Search me

Translate

نوجوانوں پر دباؤ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
نوجوانوں پر دباؤ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

معاشرتی ترقی کی راہ میں بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ کا رکاوٹ

بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ اور نوجوانوں پر اپنی رائے مسلط کرنے کا رجحان

ہماری معاشرتی ساخت میں ایک سنگین مسئلہ جڑ پکڑ چکا ہے، جو کہ بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ اور نوجوانوں پر اپنی رائے کو حتمی قرار دینے کا ہے۔ یہ رجحان اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ جو راستہ بزرگوں نے اپنایا، وہی واحد اور درست ہے۔ اس کے نتیجے میں نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتیں دب جاتی ہیں اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

تاریخی تناظر

اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہر ترقی یافتہ قوم نے وقت کے ساتھ خود کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے۔ صنعتی انقلاب کے دوران یورپ میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی جہاں روایتی زرعی معاشرتی ڈھانچے کو پیچھے چھوڑ کر نئی ٹیکنالوجی اور صنعتی مہارتوں کو اپنایا گیا۔ اسی طرح جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی ناکامیوں کو قبول کرتے ہوئے نئی حکمت عملی اختیار کی اور جدیدیت کو اپناتے ہوئے عالمی معیشت میں اپنی جگہ بنائی۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں تاریخی اسباق کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بزرگ اپنے ماضی کے تجربات کو حتمی سچائی سمجھتے ہوئے نوجوانوں کو اپنی ہی طرز پر زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں، چاہے دنیا کتنی ہی آگے کیوں نہ بڑھ چکی ہو۔

عالمی دنیا میں تبدیلی کا اصول

آج کی دنیا میں ترقی یافتہ اقوام مستقل خود کو اپ ڈیٹ کرتی ہیں۔ تعلیمی نظام، کاروباری حکمت عملیاں اور معاشرتی اقدار سب وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہیں۔ گوگل، ایپل اور ٹیسلا جیسی کمپنیاں اس کی مثال ہیں، جو جدید رجحانات اور نئی سوچ کو فروغ دیتی ہیں۔

اس کے برعکس ہمارے ہاں نوجوانوں کو روایتی سوچ کے مطابق چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہیں نئے آئیڈیاز پیش کرنے سے روکا جاتا ہے اور اکثر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو صرف "ناپختہ" کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔

صنفی امتیاز اور خواتین کا کردار

ہم نے اپنے معاشرے میں صنفی امتیاز کو بھی بڑھاوا دیا ہے۔ خواتین کو اکثر ایسے کرداروں میں قید کر دیا گیا ہے جہاں انہیں شور مچانے اور عملی طور پر کچھ نہ کرنے کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ جب ان سے کسی تعمیری کردار کی توقع کی جاتی ہے تو وہ یہی کہتی ہیں کہ "آپ نے بھی یہی کیا تھا۔" یہ رویہ نہ صرف معاشرتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ خواتین کی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔

بزرگوں کی سوچ میں یہ خود پسندانہ رویہ کیوں؟

  1. خوف اور عدم تحفظ: بزرگ اپنے تجربات اور فیصلوں کو محفوظ ترین سمجھتے ہیں اور نئے خیالات کو خطرہ سمجھتے ہیں۔
  2. سماجی تسلط: معاشرتی ڈھانچے میں بزرگوں کو ہمیشہ حتمی اتھارٹی سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی رائے کو ہی سچائی تصور کرتے ہیں۔
  3. تاریخی پس منظر: ماضی کے روایتی نظام جہاں استاد، والدین اور بزرگوں کی رائے کو بغیر سوال کیے قبول کرنا ہی ادب سمجھا جاتا تھا۔

حل کی راہیں

وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے معاشرتی رویوں میں تبدیلی لائیں۔

  1. بزرگوں کو رہنمائی کا کردار دینا: بزرگوں کی تجربات سے سیکھنا ضروری ہے، لیکن ان کی رائے کو حرف آخر ماننا نہیں۔
  2. نوجوانوں کی تخلیقی آزادی: نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں آزمانے اور تجربات کرنے کا موقع دینا چاہیے۔
  3. مسلسل سیکھنے کی روایت: تمام عمر سیکھنے کا عمل جاری رکھنا چاہیے، جیسے دنیا کی کامیاب اقوام کرتی ہیں۔

بزرگوں کی موجودگی اور توازن کی اہمیت

بزرگوں کی موجودگی ہماری زندگیوں میں اتنی ہی اہم ہے جتنی آکسیجن کا ہمارے جسم میں ہونا، اور ان کی رہنمائی کی ضرورت اتنی ہی ضروری ہے جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج۔ لیکن یہ سب کچھ توازن میں ہونا چاہیے۔ کیونکہ زندگی میں توازن سے ہی ہر چیز اپنی اصل جگہ پر صحیح طریقے سے کام کرتی ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ بزرگوں کی رہنمائی اہم ہے، لیکن ان کی رائے کو مکمل طور پر مسلط کرنے کی بجائے نوجوانوں کو اپنی آزادی، تخلیقی صلاحیتوں اور خیالات کو آزمانے کا موقع بھی ملنا چاہیے۔

جب تک ہم اپنے معاشرتی ڈھانچے میں یہ تبدیلی نہیں لائیں گے، تب تک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کا خطرہ رہے گا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہر نسل کی اپنی منفرد صلاحیتیں ہوتی ہیں اور انہیں دبانے کے بجائے اجاگر کرنا ہی معاشرتی ترقی کی کنجی ہے۔



بلاگ میں مزید دیکھیں

You might like

$results={5}