Search me

Generation Gap لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Generation Gap لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

When people closer to you are the first to hurt you
















feel free to support me via Dominance Pakistan

Support me on my ARTMO refers

I can be contacted on my handler
Responsive advertisement
Best WordPress Hosting

صرف اور صرف رمضان کا با برکت مہینہ ہی کیوں؟

میں یہاں بغیر کسی بکواس کے صرف ایک بات کہوں گا، کہ کیونکر پاکستان میں مذہب کو ایسا مذاق بنایا جارہا ہے؟ مانتا ہوں کہ رمضان ہمارے لئے قدرے اہمیت کے حامل مہینہ ہے، مگر ایک مستقل مزاجی کے تناظر میں بات کروں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک حلقے میں ۳۰ دن کا روزہ جبکہ پاکستان میں ۲۹ دن کا روزہ، اور یہ بیماری اگر چہ ہے تو صرف رمضان کے مہینہ میں کیونکر ابھرتی ہے؟ 
جبکہ بھارت، بانگلادیش میں عید پرسوں ہوگی، تو یہ کیسے ممکن ہے، کہ صرف رمضان کے مہینے میں چاند کو ایسا کنٹرورشل بنایا جارہا ہے، اگر بڑی پکچر میں دیکھیں تو پاکستان اسلام سے ہے، اسلام پاکستان سے نہیں، ہمیں اپنی حیثیت یاد رکھنی چاہئے، کیا عید منانے میں اتنے اتاولے ہوگئے ہیں، کہ بقایا ۹ مہینوں میں اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے، کہ کونسا مہینہ ۲۹ کا ہے، اور کتنے ۳۰ کے، اس کا حساب صرف وہ لوگ رکھتے ہوں گے، جن کے گھروں میں گیارہویں شریف منائی جاتی ہے، تو ایسے میں ایسے کنٹرورشل مہینوں بنایا جارہا ہے۔

In the long run 

یہ میرا ذاتی ذاویہ ہے، جہاں مذہب کو سائیڈ لائن کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، اور ایک منظم کوشش کے تحط لوگوں کو مذہب سے detract کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس وقت جو millinials ہیں، وہاں تک تو بات صحیح ہے، مگر اصل بات وہاں سے کھڑی ہوتی ہے، جب آج کی Gen Z جب شوہر بیوی اور رشتہ اجدواج میں ملبوس ہوجائیں گے، تو جب یہ چھوٹی سوچ والی جنریشن سے کھل کر manupulation کری جارہی ہے، کیونکہ یہ جنریشن بہت جلدی manupulated ہوتی ہے، کیونکہ یہ لوگ بہت شارٹ سائیٹڈ ہوتے ہیں، bigger picture دیکھنے کی ان کی قابلیت نہیں ہے، تو ایسے میں already میں اپنی آنکھوں کے سامنے ہمارے بڑوں کی شارٹ سائیٹڈنس دیکھ رہا ہوں، ایسے میں مزید بڑے ہوجائیں گے، تو برائی مزید پھیلے گی، مگر بحیثیت معاشرہ ہم ویسے بھی برائی کو بُرا بھی تو بالکل نہیں سمجھتے، تو ایسے میں کوئی بعید نہیں کہ آگے مزید برائی بڑھے گی۔





I can be contacted on my handler
Responsive advertisement
Best WordPress Hosting

ARE we as Pakistanis, treating ourselves as PAKISTANIS???

یہ ہمارے لئے بحیثیت پاکستانی ہمارے لئے کتنی شرم کی بات ہے، کیونکہ ہم میں اتنی مطلبی پنا یعنی megalomaniac mindset یعنی اپنے پوائنٹ آف ویو دوسرے کے اوہر تھوپنے میں اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔

پاکستانیوں کو گلوبلی تذلیل کیا جارہا ہے

مگر ہم پاکستانیوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ جس طرح ہم صرف اپنے فیلو پاکستانی بھائی کو دوسروں کے سامنے تذلیل کرتے ہیں، صرف اس سوچ کی وجہ سے کہ کہیں یہ مجھ سے آگے نا نکل جائے۔

خود دیکھیں اس وقت پاکستان کو کیسے دنیا بھر میں مذاق بنا کر پیش کیا جارہا ہے

credit link : here
This is a shame as Pakistan, کیونکہ اس وقت پوری دنیا کرکٹ ورلڈ کپ دیکھنے میں مشغول ہے، مگر ہم پاکستانی جو اس وقت کسی مشہور زمانہ سیاست دان سے کم نہیں, اس وقت افغانستان نے انگلینڈ، اس کے بعد ہمارے اپنے پاکستان، اور آج کے روز سری لنکا کو بھی ہرا دیا، اور یہاں ہم اپنی ہی کرکٹ ٹیم کو دنیا کے سامنے تذلیل کررہے ہیں، حالانکہ بنا کسی شک کے کہ بابر اعظم اور ورات کوہلی کا مقابلہ نہیں، مگر انڈین میڈیا نے جس طرح کا کھیل کھیلا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا نے کیا پاکستان کے لئے کچھ کیا؟
جب جانتے ہیں کہ ہمارے پاس کی audience کا maturity level ویسا نہیں ہے جیسے باہر کی دنیا میں ہے، مگر جب ایسا اسٹینڈرڈ ہے کہ ہم پاکستانیوں کو تذلیل کرنے میں اپنی کامیابی سمجھتے ہیں، جبکہ یہاں یہ نہیں دیکھ رہے ہیں، کہ ہمارے اس ایکشن سے دنیا میں پاکستان کا کتنا مذاق بنا رہے ہیں، میرا صرف یہ سوال ہے کہ کیا آپ کی ego اور انا پاکستان سے ذیادہ اہم ہے؟
ہم پاکستان کے بارے میں یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کا foreign nationals کیسے toxic terms استعمال کررہے ہیں؟ مجھے ایسا کیونکر محسوس ہورہا ہے، کہ ہمارے میڈیا کی جانب سے اس چیز کو نہیں اہمیت دی جارہی ہے جہاں گھر کی مرغی کے موافق پاکستان کو treat کیا جارہا ہے۔

Country Pride کہاں موجود ہے؟

میرا ان roasters کی ذہنیت کو ۳۶ توپوں کی سلامی دینے کا من ہورہا ہے، کیونکہ roasting کرنے میں یہ دیکھ لیں کہ کیسے پاکستان کا دنیا بھر میں مذاق بنا دیا ہے۔


this is the reality where as Pakistanis, we are pathetically hypocritical, not to point upper management, but we as civilians are to be held accountable for the support we give to them، اگر مسئلہ آستین کے سانپ کا ہے، تو ایسے میں آستین کے سانپ کو دودھ کس نے پلایا؟؟؟
اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے میں کیا آپ کی جیت ہے؟ بیشک آپ اپنے آپ کو صحیح ثابت کرلیں مگر کیا اس سے پاکستان کا کچھ بھلا کررہے ہیں کیا؟ کیا ہمیں کسی طرح کی شرم ہے کہ ہم پاکستانی ہونے کے ناطے پاکستان کا نام کتنا خراب کررہے ہیں، اس پر شراب سے وضو کر کے دوسرے کو بھی اپنی طرح بنانے کو دیکھتے ہیں کہ تم نے بھی تو ایسا کیا، کیا بحیثیت پاکستانی یہ ہمارے ethical morals ہیں؟

کیا بحیثیت پاکستانی ہم نے پاکستان کو کچھ دیا؟

اس سے پہلے کہ میرے اوپر کیچڑ اچھالیں، کیا خدا کو حاظر ناظر جان کر اپنا محاصبہ خود کریں کہ آپ نے پاکستان کو کیا دیا ہے، اور دوسرے ممالک کے لوگ اپنے ملک کو کیا دیتے ہیں، تو فرق صاف ظاہر ہے، 
اس سے پہلے کہ ہم سسٹم کو دوش دیں، سسٹم کون بناتا ہے اور کس کے لئے بنتا ہے، تو اس حوالے سے اس کی جوابدہ کس سے ہونی چاہئے؟ اور کیا ہم نے ان لوگوں سے جواب مانگے؟
جب قصور ہمارے اندر ہے تو ایسے میں یہ attitude رکھنا کہ ہم پیدائشی جنتی ہیں، بیوقوفوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے، 




feel free to support me via Dominance Pakistan

Support me on my ARTMO refers

I can be contacted on my handler
Responsive advertisement
Best WordPress Hosting

اس کو ban کرو، اس کو ban کرو، سب کچھ ہی ban کرو، مگر علاج کچھ نہیں کرو

سو چوہے کھا کر بِلی حج کو چلی

ہم پاکستانی سیاست دانوں کو گالیاں دیتے ہیںِ، ایسے میں مسلمان کہتے ہوئے ہمیں just mindset رکھنا چاہئے، کیونکہ اگر ہم کسی چیز کو غلط کہتے ہیں، تو اس پر جانب داری کا عنصر نہیں ہونا چاہئے، مگر پاکستانی معاشرے میں یہ چیز عام ہے کہ جانب داری جس کو انگریزی زبان میں nepotism اور favoritism میں کہا جاتا ہے، اور کوئی بھی مہذب معاشرے میں عنصر ہونا مشروط نہیں ہوتا ہے، جبکہ ہمارے پاس احساس کمتری کا عنصر موجود ہے، جس کی وجہ سے اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کی احساس "محرومی" موجود ہے، 

احساس محرومی؟ کس چیز کی محرومی؟؟؟

ایک چیز ہوتی ہے grace یعنی خوبصورتی کے معاملے میں استعمال، یعنی گفتگو میں احسن طریقے سے بات کرنا، کہ کوئی بد مذگی کی صورتحال پیش نا آئے، ایسے میں انگریزی زبان کی ایک term  ہے ripples effect یعنی جو آپ فرما رہے ہیں، اس کا ری ایکشن کیا آسکتا ہے، پاکستانیوں میں یہ چیز جان بوجھ کر ختم کی گئی ہے، جبکہ انڈینز سے میرا جتنا بھی اس حوالے سے interaction ہوا ہے، اس کے حساب سے ان کی نئی generation اس حوالے سے پاکستانیوں کے مقابلے میں کافی conscious ہے، جبکہ پاکستانیوں میں اس چیز کا sense نا ہونے کے برابر ہے۔

اس میں قصوروار کون ہے؟Who is accountable for this catastrophe in Pakistani society???

جیسے ایک بات کہی جاتی ہے، تالی ایک ہاتھ سے کبھی نہیں بجتی ہے، ٹھیک اسی طرح یہاں بھی وہی صورتحال ہے، مگر خاص طور پر یہاں point out ہمارے WhatsApp والے چاچاؤں کو criticize کروں گا، کیونکہ جس طرح کی خرافات ان لوگوں نے پھیلائی ہیں، بلکہ ہماری younger generation میں اتاولا پن کا عنصر کو جس طرح سے legalize کرنے میں ان کے کارنامے ہے، مگر ایک بات کہنا چاہوں گا، کہ صرف یہی کہنا ہے صرف اور صرف یہ ذمہ دار ہیں، یہ بھی غلط ہوگا، مگر یہ ایک factor ضرور ہے، 
ایک اور فیکٹر ہمارے پاس کی عورتیں ہیں، یہ تھوڑا complicated factor ہے اسی وجہ سے اس کو تھوڑا elaborate کر کے بولوں گا، کیونکہ یہ generational malfunctional disorder ہے جو کہ سالوں سے چل رہا ہے، کیونکہ عورتوں کو بچپن سے دبایا گیا ہےاور یہ بولا گیا ہے کہ شادی ہوجائے شادی کے بعد جو کرنا ہے کرو، جبکہ شادی کے بعد ساس بہو کی تو تو میں میں، اور وہاں بیچارہ شاہر دونوں کے بیچ میں sandwich بن رہا ہے، جبکہ میں یہاں مردوں کا پوائنٹ آف ویو بھی پیش کروں گا، جہاں مرد اپنی عورت سے مورل سپورٹ چاہ رہا ہوتا ہے، جو کہ اس کو نہیں ملتی، یہاں قصور مردوں کا بھی ہے، کیونکہ مردوں کو nipping on to the bud کی approach رکھنے کے بجائے جب سر پر پڑتی ہے، جب حرکت ہوتی ہے، 
اور جب بات authority management کی ہورہی ہے، تو یہاں بھی decision making کا right میاں بیوی کو ہونا چاہئے، مگر معذرت کے ساتھ یہاں کنٹرول اگر میری صورتحال کی بات کریں تو میری خود کی والدہ کی authority ہے، اب یہ بتائیں کہ اس موقع پر ہمیں guide کرنے کے بجائے اپنی من مانیاں کریں گے، just because اپنی age میں ان کی ساس یعنی میری دادی نے یہی کچھ ان کے ساتھ کیا تھا، تو اب ان کا ٹائم ہے، یہ tactic مجھے سمجھ نہیں آرہی، یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اس چیز کی تیاری کرنی چاہئے کہ میری بیوی یہی کچھ اپنے ٹائم پر کرے؟ کیا یہ معاشرہ ہم دینے کی تیاری میں ہیں؟

ہو سکتا ہے میں غلط ہوں، مگر میری سوچ ہے کہ یہ اسلام نہیں

بیشک اس بات پر مجھے گالیاں پڑے گی، مگر اسلام نے open ended approach رکھی ہے، جو restrictions ہیں وہ societal restrictions ہیں، ان کو اسلام سے ملانا اسلام کے ساتھ ملانا، اسلام کے ساتھ blasphemy ہے، اور اسی وجہ سے میں نے ہمارے قومی نصاب کو بھی کھل کر طنز مارا ہے کیونکہ time to time update ہونے کے بجائے ابھی بھی ماضی بعید کو پڑھایا جارہا ہے، جس کی وجہ سے (صرف ایک وجہ ہے) پڑھائی سے اسٹوڈنٹس کا دل اچاٹ ہوجاتا ہے، اور ایسے میں یوٹیوب پر موجود دانشور جیسے ڈاکٹر شاہد مسعود ٹائپ کے لوگ، (no offence) مگر وہ لوگ صرف اس untapped موقعے پر چوکا لگا رہے ہیں، اور (یہ بالکل نہیں کہہ رہا ہوں کہ وہ بالکل جھوٹ بولتے ) مگر یہ بول رہا ہوں کہ reality کو مسخ plagiarized کرکے اس میں اپنی چیزیں مکس کر کے اپنا نظریہ باور کراتے ہیں۔

چونکہ ہمارا نصاب دقیانوسی ہے

تو اسی وجہ سے ان فیکٹریوں (کیونکہ ان کو یونی ورسٹی، کالج، یا اسکول بولنا ان انسٹی ٹیوٹس کے لئے بے عزتی کے مترادف ہوگی) کیونکہ اسکول، کالجز، یونی ورسٹی کا کام اسٹوڈنٹس کو آگے زندگی میں face کرنے والے challenges کے لئے تیار کرنا ہوتا ہے، اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں، کیا ایسا کچھ produce یہاں سے ہورہا ہے؟ بلکہ الٹا ان فیکٹریوں سے جو پود نکل رہی ہے، shortcuts لینے میں زیادہ خوش ہوتی ہے بجائے اس کے کہ آگے کا سوچیں، بلکہ اسلام کی بات کرتے ہیں، تو اسلام نے اس کے لئے بھی ثواب رکھا ہے، کہ آگے آنے والے لئے بھی رستے سے اگر کنکر ہٹادیا تو ایسے میں اس پر بھی ثواب ہے، جبکہ یہاں inferiority complex یعنی احساس کمتری / احساس محرومی کے شکار پاکستانی معاشرہ دوسرے کا رستہ روکنے میں ذیادہ خوش ہوتا ہے۔

کراچی کی دیواریں "محبوب آپ کے قدموں میں" سے بھری ہوئی ہیں

شہر کی دیواریں شہر میں رہنے والوں کی عکاس ہوتی ہیں، اور اگر کسی شہر کی دیواریں اس طرح کے وال چاکنگ سے بھری ہوئی ہیں، تو اندازہ لگالیں، کہ یہ فیکٹریوں نے کیسی پود پیدا کی ہے، 

ہمارا curriculum

Curriculum کا مقصد کیا ہوتا ہے؟

ایک تازہ ترین نصاب کا ہونا کامیابی کے لئے سب سے اہم ہے, یہ استاد کو اضافی ، تازہ ترین معلومات تلاش کرنے کے لئے تحقیق کے بغیر اس نصاب کو استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ایک تازہ ترین نصاب سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، علمی سوچ کو مضبوط کرتا ہے، تجسس کو فروغ دیتا ہے، کلاس روم کی تدریس میں ملازمت کرتا ہے، گروپ مطالعہ، خود اعتمادی اور خود شعور کو فروغ دیتا ہے، خود کی ترقی کو فروغ دیتا ہے، زندگی اور نرم مہارتوں کو بڑھاتا ہے.
نصاب کو اپ ڈیٹ کرنا نہ صرف فرد بلکہ مجموعی طور پر تعلیم کی مجموعی ترقی کے لئے فائدہ مند ہے۔

پاکستانی curriculum کی حیثیت

پاکستانی کری کیولم جسے عرف عام میں میں پاکستانی نصاب بھی کہا جاتا ہے، یہاں پاکستانی نصاب ایک طرح کی monotony ہمارے معاشرے میں instill کردی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے offsprings جو یہ نصاب پڑھ کر دنیا میں نکل رہے ہیں ان کی وجہ سے دنیا میں پاکستان جو نام "روشن" ہورہا ہے اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں۔

پاکستانی نصاب اور پاکستانی نصاب کی وجہ سے برامد ہونے والی megalomaniac mindset

اس مائینڈ سیٹ کو اردو زبان میں اگر بات کریں اس احساس کمتری کے احساس کو احساس برتری میں خیال کرنا آپ کی خود کی جہالت ہے، میں کوئی ماہر نہیں مگر میں اسلام کو فالو کرتا ہوں، اور اسلام کے حساب سے آپ کو کہیں بھی اپنے آپ کو برتی صرف اس لئے ڈالنا کہ دوسرے کے اوپر dominate کریں، اسلام کہیں بھی یہ نہیں کہتا ہے کہ آپ dominate کریں صرف اہنی authority کو ثابت کرنے کے لئے، کیونکہ بیشک شارٹ رن میں آپ جیت جائیں مگر لانگ رن long run میں اس کے ripples effect کی وجہ سے جو اثرات پیش آتے ہیں، اسلام اس جانب اشارہ کرتا ہے، جبکہ ہم یہاں subjective Islam کو فالو کررہے ہیں، جس کی وجہ سے اپنی مرضی کے point-to-point اسلام کو فالو کر کے ہم نے اپنے آس پاس کے لوگوں کو صرف اپنے آپ کو اوپر دکھانے دوسرے کو نیچا دکھانا جو کہ پروپگینڈہ نیچر کے مترادف ہے کیونکہ ہمارے پاس کے نیوز چینلز نے ہمارے معاشرے کو بگاڑنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے۔

بے غیرتی معاشرے میں بھرنے میں ہمارے نیوز چینلز کے کارنامے

حالانکہ مجھے یہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے، مگر جو احساس کمتری ہمارے نیوز چینلز نے معاشرے میں بھر دیا ہے کہ بحث اور بد تمیزی میں جو فرق ہوتا تھا اس کو ہی diminish کردیا ہے، جس کی وجہ سے for the time being یہ لوگ argument جیت جاتے ہیں، مگر اس کے ripples effect کے اثرات دور رس دکھائے دیتے ہیں، کیونکہ پاکستانی معاشرے میں جو یہ نیا ٹرینڈ اجاگر ہورہا ہے، جہاں بدلہ لینا، موقع پر فائدہ اٹھانا جبکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ benefit of doubt دینا چاہئے، ویسے بھی اسلام میں ہمیں کسی کو جج کرنے کا حق کہیں بھی نہیں دیا ہے، کیونکہ یہ حق اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ میں اسی لئے رکھا ہے کیونکہ اللہ تعالی جانتا ہے بلکہ جبکہ حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا جارہا تھا، تو فرشتوں نے اللہ تعالی کو بتا دیا تھا کہ یہ مخلوق زمین پر فساد برپا کرے گی، تو ایسے میں اللہ تعالی کا جواب یہی تھا کہ جو میں دیکھ رہا ہوں وہ تم نہیں دیکھ رہے، تو ایسے میں اللہ تعالی نے یہ چیز اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی حکمت دکھائی، تو کیونکر ہم خدا کی زمین پر رہ کر جو کہ نظام شمسی کی بنیاد پر دیکھیں تو ایک ذرے سے ذیادہ اوقات نہیں، وہاں ہم زمینی خدا بن کر کونسا عقلمندی کا مظاہرہ کررہے ہیں؟؟؟

میں نیوز چینلز کو اس لئے criticize کررہا ہوں

کیونکہ 
  1. صحیح غلط کی تمیز کو بالکل ختم کردیا ہے
  2. لوگوں میں پڑھنے لکھنے کا شوق ختم کردیا ہے
  3. ٹرک کی بتی کے پیچھے لوگوں کو لگا دیا ہے
  4. ایک ہی بات کو repeatedly repeat کر کر کے اپنی بات کو صحیح باور کرنے میں اپنی جیت سمجھتے ہیں

میں کیوں اتنا تپا ہوا ہوں

میں بیشک بد تمیز دکھائی دے رہا ہوں گا، مگر جب اپنی زندگی  سے متعلق decisions مجھے ہی لینے ہیں، تو بلا وجہ کا مجھے criticize کس بات پر کررہے ہیں
بیشک میں مانتا ہوں ہر چیز میں بڑے غلط نہیں ہوتے، اور میں ان سے کافی چیزوں میں بالکل agreed ہوں، مگر کیا ہمارے بڑے بزرگوں کے decisions سے جو موجودہ معاشرہ آج ہمارے سامنے موجود ہے، جہاں نفسا نفسی موجود ہے اور جہاں ان کے decisions کی وجہ سے ہی معاشرہ تشکیل ہوا ہے، جو کہ ایک conformity bias کی بنیاد پر تشکیل ہوا ہے، تو ایسے میں اگر میں اس conformity bias کو debunk کر کے اپنے رستے نکلنا چاہا تو وہاں مجھے مجھے ایسی ایسی باتیں کہی گئیں جیسے سارا قصور میرا ہی ہے، 
جبکہ میں فری ایجو کیشن کی وجہ سے اٹلی جانا چاہتا تھا کیونکہ میں نے اپنا assessment کرایا تھا، اس کے حساب سے ۱۶ سال کا ایم بی اے ان لوگوں کے سامنے ۱۳ ۱۴ سال بن رہے تھے، پلس پاکستان میں ابھی بھی جو manual banking ہورہی ہے اس سے میں باہر نکلنا چاہتا تھا، تو ایسے میں میں نے یہ decision لیا تھا کہ یہاں میں کرسکتا ہوں، پھر میرا بینک سے لون loan حاصل ہونے میں ٹائم لگنا تھا تو ایسے میں میں نے گھر والوں سے مدد مانگی فروری ۲۰۲۳ میں کہ پہلی قسط کے پیسے دے دیں، میرا loan ملنے میں امید یہی تھی کہ مئی ۲۰۲۳ تک ملے گا، اور ہوا بھی وہی، مگر میرا وقت ضائع کر کے میرےلئے دبئی کی آفر لے کر آتے ہیں، let me be brutally honest here میرا assessment نے مجھے میری اوقات بتادی تھی کہ میں کہاں کھڑا ہوا ہوں، تو ایسے میں اس حالت میں دبئی میں کتنا ٹائم survive کرتا؟ دبئی خود digitalize ہورہا ہے، تو ایسے میں کیسے اپنے مستقبل کے لئے اتنا بڑا رسک لیتا؟ میری اسکل کی باہر کی دنیا میں ۱ سال سے ۵ سال کے دوران ہی استعمال ہے، اس کےے بعد کبھی نا کبھی مجھے ایجوکیشن کرنی ہوتی، تو ایسے میں proactive approach رکھتے ہوئے میں نے یہ رسک لیا تو میرے والدین اور میرے بیوی دونوں میرے مخالفت میں کھڑے ہوگئے۔

Literal SWOT analysis نکالا تھا اپنا 

اس کے حساب سے یہ پوائنٹ میری کمزوری تھی اور اس کی وجہ سے عمر گزرنے کے بعد پڑھائی کرنا میرے لئے threat تھا، مگر جیسے میں نے کہا پاکستانی معاشرے میں جو so-called احساس برتری کا احساس جو کہ در اصل احساس کمتری ہے، میرے ساتھ یہ ہوا، کیونکہ مجھے یہ طعنے تک دئے گئے، کہ تم نے شادی اپنے پیسوں سے نہیں کی تو اب ہم سے مدد مانگ رہے ہو، میں نے کونسی ایسی حرام مدد مانگی تھی، والدین ایسے موقعوں پر مدد کرتے ہیں، مگر یہاں مدد نہیں بھی کرتے مگر جو اس طرح اور اس سے بڑھ کر باتیں جو کیں، ان لوگوں سے نفرت ہوچکی ہے مجھے۔


ہم پاکستانی اور ہماری شناخت

مجھے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئے مگر اس وقت جس era میں موجود ہیں، یہاں mind programming جس طریقے سے کی جارہی ہے، جیسے ابھی پی ایس ایل میچز کے دوران میں نے عورتوں کے exhibition matches کی پروموشن کے لئے ایک particular hashtags استعمال کیا گیا ہے، جو کہ نواز شریف کی خواہش بھی تھی، یعنی #LevelPlayingField،

اب کہنے کی بات ہے

اب میری یہ بات کہنے کے بعد کچھ لوگوں نے یہ بات ضرور کرنی ہے، کہ میں اپنا ذہن کھول کر رکھوں، مگر psychologically اگر ہم پاکستانی psyche کو مدنظر رکھیں، تو آہستہ آہستہ سے لوگوں کو کیا descenticized نہیں کیا جارہا؟ کیا ایسے hashtags استعمال کر کے ایک common ground نہیں بنایا جارہا؟ کیا ایسی چیز پہلے پاکستان میں نہیں ہوئی؟

کچھ زیادہ دور نہ جائیں

کچھ عرصہ پہلے عورتوں کے sanitary napkins کی پروموشن پاکستان میں کی گئی، تو اس کے لئے water-test کیا گیا، as usual پہلی بار یہی پاکستانی عوام کا ری ایکشن اتنا سخت تھا، جس کی بناہ پر اس کمپنی نے اس پروڈکٹ کو پروموٹ کرنا بند کردیا، مگر اس کے بعد کچھ وقت بعد دوبارہ جب کیا گیا، تو پچھلی بار کے comparatively کم ری ایکشن آیا تھا، اور اس کے بعد ان لوگوں کی مارکٹنگ strategy ایسی تھی، کہ لوگوں کی سوچ کے ساتھ tweaking کی جائے، جس کی وجہ سے وہ کمپنی 3rd time lucky رہی، کیا یہی ممکن نہیں کہ یہی چیز آج پاکستان میں دوبارہ سے کی جارہی ہے؟

ویسے بھی level playing field ایک ایسی ٹرم ہے

کیونکہ ہماری mentality جس طرح کی ہے، ایک طرح سے 3 Idiots میں Chatur کا character کی طرح ہیں، جہاں اس مووی کے اسٹارٹ میں بتایا گیا تھا، کہ امتحان میں پاس کرنے کے دو طریقے ہیں، یکم خوب دل لگا کر پڑھیں؛ بصورت دیگر دوم دوسروں کو distract کرکے دوسری چیزوں میں involve کرا کر اپنے آپ کو اوپر لائیں، ٹھیک اسی طرح جیسے آج یعنی ۵ مارچ ۲۰۲۳ کو کراچی کنگز کی صورتحال ہے، جہاں یو ٹیوب پر کراچی کنگز کا مذاق اڑایا جارہا ہے، جہاں یہ کہا گیا ہے کہ زلمی اپنے آخری ۴ میچ ہار جائے، وغیرہ وغیرہ،  

وہی حال ہمارا ہے

کیونکہ ہمارے لوگوں کی impulsive mindset کی وجہ سے یہ چیز بھی ان کے ذہنوں میں موجود ہے، جو کہ ہمارے مذہب سے بالکل دور ہے، کہ دو غلط چیزیں ہوجائیں گی تو آگے چیزیں ٹھیک ہوجائیں گیں، چلیں مان لیتیں ہے کہ فی الفور تو چیزیں ٹھیک ہوجائیں، مگر ان سب چیزوں کا ripple effect کیا ہوگا، اس کو بھی مدنظر رکھیں، مگر یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، کیونکہ یہاں میں نے ایک چیز دیکھی ہے، کہ اگر میں کسی کے ساتھ disagree کررہا ہوں، تو ایسے میں میرے اوپر personal attacks start ہوجاتے ہیں، اور ایسے میں یہ سوچا جاتا ہے کہ اپنے غلط کو اس کو غلط ثابت کر کے صحیح کرسکتے ہیں، جو کہ بحیثیت مسلمان ہمیں اجازت نہیں ہے، کیونکہ میرے نذدیک یہ بےشرمی اور بے حودگی ہے، مگر جیسے میں نے پہلے کہا ہے کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے،

ابھی جو میں دیکھ رہا ہوں

یہ لائن جو بھی پڑھ رہا ہے، وہ یہی کہے گا، کہ یہ حاجی ثنا اللہ ہے، بھائی! میرا یہ باتیں کہنے کا صرف مقصد یہی ہے کہ بے شک میں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوں، مگر جوجلد بازی کا مظاہرہ ہمارے لوگ دے رہے ہوتے ہیں، جیسے ٹریفک میں بھی وہی ٹرم یعنی لیول پلئینگ فیلڈ کے موافق چلتے ہوئے ٹریفک میں wrong way یعنی غلط راستہ استعمال کرتے ہیں، without knowing کہ ان سب کا repercussions کیا ہوسکتے ہیں، کیونکہ پڑھے لکھے لوگ ایسی صورتحال میں یہ بھی دیکھتے ہیں، کہ ان کے آج کے ایکشن کا کل کیا ری ایکشن ہوسکتا ہے، مگر معذرت کے ساتھ جیسے کراچی کی slang language میں بات کروں، جلد بازی میں لیا گیا ایکشن ایک دو بار فائدہ دے سکتا ہے مگر every day is not a Sunday، 

میں صرف یہی بات کررہا ہوں

ابھی بھی ہمارے لئے موقع ہے کہ مسلمان بن کر سوچیں، آپ کو سہولت چاہئے، تو سہولت کے لئے کم سے کم اخلاقی اقدار کو مدنظر رکھیں، respect the law کیونکہ جب تک عام عوام rule of the law کو respect نہیں دیں گے، تو ایسے میں معاشرے میں یہ ٹسل بازی چلتے رہے گی، کیونکہ یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ جیسی عوام ہوگی، ویسی ہی حکمران، تو ایسے میں کیا ہماری اوقات ہے کہ اللہ تعالی کے وعدے کے خلاف جاسکتے ہیں؟ کیا ہماری یہ اوقات ہے، کہ مان لیا کسی کو imposingly آپ نے منا لیا کہ آپ صحیح ہو، اور وہ صحیح نہیں ہے، مگر کیا اس بات کو make sure کرسکتے ہیں، کہ  وہ بندہ ہماری دل سے عزت کرے گا؟ یہ چیز اللہ تعالئ نے ہمیں بحیثیت مسلمان یہ بات بتائی ہے، جس کو یکسر ignore کر کے ہم اس domain میں اس دائیرے میں enter ہورہے ہیں، جسے narcissistic disorder syndrome  کہتے ہیں، 

یہ کیا بلا ہے؟

اس معاملے میں، میں صحیح بندہ نہیں ہوں، مگر ایک common laymen term میں بات کروں تو ایک ایسی feeling ہے جہاں سامنے والا بندہ دوسرے بندے کو نیچا دکھا کر سکون ملتا ہے، جو کہ feeling حیوانوں میں بھی ہوتی ہے، تو ایسے میں انسان ہونے کے ناطے کیا یہ ہمیں suit کرتا ہے کہ انسان ہوتے ہوئے ہم جانوروں کی طرح ایکٹ کریں؟ یہی چیز معذرت کے ساتھ میں نے خاص طور پر کراچی کے معاملے میں دیکھا ہے، مگر یہ بات بھی ماننے کی ہے کہ صرف اور صرف کراچی میں نہیں، بلکہ یہ attention seeking syndrome پورے پاکستان میں ہے، جہاں اپنے آپ کو معلوماتی دکھانے کے لئے بےشرمی کی کسی بھی حد پر جاسکتے ہیں، 


The Ripple Effect/Snowball effect/Sandstorm effect

یہ تین الگ الگ effects ہیں، مگر ان کے impacts ایک دوسرے کے ساتھ inter-related ہیں، کیونکہ ریپل effect یعنی کسی پانئ کے پونڈ میں اگر ہم پتھر پھینکتے ہیں، تو اسکی لہریں جو نکلتی ہیں، اسکو ripple effect کہتے ہیں، کیونکہ ہم نہیں جانتے ہیں کہ ہماری بات کا کیا impact ہوسکتا ہے، تو ایسے میں بڑے بزرگوں کی مانیں تو زبان سے الفاظ اور بندوق سے گولی نکلنے کے بعد نقصان کا ازالا کرنا قریباً ناممکن ہوتا ہے، تو کیا انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے لئے ضروری نہیں کہ حیوانیت دکھانے کے بجائے تھوڑا انسان بن جائیں؟؟؟

کیونکہ ہر بات کا کچھ نا کچھ ری ایکشن ضرور ہوتا ہے

اور معذرت کے ساتھ، ایک اتاولا شخص یا اتاولی عورت کبھی یہ بات سمجھ نہیں سکتا/سکتی۔۔۔

پاکستان کا ازلی دشمن،

جب بھی ہم ازلی دشمن کی بات کرتے ہیں، ہمارے ذہنوں میں سب سے پہلے بھارت کا نام آتا ہے، مگر میرے نذدیک ہمارا سب سے

بڑا دشمن ہماری ignorance ہے۔ کیونکہ پہلی بات یہی ہے کہ جمہوریت اور پارلیمانی سسٹم میں فرق کا شعور ہونا چاہئے، بصورت دیگر اگر کسی ********** کے ********* کو ایک بریانی، ایک سموسے یا پھر ایک ہزار روپے کے عیوض پانچ سال کے لئے اپنے سر پر بٹھالیتے ہیں، یا پھر کسی کی گلی میں نالا بنانے کے عیوض آپ کو کراچی میں حکومت مل جاتی ہے، بلکہ معذرت کے ساتھ کراچی میں activities کے لئے مختص vicinity کس طرح یادگار کے طور پر اپارٹمنٹس میں تبدیل پوا؟ 

کیونکہ جمہوریت میں 

جمہوریت میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ جمہور کی نمائندگی کرنا، یعنی جس طرح مسلمانوں کی صورتحال ہوچکی ہے کہ جمہور کی نمائندگی میں فتوے مل چکے ہیں جہاں مسلمان علما نے ہندوستان میں سورج کی پرستش جس کو اب بھارت میں قانون بنادیا گیا ہے، یعنی کوئی اگر ان traditions کو follow نہیں بھی کرنا چاہتا تو ایسا کوئی آپشن نہیں، کیونکہ جمہوریت کی رو سے یہ جمہور کی نمائندگی ہے، یعنی اگر پاکستان میں بھی جمہوریت کو ہمارے ہر مسائل کا حل بنا کر دکھایا جئے، جس کو ہمارے معزز سیاسی جماعتیں مفاہمتی (منفقانہ) پالیسی کو استعمال کررہی ہیں، اور کراچی میں اپنا ووٹ بینک بنارہیں ہیں، مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں، مجھے مسئلہ لوگوں سے ہے، جن کے اوپر ایک scientific جمہوریت نافذ کردیا گیا ہے، کیونکہ جیسے میں نے اوپر کہیں لکھا ہے، کسی نے آپ کے لئے کوئی کام کردیا ہے، تو جمہوریت کے رو کے حساب سے آپ کو facilitate کیا جائے گا، مگر پاکستان کہاں ہے؟

پاکستان میں اور کراچی میں جمہوریت کی وجہ سے

 جمہوریت کی رو سے اگر majority یعنی جمہور اس بات کی اجازت دے دے کہ پاکستان میں پیپسی یا کوکا کولا کی جگہ Wine، برینڈی اور Beer کو allow کردیا جائے، تو جمہوریت کی رو سے اس کو allow کردیا جائگا، اس کے لئے صرف آپ کو extensive مائنڈ پروگرامنگ کرانی پڑے گی، تاکہ علما کے قلم سے ایسے فتوے لکھوائے جائیں جس کی رو سے demand and acceptance کو create کیا جائے، جو کہ Post-Musharraf Era ہمارے سیاسی جماعتیں لگی ہوئی ہیں، بجائے اس کے کہ عوام اور پاکستان کے مسائل کو حل کرانے کے، پانچ سال ایک سرکس کی طرح اپنے ادوار مکمل کریں گے اور نتیجے میں آپ خود پی پی پی، پی ایم ایل این، اور ابھی پی ٹی آئی بھی اسی نقش قدم پر چل رہی ہے، بجائے اس کے کہ یہ سب ڈرامہ کے بجائے ہمارے اور پاکستان کے مسائل پر توجہ دینے کے، again یہاں بھی مسئلہ سیاسی شعور کی لاعلمی کی وجہ سے ہے.

ویسے بھی

سائنسی جریدے پولیٹیکل سائیکالوجی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جو لوگ سیاست کے بارے میں کم جانتے ہیں وہ اپنے سیاسی علم کے بارے میں زیادہ پراعتماد ہوتے ہیں۔ نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جب متعصبانہ شناختوں کو چالو کیا گیا تو یہ اثر بڑھ گیا۔

"Dunning-Kruger Effect کا خیال ہے کہ جن افراد کو کسی موضوع کے بارے میں بہت کم علم ہے، وہ سب سے زیادہ پراعتماد ہوں گے کہ وہ اس موضوع کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ باشعور افراد بھی اپنی علمیت میں رعایت کریں گے، "مطالعہ کے مصنف ایان آنسن، یونیورسٹی آف میری لینڈ، بالٹیمور کاؤنٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر نے وضاحت کی۔

"2016 کے انتخابات کے دوران دیگر اسکالرز کو ٹویٹر پر اس موضوع پر بحث کرنے کے مشاہدے کے بعد میں ڈننگ-کروگر اثر میں تیزی سے دلچسپی لینے لگا۔ میں متعدد سیاسی ماہر نفسیات کی پیروی کرتا ہوں جنہوں نے سوشل میڈیا پنڈت طبقے پر حیرانی کا اظہار کیا، جو کہ انتخابات کی اپنی بھرپور کوریج میں 'ڈننگ-کروگیرش رجحانات' کا بظاہر مظاہرہ کرتے ہیں۔

کراچی کو جس طرح سے exploit کیا جارہا ہے

کیونکہ ہم لوگوں میں سیاسی شعور نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہم نے ایک بریانی کی پلیٹ کے لئے پانچ سالوں کے لئے

without accountability ان چوروں کو پورے پاکستان پر مسلط کردیتے ہیں اور نتیجے میں یادگار کے نام پر یا سیاسی جماعتوں کے اثر پر پلے گراؤنڈ کی ذمین پر اپنا ووٹ بینک قائم کرلیں گے، کیونکہ یہ پاکستانی جمہوریت ہے۔ اور پاکستانی جمہوریت ہونے کے ناطے، یہ ایکشن ہمارے اپنے اندر سیاسی غیر شعوری کی عکاس ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے بھی فرمایا ہے جس کا متن یہی ہے کہ جیسی عوام ہوگی، ویسے ہی حکمران ہوں گے، کیونکہ عوام اور حکمران دونوں ایک ہی سکے کی دو الگ، الگ سائیڈ یعنی ایک سکے کا چاند ہے اور دوسرا چھاپ، مگر اس سیاسی غیر شعوری کی وجہ سے میرا اپنا یہ ماننا ہے کہ ہم پاکستانی جمہوری سیاست سے پالکل نا آشنا ہے، 

اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں، ایک subtle disclaimer 

یہاں میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا ہوں کہ کراچی صرف کسی ایک کا ہے، کراچی پورے پاکستان کا ہے، مگر کراچی کو جینے دو، اپنے ووٹ بینک کو پروان چڑھانے کے لئے مونٹیسری نہ بنایا جائے، کیونکہ اس ووٹ بینک بنانے کے چکر میں کراچی کی شکل مسخ کردی ہے، جہاں گرین بیلٹس اور storm water drainage ہونی چاہئے تھی، وہاں آبادیاں اور کالونیاں بنا دی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں کراچی اپنی جاہلیت کی وجہ سے مسخ ہورہا ہے۔


We as Pakistanis are definitely hypocrites

ہوسکتا ہے کہ میں غلط ہوں، اور دعا بھی یہی کررہا ہوں، کہ جو میں سوچ رہا ہوں، وہ واقعی میں غلط ہوں کیونکہ پاکستانی ہونے کے ناطے ہمارے لئے شرم کا مقام ہے۔

میں ایسا کیونکر کہہ رہا ہوں؟


ِیہ ویڈیو ڈالنے کا مقصد یہی ہے کہ کسی قوم کا رہن سہن دیکھنا ہے کہ وہ واقعی میں کوئی قوم ہے یا ریوڑ یا پھر ہجوم، تو ان کا ٹریفک دیکھیں، مگر معذرت کے ساتھ، ہمارے پاس بلا وجہ کا مقابلہ بازی، بے فضول کا، کیونکہ ہم سب میں ایک احساسِ کمتری کا عنصر بالکل موجود ہے، جہاں ہم اس کو اپنی شان (جو کہ بالکل موجود نہیں) مگر اپنی جھوٹی شان دکھانے سے کس چیز کا سکون مل رہا ہوتا ہے؟ اگر ان جاہلوں کی منطق استعمال کروں تو یہ بات مانتے ہوئے شرم آرہی ہے کہ ہم پاکستانیوں میں اتنا اتاولا پن اور احساس کمتری آچکی ہے، کہ attention seeking کے چکر میں اس چیز کا بھی خیال نہین کہ پاکستان کا کیسا image ہم بحیثیت پاکستانی دکھا رہے ہیں، ہمارے اندر سے اس چیز کا احساس یکثر ختم ہوچکا ہے کہ ہمارے اس (مندرجہ بالا ویڈیو میں) ایکشن سے دنیا میں پاکستان کا کیا نقشہ دکھا رہے ہیں۔

میں اصل میں اس آرٹیکل کے لئے ہماری عوام کی جہالت جہاں ایک امریکی ولوگر جو ذینب مارکٹ، جس کو کراچی کی ایک بڑی مارکٹ تصور کی جاتی ہے، وہاں آیا تھا، اور وہاں ایک دکاندار نے اس کو دہشتگرد کہا، بےشک امریکی حکومت نے پاکستان کے ساتھ اچھا نہیں کیا، مگر کیا مسلمان ہونے کے ناطے یہ چیز سوٹ کرتی ہے، کہ اس طرح کی گدھا کاری کریں؟ یہاں ہمیں پاکستان کو پروموٹ کرنا ہے یا پھر اپنی انا کی تسکین کرانی ہے؟

پس پردہ تصویر اس چیز کی عکاسی ہے کہ گدھا کاری کی وجہ


اور ملکی مفاد کو اہمیت نہیں دینے کی وجہ سے پاکستان کا یہ image اب دنیا میں بن چکا ہے، جبکہ بھارت میں جہاں کا روپیہ پاکستان روپے کے مقابلے میں گئی گزری قرار دی گئی ہے، مگر مجھے یہ سرچ ریزلٹ ڈھونڈنے میں اتنی محنت کرنی پڑی، اس کے برعکس اوپر والی سرچ ریزلٹ مجھے پہلی کوشش میں ہی دکھائی دی، صرف ہماری گدھا کاری کی وجہ سے، کیونکہ ہمیں صرف اپنی بھڑاس نکالنے کی جلدی ہوتی ہے، بھڑاس نکالنی بھی ہے تو کم سے کم انسانوں کی طرح تو نکالو، یہ گدھا کاری کی کیا ضرورت؟
اب یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد ہمیں احساس ہوجانا چاہئے کہ ان سیاسی جماعتوں نے کس طرح ہمیں استعمال کیا ہے، بجائے اسکے کہ ہم ان سے سوال کرتے کہ ہمارے ٹیکس کی پیسوں کا استعمال کہاں کیا ہے، کیونکہ یہاں مسئلہ accountability کا ہے، کیونکہ نہ کوئی پوچھ گچھ ہے، نہ سزا کا ڈر، مگر جیسے اللہ تعالی نے فرمایا ہے جس کا مفہوم یہی ہے کہ جیسی عوام ہوگی، ویسے ہی حکمران ہم پر موجود ہوں گے، اور فرق صاف ظاہر ہے۔

سیاسی جماعتوں کو لگام لگائیں

یہ مادر پدر آزادی صرف پاکستان میں حاصل ہے کہ پاکستان کی سڑکوں کو پولیٹکل پارٹیز کے بینرز سے گندا کرکے اپنی سیاسی طاقت دکھانے کا موقع مل جاتا ہے، مگر ایسے میں پاکستان کہاں ہے؟ مجھے ان سیاسی جماعتوں سے یہی سوال ہے کہ اس جمہوریت کا فائدہ کیا ہے جب آپ جمہوریت کی آڑ میں اندرون ملک سے لوگوں کو لا کر کراچی میں بسا رہے ہیں، مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں کہ کیوں آرہے ہیں، مگر سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ان لوگوں کو کراچی میں لاکر بسایا جارہا ہے، جس پر ان لوگوں کی سپورٹ پر یہ تارکین ان کے لئے ووٹ بینک اور پاکستان کے لئے liability بنتے ہیں، اسی لئے اس آرٹیکل کے بالکل شروع میں میں نے ہجوم کا لفظ استعمال کیا تھا، وہ بھی وہ والا ہجوم جو لائٹ کے پیچھے بھاگنے کا شوقین ہے، اور یہ سیاسی جماعتیں اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو لائٹ دکھائی ہے، اور حسبِ عادت ہم لوگ ان کی لائٹ کے پیچھے لائن لگائی ہوئی ہے، میں یہاں کسی خاص سیاسی جماعت کی بات نہیں کررہا ہوں، تمام سیاسی جماعتوں نے یہی روش رکھی ہوئی ہے، کیونکہ ہم بجائے اسکے کہ کراس چیک کریں، رٹہ بازی یعنی شارٹ کٹ کی جانب چل دئے، جس کا نتیجہ آج ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ یہ سب جمہوریت کی بدولت ہمیں تحفے مِل رہے ہیں، کیونکہ جمہوریت میں Might is right کا concept ہے، یعنی majority کی بات مانی جائے، اور اسی وجہ سے یہ سیاسی جماعتیں کراچی میں بجائے Co-Curriculum Activities کے لئے مختص جگہ کو اپنی سیاسی جماعتوں کے لئے استعمال کرے، اور عوام نے ان لوگوں کو سپورٹ کیا، جو کہ شعور کی کمی کا خمیازہ ہے، کیونکہ اگر یہ لوگ جو ٹرک کی لائٹ کے پیچھے لگتے ہوئے کراچی نہیں آتے، تو ان سیاسی جماعتوں کو کراچی میں سپورٹ نہیں ملتی صرف جمہوریت کی وجہ سے ان لوگوں کو یہاں سپورٹ ملی، یعنی یہ قوم جمہوریت کے قابل نہیں، خود دیکھ لیں، مشرف کا دور جیسا بھی تھا، Post-Musharraf ادوار سے کافی بہتر تھا، کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں پانچ سال عوام کے بہبود کے لئے کچھ کرنے کے بجائے (ٹیسٹ میچ کرکٹ میں جب میچ کو ڈرا کرنا ہوتاہے) ٹھیک اسی طرح، اپنے پانچ سال پورے کئے، شور ہنگامے کئے مگر جو کام سب سے اہم تھا، یعنی عوام کی فلاح، وہی نہیں کیا، کیونکہ جمہوریت کی وجہ سے ان کی mass majority کراچی میں موجود ہے، اور majority کی بنیاد پر کوئی ان سیاسی جماعتوں کو کچھ نہیں کہہ سکتا، اور اس پر سونے پہ سہاگہ، ہماری عوام ان لوگوں کو سپورٹ کرتی ہے، جو کہ شعور کی کمی کی عکاس ہے۔

ویسے بھی پاکستان کی سڑکوں پر پاکستان کے جھنڈے لگے ہوئے ہونا چاہئے نہ کہ ان سیاسی جماعتوں کے

ویسے بھی بیرون ملک آپ یہ سب کچھ نہیں کرسکتے جو ہمیں پاکستان میں آزادی ہے، کیونکہ دوسرے ملک میں آپ کو ملکی مفاد کا خیال رکھنا ہوتا ہے، اور اس پر یہ کہ وہاں قانون سیاسی جماعتوں کے ماتحت نہیں ہوتی، مگر معذرت کے ساتھ، پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے یہ سب ڈپارٹمنٹ حکومت کے ماتحت ہوچکی ہیں، جس کی وجہ سے یہ ڈپارٹمنٹ حکومت کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں، کہ حکومتی مشینری کیسے استعمال ہوتی ہے۔ 

پاکستانی مفاد 

ہمیں پاکستانی مفاد اور ترجیحات کو دیکھنا چاہئے نہ کہ رٹہ مارو اور سڑک پر نکل جاؤ، جو کہ آج کل پاکستان میں ہورہا ہے، جہاں گدھوں کو گاڑیاں ملی ہوئی ہیں اور چلانے کا ڈھنگ نہیں، حالانکہ پاکستان میں opportunity بے حساب ہے، مگر دیکھنے والی نظر ہونی چاہئے۔ کیونکہ entertainment deprived society میں ہم رہ رہے ہیں، تو ایسے میں ہمارے معاشرے میں گھومنے پھرنے اور دلچسپی کے پوائنٹ ہونے چاہئے تھے جو کہ نہ ہونے کے برابر رہ چکے ہیں، کیونکہ ہماری ترجیحات میں پاکستان اور معاشرے کے لئے سوچ نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے برعکس ہم نے یہی سوچا ہوا ہے کہ بیرون ملک محنت کرلیں گے مگر پاکستان میں اس کا 0.01% بھی نہیں کریں گے، کیونکہ ہمارے لئے پاکستان کوئی معنی نہیں رکھتا، نہ ہی معاشرے میں موجود لوگ، جبکہ
ہمارا مذہب بھی اس چیز کو پسند نہیں کرتا، کیونکہ ہمارے نذدیک یہ بات بھی ہے کہ اپنے گھر والوں کے بعد محلے اور پڑوسی کے حقوق ہیں، مگر آج کے زمانے میں ہم نے ان سب چیزوں کو یکثر فراموش کردیا ہے، مگر اپنے مطلب کے لئے مذہب کو بالکل استعمال کرنا ہے، تو یقیناً ہم پاکستانیوں سے بڑا کوئی منافق نہیں، مسئلہ پاکستان میں نہیں، مسئلہ ہم لوگوں میں ہے، مگر چونکہ ہمیں اپنی غلطیاں دکھائی نہیں دیتی ہیں، تو ایسے میں یہ بات بھی flushed down the gutter۔

تحقیقات

Nipping in the bud

کل کے واقعات میں، میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ انسانیت سوز واقعہ اور زلالت کو حرمت رسول ﷺ سے تشبیح دینا، شرم کا مقام ہے، اور اس پر یہ کہ کل کے واقعے کی سی سی ٹی فوٹیج نکالی گئی، اور اس پر یہ کُلی کھلی ہے کہ سری لنکن مینجر discipline میں پابندی کا حامی تھا، مگر جو لوگ فیکٹری میں کام کرتے ہیں، یہ بات کنفرم کریں گے، کہ ہڈ حرامی میں ورکر کو کوئی جواز چاہئے ہوتا ہے

https://www.facebook.com/watch/?v=396706145487754
 
سیالکوٹ میں سری لنکا کے فیکٹری مینیجر پریانتھا کمارا کو توہین مذہب کے الزام میں مارے جانے پر مزید گرفتاریاں اور مذمت کا سلسلہ جاری ہے، ڈان ڈاٹ کام کی جانب سے ہفتے کے روز حاصل ہونے والی نئی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ اس شخص کے ایک ساتھی نے اسے ہجوم سے بچانے کی کوشش کی۔ خوفناک واقعہ سے پہلے

کمارا کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا اور جمعہ کو اس کے جسم کو آگ لگا دی گئی۔ وزیرآباد روڈ پر واقع راجکو انڈسٹریز کے ملازمین نے جمعہ کے روز اس پر توہین مذہب کا الزام لگاتے ہوئے احاطے میں احتجاج کیا تھا۔

مظاہرین نے وزیرآباد روڈ پر ٹریفک معطل کر دی تھی اور ان میں فیکٹری کے تمام مزدوروں اور مقامی لوگوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ ہجوم کو دھیرے دھیرے چند درجن سے سینکڑوں کی تعداد میں بڑھتے دیکھ کر کمارا چھت کی طرف لپکا۔

لنچنگ سے پہلے لی گئی فوٹیج میں ایک ساتھی کو کمارا کو فیکٹری کی چھت پر بچانے کی کوشش کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا جہاں سے وہ بھاگ گیا تھا جبکہ دو درجن کے قریب لوگوں کا ہجوم آہستہ آہستہ بڑھتا گیا۔ویڈیو میں، ہجوم میں سے کچھ لوگوں کو نعرے لگاتے اور کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ "وہ (مینیجر) آج نہیں بچ سکے گا"، جب کہ ساتھی نے کمارا کو اپنے جسم سے بچانے کی کوشش کی، جو اس آدمی کی ٹانگوں سے چمٹی ہوئی تھی۔بعد ازاں کارکنوں نے ساتھی پر قابو پالیا اور کمارا کو گھسیٹ کر سڑک پر لے گئے اور لاتوں، پتھروں اور لوہے کی سلاخوں سے اس پر تشدد کیا جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعد ہجوم نے لاش کو آگ لگا دی تھی۔

کمارا، سری لنکن عیسائی، راجکو انڈسٹریز میں 10 سال سے کام کر رہے تھے۔

اس وحشیانہ قتل کی سرکاری اہلکاروں اور انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔ 

118 سمیت 13 بنیادی مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔

جمعہ کو دیر گئے ڈی سی سیالکوٹ اور ڈی پی او نے صوبائی حکام کے اجلاس کو ویڈیو لنک کے ذریعے واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ متوفی ایک سخت منتظم کے طور پر جانا جاتا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ 110 کے قریب مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ دیگر کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ رات گئے ایک بیان میں، آئی جی پی نے دعویٰ کیا کہ گرفتار ہونے والوں میں دو اہم ملزمان فرحان ادریس اور عثمان رشید بھی شامل ہیں۔

ہفتہ کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی برائے اطلاعات حسن خاور نے گرفتاریوں کی تعداد 118 تک اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا کہ 200 چھاپے مارے گئے اور حراست میں لیے گئے افراد میں 13 بنیادی مشتبہ افراد شامل ہیں۔ پنجاب کے آئی جی پی راؤ سردار علی خان کے ہمراہ لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں، معاون خصوصی نے کہا کہ پولیس نے 160 سی سی ٹی وی کیمروں سے فوٹیج حاصل کی ہے اور اضافی ویڈیو اور ڈیٹا کے ذرائع جیسے کہ موبائل ڈیٹا اور کال ریکارڈز کا بھی تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ خاور نے کہا، "کافی پیش رفت ہوئی ہے اور تحقیقات جاری ہیں،" انہوں نے مزید کہا کہ وزارت داخلہ اور خارجہ کے ذریعے لاش سری لنکا کے سفارت خانے کے حوالے کی جائے گی۔

انہوں نے کہا، "میں آپ کو ایک بار پھر یقین دلانا چاہتا ہوں کہ انصاف نہ صرف ہو گا بلکہ ہوتا ہوا دیکھا جائے گا،" انہوں نے کہا، انہوں نے مزید کہا کہ کسی کو کوئی چھوٹ نہیں دی جائے گی اور کارروائی کی جائے گی۔ اپنے فرائض میں غفلت آئی جی پی نے جمعہ کے واقعات کی ٹائم لائن فراہم کرتے ہوئے کہا کہ اب تک موصول ہونے والی معلومات کے مطابق، یہ واقعہ جمعہ کی صبح 10:02 بجے شروع ہوا اور صبح 10:45 بجے کے قریب تشدد اور مار پیٹ تک بڑھ گیا، جس کے نتیجے میں کمارا کی موت صبح 11:05 بجے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو صبح 11:28 پر اس واقعہ کی اطلاع دی گئی اور وہ 11:45 پر موقع پر پہنچی۔

آئی جی پی نے کہا کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے جلد از جلد انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چالان پیش کیا جائے گا۔

سری لنکن وزیراعظم کو یقین ہے کہ وزیراعظم عمران ’ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے‘

سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجا پاکسے نے کہا کہ وہ منیجر پر وحشیانہ اور جان لیوا حملے سے صدمے میں ہیں۔

"میرا دل ان کی اہلیہ اور خاندان کے لیے دھڑکتا ہے۔ # سری لنکا اور اس کے لوگوں کو یقین ہے کہ وزیر اعظم [عمران خان] تمام ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے اپنے عزم پر قائم رہیں گے،" انہوں نے ہفتہ کو ٹویٹ کیا۔

سری لنکا کی میڈیا آرگنائزیشن نیوز 1st کی رپورٹ کے مطابق، سری لنکا کی پارلیمنٹ نے بھی ہفتے کے روز اپنے اجلاس کے دوران لنچنگ کی مذمت کی۔

"حکومت سری لنکا کی یونیورسٹی کی ڈگری ہولڈر اور پاکستان میں ایک فیکٹری کے مینیجر پریانتھا کمارا دیاوادنا کی موت پر اظہار تعزیت کرنا چاہتی ہے، جو علاقائی حدود سے قطع نظر انتہا پسندوں کے حملے کا نشانہ بنی تھی۔ حکومت اس غیر انسانی حملے کی شدید مذمت کرتی ہے جس نے دنیا کو حیران کر دیا،" وزیر دنیش گناوردینا نے کہا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ انہوں نے وزیراعظم عمران کی "انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مداخلت" کی تعریف کی۔


سری لنکا پورے ملک پر الزام نہیں لگا رہا: قریشی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کمارا کے لنچنگ کو ایک "افسوسناک واقعہ" اور ملک کے لئے "شرم کی بات" قرار دیا۔ ہفتہ کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں قریشی نے کہا کہ واقعے کی اعلیٰ ترین ریاستی سطح پر نگرانی کی جا رہی ہے، وزیر اعظم عمران خان تحقیقات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ "ہم سری لنکا کے ساتھ رابطے میں ہیں ہم نے ان کے ہائی کمشنر کو لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ کیا اور میں بتانا چاہتا ہوں کہ انہوں نے پاکستان کے موقف اور فوری ردعمل کو سراہا ہے۔

"یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس نے سب کو دکھ پہنچایا ہے... لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ 'اس کی وجہ سے ہم کسی پورے طبقہ یا ملک کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔' وہ توقع کرتے ہیں کہ پاکستان ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گا۔ قریشی نے مزید کہا کہ وہ آج سری لنکا کے وزیر خارجہ سے رابطہ کریں گے اور انہیں تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ان کے خیال میں یہ ایک افسوسناک فعل ہے لیکن پاکستانی حکومت اور قوم کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"

مفتی منیب کا کہنا ہے کہ میڈیا قبل از وقت الزام تراشی سے

گریز کرے۔

مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمان نے واقعے کی مذمت کی لیکن میڈیا سے مطالبہ کیا کہ وہ معاملے کی تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے کسی گروہ یا فرد کو ذمہ دار ٹھہرانے سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ جب ملک میں آئینی اور قانونی نظام موجود ہے تو اس میں کسی بھی قسم کی کمی کے باوجود قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’’معاشرے میں انارکی اور لاقانونیت پھیلتی ہے جو کہ کسی بھی طرح ملک کے لیے سود مند نہیں ہے اور بین الاقوامی سطح پر ملک کا منفی امیج بنتا ہے‘‘۔

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting