Pages

جنوری 19, 2025

Why looking average is more important in Pakistan and why we are lagging behind!

جب میں یہ بلاگ لکھ رہا ہوں، تو ساتھ ہی یوٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھ رہا ہوں جو حیرت انگیز طور پر میرے حالیہ حالات سے جڑی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ یہ ویڈیو ان ہی مسائل پر روشنی ڈالتی ہے جن سے میں گزر رہا ہوں: گھریلو ناچاقی، جذباتی الجھنیں، اور ایسے حالات جو دوسروں کو فائدہ اٹھانے کا موقع دے سکتے ہیں۔

میں 35 سال کا ایک ذمہ دار شخص ہوں، اور زندگی کے تجربات نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ مسائل کو سمجھنا اور ان کا تجزیہ کرنا کتنا ضروری ہے۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ وہ مسائل جو مجھے واضح نظر آ رہے ہیں، میری والدہ، جو 60 سال کی زندگی گزار چکی ہیں، ان کو نظر نہیں آ رہے۔

یہی وہ خلا ہے جو ہمارے درمیان ناچاقی کو جنم دے رہا ہے۔ وہ اپنی نیت سے غلط نہیں ہیں، لیکن ان کے تجربات، سوچ اور جذبات میرے موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں ان سے اپنے نقطہ نظر کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں، تو وہ اسے نظر انداز کر دیتی ہیں یا اسے غلط سمجھ لیتی ہیں۔

تیسرے کا فائدہ

ایسے حالات میں سب سے زیادہ خطرہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی تیسرا شخص، جو اس صورت حال کو سمجھتا ہو، ان اختلافات کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو مجھے سب سے زیادہ فکر مند کرتی ہے۔ ہماری جذباتی کمزوری اور نااتفاقی کسی اور کے لیے موقع بن سکتی ہے، اور یہ وہ چیز ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

آگے کا راستہ

یہ سب لکھتے ہوئے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اس مسئلے کا حل کیا ہو سکتا ہے؟

  • سب سے پہلے، میں اپنی والدہ کے ساتھ بات چیت کا راستہ کھلا رکھنے کی کوشش کروں گا۔ ان کے ساتھ وقت گزار کر انہیں اپنے حالات اور جذبات کو بہتر طریقے سے سمجھانے کی کوشش کروں گا۔
  • دوسرا، میں اپنی ذات پر کام کروں گا، تاکہ میں جذباتی طور پر مضبوط رہوں اور کسی بھی تیسرے شخص کے اثر سے محفوظ رہوں۔
  • تیسرا، میں یہ سمجھنے کی کوشش کروں گا کہ اختلافات کے باوجود، گھر کی یکجہتی کو کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

گھر کے تعلقات اور جذباتی پیچیدگیاں آسان نہیں ہوتیں، لیکن اگر ان پر توجہ دی جائے اور تحمل سے کام لیا جائے، تو ان کے حل بھی ممکن ہیں۔ یہ بلاگ لکھتے ہوئے مجھے ایک بار پھر یہ احساس ہوا کہ مسئلے کو سمجھنا اور اس کا تجزیہ کرنا ہی پہلا قدم ہے۔ اب وقت ہے عمل کرنے کا، تاکہ میں نہ صرف اپنے حالات کو بہتر بنا سکوں بلکہ اپنے گھر کے تعلقات کو بھی محفوظ رکھ سکوں۔

عزت اور رویے: نسلوں کے درمیان ایک پل

میرا ماننا ہے کہ وقت ایک ایسا پہیہ ہے جو ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔ آج میرے والدین جس مقام پر ہیں، 20 یا 30 سال بعد میں بھی وہیں پہنچ جاؤں گا۔ یہی سوچ مجھے اپنے رویے اور اقدار کے بارے میں مزید حساس بناتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عزت ایک ایسی چیز ہے جو نہ صرف دی جانی چاہیے بلکہ کمائی بھی جاتی ہے۔

جب میں یہ کہتا ہوں کہ عزت میں deserve کرتا ہوں، تو اس کے ساتھ یہ بھی میرا ایمان ہے کہ میرے والدین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وہی رویہ اپنائیں جو وہ خود دوسروں سے اپنے لیے چاہتے ہیں۔ یہ اصول، "Treat others just like you want yourself to be treated"، نہ صرف زندگی کو آسان بناتا ہے بلکہ نسلوں کے درمیان ایک مضبوط پل بھی بناتا ہے۔

یہاں میرا مقصد ہرگز بڑوں کی عزت یا ان کے تجربے کو کم تر دکھانا نہیں ہے۔ ان کی زندگی کے تجربات اور قربانیاں ہماری زندگی کی بنیاد ہیں۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ عزت دو طرفہ راستہ ہے۔ اگر والدین یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے بچے ان کی عزت کریں گے اور ان کی بات مانیں گے، تو اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ بچوں کو سنیں، ان کے جذبات کو سمجھیں، اور انہیں وہ مقام دیں جس کے وہ مستحق ہیں۔

زندگی کے اس سفر میں، ہر نسل کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوتا ہے۔ والدین اپنی زندگی کے اس مرحلے پر جہاں رہنمائی فراہم کرتے ہیں، وہاں بچوں کے جذبات اور سوچ کو بھی جگہ دینا ضروری ہے۔ اسی طرح، بچوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے والدین کے تجربات اور مشوروں کا احترام کریں۔

میری سوچ کا خلاصہ یہ ہے کہ عزت اور محبت کی بنیاد مساوات اور انصاف پر ہونی چاہیے۔ اگر ہم اپنے بڑوں کے ساتھ وہی سلوک کریں جو ہم اپنی بڑھاپے میں دوسروں سے چاہتے ہیں، تو نہ صرف خاندان میں سکون ہوگا بلکہ ہمارے رشتے بھی زیادہ مضبوط ہوں گے۔

اسٹیٹس ٹریپ: ہماری پرمپرا اور معاشرتی الجھنیں

یہ ایک سادہ سی بات ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی سادگی میرے گھر میں بحث کا باعث بن رہی ہے۔ میری والدہ اور ان کے نقش قدم پر چلتی ہوئی میری بیوی بھی اسی سوچ کی پیروی کر رہی ہیں، جس نے مجھے گہرے تجزیے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس معاملے میں ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ "اسٹیٹس ٹریپ" کیا ہے اور یہ ہماری زندگیوں پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔

ہمارے معاشرے میں اکثر یہ سوچ پروان چڑھائی جاتی ہے کہ اپنی اولاد کو اسی راستے پر چلایا جائے جس پر والدین چلے ہیں۔ اسے ہندی میں "پرمپرا" کہتے ہیں، اور انگریزی میں "لیگیسی"۔ یہ خیال کہ ہماری اولاد ہمارے نقش قدم پر چلتی رہے، ایک طرف تو خوبصورت لگتا ہے، لیکن دوسری طرف یہ ایک گہرے مسئلے کو جنم دیتا ہے۔ اس لیگیسی کے چکر میں ہم مستقبل کے امکانات کو محدود کر رہے ہیں اور نئی نسل کو غیر ضروری دباؤ کا شکار بنا رہے ہیں۔

اب اگر ہم اس مسئلے کو مزید گہرائی سے دیکھیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہم اسٹیٹس اور دکھاوے کے چکر میں اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگی برباد کر رہے ہیں؟ مثال کے طور پر، اگر آپ کی سالانہ آمدنی 4 لاکھ ہے، لیکن آپ ایک ایسی چیز خریدنے کا سوچ رہے ہیں جس کی قیمت 10 لاکھ ہے، صرف اس لیے کہ آپ دنیا کے سامنے اپنی حیثیت ظاہر کر سکیں، تو یہ دنیا کی سب سے بڑی بے وقوفی ہوگی۔

یہی وہ سوچ ہے جو ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی معاشی اور سماجی برائیوں کا باعث بن رہی ہے۔ ہم اپنے وسائل سے زیادہ خرچ کرنے کی عادت کو اپنی شان سمجھتے ہیں، لیکن اس کے نتیجے میں نہ صرف ہمارا اپنا مستقبل خطرے میں پڑتا ہے بلکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی قرض اور مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں۔

کسے ذمہ دار ٹھہرائیں؟
اس الجھن کے لیے ذمہ داری کس پر ڈالی جائے؟ والدین پر، جو اپنی اولاد کو اپنی پرانی روایات میں جکڑتے ہیں؟ یا معاشرے پر، جو اسٹیٹس اور دکھاوے کو اہمیت دیتا ہے؟ شاید دونوں۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنی نسلوں کو آزادانہ فیصلے کرنے دیں، اور معاشرے کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حیثیت کا مطلب دکھاوا نہیں بلکہ حقیقی خوشحالی ہے۔

آگے کا راستہ
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی سوچ اور عمل کو تبدیل کریں۔ ہمیں اپنی ضروریات اور خواہشات کے درمیان فرق کو سمجھنا ہوگا۔ اپنی نسلوں کو پرمپرا کے جال سے آزاد کرکے ان کے لیے بہتر مواقع پیدا کرنے چاہئیں، تاکہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کریں اور دکھاوے کے بجائے حقیقی خوشی کو اہمیت دیں۔

یہ بلاگ صرف ایک سوال نہیں بلکہ ایک دعوتِ فکر ہے۔ کیا ہم اپنی نسلوں کو آزاد اور خودمختار بنانا چاہتے ہیں، یا انہیں اسٹیٹس ٹریپ کا غلام؟ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔

کیا ہمارے لئے واقعی میں ضروری ہے کہ ہم اس گولڈی لوکس زون کے پیرادوکس میں اپنے آپ کو پھنسا کر رکھیں؟

شناخت کا بحران: کیا ہم صحیح اور غلط کا تعین کر پا رہے ہیں؟

انگریزی زبان میں اسے identification کہتے ہیں—یعنی یہ سمجھنا اور پہچاننا کہ ہمارے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ایسا کوئی نظام یا mechanism بنایا ہے جس کی مدد سے ہم اس فرق کو واضح کر سکیں؟ یا ہم محض اپنی ضد، انا، اور موروثی روایات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، جو نہ صرف ہمیں بلکہ ہماری آئندہ نسلوں کو بھی متاثر کر رہی ہیں؟

ہمارے بڑے، اپنی دانائی اور تجربے کے زور پر ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہی ہر بات میں صحیح ہیں۔ ان کے اس خودساختہ "صحیح ہونے" کے احساس نے ان کی آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ دی ہے کہ انہیں یہ دکھائی ہی نہیں دیتا کہ اس ضد اور جبر کے چکر میں وہ اپنے ہی مستقبل کے ساتھ کیسا غیر ذمہ دارانہ کھیل کھیل رہے ہیں۔

ہماری ترجیحات اور ان کا اثر
یہ پہچان کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، ہر نسل کے لیے ضروری ہے۔ لیکن جب بڑی نسل اپنی ترجیحات کو نئی نسل پر مسلط کرتی ہے، تو نہ صرف ان کی تخلیقی صلاحیتیں دبتی ہیں بلکہ وہ جذباتی اور ذہنی طور پر بھی شدید دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

یہ مسئلہ صرف گھریلو سطح تک محدود نہیں، بلکہ ہمارے معاشرتی اور ثقافتی نظام کا حصہ بن چکا ہے۔ Identification کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے اصولوں کو واضح کریں، اپنی ضروریات کو خواہشات سے الگ کریں، اور اس بات کو سمجھیں کہ ہماری ترجیحات کا اثر نہ صرف ہم پر بلکہ ہماری آئندہ نسلوں پر بھی ہوگا۔

آگے کا راستہ
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خود کو اس جمود سے آزاد کریں۔ ہمیں ایک ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے جہاں ہر نسل کے افراد کو اپنی شناخت بنانے کا موقع ملے۔

  1. بات چیت کو فروغ دیں: بڑوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کا تجربہ قیمتی ہے، لیکن ان کے تجربات ہر وقت اور ہر حال میں قابلِ عمل نہیں ہوتے۔ نئی نسل کے خیالات کو سننا اور سمجھنا ضروری ہے۔
  2. تعلیم اور شعور: ہمیں اپنی تعلیم اور تربیت کے ذریعے بچوں میں یہ صلاحیت پیدا کرنی چاہیے کہ وہ اپنی ضروریات اور خوابوں کو سمجھ سکیں، اور اپنے لیے صحیح فیصلے کر سکیں۔
  3. لچکدار رویہ: ہمیں اپنے رویوں میں لچک پیدا کرنی ہوگی۔ دنیا بدل رہی ہے، اور پرانی روایات کے ساتھ جڑے رہنے کے بجائے ہمیں ان روایات کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔

یہ بلاگ محض ایک سوال نہیں بلکہ ایک دعوتِ فکر ہے۔ کیا ہم اپنی نسلوں کو آزاد، خودمختار، اور تخلیقی بنانا چاہتے ہیں، یا انہیں اپنے اصولوں کے تنگ دائرے میں قید رکھنا چاہتے ہیں؟ فیصلہ ہم سب کے ہاتھ میں ہے۔ آئیں، identification کے ذریعے صحیح اور غلط کا فرق سمجھیں اور ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھیں۔



مکمل تحریر >>

بلاگ میں مزید دیکھیں

You might like

$results={5}

Search me

Translate