میں عام طور پر اس طرح کے ٹاپک کو اجتناب کرتا ہوں، کیونکہ میں بلاوجہ کا اپنے آپ کو راکھی ساونت نہیں دکھانا چاہتا ہوں، مگر جب ایک پاکستانی ٹی وی چینل کے ایوارڈ شو کی کلپس لیک ہوئی تو اندازہ ہوا دنیا کہاں پہنچ چکی ہے، اور میں کہاں بیٹھا ہوں، ویسے مجھے ۲۰۰۳ میں پاکستانی میڈیا کو دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ کہیں نہ کہیں پاکستان میں بھی یہ چیزیں زور پکڑیں گی، جو کہ ۱۷ سال بعد پاکستان میں ایک reality ہے، بے شک اس کا reaction بہت سخت آیا ہے مگر یاد کریں، پاکستان میں یہی چیز پہلے بھی ہوچکی ہے جب پاکستان میں پہلی پہلی دفعہ عورتوں کے سینیٹری نیپکنز کو introduce کرایا جارہا تھا، تو پہلی بار جتنا reaction آیا تھا، تیسری بار میں سوسائٹی نے accept کرلیا تھا۔ کیونکہ implementation کے دو طریقہ کار ہوتے ہیں، ایک forcefully implement کرائی جاتی ہے اور دوسرے معاملے میں implementation at will ہے، یہاں معاملہ forcefully implementation کا ہے، جہاں یہ بات بھی ماننے کی ہے کہ ۷ بار ایک چیز کو بار بار دکھایا جائے تو آہستہ آہستہ ہمارا ذہن اس تبدیلی کو ماننا اسٹارٹ کردیتا ہے، اور یہی چیز آج پاکستان میں حاوی ہے، کہ بذریعہ زور زبردستی اپنا حکم سر خم منوائیں۔
۲۰۰۳ میں
اگر آپ یہ پکچر اور اسی طرح کی اور پکچرز دیکھیں تو ایک چیز واضع ہوتی ہے کہ ۲۰۰۶ کے فون revolution سے پہلے کے زمانے میں یہ seduction کی tactics نہیں ہوتی تھی بلکہ اس زمانہ میں ڈوپٹہ کو seduction tools کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اور اسی بناہ پر لڑکی کے لئے لڑکا اور لڑکے کے لئے لڑکی untouchable تھے، مگر اسکی وجہ سے دونوں جنس میں متوازن فرق رکھا جاتا تھا، جو کہ اچھی بات تھی، کیونکہ اس کی وجہ سے عورتوں کو بکاؤ مال کے طور پر نہیں treat کیا جاتا تھا۔ کیونکہ اسی وجہ سے آپ غور کریں ہمارے پاس کے لڑکی لڑکوں میں وہ مچیورٹی نہیں ہے، کیونکہ خود دیکھیں ایک پاکستانی لڑکی جو کراچی میں بیٹھی ہوئی اور ایک پاکستانی لڑکی جو پاکستان سے باہر بیٹھی ہے، دونوں کے ذہنی لیول کو دیکھ لیں فرق صاف ظاہر ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ ہے وہ ہے فلاں ڈھمکانا، مگر چونکہ ہم منافق ہیں، تو یہ بات کی وجہ سے ہم نے پاکستان کو کہاں ۱۹۵۰ میں ویسٹ جرمنی کو loan دیا تھا، اور آج ہم اس پستی میں ہیں۔
۲۰۰۶ کا موبائل ریوولوشن
۲۰۰۶ کا موبائل ریوولوشن اس صورتحال میں وہی کام کیا جو سلگتے ہوئے کوئلوں پر پنکھا کرتا ہے، یعنی آگ ذیادہ بھڑکائی بھی نہیں، بلکہ ہلکی پھلکی آگ سلگتے ہوئے رکھی، کیونکہ اس ریوولوشن سے پہلے لیپ ٹاپ کسی کے پاس ہوتا تھا تو دوسرے اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، مگر اس کے بعد موبائل کمپیوٹنگ کا زمانہ آتا ہے، یہاں موبائل سے مراد پورٹی بلیٹی ہے، کیونکہ پہلے جو بھی کام ہوتا تھا گھر پر موجود پی سی، اور پھر وہاں سے Lexar کی یو ایس بی سے آفس کے کمپیوٹر میں ٹرنسفر ہوتا تھا، مگر پھر اس ریوولوشن کے بعد ہر چیز real time میں اپ ڈیٹ ہونے لگی، اور مجھے کچھ کچھ یاد ہے فیس بک نے اسی زمانے میں فیس بک لائیو کا concept کو reveal کیا تھا جو آج ایک common چیز ہے، مگر یہی وہ point in time تھا جہاں سے یہ سب مسائل اسٹارٹ ہوئے، لوگوں کو اپنی احساس کمتری کو satisfy کرنے کے لئے فیس بک لائیو، واٹس ایپ لائیو، اسنیپ چیٹ وغیرہ کی سہولت میسر ہوئی، مگر چونکہ ہماری ذہنی ڈیویلپمنٹ نہیں ہوئی ہے، تو ہم نے اپنے اندر کی ٹھرک پن کو تسکین پہنچانے کے لئے استعمال شروع کردیا، جبکہ دوسری جانب جائیں جو ای سی بی یعنی انگلش کرکٹ بورڈ کا بھی ٹک ٹاک ہینڈلر موجود ہے مگر کیا وہاں ای سی بی کے ماتحت کرکٹرز کیا لندن کی لڑکیوں کی ٹھرک پن کی تسکین پہنچاتے ہیں؟؟؟ بات سوچ کی ہے۔ دنیا کو ہم کیا بتا رہے ہیں، کہ پاکستان یہ ہے، سوشلی ہم اتنے ٹھرکی ہیں۔۔۔ شرم کا مقام ہے ہمارے لئے دو وجہ سے، ایک تو ٹھرک پن دوسرا کس طرح پاکستان کو دنیا بھر میں ٹھرکی دیکھا رہے ہیں!
میں یہ نہیں کہہ رہا
کہ جو بھی اس ایوارڈ شو میں ہوا بالکل ٹھیک ہوا، مگر میرا یہ پوائینٹ آف ویو یہ ہے کہ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو ایکٹیوٹی کے نام پر کیا دیا ہے؟ اسلام کو بالکل فالو کریں مگر بات ساری یہ ہے کہ majority wise ہمارے معاشرے میں کوئی ایکٹیوٹی ہے؟ ہم نے اپنے پیارے مذہب کو تعویذ وغیرہ کی نظر کردیا ہے، یہ بتائیں کتنے astronomical sites بنی ہوئی ہیں جہاں مجھ جیسے شوقین لوگ کراچی سے بذریعہ دوربین دوسرے سیاروں، چاند وغیرہ دیکھیں؟ صرف یہی نہیں، کوئی vocational training سینٹر اسٹارٹ کیا؟ کیا ہمارے پاس ایسا کلچر ہے کہ غبارے والے کے پاس بھی بڑے پیمانے پر بینک اکاؤنٹ موجود ہو؟ میں خود کہہ رہا ہوں، ایزی پیسہ اور جیز کیش کا اکاؤنٹ ۳۰ منٹ میں کھل جاتا ہے، جبکہ conventional banking account کم سے کم بھی ۱ دن میں کھلتا ہے، تو یہ سارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے اپنی خود کی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں ہیں، جس میں، میں خود بھی شامل ہوں، کیونکہ ۱۹۴۰ تک ہمارے آباؤ اجداد continuous training کے concept کو فالو کرتے تھے، کیونکہ گھر کے بڑے اپنے سے چھوٹوں پر برہم بازی کے بجائے زندگی جینے کے طریقے سکھاتے تھے اور ان کو experience کراتے تھے، آج کے کلچر میں کیا یہ ممکن ہے؟
بے ترتیب ہم، اور ہمارے طور طریقے
ہم بے ترتیب اور
haphazard ہیں، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ آگے کا پلان کرنا نہیں جانتے، اسی
وجہ سے شارٹ کٹ یعنی ہماری زبان میں جگاڑ؛ اور اسی کا خمیازہ اب ہم دیکھ
رہے ہیں کہ لڑکیاں physical enticing کے mode میں ہوتے ہیں، جبکہ اگر نے
ٹریننگ کو کلچر اپنے ملک میں اسٹارٹ کیا ہوتا تو ۲۰۰۳ سے بھی لے کرچلیں تو
آج تک ایک کلچر بن چکا ہوتا جس طرح پاکستان میں ٹک ٹاک کا کلچر بن چکا ہے،
تو اتنا ہی ٹائم یہاں دے دیا ہوتا تو آج کم سے کم ملک کا فائدہ ہوچکا
ہوتا، مگر ملک کا کون سوچتا ہے، وہ بھی آج کے زمانے میں۔ کیونکہ میرا ذاتی پوائنٹ آف ویو ہے کہ لڑکیوں کو بکاؤ مال بنانے کے بجائے لڑکیوں کو as a resource بناؤ جیسے تھائی لینڈ، اور متعدد ایسٹ ایشین ممالک نے بنایا، جس میں سنگا پور سر فہرست ہے، مگر اس کے لئے پراپر ووکیشنل ٹریننگ کے طریقہ کار کو laid down کرنا پڑے گا، اور یہی اصل مسئلہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا، پھل کھانے تو ہر کوئی آجاتا ہے مگر سوسائٹی میں اپنا حصہ ڈالنے کی مورل ذمہ داری کی شرم و حیا کسی میں نہیں ہے، تو ایسے میں ریاستِ مدینہ بنے گی، جب ہم خود منافق بھی ہیں، اور فرعون بھی بنے بیٹھے ہیں؟
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ
