Search me

Pakistani Authorities fighting back - positively

یہ اچھا وقت نہیں کہ میں ایسا کہوں کہ یہ سب اچھا ہورہا ہےمگر پاکستانی حکومت اپنی پی آراستعمال کررہی ہے اور انٹرنیشنلی جواب مانگ رہی ہے کہ جب آپ لوگوں کو ہماری ضرورت تھی تو جب ہمیں آپ کی ضرورت تھی تو جب آپ کہاں تھے؟؟؟ ہماری پچھلی حکومتوں میں یہ اخلاقی جرات نہیں تھی۔
 



 
پہلے میں مندرجہ بالا اسکرین شاٹ کو ڈسکس کروں گا، جہاں حکومت برطانیہ نے ای سی بی کے decision کو بیک نہیں کیا ہے، خاص طور پر جب ہائی کمیشنر اگر اسلام آباد میں بیٹھ کر یہ لائن بولے تو ای سی بی کہاں بیٹھی ہوئی ہے؟
 
میں جب اپنا آرٹیکل لکھنے کے لئے یہ آرٹیکلز کاanalysis کررہا تھا، تو پاکستان نے سب سے ذیادہ away ٹورز کئے ہیں، اس میں ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے ہوم گیمز بھی اوے گیمز رہے ہیں، کیونکہ statistics کی مانوں تو پچھلے ۱۸ مہینوں میں پاکستان نے ۳۵ گیمز کھیلے اور پاکستان کے بعد جو دوسرا نمبر تھا وہ آسٹریلیا تھا جس نے اسی ٹائم پیریڈ میں ۲۴ گیمز کھیلے تھی، مگر ان ۱۸ مہینوں میں پاکستان نے دو بار انگلینڈ کا ٹور کیا، نیوزی لینڈ کا ایک، جنوبی افریقہ اور زمبابوے اور آخر میں ویسٹ انڈیز کا ٹور کیا جس کے بعد پاکستان کا مصروف ہوم سیزن تھا، جس میں سے دو سیریز میں سے ایک سیریز کو تو ختم شد سمجھیں اور دوسری ہوم سیریز کو بھی goner سمجھیں، بلکہ آنے والے ٹائم میں آسٹریلیا سے بھی وہی امید ہے جو نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے پیش کیا، مگر جس طرح پاکستان نے کرکٹ دوستی کا حق ادا کیا، مگر اس کے متبادل میں کچھ زیادہ امید رکھ لی تھی، جس کو ٹھیس پہنچی ہے۔ مگر میرا اب یہی کہنا ہے کہ پاکستان کو اب بیک اپ پلان کی جانب جانا چاہیئے بالکل ویسا ہی جیسا جنوبی افریقہ نے اپنے ڈومیسٹک کو ڈیویلپ کیا، کیونکہ میرے نذدیک یہی حل ہے، کیونکہ یہاں پاکستان کرکٹ as a product بات کررہا ہوں، بالکل ویسا ہی جیسے آپ کسی سوپر مارکٹ جاتے ہیں، جیسے میں جاتا ہوں تو مجھے چونکہ ایک particular برینڈ کا شیمپو suit کیا ہے تو میں اسی برینڈ کی جانب جاؤں گا، حالانکہ وہاں ہیڈ اینڈ شولڈرز بھی ہوگا مگر میں اپنے برینڈ کی جانب جاؤں گا کیونکہ میں اپنے برینڈ کو ٹیسٹ کرچکا ہوں۔

اس mentality کے لئے ضروری بھی ہے 

 کہ ہم اپنے home grown technicians، براڈکاسٹرز، ٹیکنیکل ٹیمز وغیرہ اور ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کو عزت دینا سیکھیں کیونکہ جب آپ ان ہنر مندوں کو عزت دیں گے تو ایک ایکو سسٹم بھی بنے گا، اور نتیجہ میں انویسٹرز یہاں بھی انویسٹ کرے گا، ورنہ پاکستان میں ۲۰۰۹ کے بعد سے یہی ہورہا ہے کہ ریڈی میڈ ٹیمپلیٹ کو اٹھا کر پاکستان کے ہوم گیمز میں انکارپوریٹ کردیا جاتا ہے، جبکہ ہمیں اپنے ہوم گرون ٹیمپلیٹس کو استعمال کرنا چاہئے، مگر معذرت کے ساتھ جو ہم نہیں کررہے ہیں کیونکہ ہم میں ٹرولنگ کی اتنی گندی گند آچکی ہے کہ ہنر مند اور ششکے بازوں میں فرق کرنا بھول ہی گئے ہیں، بالکل ویسے ہی، جب ہم فرئیر ہال کراچی کے پاس سے شام میں گزرتے ہیں تو کافی لوگ ٹک ٹاک بناتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں، کیونکہ ہم نے ان لوگوں کا مذاق اُڑایا ہے جو ہمیں constructive activities کی جانب لا سکتے تھے، جو کہ نہیں ہے تب ہی ہم ٹرولنگ کی جانب مبذول ہوئے ہیں، اور اب میراثی بننے کی تیاری ہے، بات ساری ذہنیت کی ہے۔


اس کے بجائے کہ ان لوگوں کے پیچھے بھاگیں، پہلے اپنی کرکٹ اکانومی بنائیں، I am quoting Ramiz Raja دبئی لاہور سے 1.5 گھنٹہ دور ہے مگر یہاں سے بھاگ کر وہاں ببل environment میں خوشی خوشی جارہے ہیں، یہی کرکٹرز جب پی ایس ایل میں آتے ہیں، تب بھی مسئلہ نہیں ہوتا، تو ایسے میں، میں اس نتیجہ پر پہنچ رہا ہوں کہ اگر آپ کی کرکٹ اکانومی جس میں پریزنٹیشن، پروڈکشن، مارکٹنگ، اسٹریمنگ وغیرہ اس کے کچھ حصے ہیں، مگر جب آپ کی کرکٹ کے یہ aspect پاور فل ہوں گے، تو یہی آپ کو revenue کو generate کرکے دیں گے، اور جب revenue جینیریٹ ہوگا تو آپ کی پروڈکٹ میں پیسہ آئے گا، اور جب پیسہ آئے گا تو یہ لوگ اپنی لنگوٹ چھوڑ کر آئیں گے، پھر چاہے ۵ آئی ہو، ۶ آئی ہو یا ۱۰ آئی، یہ لوگ بالکل ویسے ہی آئیں گے جیسے آئی پی ایل کے لئے یہ لوگوں نے نیشنل ڈیوٹی چھوڑی ہے۔

Where are we as Pakistanis?

معذرت کے ساتھ، ہم سب کچھ ہیں، مگر پاکستانی نہیں، اتنا بڑا ہاتھ ہمارے ساتھ ہوچکا ہے، مگر مجال/محال ہے کہ ہماری سوچ پاکستان سے باہر گئی ہو کہ پاکستان کے بارے میں کیا کچھ خبریں باہر بریک ہورہی ہیں، خیر اس حوالے سے کیا کہنا یہاں معذرت کے ساتھ ہم لوگ اتنے پتھر دل ہوچکے ہیں کہ بارش کے موسم کی وجہ سے ایک بینک کا کیش آفیسر بائیک سے گرنے کی وجہ سے لیٹ آتا ہے تو میں نے اپنے گناہ گار کانوں سے کسٹمر کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مرتا ہے تو مرے میرا چیک کیش کر کے دے۔

اس قدر پتھر دل ہوچکے ہیں، تو ایسے میں پاکستان کہاں ہے؟

 پاکستانی بننے کے لئے پہلے انسانیت ہونا ضروری ہے، پہلے میں سوچتا تھا کہ کیونکر یہ پاکستانی قوم بائیک پر سیون اپ کی بوتل لے کر چلتی ہے، مگر جب میں نے خود تجربہ کیا تو ماشا اللہ سے ہمارے پیٹرول پمپ والے مالکان پیٹرول بھرنے میں جس طریقے کی ڈںڈی مارتے ہیں، اس کے جواب میں لوگوں نے بوتل رکھنا اسٹارٹ کی ہے، یعنی جب انسان کو انسان پر بھروسہ نہیں ہے تو انسانیت کہاں ہے؟

جب ایسی پکچرز پاکستان کی دیکھی جائیں گی، تو آپ لوگ کیا سمجھتے ہیں، وہ لوگ ہمیں کیسے پرکھتے ہوں گے؟

میں دو philosophies کا firm believer ہوں، یکم for every action, there is an equal and opposite reaction دوم Murphy's Law یعنی ہر ہونے والی چیز ہو کر ہی رہے گی، چاہے آپ جتنے جتن کرلیں، اور کوئی بھی چیز ہونے کے لئے کچھ فیکٹرز ہوتے ہیں، جن کو پرفارم کرتے ہیں تب ہی رع ایکشن میں یہ آؤٹ پٹ آتا ہے جس کے نتیجے میں ہم یہ کہتے ہہیں کہ ہمارے ساتھ یہ سب کچھ ہوگیا، جب کہ ہوسکتا ہے کچھ سالوں پہلے آپ نے کچھ ایسا کیا ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں آج یہ نتائج ہمیں دکھائی دیتے ہیں، مگر چونکہ ہم شتر مرغ کی مانند منہ مٹی کے اندر ڈال کر سمجھتے ہیں، کہ All is Well تو ایسے میں ہمارا اللہ ہی مالک ہے۔

پہلے #PAKvNZ پھر #PAKvENG ، مگر پاکستان کے متعلق تھوڑی سوچنا ہے ہمیں

کیونکہ اگر پااکستان کے متعلق ہم نے سوچنا اسٹارٹ کردیا تو ہمارے زاتی مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہے، کیونکہ اگر میں اندر کی بات کروں تو ہمارے کرکٹ بورڈ کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کے مفادات میں ہی نہیں کہ پاکستان میں کھیل ہو بلکہ ان کے اپنے مفادات میں یہی ہوتا ہے پاکستان کو دبئی کو اپنا ہوم گراؤنڈ بنا لیں، کیونکہ دبئی میں ان لوگوں کو زیادہ فائدہ ہورہا ہوتا ہے، کیونکہ جس طرح ۲۰۲۱ کے پی ایس ایل کا سکینڈ لیگ ابو ظہبی میں ہواجبکہ انہی دنوں میں کراچی میں لاک ڈاؤن ہلکا ہونے والا تھا تو ایسے میں اگر پاکستان میں کرکٹ ترجیع ہوتی تو پی ایس ایل کے بقیہ گیم بھی پاکستان میں کراسکتے تھے، جس کو بلاوجہ ابو ظہبی ٹرانسفر کیا گیا۔

پاکستان کو چاہئے

اپنا stance کو firm رکھیں کہ پاکستان کی ہوم سیریز کا مطلب ہے پاکستان کے اپنے گراؤنڈز میں پاکستان اپنے opponents کے ساتھ کھیلے، نہ کہ کسی نیوٹرل وینیو جیسے دبئی وغیرہ میں جہاں ہمارے لڑکوں کو پاکستان میں موجود enthusiastic crowd نہیں ملتا، جیسے ایک مثال دوں پی ایس ایل کے مقابلے جب دبئی وغیرہ میں ہوتے تھے، اس کے فوراً بعد جب لاہور میں پہلا پی ایس ایل کا گیم ہوا تھا، تو ہر ایک نے فرق دیکھا تھا کہ کیسا کراؤڈ آیا تھا پھر جب کراچی کو ہوسٹنگ کے حقوق ملے تھے تو کس طرح سے کراچی نے نمائندگی کی تھی، اس کے لئے مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ویسے بھی ہوم کراؤڈ کا ایڈوانٹیج ہر ٹیم اٹھاتی ہے، تو اگر پاکستان بھی یہی ایڈوانٹیج اٹھاتی ہے تو اس میں کوئی ایسی بات نہیں جس پر کوئی برائی ہو۔

میڈیا کنٹرول

میڈیا کنٹرول سے مراد پاکستانی کرکٹ اور کرکٹ متعلق نیوز کی فلٹریشن کی ضرورت ہے، کیونکہ اب جس زمانے میں ہم رہ رہے ہیں، اب صرف کراچی سے خیبر ہماری نیوز نہیں دیکھی جاتی بلکہ دنیا میں ہر طرف اور شاید انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن تک بھی سنی جاتی ہے تو آج کل کی صورتحال میں پاکستان کی عزت کروائیں، پاکستانی کرکٹ اور پاکستانی کرکٹ کلچر کو prominent دیکھائیں اور اپنے ہیریٹیج پر یعنی پاکستانی ہونے پر فخر کریں، کیونکہ پاکستانی اگر عزت نہیں کرے گا، تو ایسے میں ہم کیسے امید کریں گے کہ باہر والے ہماری عزت کریں گے؟

میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں

کیونکہ میں عمران خان کا سپورٹر نہیں ہوں، مگر جس طرح عمران خان اینڈ کو نے ابھی ری ایکٹ کیا ہے، موقع، محل اور موقع محل کے حساب سے بالکل ٹھیک تھا کیونکہ جو مثال نیو زی لینڈ نے پیش کی ہے، اس کا ڈو مینو ایفیکٹ کے طور پر کرکٹ پاکستان سے جا بھی سکتی ہے، ایسے میں ہمیں اپنا stance کو firm رکھنا چاہئے، کیونکہ اس وقت ہمارے ساؤتھ ایشیا کے ریجن میں علاقائی صورتحال کے تناظر میں کوئی بھی ٹیم کے چانس کم لگ رہے ہیں کہ ہوم گیمز مل سکیں، جب کہ ہم وہاں گیمز کھیلنے کے لئے مرے جاتے ہیں، کیونکہ یہ ایک طرح کی زلالت (زبان کے لئے پیشگی معذرت) ہوئی ہے کہ ہمارے دو ہوم گیمز abandoned ہوچکے ہیں، زندہ قوموں کے لئے یہ بہت بڑی چیز ہوتی ہے۔




اپنی کرکٹ اور پاکستان کو اہمیت دیں

 مسئلہ سارا یہی ہے کہ ہم اپنی چیزوں کو اہمیت دینا سیکھیں کیونکہ Pakistan Comes First ملک پہلے پاقی سب کچھ بعد میں، کیونکہ پاکستان میں جو کچھ بھی ہوا، مجھے ابھی تک یہی لگ رہا ہے کہ یہ افواہ بھی ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے نیو زی لینڈ بھاگی ہے، کیونکہ یہ ففتھ جنریشن وار ہے جو کہ base ہی کرتی ہے افواہ پر، اور سوشل میڈیا پر word-of-mouth کی بہت اہمیت ہوتی ہے

آئندہ کے لئے لائحہ عمل

پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستانیوں کو آئندہ کے لئے سخت اور firm stance رکھنا چاہئے، اور اس کے لئے ہمارے پاس پلان اے، پلان بی ہونا چاہئے، اور کبھی پاکستان allow نہ کرے کہ اپنے ہوم گیمز پاکستان میں ہی کھیلنا پسند کرے، اور ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہئے، اور پاکستانی ہونے کے ناطے اپنے فورسز پر نہ صرف فخر کریں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی یہ چیزوں کو پروموٹ کریں اور بلاوجہ کا بچھے نہ جائیں، کیونکہ اس حرکت کی وجہ  سے پاکستان کی حرمت سے جس طرح سے کھیلا گیا ہے، ناقابل تلافی نقصان پہنچاچکے ہیں۔

کیونکہ Absolutely World Class Security کے باوجود یہ سب کچھ ہونا

کیونکہ ہماری طبعیت میں گھر کی مرغی دال برابر رکھیں گے، کیونکہ ہم نے بھی یہی بیوقوفی کی حرکتیں کیں ہیں کہ دنیا میں دنیا کے سامنے اپنی اور پاکستان کی عزت نہیں کرائی تو ظاہر ہے سامنے والے کو تو موقع مل رہا ہے کہ آپ کو exploit کرے، بصورت دیگر اسی طرح ہم exploit ہوتے رہیں گے، (معذرت کے ساتھ، کسی کو اگر برا لگے تو)

چانکیا کے نظریہ کے متصدق

آج جب میں یہ لائن لکھ رہا ہوں، پاکستان اور نیو زی لینڈ کی سیریز کو ختم ہوئے دو دن ہوگئے ہیں، اور شرم کا مقام ہم پاکستانیوں کے لئے ہے کہ ہم میں سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جو ایسے موقع پر بھی پاکستانی بننے کے بجائے ن لیگی اور پی ٹی آئی والے بننا زیادہ ضروری ہے، جو کہ ہمارے لئے بحیثیت پاکستانی شرم کا مقام ہے۔


ففتھ جنریشن وار فئیر 

Fifth Generation Warfare کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو دماغی نقشہ بندی کے اوپر depend کرتا ہے، یعنی آسان زبان میں ذہن سازی، اور ذہن سازی کی مانیں تو Hinduism کے مطابق ایک کیریکٹر چانکیا ہے، 

نظریہ چانکیا

آچاریہ چانکیا یا روایتی طور پر وشنوگپتا کے طور پر شناخت کیا گیا ایک قدیم ہندوستانی استاد ، عالم ، ماہر معاشیات ، قانون دان اور شاہی مشیر تھا۔ انہیں ارتھ شاستر کی تصنیف کا سہرا دیا جاتا ہے جو کہ دوسری صدی قبل مسیح کا ایک متن ہے۔ انہیں ہندوستان میں سیاسی علوم اور معاشیات کا علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ ان کے کام کو کلاسیکی معاشیات کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ اس کے تمام صحیفے اور مکالمے گپتا سلطنت کے قریب کھو گئے تھے اور بیسویں صدی کے اوائل میں دوبارہ مل گئے تھے۔
موریہ سلطنت کے قیام میں چانکیہ کا اہم کردار تھا۔ اس نے پہلے موریہ بادشاہ چندر گپت کو اقتدار میں آنے میں مدد اور مشورہ دیا۔ اس نے چندر گپت اور اس کے بیٹے بندوسار دونوں کے لیے بطور چیف مشیر خدمات انجام دیں۔
چانکیہ کا نظریہ تین اصولوں پر مبنی ہے۔ دام (پیسہ) ، سیم (کاجول) ، ڈنڈ (فورس) ، بیڈ (اختلاف) پہیلی کا پانچواں ٹکڑا بھی ہے لیکن پہلے ، آئیے مرکزی چار پر توجہ دیں۔

صم۔

یہ چانکیہ کے نظریے کے کئی ٹکڑوں کا پہلا ٹکڑا ہے۔ صام کا مطلب ہے کسی کو قائل کر کے کچھ کرنے پر راضی کرنا۔ یہ کئی طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔

نمبر 1 ، آپ دوسرے شخص کو بتا سکتے ہیں کہ وہ کیا حاصل کرے گا اگر اس نے وہ کام کیا جس کے لیے کہا گیا ہے۔

Numero Dos ، آپ دوسرے شخص کو دکھا سکتے ہیں کہ یہ خاص کام انہیں کیسے فائدہ پہنچائے گا۔

نمبر 3 ، دوسرے شخص کو دکھانا کہ وہ کس طرح کام سے منسلک ہیں۔ یہ خون ، مقصد یا فائدہ ہو سکتا ہے۔

آخری لیکن کم از کم نہیں۔ دوسرے شخص کو بتائیں کہ اسے دیا گیا کام کرنا اس کے لیے کتنا ثواب کا باعث ہوگا۔

سام شاید ایک حکمت عملی کی طرح لگتا ہے جو مخالف اور مرکزی کرداروں کے ذریعہ ٹی وی سیریز اور فلموں میں استعمال ہوتی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ چانکیہ کے نظریے میں پہلی چیز ہے۔ یہ اس کے نظریے کی کمزور ترین حکمت عملی ہے اور اس کا آسانی سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ بڑے بڑے درج ذیل ہیں۔

دام

ڈیم اگلی بڑی چیز ہے جو بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے کام کو پورا کرنے کے لیے پیسے استعمال کریں۔ یہ بنیادی طور پر رشوت ہے۔ آپ نے شاید یہ کام خود کیا ہے ، کچھ کھجوروں کو چکنا اور اپنے کام کو انجام دینے کے لیے ایک فائل میں ایک یا دو بل کاٹ کر۔ یہ اس کے نظریے کی مضبوط ترین حکمت عملی ہے۔ چونکہ اس میں پیسے کی شمولیت ہے اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں پیسے کی بات چیت۔

یہ قوموں کے ذریعہ بہت زیادہ استعمال ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ نہ صرف ان کے رہنما بلکہ مقامی شہری بھی۔ خاص طور پر ان قوموں میں جہاں کرپشن تیزی سے چلتی ہے اور رشوت کے بارے میں دوسری سوچ نہیں دی جاتی۔ یہاں تک کہ قومیں چانکیہ کی اس تکنیک کو گھناؤنے جرائم کے لیے استعمال کرتی ہیں اور اپنی دشمن قوم پر ظالمانہ کارروائیاں کرتی ہیں۔

دام عام طور پر یہ کہہ کر استعمال کیا جاتا ہے کہ یہ فراہم کردہ خدمات کی ادائیگی ہے اور اس کے ساتھ شاذ و نادر ہی رشوت کی اصطلاح مختص کی جاتی ہے۔ لہذا ، یہ دام حاصل کرنے والا اداکار خود کو کچھ ٹھیک محسوس کرتا ہے۔ یہ صحیح معنوں میں ایک گھناؤنا آلہ ہے جو ہندوستان اور دیگر ممالک یکساں طور پر استعمال کرتے ہیں۔ قطع نظر ہم سب کو یہ تسلیم کرنا ہوگا ، کہ یہ ایسی چیز ہے جو کام کرتی ہے۔

ڈانڈ۔

ڈانڈ یا ڈنڈا کا مطلب ہے کہ طاقت کے استعمال سے کاموں کو انجام دیا جائے۔ یہ ایک عام معلوم حقیقت ہے کہ خوف سب سے بڑا قائل ہے۔ مزید برآں ، انڈیا اور امریکہ جیسی بڑی قوموں کے لیے ڈان کو بطور پیشگی حکمت عملی استعمال کرنا بہت عام ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ڈانڈ کو بطور حکمت عملی استعمال کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ مسلسل دوسرے ممالک کو تجارتی بلاکس یا حملے کی دھمکیاں دیتا ہے اگر وہ عمل نہیں کرتے ہیں۔ ڈنڈ ایک حقیقی حکمت عملی ہے جسے 2019 میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نریندر مودی نے پاکستان کے لیے واٹر بلاکس ، ٹریڈ بلاکس اور ایئر اسپیس بلاکس لگا کر بھی اسی طرح کی حکمت عملی ترتیب دی ہے۔

بیڈ

اختلاف یا باہمی مداخلت یہ ایک حکمت عملی ہے جو حکم دیتی ہے۔ جو آپ چاہتے ہیں اسے حاصل کرنے کے لیے آپ کو اپنے دشمن کی صفوں کے درمیان آگ لگانی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دشمنوں کو آپس میں لڑائیں تاکہ وہ اندر سے کھوکھلے ہو جائیں اور ان کا تختہ الٹنا یا ان کی زمین پر قبضہ کرنا آسان ہو جائے۔

اگر آپ نے تاریخ کلاس اور اسلامیات کلاس میں تھوڑی توجہ دی ہے تو آپ آسانی سے بتا سکتے ہیں کہ یہودی اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1965 کی جنگ کے دوران یہودیوں کو بھارتی وزیر دفاع کے کان بھرنے کا سہرا بھی دیا جاتا ہے۔ بھارت کو بتانا کہ اگر وہ پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو اسے بید استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی وقت بنگلہ دیش کو الگ کرنے کے بیج بوئے گئے۔

Ideology of Chanakya and cancellation of #PAKvNZ

یہ انسانی دماغ کی خاصیت ہے کہ ایک بات اگر متعدد بار کہی جائے، چاہے جھوٹ ہی صحیح، مگر متعدد بار کہی جائے اور ایک وقت آتا ہے کہ انسانی دماغ اس چیز کو صحیح ماننے لگ جاتا ہے۔


کیونکہ

 نیو زی لینڈ کی ٹیم ۱۱ ستمبر کو پاکستان میں لینڈ کرتی ہے مگر ٹیم کے لینڈ کرنے سے پہلے ہی ۲۱ اگست ۲۰۲۱ یعنی کابل فتح ہونے کے چند دن بعد ہی انڈیا کے اخباروں میں شہ سرخی بنی ہوئی تھی کہ آنے والے دنوں میں نیوزی لینڈ کا دورہ پاکستان کینسل ہونے کی گھوشنہ ہے، ایک مہینہ پہلے کونسی ایسی چڑیا ان کے ہاتھ لگ گئی تھی؟ میرے نذدیک یہ prediction نہیں بلکہ scripted لگ رہی ہے۔
اوپر اگر بغور پڑھیں تو پڑھنے کے بعد نیچے موجود اسکرین شاٹ پڑھیں، پڑھنے کے بعد مجھےspontaneously وہی باپ بیٹے اور گدھے والی کہانی یادآرہی ہے جہاں چاہے باپ گدھے پر بیٹھے، بیٹا گدھے پر بیٹھے یا پھر کوئی بیٹھے ہی نہیں، لوگوں کا کام ہے کہ انگلیاں اٹھائیں، مگرہم نہ ہی کوئی جوکر ہیں نہ ہمارا کام ہر ایک کو خوش کرنا اور satisfy کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔
اب ایسے میں کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ بحیثیت پاکستانی، ہمیں پاکستانی ہوکر سوچنے کے بجائے ن لیگی، پی ٹی آئی والے، بن کر سوچنا زیادہ اہمیت کے حامل رہا، ورنہ ایسے موقع پر ہمیں پاکستانی ہوکر سوچنا چاہئے تھا۔ مگر افسوس کا مقام ہم پاکستانیوں کے لئے ہے جہاں بجائے یہ سوچنے کے لئے کہ ایک انٹرنیشنل گیم کا host country کو کیا فائدہ ہوتا ہے، مگر افسوس صد افسوس ہم ملک کے علاوہ سب کی سنتے ہیں۔ اب اگر میرے دائیں جانب موجود اسکرین شاٹ کی مان لوں تو یہ بتائیں کہ ۱۱ ستمبر سے NZ کی ٹیم جسے عرف عام میں بلیک کیپس بھی کہا جاتا ہے، پاکستان میں موجودہے، اگر واقعی میں سیکیورٹی کا مسئلہ تھا، تو ایسے میں بلیک کیپس کی سیکیورٹی ٹیم نے یہ چیز کیوں نہیں ہائی لائٹ کی؟ کیا بنگلادیش میں اتنی سخت سیکیورٹی نہیں تھی؟ تو سیکیورٹی کا نزلہ پاکستان کے منہ پر کیوں پھینکا جارہا ہے؟

ڈاٹس کو ملائیں اور اسٹوری دیکھیں

اب یہ بتائیں کہ انڈینز کو کیسے ۲۲ اگست کو پتا چل چکا تھا کہ کیوی ٹیم کے ساتھ پاکستان میں صورتحال صحیح نہیں ہوسکتی ہے، حالانکہ کیوی سیکیورٹی ٹیم مکمل طور پر satisfied ہوئی تھی جس کی بناہ پر بنائی گئی رپورٹ کی بنیاد پر کیوی ٹیم پاکستان ۱۱ ستمبر پاکستان لینڈ کرتی اور ۱۱ تاریخ سے ۱۶ تاریخ تک کوئی مسئلہ نہیں ہوا اور یک دم سے ۱۷ تاریخ کو ہم پاکستانیوں پر یہ خبر ٹوٹتی ہے، مجھے یاد ہے میں جلدی جلدی جمعہ کی نماز پڑھ کر نماز بریک کے دوران کھانا کھاتے ہوئے ٹاس کے لئے فون کھولا کہ ٹاس دیکھوں کہ کون ٹاس جیتنے لگا ہے، مگر خلاف توقع کچھ بھی نہیں آیا تو میں نے نیوز چینل پر متزلزل خبروں کی بھرمار تھی، کبھی آرہا تھا کہ کو وڈ کی وجہ سے، پھر سننے میں آیا کہ لوجسٹک کا مسئلہ ہوا اور دو بج کر ۱۰ منٹ پر خبر آنا اسٹارٹ ہوگئی کہ کیوی ٹیم پاکستان میں نہیں کھیلنی چاہتی، جس کے بعد پہلے اس دن کا کھیل، پھر راولپنڈی لیگ یعنی ون ڈے لیگ اور اس کے بعد پوری white ball سیریز ہی کینسل ہوگئی، وہ بھی ۲:۰۰ سے ۲:۳۰ بجے کے دوران۔ اس لئے میں ابھی بھی کہہ رہا ہوں، کہ things are not as simple as we are thinking اور ایسے میں this is the high time to think Pakistani کیونکہ اس واقعے سے زیادہ مجھے اس بات پر غصہ آیا کہ جہاں ملک کی اہمیت ہوتی ہے وہاں ہم سیاسی جماعتوں کی طرف داری کررہے ہیں۔

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting