Search me

Mystery لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Mystery لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اس کو ban کرو، اس کو ban کرو، سب کچھ ہی ban کرو، مگر علاج کچھ نہیں کرو

سو چوہے کھا کر بِلی حج کو چلی

ہم پاکستانی سیاست دانوں کو گالیاں دیتے ہیںِ، ایسے میں مسلمان کہتے ہوئے ہمیں just mindset رکھنا چاہئے، کیونکہ اگر ہم کسی چیز کو غلط کہتے ہیں، تو اس پر جانب داری کا عنصر نہیں ہونا چاہئے، مگر پاکستانی معاشرے میں یہ چیز عام ہے کہ جانب داری جس کو انگریزی زبان میں nepotism اور favoritism میں کہا جاتا ہے، اور کوئی بھی مہذب معاشرے میں عنصر ہونا مشروط نہیں ہوتا ہے، جبکہ ہمارے پاس احساس کمتری کا عنصر موجود ہے، جس کی وجہ سے اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کی احساس "محرومی" موجود ہے، 

احساس محرومی؟ کس چیز کی محرومی؟؟؟

ایک چیز ہوتی ہے grace یعنی خوبصورتی کے معاملے میں استعمال، یعنی گفتگو میں احسن طریقے سے بات کرنا، کہ کوئی بد مذگی کی صورتحال پیش نا آئے، ایسے میں انگریزی زبان کی ایک term  ہے ripples effect یعنی جو آپ فرما رہے ہیں، اس کا ری ایکشن کیا آسکتا ہے، پاکستانیوں میں یہ چیز جان بوجھ کر ختم کی گئی ہے، جبکہ انڈینز سے میرا جتنا بھی اس حوالے سے interaction ہوا ہے، اس کے حساب سے ان کی نئی generation اس حوالے سے پاکستانیوں کے مقابلے میں کافی conscious ہے، جبکہ پاکستانیوں میں اس چیز کا sense نا ہونے کے برابر ہے۔

اس میں قصوروار کون ہے؟Who is accountable for this catastrophe in Pakistani society???

جیسے ایک بات کہی جاتی ہے، تالی ایک ہاتھ سے کبھی نہیں بجتی ہے، ٹھیک اسی طرح یہاں بھی وہی صورتحال ہے، مگر خاص طور پر یہاں point out ہمارے WhatsApp والے چاچاؤں کو criticize کروں گا، کیونکہ جس طرح کی خرافات ان لوگوں نے پھیلائی ہیں، بلکہ ہماری younger generation میں اتاولا پن کا عنصر کو جس طرح سے legalize کرنے میں ان کے کارنامے ہے، مگر ایک بات کہنا چاہوں گا، کہ صرف یہی کہنا ہے صرف اور صرف یہ ذمہ دار ہیں، یہ بھی غلط ہوگا، مگر یہ ایک factor ضرور ہے، 
ایک اور فیکٹر ہمارے پاس کی عورتیں ہیں، یہ تھوڑا complicated factor ہے اسی وجہ سے اس کو تھوڑا elaborate کر کے بولوں گا، کیونکہ یہ generational malfunctional disorder ہے جو کہ سالوں سے چل رہا ہے، کیونکہ عورتوں کو بچپن سے دبایا گیا ہےاور یہ بولا گیا ہے کہ شادی ہوجائے شادی کے بعد جو کرنا ہے کرو، جبکہ شادی کے بعد ساس بہو کی تو تو میں میں، اور وہاں بیچارہ شاہر دونوں کے بیچ میں sandwich بن رہا ہے، جبکہ میں یہاں مردوں کا پوائنٹ آف ویو بھی پیش کروں گا، جہاں مرد اپنی عورت سے مورل سپورٹ چاہ رہا ہوتا ہے، جو کہ اس کو نہیں ملتی، یہاں قصور مردوں کا بھی ہے، کیونکہ مردوں کو nipping on to the bud کی approach رکھنے کے بجائے جب سر پر پڑتی ہے، جب حرکت ہوتی ہے، 
اور جب بات authority management کی ہورہی ہے، تو یہاں بھی decision making کا right میاں بیوی کو ہونا چاہئے، مگر معذرت کے ساتھ یہاں کنٹرول اگر میری صورتحال کی بات کریں تو میری خود کی والدہ کی authority ہے، اب یہ بتائیں کہ اس موقع پر ہمیں guide کرنے کے بجائے اپنی من مانیاں کریں گے، just because اپنی age میں ان کی ساس یعنی میری دادی نے یہی کچھ ان کے ساتھ کیا تھا، تو اب ان کا ٹائم ہے، یہ tactic مجھے سمجھ نہیں آرہی، یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اس چیز کی تیاری کرنی چاہئے کہ میری بیوی یہی کچھ اپنے ٹائم پر کرے؟ کیا یہ معاشرہ ہم دینے کی تیاری میں ہیں؟

ہو سکتا ہے میں غلط ہوں، مگر میری سوچ ہے کہ یہ اسلام نہیں

بیشک اس بات پر مجھے گالیاں پڑے گی، مگر اسلام نے open ended approach رکھی ہے، جو restrictions ہیں وہ societal restrictions ہیں، ان کو اسلام سے ملانا اسلام کے ساتھ ملانا، اسلام کے ساتھ blasphemy ہے، اور اسی وجہ سے میں نے ہمارے قومی نصاب کو بھی کھل کر طنز مارا ہے کیونکہ time to time update ہونے کے بجائے ابھی بھی ماضی بعید کو پڑھایا جارہا ہے، جس کی وجہ سے (صرف ایک وجہ ہے) پڑھائی سے اسٹوڈنٹس کا دل اچاٹ ہوجاتا ہے، اور ایسے میں یوٹیوب پر موجود دانشور جیسے ڈاکٹر شاہد مسعود ٹائپ کے لوگ، (no offence) مگر وہ لوگ صرف اس untapped موقعے پر چوکا لگا رہے ہیں، اور (یہ بالکل نہیں کہہ رہا ہوں کہ وہ بالکل جھوٹ بولتے ) مگر یہ بول رہا ہوں کہ reality کو مسخ plagiarized کرکے اس میں اپنی چیزیں مکس کر کے اپنا نظریہ باور کراتے ہیں۔

چونکہ ہمارا نصاب دقیانوسی ہے

تو اسی وجہ سے ان فیکٹریوں (کیونکہ ان کو یونی ورسٹی، کالج، یا اسکول بولنا ان انسٹی ٹیوٹس کے لئے بے عزتی کے مترادف ہوگی) کیونکہ اسکول، کالجز، یونی ورسٹی کا کام اسٹوڈنٹس کو آگے زندگی میں face کرنے والے challenges کے لئے تیار کرنا ہوتا ہے، اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں، کیا ایسا کچھ produce یہاں سے ہورہا ہے؟ بلکہ الٹا ان فیکٹریوں سے جو پود نکل رہی ہے، shortcuts لینے میں زیادہ خوش ہوتی ہے بجائے اس کے کہ آگے کا سوچیں، بلکہ اسلام کی بات کرتے ہیں، تو اسلام نے اس کے لئے بھی ثواب رکھا ہے، کہ آگے آنے والے لئے بھی رستے سے اگر کنکر ہٹادیا تو ایسے میں اس پر بھی ثواب ہے، جبکہ یہاں inferiority complex یعنی احساس کمتری / احساس محرومی کے شکار پاکستانی معاشرہ دوسرے کا رستہ روکنے میں ذیادہ خوش ہوتا ہے۔

کراچی کی دیواریں "محبوب آپ کے قدموں میں" سے بھری ہوئی ہیں

شہر کی دیواریں شہر میں رہنے والوں کی عکاس ہوتی ہیں، اور اگر کسی شہر کی دیواریں اس طرح کے وال چاکنگ سے بھری ہوئی ہیں، تو اندازہ لگالیں، کہ یہ فیکٹریوں نے کیسی پود پیدا کی ہے، 

ہمارا curriculum

Curriculum کا مقصد کیا ہوتا ہے؟

ایک تازہ ترین نصاب کا ہونا کامیابی کے لئے سب سے اہم ہے, یہ استاد کو اضافی ، تازہ ترین معلومات تلاش کرنے کے لئے تحقیق کے بغیر اس نصاب کو استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ایک تازہ ترین نصاب سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، علمی سوچ کو مضبوط کرتا ہے، تجسس کو فروغ دیتا ہے، کلاس روم کی تدریس میں ملازمت کرتا ہے، گروپ مطالعہ، خود اعتمادی اور خود شعور کو فروغ دیتا ہے، خود کی ترقی کو فروغ دیتا ہے، زندگی اور نرم مہارتوں کو بڑھاتا ہے.
نصاب کو اپ ڈیٹ کرنا نہ صرف فرد بلکہ مجموعی طور پر تعلیم کی مجموعی ترقی کے لئے فائدہ مند ہے۔

پاکستانی curriculum کی حیثیت

پاکستانی کری کیولم جسے عرف عام میں میں پاکستانی نصاب بھی کہا جاتا ہے، یہاں پاکستانی نصاب ایک طرح کی monotony ہمارے معاشرے میں instill کردی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے offsprings جو یہ نصاب پڑھ کر دنیا میں نکل رہے ہیں ان کی وجہ سے دنیا میں پاکستان جو نام "روشن" ہورہا ہے اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں۔

پاکستانی نصاب اور پاکستانی نصاب کی وجہ سے برامد ہونے والی megalomaniac mindset

اس مائینڈ سیٹ کو اردو زبان میں اگر بات کریں اس احساس کمتری کے احساس کو احساس برتری میں خیال کرنا آپ کی خود کی جہالت ہے، میں کوئی ماہر نہیں مگر میں اسلام کو فالو کرتا ہوں، اور اسلام کے حساب سے آپ کو کہیں بھی اپنے آپ کو برتی صرف اس لئے ڈالنا کہ دوسرے کے اوپر dominate کریں، اسلام کہیں بھی یہ نہیں کہتا ہے کہ آپ dominate کریں صرف اہنی authority کو ثابت کرنے کے لئے، کیونکہ بیشک شارٹ رن میں آپ جیت جائیں مگر لانگ رن long run میں اس کے ripples effect کی وجہ سے جو اثرات پیش آتے ہیں، اسلام اس جانب اشارہ کرتا ہے، جبکہ ہم یہاں subjective Islam کو فالو کررہے ہیں، جس کی وجہ سے اپنی مرضی کے point-to-point اسلام کو فالو کر کے ہم نے اپنے آس پاس کے لوگوں کو صرف اپنے آپ کو اوپر دکھانے دوسرے کو نیچا دکھانا جو کہ پروپگینڈہ نیچر کے مترادف ہے کیونکہ ہمارے پاس کے نیوز چینلز نے ہمارے معاشرے کو بگاڑنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے۔

بے غیرتی معاشرے میں بھرنے میں ہمارے نیوز چینلز کے کارنامے

حالانکہ مجھے یہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے، مگر جو احساس کمتری ہمارے نیوز چینلز نے معاشرے میں بھر دیا ہے کہ بحث اور بد تمیزی میں جو فرق ہوتا تھا اس کو ہی diminish کردیا ہے، جس کی وجہ سے for the time being یہ لوگ argument جیت جاتے ہیں، مگر اس کے ripples effect کے اثرات دور رس دکھائے دیتے ہیں، کیونکہ پاکستانی معاشرے میں جو یہ نیا ٹرینڈ اجاگر ہورہا ہے، جہاں بدلہ لینا، موقع پر فائدہ اٹھانا جبکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ benefit of doubt دینا چاہئے، ویسے بھی اسلام میں ہمیں کسی کو جج کرنے کا حق کہیں بھی نہیں دیا ہے، کیونکہ یہ حق اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ میں اسی لئے رکھا ہے کیونکہ اللہ تعالی جانتا ہے بلکہ جبکہ حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا جارہا تھا، تو فرشتوں نے اللہ تعالی کو بتا دیا تھا کہ یہ مخلوق زمین پر فساد برپا کرے گی، تو ایسے میں اللہ تعالی کا جواب یہی تھا کہ جو میں دیکھ رہا ہوں وہ تم نہیں دیکھ رہے، تو ایسے میں اللہ تعالی نے یہ چیز اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی حکمت دکھائی، تو کیونکر ہم خدا کی زمین پر رہ کر جو کہ نظام شمسی کی بنیاد پر دیکھیں تو ایک ذرے سے ذیادہ اوقات نہیں، وہاں ہم زمینی خدا بن کر کونسا عقلمندی کا مظاہرہ کررہے ہیں؟؟؟

میں نیوز چینلز کو اس لئے criticize کررہا ہوں

کیونکہ 
  1. صحیح غلط کی تمیز کو بالکل ختم کردیا ہے
  2. لوگوں میں پڑھنے لکھنے کا شوق ختم کردیا ہے
  3. ٹرک کی بتی کے پیچھے لوگوں کو لگا دیا ہے
  4. ایک ہی بات کو repeatedly repeat کر کر کے اپنی بات کو صحیح باور کرنے میں اپنی جیت سمجھتے ہیں

میں کیوں اتنا تپا ہوا ہوں

میں بیشک بد تمیز دکھائی دے رہا ہوں گا، مگر جب اپنی زندگی  سے متعلق decisions مجھے ہی لینے ہیں، تو بلا وجہ کا مجھے criticize کس بات پر کررہے ہیں
بیشک میں مانتا ہوں ہر چیز میں بڑے غلط نہیں ہوتے، اور میں ان سے کافی چیزوں میں بالکل agreed ہوں، مگر کیا ہمارے بڑے بزرگوں کے decisions سے جو موجودہ معاشرہ آج ہمارے سامنے موجود ہے، جہاں نفسا نفسی موجود ہے اور جہاں ان کے decisions کی وجہ سے ہی معاشرہ تشکیل ہوا ہے، جو کہ ایک conformity bias کی بنیاد پر تشکیل ہوا ہے، تو ایسے میں اگر میں اس conformity bias کو debunk کر کے اپنے رستے نکلنا چاہا تو وہاں مجھے مجھے ایسی ایسی باتیں کہی گئیں جیسے سارا قصور میرا ہی ہے، 
جبکہ میں فری ایجو کیشن کی وجہ سے اٹلی جانا چاہتا تھا کیونکہ میں نے اپنا assessment کرایا تھا، اس کے حساب سے ۱۶ سال کا ایم بی اے ان لوگوں کے سامنے ۱۳ ۱۴ سال بن رہے تھے، پلس پاکستان میں ابھی بھی جو manual banking ہورہی ہے اس سے میں باہر نکلنا چاہتا تھا، تو ایسے میں میں نے یہ decision لیا تھا کہ یہاں میں کرسکتا ہوں، پھر میرا بینک سے لون loan حاصل ہونے میں ٹائم لگنا تھا تو ایسے میں میں نے گھر والوں سے مدد مانگی فروری ۲۰۲۳ میں کہ پہلی قسط کے پیسے دے دیں، میرا loan ملنے میں امید یہی تھی کہ مئی ۲۰۲۳ تک ملے گا، اور ہوا بھی وہی، مگر میرا وقت ضائع کر کے میرےلئے دبئی کی آفر لے کر آتے ہیں، let me be brutally honest here میرا assessment نے مجھے میری اوقات بتادی تھی کہ میں کہاں کھڑا ہوا ہوں، تو ایسے میں اس حالت میں دبئی میں کتنا ٹائم survive کرتا؟ دبئی خود digitalize ہورہا ہے، تو ایسے میں کیسے اپنے مستقبل کے لئے اتنا بڑا رسک لیتا؟ میری اسکل کی باہر کی دنیا میں ۱ سال سے ۵ سال کے دوران ہی استعمال ہے، اس کےے بعد کبھی نا کبھی مجھے ایجوکیشن کرنی ہوتی، تو ایسے میں proactive approach رکھتے ہوئے میں نے یہ رسک لیا تو میرے والدین اور میرے بیوی دونوں میرے مخالفت میں کھڑے ہوگئے۔

Literal SWOT analysis نکالا تھا اپنا 

اس کے حساب سے یہ پوائنٹ میری کمزوری تھی اور اس کی وجہ سے عمر گزرنے کے بعد پڑھائی کرنا میرے لئے threat تھا، مگر جیسے میں نے کہا پاکستانی معاشرے میں جو so-called احساس برتری کا احساس جو کہ در اصل احساس کمتری ہے، میرے ساتھ یہ ہوا، کیونکہ مجھے یہ طعنے تک دئے گئے، کہ تم نے شادی اپنے پیسوں سے نہیں کی تو اب ہم سے مدد مانگ رہے ہو، میں نے کونسی ایسی حرام مدد مانگی تھی، والدین ایسے موقعوں پر مدد کرتے ہیں، مگر یہاں مدد نہیں بھی کرتے مگر جو اس طرح اور اس سے بڑھ کر باتیں جو کیں، ان لوگوں سے نفرت ہوچکی ہے مجھے۔


پاکستان کا ازلی دشمن،

جب بھی ہم ازلی دشمن کی بات کرتے ہیں، ہمارے ذہنوں میں سب سے پہلے بھارت کا نام آتا ہے، مگر میرے نذدیک ہمارا سب سے

بڑا دشمن ہماری ignorance ہے۔ کیونکہ پہلی بات یہی ہے کہ جمہوریت اور پارلیمانی سسٹم میں فرق کا شعور ہونا چاہئے، بصورت دیگر اگر کسی ********** کے ********* کو ایک بریانی، ایک سموسے یا پھر ایک ہزار روپے کے عیوض پانچ سال کے لئے اپنے سر پر بٹھالیتے ہیں، یا پھر کسی کی گلی میں نالا بنانے کے عیوض آپ کو کراچی میں حکومت مل جاتی ہے، بلکہ معذرت کے ساتھ کراچی میں activities کے لئے مختص vicinity کس طرح یادگار کے طور پر اپارٹمنٹس میں تبدیل پوا؟ 

کیونکہ جمہوریت میں 

جمہوریت میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ جمہور کی نمائندگی کرنا، یعنی جس طرح مسلمانوں کی صورتحال ہوچکی ہے کہ جمہور کی نمائندگی میں فتوے مل چکے ہیں جہاں مسلمان علما نے ہندوستان میں سورج کی پرستش جس کو اب بھارت میں قانون بنادیا گیا ہے، یعنی کوئی اگر ان traditions کو follow نہیں بھی کرنا چاہتا تو ایسا کوئی آپشن نہیں، کیونکہ جمہوریت کی رو سے یہ جمہور کی نمائندگی ہے، یعنی اگر پاکستان میں بھی جمہوریت کو ہمارے ہر مسائل کا حل بنا کر دکھایا جئے، جس کو ہمارے معزز سیاسی جماعتیں مفاہمتی (منفقانہ) پالیسی کو استعمال کررہی ہیں، اور کراچی میں اپنا ووٹ بینک بنارہیں ہیں، مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں، مجھے مسئلہ لوگوں سے ہے، جن کے اوپر ایک scientific جمہوریت نافذ کردیا گیا ہے، کیونکہ جیسے میں نے اوپر کہیں لکھا ہے، کسی نے آپ کے لئے کوئی کام کردیا ہے، تو جمہوریت کے رو کے حساب سے آپ کو facilitate کیا جائے گا، مگر پاکستان کہاں ہے؟

پاکستان میں اور کراچی میں جمہوریت کی وجہ سے

 جمہوریت کی رو سے اگر majority یعنی جمہور اس بات کی اجازت دے دے کہ پاکستان میں پیپسی یا کوکا کولا کی جگہ Wine، برینڈی اور Beer کو allow کردیا جائے، تو جمہوریت کی رو سے اس کو allow کردیا جائگا، اس کے لئے صرف آپ کو extensive مائنڈ پروگرامنگ کرانی پڑے گی، تاکہ علما کے قلم سے ایسے فتوے لکھوائے جائیں جس کی رو سے demand and acceptance کو create کیا جائے، جو کہ Post-Musharraf Era ہمارے سیاسی جماعتیں لگی ہوئی ہیں، بجائے اس کے کہ عوام اور پاکستان کے مسائل کو حل کرانے کے، پانچ سال ایک سرکس کی طرح اپنے ادوار مکمل کریں گے اور نتیجے میں آپ خود پی پی پی، پی ایم ایل این، اور ابھی پی ٹی آئی بھی اسی نقش قدم پر چل رہی ہے، بجائے اس کے کہ یہ سب ڈرامہ کے بجائے ہمارے اور پاکستان کے مسائل پر توجہ دینے کے، again یہاں بھی مسئلہ سیاسی شعور کی لاعلمی کی وجہ سے ہے.

ویسے بھی

سائنسی جریدے پولیٹیکل سائیکالوجی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جو لوگ سیاست کے بارے میں کم جانتے ہیں وہ اپنے سیاسی علم کے بارے میں زیادہ پراعتماد ہوتے ہیں۔ نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جب متعصبانہ شناختوں کو چالو کیا گیا تو یہ اثر بڑھ گیا۔

"Dunning-Kruger Effect کا خیال ہے کہ جن افراد کو کسی موضوع کے بارے میں بہت کم علم ہے، وہ سب سے زیادہ پراعتماد ہوں گے کہ وہ اس موضوع کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ باشعور افراد بھی اپنی علمیت میں رعایت کریں گے، "مطالعہ کے مصنف ایان آنسن، یونیورسٹی آف میری لینڈ، بالٹیمور کاؤنٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر نے وضاحت کی۔

"2016 کے انتخابات کے دوران دیگر اسکالرز کو ٹویٹر پر اس موضوع پر بحث کرنے کے مشاہدے کے بعد میں ڈننگ-کروگر اثر میں تیزی سے دلچسپی لینے لگا۔ میں متعدد سیاسی ماہر نفسیات کی پیروی کرتا ہوں جنہوں نے سوشل میڈیا پنڈت طبقے پر حیرانی کا اظہار کیا، جو کہ انتخابات کی اپنی بھرپور کوریج میں 'ڈننگ-کروگیرش رجحانات' کا بظاہر مظاہرہ کرتے ہیں۔

کراچی کو جس طرح سے exploit کیا جارہا ہے

کیونکہ ہم لوگوں میں سیاسی شعور نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہم نے ایک بریانی کی پلیٹ کے لئے پانچ سالوں کے لئے

without accountability ان چوروں کو پورے پاکستان پر مسلط کردیتے ہیں اور نتیجے میں یادگار کے نام پر یا سیاسی جماعتوں کے اثر پر پلے گراؤنڈ کی ذمین پر اپنا ووٹ بینک قائم کرلیں گے، کیونکہ یہ پاکستانی جمہوریت ہے۔ اور پاکستانی جمہوریت ہونے کے ناطے، یہ ایکشن ہمارے اپنے اندر سیاسی غیر شعوری کی عکاس ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے بھی فرمایا ہے جس کا متن یہی ہے کہ جیسی عوام ہوگی، ویسے ہی حکمران ہوں گے، کیونکہ عوام اور حکمران دونوں ایک ہی سکے کی دو الگ، الگ سائیڈ یعنی ایک سکے کا چاند ہے اور دوسرا چھاپ، مگر اس سیاسی غیر شعوری کی وجہ سے میرا اپنا یہ ماننا ہے کہ ہم پاکستانی جمہوری سیاست سے پالکل نا آشنا ہے، 

اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں، ایک subtle disclaimer 

یہاں میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا ہوں کہ کراچی صرف کسی ایک کا ہے، کراچی پورے پاکستان کا ہے، مگر کراچی کو جینے دو، اپنے ووٹ بینک کو پروان چڑھانے کے لئے مونٹیسری نہ بنایا جائے، کیونکہ اس ووٹ بینک بنانے کے چکر میں کراچی کی شکل مسخ کردی ہے، جہاں گرین بیلٹس اور storm water drainage ہونی چاہئے تھی، وہاں آبادیاں اور کالونیاں بنا دی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں کراچی اپنی جاہلیت کی وجہ سے مسخ ہورہا ہے۔


Pakistan currency and its symbol

خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور یہ چیز آج prove کرتی ہے

 کیونکہ جس طرح جنرل بیپن راوت نے یہ بات کہی تھی کہ ہم کشمیریوں کا ڈی این اے تبدیل کریں گے، اور ۲۷ فروری کو ہاٹ لائن پر یہ بات کہی گئی کہ ان کو رستے سے ہٹاؤ ورنہ یہ ہمارے نشانے پر ہیں، آج ان کا انتم سنسکار ہوا ہے۔

مسلمان ہونے کے ناطے مجھے ایسا نہیں کہنا چاہئے

مگر اس طرح کے لوگ اور دیسی لبرلز جن کو یہ دکھائی دے رہا تھا کہ فیصل آباد میں عورتوں کو مبینہ طور پر برہنہ کیا گیا، حالانکہ اگر آپ اپنے آپ کو لبرل کہتے ہو، تو آپ کو کسی بھی بات کو کراس چیک کرنا چاہئے، ایسی کوئی بات کسی تصدیق کے نہیں کرنی چاہئے تھی کہ یہ ٹھیک نہیں ہوا، میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ ٹھیک بالکل نہیں ہوا، مگر ایک ٹرم جو ہم نے ہالی ووڈ سے adopt کی ہے، Cause and Effect، یعنی جو ایکشن آپ کرتے ہیں، اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں، اس کے بارے میں خیال رکھنا I guess لبرلز کی خصلت ہوتی ہے، نہ کہ یہ کہ جس ملک میں آپ رہ رہے ہیں اس میں کوئی contribution نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ اگر آپ لبرل ہیں، تو جس طرح ہہ لبرل ازم آپ لوگوں نے مائنڈ پروگرامنگ کے ذریعے سے سرعیت کی ہے، اس کا صرف ۱ فیصد اگرچہ لوگوں میں اس چیز کا شعور ڈالنے میں لگاتے کہ ٹیکس کے پیسوں کو کیسے utilize کریں، اس کا سوال کرنا سکھاتے کہ ہم ٹیکس کا پیسہ دے رہے ہیں تو اس کا فائدہ کیا مل رہا ہے، کیا یہ چیز آپ لبرلز کی ہے؟

میں لبرل نہیں

کیونکہ کم سے کم میں آپ لوگوں کی طرح منافق نہیں ہوں، خاص طور پر آپ لوگ اور ہمارے ـمعزز میڈیا والےـ کیونکہ اگر آپ کیپشن کو پڑھیں تو کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ ڈیفینیشن ہمارے میڈیا گروپ والوں پر بالکل ٹھیک بیٹھتی؟ کیا ہمارا میڈیا دنیا میں ہمیں یہ show نہیں کراتا کہ ہم (پاکستانی) دنیا کے نقشے پر بدنما داغ ہیں، اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ ہمیں یہ بھی show کیا جاتا ہے کہ ان کا معاشرہ سب سے بہترین ہے، جبکہ خود بتائیں، مجھے یہ بات یہاں لکھنی چاہئے یا نہیں مگر اب جب کھل کر بات کرنی ہے تو ایسا ہی صحیح، مگر ان کے معاشرے میں ۱۸ سال کی عمر میں اگر کوئی لڑکی کنواری رہتی ہے تو اس لڑکی کو کیا کیا القابات سے نوازا جاتا ہے، الامان الخر، بلکہ ان کے معاشرے میں یہ نارمل بات ہے کہ ۱۸ویں سالگرہ تک اپنی کنوارا پن سے جان چھوڑے، اور آپ لبرلز یہ کہہ رہے ہو کہ ہم پیک ورڈ ہیں اور ہمیں اپنی معاشرتی اقدار کو چھوڑ کر ان کو اپنانا چاہئے، جو کہ ویسے بھی بحری قذاقوں کی اولادوں میں سے ہیں، میں مانتا ہوں، غلطیاں ہماری بھی ہیں، مگر یہ بتائیں کہ کیا اس چیز کی آزادی آپ کو انڈیا میں ملے گی، جو آپ کو پاکستان میں مل رہی ہے کہ جو منہ میں آئے بھونک دو؟ انسانوں کا کام گفتگو کرنا ہوتا ہے، بھونکنا نہیں، آپ سے گزارش یہی ہے کہ براہ مہربانی جتنی energy بھونکنے میں لگاتے ہیں، اس کا ایک فیصد (پھر سے) استعمال کرلیتے تو کم سے کم اور کسی نہ کسی حد تک انسان لگتے، اور انسان کبھی منافق نہیں ہوتا ہے، منافقت غیر انسانی فطرت ہے، اور اس معاملے میں شیطانی عمل ہے، کیونکہ انسان دوست ہوتا ہے، اور دوستی و منافقت میں کوئی relation نہیں تو ایسے میں اگرچہ آپ اور ہمارا میڈیا کسی منافق سے کم نہیں۔

جس طرح فیصل آباد کو میڈیا والوں نے ٹرینڈ کیا 

اور ثالث کا کردار ادا کیا، اس سے بڑی منافقت کوئی نہیں ہے، کیونکہ مجھے یاد ہے جب سری لنکن مینیجر والا واقعہ ہوا تھا، تو ایسے میں پہلے میڈیا والوں نے بجائے constructively چیزوں کو tackle کرنے کے بجائے یعنی لوگوں کو گائڈ کرنا کہ کسی بھی معاملے میں اس طرح کا بیان دینا وہ بھی اس وقت جب prove نہیں ہوا کہ واقعی میں گستاخی ہوئی تھی یا نہیں، کیونکہ ہمارے پاس کے لوگوں میں (ہر ایک میں نہیں) مگر یہ عادت ہے کہ کوئی benefit مل رہا ہوتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ میرے ساتھی کو بھی اس میں سے کچھ مل جائے، بلکہ اب سوچ یہ ہوتی ہے کہ اس کو ملے نہ ملے، اس کا بھی مجھے مل جائے، ہمارے ٹریفک کا حال ہی دیکھ لیں، میں صفحوں کو مزید گندا نہیں کرنا چاہتا کہ ہم سب نے دیکھا ہے کہ ایک گاڑی کس طرح لائن کی پاسداری کرتی ہے، اور ٹریفک سگنل کے کتنے آگے کھڑی ہوتی، بجائے اسکے کے تھوڑا انتظار کرلے، گاڑی گزرے گی تو اس کے پیچھے گیپ میں نکلے، مگر ہمیں یہ عادت ہے کہ میں پہلے نکل جاؤں، اور انتظار کرنا میری شان کے خلاف ہے، 

مسئلہ ہم میں ہی ہے

بے شک میں لبرل نہیں مگر بات یہی ہے کہ جس طرح کے نفسا نفسی کے دور میں ہم موجود ہیں، ایسے میں ہم نے تحقیق اور کراس چیکنگ کا عنصر بھی اپنے اندر سے یکسر ختم کردیا ہے، ورنہ جن کو کلمہ پڑھنا، اس کا مفہوم اور مطلب نہیں آتا، چلو یہ تو بہت بڑی بات کررہا ہوں، شعور نہیں ہو، ان کے منہ سے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ ہم نے ناموسِ رسالت ﷺ کا خیال کیا ہے، جبکہ ہمارے مذہب میں ایسا کوئی concept نہیں ہے، 

مسجدِ نبوی ﷺ میں رفع حاجت والے واقعہ کی مثال

جہاں ایک کمزور دماغ والا بندہ غلطی سے مسجد نبوی میں پیشاب کردیتا ہے، ایسا کوئی واقعہ اگر چہ آج ہوجاتا، تو اس بندے کا بالکل اس سری لنکن منیجر کی طرح نام و نشان موجود نہیں رہتا کیونکہ ہم نے لکھنا پڑھنا اور اس کے ساتھ لکھنے پڑھنے کا شعور اپنے اندر سے بالکل ختم کردیا ہے، جبکہ آپ ﷺ نے اس وقت یہ عمل نہ صرف کرنے دیا بلکہ بعد از خود ڈول کے ذریعے پانی بہا کر جگہ صاف کردی، جس کی بدولت آپ ﷺ کے رویے سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا، ہمارے بڑوں نے اپنا رویہ کس پائے پر رکھا، اور یہاں ہم نے اپنے آپ کو حیوانیت کے دلدل میں ڈال دیا ہے۔

دشمن کے پلان میں ایندھن بننے میں ہمیں کیا اچھا لگتا ہے؟

اوپر جب میں نے جنرل بیپن راوت کا زکر کیا تو یہ کہا کہ کشمیریوں کا ڈی این اے تبدیل کریں گے، ایسا کرنے کے لئے ان کو اندر کے بھیدی چاہئے ہوتے ہیں، اور یہ ہمارے پاس کے لوگوں کی کمزوری ہے، تعلیم ہونا نہ ہونا کوئی criteria نہیں، مگر اصل بات یہی ہے کہ بندے کے اندر شعور ہونا چاہئے کہ اگر اس طریقے سے پیسے کما بھی لے گا، تو کیا وہ آزادی اس کو میسر رہے گی جو روکھی سوکھی کھا کر اس کو میسر ہوتی ہے؟ یہ بات شعور کی ہوتی ہے۔ کیونکہ فیصل آباد کے واقعے میں مجھے صاف طور پر یہ لگا کہ ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ کیسے ان کے اس ایکشن کو دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف نہ صرف استعمال کریں گے، بلکہ ان کی اپنی individuality اور respect ختم ہوچکی ہے، بلکہ ان کے اس ایکشن کی وجہ سے عورت زات کی عزت ہمارے معاشرے سے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس کی ایک مثال مذہب سے دوری بھی ہے

کیونکہ یہ دونوں واقعات لبرلز کو ایک موقع دینے کے برابر ہے جہاں ridiculing the religion and faith and beliefs ان لوگوں کا مین اور کور پروگرام ہوتا ہے، keeping in mind آج کے زمانے میں معلومات کا زخیرہ ہے جبکہ علم اٹھا لیا گیا ہے، کیونکہ معلومات ایک حیوان کو بھی ہوتی ہے مگر اس کو استعمال کرنے کا ڈھنگ ہمیں علم فراہم کرتا ہے، تو آپ خود بتائیں، اس مینجر کی لاش کے ساتھ بے حرمتی کرتے ہوئے لبیک یا رسول اللہ بولتے ہوئے آپ نے blasphemy نہیں کی؟ جبکہ آپ منافق بھی ہو، مذہب کی مانتے بالکل نہیں ہو، مگر جہاں اپنی بات آجائے، مذہب میں اپنی مطلب کی شق کو اپنے حساب سے استعمال کرنا از خود منافقت نہیں؟ جبکہ بقول سی سی ٹی وی، اس کو اردو اور عربی نہیں پڑھنی آتی تھی، تو ایسے میں it was unintentional اور جب اس کو پتا چلا کہ اس سے یہ حرکت ہوئی ہے، تو اس نے معافی بھی مانگی، مگر منافقت یہی ہے کہ اپنے personal scores کو settle کرنے کے لئے اسلام اور پاکستان کی دھجیاں بکھیرنے میں ہم لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔

اب دیکھیں ہمارے خلاف کیا ٹرینڈ چل رہا ہے

ہم نے لوگوں کو کیا موقع دے دیا ہے کہ ابھی ہم رو رہے ہوتے ہیں کہ نوکریاں نہیں ہیں، جبکہ ہمارے آج کے ایکشن سے آنے والے وقت کی نوکریاں بھی کھا چکے ہیں۔

https://twitter.com/hashtag/withdrawgspplusfrompak?src=hashtag_click

کراچی میں ایک روزہ پیٹرول کی بندش

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting