کے ساتھ، ہمارے پاس بلا وجہ کا مقابلہ بازی، بے فضول کا، کیونکہ ہم سب میں ایک احساسِ کمتری کا عنصر بالکل موجود ہے، جہاں ہم اس کو اپنی شان (جو کہ بالکل موجود نہیں) مگر اپنی جھوٹی شان دکھانے سے کس چیز کا سکون مل رہا ہوتا ہے؟ اگر ان جاہلوں کی منطق استعمال کروں تو یہ بات مانتے ہوئے شرم آرہی ہے کہ ہم پاکستانیوں میں اتنا اتاولا پن اور احساس کمتری آچکی ہے، کہ attention seeking کے چکر میں اس چیز کا بھی خیال نہین کہ پاکستان کا کیسا image ہم بحیثیت پاکستانی دکھا رہے ہیں، ہمارے اندر سے اس چیز کا احساس یکثر ختم ہوچکا ہے کہ ہمارے اس (مندرجہ بالا ویڈیو میں) ایکشن سے دنیا میں پاکستان کا کیا نقشہ دکھا رہے ہیں۔

میں اصل میں اس آرٹیکل کے لئے ہماری عوام کی جہالت جہاں ایک امریکی ولوگر جو ذینب مارکٹ، جس کو کراچی کی ایک بڑی مارکٹ تصور کی جاتی ہے، وہاں آیا تھا، اور وہاں ایک دکاندار نے اس کو دہشتگرد کہا، بےشک امریکی حکومت نے پاکستان کے ساتھ اچھا نہیں کیا، مگر کیا مسلمان ہونے کے ناطے یہ چیز سوٹ کرتی ہے، کہ اس طرح کی گدھا کاری کریں؟ یہاں ہمیں پاکستان کو پروموٹ کرنا ہے یا پھر اپنی انا کی تسکین کرانی ہے؟

پس پردہ تصویر اس چیز کی عکاسی ہے کہ گدھا کاری کی وجہ


اور ملکی مفاد کو اہمیت نہیں دینے کی وجہ سے پاکستان کا یہ image اب دنیا میں بن چکا ہے، جبکہ بھارت میں جہاں کا روپیہ پاکستان روپے کے مقابلے میں گئی گزری قرار دی گئی ہے، مگر مجھے یہ سرچ ریزلٹ ڈھونڈنے میں اتنی محنت کرنی پڑی، اس کے برعکس اوپر والی سرچ ریزلٹ مجھے پہلی کوشش میں ہی دکھائی دی، صرف ہماری گدھا کاری کی وجہ سے، کیونکہ ہمیں صرف اپنی بھڑاس نکالنے کی جلدی ہوتی ہے، بھڑاس نکالنی بھی ہے تو کم سے کم انسانوں کی طرح تو نکالو، یہ گدھا کاری کی کیا ضرورت؟
اب یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد ہمیں احساس ہوجانا چاہئے کہ ان سیاسی جماعتوں نے کس طرح ہمیں استعمال کیا ہے، بجائے اسکے کہ ہم ان سے سوال کرتے کہ ہمارے ٹیکس کی پیسوں کا استعمال کہاں کیا ہے، کیونکہ یہاں مسئلہ accountability کا ہے، کیونکہ نہ کوئی پوچھ گچھ ہے، نہ سزا کا ڈر، مگر جیسے اللہ تعالی نے فرمایا ہے جس کا مفہوم یہی ہے کہ جیسی عوام ہوگی، ویسے ہی حکمران ہم پر موجود ہوں گے، اور فرق صاف ظاہر ہے۔

سیاسی جماعتوں کو لگام لگائیں

یہ مادر پدر آزادی صرف پاکستان میں حاصل ہے کہ پاکستان کی سڑکوں کو پولیٹکل پارٹیز کے بینرز سے گندا کرکے اپنی سیاسی طاقت دکھانے کا موقع مل جاتا ہے، مگر ایسے میں پاکستان کہاں ہے؟ مجھے ان سیاسی جماعتوں سے یہی سوال ہے کہ اس جمہوریت کا فائدہ کیا ہے جب آپ جمہوریت کی آڑ میں اندرون ملک سے لوگوں کو لا کر کراچی میں بسا رہے ہیں، مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں کہ کیوں آرہے ہیں، مگر سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ان لوگوں کو کراچی میں لاکر بسایا جارہا ہے، جس پر ان لوگوں کی سپورٹ پر یہ تارکین ان کے لئے ووٹ بینک اور پاکستان کے لئے liability بنتے ہیں، اسی لئے اس آرٹیکل کے بالکل شروع میں میں نے ہجوم کا لفظ استعمال کیا تھا، وہ بھی وہ والا ہجوم جو لائٹ کے پیچھے بھاگنے کا شوقین ہے، اور یہ سیاسی جماعتیں اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو لائٹ دکھائی ہے، اور حسبِ عادت ہم لوگ ان کی لائٹ کے پیچھے لائن لگائی ہوئی ہے، میں یہاں کسی خاص سیاسی جماعت کی بات نہیں کررہا ہوں، تمام سیاسی جماعتوں نے یہی روش رکھی ہوئی ہے، کیونکہ ہم بجائے اسکے کہ کراس چیک کریں، رٹہ بازی یعنی شارٹ کٹ کی جانب چل دئے، جس کا نتیجہ آج ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ یہ سب جمہوریت کی بدولت ہمیں تحفے مِل رہے ہیں، کیونکہ جمہوریت میں Might is right کا concept ہے، یعنی majority کی بات مانی جائے، اور اسی وجہ سے یہ سیاسی جماعتیں کراچی میں بجائے Co-Curriculum Activities کے لئے مختص جگہ کو اپنی سیاسی جماعتوں کے لئے استعمال کرے، اور عوام نے ان لوگوں کو سپورٹ کیا، جو کہ شعور کی کمی کا خمیازہ ہے، کیونکہ اگر یہ لوگ جو ٹرک کی لائٹ کے پیچھے لگتے ہوئے کراچی نہیں آتے، تو ان سیاسی جماعتوں کو کراچی میں سپورٹ نہیں ملتی صرف جمہوریت کی وجہ سے ان لوگوں کو یہاں سپورٹ ملی، یعنی یہ قوم جمہوریت کے قابل نہیں، خود دیکھ لیں، مشرف کا دور جیسا بھی تھا، Post-Musharraf ادوار سے کافی بہتر تھا، کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں پانچ سال عوام کے بہبود کے لئے کچھ کرنے کے بجائے (ٹیسٹ میچ کرکٹ میں جب میچ کو ڈرا کرنا ہوتاہے) ٹھیک اسی طرح، اپنے پانچ سال پورے کئے، شور ہنگامے کئے مگر جو کام سب سے اہم تھا، یعنی عوام کی فلاح، وہی نہیں کیا، کیونکہ جمہوریت کی وجہ سے ان کی mass majority کراچی میں موجود ہے، اور majority کی بنیاد پر کوئی ان سیاسی جماعتوں کو کچھ نہیں کہہ سکتا، اور اس پر سونے پہ سہاگہ، ہماری عوام ان لوگوں کو سپورٹ کرتی ہے، جو کہ شعور کی کمی کی عکاس ہے۔

ویسے بھی پاکستان کی سڑکوں پر پاکستان کے جھنڈے لگے ہوئے ہونا چاہئے نہ کہ ان سیاسی جماعتوں کے

ویسے بھی بیرون ملک آپ یہ سب کچھ نہیں کرسکتے جو ہمیں پاکستان میں آزادی ہے، کیونکہ دوسرے ملک میں آپ کو ملکی مفاد کا خیال رکھنا ہوتا ہے، اور اس پر یہ کہ وہاں قانون سیاسی جماعتوں کے ماتحت نہیں ہوتی، مگر معذرت کے ساتھ، پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے یہ سب ڈپارٹمنٹ حکومت کے ماتحت ہوچکی ہیں، جس کی وجہ سے یہ ڈپارٹمنٹ حکومت کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں، کہ حکومتی مشینری کیسے استعمال ہوتی ہے۔ 

پاکستانی مفاد 

ہمیں پاکستانی مفاد اور ترجیحات کو دیکھنا چاہئے نہ کہ رٹہ مارو اور سڑک پر نکل جاؤ، جو کہ آج کل پاکستان میں ہورہا ہے، جہاں گدھوں کو گاڑیاں ملی ہوئی ہیں اور چلانے کا ڈھنگ نہیں، حالانکہ پاکستان میں opportunity بے حساب ہے، مگر دیکھنے والی نظر ہونی چاہئے۔ کیونکہ entertainment deprived society میں ہم رہ رہے ہیں، تو ایسے میں ہمارے معاشرے میں گھومنے پھرنے اور دلچسپی کے پوائنٹ ہونے چاہئے تھے جو کہ نہ ہونے کے برابر رہ چکے ہیں، کیونکہ ہماری ترجیحات میں پاکستان اور معاشرے کے لئے سوچ نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے برعکس ہم نے یہی سوچا ہوا ہے کہ بیرون ملک محنت کرلیں گے مگر پاکستان میں اس کا 0.01% بھی نہیں کریں گے، کیونکہ ہمارے لئے پاکستان کوئی معنی نہیں رکھتا، نہ ہی معاشرے میں موجود لوگ، جبکہ
ہمارا مذہب بھی اس چیز کو پسند نہیں کرتا، کیونکہ ہمارے نذدیک یہ بات بھی ہے کہ اپنے گھر والوں کے بعد محلے اور پڑوسی کے حقوق ہیں، مگر آج کے زمانے میں ہم نے ان سب چیزوں کو یکثر فراموش کردیا ہے، مگر اپنے مطلب کے لئے مذہب کو بالکل استعمال کرنا ہے، تو یقیناً ہم پاکستانیوں سے بڑا کوئی منافق نہیں، مسئلہ پاکستان میں نہیں، مسئلہ ہم لوگوں میں ہے، مگر چونکہ ہمیں اپنی غلطیاں دکھائی نہیں دیتی ہیں، تو ایسے میں یہ بات بھی flushed down the gutter۔

خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور یہ چیز آج prove کرتی ہے

 کیونکہ جس طرح جنرل بیپن راوت نے یہ بات کہی تھی کہ ہم کشمیریوں کا ڈی این اے تبدیل کریں گے، اور ۲۷ فروری کو ہاٹ لائن پر یہ بات کہی گئی کہ ان کو رستے سے ہٹاؤ ورنہ یہ ہمارے نشانے پر ہیں، آج ان کا انتم سنسکار ہوا ہے۔

مسلمان ہونے کے ناطے مجھے ایسا نہیں کہنا چاہئے

مگر اس طرح کے لوگ اور دیسی لبرلز جن کو یہ دکھائی دے رہا تھا کہ فیصل آباد میں عورتوں کو مبینہ طور پر برہنہ کیا گیا، حالانکہ اگر آپ اپنے آپ کو لبرل کہتے ہو، تو آپ کو کسی بھی بات کو کراس چیک کرنا چاہئے، ایسی کوئی بات کسی تصدیق کے نہیں کرنی چاہئے تھی کہ یہ ٹھیک نہیں ہوا، میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ ٹھیک بالکل نہیں ہوا، مگر ایک ٹرم جو ہم نے ہالی ووڈ سے adopt کی ہے، Cause and Effect، یعنی جو ایکشن آپ کرتے ہیں، اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں، اس کے بارے میں خیال رکھنا I guess لبرلز کی خصلت ہوتی ہے، نہ کہ یہ کہ جس ملک میں آپ رہ رہے ہیں اس میں کوئی contribution نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ اگر آپ لبرل ہیں، تو جس طرح ہہ لبرل ازم آپ لوگوں نے مائنڈ پروگرامنگ کے ذریعے سے سرعیت کی ہے، اس کا صرف ۱ فیصد اگرچہ لوگوں میں اس چیز کا شعور ڈالنے میں لگاتے کہ ٹیکس کے پیسوں کو کیسے utilize کریں، اس کا سوال کرنا سکھاتے کہ ہم ٹیکس کا پیسہ دے رہے ہیں تو اس کا فائدہ کیا مل رہا ہے، کیا یہ چیز آپ لبرلز کی ہے؟

میں لبرل نہیں

کیونکہ کم سے کم میں آپ لوگوں کی طرح منافق نہیں ہوں، خاص طور پر آپ لوگ اور ہمارے ـمعزز میڈیا والےـ کیونکہ اگر آپ کیپشن کو پڑھیں تو کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ ڈیفینیشن ہمارے میڈیا گروپ والوں پر بالکل ٹھیک بیٹھتی؟ کیا ہمارا میڈیا دنیا میں ہمیں یہ show نہیں کراتا کہ ہم (پاکستانی) دنیا کے نقشے پر بدنما داغ ہیں، اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ ہمیں یہ بھی show کیا جاتا ہے کہ ان کا معاشرہ سب سے بہترین ہے، جبکہ خود بتائیں، مجھے یہ بات یہاں لکھنی چاہئے یا نہیں مگر اب جب کھل کر بات کرنی ہے تو ایسا ہی صحیح، مگر ان کے معاشرے میں ۱۸ سال کی عمر میں اگر کوئی لڑکی کنواری رہتی ہے تو اس لڑکی کو کیا کیا القابات سے نوازا جاتا ہے، الامان الخر، بلکہ ان کے معاشرے میں یہ نارمل بات ہے کہ ۱۸ویں سالگرہ تک اپنی کنوارا پن سے جان چھوڑے، اور آپ لبرلز یہ کہہ رہے ہو کہ ہم پیک ورڈ ہیں اور ہمیں اپنی معاشرتی اقدار کو چھوڑ کر ان کو اپنانا چاہئے، جو کہ ویسے بھی بحری قذاقوں کی اولادوں میں سے ہیں، میں مانتا ہوں، غلطیاں ہماری بھی ہیں، مگر یہ بتائیں کہ کیا اس چیز کی آزادی آپ کو انڈیا میں ملے گی، جو آپ کو پاکستان میں مل رہی ہے کہ جو منہ میں آئے بھونک دو؟ انسانوں کا کام گفتگو کرنا ہوتا ہے، بھونکنا نہیں، آپ سے گزارش یہی ہے کہ براہ مہربانی جتنی energy بھونکنے میں لگاتے ہیں، اس کا ایک فیصد (پھر سے) استعمال کرلیتے تو کم سے کم اور کسی نہ کسی حد تک انسان لگتے، اور انسان کبھی منافق نہیں ہوتا ہے، منافقت غیر انسانی فطرت ہے، اور اس معاملے میں شیطانی عمل ہے، کیونکہ انسان دوست ہوتا ہے، اور دوستی و منافقت میں کوئی relation نہیں تو ایسے میں اگرچہ آپ اور ہمارا میڈیا کسی منافق سے کم نہیں۔

جس طرح فیصل آباد کو میڈیا والوں نے ٹرینڈ کیا 

اور ثالث کا کردار ادا کیا، اس سے بڑی منافقت کوئی نہیں ہے، کیونکہ مجھے یاد ہے جب سری لنکن مینیجر والا واقعہ ہوا تھا، تو ایسے میں پہلے میڈیا والوں نے بجائے constructively چیزوں کو tackle کرنے کے بجائے یعنی لوگوں کو گائڈ کرنا کہ کسی بھی معاملے میں اس طرح کا بیان دینا وہ بھی اس وقت جب prove نہیں ہوا کہ واقعی میں گستاخی ہوئی تھی یا نہیں، کیونکہ ہمارے پاس کے لوگوں میں (ہر ایک میں نہیں) مگر یہ عادت ہے کہ کوئی benefit مل رہا ہوتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ میرے ساتھی کو بھی اس میں سے کچھ مل جائے، بلکہ اب سوچ یہ ہوتی ہے کہ اس کو ملے نہ ملے، اس کا بھی مجھے مل جائے، ہمارے ٹریفک کا حال ہی دیکھ لیں، میں صفحوں کو مزید گندا نہیں کرنا چاہتا کہ ہم سب نے دیکھا ہے کہ ایک گاڑی کس طرح لائن کی پاسداری کرتی ہے، اور ٹریفک سگنل کے کتنے آگے کھڑی ہوتی، بجائے اسکے کے تھوڑا انتظار کرلے، گاڑی گزرے گی تو اس کے پیچھے گیپ میں نکلے، مگر ہمیں یہ عادت ہے کہ میں پہلے نکل جاؤں، اور انتظار کرنا میری شان کے خلاف ہے، 

مسئلہ ہم میں ہی ہے

بے شک میں لبرل نہیں مگر بات یہی ہے کہ جس طرح کے نفسا نفسی کے دور میں ہم موجود ہیں، ایسے میں ہم نے تحقیق اور کراس چیکنگ کا عنصر بھی اپنے اندر سے یکسر ختم کردیا ہے، ورنہ جن کو کلمہ پڑھنا، اس کا مفہوم اور مطلب نہیں آتا، چلو یہ تو بہت بڑی بات کررہا ہوں، شعور نہیں ہو، ان کے منہ سے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ ہم نے ناموسِ رسالت ﷺ کا خیال کیا ہے، جبکہ ہمارے مذہب میں ایسا کوئی concept نہیں ہے، 

مسجدِ نبوی ﷺ میں رفع حاجت والے واقعہ کی مثال

جہاں ایک کمزور دماغ والا بندہ غلطی سے مسجد نبوی میں پیشاب کردیتا ہے، ایسا کوئی واقعہ اگر چہ آج ہوجاتا، تو اس بندے کا بالکل اس سری لنکن منیجر کی طرح نام و نشان موجود نہیں رہتا کیونکہ ہم نے لکھنا پڑھنا اور اس کے ساتھ لکھنے پڑھنے کا شعور اپنے اندر سے بالکل ختم کردیا ہے، جبکہ آپ ﷺ نے اس وقت یہ عمل نہ صرف کرنے دیا بلکہ بعد از خود ڈول کے ذریعے پانی بہا کر جگہ صاف کردی، جس کی بدولت آپ ﷺ کے رویے سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا، ہمارے بڑوں نے اپنا رویہ کس پائے پر رکھا، اور یہاں ہم نے اپنے آپ کو حیوانیت کے دلدل میں ڈال دیا ہے۔

دشمن کے پلان میں ایندھن بننے میں ہمیں کیا اچھا لگتا ہے؟

اوپر جب میں نے جنرل بیپن راوت کا زکر کیا تو یہ کہا کہ کشمیریوں کا ڈی این اے تبدیل کریں گے، ایسا کرنے کے لئے ان کو اندر کے بھیدی چاہئے ہوتے ہیں، اور یہ ہمارے پاس کے لوگوں کی کمزوری ہے، تعلیم ہونا نہ ہونا کوئی criteria نہیں، مگر اصل بات یہی ہے کہ بندے کے اندر شعور ہونا چاہئے کہ اگر اس طریقے سے پیسے کما بھی لے گا، تو کیا وہ آزادی اس کو میسر رہے گی جو روکھی سوکھی کھا کر اس کو میسر ہوتی ہے؟ یہ بات شعور کی ہوتی ہے۔ کیونکہ فیصل آباد کے واقعے میں مجھے صاف طور پر یہ لگا کہ ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ کیسے ان کے اس ایکشن کو دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف نہ صرف استعمال کریں گے، بلکہ ان کی اپنی individuality اور respect ختم ہوچکی ہے، بلکہ ان کے اس ایکشن کی وجہ سے عورت زات کی عزت ہمارے معاشرے سے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس کی ایک مثال مذہب سے دوری بھی ہے

کیونکہ یہ دونوں واقعات لبرلز کو ایک موقع دینے کے برابر ہے جہاں ridiculing the religion and faith and beliefs ان لوگوں کا مین اور کور پروگرام ہوتا ہے، keeping in mind آج کے زمانے میں معلومات کا زخیرہ ہے جبکہ علم اٹھا لیا گیا ہے، کیونکہ معلومات ایک حیوان کو بھی ہوتی ہے مگر اس کو استعمال کرنے کا ڈھنگ ہمیں علم فراہم کرتا ہے، تو آپ خود بتائیں، اس مینجر کی لاش کے ساتھ بے حرمتی کرتے ہوئے لبیک یا رسول اللہ بولتے ہوئے آپ نے blasphemy نہیں کی؟ جبکہ آپ منافق بھی ہو، مذہب کی مانتے بالکل نہیں ہو، مگر جہاں اپنی بات آجائے، مذہب میں اپنی مطلب کی شق کو اپنے حساب سے استعمال کرنا از خود منافقت نہیں؟ جبکہ بقول سی سی ٹی وی، اس کو اردو اور عربی نہیں پڑھنی آتی تھی، تو ایسے میں it was unintentional اور جب اس کو پتا چلا کہ اس سے یہ حرکت ہوئی ہے، تو اس نے معافی بھی مانگی، مگر منافقت یہی ہے کہ اپنے personal scores کو settle کرنے کے لئے اسلام اور پاکستان کی دھجیاں بکھیرنے میں ہم لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔

اب دیکھیں ہمارے خلاف کیا ٹرینڈ چل رہا ہے

ہم نے لوگوں کو کیا موقع دے دیا ہے کہ ابھی ہم رو رہے ہوتے ہیں کہ نوکریاں نہیں ہیں، جبکہ ہمارے آج کے ایکشن سے آنے والے وقت کی نوکریاں بھی کھا چکے ہیں۔

https://twitter.com/hashtag/withdrawgspplusfrompak?src=hashtag_click

کراچی میں ایک روزہ پیٹرول کی بندش

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting