Search me

Islam لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Islam لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

صرف اور صرف رمضان کا با برکت مہینہ ہی کیوں؟

میں یہاں بغیر کسی بکواس کے صرف ایک بات کہوں گا، کہ کیونکر پاکستان میں مذہب کو ایسا مذاق بنایا جارہا ہے؟ مانتا ہوں کہ رمضان ہمارے لئے قدرے اہمیت کے حامل مہینہ ہے، مگر ایک مستقل مزاجی کے تناظر میں بات کروں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک حلقے میں ۳۰ دن کا روزہ جبکہ پاکستان میں ۲۹ دن کا روزہ، اور یہ بیماری اگر چہ ہے تو صرف رمضان کے مہینہ میں کیونکر ابھرتی ہے؟ 
جبکہ بھارت، بانگلادیش میں عید پرسوں ہوگی، تو یہ کیسے ممکن ہے، کہ صرف رمضان کے مہینے میں چاند کو ایسا کنٹرورشل بنایا جارہا ہے، اگر بڑی پکچر میں دیکھیں تو پاکستان اسلام سے ہے، اسلام پاکستان سے نہیں، ہمیں اپنی حیثیت یاد رکھنی چاہئے، کیا عید منانے میں اتنے اتاولے ہوگئے ہیں، کہ بقایا ۹ مہینوں میں اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے، کہ کونسا مہینہ ۲۹ کا ہے، اور کتنے ۳۰ کے، اس کا حساب صرف وہ لوگ رکھتے ہوں گے، جن کے گھروں میں گیارہویں شریف منائی جاتی ہے، تو ایسے میں ایسے کنٹرورشل مہینوں بنایا جارہا ہے۔

In the long run 

یہ میرا ذاتی ذاویہ ہے، جہاں مذہب کو سائیڈ لائن کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، اور ایک منظم کوشش کے تحط لوگوں کو مذہب سے detract کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس وقت جو millinials ہیں، وہاں تک تو بات صحیح ہے، مگر اصل بات وہاں سے کھڑی ہوتی ہے، جب آج کی Gen Z جب شوہر بیوی اور رشتہ اجدواج میں ملبوس ہوجائیں گے، تو جب یہ چھوٹی سوچ والی جنریشن سے کھل کر manupulation کری جارہی ہے، کیونکہ یہ جنریشن بہت جلدی manupulated ہوتی ہے، کیونکہ یہ لوگ بہت شارٹ سائیٹڈ ہوتے ہیں، bigger picture دیکھنے کی ان کی قابلیت نہیں ہے، تو ایسے میں already میں اپنی آنکھوں کے سامنے ہمارے بڑوں کی شارٹ سائیٹڈنس دیکھ رہا ہوں، ایسے میں مزید بڑے ہوجائیں گے، تو برائی مزید پھیلے گی، مگر بحیثیت معاشرہ ہم ویسے بھی برائی کو بُرا بھی تو بالکل نہیں سمجھتے، تو ایسے میں کوئی بعید نہیں کہ آگے مزید برائی بڑھے گی۔





I can be contacted on my handler
Responsive advertisement
Best WordPress Hosting

Afghanistan doing propaganda ... against Pakistan

Whereas, someone from Afghanistan tweeting
ان خاتون سےمجھے کوئی مسئلہ نہیں، مگر پہلی بات یہ ہے کہ counterargument کرنے کے لئے آپ کے facts and figures صحیح ہونے چاہئے، اگر ایسی کوئی صورتحال ہے بھی تو صرف پاکستان میں نہیں ہے، بلکہ ایران میں بھی ہے، تو ایران کے خلاف کیوں نہیں کرتے؟

انڈین mentality کو فالو کرتے ہوئے

ان کے کی بورڈ وارئرز نے میری اس لائن کا اسکرین شاٹ لینا ہے، I don't care کیونکہ پہلی بات، 
  1. ان کی خار صرف پاکستان سے ہے
  2. پاکستان کو نیچا دکھانے کے لئے کسی بھی حد تک جائیں گے
کیا افغان illegal محاجرین صرف پاکستان میں موجود ہیں؟
ان انڈینز کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، جو کہ خود خالصتان تحریک کو دبانے کے لئے کسی بھی حد کی بے شرمی میں جانے کے لئے راضی ہیں، ٹھیک اسی نقش قدم پر افغانی بھی چل رہے ہیں، منافقت کی کوئی شکل ہونی چاہئے تو وہ افغان ہونے چاہئے، (افغانیوں، اسکرین شاٹ لو)، مگر تم لوگوں کی منافقت بتانے پر آؤں، تو اتنی سی بات انڈینز سے کہوں گا کہ ان منافقوں سے دور رہو، یہ منافق جب پاکستان میں رہتے تھے، جب ان کو کہا گیا کہ پاکستان میں رہنے کے لئے (اسلام یہ کہتا ہے کہ follow rules of the land) آپ نے پاکستان کے کونسے rules فالو گئے؟

rule of the land

یہاں میں پاکستان میں موجود laws کو عزت دی؟ ویسے بھی میرے کچھ افغانی ساتھیوں نے یہ بات کرنی ہے کہ انہوں نے بھی کیا ہے (شراب سے وضو کرنا، اور سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی) مگر افغانیوں کو ان کے سوشل میڈیا کا nick name سے نہیں بلواؤں گا، مگر rule of the land کی بات کرتے ہیں، تو کیا پاکستان میں رہتے ہوئے یہاں کے rules کو respect دی۔ ہم پاکستانی تو بے غیرت ہیں، آُپ اتنے غیرت مند ہییں تو کیونکر legacy کو فالو کرنے کے بجائے ہماری طرح بے غیرت بنو؟ ہم تو بہت بڑے بے غیرت ہیں، آپ کیونکر بنے؟

انڈینز اور ان کی attention diversion tactics

flow of events کو مدنظر رکھوں تو بھولیں نہیں، India ایک طرح سے گرم پانیوں میں تھا، خاص طور پر کینیڈا کے معاملات میں، جہاں انڈیا نے کینیڈین شہریوں کو انڈیا میں داخلے پر پابندی لگادی تھی، یاد ہے کچھ، اور یک دم ساری attention پاکستان اور افغانستان ایشو پر ڈال دی، انڈیا میں گودی میڈیا جبکہ ہمارے پاس کا بے غیرت میڈیا ہے، خاص طور پر اس معاملے میں میڈیا کی خاموشی مجھے شک میں لارہی ہے۔

میں پاکستانی ہونے کے ناطے اس بے غیرتی کو کس طرح سے سپورٹ کروں؟

بیغیرتی اس لئے کیونکہ پاکستان کو پتا نہیں کہاں  flush down the gutter کردیا ہے، کیونکہ بیغیرتی میں اس حد تک گر چکے ہیں، کہ پاکستان کے مفاد کو مدنظر نہیں رکھتے ہیں، اب انڈین ہوں یا افغانی، ان کو اس سے کوئی غرض تھوڑی ہونی چاہئے کہ ہم پاکستانی پاکستان کو کتنا عزت دیتے ہیں، یہ تو ہماری ذمہ داری ہے۔


feel free to support me via Dominance Pakistan

Support me on my ARTMO refers

I can be contacted on my handler
Responsive advertisement
Best WordPress Hosting

A bit different post than my usual blog posts, but...


میں زیادہ تر یہاں غصہ دکھا رہا ہوتا ہوں، مگر آج ایک چیز جو میرے ایک انڈین دوست، جو میری طبیعت سے آشنا ہے، کیونکہ مجھے ۲۰۰۵ سے یعنی اس وقت جب ہم Orkut استعمال کیا کرتے تھے، تو اس کی وجہ سے وہ میری پسند اور نا پسندیدگی کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے، کیونکہ ویسے بھی جب بھی کوئی انڈین مووی کا انسٹرومنٹل کیا پھر Karaoke version نکلتا ہے، تو اس نے ہمیشہ کی طرح میرے ساتھ شئیر کیا، اور ٹھیک اسی طرح آج ہی کے دن ایک لنک میرے ساتھ شئیر کیا، جس میں موجودہ کرکٹ ورلڈ کپ کے انسٹرومنٹل میوزک میرے ساتھ شئیر کیا

یہاں مجھ جیسے بندے کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان skills کا فرق کھل کر عیاں ہوا

میں یہاں یہ بات اس لئے نہیں کررہا ہوں، کہ کہیں مجھے انڈیا سے ویوورز چاہئے، بلکہ یہ ایک طرح کی confession ہے کہ ۱۹۹۰ کے دور میں ہم کہاں تھے، اور اب کہاں بیٹھے ہیں، انڈیا کے ساتھ بھی ۱۹۹۰ کا دور بہت سخت تھا، مگر اس قوم نے اس دور میں اپنا metal  دکھایا، جبکہ یہاں ہم سیاسی پناہ گزین بن چکے ہیں۔

Getting back to Instrumental

مجھے یہ میوزک آڈیو میں convert کرنی پڑی، کیونکہ ٹیلی وژن رکارڈنگ تھی، مگر جب آڈیو میں تبدیل کیا، تو جب اس میوزک میں جو ستار کا استعمال، violin کا استعمال، اور ماڈرن انڈین ریپ میوزک دکھایا گیا ہے، کیونکہ انہوں نے یہ ٹیلنٹ نا صرف اپنے پاس develop اور groom کیا، بلکہ accordingly promote بھی کیا، پرانی بالی ووڈ مووی میں جیسا دکھایا جاتا تھا، اس کے مقابلے میں ان لوگوں نے اپنی product promotion اور product placement کس پلاننگ کے ساتھ کی ہے، بیشک ہمارے competitor ہیں، مگر بات ماننے والی ہے، کہ they are at par comparison to us 

اس کے مقابلے میں ہم اپنے برینڈز کو کس طرح تذلیل کرتے ہیں

میں نے اسی وجہ سے اپنا Twitter کچھ ٹائم کے لئے suspend کیا ہے، کیونکہ جس طرح کی غلاظت وہاں چل رہی ہے، اور جس طرح پاکستان کا مذاق ہم پاکستانی خود بنا رہے ہیں، بلکہ انڈینز کو خود موقع دے رہے ہیں کہ آ بیل مار مجھے، تو کیا انڈینز کو نفلوں کا ثواب مل رہا ہے، کہ وہ فائدہ نہیں اٹھائیں؟ ہم پاکستانی بن کر سوچیں گے؟

موجودہ کرکٹ ورلڈ کپ اور پاکستان کی product placement

کیا ہم نے اس طرح چیزوں کو دیکھنے کی کوشش کی کہ اس طرح کی غلاظت کرنے سے ہم پاکستان کو دنیا میں کیسا دکھا رہے ہیں؟ ہمیں اپنے megalomaniac mindset سے باہر نکل کر سوچنا ہوگا، کہ ۱۹۹۰ کے بھارت سے آج کا بھارت دیکھو تو اس وقت بھارت ڈیفالٹ ہونے پر تھا، اور آج چاند کی ڈارک سائیڈ پر پہنچ چکا ہے، اور یہاں ہم آج بھی تحقیق کرنے کے بجائے، تعویذ جادو وغیرہ پر لگے ہوئے ہیں، as a society اگر ہماری سوچ اتنی گری ہوئی ہے تو جیسے پرویز مشرف نے ایک بات کہی تھی، کہ پاکستان کا خدا ہی حافظ، کیونکہ بات یہاں کرکٹ کی نہیں، as a nation سوچنے کی ہے، کہ کیا ہم نے پاکستان کے بارے میں کبھی کچھ سوچا ہے؟ پاکستان کو فائدہ پہنچانے میں ہمارا اپنا ہی فائدہ ہے، چیزیں ہمارے لئے سود مند ہو جائیں گی، 

پے پال پاکستان میں کہاں ہے؟

چلیں تھوڑا پاکستانی بن کر سوچتے ہیں۔ انڈیا میں UPI ہے جو ان کا alternate ہے towards پے پال، کیونکہ ان کی نیشنل پالیسی رہی ہے کہ India Only اور India Priority، تب ہی ہم چاہے جتنا بھی ان کا مذاق اڑالیں، مگر آج اپنے خود کے ملک میں گاڑیاں بنا رہے ہیں، جبکہ ہم اسمبلی لائن سے آگے نہیں پہنچ سکے، کیا ہم نے ایسا کوئی کلچر اپنے معاشرے میں پروموٹ کیا؟

ہمارے پاس ایزی پیسہ اور جاز کیش ہے

مگر کیا ان کا وہ استعمال ہم اپنے پاس کررہے ہیں، جو انڈیا اپنے homegrown app یعنی UPI کے ذریعے ناصرف انڈیا میں بلکہ قطر وغیرہ میں رہنے والے انڈینز جن کو عرف عام میں این آر آئی کہا جاتا ہے یعنی non residing Indians ٹھیک اسی طرح جیسے ہمارے پاس Overseas Pakistani کی term کو استعمال کیا جاتا ہے، بیشک مودی ہمارے لئے جیسا بھی ہو، اپنے ملک کے لئے جس طرح کام کررہا ہے، کیا ہم میں وہ قومی غیرتی ہے کہ اتنا کام کریں؟
بات صرف ایزی پیسہ یا جاز کیش کو پروموٹ کی نہیں ہے، بات اصل یہ ہے کہ جس طرح انڈینز اپنے ملک کے لئے کام کرتے ہیں، کیا اسکا چند فیصد بھی ہم نے پاکستان کے لیے کیا؟ ہمارے پاس آج کے زمانے میں بھی امپورٹڈ آئٹم استعمال کرنا فخر کی بات ہے، 

بحیثیت بینکر میں یہ چیز نوٹ کر رہا ہوں

آج کی تاریخ میں اگر آپ پاکستان میں کسی کو کال کریں، تو یا تو Pinktober کی discussion ہورہی ہوتی ہے یا پھر یہ کہ اسٹیٹ بیک آف پاکستان یا کوئی بھی organization آپ سے آپ کی تفصیل پوچھنے کا مجاز نہیں، اور بینکر ہونے کے ناطے میں نے خود یہ چیز نوٹ کی ہے، کہ لوگ اس معاملے میں لاعلم ہیں، مگر لوگوں کو ان کی لاعلمی سے لوٹا جارہا ہے، کیونکہ ہماری اکانومی کا یہ حال اسی لئے ہوا ہے، کیونکہ اپنے آپ کو دنیا کے ساتھ align نہیں کیا، skills deficiency کا اسٹینڈرڈ ہمارے پاس اور دنیا میں اتنا ہے، کہ چلیں انڈیا کی بات نہیں کرتے، ایران کی بات کرتے ہیں، وہاں بھی ہم سے زیادہ آن لائن بینکنگ استعمال کی جاتی ہے، جبکہ یہاں ابھی بھی اسکیل پنسل والی بینکنگ کی جارہی ہے، جہاں audit objection بول کر کچے رجسٹر بنوائے جارہے ہیں، اور paperless ہونے کے بجائے paper-full usage banking کررہے ہیں، جبکہ آج کل آن لائن بینکنگ پورٹل میں scheduled banking، جیسے سہولیات آچکی ہیں، مگر اس کے باوجود یہاں ابھی بھی جھگڑے ہورہے ہیں کہ اسٹمپ 95% dark ہونے کے بجائے 80% dark ہوئی تو دوبارہ اسٹمپ لگوارہے ہیں، جبکہ ٹرانزیکشن نمبر جنریٹ ہوچکا ہے، مگر اسٹمپ پکی ہونی چاہئے، جب یہ ہماری اپنی صورتحال رہے گی کہ بحیثیت قوم ہماری intent ہی نہیں ہے کہ آکے کی proactive approach رکھیں، بلکہ ٹانگ کھینچنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے (شرم کے ساتھ)

میں اپنی تعریف نہیں کررہا ہوں

مگر میں دو کارڈ استعمال کرتا ہوں، دو الگ بینک کے، ایک یونین پے ہے دوسرا پے پاک، ایک Chinese ہے جبکہ دوسری پاکستانی کمپنی، میں نے خود استعمال کرکے دیکھا کہ یونین پے والی ایپ کے کیمرے کے ذریعے پیٹرول پمپ پر موجود کیو آر کو استعمال کر کے KEENU کی رسید بھی حاصل کی، بولنے کا مقصد یہی ہے کہ ہمیں شعور ہی نہیں ہے کہ دنیا کہاں نکل چکی ہے، انٹرنیشنل پیمنٹ سسٹم، یعنی VISA, MasterCard, Union Pay اور Pay Pak جو کے اس وقت پاکستان میں استعمال ہونے والے پیمنٹ سسٹم ہیں، ان کا basic مقصد کیا ہے، کیا کبھی concept سمجھنے کی کوشش بھی کی، میں چلیں چاہل ہوں، آپ بہت عقلمند ہو، عقلمند ہو تو آگے دیکھو، وہی conformity biases میں پھنس کر کیونکر بیٹھ گئے ہو، اور نا صرف پھنس گئے ہو، بلکہ اسی کنواں میں رہنا پسند کرتے ہو۔

مجھے پتا ہے کہ 

ان سب کا ری ایکشن اچھا نہیں آنا ہے، کیونکہ ہماری سوسائٹی اس طرح کی بن چکی ہے، جہاں دلچسپیاں ختم ہوچکیں ہیں تو اس طرح کی leg pulling activities کو انٹرٹینمنٹ کت طور پر لیا جاتا ہے، جو کہ high time to recognize ہے کہ we do require to upgrade۔ میں یہاں کسی بھی طرح سے apologetic نہیں ہوں، کیونکہ بحیثیت پاکستنی، ہمیں یہ چیز acknowledge کرنی چاہئے کہ fault lies within us جب تک ہم یہ چیز identify نہیں کریں گے کہ ہم صحیح نہیں ہیں، چیزیں صحیح نہیں ہوںگی، اور گر ابھی بھی آپ کی یہی سوچ ہے کہ مجھے غلط ثابت کر کے آپ کو لائسنس مل رہا ہے go on your existing way تو یہ کوئی اچھی بات نہیں، میں اسی leg pulling pathetic طریقوں کے خلاف ہوں، کیونکہ ہم نے تمام دلچسپیوں سے اپنے آپ کو عار کر دیا ہے، again دنیا کہاں جارہی ہے اور اس کے برخلاف ہم کہاں ہیں۔جب بنی اسرائل اپنے رب سے دور ہوئی تو اللہ نے ہم مسلمانوں کو لائے، اب جب ہم مسلمان ہی ایسے ہوگئے ہیں، تو کیا یہی ممکن نہیں کہ اللہ تعالی ہمارے مقابللے میں کسی اور قوم کو پیدا کردے؟ کیا ہم نے ایسی کوئی کثر ابھی تک چھوڑی ہے کہ کہہ سکیں کہ ہم ابھی بھی اللہ کی آخری اقوام میں ہیں؟ جبکہ scientifically یہ بات proven ہے کہ سائنسدانوں نے ایک بگ بینگ کی آواز سنی ہے، (واللہ اعلم، اس میں کتنی صداقت ہے) مگر اگر ایسی کوئی بات ہے بھی تو اس بات کی امید نہیں کہ ایک نئی civilization کی development دوبارہ سے شروع ہوچکی ہے؟؟؟

دنیا ہمارے قرآنی آیات کو decipher کر کے یہاں پہنچ چکی ہے، جبکہ ہم ابھی بھی اس احساس محرومی میں موجود ہیں کہ کہیں ہم سے آگے نا نکل جائے، 
The Big Bang may have been accompanied by a shadow, "Dark" Big Bang that flooded our cosmos with mysterious dark matter, cosmologists have proposed in a new study. And we may be able to see the evidence for that event by studying ripples in the fabric of space-time.

The Dark Big Bang

In their paper the researchers explored what a Dark Big Bang would look like. First,  they hypothesized the existence of a new quantum field — a so-called "dark field," that is necessary to allow dark matter to form completely independently.

In this new scenario, the Dark Big Bang only gets underway after inflation fades away and the universe expands and cools enough to force the dark field into its own phase transition, where it transforms itself into dark matter particles.

زحل جو مریخ اور مشتری کے بعد اگلا سیارہ ہے، وہاں سے یہی 
زمین جس پر حکومت کے دعویدار ہیں، ایسی دکھتی ہے، پس تم
اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
سو ایسے میں کیا ہم صرف اس نقطہ کی مانند زمین پر "قبضہ" کرنے کے لیے بیٹھے ہویئے ہیں یا پھر اشرف الإمخلوقات  کی طرح تحقیق کرنی چاہئے کہ ہمیں کیسے زندگی گزارنی چاہئے، کیا اس طرح جہالت سے بھر پور حرکتیں کر کے ہم یہ prove کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اتنے عقلمند اور ہر فن مولا ہیں؟



feel free to support me via Dominance Pakistan

Support me on my ARTMO refers

I can be contacted on my handler
Responsive advertisement
Best WordPress Hosting

اس کو ban کرو، اس کو ban کرو، سب کچھ ہی ban کرو، مگر علاج کچھ نہیں کرو

سو چوہے کھا کر بِلی حج کو چلی

ہم پاکستانی سیاست دانوں کو گالیاں دیتے ہیںِ، ایسے میں مسلمان کہتے ہوئے ہمیں just mindset رکھنا چاہئے، کیونکہ اگر ہم کسی چیز کو غلط کہتے ہیں، تو اس پر جانب داری کا عنصر نہیں ہونا چاہئے، مگر پاکستانی معاشرے میں یہ چیز عام ہے کہ جانب داری جس کو انگریزی زبان میں nepotism اور favoritism میں کہا جاتا ہے، اور کوئی بھی مہذب معاشرے میں عنصر ہونا مشروط نہیں ہوتا ہے، جبکہ ہمارے پاس احساس کمتری کا عنصر موجود ہے، جس کی وجہ سے اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کی احساس "محرومی" موجود ہے، 

احساس محرومی؟ کس چیز کی محرومی؟؟؟

ایک چیز ہوتی ہے grace یعنی خوبصورتی کے معاملے میں استعمال، یعنی گفتگو میں احسن طریقے سے بات کرنا، کہ کوئی بد مذگی کی صورتحال پیش نا آئے، ایسے میں انگریزی زبان کی ایک term  ہے ripples effect یعنی جو آپ فرما رہے ہیں، اس کا ری ایکشن کیا آسکتا ہے، پاکستانیوں میں یہ چیز جان بوجھ کر ختم کی گئی ہے، جبکہ انڈینز سے میرا جتنا بھی اس حوالے سے interaction ہوا ہے، اس کے حساب سے ان کی نئی generation اس حوالے سے پاکستانیوں کے مقابلے میں کافی conscious ہے، جبکہ پاکستانیوں میں اس چیز کا sense نا ہونے کے برابر ہے۔

اس میں قصوروار کون ہے؟Who is accountable for this catastrophe in Pakistani society???

جیسے ایک بات کہی جاتی ہے، تالی ایک ہاتھ سے کبھی نہیں بجتی ہے، ٹھیک اسی طرح یہاں بھی وہی صورتحال ہے، مگر خاص طور پر یہاں point out ہمارے WhatsApp والے چاچاؤں کو criticize کروں گا، کیونکہ جس طرح کی خرافات ان لوگوں نے پھیلائی ہیں، بلکہ ہماری younger generation میں اتاولا پن کا عنصر کو جس طرح سے legalize کرنے میں ان کے کارنامے ہے، مگر ایک بات کہنا چاہوں گا، کہ صرف یہی کہنا ہے صرف اور صرف یہ ذمہ دار ہیں، یہ بھی غلط ہوگا، مگر یہ ایک factor ضرور ہے، 
ایک اور فیکٹر ہمارے پاس کی عورتیں ہیں، یہ تھوڑا complicated factor ہے اسی وجہ سے اس کو تھوڑا elaborate کر کے بولوں گا، کیونکہ یہ generational malfunctional disorder ہے جو کہ سالوں سے چل رہا ہے، کیونکہ عورتوں کو بچپن سے دبایا گیا ہےاور یہ بولا گیا ہے کہ شادی ہوجائے شادی کے بعد جو کرنا ہے کرو، جبکہ شادی کے بعد ساس بہو کی تو تو میں میں، اور وہاں بیچارہ شاہر دونوں کے بیچ میں sandwich بن رہا ہے، جبکہ میں یہاں مردوں کا پوائنٹ آف ویو بھی پیش کروں گا، جہاں مرد اپنی عورت سے مورل سپورٹ چاہ رہا ہوتا ہے، جو کہ اس کو نہیں ملتی، یہاں قصور مردوں کا بھی ہے، کیونکہ مردوں کو nipping on to the bud کی approach رکھنے کے بجائے جب سر پر پڑتی ہے، جب حرکت ہوتی ہے، 
اور جب بات authority management کی ہورہی ہے، تو یہاں بھی decision making کا right میاں بیوی کو ہونا چاہئے، مگر معذرت کے ساتھ یہاں کنٹرول اگر میری صورتحال کی بات کریں تو میری خود کی والدہ کی authority ہے، اب یہ بتائیں کہ اس موقع پر ہمیں guide کرنے کے بجائے اپنی من مانیاں کریں گے، just because اپنی age میں ان کی ساس یعنی میری دادی نے یہی کچھ ان کے ساتھ کیا تھا، تو اب ان کا ٹائم ہے، یہ tactic مجھے سمجھ نہیں آرہی، یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اس چیز کی تیاری کرنی چاہئے کہ میری بیوی یہی کچھ اپنے ٹائم پر کرے؟ کیا یہ معاشرہ ہم دینے کی تیاری میں ہیں؟

ہو سکتا ہے میں غلط ہوں، مگر میری سوچ ہے کہ یہ اسلام نہیں

بیشک اس بات پر مجھے گالیاں پڑے گی، مگر اسلام نے open ended approach رکھی ہے، جو restrictions ہیں وہ societal restrictions ہیں، ان کو اسلام سے ملانا اسلام کے ساتھ ملانا، اسلام کے ساتھ blasphemy ہے، اور اسی وجہ سے میں نے ہمارے قومی نصاب کو بھی کھل کر طنز مارا ہے کیونکہ time to time update ہونے کے بجائے ابھی بھی ماضی بعید کو پڑھایا جارہا ہے، جس کی وجہ سے (صرف ایک وجہ ہے) پڑھائی سے اسٹوڈنٹس کا دل اچاٹ ہوجاتا ہے، اور ایسے میں یوٹیوب پر موجود دانشور جیسے ڈاکٹر شاہد مسعود ٹائپ کے لوگ، (no offence) مگر وہ لوگ صرف اس untapped موقعے پر چوکا لگا رہے ہیں، اور (یہ بالکل نہیں کہہ رہا ہوں کہ وہ بالکل جھوٹ بولتے ) مگر یہ بول رہا ہوں کہ reality کو مسخ plagiarized کرکے اس میں اپنی چیزیں مکس کر کے اپنا نظریہ باور کراتے ہیں۔

چونکہ ہمارا نصاب دقیانوسی ہے

تو اسی وجہ سے ان فیکٹریوں (کیونکہ ان کو یونی ورسٹی، کالج، یا اسکول بولنا ان انسٹی ٹیوٹس کے لئے بے عزتی کے مترادف ہوگی) کیونکہ اسکول، کالجز، یونی ورسٹی کا کام اسٹوڈنٹس کو آگے زندگی میں face کرنے والے challenges کے لئے تیار کرنا ہوتا ہے، اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں، کیا ایسا کچھ produce یہاں سے ہورہا ہے؟ بلکہ الٹا ان فیکٹریوں سے جو پود نکل رہی ہے، shortcuts لینے میں زیادہ خوش ہوتی ہے بجائے اس کے کہ آگے کا سوچیں، بلکہ اسلام کی بات کرتے ہیں، تو اسلام نے اس کے لئے بھی ثواب رکھا ہے، کہ آگے آنے والے لئے بھی رستے سے اگر کنکر ہٹادیا تو ایسے میں اس پر بھی ثواب ہے، جبکہ یہاں inferiority complex یعنی احساس کمتری / احساس محرومی کے شکار پاکستانی معاشرہ دوسرے کا رستہ روکنے میں ذیادہ خوش ہوتا ہے۔

کراچی کی دیواریں "محبوب آپ کے قدموں میں" سے بھری ہوئی ہیں

شہر کی دیواریں شہر میں رہنے والوں کی عکاس ہوتی ہیں، اور اگر کسی شہر کی دیواریں اس طرح کے وال چاکنگ سے بھری ہوئی ہیں، تو اندازہ لگالیں، کہ یہ فیکٹریوں نے کیسی پود پیدا کی ہے، 

ہمارا curriculum

Curriculum کا مقصد کیا ہوتا ہے؟

ایک تازہ ترین نصاب کا ہونا کامیابی کے لئے سب سے اہم ہے, یہ استاد کو اضافی ، تازہ ترین معلومات تلاش کرنے کے لئے تحقیق کے بغیر اس نصاب کو استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ایک تازہ ترین نصاب سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، علمی سوچ کو مضبوط کرتا ہے، تجسس کو فروغ دیتا ہے، کلاس روم کی تدریس میں ملازمت کرتا ہے، گروپ مطالعہ، خود اعتمادی اور خود شعور کو فروغ دیتا ہے، خود کی ترقی کو فروغ دیتا ہے، زندگی اور نرم مہارتوں کو بڑھاتا ہے.
نصاب کو اپ ڈیٹ کرنا نہ صرف فرد بلکہ مجموعی طور پر تعلیم کی مجموعی ترقی کے لئے فائدہ مند ہے۔

پاکستانی curriculum کی حیثیت

پاکستانی کری کیولم جسے عرف عام میں میں پاکستانی نصاب بھی کہا جاتا ہے، یہاں پاکستانی نصاب ایک طرح کی monotony ہمارے معاشرے میں instill کردی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے offsprings جو یہ نصاب پڑھ کر دنیا میں نکل رہے ہیں ان کی وجہ سے دنیا میں پاکستان جو نام "روشن" ہورہا ہے اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں۔

پاکستانی نصاب اور پاکستانی نصاب کی وجہ سے برامد ہونے والی megalomaniac mindset

اس مائینڈ سیٹ کو اردو زبان میں اگر بات کریں اس احساس کمتری کے احساس کو احساس برتری میں خیال کرنا آپ کی خود کی جہالت ہے، میں کوئی ماہر نہیں مگر میں اسلام کو فالو کرتا ہوں، اور اسلام کے حساب سے آپ کو کہیں بھی اپنے آپ کو برتی صرف اس لئے ڈالنا کہ دوسرے کے اوپر dominate کریں، اسلام کہیں بھی یہ نہیں کہتا ہے کہ آپ dominate کریں صرف اہنی authority کو ثابت کرنے کے لئے، کیونکہ بیشک شارٹ رن میں آپ جیت جائیں مگر لانگ رن long run میں اس کے ripples effect کی وجہ سے جو اثرات پیش آتے ہیں، اسلام اس جانب اشارہ کرتا ہے، جبکہ ہم یہاں subjective Islam کو فالو کررہے ہیں، جس کی وجہ سے اپنی مرضی کے point-to-point اسلام کو فالو کر کے ہم نے اپنے آس پاس کے لوگوں کو صرف اپنے آپ کو اوپر دکھانے دوسرے کو نیچا دکھانا جو کہ پروپگینڈہ نیچر کے مترادف ہے کیونکہ ہمارے پاس کے نیوز چینلز نے ہمارے معاشرے کو بگاڑنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے۔

بے غیرتی معاشرے میں بھرنے میں ہمارے نیوز چینلز کے کارنامے

حالانکہ مجھے یہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے، مگر جو احساس کمتری ہمارے نیوز چینلز نے معاشرے میں بھر دیا ہے کہ بحث اور بد تمیزی میں جو فرق ہوتا تھا اس کو ہی diminish کردیا ہے، جس کی وجہ سے for the time being یہ لوگ argument جیت جاتے ہیں، مگر اس کے ripples effect کے اثرات دور رس دکھائے دیتے ہیں، کیونکہ پاکستانی معاشرے میں جو یہ نیا ٹرینڈ اجاگر ہورہا ہے، جہاں بدلہ لینا، موقع پر فائدہ اٹھانا جبکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ benefit of doubt دینا چاہئے، ویسے بھی اسلام میں ہمیں کسی کو جج کرنے کا حق کہیں بھی نہیں دیا ہے، کیونکہ یہ حق اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ میں اسی لئے رکھا ہے کیونکہ اللہ تعالی جانتا ہے بلکہ جبکہ حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا جارہا تھا، تو فرشتوں نے اللہ تعالی کو بتا دیا تھا کہ یہ مخلوق زمین پر فساد برپا کرے گی، تو ایسے میں اللہ تعالی کا جواب یہی تھا کہ جو میں دیکھ رہا ہوں وہ تم نہیں دیکھ رہے، تو ایسے میں اللہ تعالی نے یہ چیز اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی حکمت دکھائی، تو کیونکر ہم خدا کی زمین پر رہ کر جو کہ نظام شمسی کی بنیاد پر دیکھیں تو ایک ذرے سے ذیادہ اوقات نہیں، وہاں ہم زمینی خدا بن کر کونسا عقلمندی کا مظاہرہ کررہے ہیں؟؟؟

میں نیوز چینلز کو اس لئے criticize کررہا ہوں

کیونکہ 
  1. صحیح غلط کی تمیز کو بالکل ختم کردیا ہے
  2. لوگوں میں پڑھنے لکھنے کا شوق ختم کردیا ہے
  3. ٹرک کی بتی کے پیچھے لوگوں کو لگا دیا ہے
  4. ایک ہی بات کو repeatedly repeat کر کر کے اپنی بات کو صحیح باور کرنے میں اپنی جیت سمجھتے ہیں

میں کیوں اتنا تپا ہوا ہوں

میں بیشک بد تمیز دکھائی دے رہا ہوں گا، مگر جب اپنی زندگی  سے متعلق decisions مجھے ہی لینے ہیں، تو بلا وجہ کا مجھے criticize کس بات پر کررہے ہیں
بیشک میں مانتا ہوں ہر چیز میں بڑے غلط نہیں ہوتے، اور میں ان سے کافی چیزوں میں بالکل agreed ہوں، مگر کیا ہمارے بڑے بزرگوں کے decisions سے جو موجودہ معاشرہ آج ہمارے سامنے موجود ہے، جہاں نفسا نفسی موجود ہے اور جہاں ان کے decisions کی وجہ سے ہی معاشرہ تشکیل ہوا ہے، جو کہ ایک conformity bias کی بنیاد پر تشکیل ہوا ہے، تو ایسے میں اگر میں اس conformity bias کو debunk کر کے اپنے رستے نکلنا چاہا تو وہاں مجھے مجھے ایسی ایسی باتیں کہی گئیں جیسے سارا قصور میرا ہی ہے، 
جبکہ میں فری ایجو کیشن کی وجہ سے اٹلی جانا چاہتا تھا کیونکہ میں نے اپنا assessment کرایا تھا، اس کے حساب سے ۱۶ سال کا ایم بی اے ان لوگوں کے سامنے ۱۳ ۱۴ سال بن رہے تھے، پلس پاکستان میں ابھی بھی جو manual banking ہورہی ہے اس سے میں باہر نکلنا چاہتا تھا، تو ایسے میں میں نے یہ decision لیا تھا کہ یہاں میں کرسکتا ہوں، پھر میرا بینک سے لون loan حاصل ہونے میں ٹائم لگنا تھا تو ایسے میں میں نے گھر والوں سے مدد مانگی فروری ۲۰۲۳ میں کہ پہلی قسط کے پیسے دے دیں، میرا loan ملنے میں امید یہی تھی کہ مئی ۲۰۲۳ تک ملے گا، اور ہوا بھی وہی، مگر میرا وقت ضائع کر کے میرےلئے دبئی کی آفر لے کر آتے ہیں، let me be brutally honest here میرا assessment نے مجھے میری اوقات بتادی تھی کہ میں کہاں کھڑا ہوا ہوں، تو ایسے میں اس حالت میں دبئی میں کتنا ٹائم survive کرتا؟ دبئی خود digitalize ہورہا ہے، تو ایسے میں کیسے اپنے مستقبل کے لئے اتنا بڑا رسک لیتا؟ میری اسکل کی باہر کی دنیا میں ۱ سال سے ۵ سال کے دوران ہی استعمال ہے، اس کےے بعد کبھی نا کبھی مجھے ایجوکیشن کرنی ہوتی، تو ایسے میں proactive approach رکھتے ہوئے میں نے یہ رسک لیا تو میرے والدین اور میرے بیوی دونوں میرے مخالفت میں کھڑے ہوگئے۔

Literal SWOT analysis نکالا تھا اپنا 

اس کے حساب سے یہ پوائنٹ میری کمزوری تھی اور اس کی وجہ سے عمر گزرنے کے بعد پڑھائی کرنا میرے لئے threat تھا، مگر جیسے میں نے کہا پاکستانی معاشرے میں جو so-called احساس برتری کا احساس جو کہ در اصل احساس کمتری ہے، میرے ساتھ یہ ہوا، کیونکہ مجھے یہ طعنے تک دئے گئے، کہ تم نے شادی اپنے پیسوں سے نہیں کی تو اب ہم سے مدد مانگ رہے ہو، میں نے کونسی ایسی حرام مدد مانگی تھی، والدین ایسے موقعوں پر مدد کرتے ہیں، مگر یہاں مدد نہیں بھی کرتے مگر جو اس طرح اور اس سے بڑھ کر باتیں جو کیں، ان لوگوں سے نفرت ہوچکی ہے مجھے۔


ہم پاکستانی اور ہماری شناخت

مجھے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئے مگر اس وقت جس era میں موجود ہیں، یہاں mind programming جس طریقے سے کی جارہی ہے، جیسے ابھی پی ایس ایل میچز کے دوران میں نے عورتوں کے exhibition matches کی پروموشن کے لئے ایک particular hashtags استعمال کیا گیا ہے، جو کہ نواز شریف کی خواہش بھی تھی، یعنی #LevelPlayingField،

اب کہنے کی بات ہے

اب میری یہ بات کہنے کے بعد کچھ لوگوں نے یہ بات ضرور کرنی ہے، کہ میں اپنا ذہن کھول کر رکھوں، مگر psychologically اگر ہم پاکستانی psyche کو مدنظر رکھیں، تو آہستہ آہستہ سے لوگوں کو کیا descenticized نہیں کیا جارہا؟ کیا ایسے hashtags استعمال کر کے ایک common ground نہیں بنایا جارہا؟ کیا ایسی چیز پہلے پاکستان میں نہیں ہوئی؟

کچھ زیادہ دور نہ جائیں

کچھ عرصہ پہلے عورتوں کے sanitary napkins کی پروموشن پاکستان میں کی گئی، تو اس کے لئے water-test کیا گیا، as usual پہلی بار یہی پاکستانی عوام کا ری ایکشن اتنا سخت تھا، جس کی بناہ پر اس کمپنی نے اس پروڈکٹ کو پروموٹ کرنا بند کردیا، مگر اس کے بعد کچھ وقت بعد دوبارہ جب کیا گیا، تو پچھلی بار کے comparatively کم ری ایکشن آیا تھا، اور اس کے بعد ان لوگوں کی مارکٹنگ strategy ایسی تھی، کہ لوگوں کی سوچ کے ساتھ tweaking کی جائے، جس کی وجہ سے وہ کمپنی 3rd time lucky رہی، کیا یہی ممکن نہیں کہ یہی چیز آج پاکستان میں دوبارہ سے کی جارہی ہے؟

ویسے بھی level playing field ایک ایسی ٹرم ہے

کیونکہ ہماری mentality جس طرح کی ہے، ایک طرح سے 3 Idiots میں Chatur کا character کی طرح ہیں، جہاں اس مووی کے اسٹارٹ میں بتایا گیا تھا، کہ امتحان میں پاس کرنے کے دو طریقے ہیں، یکم خوب دل لگا کر پڑھیں؛ بصورت دیگر دوم دوسروں کو distract کرکے دوسری چیزوں میں involve کرا کر اپنے آپ کو اوپر لائیں، ٹھیک اسی طرح جیسے آج یعنی ۵ مارچ ۲۰۲۳ کو کراچی کنگز کی صورتحال ہے، جہاں یو ٹیوب پر کراچی کنگز کا مذاق اڑایا جارہا ہے، جہاں یہ کہا گیا ہے کہ زلمی اپنے آخری ۴ میچ ہار جائے، وغیرہ وغیرہ،  

وہی حال ہمارا ہے

کیونکہ ہمارے لوگوں کی impulsive mindset کی وجہ سے یہ چیز بھی ان کے ذہنوں میں موجود ہے، جو کہ ہمارے مذہب سے بالکل دور ہے، کہ دو غلط چیزیں ہوجائیں گی تو آگے چیزیں ٹھیک ہوجائیں گیں، چلیں مان لیتیں ہے کہ فی الفور تو چیزیں ٹھیک ہوجائیں، مگر ان سب چیزوں کا ripple effect کیا ہوگا، اس کو بھی مدنظر رکھیں، مگر یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، کیونکہ یہاں میں نے ایک چیز دیکھی ہے، کہ اگر میں کسی کے ساتھ disagree کررہا ہوں، تو ایسے میں میرے اوپر personal attacks start ہوجاتے ہیں، اور ایسے میں یہ سوچا جاتا ہے کہ اپنے غلط کو اس کو غلط ثابت کر کے صحیح کرسکتے ہیں، جو کہ بحیثیت مسلمان ہمیں اجازت نہیں ہے، کیونکہ میرے نذدیک یہ بےشرمی اور بے حودگی ہے، مگر جیسے میں نے پہلے کہا ہے کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے،

ابھی جو میں دیکھ رہا ہوں

یہ لائن جو بھی پڑھ رہا ہے، وہ یہی کہے گا، کہ یہ حاجی ثنا اللہ ہے، بھائی! میرا یہ باتیں کہنے کا صرف مقصد یہی ہے کہ بے شک میں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوں، مگر جوجلد بازی کا مظاہرہ ہمارے لوگ دے رہے ہوتے ہیں، جیسے ٹریفک میں بھی وہی ٹرم یعنی لیول پلئینگ فیلڈ کے موافق چلتے ہوئے ٹریفک میں wrong way یعنی غلط راستہ استعمال کرتے ہیں، without knowing کہ ان سب کا repercussions کیا ہوسکتے ہیں، کیونکہ پڑھے لکھے لوگ ایسی صورتحال میں یہ بھی دیکھتے ہیں، کہ ان کے آج کے ایکشن کا کل کیا ری ایکشن ہوسکتا ہے، مگر معذرت کے ساتھ جیسے کراچی کی slang language میں بات کروں، جلد بازی میں لیا گیا ایکشن ایک دو بار فائدہ دے سکتا ہے مگر every day is not a Sunday، 

میں صرف یہی بات کررہا ہوں

ابھی بھی ہمارے لئے موقع ہے کہ مسلمان بن کر سوچیں، آپ کو سہولت چاہئے، تو سہولت کے لئے کم سے کم اخلاقی اقدار کو مدنظر رکھیں، respect the law کیونکہ جب تک عام عوام rule of the law کو respect نہیں دیں گے، تو ایسے میں معاشرے میں یہ ٹسل بازی چلتے رہے گی، کیونکہ یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ جیسی عوام ہوگی، ویسی ہی حکمران، تو ایسے میں کیا ہماری اوقات ہے کہ اللہ تعالی کے وعدے کے خلاف جاسکتے ہیں؟ کیا ہماری یہ اوقات ہے، کہ مان لیا کسی کو imposingly آپ نے منا لیا کہ آپ صحیح ہو، اور وہ صحیح نہیں ہے، مگر کیا اس بات کو make sure کرسکتے ہیں، کہ  وہ بندہ ہماری دل سے عزت کرے گا؟ یہ چیز اللہ تعالئ نے ہمیں بحیثیت مسلمان یہ بات بتائی ہے، جس کو یکسر ignore کر کے ہم اس domain میں اس دائیرے میں enter ہورہے ہیں، جسے narcissistic disorder syndrome  کہتے ہیں، 

یہ کیا بلا ہے؟

اس معاملے میں، میں صحیح بندہ نہیں ہوں، مگر ایک common laymen term میں بات کروں تو ایک ایسی feeling ہے جہاں سامنے والا بندہ دوسرے بندے کو نیچا دکھا کر سکون ملتا ہے، جو کہ feeling حیوانوں میں بھی ہوتی ہے، تو ایسے میں انسان ہونے کے ناطے کیا یہ ہمیں suit کرتا ہے کہ انسان ہوتے ہوئے ہم جانوروں کی طرح ایکٹ کریں؟ یہی چیز معذرت کے ساتھ میں نے خاص طور پر کراچی کے معاملے میں دیکھا ہے، مگر یہ بات بھی ماننے کی ہے کہ صرف اور صرف کراچی میں نہیں، بلکہ یہ attention seeking syndrome پورے پاکستان میں ہے، جہاں اپنے آپ کو معلوماتی دکھانے کے لئے بےشرمی کی کسی بھی حد پر جاسکتے ہیں، 


The Ripple Effect/Snowball effect/Sandstorm effect

یہ تین الگ الگ effects ہیں، مگر ان کے impacts ایک دوسرے کے ساتھ inter-related ہیں، کیونکہ ریپل effect یعنی کسی پانئ کے پونڈ میں اگر ہم پتھر پھینکتے ہیں، تو اسکی لہریں جو نکلتی ہیں، اسکو ripple effect کہتے ہیں، کیونکہ ہم نہیں جانتے ہیں کہ ہماری بات کا کیا impact ہوسکتا ہے، تو ایسے میں بڑے بزرگوں کی مانیں تو زبان سے الفاظ اور بندوق سے گولی نکلنے کے بعد نقصان کا ازالا کرنا قریباً ناممکن ہوتا ہے، تو کیا انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے لئے ضروری نہیں کہ حیوانیت دکھانے کے بجائے تھوڑا انسان بن جائیں؟؟؟

کیونکہ ہر بات کا کچھ نا کچھ ری ایکشن ضرور ہوتا ہے

اور معذرت کے ساتھ، ایک اتاولا شخص یا اتاولی عورت کبھی یہ بات سمجھ نہیں سکتا/سکتی۔۔۔

ہمارے رویے

یہاں میں ایک پاکستانی ہونے کے ناطے کہنے لگا ہوں، کیونکہ ہمیں پاکستانی ہونے کے ناطے اپنے آپ کو سیاسی جماعتوں کے ماتحت بننا پسند ہے،

میں ایسا کیونکر کہہ رہا ہوں؟

کیونکہ بات ترجیحات کا ہوتا ہے، جس کو ہم manipulate کرتے ہیں، کیونکہ سیاسی جماعتوں کو کراچی شہر کو اپنا ووٹ بینک بنانے میں مصروف ہیں، خود بتائیں، ن لیگ نے کراچی میں کیا کام کیا ہے؟ اگر ہم ان کی contribution جو پنجاب میں کی ہے، اس کو کراچی سے موازنہ کریں، تو نا کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔

ابھی پاکستان اور آسٹریلیا کی کرکٹ سیریز کا دوسرا میچ کراچی میں ہورہا ہے

اور معذرت کے ساتھ، as usual ہم کراچی کے نیشنل اسٹیڈئم کو خالی دیکھ رہے ہیں، مگر کیا ہم نے سوچنے کی کوشش کی ہے کہ ایسا کیونکر ہورہا ہے؟ کیونکہ ہمارے رویے ایسے ہوگئے ہیں، کہ دیکھا جائےگا، consequences کا سوچنا نہیں ہے کہ ہمارے اس ایکشن کا کیا ری ایکشن ہوگا، کیونکہ میں یہاں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ کراچی کو خالی کرو، کیونکہ شہر لوگوں کے رہنے کے لئے ہوتے ہیں، جبکہ یہاں ہماری سیاسی جماععتیں، جن کو پاور ہم عوام ہی نے دی ہے، انہوں نے کراچی کو اپنا ووٹ بینک بنا لیا ہے، کیونکہ جمہوریت میں یہ چیز ہے کہ ووٹ شہر سے دیا گیا ہے، اور یہاں سیاسی جماعتوں نے بجائے نئے شہروں کو بنائیں، کراچی کو رگڑے جارہے ہیں، جہاں facilities بنانی چاہئے تھی، وہاں یاد گار شہدہ کے نام پر اپارٹمنٹ بنے ہوئے ہیں، جن کا انجام recently وہی پلازہ کی مانند ہو گا جن کا ابھی recent time میں demolition ہوا ہے، نام نہیں لوں گا، مگر ہماری سیاسی جماعتوں نے جس طرح کراچی کو over populate کردیا ہے کہ جتنا یہ شہر اپنے وہائشوں کو سہولت فراہم کرسکتا ہے اس سے زیادہ populate کردیا ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ صرف کام کرنے کراچی آتے ہیں، مگر نا کراچی کو own کرتے ہیں، اور نا اس بات کی ڈیمانڈ کرتے ہیں، کہ کراچی کیوں بھیج رہے ہو، ہمارے گاؤں کے قرب میں نوکریاں دی جائیں، مگر ہماری ترجیحات میں ملک اور شہر دور کہیں ہے پہلے اپنی ترجیحات معنی رکھتی ہیں، اور اسی وجہ سے اب کراچی اتنا congested ہوچکا ہے کہ کراچی میں انٹرنیشنل میچ دیکھنے کے لئے ۳۰۰ روپے خرچ کرنے کے لئے بھی کوئی تیار نہیں، جبکہ یہی لوگ پنجاب میں vacation منانے کے لئے میچز کو enjoy کرتے ہیں، جبکہ کراچی میں اتنا بڑا گیم ہورہا ہے، اس کو دیکھنے کے لئے کسی کے پاس ٹائم نہیں، کیونکہ کراچی کو اتنا congested جو کردیا ہے۔

مسلمان ہونے کے ناطے

میں زیادہ لمبی نہیں کروں گا، مگر مسلمان ہونے کی ہم نوٹنکی کرتے ہیں، کیونکہ ہم سب اگلے درجے کے منافق ہیں، کیونکہ ہمیں اپنی فکر ہے مگر ملک کا نہیں سوچنا ہے، کیونکہ ملک ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے، اور یہاں بھی منافقت شامل ہے کیونکہ بات چیت کی حد تک تو ہم پاکستانی ہیں مگر جب بات ہماری اور ملکی ترجیحات پر آتی ہیں، تو ایسے میں منافقت میں ہم اپنی ترجیحات دکھاتے ہیں، اور نتیجے میں یہی ہوتا ہے جو اس وقت کراچی میں ہورہا ہے، کیونکہ کراچی میں اپنی پاور دکھانے کے لئے اتنے اندھے ہوچکے ہیں، کہ کراچی کا ماحول خراب کرنے میں بھی تیار ہیں، 

خود دیکھیں

ایک تو rules and regulations کی application کا فقدان ہے، rules بالکل موجود ہیں، مگر وہ کیسے اپلائی ہوں گی، اس کا فقدان ہے، جبکہ یہی لوگ جب پاکستان سے باہر جاتے ہیں تو انسان کے بچے بنے ہوئے ہوتے ہیں، جبکہ جیسے ہی قائد اعظم انٹرنیشنل پر لینڈ ہوتے ہیں، مادر پدر آزاد ہوجاتے ہیں، کیونکہ قانون کی ایپلیکیشن اتنی مشکل ہے کہ گناہگار کو گناہ کا مرتکب کرنے میں ۲۰، ۲۰ سال لگ جاتے ہیں، کیونکہ as usual کچرے کو کراچی میں ووٹ بینک کے نام پر لا کر رکھ دیا ہے، اور قانون سیاسی جماعتوں کی رکھیل ہے، کیونکہ ہم عوام نے اپنی قبر کھودنے کا خود ارادہ کردیا ہے، 

شعور کی کمی

کیونکہ میرا یہی ماننا ہے کہ ہم عوام میں شعور کی کمی ہے اور شعور کا تعلق پڑھائی سے بالکل نہیں ہے، مگر جیسے اوپر میں نے لکھا ہے کہ ہمارے رویے ایسے ہوچکے ہیں کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا، اور ساتھ میں اس احساس کمتری کا مظاہرہ کہ ہمارے پاس پیسا ہے تو سامنے والے کو ہم نے خرید کر رکھ لیا ہے، ہمارے باپ کا خریدا ہوا نوکر ہے، میں ایک بینک میں کام کرتا ہوں، وہاں بہت دیکھا ہے کہ ایس او پی کی بات کرو کہ ایک وقت میں ایک بندہ کاؤنٹر پر رہے تو اتنی سی بات کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، پہلے میری ایک بات کا جواب دے دیں، ایسے میں بحث کر کے آپ کیا prove کرنا چاہتے ہو؟ خاموش اگر رہتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ کمزور ہیں، یا جواب نہیں دے سکتے؟ مگر خاموش اس لئے رہتے ہیں کیونکہ یہ ہماری تربیت ہوتی ہے، مگر یہ بات بھی یاد رکھیں کہ اگر کبھی یہ حرکتیں اور یہ trolling کسی نے escalate کردی، تو بات پولیس پر جاسکتی ہے، کیونکہ اگر کوئی آپ کو کاونٹر پر رش لگانے سے منع کررہا ہے، تو ایسے میں اگرچہ ٹکٹ کا سسٹم نہیں بھی ہے، تو ایسے میں کسی بھی حال میں آپ کاؤنٹر پر رش نہیں لگا سکتے ہیں، مگر معذرت کے ساتھ ہمیں جلدی اتنی ہوتی ہے کہ اپنا کام جلدی کرکے نکلنا چاہتے، جبکہ ایسی چیزوں کو پڑھاوا دینا اصل میں ہمارے character کی کمی ہے، ورنہ کیا وہ لوگ بیوقوف ہیں جو ٹکٹ نہیں ہونے کے باوجود خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں، حالانکہ ان کو بھی جلدی ہوتی ہے، مگر ایسی جلد بازی کی وجہ سے آپ ٹیلر کا نقصان کررہے ہو، کیا اس چیز کا ادراک ہے؟ اس کا تو ہمارا مذہب جس کے لبادے میں ہم کام چوری کرتے ہیں، میرے اپنے سامنے ایک واقعہ ہوا کہ ایک کسٹمر کو فارغ کر کے ٹیلر کیش سمیٹ رہا تھا، ایسے میں ایک اور کسٹمر آتا ہے اور ۵۰۰۰ کے کچھ  نوٹ کاونٹر پر پھینکتا ہے اور بولتا ہے کہ اس کو گن کر پرچی بناؤ، اب مسئلہ یہ ہوا تھا، کہ اس کا پرانا کیش اور اس کسٹمر کا کیش مکس ہوگیا اور ایسے میں جو رقم بنی تھی، ۱۵۰۰۰ کم تھی مگر اس میں ۱۵۰۰۰ زیادہ سے رقم کی سلپ بنادی، جو کہ شام میں جب balancing میں پتا چلی، جو کہ as usual ٹیلر کو اپنے خود کے پاس سے پیمنٹ کرنی پڑی، جس میں، میں نے اور اس برانچ کے آپریشن منیجر نے کچھ رقم ڈال دی تھی، مگر خود بتائیں، ایسی جلد بازی کا کیا فائدہ کہ جس کی وجہ سے ایک ٹیلر جو مشکل سے ۲۵۰۰۰ مہینے کے کماتا ہے، اور آفس کے بعد رکشہ چلاتا ہے، ایسے بندے کے لئے ۱۵۰۰۰ ایک ساتھ arrange کرنا، کتنی مشکلات کے ساتھ کی ہوگی، مگر ہم نمازیں پوری پڑھتے ہیں، نماز کے بعد حقوق العباد کے سوال پر خاموشی کے علاوہ کوئی جواب ہے؟ حالانکہ یہ چیز کو avoid کیا جاسکتا تھا مگر ایک نیا لڑکا، یہ چالاکیوں کو تھوڑی جانے گا۔ مگر یہ واقعہ بتانے کا مقصد یہی تھا کہ کتنے بڑے منافق بن چکے ہیں۔

ہماری عوام کا اتاولا پن

یہ میں ہمیشہ ہی کہتا رہا ہوں کہ ہم لوگ emotionally بہت ایکٹو ہیں، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ بہت سے لوگوں نے فوراً conclusion پر پہنچنا ہے کہ اس لڑکے کو کیا ہوا ہے ایسا کہہ رہا ہے بجائے اس کے کہ آکر پڑھیں کہ سامنے بندہ کہنا کیا جارہا ہے، اس کے بجائے ہم لوگ trollers والے ہجوم کے مانند بن رہے ہیں۔

پہلے یہ بتائیں کہ ٹرولنگ کرنے سے کیا سکون ملتا ہے؟

  • کیا ٹرولنگ کرنے سے آپ کو groove میں چڑھاؤ آتا ہے؟
  • کیا ٹرولنگ کرنے سے یا mock موک کرنے سے سامنے والا آپ کو وہ عزت یا respect دے گا، جو آپ سمجھ رہے تھے کہ آپ deserve کرتے ہیں؟
  • کیا ہر چیز میں اپنے آپ کو ـرکشہ ڈرائیورـ کی مانند ہر جگہ اپنی ٹانگ اَڑانے سے کیا آپ intelligent دکھائی پڑھتے ہیں، یا ہر چیز میں lime light میں موجودگی کیا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ قابل ہیں؟

آخر آج میں اتنا aggressive کیونکر ہورہا ہوں؟
گدھا کاری ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے

آج ایک کیس دیکھا، (میں کیس سے پہلے کچھ کہنا چاہ رہا تھا، مگر میں یہاں موک یا ٹرول نہیں کرنا چاہتا)، میرے ساتھ بلاوجہ کا بحث بازی کررہا ہے کہ نوٹ کیوں ایک جانب کررہا ہوں، ایسے ہی گنوں، اس سے پہلے میں آگے بڑھوں، میں بتادوں کہ میں آفس میں کیش ذمہ داری بھی دیکھتا ہوں، ساتھ میں دوسری ذمہ داریاں، جیسے ریپورٹنگ وغیرہ، تو اسی لئے میں نے یہ بات کہی ہے کہ میں کیش کی ذمہ داری بھی دیکھتا ہوں، تو ایسے میں ایک صاحب آئے اور مجھ پر پریشر ڈالنے لگ گئے کہ جلدی جلدی کروں، تو میں as usual پہلے نوٹوں کی اسکروٹنی، جس میں پہلے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ head count یعنی جتنے نوٹ موجود ہیں، وہ وہی رقم بن رہیں ہیں، جو ڈپازٹ سلپ پر موجود ہے، یا نہیں، تو وہاں پہلے مجھے ٹوکا، کہ گن کیوں رہے ہو، جب میں کہہ رہا ہوں، وہاں میں نے آرام سے ان سے کہا کہ سر یہ میرے لئے ضروری ہے کہ make sure رقم پوری ہے، تو جواب میں مجھے کہہ رہے ہیں، کہ ایسی کوئی ایس او پی موجود نہیں، جبکہ گلوبلی یہ right آفیسر کو دیا گیا ہے کہ وہ proper scrutiny کرے، کیونکہ آفسر کی assurity اور تصدیق ہر یہ رقم برانچ کے والٹ میں بند کیا جاتا ہے، پہلی بات یہ ہے کہ یہ گدھا کاری کی آزادی آپ کو صرف پاکستان میں موجود ہے، دبئی جو کراچی سے ۱:۳۰ گھنٹہ دور ہے، وہاں آپ ایسا بول کر دکھاؤ، labour laws وہاں کے اتنے سخت ہیں، لیبر اس بات پر آپ کو sue کرسکتا ہے، کہ آپ نے اس کے پروفیشنل پروسس میں مداخلت کی ہے، دوسری بات یہ ہے کسٹمر کے حقوق کے ساتھ کسٹمر کے ذمہ داریاں بھی موجود ہے، مگر معذرت کے ساتھ یہودیوں کی طرح جو قرآن کی ایک آیت کا حوالا دے کر اپنی بات منوانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہوتے تھے، جب کہ ہمارے مذہب میں ہر چیز کو قدرتی طور پر اٹھایا گیا ہے، میں مذہب کے معاملے میں اچھا نہیں ہوں، مگر جتنا بھی میں پڑھا ہے، اس کے حساب سے قرآن میں متعدد جگہ ذہن میں سوال پیدا ہے، اورسوال پیدا کرنے کے بعد اگلی آیت، اگلی صورت میں اس کا جواب دیا گیا ہے یہ پھر کچھ چیزوں کو متعدد بار واضع کیا گیا ہے مگر کھل کر نہیں بتایا گیا ہے (read Jerusalem) جس کو قرآن میں میری ناقص معلومات کے مطابق اشاروں میں ضرور واضع کیا گیا ہے مگر نام کہیں بھی نہیں لیا گیا، تو اتنی لمبی تمہید باندھنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ جب ہمارے اپنے قرآن مجید میں ایسی کوئی پریکٹس نہیں تو ہم جس منہ سے ایسی پریکٹس کو نا صرف implement کرتے بلکہ اس سے ذیادہ بری بات یہی ہے کہ اس act کو پروموٹ بھی کررہے ہیں، اس میں ذمہ داری ہمارے بڑوں کی ہے، کیونکہ ہمارے بڑے اب صرف ایک ہی motive یعنی اپنی اہمیت دکھانے کے لئے جتنی محنت کرتے ہیں، اتنی محنت معاشرہ بنانے میں لگاتے تو پاکستان کا یہ حال نہیں ہوتا!

اب میرے ساتھ جو ہوا، 

میرے ساتھ جو بھی ہوا، ایسے میں اگر میں کسی اور ملک میں ہوتا تو وہاں employee security رہتی ہے، جس کو make sure کرنا عوام کی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر معذرت کے ساتھ customer is always right مگر میں ساتھ میں یہ بھی add کروں گا، کہ customer is always right but customer is not a king ping, instead make customer accountable for what it is demanding. اور اب میں مدے پر آتا ہوں، جمہوریت کا سب سے بڑا نقصان اس معاشرے میں ذیادہ ہے، جہاں معاشرتی شعور کی کمی ہے، ایسی چیز کی ڈیمانڈ کرنا جو معاشرے کے کام نہیں آئے گا، اس کے بجائے کسی ایک خلقت، کسی ایک کمیونٹی، کسی ایک فرقہ کو سپورٹ دینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

ایسے میں پاکستان کہاں گیا؟

میں اوپر والے واقعے سے یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ صرف میرے ساتھ ہوا اس لئے یہ اچھی بات نہیں، کسی بھی معاملے میں


دیکھیں، ہم ہر جگہ دیکھیں، جس طرح کی مفاہمتی پالیسی کراچی میں چل رہی ہے، کیونکہ ووٹ بینک بنانے کی روِش کی بناہ پر ہر کوئی اپنے ووٹ بینک کو کراچی لا کر سیٹل کر رہے ہیں، کس لئے؟ مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں کہ یہ لوگ آرہے ہیں، مجھے مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ کراچی آکر جس ناگفتہ بہ صورتحال میں رہ رہے ہوتے ہیں، اس پر ان لوگوں کو صرف ایک بریانی کی پلیٹ پر ۵ سال کا approval مل جاتا ہے، معذرت کے ساتھ مشرف کے ٹائم کے بعد سے پاکستان میں یہی کھیل ہورہا ہے، خود دیکھیں، حکومتیں اپنا tenure مکمل کررہی ہیں، مگر کیا regime نے کیا؟ continuity نہیں ہونے کی بناہ پر پاکستان کی جو حالت ہوچکی ہے، ہم پاکستانیوں نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان اس جمہوریت میں پہنچادیا ہے، جس کا ہمیں کوئی احساس نہیں، احساس اس لئے نہیں ہے، کیونکہ ہمیں شعور نہیں، شعور ہوتا، تو پہلے پہل سوال کرتے کہ ہمارے ٹیکس کی رقم کہاں صرف ہورہی ہے! اگر ٹیکس کا پیسہ دے کر بھی ہمیں آغا خان اسپتال، یا دوسرے پرائیوٹ اسپتال میں علاج معالجہ کرانا ہے، تو کس بات کا ٹیکس آپ لے رہے ہو؟ اگر ہم میں شعور ہوتا تو تو اس بات کا سوال کرتے، بہت پہلے ہمارے اسی پاکستان میں وظیفہ کا سسٹم ہوتا تھا، اب کہاں ہے؟ جمہوریت کی وجہ سے اب یہ تمام سیاسی جماعتیں musical chair کھیلنے میں لگی ہوئی ہیں، اور اس پر سونے پہ سہاگہ، عوام کو احساس ہی نہیں ہے (کیونکہ ان کو شعور نہیں ہے) کہ ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے، یہ کہہ کر لالی پاپ دیا جاتا ہے کہ باہر جاؤ، اور رقم پاکستان بھیجو، یہ ہماری achievement ہے، شرم کا مقام ہے ہم پاکستانیوں کے لئے، کیا کبھی پاکستانی بن کر سوچا ہے؟ کیا کبھی پاکستان کے لئے بھی سوچا ہے؟

ابھی مری کا سانحہ ہوا ہے

اور اس سانحہ کے بعد مجھے کابل کی تصاویر دیکھنے کو ملی، جہاں مری سے ذیادہ برفباری ہوئی ہے۔ مگر جس طرح ان لوگوں نے حب الوطنی کا مظاہرہ کیا، وہاں کی ویڈیوز دیکھ رہا تھا، برفباری کے دوران بھی کام بھی ہورہا تھا، لوگ برفباری بھی انجوائے کررہے تھے، ٹریفک بھی چل رہا تھا، جبکہ ہمارے پاس سے کیا نیوز نکل رہی ہے، ۳۰۰۰ کا ہوٹل کا کمرا ۴۰۰۰۰ کا بیچا گیا، گاڑی کو tow out کرنے کے چارجز لئے گئے، over capacity کس بلبوطے پر کیا گیا؟ بیشک عوام کسی بھی ملک کی عقلمند نہیں ہوتی، اس چیز کی ذمہ داری یقینی طور پر حکومت وقت کی ہوتی ہے، مگر عوام بری الذمہ بالکل نہیں، کیونکہ بیشک سمجھ بوجھ بالکل نہیں مگر بات یہ ہے کہ ملکی شعور کے تقدس کا خیال رکھنا چاہئے تھا، یہ عوام کی بھی ذمہ داری تھی کہ ٹک ٹاک کے لالچ میں تمام رکاوٹوں کو بالا تاک رکھ کر اس طوفان میں آگئے، نتیجے میں نہ صرف اپنی جان گنوائی بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا یہ image باور کروائی کہ ہم پاکستانی اس قابل نہیں کہ آپ کو host کرسکیں، ہماری اوقات نہیں۔

آخر ملک کے بارے میں ہم کیونکر نہیں سوچتے؟

بیشک ہماری حکومتیں (موجودہ حکومت کو ملا کر)، یہ سب لوگ incompetent ہیں، اور جمہوریت کی آڑ میں اپنا ووٹ بینک بنانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا ہے۔

پاکستان کا ازلی دشمن،

جب بھی ہم ازلی دشمن کی بات کرتے ہیں، ہمارے ذہنوں میں سب سے پہلے بھارت کا نام آتا ہے، مگر میرے نذدیک ہمارا سب سے

بڑا دشمن ہماری ignorance ہے۔ کیونکہ پہلی بات یہی ہے کہ جمہوریت اور پارلیمانی سسٹم میں فرق کا شعور ہونا چاہئے، بصورت دیگر اگر کسی ********** کے ********* کو ایک بریانی، ایک سموسے یا پھر ایک ہزار روپے کے عیوض پانچ سال کے لئے اپنے سر پر بٹھالیتے ہیں، یا پھر کسی کی گلی میں نالا بنانے کے عیوض آپ کو کراچی میں حکومت مل جاتی ہے، بلکہ معذرت کے ساتھ کراچی میں activities کے لئے مختص vicinity کس طرح یادگار کے طور پر اپارٹمنٹس میں تبدیل پوا؟ 

کیونکہ جمہوریت میں 

جمہوریت میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ جمہور کی نمائندگی کرنا، یعنی جس طرح مسلمانوں کی صورتحال ہوچکی ہے کہ جمہور کی نمائندگی میں فتوے مل چکے ہیں جہاں مسلمان علما نے ہندوستان میں سورج کی پرستش جس کو اب بھارت میں قانون بنادیا گیا ہے، یعنی کوئی اگر ان traditions کو follow نہیں بھی کرنا چاہتا تو ایسا کوئی آپشن نہیں، کیونکہ جمہوریت کی رو سے یہ جمہور کی نمائندگی ہے، یعنی اگر پاکستان میں بھی جمہوریت کو ہمارے ہر مسائل کا حل بنا کر دکھایا جئے، جس کو ہمارے معزز سیاسی جماعتیں مفاہمتی (منفقانہ) پالیسی کو استعمال کررہی ہیں، اور کراچی میں اپنا ووٹ بینک بنارہیں ہیں، مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں، مجھے مسئلہ لوگوں سے ہے، جن کے اوپر ایک scientific جمہوریت نافذ کردیا گیا ہے، کیونکہ جیسے میں نے اوپر کہیں لکھا ہے، کسی نے آپ کے لئے کوئی کام کردیا ہے، تو جمہوریت کے رو کے حساب سے آپ کو facilitate کیا جائے گا، مگر پاکستان کہاں ہے؟

پاکستان میں اور کراچی میں جمہوریت کی وجہ سے

 جمہوریت کی رو سے اگر majority یعنی جمہور اس بات کی اجازت دے دے کہ پاکستان میں پیپسی یا کوکا کولا کی جگہ Wine، برینڈی اور Beer کو allow کردیا جائے، تو جمہوریت کی رو سے اس کو allow کردیا جائگا، اس کے لئے صرف آپ کو extensive مائنڈ پروگرامنگ کرانی پڑے گی، تاکہ علما کے قلم سے ایسے فتوے لکھوائے جائیں جس کی رو سے demand and acceptance کو create کیا جائے، جو کہ Post-Musharraf Era ہمارے سیاسی جماعتیں لگی ہوئی ہیں، بجائے اس کے کہ عوام اور پاکستان کے مسائل کو حل کرانے کے، پانچ سال ایک سرکس کی طرح اپنے ادوار مکمل کریں گے اور نتیجے میں آپ خود پی پی پی، پی ایم ایل این، اور ابھی پی ٹی آئی بھی اسی نقش قدم پر چل رہی ہے، بجائے اس کے کہ یہ سب ڈرامہ کے بجائے ہمارے اور پاکستان کے مسائل پر توجہ دینے کے، again یہاں بھی مسئلہ سیاسی شعور کی لاعلمی کی وجہ سے ہے.

ویسے بھی

سائنسی جریدے پولیٹیکل سائیکالوجی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جو لوگ سیاست کے بارے میں کم جانتے ہیں وہ اپنے سیاسی علم کے بارے میں زیادہ پراعتماد ہوتے ہیں۔ نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جب متعصبانہ شناختوں کو چالو کیا گیا تو یہ اثر بڑھ گیا۔

"Dunning-Kruger Effect کا خیال ہے کہ جن افراد کو کسی موضوع کے بارے میں بہت کم علم ہے، وہ سب سے زیادہ پراعتماد ہوں گے کہ وہ اس موضوع کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ باشعور افراد بھی اپنی علمیت میں رعایت کریں گے، "مطالعہ کے مصنف ایان آنسن، یونیورسٹی آف میری لینڈ، بالٹیمور کاؤنٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر نے وضاحت کی۔

"2016 کے انتخابات کے دوران دیگر اسکالرز کو ٹویٹر پر اس موضوع پر بحث کرنے کے مشاہدے کے بعد میں ڈننگ-کروگر اثر میں تیزی سے دلچسپی لینے لگا۔ میں متعدد سیاسی ماہر نفسیات کی پیروی کرتا ہوں جنہوں نے سوشل میڈیا پنڈت طبقے پر حیرانی کا اظہار کیا، جو کہ انتخابات کی اپنی بھرپور کوریج میں 'ڈننگ-کروگیرش رجحانات' کا بظاہر مظاہرہ کرتے ہیں۔

کراچی کو جس طرح سے exploit کیا جارہا ہے

کیونکہ ہم لوگوں میں سیاسی شعور نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہم نے ایک بریانی کی پلیٹ کے لئے پانچ سالوں کے لئے

without accountability ان چوروں کو پورے پاکستان پر مسلط کردیتے ہیں اور نتیجے میں یادگار کے نام پر یا سیاسی جماعتوں کے اثر پر پلے گراؤنڈ کی ذمین پر اپنا ووٹ بینک قائم کرلیں گے، کیونکہ یہ پاکستانی جمہوریت ہے۔ اور پاکستانی جمہوریت ہونے کے ناطے، یہ ایکشن ہمارے اپنے اندر سیاسی غیر شعوری کی عکاس ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے بھی فرمایا ہے جس کا متن یہی ہے کہ جیسی عوام ہوگی، ویسے ہی حکمران ہوں گے، کیونکہ عوام اور حکمران دونوں ایک ہی سکے کی دو الگ، الگ سائیڈ یعنی ایک سکے کا چاند ہے اور دوسرا چھاپ، مگر اس سیاسی غیر شعوری کی وجہ سے میرا اپنا یہ ماننا ہے کہ ہم پاکستانی جمہوری سیاست سے پالکل نا آشنا ہے، 

اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں، ایک subtle disclaimer 

یہاں میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا ہوں کہ کراچی صرف کسی ایک کا ہے، کراچی پورے پاکستان کا ہے، مگر کراچی کو جینے دو، اپنے ووٹ بینک کو پروان چڑھانے کے لئے مونٹیسری نہ بنایا جائے، کیونکہ اس ووٹ بینک بنانے کے چکر میں کراچی کی شکل مسخ کردی ہے، جہاں گرین بیلٹس اور storm water drainage ہونی چاہئے تھی، وہاں آبادیاں اور کالونیاں بنا دی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں کراچی اپنی جاہلیت کی وجہ سے مسخ ہورہا ہے۔


خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور یہ چیز آج prove کرتی ہے

 کیونکہ جس طرح جنرل بیپن راوت نے یہ بات کہی تھی کہ ہم کشمیریوں کا ڈی این اے تبدیل کریں گے، اور ۲۷ فروری کو ہاٹ لائن پر یہ بات کہی گئی کہ ان کو رستے سے ہٹاؤ ورنہ یہ ہمارے نشانے پر ہیں، آج ان کا انتم سنسکار ہوا ہے۔

مسلمان ہونے کے ناطے مجھے ایسا نہیں کہنا چاہئے

مگر اس طرح کے لوگ اور دیسی لبرلز جن کو یہ دکھائی دے رہا تھا کہ فیصل آباد میں عورتوں کو مبینہ طور پر برہنہ کیا گیا، حالانکہ اگر آپ اپنے آپ کو لبرل کہتے ہو، تو آپ کو کسی بھی بات کو کراس چیک کرنا چاہئے، ایسی کوئی بات کسی تصدیق کے نہیں کرنی چاہئے تھی کہ یہ ٹھیک نہیں ہوا، میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ ٹھیک بالکل نہیں ہوا، مگر ایک ٹرم جو ہم نے ہالی ووڈ سے adopt کی ہے، Cause and Effect، یعنی جو ایکشن آپ کرتے ہیں، اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں، اس کے بارے میں خیال رکھنا I guess لبرلز کی خصلت ہوتی ہے، نہ کہ یہ کہ جس ملک میں آپ رہ رہے ہیں اس میں کوئی contribution نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ اگر آپ لبرل ہیں، تو جس طرح ہہ لبرل ازم آپ لوگوں نے مائنڈ پروگرامنگ کے ذریعے سے سرعیت کی ہے، اس کا صرف ۱ فیصد اگرچہ لوگوں میں اس چیز کا شعور ڈالنے میں لگاتے کہ ٹیکس کے پیسوں کو کیسے utilize کریں، اس کا سوال کرنا سکھاتے کہ ہم ٹیکس کا پیسہ دے رہے ہیں تو اس کا فائدہ کیا مل رہا ہے، کیا یہ چیز آپ لبرلز کی ہے؟

میں لبرل نہیں

کیونکہ کم سے کم میں آپ لوگوں کی طرح منافق نہیں ہوں، خاص طور پر آپ لوگ اور ہمارے ـمعزز میڈیا والےـ کیونکہ اگر آپ کیپشن کو پڑھیں تو کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ ڈیفینیشن ہمارے میڈیا گروپ والوں پر بالکل ٹھیک بیٹھتی؟ کیا ہمارا میڈیا دنیا میں ہمیں یہ show نہیں کراتا کہ ہم (پاکستانی) دنیا کے نقشے پر بدنما داغ ہیں، اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ ہمیں یہ بھی show کیا جاتا ہے کہ ان کا معاشرہ سب سے بہترین ہے، جبکہ خود بتائیں، مجھے یہ بات یہاں لکھنی چاہئے یا نہیں مگر اب جب کھل کر بات کرنی ہے تو ایسا ہی صحیح، مگر ان کے معاشرے میں ۱۸ سال کی عمر میں اگر کوئی لڑکی کنواری رہتی ہے تو اس لڑکی کو کیا کیا القابات سے نوازا جاتا ہے، الامان الخر، بلکہ ان کے معاشرے میں یہ نارمل بات ہے کہ ۱۸ویں سالگرہ تک اپنی کنوارا پن سے جان چھوڑے، اور آپ لبرلز یہ کہہ رہے ہو کہ ہم پیک ورڈ ہیں اور ہمیں اپنی معاشرتی اقدار کو چھوڑ کر ان کو اپنانا چاہئے، جو کہ ویسے بھی بحری قذاقوں کی اولادوں میں سے ہیں، میں مانتا ہوں، غلطیاں ہماری بھی ہیں، مگر یہ بتائیں کہ کیا اس چیز کی آزادی آپ کو انڈیا میں ملے گی، جو آپ کو پاکستان میں مل رہی ہے کہ جو منہ میں آئے بھونک دو؟ انسانوں کا کام گفتگو کرنا ہوتا ہے، بھونکنا نہیں، آپ سے گزارش یہی ہے کہ براہ مہربانی جتنی energy بھونکنے میں لگاتے ہیں، اس کا ایک فیصد (پھر سے) استعمال کرلیتے تو کم سے کم اور کسی نہ کسی حد تک انسان لگتے، اور انسان کبھی منافق نہیں ہوتا ہے، منافقت غیر انسانی فطرت ہے، اور اس معاملے میں شیطانی عمل ہے، کیونکہ انسان دوست ہوتا ہے، اور دوستی و منافقت میں کوئی relation نہیں تو ایسے میں اگرچہ آپ اور ہمارا میڈیا کسی منافق سے کم نہیں۔

جس طرح فیصل آباد کو میڈیا والوں نے ٹرینڈ کیا 

اور ثالث کا کردار ادا کیا، اس سے بڑی منافقت کوئی نہیں ہے، کیونکہ مجھے یاد ہے جب سری لنکن مینیجر والا واقعہ ہوا تھا، تو ایسے میں پہلے میڈیا والوں نے بجائے constructively چیزوں کو tackle کرنے کے بجائے یعنی لوگوں کو گائڈ کرنا کہ کسی بھی معاملے میں اس طرح کا بیان دینا وہ بھی اس وقت جب prove نہیں ہوا کہ واقعی میں گستاخی ہوئی تھی یا نہیں، کیونکہ ہمارے پاس کے لوگوں میں (ہر ایک میں نہیں) مگر یہ عادت ہے کہ کوئی benefit مل رہا ہوتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ میرے ساتھی کو بھی اس میں سے کچھ مل جائے، بلکہ اب سوچ یہ ہوتی ہے کہ اس کو ملے نہ ملے، اس کا بھی مجھے مل جائے، ہمارے ٹریفک کا حال ہی دیکھ لیں، میں صفحوں کو مزید گندا نہیں کرنا چاہتا کہ ہم سب نے دیکھا ہے کہ ایک گاڑی کس طرح لائن کی پاسداری کرتی ہے، اور ٹریفک سگنل کے کتنے آگے کھڑی ہوتی، بجائے اسکے کے تھوڑا انتظار کرلے، گاڑی گزرے گی تو اس کے پیچھے گیپ میں نکلے، مگر ہمیں یہ عادت ہے کہ میں پہلے نکل جاؤں، اور انتظار کرنا میری شان کے خلاف ہے، 

مسئلہ ہم میں ہی ہے

بے شک میں لبرل نہیں مگر بات یہی ہے کہ جس طرح کے نفسا نفسی کے دور میں ہم موجود ہیں، ایسے میں ہم نے تحقیق اور کراس چیکنگ کا عنصر بھی اپنے اندر سے یکسر ختم کردیا ہے، ورنہ جن کو کلمہ پڑھنا، اس کا مفہوم اور مطلب نہیں آتا، چلو یہ تو بہت بڑی بات کررہا ہوں، شعور نہیں ہو، ان کے منہ سے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ ہم نے ناموسِ رسالت ﷺ کا خیال کیا ہے، جبکہ ہمارے مذہب میں ایسا کوئی concept نہیں ہے، 

مسجدِ نبوی ﷺ میں رفع حاجت والے واقعہ کی مثال

جہاں ایک کمزور دماغ والا بندہ غلطی سے مسجد نبوی میں پیشاب کردیتا ہے، ایسا کوئی واقعہ اگر چہ آج ہوجاتا، تو اس بندے کا بالکل اس سری لنکن منیجر کی طرح نام و نشان موجود نہیں رہتا کیونکہ ہم نے لکھنا پڑھنا اور اس کے ساتھ لکھنے پڑھنے کا شعور اپنے اندر سے بالکل ختم کردیا ہے، جبکہ آپ ﷺ نے اس وقت یہ عمل نہ صرف کرنے دیا بلکہ بعد از خود ڈول کے ذریعے پانی بہا کر جگہ صاف کردی، جس کی بدولت آپ ﷺ کے رویے سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا، ہمارے بڑوں نے اپنا رویہ کس پائے پر رکھا، اور یہاں ہم نے اپنے آپ کو حیوانیت کے دلدل میں ڈال دیا ہے۔

دشمن کے پلان میں ایندھن بننے میں ہمیں کیا اچھا لگتا ہے؟

اوپر جب میں نے جنرل بیپن راوت کا زکر کیا تو یہ کہا کہ کشمیریوں کا ڈی این اے تبدیل کریں گے، ایسا کرنے کے لئے ان کو اندر کے بھیدی چاہئے ہوتے ہیں، اور یہ ہمارے پاس کے لوگوں کی کمزوری ہے، تعلیم ہونا نہ ہونا کوئی criteria نہیں، مگر اصل بات یہی ہے کہ بندے کے اندر شعور ہونا چاہئے کہ اگر اس طریقے سے پیسے کما بھی لے گا، تو کیا وہ آزادی اس کو میسر رہے گی جو روکھی سوکھی کھا کر اس کو میسر ہوتی ہے؟ یہ بات شعور کی ہوتی ہے۔ کیونکہ فیصل آباد کے واقعے میں مجھے صاف طور پر یہ لگا کہ ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ کیسے ان کے اس ایکشن کو دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف نہ صرف استعمال کریں گے، بلکہ ان کی اپنی individuality اور respect ختم ہوچکی ہے، بلکہ ان کے اس ایکشن کی وجہ سے عورت زات کی عزت ہمارے معاشرے سے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس کی ایک مثال مذہب سے دوری بھی ہے

کیونکہ یہ دونوں واقعات لبرلز کو ایک موقع دینے کے برابر ہے جہاں ridiculing the religion and faith and beliefs ان لوگوں کا مین اور کور پروگرام ہوتا ہے، keeping in mind آج کے زمانے میں معلومات کا زخیرہ ہے جبکہ علم اٹھا لیا گیا ہے، کیونکہ معلومات ایک حیوان کو بھی ہوتی ہے مگر اس کو استعمال کرنے کا ڈھنگ ہمیں علم فراہم کرتا ہے، تو آپ خود بتائیں، اس مینجر کی لاش کے ساتھ بے حرمتی کرتے ہوئے لبیک یا رسول اللہ بولتے ہوئے آپ نے blasphemy نہیں کی؟ جبکہ آپ منافق بھی ہو، مذہب کی مانتے بالکل نہیں ہو، مگر جہاں اپنی بات آجائے، مذہب میں اپنی مطلب کی شق کو اپنے حساب سے استعمال کرنا از خود منافقت نہیں؟ جبکہ بقول سی سی ٹی وی، اس کو اردو اور عربی نہیں پڑھنی آتی تھی، تو ایسے میں it was unintentional اور جب اس کو پتا چلا کہ اس سے یہ حرکت ہوئی ہے، تو اس نے معافی بھی مانگی، مگر منافقت یہی ہے کہ اپنے personal scores کو settle کرنے کے لئے اسلام اور پاکستان کی دھجیاں بکھیرنے میں ہم لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔

اب دیکھیں ہمارے خلاف کیا ٹرینڈ چل رہا ہے

ہم نے لوگوں کو کیا موقع دے دیا ہے کہ ابھی ہم رو رہے ہوتے ہیں کہ نوکریاں نہیں ہیں، جبکہ ہمارے آج کے ایکشن سے آنے والے وقت کی نوکریاں بھی کھا چکے ہیں۔

https://twitter.com/hashtag/withdrawgspplusfrompak?src=hashtag_click

سزا کا خوف

مستیگو فوبیا سزا کا غیر معقول خوف ہے۔ اس حالت میں مبتلا کوئی شخص جب محض سزا کے بارے میں سوچتا ہے تو وہ بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنے کی توقع کر سکتا ہے۔ کچھ انتہائی صورتوں میں، ان کی بے چینی اتنی شدید اور دخل اندازی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے ماسٹیگو فوبیا کے نتیجے میں مکمل طور پر گھبراہٹ کے حملے بھی برداشت کر سکتے ہیں۔ تاہم، یہ شخص سے دوسرے شخص میں مختلف ہوگا، ساتھ ہی ساتھ ان کا مستیگوفوبیا کتنا شدید ہے۔ اگر کسی کو اپنے ماسٹیگو فوبیا کی وجہ سے گھبراہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو وہ دیگر علامات کے علاوہ دل کی دھڑکن میں اضافہ، بلڈ پریشر میں اضافہ، سانس لینے کی بڑھتی ہوئی شرح، پٹھوں میں تناؤ، لرزش، اور ضرورت سے زیادہ پسینہ آنے کی توقع کر سکتے ہیں۔

اس حالت میں مبتلا کوئی شخص انتہائی غیرمعمولی حالات میں بھی صحیح کام کرنے کی حد سے زیادہ فکر مند ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، یہ تصور کرنا قابل فہم ہے کہ مستیگو فوبیا میں مبتلا کوئی شخص اس خوف سے زمین پر ایک چوتھائی اٹھانے کے خلاف محسوس کر سکتا ہے کہ وہ اسے چوری کر رہے ہیں، جو اس کے بعد کسی قسم کی سزا کے ساتھ آئے گا۔ بنیادی طور پر، کوئی بھی ایسا عمل جس میں سزاؤں کا امکان ہو، مستیگوفوبیا کے شکار کسی کو بے چینی کی بہت زیادہ آمد دے سکتی ہے۔

مستیگوفوبیا کی علامات

جیسا کہ تقریباً ہر دوسرے فوبیا کا معاملہ ہے جو موجود ہے، ماسٹیگو فوبیا کا شکار کوئی شخص اپنی حالت کی سب سے زیادہ عام علامات میں سے ایک پریشانی ہونے کی توقع کر سکتا ہے۔ سزا کا ان کا شدید اور غیر معقول خوف ممکنہ طور پر ان کی روزمرہ کی زندگی میں بہت زیادہ پریشانی کا باعث بنے گا کیونکہ وہ ایسے فیصلے کر سکتے ہیں جو مکمل طور پر ان کے مستی گو فوبیا پر مبنی ہوں۔ اس طرح کے فیصلوں میں ان کا اخلاقی طور پر فالج تک ہوش میں رہنا شامل ہو سکتا ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ کسی بھی نتائج کا سامنا کرنے کے خوف کی وجہ سے فیصلے کرنے سے گریز کر سکتے ہیں، چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔

اگرچہ مستیگوفوبیا میں مبتلا کوئی شخص فیصلہ کرنے سے گریز کرتے وقت یا کام کرنے سے گریز کرتے وقت کم شدید اضطراب کا سامنا کرنے کی توقع کر سکتا ہے، لیکن اس طرح کی حرکتیں یا بے عملی طویل مدت میں ان کے مستیگو فوبیا کو مزید خراب کرنے کا امکان ہے۔ اس کا تعلق اس حقیقت سے ہے کہ سزا کے خوف سے بچنے کے لیے فعال طور پر ایسے حالات سے گریز کرتے ہوئے جہاں سزائیں ممکن ہوں گی، اس کے بعد وہ اپنے آپ کو سزا کے خوف کو تقویت دے رہے ہوں گے، یقیناً غیر ارادی طور پر۔

ذیل میں، آپ کو اس فوبیا کی کچھ اور عام علامات نظر آئیں گی:

  • سزا کے بارے میں سوچتے وقت پریشانی
  • جب سزا دی جائے تو شدید بے چینی
  • فیصلے کرنے میں دشواری جہاں تک اس کا تعلق ممکنہ سزا سے ہے جس کا وہ تجربہ کر سکتے ہیں۔
  • ان کی پریشانی کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔
  • پٹھوں میں تناؤ، لرزش، اور پسینہ آنا۔
  • گھبراہٹ کے حملوں کا تجربہ کر سکتا ہے

ماسٹیگوفوبیا کی وجوہات

ماسٹیگوفوبیا کی کوئی معروف وجوہات نہیں ہیں۔ چاہے جیسا بھی ہو، جینیات اور کسی کا ماحول دونوں ہی کسی بھی ذہنی عارضے کی نشوونما میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، بشمول ماسٹیگو فوبیا۔ مثال کے طور پر، دماغی بیماری کی خاندانی تاریخ رکھنے والے شخص کو مستیگوفوبیا ہونے کا زیادہ امکان ہو سکتا ہے۔ یہ ان کی وجہ سے ہو سکتا ہے پھر جن کے جینیاتی طور پر عام طور پر ذہنی بیماری پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

اگر کسی کے پاس ایسا جینیاتی رجحان ہوتا ہے، تو یہ صرف انہیں کسی قسم کے تکلیف دہ واقعے کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ مکمل طور پر تیار شدہ مستیگوفوبیا پیدا کریں۔ مثال کے طور پر، کوئی شخص اپنے ماضی میں ایک بار انتہائی وحشیانہ سزا کو برداشت کرنے کے نتیجے میں ماسٹیگو فوبیا پیدا کر سکتا ہے، جس سے وہ جسمانی یا نفسیاتی طور پر زخمی ہو جاتا ہے۔ ایسے شدید تجربات، صحیح جینیات کے ساتھ، کسی کے لیے سزا کا غیر معقول خوف پیدا کرنے کے لیے کافی ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسا خوف غیر معقول ہے، جب انہیں سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا سزا کے بارے میں سوچتے ہیں، تو وہ اس قدر عملی نہیں ہوں گے۔

اگرچہ ہم ماسٹیگوفوبیا کی صحیح وجوہات نہیں جانتے ہیں، لیکن زیادہ تر ذہنی صحت کے پیشہ ور افراد کے درمیان اتفاق رائے یہ ہے کہ جینیات اور کسی کا ماحول دونوں عملی طور پر کسی بھی ذہنی بیماری کی نشوونما میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لہذا، ان دو مختلف پیرامیٹرز پر گہری نظر ڈالنا فائدہ مند ہو سکتا ہے کیونکہ وہ کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں کہ آیا آپ کو ماسٹیگو فوبیا پیدا ہونے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے یا نہیں۔

مگر پاکستان کے کیس میں

سزا کا خوف ہونا ضروری ہے کیونکہ لنچنگ

(of a mob) kill (someone), especially by hanging, for an alleged offense with or without a legal trial.
her father had been lynched for a crime he didn't commit

اور اس طرح کا رویہ پاکستان میں کسی بھی طرح سے برداشت کرنا اس کو بڑھاوے کے مترادف سمجھنا چاہئے، کیونکہ ہم نے already پڑوسی ملک کو موقع دے دیا ہے کہ ان چند لوگوں کی وجہ سے پورے پاکستان کو ظالم بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔

مگر ہمیں احساس نہیں ہے کہ پاکستان کے رتبے کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا ہے، میں اپنا ذاتی پوائینٹ آف ویو بتاؤں تو میری پچھلی برانچ میں ایک بندا عمران خان کے خلاف رہتا تھا، میں پہلے اس بات کو نفی میں claim کردوں کہ میں نہ ہی کوئی یوتھیا ہوں، بلکہ اکانومی کا مسئلہ کا سب سے بڑا شکار میں خود ہوں،مگر جس طرح وہ نواز لیگ کا حامی رہتا تھا، اور اس کو ایسا represent کرتا تھا کہ جیسے ہمارا savior  ہے، مگر اس بات کا جواب نہیں ہوتا تھا، کہ پاکستان کی رقم جو وہ لندن اور پانامہ میں لے کر گیا ہے، کیا اس کا جوابدہ بھی عمران خان ہے؟ کیا ہمارے اوپر عمران خان ٹیکس اپلائی کرنے کے بجائے اگر یہ رقم واپس لاتا تو کیا ہمیں ریلیف نہیں ملتا؟ کیا Post-Covid-Scenarios میں دنیا بالکل ویسی ہی ہے economic wise جیسے Covid-19 سے پہلے تھی؟ مگر اس کا ان سب چیزوں میں صرف اور صرف یہی جواب ہوتا تھا، کہ صاحب، ہمیں شکر سستی ملتی تھی، نواز شریف ہمیں سستا چاول اور شکر دیتا تھا، میں مانتا ہوں کہ ان سب چیزوں کو قوی طور پر نظر انداز کرنا واقعی میں صحییح بات نہیں ہوگی، اس کی بات میں بالکل سچائی ہے، کیونکہ انسان محنت صرف پیٹ کی پوچا پاٹ کے لئے ہی کرتا ہے، مگر میرا یہ سوال ہوتا تھا کہ کیا پیٹ کی پوجا پاٹ میں ہمیں پاکستان کو یکثر نظر انداز کرلینا چاہئے؟ اس کا جواب اس کے پاس بالکل نہیں ہوتا تھا، اور جیسا کہ آپ نے بھی اندازہ بخوبی لگا لیا ہوگا کہ اپنے آپ کو صحیح پیش کرنے کے لئے کیا، کیا حرکتیں پیش کرتا تھا، کیونکہ میں جیسے اپنے پچھلے بلاگ آرٹیکل میں لکھا بھی ہے کہ یہ سب کچھ احساس کمتری کا مظاہرہ ہے، کیونکہ انا پسند وہی بندہ ہوتا ہے جس کے پاس پوائینٹ پر بات کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے، مگر اول فول بکواس کرکے ٹائم سب کا ضائع کرتا ہے اور ضائع کرنے کو بحث کہہ کر بحث بازی کی بے عزتی کرنے میں ان لوگوں کو کوئی عار نہیں۔

اس وقت کا اصل مسئلہ

مگر نیوٹرل ہونے کے ناطے میں یہ بات تصدیق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت پاکستان کو جو سب سے بڑا مسئلہ ہے، اس میں یکم نواز شریف لیگ ہے، دوم انڈیا کی پروپگینڈہ مشین ہے، اور سوم عمران خان کی incapable اور incompetent ٹیم۔

Nipping in the bud

ایک ٹرم استعمال کی جاتی ہے، nip in the bud ، تو ان سب چیزوں کو ختم کرنا ہے تو پہلے انڈیا کی فنڈنگ کو پاکستان میں روکا جائے، کیونکہ 5th generation warfare میں سب سے ذیادہ کمال یہی ہے کہ کمال طریقے سے شطرنج کے پانسوں میں اپنے پیادوں کو خود سے deploy کرتے ہیں، یہاں deploy کرنے سے مراد مائینڈ پروگرامنگ ہے، جہاں پہلے جو چیز ہمارے لئے accepted بالکل نہیں تھی، اب ہمارے لئے بالاخر accepted کرائی جارہی ہے، اور میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ ہم اسی وجہ سے ان سب خرافات میں پڑھ رہے ہیں، کیونکہ کتابوں اور E-Books سے دوستی ختم کردی ہے، اور جیسے میں نے پہلے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ایک چیز ہوتی ہے کراس چیک کرنا، وہ ہم نے ماضی کی بھولی بسری یاد بنا کر پرانی دوات کی مانند unimportant بنادیا ہے، کراس چیکنگ کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ آپ کے پاس معلومات موجود ہو، اور معلومات کو کیسے استعمال کرنا ہے، اس کے لئے آپ کے پاس علم ہونا چاہئے، اور مجھے یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ تحقیقی مواد یعنی کتابیں یا پھر ای کتابیں ہونی چاہئے، یہ ساری باتیں شعور سے متعلق ہوتی ہیں، تعلیم ہو یا نہ ہو، مگر شعور ہونا الگ چیز ہونی چاہئے، پہلے زمانے میں لوگوں کے پاس تعلیم انٹر ہوتی تھی مگر شعور ہوتا تھا، آج ڈبل ایم بی اے ہیں، ایم فِل ہیں، مگر کیا اس لیول کا شعور ہے کہ اس چیز کی intensity کو سمجھیں کہ ہمارے ایک ایکشن سے دشمن کیسے فائدہ اٹھا رہا ہے؟ میرے نذدیک دشمن کو فائدہ پہنچانے کا مطلب یہی ہے کہ آپ دشمن کے آلأ کار بنے ہو جو کہ از خود نشانی ہے کہ ہم پاکستانیوں میں شعور کی کتنی کمی ہے! آپ کو احساس ہی نہیں ہے کہ آپ کے ایک ایکشن سے دنیا بھر میں موجود پاکستانی جہاں، جہاں موجود ہیں، کس کس مشکل صورتحال کو face کررہے ہوں گے، کیونکہ (دوبارہ کہہ رہا ہوں، اور متعدد بار کہوں گا) کہ ہم میں ملکی شعور کی کمی ہے۔

اس واقعے کی سی سی ٹی وی ویڈیو سے میں کیا سمجھا ہوں

اتنی ہولناک ویڈیو ہے، دیکھ کر پہلے تو مجھے پریشانی ہوئی کہ کیا میں کوئی زومبی کی مووی دیکھ رہا ہوں، کیونکہ یہ حیوانیت سے آگے کا لیول تھا، مگر اگر میں ویڈیو کے crux پر آؤں تو صاف لگ رہا تھا، کہ چونکہ راجکو انڈسٹری کو ہیوگو باس اور جرمن فٹبال ٹیم کا کنٹریکٹ ملا تھا، اس کی بنیاد پر وہاں کے correspondents پاکستان ان کی فیکٹری میں آرہے تھے، تو اس کی تیاری کے لئے وہاں پینٹ اور پالشنگ ہورہی تھی، اس طرح کی صورتحال اگر ہمارے گھروں میں بھی ہوتی ہے جہاں گھر میں پالش اور پینٹ کا کام ہورہا ہوتا ہے تو اس طرح کے اسٹیکر کو ہٹا دیا جاتا ہے، مگر صرف کام نہیں کرنے کے سو بہانے، اگر آپ اوپر والے پیراگراف پر جائیں جو آفس میں کام کرنے والے کی بات کی، جو نماز کو کام نہیں کرنے کے لئے استعمال کرتا تھا، ٹھیک اسی طرح یہاں بھی دکھائی دیا ہے کہ اسٹیکر کو اتار کر ڈسٹ بن کرنے پر یہ لوگ مشتعل ہوئے، جو کہ کوئی وجہ نہیں تھی، کیونکہ پہلی بات یہ تحریک لبیک پاکستان کا اسٹیکر تھا، اس پر اگر کوئی عبارت لکھی ہوئی بھی تھی، تو پہلے جب اس سری لنکن مینیجر نے کہا تو کیوں نہیں کیا؟

کیا اسلام اس چیز کی اجازت دیتا ہے؟

میں اپنے آپ کو اسلام کا سوداگر نہ ہی سمجھتا ہوں نہ سمجھنا چاہتا ہوں، مگر جتنی میری ناقص معلومات ہے اس کے مطابق یہ سب کچھ اسلام میں کہیں بھی موجود نہیں، اسلام تو وہ مذہب ہے، جہاں سب عورت کو نجاست کی علامت سمجھا جاتا تھا، تو ان کے ساتھ سب سے پہلے شفقت اس مذہب میں پیش کیا گیا اور ان کی عزت دی گئی، تو کیا یہ مذہب اس چیز کی اجازت دیگا کہ زندہ درگور کریں؟ کسی زندہ شخص کو اس طرح سے اذیت دیں کہ مرنے کے بعد اس شخص کی روح اپنی لاش کو دیکھ کر گھبرا جائے اور خدا سے التجا کرے کہ یہ سب کچھ مجھے کیونکر دیکھایا ہے؟

کیا یہ لوگ بھول گئے ہیں؟

کہ بحیثیت مسلمان ہمیں کہیں سے بھی یہ حق نہیں ہے کہ ہم جج بنیں، تو کس معاملے میں ہم نے ایسی حرکت کی، کیا سوچ کر نہ صرف ایسی حرکت کی بلکہ وہ بندہ جو غیر ملکی ہونے کو باوجود پاکستان کے لئے سوچ رہا تھا (بے شک تنخواہ لے رہا تھا) کہ غیرملکی کلائنٹ آئیں گے تو ان کے لئے ہماری  vicinity اچھی دیکھائی دینی چاہئے، اگر وہ شخص اس چیز کی ذیمانڈ کر بھی رہا تھا، تو اس میں کیا غلط تھاَ؟ کیا یہ بات blasphemy میں نہیں آتی جہاں مذہب کو کام نہیں کرنے کے حیلے بحانے کے طور پر mock کرکے مذہب کا مذاق آراتے ہیں؟ کیا یہ مذہب کے ساتھ itself مذاق کرنا نہیں؟

ہم اپنے آپ کو کیونکر analyze نہیں کرتے کہ ہم انسان ہیں اور انسان ہونے کے ناطے غلط ہوسکتے ہیں

ایسی گھٹیا سوچ ہمارے اندر اس وقت ہی آسکتی ہے جب ہم میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو فرعون سمجھنا اسٹارٹ کردے، کیونکہ فرعونیت کا مطلب ہی اکڑ تھا، جبکہ اسی اللہ تعالی نے قوم ثمود کا جو حال کیا تھا، ہمارے لئے آج بھی باعث عبرت ہونا چاہئے ، مگرجس طرح کے رویے ہمارے موجود ہیں، ہمارا اللہ تعالی ہی حامی و ناصر ہو۔

Nipping in to the bud


یہ ایک انگلش ٹرم ہے، جس کا استعمال کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی چیز ہونے سے پہلے ہی معاملات کو حل  کیا جائے، اور عام طور پر proactively مسئلے کو حل کرنے کے لئے یہ ٹرم استعمال کی جاتی ہے جہاں کوئی بھی چیز ہونے سے پہلے ہی ختم کی جائے۔ اور یہ چیز ایک طرح کی تربیت کے طور پر اجاگر ہوتی ہے، کیونکہ جیسے میں نے اپنی پہلے کے آرٹیکل میں یہ بات کہی تھی، اور ہمارے آباؤ اجداد اس چیز کا بخوبی خیال رکھا کرتے تھے، کیونکہ اس زمانے میں چاہے کوئی قاضی ہی کیوں نہ ہو، روز مرہ کی زندگیوں میں کام آنے والی چیزوں/ہنر بھی سکھانے پر بھی emphasis رہتا تھا، کیونکہ آج کے زمانے کے حساب سے چیزوں کا مشاہدہ کریں گے، تو آج ہمارے معاشرے میں نا امیدی اسی وجہ سے موجود ہے، کیونکہ اگر پچھلے زمانے کی یہ ایکسر سائز کو نوٹ کریں تو اسی لئے کیا جاتا تھا کیونکہ انسانی سائیکولوجی ہے کہ کوئی یا کسی چیز کا متبادل نہ دیکھائی دے، تو جلدی نا امید ہوجاتا ہے، اور اگر آج کے زمانے کے تناظر میں دیکھیں تو ہمارے معاشرے میں صبر و شُکر کی کمی کا ایک reason یہ بھی ہے، کیونکہ اگر متبادل کی غیر موجودگی میں ہی یہ desperation کا عنصر عیاں ہوتا ہے، جو کہ ہمارے آج کے معاشرے میں خاص طور پر کراچی کے معاشرے (کیونکہ میں دوسرے علاقوں کی تصدیق نہیں کرسکتا) میں بے سکونی کی کیفیت کا ایک وجہ یہ بھی ہے۔

تو یہ میں یہاں کیوں استعمال کررہا ہوں؟؟؟

کیونکہ ملکوں کی صورتحال یک دم خراب نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک چین ری ایکشن ہوتا ہے، جو کہ پاکستان کے کیس میں ۵۰ سال پر محیط عرصہ ہے کیونکہ ۵۰ سال پہلے جو چین ری ایکشن ہوا تھا، اس کے ثمرات آج ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں، اسی لئے ابھی بھی اگر ہم یہ ٹرم کو استعمال کررہے ہیں، تو آئندہ آنے والے کم سے کم ۵ سالوں میں آج کے کاموں کے اثرات دکھیں گے، کیونکہ معذرت کے ساتھ ہم نے بحیثیت قوم ویسے ہی ہم نے بہت وقت ضائع کیا ہے۔


چونکہ ہم میں وقت ضائع کرنے کی عادت ہے

چونکہ وقت ضایع کرنا ہمارا قومی مشغلہ ہے، اسی وجہ جیسے ہم انگریزی میں ایک ٹرم استعمال کرتے ہیں، On the Brink of Eleventh Hour ہم آفس اور اسکولوں کے لئے نکلتے ہیں، یعنی پہنچنا ۹ بجے ہے اور رستہ اگرچہ ۲۰ منٹ کا ہے تو پورا پورا ۸:۳۰ بجے کے بعد نکلتے ہیں، جس پر میں قصور ٹرانسپورٹ والوں کا بعد میں ہے، پہلے بحیثیت قوم، ہمارا ہے، کیونکہ ہم میں شعور نہیں ہے، جبکہ یہی قوم جب باہر کے ممالک میں جاتی ہے تو فی الفور شعور آجاتا ہے، کیونکہ ہمارے ملک میں rules and regulations بالکل موجود ہیں، مگر اس کی implementation کو make sure کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟

کیا ساری ذمہ داری صرف اور صرف حکومت کی ہے؟

میں یہاں حکومتی نمائندہ نہیں ہوں، بلکہ ایک کراچی والا ہونے کے ناطے کہہ رہا ہوں، کیونکہ ہماری ذمہ داری میں صرف نوکری کرنا نہیں ہے بلکہ سماجی ذمہ داری بھی ہم پر لاگو ہوتی ہے اور ہونی چاہئے، کیونکہ پہلے زمانے میں عوام میں یہ سماجی شعور ہوا کرتا تھا، بلکہ اس کو اپنی سماجی ذمہ داری سمجھتے تھے، جس کی آج بھی کچھ نہ کچھ اثرات موجود ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف اور صرف اپنا سوچ رہے ہیں، میں یہاں یہ فضول کی بحث میں نہیں پڑھنا چاہتا کہ عمران اچھا ہے، نواز شریف بہتر تھا یا ذرداری ہمارے واسطے ذیادہ اچھا تھا، مگر بات یہی ہے کہ بات ڈیمانڈ اور سپلائی کی ہے، اور جو ہماری ترجیحات ہوں گی، وہی ہماری ڈیمانڈ ہو گی، اور ڈیمانڈ ہمارے شعور پر depend کرتے ہیں، اور اسی بناہ پر ہماری demands ہوتی ہیں، اب معذرت کے ساتھ اگر ہماری ترجیحات اگر ٹھرک پن ہو نہ کہ میونسپل سروسز، ٹرانسپورٹیشن، رہن سہن وغیرہ، تو معذرت کے ساتھ ہمارا یہی حال ہونا ہے۔


باہر کے مماملک میں سوشل سروسز نمبر اور ہمارے کلچر کا وظیفہ کا concept

گوروں نے ہمارے پاس کا وظیفہ کا concept کو adopt کیا، اور اپنے پاس سوشل سروسز نمبر کے نام سے اپنے پاس introduce کرایا، جو کہ بالکل ہمارے پاس کا زکوٰۃ اور وظیفہ کے کانسیپٹ پر based کرتا ہے، اور معذرت کے ساتھ یہ نظریہ ہم نے ماضی کی بھولی بسری یادگار بنا دیا، کیونکہ ہم نے لاشعور ہونے کا prove دیا، اور نتیجہ میں ہم نے اپنے کلچر میں موجود extra curriculum activities کو بالکل ختم کردیا اور ہمارے معاشرے کو بالکل stagnant اور ساکن کردیا، اس حوالے سے میرے ساتھ کافی لوگوں کی بحث بھی ہوئی کہ میں کہہ رہا ہوتا ہوں کہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینا چاہئے جبکہ سامنے سے مجھے جواب آتا ہے کہ عمران خان صحیح نہیں ہے نواز شریف ذیادہ اچھا تھا، میرا صرف یہی کہنا ہے کہ آپ کے لئے نواز شریف اگر اچھا تھا تو کتنی روزگار کے مواقع پیدا کئے؟ کیونکہ جیسے میں نے اوپر لکھا ہے کہ دنیا آج ڈیمانڈ اور سپلائی یعنی طلب و رسد پر based کرتا ہے، یعنی نواز شریف سے ہم نے یہ ڈیمانڈ کی کہ عوام کو روڈیں بنا کر دو، یہ ڈیمانڈ نہیں کیا کہ ان روڈوں کے اوپر چلنے والی ٹرانسپورٹ کو اس کے ساتھ upgrade کرو، میں یہاں عمران خان کا حمایتی یعنی یوتھیا نہیں ہوں، مگر اگر عمران خان کچھ اچھا کررہا ہے تو اس کو مجھے کڑوی زبان کے ساتھ ماننا پڑے گا، کیونکہ اکانومی کے steps کو فالو کروں تو یہی hierarchy کو فالو کیا جاتا ہے، کیونکہ جرمنی کی مثال لوں، تو اپنی ترقی کو ٹرین سے لنک کیا، ٹرین کی ٹائمنگ سے پوری اکانومی کو لنک کیا، جس سے ان کی پوری اکانومی جو ایک زمانے میں پاکستان سے loan لیا تھا، آج G8 گروپ کا ممبر ہے، 

مگر ہماری ترجیحات تو کچھ اور ہیں

کیونکہ بحیثیت قوم اور بحیثیت پاکستانی ہم میں نہ ہی پاکستانیت ہے، نہ ہی معاشرتی طور پر، کیونکہ اگر وہ ڈگری جس کی base پر آج ہم بڑی بڑی پوسٹوں پر براجمان ہیں، اسی ڈگری کی ایڈمٹ کارڈ پر ایک وعدہ ہوتا ہے، جس پر ہم اپنے دستخط بھی کرتے ہیں، کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد کم سے کم دو بچوں کو ذاتی طور پر پڑھائیں گے، مگر نہ ہی ہم وہ وعدہ پورا کرتے ہیں، اور نہ ہی بی بی اے/ایم بی اے کے تھیسس رپورٹنگ میں وہ zeal ہوتی ہے، جو باہر کے ممالک میں اسٹوڈنٹس میں ہوتی ہے، کہ ان کو ڈگری کے حصول کے لئے کوئی نہ کوئی ٹارگٹ دیا جاتا ہے، جب وہ تارگٹ مکمل ہوتا ہے اس کو analyze اور تصدیق کے بعد ہی ڈگری ملتی ہے، چاہے اس کو کرنے میں اسٹاڈنٹ کو ۱۰ سال ہی کیوں نہ لگ جائیں، 

گوگل کی example لیں

گوگل جو کہ آج کے زمانے میں ایک ٹیکنالوجیکل دیو کے طور پر دیکھا جاتا ہے، دو گریجوئیٹ اسٹوڈنٹس کا بروجیکٹ تھا، جو کہ Googleplex سے inspired ہو کر گوگل لیا گیا تھا،
 
 
مگر بات یہی ہے کہ چونکہ ان دونوں اسٹوڈنٹس نے محنت کرکے گیراج سے شروعات کی تھی تو ان کی بنیاد humble تھی، مگر ان کو اپنی حیثیت کا اندازہ تھا، ہمیں چونکہ ان چیزوں کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا ہے تو ایسے میں undoubtedly ہم میں arrogance موجود ہوتی ہے، اور چونکہ ہماری بنیاد میں ہی arrogance ہوتی ہے، کیونکہ محنت تو ہم نے نہیں کی ہوتی ہے، اسی لئے نا سننے کی "عادت" نہیں ہوتی ہے، تو جیسے میں نے اپنے آرٹیکل کے شروعات میں Nipping in to the Bud کی ٹرم استعمال کی تھی، وہ اسی لئے کی تھی کیونکہ مسئلہ کیوں ہے، یہ سب بتائیں گے، مگر کس وجہ سے ہے، کس لئے ہے، اور کیسے ختم ہوگا، یہ کوئی نہیں بولے گا، کیونکہ یہاں ہر کوئی exploit کرنے کو دیکھ رہا ہوتا ہے، کیونکہ اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر اس پر impose کرانا اپنی کامیابی سمجھتے ہیں، جبکہ جو لوجیکل ذہن کا مالک ہوگا، وہ اپنے قول و فعل کے تضاد کو بخوبی دیکھے گا، 
تین رخی ذاویہ کا خاکہ

ٹھرڈ ڈیمنشن پوائنٹ آف ویو

اگر ہم اسلامک نقطہ نظر دیکھیں تو کیا یہی اسلام کی تلقین نہیں کہ تول کر بولو، اور اپنے گریبان میں پہلے جھانکیں، یہی چیز اس پکچر میں دکھائی دی جارہی ہے کیونکہ یہاں X سے مراد ہم ہیں، Y سے مراد سامنے والا (جس سے ہم مخاطب ہیں) جبکہ Z ٹھرڈ آئی ویو ہے، جہاں ہم دوسرے ذاویے سے چیزوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں، مگر میں اس بات کی تصدیق کردوں کہ صرف اس کا یہ مطلب نہیں ہے جو ابھی میں نے بتایا، بلکہ basically یہ ایک طرح کا analysis کرنے کا طریقہ کار ہے، کیونکہ analysis کرنے کے لئے کافی دفعہ غیر جانبدار بھی ہونا ہوتا ہے، جو کہ ہمارے مذہب کی بھی تلقین ہے، اور ماضی بعید میں ہمارے پاس کے اُس وقت کے محترم قاضی حضرات اس چیز کو بخوبی دیکھتے تھے بلکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اسی چیز میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، یعنی ہمارے سارے مسائل کی جڑ ہماری مذہب سے دوری ہے، کیونکہ اگر ہم اپنا خود کا analysis نہیں کریں گے، تو ہمارے اندر humbleness کے بجائے arrogance خود بخود ہمارے اندر آجائے گی۔

کم سے کم اپنے اندر سامنے والے کی بات سننے کا حوصلہ تو رکھنا چاہئے

بات سننے کا حوصلہ کافی
تصادم کی صورتحال کو
حل کرنے میں مددگار ہوسکتا ہے

چونکہ ہمارے اندر غیر ارادری طور پر arrogance موجود ہوتی ہے، تو ایسے میں غیر ارادری اور غیر محسوس طور پر احساس کمتری کا احساس automatically موجود ہوتا ہے، کیونکہ سامنے والے کو زبانی طور پر ڈھیر کرکے اس کو اپنی جیت کی مانند سمجھا جاتا ہے، جبکہ جیسے میں نے اوپر اخذ کیا کہ لوجیکل مائنڈ والا بندا ہمیشہ ground to earth اور humble رہتا ہے، اور سننے کا حوصلہ رکھتا ہے، اور جیسے میں نے کہا کہ اگر جس پوسٹ پر ہم بیٹھے ہیں، جتنی آسانی سے ہمیں بیچی جارہی ہے، (چونکہ اگر ہم earn کر رہے ہوتے تو کہانی یکثر تبدیل ہوتی)، وہ ہمیں حاصل کرنے کے لئے وقت اور محنت دونوں لگتی تو یہ چیز نیچرل ہوتی ہے کہ ہمارے اندر humbleness اور ground to earth کا رویہ بالکل موجود ہوتا، جس کے فقدان کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے میں یہ مسئلے مسائل دن بدن اجاگر ہورہے ہوتے ہیں، مگر جیسے میں نے اوپر یہ چیز لکھی ہے کہ ہمیں ہائی لائٹ کرنے کا شوق بالکل ہے مگر کیسے حل کریں گے، یہ کہیں نہیں پتہ، اور اگر کوئی بتا بھی دے تو اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ صرف اور صرف اسی کا پوائینٹ آف ویو کو دوسروں پر implement کرایا جائے، either by hook or by crook کیونکہ ایسا کرنے کو اپنی dominance کے طور پر دیکھا جاتا ہے، ورنہ اگر ہم سننے کا حوصلہ رکھیں تو ہوسکتا ہے سامنے والا شاید چیزوں کو کسی اور ذاویے سے دیکھ کر بہتر تجزیہ دے سکے جو کہ سب کے لئے ذیادہ فائدہ مند اور beneficial ہوسکے، مگر ہمارے arrogance کی وجہ سے ہم دوسروں کو یہ موقع نہیں دیتے ہیں۔

Mindset کے ساتھ ساتھ

یہاں مسئلہ سامنے والے کو سننے کا بھی ہے، مگر اس کے ساتھ مسئلہ یہ بھی ہے کہ بیفضول بحث بازی میں involve ہو کر سامنے والے کو چپ کرانے میں ہی اپنی جیت سمجھتے ہیں، یہ نہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ معاشرے میں ان کی contribution کیا ہے، کسی سے پوچھو تو لگتا ایسا ہے جیسا کہ میں نے ادھار میں اس کے گردے مانگ لئے ہیں، مگر بحث بازی اور اس کے اوپر بہانہ بازی، ایک ایسا خطرناک کیمیکل ری ایکشن ہے، جس کے نتائج ہم سالوں تک نہیں، صدیوں تک بھگتیں گے، اور شاید اسی وجہ سے ہمارے اباؤ اجداد ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے تھے، مگر معذرت کے ساتھ ہم بحیثیت قوم اس بُری چیز کو بڑھاوا دیا ہے، تو اب جس کے منہ میں زبان ہے، بولنا ضروری ہے، بولنے سے پہلے بولے جانے والا الفاظ کے استعمال کے repercussion کو مدنظر رکھنا جیسا ہم نے چھوڑ ہی دیا ہے، کیونکہ آپ کے بولے جانے والے الفاظ کے اثرات آنے میں کچھ گھنٹے، دن یا مہینے نہیں لگتے، بلکہ صدیاں لگ جاتی ہے، کیونکہ for the time being میں تو انسان اپنے emotions اور ری ایکشن پر کنٹرول بخوبی کردیتا ہے، مگر کہیں نہ کہی، in-cognitively لاوے کی طرح پک رہا ہوتا ہے، جس کا خود ادا کرنے والے بندے کو بھی احساس نہیں ہوتا ہے، مگر کہیں نا کہیں لاوا پک کر آتش فشاں کا منظر پیش کرنا شروع کردیتا ہے، پہلے ہمارے بڑے بزرگ اس چیز پر روک لگا کر رکھتے تھے، مگر معذرت کے ساتھ میں یہاں قصور وار ہمارے آج کے بڑے بزرگوں کو دوں گا، کیونکہ انہوں نے اس اہم چیز کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا ہے، جب فاؤنڈیشن ہی ایسی ہوگی، تو اینڈ یوزر پروڈکٹ تو ایسی ہی ہونی ہے۔

Conflict Management

اسی وجہ سے تصادم کی صورتحال ہوتی ہے کیونکہ ہم میں سننے کا حوصلہ نہیں، اگر آپ اسی آرٹیکل کے اسٹارٹ میں جائیں تو میں نے اشارۃ تصادم کو ڈسکس کیا، جہاں ہم ہر بات پر عمران خان، نواز شریف اور زرداری کو بیچ میں لے آتے ہیں، جبکہ ہم بحیثیت قوم، ہماری ترجیحات میں یہ چیز ہونی چاہئے کہ تصادم کی صورتحال کو ہوا دینے کے بجائے لوجیکل ترجیحات کو اہمیت دینی چاہئے، اور اپنے پوائنٹ کو prove کرنے کے لئے لوجک بھی دینی چاہئے، تاکہ دوسرا / سامنے والا بھی غیر ارادری طور پر آپ کی بات ماننے لگے، بصورت دیگر بات تصادم کی جانب مبذول ہوتی ہے، مگر معذرت کے ساتھ ہمیں اس کا شعور نہیں ہوتا، لوجک بالکل دیں مگر ذیڈ ایکسس کو مدنظر رکھ کر Argue بھی کریں تو Argue کرتے ہوئے آپ اچھے بھی لگو گے، بصورت دیگر آپ دشمنیاں پیدا کرو گے،

Arrogant اور Confident رہنا دو الگ چیزیں ہیں، اور ان کو دو الگ چیزوں کے طور پر ہی دیکھا جائے، تو بہتر ہے

ہم دراصل چیزوں کو دیکھنے کا ذاویہ اور نظریہ تبدیل کرنا ہو گا، بصورت دیگر جاہلوں کی طرح ہم Arrogance کو confidence کے لبادے میں اوڑھ کر اپنے ہی لوگوں کو جس طرح بے عزت کرتے ہیں، ایسے میں سامنے والے کو بھی موقع دے رہے ہیں، کہ بزور جان اپنی بات منوائے، نتیجے میں جو تصاویر پورے پاکستان کی ان چند لوگوں کی وجہ سے جاتی ہے، تو اس پر ذمہ داری کس پر لاگو ہوتی ہے، میں اگر نیوٹرل ہو کر اپنے آپ کو شامل کرکے بولوں تو ہم سب اس catastrophe کے ذمہ دار ہیں، کیونکہ سوسائٹی ایک طرح کی تسبیح کے دانوں کی طرح ہوتی ہے، ایک دانہ بھی اگر اپنی جگہ پر چپک جائے، تو ایسے میں یا تو ڈور ٹوٹے گی، یا پھر پوری تسیح بیکار ہوجائے گی، کیونکہ تسبیح کو گننے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، چاہے دعائیں ہوں، یا جو بھی ہو، کام آپ ہی کا رکتا ہے، تو ایسے میں ہمیں انسان ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داری کا احساس رکھنا چاہئے۔
 

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting