یہ ایک بہت ہی بڑی خطر ناک بات ہے کیونکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کی پریکٹس کی بناہ پر آہستہ آہستگی سے acceptanceیعنی ہم آہنگی بنائی جارہی ہے، یعنی ذہن کو اس جانب مائل کیا جارہا ہے جس کا اثر ہم پر تو نہیں مگر ہماری آنے والی نسلوں پر ضرور ہوگی کیونکہ یہ چیزیں جینریشنز پر اثر انداز ہوتیں ہیں، اور جیسا کہ آپ سب بھی جانتےہیں کہ جینریشنز کا اثر فوری نہیں ہوتا بلکہ اپنا وقت لیتی ہے۔
ماضی میں بھی پاکستان میں ایسا ہوچکا ہے
جب پاکستان میں پہلی پہلی بار عورتوں کی ایک پروڈکٹ کو متعارف کیا جارہا تھا، تو پہلی بار پاکستان میں جو reactionآیا تھا، اس کمپنی کو فورا وہ پروڈکٹ واپس لینی پڑی تھی، مگر کچھ سالوں کے بعد جب دوسری بار پاکستان میں ایسا ہوا تو پہلی بار کے مقابلے میں reactionاس بار ہلکا تھا۔
اس کو mind programmingکہتے ہیں
یعنی ایک بات کو اتنی مرتبہ دھرانا کے سننے والے کو یہی لگے کہ یہی ٹھیک ہے، جیسے ایک لفظ sexدس سال پہلے ایک tabooتھا مگر آج ایک روزانہ استعمال کا لفظ ہے۔
Getting Back to the Point
اب یہاں بار بار کورونا کا رولا بول بول کر اور نیوز چینل والوں کا بار بار ایسا چورن بیچنا اور زخیرہ مافیہ والوں کو، اور ہماری panic buying endorsed عوام نے یہاں بہت بڑا رول کو playکرنا ہے کیونکہ پچھلی بار کا scenarioہمارے سب کے لئے نیا تھا مگر اب چونکہ یہ سیکنڈ ویو ہے، تو ایسے میں ہم سب تیار ہیں، کیا ہم بھول گئے جب ان دنوں میں امتیاز سوپر مارکٹ کھولی گئی تھی تو کیسے عوام گھسی تھی جیسے کل آنا ہی نہیں ہے۔۔۔
میرا نہیں خیال اس بار بھی کچھ ذیادہ فرق ہوگا بمقابلہ پچھلی بار
بلکہ اس بار کچھ لوگوں نے اس so calledبیماری کو status queکے طور پر استعمال کریں گے، جیسے کچھ لوگوں نے مجھے کہا کہ ماسک پہننے سے تمہیں مٹی سے چھینکیں نہیں آئیں گیں کیونکہ اصل میں مجھے مٹی سے بہت الرجی ہے، میں نے جواب میں یہی کہا کہ ٹھیک ہے مگر مٹی سونگنا ذیادہ خطرناک ہے کہ اپنے جسم کی گند اور کاربن ڈائی آکسائڈ کو دوبارا اندر لینا؟ کیونکہ اللہ تعالی نے inhale اور exhaleکا نظام الگ رکھا ہے تو کوئی مصلحت ہوگی، اب ایسے میں show offکے لئے بیماری پالنا کہ مجھے یہ بیماری ہے کیا فخر کی بات ہے؟ زرا اس حوالے سے بھی سوچیں۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں