Search me

Karachi LockDown لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Karachi LockDown لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہمارے رویے

یہاں میں ایک پاکستانی ہونے کے ناطے کہنے لگا ہوں، کیونکہ ہمیں پاکستانی ہونے کے ناطے اپنے آپ کو سیاسی جماعتوں کے ماتحت بننا پسند ہے،

میں ایسا کیونکر کہہ رہا ہوں؟

کیونکہ بات ترجیحات کا ہوتا ہے، جس کو ہم manipulate کرتے ہیں، کیونکہ سیاسی جماعتوں کو کراچی شہر کو اپنا ووٹ بینک بنانے میں مصروف ہیں، خود بتائیں، ن لیگ نے کراچی میں کیا کام کیا ہے؟ اگر ہم ان کی contribution جو پنجاب میں کی ہے، اس کو کراچی سے موازنہ کریں، تو نا کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔

ابھی پاکستان اور آسٹریلیا کی کرکٹ سیریز کا دوسرا میچ کراچی میں ہورہا ہے

اور معذرت کے ساتھ، as usual ہم کراچی کے نیشنل اسٹیڈئم کو خالی دیکھ رہے ہیں، مگر کیا ہم نے سوچنے کی کوشش کی ہے کہ ایسا کیونکر ہورہا ہے؟ کیونکہ ہمارے رویے ایسے ہوگئے ہیں، کہ دیکھا جائےگا، consequences کا سوچنا نہیں ہے کہ ہمارے اس ایکشن کا کیا ری ایکشن ہوگا، کیونکہ میں یہاں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ کراچی کو خالی کرو، کیونکہ شہر لوگوں کے رہنے کے لئے ہوتے ہیں، جبکہ یہاں ہماری سیاسی جماععتیں، جن کو پاور ہم عوام ہی نے دی ہے، انہوں نے کراچی کو اپنا ووٹ بینک بنا لیا ہے، کیونکہ جمہوریت میں یہ چیز ہے کہ ووٹ شہر سے دیا گیا ہے، اور یہاں سیاسی جماعتوں نے بجائے نئے شہروں کو بنائیں، کراچی کو رگڑے جارہے ہیں، جہاں facilities بنانی چاہئے تھی، وہاں یاد گار شہدہ کے نام پر اپارٹمنٹ بنے ہوئے ہیں، جن کا انجام recently وہی پلازہ کی مانند ہو گا جن کا ابھی recent time میں demolition ہوا ہے، نام نہیں لوں گا، مگر ہماری سیاسی جماعتوں نے جس طرح کراچی کو over populate کردیا ہے کہ جتنا یہ شہر اپنے وہائشوں کو سہولت فراہم کرسکتا ہے اس سے زیادہ populate کردیا ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ صرف کام کرنے کراچی آتے ہیں، مگر نا کراچی کو own کرتے ہیں، اور نا اس بات کی ڈیمانڈ کرتے ہیں، کہ کراچی کیوں بھیج رہے ہو، ہمارے گاؤں کے قرب میں نوکریاں دی جائیں، مگر ہماری ترجیحات میں ملک اور شہر دور کہیں ہے پہلے اپنی ترجیحات معنی رکھتی ہیں، اور اسی وجہ سے اب کراچی اتنا congested ہوچکا ہے کہ کراچی میں انٹرنیشنل میچ دیکھنے کے لئے ۳۰۰ روپے خرچ کرنے کے لئے بھی کوئی تیار نہیں، جبکہ یہی لوگ پنجاب میں vacation منانے کے لئے میچز کو enjoy کرتے ہیں، جبکہ کراچی میں اتنا بڑا گیم ہورہا ہے، اس کو دیکھنے کے لئے کسی کے پاس ٹائم نہیں، کیونکہ کراچی کو اتنا congested جو کردیا ہے۔

مسلمان ہونے کے ناطے

میں زیادہ لمبی نہیں کروں گا، مگر مسلمان ہونے کی ہم نوٹنکی کرتے ہیں، کیونکہ ہم سب اگلے درجے کے منافق ہیں، کیونکہ ہمیں اپنی فکر ہے مگر ملک کا نہیں سوچنا ہے، کیونکہ ملک ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے، اور یہاں بھی منافقت شامل ہے کیونکہ بات چیت کی حد تک تو ہم پاکستانی ہیں مگر جب بات ہماری اور ملکی ترجیحات پر آتی ہیں، تو ایسے میں منافقت میں ہم اپنی ترجیحات دکھاتے ہیں، اور نتیجے میں یہی ہوتا ہے جو اس وقت کراچی میں ہورہا ہے، کیونکہ کراچی میں اپنی پاور دکھانے کے لئے اتنے اندھے ہوچکے ہیں، کہ کراچی کا ماحول خراب کرنے میں بھی تیار ہیں، 

خود دیکھیں

ایک تو rules and regulations کی application کا فقدان ہے، rules بالکل موجود ہیں، مگر وہ کیسے اپلائی ہوں گی، اس کا فقدان ہے، جبکہ یہی لوگ جب پاکستان سے باہر جاتے ہیں تو انسان کے بچے بنے ہوئے ہوتے ہیں، جبکہ جیسے ہی قائد اعظم انٹرنیشنل پر لینڈ ہوتے ہیں، مادر پدر آزاد ہوجاتے ہیں، کیونکہ قانون کی ایپلیکیشن اتنی مشکل ہے کہ گناہگار کو گناہ کا مرتکب کرنے میں ۲۰، ۲۰ سال لگ جاتے ہیں، کیونکہ as usual کچرے کو کراچی میں ووٹ بینک کے نام پر لا کر رکھ دیا ہے، اور قانون سیاسی جماعتوں کی رکھیل ہے، کیونکہ ہم عوام نے اپنی قبر کھودنے کا خود ارادہ کردیا ہے، 

شعور کی کمی

کیونکہ میرا یہی ماننا ہے کہ ہم عوام میں شعور کی کمی ہے اور شعور کا تعلق پڑھائی سے بالکل نہیں ہے، مگر جیسے اوپر میں نے لکھا ہے کہ ہمارے رویے ایسے ہوچکے ہیں کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا، اور ساتھ میں اس احساس کمتری کا مظاہرہ کہ ہمارے پاس پیسا ہے تو سامنے والے کو ہم نے خرید کر رکھ لیا ہے، ہمارے باپ کا خریدا ہوا نوکر ہے، میں ایک بینک میں کام کرتا ہوں، وہاں بہت دیکھا ہے کہ ایس او پی کی بات کرو کہ ایک وقت میں ایک بندہ کاؤنٹر پر رہے تو اتنی سی بات کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، پہلے میری ایک بات کا جواب دے دیں، ایسے میں بحث کر کے آپ کیا prove کرنا چاہتے ہو؟ خاموش اگر رہتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ کمزور ہیں، یا جواب نہیں دے سکتے؟ مگر خاموش اس لئے رہتے ہیں کیونکہ یہ ہماری تربیت ہوتی ہے، مگر یہ بات بھی یاد رکھیں کہ اگر کبھی یہ حرکتیں اور یہ trolling کسی نے escalate کردی، تو بات پولیس پر جاسکتی ہے، کیونکہ اگر کوئی آپ کو کاونٹر پر رش لگانے سے منع کررہا ہے، تو ایسے میں اگرچہ ٹکٹ کا سسٹم نہیں بھی ہے، تو ایسے میں کسی بھی حال میں آپ کاؤنٹر پر رش نہیں لگا سکتے ہیں، مگر معذرت کے ساتھ ہمیں جلدی اتنی ہوتی ہے کہ اپنا کام جلدی کرکے نکلنا چاہتے، جبکہ ایسی چیزوں کو پڑھاوا دینا اصل میں ہمارے character کی کمی ہے، ورنہ کیا وہ لوگ بیوقوف ہیں جو ٹکٹ نہیں ہونے کے باوجود خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں، حالانکہ ان کو بھی جلدی ہوتی ہے، مگر ایسی جلد بازی کی وجہ سے آپ ٹیلر کا نقصان کررہے ہو، کیا اس چیز کا ادراک ہے؟ اس کا تو ہمارا مذہب جس کے لبادے میں ہم کام چوری کرتے ہیں، میرے اپنے سامنے ایک واقعہ ہوا کہ ایک کسٹمر کو فارغ کر کے ٹیلر کیش سمیٹ رہا تھا، ایسے میں ایک اور کسٹمر آتا ہے اور ۵۰۰۰ کے کچھ  نوٹ کاونٹر پر پھینکتا ہے اور بولتا ہے کہ اس کو گن کر پرچی بناؤ، اب مسئلہ یہ ہوا تھا، کہ اس کا پرانا کیش اور اس کسٹمر کا کیش مکس ہوگیا اور ایسے میں جو رقم بنی تھی، ۱۵۰۰۰ کم تھی مگر اس میں ۱۵۰۰۰ زیادہ سے رقم کی سلپ بنادی، جو کہ شام میں جب balancing میں پتا چلی، جو کہ as usual ٹیلر کو اپنے خود کے پاس سے پیمنٹ کرنی پڑی، جس میں، میں نے اور اس برانچ کے آپریشن منیجر نے کچھ رقم ڈال دی تھی، مگر خود بتائیں، ایسی جلد بازی کا کیا فائدہ کہ جس کی وجہ سے ایک ٹیلر جو مشکل سے ۲۵۰۰۰ مہینے کے کماتا ہے، اور آفس کے بعد رکشہ چلاتا ہے، ایسے بندے کے لئے ۱۵۰۰۰ ایک ساتھ arrange کرنا، کتنی مشکلات کے ساتھ کی ہوگی، مگر ہم نمازیں پوری پڑھتے ہیں، نماز کے بعد حقوق العباد کے سوال پر خاموشی کے علاوہ کوئی جواب ہے؟ حالانکہ یہ چیز کو avoid کیا جاسکتا تھا مگر ایک نیا لڑکا، یہ چالاکیوں کو تھوڑی جانے گا۔ مگر یہ واقعہ بتانے کا مقصد یہی تھا کہ کتنے بڑے منافق بن چکے ہیں۔

ہماری عوام کا اتاولا پن

یہ میں ہمیشہ ہی کہتا رہا ہوں کہ ہم لوگ emotionally بہت ایکٹو ہیں، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ بہت سے لوگوں نے فوراً conclusion پر پہنچنا ہے کہ اس لڑکے کو کیا ہوا ہے ایسا کہہ رہا ہے بجائے اس کے کہ آکر پڑھیں کہ سامنے بندہ کہنا کیا جارہا ہے، اس کے بجائے ہم لوگ trollers والے ہجوم کے مانند بن رہے ہیں۔

پہلے یہ بتائیں کہ ٹرولنگ کرنے سے کیا سکون ملتا ہے؟

  • کیا ٹرولنگ کرنے سے آپ کو groove میں چڑھاؤ آتا ہے؟
  • کیا ٹرولنگ کرنے سے یا mock موک کرنے سے سامنے والا آپ کو وہ عزت یا respect دے گا، جو آپ سمجھ رہے تھے کہ آپ deserve کرتے ہیں؟
  • کیا ہر چیز میں اپنے آپ کو ـرکشہ ڈرائیورـ کی مانند ہر جگہ اپنی ٹانگ اَڑانے سے کیا آپ intelligent دکھائی پڑھتے ہیں، یا ہر چیز میں lime light میں موجودگی کیا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ قابل ہیں؟

آخر آج میں اتنا aggressive کیونکر ہورہا ہوں؟
گدھا کاری ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے

آج ایک کیس دیکھا، (میں کیس سے پہلے کچھ کہنا چاہ رہا تھا، مگر میں یہاں موک یا ٹرول نہیں کرنا چاہتا)، میرے ساتھ بلاوجہ کا بحث بازی کررہا ہے کہ نوٹ کیوں ایک جانب کررہا ہوں، ایسے ہی گنوں، اس سے پہلے میں آگے بڑھوں، میں بتادوں کہ میں آفس میں کیش ذمہ داری بھی دیکھتا ہوں، ساتھ میں دوسری ذمہ داریاں، جیسے ریپورٹنگ وغیرہ، تو اسی لئے میں نے یہ بات کہی ہے کہ میں کیش کی ذمہ داری بھی دیکھتا ہوں، تو ایسے میں ایک صاحب آئے اور مجھ پر پریشر ڈالنے لگ گئے کہ جلدی جلدی کروں، تو میں as usual پہلے نوٹوں کی اسکروٹنی، جس میں پہلے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ head count یعنی جتنے نوٹ موجود ہیں، وہ وہی رقم بن رہیں ہیں، جو ڈپازٹ سلپ پر موجود ہے، یا نہیں، تو وہاں پہلے مجھے ٹوکا، کہ گن کیوں رہے ہو، جب میں کہہ رہا ہوں، وہاں میں نے آرام سے ان سے کہا کہ سر یہ میرے لئے ضروری ہے کہ make sure رقم پوری ہے، تو جواب میں مجھے کہہ رہے ہیں، کہ ایسی کوئی ایس او پی موجود نہیں، جبکہ گلوبلی یہ right آفیسر کو دیا گیا ہے کہ وہ proper scrutiny کرے، کیونکہ آفسر کی assurity اور تصدیق ہر یہ رقم برانچ کے والٹ میں بند کیا جاتا ہے، پہلی بات یہ ہے کہ یہ گدھا کاری کی آزادی آپ کو صرف پاکستان میں موجود ہے، دبئی جو کراچی سے ۱:۳۰ گھنٹہ دور ہے، وہاں آپ ایسا بول کر دکھاؤ، labour laws وہاں کے اتنے سخت ہیں، لیبر اس بات پر آپ کو sue کرسکتا ہے، کہ آپ نے اس کے پروفیشنل پروسس میں مداخلت کی ہے، دوسری بات یہ ہے کسٹمر کے حقوق کے ساتھ کسٹمر کے ذمہ داریاں بھی موجود ہے، مگر معذرت کے ساتھ یہودیوں کی طرح جو قرآن کی ایک آیت کا حوالا دے کر اپنی بات منوانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہوتے تھے، جب کہ ہمارے مذہب میں ہر چیز کو قدرتی طور پر اٹھایا گیا ہے، میں مذہب کے معاملے میں اچھا نہیں ہوں، مگر جتنا بھی میں پڑھا ہے، اس کے حساب سے قرآن میں متعدد جگہ ذہن میں سوال پیدا ہے، اورسوال پیدا کرنے کے بعد اگلی آیت، اگلی صورت میں اس کا جواب دیا گیا ہے یہ پھر کچھ چیزوں کو متعدد بار واضع کیا گیا ہے مگر کھل کر نہیں بتایا گیا ہے (read Jerusalem) جس کو قرآن میں میری ناقص معلومات کے مطابق اشاروں میں ضرور واضع کیا گیا ہے مگر نام کہیں بھی نہیں لیا گیا، تو اتنی لمبی تمہید باندھنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ جب ہمارے اپنے قرآن مجید میں ایسی کوئی پریکٹس نہیں تو ہم جس منہ سے ایسی پریکٹس کو نا صرف implement کرتے بلکہ اس سے ذیادہ بری بات یہی ہے کہ اس act کو پروموٹ بھی کررہے ہیں، اس میں ذمہ داری ہمارے بڑوں کی ہے، کیونکہ ہمارے بڑے اب صرف ایک ہی motive یعنی اپنی اہمیت دکھانے کے لئے جتنی محنت کرتے ہیں، اتنی محنت معاشرہ بنانے میں لگاتے تو پاکستان کا یہ حال نہیں ہوتا!

اب میرے ساتھ جو ہوا، 

میرے ساتھ جو بھی ہوا، ایسے میں اگر میں کسی اور ملک میں ہوتا تو وہاں employee security رہتی ہے، جس کو make sure کرنا عوام کی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر معذرت کے ساتھ customer is always right مگر میں ساتھ میں یہ بھی add کروں گا، کہ customer is always right but customer is not a king ping, instead make customer accountable for what it is demanding. اور اب میں مدے پر آتا ہوں، جمہوریت کا سب سے بڑا نقصان اس معاشرے میں ذیادہ ہے، جہاں معاشرتی شعور کی کمی ہے، ایسی چیز کی ڈیمانڈ کرنا جو معاشرے کے کام نہیں آئے گا، اس کے بجائے کسی ایک خلقت، کسی ایک کمیونٹی، کسی ایک فرقہ کو سپورٹ دینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

ایسے میں پاکستان کہاں گیا؟

میں اوپر والے واقعے سے یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ صرف میرے ساتھ ہوا اس لئے یہ اچھی بات نہیں، کسی بھی معاملے میں


دیکھیں، ہم ہر جگہ دیکھیں، جس طرح کی مفاہمتی پالیسی کراچی میں چل رہی ہے، کیونکہ ووٹ بینک بنانے کی روِش کی بناہ پر ہر کوئی اپنے ووٹ بینک کو کراچی لا کر سیٹل کر رہے ہیں، کس لئے؟ مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں کہ یہ لوگ آرہے ہیں، مجھے مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ کراچی آکر جس ناگفتہ بہ صورتحال میں رہ رہے ہوتے ہیں، اس پر ان لوگوں کو صرف ایک بریانی کی پلیٹ پر ۵ سال کا approval مل جاتا ہے، معذرت کے ساتھ مشرف کے ٹائم کے بعد سے پاکستان میں یہی کھیل ہورہا ہے، خود دیکھیں، حکومتیں اپنا tenure مکمل کررہی ہیں، مگر کیا regime نے کیا؟ continuity نہیں ہونے کی بناہ پر پاکستان کی جو حالت ہوچکی ہے، ہم پاکستانیوں نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان اس جمہوریت میں پہنچادیا ہے، جس کا ہمیں کوئی احساس نہیں، احساس اس لئے نہیں ہے، کیونکہ ہمیں شعور نہیں، شعور ہوتا، تو پہلے پہل سوال کرتے کہ ہمارے ٹیکس کی رقم کہاں صرف ہورہی ہے! اگر ٹیکس کا پیسہ دے کر بھی ہمیں آغا خان اسپتال، یا دوسرے پرائیوٹ اسپتال میں علاج معالجہ کرانا ہے، تو کس بات کا ٹیکس آپ لے رہے ہو؟ اگر ہم میں شعور ہوتا تو تو اس بات کا سوال کرتے، بہت پہلے ہمارے اسی پاکستان میں وظیفہ کا سسٹم ہوتا تھا، اب کہاں ہے؟ جمہوریت کی وجہ سے اب یہ تمام سیاسی جماعتیں musical chair کھیلنے میں لگی ہوئی ہیں، اور اس پر سونے پہ سہاگہ، عوام کو احساس ہی نہیں ہے (کیونکہ ان کو شعور نہیں ہے) کہ ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے، یہ کہہ کر لالی پاپ دیا جاتا ہے کہ باہر جاؤ، اور رقم پاکستان بھیجو، یہ ہماری achievement ہے، شرم کا مقام ہے ہم پاکستانیوں کے لئے، کیا کبھی پاکستانی بن کر سوچا ہے؟ کیا کبھی پاکستان کے لئے بھی سوچا ہے؟

ابھی مری کا سانحہ ہوا ہے

اور اس سانحہ کے بعد مجھے کابل کی تصاویر دیکھنے کو ملی، جہاں مری سے ذیادہ برفباری ہوئی ہے۔ مگر جس طرح ان لوگوں نے حب الوطنی کا مظاہرہ کیا، وہاں کی ویڈیوز دیکھ رہا تھا، برفباری کے دوران بھی کام بھی ہورہا تھا، لوگ برفباری بھی انجوائے کررہے تھے، ٹریفک بھی چل رہا تھا، جبکہ ہمارے پاس سے کیا نیوز نکل رہی ہے، ۳۰۰۰ کا ہوٹل کا کمرا ۴۰۰۰۰ کا بیچا گیا، گاڑی کو tow out کرنے کے چارجز لئے گئے، over capacity کس بلبوطے پر کیا گیا؟ بیشک عوام کسی بھی ملک کی عقلمند نہیں ہوتی، اس چیز کی ذمہ داری یقینی طور پر حکومت وقت کی ہوتی ہے، مگر عوام بری الذمہ بالکل نہیں، کیونکہ بیشک سمجھ بوجھ بالکل نہیں مگر بات یہ ہے کہ ملکی شعور کے تقدس کا خیال رکھنا چاہئے تھا، یہ عوام کی بھی ذمہ داری تھی کہ ٹک ٹاک کے لالچ میں تمام رکاوٹوں کو بالا تاک رکھ کر اس طوفان میں آگئے، نتیجے میں نہ صرف اپنی جان گنوائی بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا یہ image باور کروائی کہ ہم پاکستانی اس قابل نہیں کہ آپ کو host کرسکیں، ہماری اوقات نہیں۔

آخر ملک کے بارے میں ہم کیونکر نہیں سوچتے؟

بیشک ہماری حکومتیں (موجودہ حکومت کو ملا کر)، یہ سب لوگ incompetent ہیں، اور جمہوریت کی آڑ میں اپنا ووٹ بینک بنانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا ہے۔

تحقیقات

Nipping in the bud

کل کے واقعات میں، میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ انسانیت سوز واقعہ اور زلالت کو حرمت رسول ﷺ سے تشبیح دینا، شرم کا مقام ہے، اور اس پر یہ کہ کل کے واقعے کی سی سی ٹی فوٹیج نکالی گئی، اور اس پر یہ کُلی کھلی ہے کہ سری لنکن مینجر discipline میں پابندی کا حامی تھا، مگر جو لوگ فیکٹری میں کام کرتے ہیں، یہ بات کنفرم کریں گے، کہ ہڈ حرامی میں ورکر کو کوئی جواز چاہئے ہوتا ہے

https://www.facebook.com/watch/?v=396706145487754
 
سیالکوٹ میں سری لنکا کے فیکٹری مینیجر پریانتھا کمارا کو توہین مذہب کے الزام میں مارے جانے پر مزید گرفتاریاں اور مذمت کا سلسلہ جاری ہے، ڈان ڈاٹ کام کی جانب سے ہفتے کے روز حاصل ہونے والی نئی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ اس شخص کے ایک ساتھی نے اسے ہجوم سے بچانے کی کوشش کی۔ خوفناک واقعہ سے پہلے

کمارا کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا اور جمعہ کو اس کے جسم کو آگ لگا دی گئی۔ وزیرآباد روڈ پر واقع راجکو انڈسٹریز کے ملازمین نے جمعہ کے روز اس پر توہین مذہب کا الزام لگاتے ہوئے احاطے میں احتجاج کیا تھا۔

مظاہرین نے وزیرآباد روڈ پر ٹریفک معطل کر دی تھی اور ان میں فیکٹری کے تمام مزدوروں اور مقامی لوگوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ ہجوم کو دھیرے دھیرے چند درجن سے سینکڑوں کی تعداد میں بڑھتے دیکھ کر کمارا چھت کی طرف لپکا۔

لنچنگ سے پہلے لی گئی فوٹیج میں ایک ساتھی کو کمارا کو فیکٹری کی چھت پر بچانے کی کوشش کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا جہاں سے وہ بھاگ گیا تھا جبکہ دو درجن کے قریب لوگوں کا ہجوم آہستہ آہستہ بڑھتا گیا۔ویڈیو میں، ہجوم میں سے کچھ لوگوں کو نعرے لگاتے اور کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ "وہ (مینیجر) آج نہیں بچ سکے گا"، جب کہ ساتھی نے کمارا کو اپنے جسم سے بچانے کی کوشش کی، جو اس آدمی کی ٹانگوں سے چمٹی ہوئی تھی۔بعد ازاں کارکنوں نے ساتھی پر قابو پالیا اور کمارا کو گھسیٹ کر سڑک پر لے گئے اور لاتوں، پتھروں اور لوہے کی سلاخوں سے اس پر تشدد کیا جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعد ہجوم نے لاش کو آگ لگا دی تھی۔

کمارا، سری لنکن عیسائی، راجکو انڈسٹریز میں 10 سال سے کام کر رہے تھے۔

اس وحشیانہ قتل کی سرکاری اہلکاروں اور انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔ 

118 سمیت 13 بنیادی مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔

جمعہ کو دیر گئے ڈی سی سیالکوٹ اور ڈی پی او نے صوبائی حکام کے اجلاس کو ویڈیو لنک کے ذریعے واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ متوفی ایک سخت منتظم کے طور پر جانا جاتا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ 110 کے قریب مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ دیگر کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ رات گئے ایک بیان میں، آئی جی پی نے دعویٰ کیا کہ گرفتار ہونے والوں میں دو اہم ملزمان فرحان ادریس اور عثمان رشید بھی شامل ہیں۔

ہفتہ کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی برائے اطلاعات حسن خاور نے گرفتاریوں کی تعداد 118 تک اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا کہ 200 چھاپے مارے گئے اور حراست میں لیے گئے افراد میں 13 بنیادی مشتبہ افراد شامل ہیں۔ پنجاب کے آئی جی پی راؤ سردار علی خان کے ہمراہ لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں، معاون خصوصی نے کہا کہ پولیس نے 160 سی سی ٹی وی کیمروں سے فوٹیج حاصل کی ہے اور اضافی ویڈیو اور ڈیٹا کے ذرائع جیسے کہ موبائل ڈیٹا اور کال ریکارڈز کا بھی تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ خاور نے کہا، "کافی پیش رفت ہوئی ہے اور تحقیقات جاری ہیں،" انہوں نے مزید کہا کہ وزارت داخلہ اور خارجہ کے ذریعے لاش سری لنکا کے سفارت خانے کے حوالے کی جائے گی۔

انہوں نے کہا، "میں آپ کو ایک بار پھر یقین دلانا چاہتا ہوں کہ انصاف نہ صرف ہو گا بلکہ ہوتا ہوا دیکھا جائے گا،" انہوں نے کہا، انہوں نے مزید کہا کہ کسی کو کوئی چھوٹ نہیں دی جائے گی اور کارروائی کی جائے گی۔ اپنے فرائض میں غفلت آئی جی پی نے جمعہ کے واقعات کی ٹائم لائن فراہم کرتے ہوئے کہا کہ اب تک موصول ہونے والی معلومات کے مطابق، یہ واقعہ جمعہ کی صبح 10:02 بجے شروع ہوا اور صبح 10:45 بجے کے قریب تشدد اور مار پیٹ تک بڑھ گیا، جس کے نتیجے میں کمارا کی موت صبح 11:05 بجے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو صبح 11:28 پر اس واقعہ کی اطلاع دی گئی اور وہ 11:45 پر موقع پر پہنچی۔

آئی جی پی نے کہا کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے جلد از جلد انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چالان پیش کیا جائے گا۔

سری لنکن وزیراعظم کو یقین ہے کہ وزیراعظم عمران ’ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے‘

سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجا پاکسے نے کہا کہ وہ منیجر پر وحشیانہ اور جان لیوا حملے سے صدمے میں ہیں۔

"میرا دل ان کی اہلیہ اور خاندان کے لیے دھڑکتا ہے۔ # سری لنکا اور اس کے لوگوں کو یقین ہے کہ وزیر اعظم [عمران خان] تمام ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے اپنے عزم پر قائم رہیں گے،" انہوں نے ہفتہ کو ٹویٹ کیا۔

سری لنکا کی میڈیا آرگنائزیشن نیوز 1st کی رپورٹ کے مطابق، سری لنکا کی پارلیمنٹ نے بھی ہفتے کے روز اپنے اجلاس کے دوران لنچنگ کی مذمت کی۔

"حکومت سری لنکا کی یونیورسٹی کی ڈگری ہولڈر اور پاکستان میں ایک فیکٹری کے مینیجر پریانتھا کمارا دیاوادنا کی موت پر اظہار تعزیت کرنا چاہتی ہے، جو علاقائی حدود سے قطع نظر انتہا پسندوں کے حملے کا نشانہ بنی تھی۔ حکومت اس غیر انسانی حملے کی شدید مذمت کرتی ہے جس نے دنیا کو حیران کر دیا،" وزیر دنیش گناوردینا نے کہا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ انہوں نے وزیراعظم عمران کی "انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مداخلت" کی تعریف کی۔


سری لنکا پورے ملک پر الزام نہیں لگا رہا: قریشی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کمارا کے لنچنگ کو ایک "افسوسناک واقعہ" اور ملک کے لئے "شرم کی بات" قرار دیا۔ ہفتہ کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں قریشی نے کہا کہ واقعے کی اعلیٰ ترین ریاستی سطح پر نگرانی کی جا رہی ہے، وزیر اعظم عمران خان تحقیقات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ "ہم سری لنکا کے ساتھ رابطے میں ہیں ہم نے ان کے ہائی کمشنر کو لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ کیا اور میں بتانا چاہتا ہوں کہ انہوں نے پاکستان کے موقف اور فوری ردعمل کو سراہا ہے۔

"یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس نے سب کو دکھ پہنچایا ہے... لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ 'اس کی وجہ سے ہم کسی پورے طبقہ یا ملک کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔' وہ توقع کرتے ہیں کہ پاکستان ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گا۔ قریشی نے مزید کہا کہ وہ آج سری لنکا کے وزیر خارجہ سے رابطہ کریں گے اور انہیں تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ان کے خیال میں یہ ایک افسوسناک فعل ہے لیکن پاکستانی حکومت اور قوم کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"

مفتی منیب کا کہنا ہے کہ میڈیا قبل از وقت الزام تراشی سے

گریز کرے۔

مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمان نے واقعے کی مذمت کی لیکن میڈیا سے مطالبہ کیا کہ وہ معاملے کی تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے کسی گروہ یا فرد کو ذمہ دار ٹھہرانے سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ جب ملک میں آئینی اور قانونی نظام موجود ہے تو اس میں کسی بھی قسم کی کمی کے باوجود قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’’معاشرے میں انارکی اور لاقانونیت پھیلتی ہے جو کہ کسی بھی طرح ملک کے لیے سود مند نہیں ہے اور بین الاقوامی سطح پر ملک کا منفی امیج بنتا ہے‘‘۔

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting