Search me

Corona Virus لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Corona Virus لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

COVID-19 Newer Variant


تازہ ترین اب تک دریافت ہونے والا سب سے زیادہ تبدیل شدہ ورژن ہے - اور اس میں اتپریورتنوں کی اتنی لمبی فہرست ہے کہ اسے ایک سائنسدان نے "خوفناک" کے طور پر بیان کیا ہے، جب کہ دوسرے نے مجھے بتایا کہ یہ سب سے برا ورژن ہے جو انہوں نے دیکھا تھا۔

یہ ابتدائی دن ہے اور تصدیق شدہ کیسز ابھی بھی زیادہ تر جنوبی افریقہ کے ایک صوبے میں مرتکز ہیں، لیکن اس کے مزید پھیلنے کے اشارے ہیں۔

فوری طور پر یہ سوالات موجود ہیں کہ نئی قسم کتنی تیزی سے پھیلتی ہے، اس کی ویکسین کے ذریعے دیے گئے کچھ تحفظات کو نظرانداز کرنے کی صلاحیت اور اس کے بارے میں کیا کرنا چاہیے۔

قیاس آرائیاں بہت ہیں، لیکن واضح جوابات بہت کم ہیں۔
 
تو، ہم کیا جانتے ہیں؟

یونانی کوڈ ناموں جیسے الفا اور ڈیلٹا کی مختلف شکلوں کی پیروی کرتے ہوئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس قسم کا نام Omicron رکھا ہے۔ 

عید کا چاند

ہماری عوام کا عجب اُتاولہ پن

ابھی میں جب یہ لائین لکھ رہا ہوں، ابھی کچھ شہادتیں موصول ہوئی ہیں، جہاں اس بات کی شہادت دی گئی ہے کہ چاند دکھائی دے دیا گیا ہے، اور اس کا حتمی فیصلہ آئندہ کچھ وقت میں ہوجائے گا۔

میرا اپنا point-of-view

یہاں میرا یہ ماننا ہے کہ
  • آج ہم جدید دور میں موجود ہیں، ایسے میں Mars Rovers سیارہ مریخ کی مستقبل کی پوزیشن کا estimate لگا کر اپنے روورز کی ٹیک آف کرالیتے، تو کیا ہم زمین پر رہتے ہوئے یہی estimation probability نہیں اپنا سکتے؟
  • صرف رمضان اور چھوٹی عید میں چاند کی ۲۹ اور ۳۰ تاریخ پر اختلاف ہوتا ہے؟ باقی ۱۰ مہینے سب نارمل کیوں ہوتا ہے؟
  • جب ہمارے پاس City Concentric Annual Lunar Calendar موجود ہے، اس میں بھی میں نے دیکھا ہے کہ اس مہینے کا اختتام ۳۰ دنوں پر محیط ہے، تو ایسے میں یہ جہالت دیکھانے کی جلد بازی کس چیز کی؟
  • اگر عید منانے کی اتنی جلدی ہے، تو پہلے رمضان کے فرائص مکمل کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھنی چاہئے، کیونکہ میرا معصومانہ سوال یہی ہے کہ چونکہ عید، رمضان کے بعد آتی ہے، تو ایسے میں عید اس وقت ہی مکمل ہونی چاہئے جب رمضان المبارک کے فرائض ہم نے اس کی صحیح نیت کے ساتھ مکمل کیا ہے یا نہیں؟
  • اس Pandemic کے دوران جہاں سماجی دوری کی ضرورت اہمیت کی حامل ہے، تو ایسے میں کیا یہی ضروری ہے کہ تھوڑا صبر کا پیمانہ قائم رکھیں، ابھی پڑوسی ملک میں ہم نے قم کے میلے کے بعد پورے بھارت کی جو درگت ہوئی، آئی پی ایل postponed ہوئی، ان کے شمشان گھاٹ میں جلانے کی جگہ کی کمی ہوگئی ہے، مگر ہماری ترجیحات میں عید کی شاپنگ اور نئے نوٹ ہیں، اور نئے نوٹ کو دکھانے کے لئے عید منانی ہے، ورنہ majority عید کی صبح سو کر ہی یا گھروں کے اندر بیٹھ کر مناتے ہیں، اور شام میں نکلتے ہیں، 
  • اس پر بھی سونے پہ سہاگہ کہ شام کے اوقات میں لاک ڈاوٗن لاگو ہوتا ہے تو ایسے میں اتنا کیا اتاولا پن ہے کہ رمضان کے فرائض ادا نہیں کرکے آپ عید منا رہے ہیں؟
  • جب ایک Pandemic چل رہا ہے تو ایسے میں ترجیع میں یہ ہونا چاہئے کہ زندگی بچانی ہے، زندگی رہے گی تو آنے والے سالوں میں عید کے شوق پورے کرلیں، جب کہ یہاں یہ حالت ہے کہ ہماری پوری قوم Tomorrow Never Comes کے منطق منانے کے درپے ہے۔
  • جب ایسی صورتحال ہے تو ایسے میں ہر چیز صرف حکومت کے اوپر ڈالنا صحیح ہے یا پھر عوام کو بھی ذمہ داری کا احساس دکھانا ضروری ہے؟
کیا اس صورتحال میں یہ اتاولا پن دکھانا ضروری ہے؟

عوام کو بھی ذمہ داری دکھانی چاہئے

اب یہ لائن لکھنے پر مجھے کافی لوگ یہ کہہ کر criticize کریں گے کہ پوری دنیا کی عوام ایسی ہی ہوتی ہے، مانتا ہوں، مگر مجھے صرف یہی بات کی تصدیق کردیں کہ جب یہی عوام دبئی یا کسی اور ملک میں جاتے ہے، تو وہاں یہی رویہ جو پاکستان کی سرزمین میں قدم رکھتے ہی مادر پدر آزاد ہوجاتے ہیں، کیوں نہیں کر پاتے ہیں، یہ جگاڑیں جن کی بدولت کراچی میں لاک ڈاوٗن میں بھی رمضان بازار کو عید بازار میں تبدیل کردیا گیا ہے، under which authority وہ یہ سب کچھ کر رہے ہیں، جب ایک صورتحال موجود ہے جہاں سوشل ڈسٹینسنگ وقت کی اہم ضرورت ہے، تو تھوڑی ذمہ داری ہماری عوام پر بھی لاگو ہورہی ہے،

میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں

کیونکہ پاکستان میں بیشک حکومت نے کھانے پینے پر دن کی روشنی میں کھانے پینے کی مکمل ممانعت ہوتی ہے، کیوں ہوتی ہے؟ اس لئے کیونکہ عوام اس ممانعت میں اپنا حصہ اور اپنا contribution ڈالتی ہے جس کی وجہ سے شام ۴ بجے کے بعد کھانے کی دوکانیں کھلنا اسٹارٹ ہوتی ہیں، باقی پورا دن اپنی سماجی ذمہ داری سمجھتے ہوئے خود ہی دوکانیں بند رکھتے ہیں، تو اسی وجہ سے یہ پابندی اتنی کارگر ہوتی ہے، جبکہ سماجی دوری Mass Gathering کی پابندی کا اطلاق کیوں نہیں ہورہا ہے، اگر عوام نے پہلے سماجی دوری کا اطلاق اسی طرح جیسے روزے کے ٹائم میں کھانے پینے کی دکانیں بند کر کے کرتے ہیں، اسی طرح کرتے تو کیا اس لاک ڈاوٗن کی ضرورت پڑتی؟ اصل میں ہماری عوام میں شعور کی کمی ہے، جس کی بناہ پر اپنا کام ہوجائے، باقی سب گئے بھاڑ میں، کی منطق چل رہے ہیں۔ اگر عوام خود اس چیز کا اطلاق کرتی، اور حکومت کی leniency کو misuse نہیں کرتے، تو کیا صورتحال لاک ڈاوٗن کی جانب جاتی؟ یہ سوچ کا فقدان ہے ہم سب میں۔

ابھی کل ہی کی بات ہے

میں اپنی جاب کے سلسلے میں اپنی برانچ اے ٹی ایم کے مسئلے کی وجہ سے دستگیر جانا ہوا، اور رات ۱۲:۳۰ بجے جب میں وہاں سے نکل رہا تھا، تو مجال ہے کہ کہیں مجھے لاک ڈاوٗن کی صورتحال دکھی ہو، بیکری ہو، شاورما کی دکان ہو، آئس کریم پارلر ہو سب کھلے ہوئے تھے اور کہیں بھی مجھے ایسا احساس نہیں ہوا کہ کراچی میں لاک ڈاوٗن کی صورتحال ہے، جبکہ جیسے ہی میں دستگیر سے سیدھا لکی ون کی جانب نکلتا ہوں تو وہاں مجھے احساس ہوا کہ ہاں کراچی میں لاک ڈاوٗن ہورہا ہے،

ایسی بد احتیاطی کا فائدہ؟

الٹا نقصان ہے، اور ایسے لوگوں کو دشمنوں کی کوئی ضرورت نہیں، یہ اپنے دشمن خود ہیں، یعنی چلتے پھرتے ٹائم بم بن کر گھوم رہے ہیں۔

رہی بات عید بازار کی

اتنا فضول خرچی کس بات کی، اگر اللہ نے اتنا کچھ دیا ہے، پھر بھی اس صورتحال میں situation ہم سے کیا demand کررہی ہے، اور vice-versa کس جانب جارہے ہیں، مجھے اس حوالے صفحے کالے کرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں صرف اتنا کہوں گا، کہ جان ہے تو جہاں ہے، آج تھوڑی احتیاط کرلیں تو عید بعد میں بھی منائی جاسکتی ہے، کم سے کم اپنے لئے نہیں تو اپنے گھر والے، اپنی بیوی بچوں اور اپنے رشتہ داروں کا ہی سوچیں، کیونکہ آپ ان سب کے ساتھ inter-related ہیں تو ایسے میں آپ کے ایکشن سے ان لوگوں کو جو ناقابل تلافی نقصان ہوگا، اسکا کچھ سوچا ہے؟ کیا اس کے بارے میں سوچا ہے؟ نہیں سوچا ہے تو ہم سے بڑا حماقتی کوئی نہیں ہے۔

اس پر یہ واٹس ایپ والے حکیم لقمان

اللہ تعالی ان واٹس ایپ والے حکیم لقمانی انکل کی خرافات سے محفوظ رکھے، جو چیل اڑی کو بھینس اڑی کے منطق rumors کو بڑھاوا دیتے ہیں، پہلے زمانوں میں یہ کام محلے میں خالہ زبیدہ کیا کرتیں تھیں، جس کا ذمہ آج یہ واٹس ایپ والے انکلوں نے اپنے مضبوط کاندھوں پر اٹھا لیا ہے، میں again اس بات کی تصدیق کروں، کہ میں نہ کوئی عالم ہوں، نہ ہی کوئی فاضل، مگر صرف کوئی بھی معلومات میرے پاس آتی ہے تو اسکو ویلیڈیٹ Validate ضرور کرتا ہوں، بصورت دیگر آگے فارورڈ نہیں کرتا، کیونکہ یہ میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ بغیر تصدیق کے معلومات وہ بھی ایسی تفصیل جس کی کوئی تصدیق نہ ہو، اس کے بڑھاوے میں میری کوئی contribution ہو، بلکہ اسے اپنی انفرادی ذمہ داری سمجھتا ہوں، مگر معذرت کے ساتھ ہمارے آج کل کے بڑے اس چیز کی ذمہ داری کا احساس نہیں رکھتے، یہ نہیں دیکھ رہے ہیں، کہ آج کل سوشل میڈیا اتنا vibrant ہوچکا ہے کہ ٹویٹر پر منٹوں کے حساب سے مختلف ممالک کے ٹرینڈ تبدیل ہوچکے ہوتے ہیں، حالانکہ ہمارے بڑوں کو اس بات کی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔

کیونکہ

یہی انکلوں کی وجہ سے یہ موجودہ وبا کو casually لیا جارہا ہے، کیونکہ یہاں بھی cause and effect کا فارمولا لاگو ہوتا ہے، اور اگر ہمارے بڑے بزرگ اس طرح کا casual attitude رکھیں گے تو imagine کرلیں ہم کس جانب جارہے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح عید کے موقع پر بھی یہ انکل ہمارے ذہنوں میں wrong number ڈالنے کی ذمہ داری اپنے اوپر لی ہوئی ہے، کیونکہ۔۔۔کیونکہ۔۔۔کیونکہ۔۔۔ ہم نوجوانوں کے مقابلے صورتحال کو بغور دیکھنے کے بعد ہی ایکشن لینے کے بجائے جلد بازی ان بزرگوں کا شیوہ بن چکا ہے اور اسی وجہ سے ہمیں باہری دشمن کے بجائے ان انکلوں سے ذیادہ خطرہ ہے۔





کیا ہم واقعی میں مستقبل میں ہیں؟

کس طرح ہماری مائنڈ پروگرامنگ کی جارہی ہے؟

زیادہ دور نہیں، پندرہ سال پہلے کی بات کررہا ہوں، جب آئی فون نے ایک جدت لائی تھی جہاں نوکیا اور بلیک بیری جیسے برینڈ موجود تھے، جو کہ فیچر فون کی کیٹیگری میں آتے تھے، ان کے مقابلے میں ایک ایسا فون کا مارکٹ میں آنا جس کو چلانے کے لئے ہمیں کوئی کی بورڈ کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ استعمال کے لئے اپ کی اسکرین ہی آپکا کی بورڈ بن رہا ہے، ایک جدت یعنی innovation تھی، جس کے بعد فیچر فون کے مقابلے میں فون کی ایک نئی کیٹگری کو introduce کیا گیا جسکو اسمارٹ فون کا نام دیا گیا جہاں سے اسمارٹ فون خاموشی کے ساتھ ہماری زندگیوں میں اس طرح سراعیت کی ہے، آج کے زمانے میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح اسمارٹ فونز نے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کے متبادل کے طور پر اپنے آپ کو کنفرم کردیا ہے!

مگر اس کا اِس ٹاپک سے کیا جوڑ؟؟؟

اس کا اس ٹاپک سے یقینی طور پر جوڑ ہے کیونکہ تھیوری آف ریلیٹیوٹی theory of relativity  کے حساب سے اگر کل (یعنی ماضی) اور حال کا موازنہ کریں تو میں اپنی ذاتی اور ناقص رائے کے مترادف موجودہ ٹائم پیریڈ میں ہم اس دورہے پر ہیں جہاں کے بعد ہم نئے پراسسز کو استعمال کرنے لگیں گے، اور پرانے طریقوں کو آہستہ آہستہ سے متروف کرنے لگیں گے۔

میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں؟

کیونکہ ہم پاکستانیوں کی ایک بری بات ہے کہ ہم ایک چیز کو فالو کرنے اسٹارٹ کردیتے ہیں تو ہوکا کی بنیاد پر استعمال شروع کردیتے ہیں، جیسے ۱۰ سالوں میں جس طرح سے سنیما کی جگہ سینی پلیکس Cineplex نے لی، تو ہر اینٹرٹینمنٹ گروپ نے کوشش کی، کہ اپنے شاپنگ ارینا Shopping Arena کے ساتھ ایک سینی پلیکس کی موجودگی ضروری ہے، جبکہ میں اگر ماضی میں لے کر جائوں، ۱۹۹۸ میں جب Blockbuster ایک بہت ہی زبردست وی ایچ ایس رینٹنگ سروس تھی، اُس نے مستقبل کے چلینجز کو Overlook کیا، اور نتیجہ میں آج Blockbuster کو کوئی نہیں جانتا بلکہ دنیا اب نیٹ فلکس اور اسی طرح کی متعدد اسٹریمنگ سروسز نے بلاک بسٹر کو یکسر ختم کردیا ہے، ٹھیک اسی طرح آج سینی پلیکس کے بزنس پر وہی وقت آرہا ہے جو early-2000s میں بلاک بسٹر اور کوڈیک Kodak کے ساتھ ہوا، جہاں مستقبل کے متعلق complacency کی وجہ سے آج ان کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے۔

وہ کیوں؟

ہو سکتا ہے میں Exaggerate  کررہا ہوں مگر (یہ میرا اپنی زاتی رائے ہے)، ابھی زیک اسنائڈر Zack Snyder کی Justice League ریلیز ہوئی، کیسے ہوئے، آن لائن اسٹریمنگ کے زریعے ایچ بی او میکس HBO max کے زریعے ہوئی، یعنی سطحی بات کروں تو جو کوڈیک اور بلاک بسٹر کے ساتھ ہوا تھا، اب ٹائم سینی پلیکس کے بزنس کی الٹی گنتی اسٹارٹ ہوچکی ہے جس میں تبدیلی ہم آنے والے دس سالوں میں یقینی طور پر دیکھنا اسٹارٹ کردیں گے، کیونکہ ایک سال پہلے تک کسی نے زوم کا نام بھی نہیں سنا تھا، مگر آج ہر آرگنائزیشن میں زوم پر میٹنگ، ٹریننگ کی جارہی ہوتی ہے، اور ہمارے اسمارٹ فون کے مستقل ایپلیکیشن یا ایپس میں سے ایک بن چکا ہے۔

ایسے میں

ایسے میں میری ناقص رائے کے مطابق اتاولے ہونے کا وقت نہیں ہے بلکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہمارے آس پاس جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، اس کو بغور دیکھیں اور دیکھنے کے بعد ہی اپنی opinion کو generate کریں، کیونکہ یہ زمانہ ایسا ہے جہاں بہت زیادہ تبدیلیاں آنے والی ہیں، تو اسکے حساب سے ہمیں ان تبدیلیوں کو یقینی طور پر دیکھنا ہوگا، اور ان چیزوں کو اگر ہم نے for-granted لیا تو اس کا نقصان بھی ہمیں ہی بھرنا ہوگا۔

پاکستان میں اسرائل پر بحث بازی اور fifth generation warfare

یہ ایک خطرناک چیز ہے کیونکہ میں تو نیوز میڈیا اس حد تک نہیں دیکھتا کہ اس میں غیر ضروری طور پر اپنا ذہن کو پھنسا لوں، مگر لوگوں کو اس غیر ضروری بحث میں ڈھالا جارہا ہے۔

میں ایسا کیونکر کہہ رہا ہوں؟؟؟

 میں ایسا اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ اس چیز کا تعلق انسانی دماغ سے متعلق ہے، کیونکہ یہ انسانی دماغ کی خصوصیت ہے، کہ وہ چیز جس کو وہ ہمیشہ رد کررہا ہے، اگر۔۔۔ اگر۔۔۔ اگر۔۔۔ ۷ مرتبہ لگاتار یا کسی مستقل بندی کے ذریے ایک ہی بات یا چیز کو بار بار دیکھایا جائے، بولا جائے یا پھر repeatedly کانوں میں سُنا جائے تو اس طرح وہ رَد کرنے کی intensity کم ہوتے جاتی ہے۔

اب ایسے میں۔۔۔

بار بار اور بلاوجہ ایک ایسا ٹاپک جو پاکستان میں غیر معروف ہے (کیونکہ مذہبی بنیاد پر اسرائل کا تذکرا پسند نہیں کیا جاتا ہے) مگر ایک رات پہلے سب نارمل ہو اور یک دم یک مشت کچھ ہی گھنٹوں میں پاکستان میں Hot Topic بن گیا اور ٹویٹر پر Top Trending پر آگیا، آخر کون ہے جو پاکستان میں اس چیز کو accept کرانے کے درپے ہیں؟؟؟

نُور دھری

اب مزیدار بات یہی ہے کہ from nowhere یہ محترم یک دم پاکستانی اسکرین پر نمودار ہوتے ہیں، وہ بھی اپنے آپ کو صیہونی مسلمان کہلانے میں فخر ہے، میرا صرف ایک معصومانہ سوال ہے، کیا کوئی یہودی اپنے آپ کو مسلمانی یہودی کہلانے میں فخر کرے گا؟ تو یہ کیسا مسلمان ہے؟ کیا جو سعودی عرب نے اور متحدہ عرب امارات نے فلسطینی مسلمانوں کی پِیٹھ پر چُھرا گھونپا، مطلب یہی ہے نا کہ مسلمانوں کا identity crisis کا وقت ہے، جہاں مسلمانوں کی ایک شناخت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔

سعودی عرب میں نصاب میں تبدیلی

 کورونا وائرس کی وجہ سے فلائٹ کا نظام فی الوقت proper نہیں چل رہا ہے مگر متحدہ عرب امارات میں ۵۰،۰۰۰ اسرائلی اپنی کوئی تہوار ہناکا منانے پہنچے تھے، مگر سعودی عرب کے ںصاب میں اس حوالے سے pro-Israeli نصاب کو پروموٹ کیا جارہا ہے۔

I Pet Goat II

یہ ایک طرح کا exposition تھا جہاں مستقبلِ قریب اور بعید کے واقعات کو without any sequence یعنی کہ ترتیب کے بغیر randomly بتایا گیا تھا، جیسے کچھ چیزیں جو اس میں بتایا گئیں تھیں جیسے چین اور روس کو (کاپی رائٹ کی وجہ سے شاید میں اس میں سے چیزیں نہ دیکھا سکوں مگر یہاں گوگل کرلیں اور relate کریں کہ کیا ہوچکا ہے اور کیا ہونے کو ہے) اس میںmetaphorically دیکھایا گیا کہ چین اور روس کو بھی آہنی ہاتھ لیا جائے گا، جیسے کہ آپ اس پکچر میں دیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ اس مندرجہ ذیل تصویر میں ہتھوڑا روس کا دیکھایا گیا ہے جبکہ یہ چُھرا چین کو دیکھایا گیا ہے۔
 

عریانیت کا فروغ

یہ چیزہم سب اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں، جس طرح Women Empowerment کے نام پر عورت کو گھر کی چار دیواری سے باہر نکالنے اور attraction کے نام پر عورت کو عریانیت کی جانب مبزول کرایا جارہا ہے، کیونکہ ہمارے معاشرے میں عورت فیملی بناتی ہے، جبکہ عورت کو باہر نکالنے کی بناہ پر یوروپ میں کیا کچھ ہوچکا ہے، ان کا فیملی سسٹم اور فیملی کا سسٹم مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے، مطلب جانوروں والا حال کہ بلی pregnant ہوجاتی ہے مگر بلی کو خود نہیں پتا کہ اس کے پیٹ میں fetus کس بِلّے کا ہے، وہی حال اِن یوروپین کا ہوچکا ہے اور اب مسلمانوں میں بھی یہی چیز کو پروموٹ اس طریقے سے کیا جارہا ہے، کیونکہ پاکستان میں جس طرح Velo Sound System کے نام پر عریانیت کا بازار گرم کیا ہے، جیسے میں نے اِس بلاگ کے اسٹارٹ میں لکھا تھا کہ ایک چیز کو بار بار دیکھائیں گے تو دماغ اُس چیز کو رد کرنا آہستہ آہستہ کم کرتا ہے اور simultaneously دماغ اس چیز کی طلب کو بڑھادیتا ہے، یہ سب نیچرل ہے، اور یہی سب fifth generation warfare کا کچھ حصہ ہے۔

کراچی لاک ڈائون کے دوران

آج دوسری لہر کے آنے بعد کراچی میں لاک ڈائون پر عمل درامد کرایا گیا اور وہ علاقے جہاں آفس سے واپسی میں مجھے ہمیشہ رش کا سامنا ہوتا تھا، آج وہاں مجھے سناٹا دیکھائی دے رہا تھا، جسے کراچی والا ہونے کے ناطے مجھے دیکھ کر بہت دُکھ ہورہا تھا کیونکہ کراچی اپنے لوگوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے، اور آج وہاں کوئی لوگ ہی نہیں تھے۔
میرے نذدیک ورچوئل کرنسی بالکل ویسی ہی ہے جیسے کوئی بھی چیز کہنے کو آپکے پاس موجود ہے مگر اسکی موجودگی ہونے کے باوجود آپ کے پاس موجود نہ ہو، اور کوئی دوسرا یا تیسرا بندہ اس پر اپنا حق جتانا شروع کردے؟ کرنسی اسی Philosophy پر اسٹارٹ کی گئی تھی کہ لین دین مستقل بنیاد پر موجود رہے، اور لین دین Barter سسٹم کی basis پر شروع ہوا تھا کیونکہ لین دین میں دونوں پارٹی جن میں لینے والا اور دینے والا دونوں کا سکون کو مدنظر رکھا جاتا ہے، جو کہ بزنس law کے اسٹوڈنٹس بخوبی سمجھ سکتے ہیں، ورنہ ایک حد کے بعد یہ ransom کی سمت جاتی ہے، جیسا کہ بِٹ کوائین BitCoin کے اوائیل میں کچھ لوگوں نے تاوان کے لئے بٹ کوائین کو استعمال کیا، کیونکہ اس کو trace کوئی نہیں کرسکتا، مگر چونکہ اب ہمارے دماغوں کو اس حد تک پروگرام کردیا گیا ہے کہ اس چیز میں ہمارے دماغ نہیں جاتے اور mentally اس چیز کو ہم نے مان لیا ہے کہ یہی صحیح ہے، جبکہ اسلام کے حساب سے بھی بات کروں تو اسلام میں بھی سونا اور چاندی پر لین دین کا کہا گیا ہے کیونکہ ان چیزوں کی قدر و قیمت موجود ہے، اور جس کے پاس بھی یہ موجود ہوگا، اس کی قدر بھی ہوگی، جبکہ یہاں پیپر کرنسی کا ہمیں یقین نہیں کہ واقعی میں ۱۰۰ روپے کے پیچے اس کے متبادل سونا موجود بھی ہے کہ نہیں، اور کیا یہ ممکن نہیں کہ پیسے کی موجودگی میں ہم سب کنگال ہوچکے ہیں؟ زرا سوچیں۔۔۔

Accepting that 

یہ جوبیماریا ں ہمارے آس پاس موجود ہیں، کیا پہلے موجود نہیں تھیں؟ کیا پہلے ہمارا گلا خراب نہیں ہوا؟ کیا پہلے ایسا نہیں ہوا کہ taste buds نے اپنا کام یعنی taste recognize کرنا چھوڑا ہو؟ یہ کیونکر ہورہا ہے کہ کورونا سے مرنے والوں کو گاڑا جارہا ہے، صحیح طریقے سے تدفین بھی نہیں ہوتی؟ کیا اسکا سیدھا سیدھا مطلب یہ نہیں کہ ڈر کو ہمارے ذہنوں میں بٹھا کر اسی طرح کی جنیاتی تبدیلیاں ہمارے اندر لائی جارہی ہیں جیسے ہمارے سے پہلے کی نسلوں میں آئیں جو ۱۴ ۱۵ فٹ کے دیو ہیکل ہوا کرتے تھے اور آہستہ آہستہ fragile ہوتے ہوتے اس موڑ پر آئے؟ Beneficiary کو دیکھیں کہ انسانوں کو fragile کرکے کون فائدے میں ہے؟ کس کو فائدہ ہو رہا ہے، کون فائدہ اُٹھا رہا ہے اور کس کو کتنا فائدہ دلایا جارہا ہے۔ لوگوں کو شرم آنی چاہئے کہ اب بیماریوں کو بھی status symbol کے طور پر استعمال کیا اور کرا جارہا ہے اور ہمارے ذہنوں میں بھی یہی چیز ہمارے بڑوں کی جانب سے ہم میں ڈالی جارہی ہے۔

Virtual Communication

 اس بیماری کے آنے کے بعد جو سب سے بڑا ٹرینڈ آیا کہ ورچوئل رابطہ کو فروغ دیا جارہا ہے، جو کہ پہلے اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا تھا اور ابھی کچھ مہینے پہلے تک میں خود کہتا تھا کہ far fetched future میں شاید ہم اس جانب دلچسپی دیکھائیں، مگر دیکھ لیں، آفیشلی پاکستان میں ۲۶ فروری کو پہلا کیس آیا، اور آج نومبر کی ۲۶ اسٹارٹ ہونے والی ہے خود دیکھ لیں، ایس سی او سَمِٹ ورچوئل ہوئی، ابھی جی ۲۰ ریاض میں ورچائل ہونے والی ہے، جس سے اندازہ کرلیں یہ سب پری پلان تھا اور ہے۔

کورونا صرف ٹی وی میں ہے

 جی ہاں، کیونکہ جب سے کورونا آیا ہے، میں نے صرف اور صرف ٹی وی دیکھنا بند کیا ہے اور اپنے آپ کو کاموں میں، لکھائی میں، فیملی میں، اپنے آپ کو involve کیا، تو میرا ذہن اس جانب نہیں، جبکہ honestly اس دوران میری طبیعت بھی خراب ہوئی، مجھے اسکین پرابلم بھی ہوئی، زخم بھرنے میں سُستی ہوئی، بخار بھی آیا اور چکر بھی آئے مگر چونکہ میرا ذہن ان خرافاتی خیالات سے مبرہ تھا، اور اللہ تعالٰی پر توکل، تو ان سب چیزوں سے نکل گیا حالانکہ مجھے میرے آفس والوں نے بھی کہا کہ تمہاری آنکھیں اتری ہوئی لگ رہی ہیں، یا تم concentrate نہیں کر پارہے ہو، تھوڑا پاور نیپ لو، مگر چونکہ میرا ذہن صاف تھا، یہی symptoms مجھے بھی کچھ کچھ ہوئے، جیسے ایک دن میں ۳ مرتبہ بخار کا چڑھنا پھر اترنا، اسی لئے اب میرا اس حوالے سے پختہ یقین ہوچکا ہے کہ یہ سارا مائنڈ گیم ہے اور کچھ بھی نہیں۔

کورونا وائرس کے بعد کی دنیا

 
ٹائم میگزین کی اس اشاعت میں ہمیں اشارہ دے دیا گیا ہے کہ کیا ہونے کو ہے۔۔۔

 یہاں ایک بات ہے کہ ہم پر ڈر کا اثر بٹھایا جارہا ہے، کیونکہ ایک انجانا خوف ہماری سائکولوجی میں اس طرح ڈالا جارہا ہے کہ انسان جو اپنی inquisitive طبیعیت کی وجہ سے جانا جاتا ہے، آج اُسی طبیعیت کو disable کرا جارہا ہے، کیونکہ جب ایک ان دیکھا ڈر ہمارے اندر ڈالا جارہا ہے کہ کورونا آرہا ہے، کورونا سے یہ ہورہا ہے، میں دوبارا یہ بات کو کنفرم کروں کہ یہ لائن لکھنے کا مقصد یہ بالکل نہیں کہ میں کورونا وائرس کو نفی کررہا ہوں، میں مان بالکل رہا ہوں مگر یہ کہہ رہا ہوں کہ جتنی یہ بیماری نہیں اس سے ذیادہ اسکا واویلا مچاکر ہماری زندگیاں تبدیل کی جارہی ہیں، کیونکہ اب ہم پر یہ وائرس ایک طرح کا ٹارچر اسٹارٹ کرا جارہا ہے جس کی وجہ سے مجھے personally یہ لگتا ہے، کہ اسی ڈر کی genetic encode کی وجہ سے ہماری آنے والی زندگی مستقل طور پر تبدیل ہونے والی ہے۔

ٹائم میگزین کا سرورق

اب کورونا وائرس کے تناظر میں ٹائم میگزین کے سرورق کو دیکھیں کہ کس طرح کورونا وائرس کے نام پر تبدیلیوں کو ہمارے اندر encode کرایا جارہا ہے، کیونکہ ایک چیز جو شاید میں نے بلاوجہ نوٹ کیا کہ اس تصویر میں arrow دیے ہوئے ہیں ایک الٹے ہاتھ سے سیدھے ہاتھ کی جانب اشارہ کررہے ہیں جس کا صاف سیدھا مطلب یہ ہے کہ اب سے دنیا میں کچھ بھی ہوگا، اثر پوری دنیا میں ہوگا، جیسے ابھی یہ کورونا وائرس کی صورتحال ہے، کس طرح اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا، تو آگے بھی اس طرح کے مزید چیزیں ہوں گی، پھر دوسرا arrow کو دیکھیں تو آسمان یعنی اوپر کی جانب اشارہ کررہا ہے یعنی اب سے ایک نئی طرح کی جنگیں جنہیں میں آسمانی جنگیں یا خلائی جنگیں کہوں گا، کیونکہ اب سے جو جنگیں ہوں گی، سیٹلائٹ کی جنگیں ہوں گی، اب سے یہ سیٹلائٹ جنگوں کے لئے آنکھ اور کان کا کام کریں گی۔ پھر دوسری جانب bottom right  کی جانب نظر دوڑائیں تو یہ جو کچھ بھی کررہے ہیں، اس کا عادی کرایا جائگا، بلکہ کچھ ممالک جس میں نئے ممالک متحدہ عرب امارات ہے جس میں اس طرح کی حرکات کی اجازت دے دی گئی ہے، اور پاکستان میں بھی یہی چیز کی acceptance کرائی جارہی ہے، باقی horticulture وغیرہ کو بھی accordingly سیٹ کرائی جایگی کیونکہ ان کے اپنے مقاصد ہیں جن کو پورا کرنے کے لئے ان کو اپنی مرضی کے پودے وغیرہ چاہئے، کیونکہ اپنے کنٹرول کو مستحکم کرنے کے لئے ان چیزوں پر بھی کنٹرول ضروری ہے۔

تبدیلی ایک اچھی چیز ہے مگر۔۔۔

میری ناقص معلومات کے حساب سے یہ جو کچھ ہونے کو ہے یہ اپنی انفرادیت کو پرے رکھ کر ہم سب ایک ایک جیتے جاگتے ہائبرڈ ہیومنائڈ Hybrid Humanoid بننے کی خواہش ہے۔ یہاں ہائیبرڈ ہیومنائیڈ سے مراد ڈی سی کومک کے بمطابق ایک کیریکٹر ہے سائیبورگ Cyborg جو آدھا انسان اور بقایا مشین ہوتا ہے، جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ انسان کے اندر جب مشینی پرزے ڈال دئے جائیں گے تو انسان مزید طاقتور ہوجائے گا، میں سائکولوجی میں اتنا پکا نہیں مگر جسٹس لیگ میں Cyborg کیریکٹر کی لاچاری دیکھائی گئی کہ وہ انسان بننا چاہتا تھا جس میں ناکامی کے باعث وہ طنزیہ اپنے والد صاحب جن کی وجہ سے اس حادثہ کے اثر سے باہر نکلا تھا، ان سے بھی طنزیہ ٹون میں بات کررہا تھا کیونکہ اس کے پاس element of choice  نہیں تھی، جو آہستہ آہستہ ہم سے لی جارہی ہے اور اسکے لئے acceptance ہمارے اندر encode کرائی جارہی ہے۔

Man of Steel

اس موقع پر کچھ لوگوں کے لئے یہ ھیڈنگ کنفیزنگ ہوسکتا ہے، مگر ایک بات ہے، انگریز، گورا یا/اور مغربی دنیا چاہے اپنی تحریروں میں، ویڈیو میں، یا اپنی میزک میں اشاروں میں باتیں ضرور کرتے ہیں، جیسے(میں اپنے منہ میاں مٹھو نہیں بن رہا ہوں) مگر میں چونکہ انسٹرومنٹل میوزک سننے کا شوقین ہوں، اسی وجہ سے میوزک کو ایڈٹ کرنے میں ذیادہ شوق دیکھاتا ہوں، بلکہ میوزک تو میوزک، اوڈیو پوڈکاسٹ بھی میرے فون میں ہر وقت ملے گا، تو اسی بناہ پر جب میں میوزک اپنے فون میں ڈال رہا ہوتا ہوں تو بعض اوقات میوزک ایڈٹ سافٹ وئیر کے اندر میں نے ایک چیز غور کی کہ بیٹس beats کا اثر ہمارے psychology پر پڑتا ہے، انگریز یہی چیز اپنے کونٹینٹ میں چھپا کر include کردیا گیا ہے کہ نا چاہتے ہوئے بھی ایک مرتبہ آپ ان کی میوزک سنیں تو آہستہ آہستہ آپ ان کو سننے لگیں گے، بلکہ یہ تو یہ اس کے علاوہ predicted mind programming کا aspect  بھی اس میں شامل ہوتا ہے، کہ ہم یعنی گورا مستقبل میں کیا کرنے والا ہے۔

اب اس ھیڈنگ کی تفصیل

 

Element of Choice

 یہ وہ چیز ہے جہاں Genesis Chamber کا بھی ذکر ہوتا ہے جہاں مووی کے مطابق بچوں کو بنایا جاتا ہے، جبکہ Kal-El ایک نیچرل پیدائش ہوتی ہے، تو وہ سین جہاں Jor-El کلارک کو یعنی Kal-El کو کریپٹون کی کہانی سناتا ہے تو ایک چیز جسے مجھ سمیت کافی لوگوں نے پہلی بار اگنور کیا ہوا ہوگا جب جور ایل کہتا ہے کہ ہم نے تمہیں کریپٹون سے Earth اسی لئے بھیجا تھا کیونکہ کریپٹون میں لوگوں کو سوچنے کی آزادی نہیں تھی یعنی Element of Choice نہیں تھی، کیونکہ جینیسس چمبر میں چونکہ بچوں کو نظریہ ضرورت کے حساب سے بنایا جاتا ہے، جو ان میں سے انسانیت کا عنصر ختم کردیتی ہے۔ یہ مووی ۲۰۱۴ میں ریلیز ہوئی تھی اور اب دیکھ لیں ہم سے ہمارے انسان ہونے کا حق ہم سے چھینا جارہا ہے، کیونکہ ہم سے اس طرح ہماری آزادی اور سوچ کو صلب کیا جارہا ہے، جیسے میں نے اوپر کہا کہ گورا ہمیشہ اشارے میں چیزوں کو predict یعنی پروگرام کردیتے ہیں تاکہ مستقبل میں جب یہ چیز جب reality ہوگی تو اس سے پہلے ہی ہم نے اس کو مان لیا ہوگا کیونکہ جو لوگ سائکولوجی سے واقفیت رکھتے ہیں یہ بات پر مجھے تصحیح کریں کہ ایک ڈر کو اگر مستقل طور پر اپنے اوپر حاوی کرلیں تو جسمانی اور سوچ پر کیا فرق آتا ہے؟

میں یہ نہیں کہتا کہ کورونا بالکل نہیں۔۔۔ مگر ۔۔۔

جو ہورہا ہے کیا وہ واقعی میں کورونا ہے؟؟؟ یہ کیونکر ہوتا ہے کہ ایپی لیپسی Epilepsy اور دوسری ایسی بیماریاں جو دماغ پر اثر کرتی ہے، وہا ان بیماریوں کے ڈاکٹر پیشنٹ کے رکھوالوں کو ہمیشہ mind کو divert  کرنے کے لئے پیشنٹ کو کسی نہ کسی activity میں involve رکھنے کے لیئے زور دیتے ہیں۔ تو یہاں کیونکر کورونا کو ایسا ہَوا کیونکر بنایا جارہا ہے؟؟؟ یہ بات ماننے لائق ہے کہ انسان چاہے مائونٹ ایورسٹ پار کرلے، مریخ پر اپنی آبادی بنالے (read, The Martian) مگر اپنے اندر کے ڈر سے لڑنا سب سے خطرناک چیز ہوتی ہے، جس کو tackle کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں، جس کی بناہ پر آج میڈیا (پاکستان کا میڈیا) یہ ضرور بتا رہا ہے کہ پاکستان میں ۲۰۰۰ کیسز روزانہ کے ہیں مگر یہ نہیں بتا رہا ہے کہ اس وقت انڈیا میں کتنے ایکٹو کیسز روزانہ ہیں، چین جہاں سے یہ بیماری پنپی، وہاں کیا صورتحال ہے، امریکہ میں کیا حال ہے، چلیں یہ تو بڑے ممالک ہیں، متحدہ عرب امارات کی آبادی اور روزانہ کے ایکٹو کیسز کا percentage نکال لیں اور اس کا موازنہ پاکستان سے کریں، چیزیں خود کھل کر آئیں گیں، مگر ہمارا بکائو میڈیا اس چیز کو negatively propagate کررہا ہے۔

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting