Search me

Global Epidemic لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Global Epidemic لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

Are we Muslims?

ہم کیا بن رہے ہیں؟

کتنی شرم کی بات ہے، کہ ہم صرف اپنی احساسِ کمتری کے احساس کو تسکین پہنچانے کے لئے حرمتِ رسول ﷺ کے law کو misuse کرنا اسٹارٹ کردیتے ہیں۔ آخر ہم ہیں کون کہ بلاوجہ خدائی فوجدار بنیں؟ میں ایک آرٹیکل لکھ ہی رہا تھا (ابھی مکمل نہیں کیا ہے کیونکہ اس کے لئے مطلوبہ مواد جمع کررہا تھا) مگر قدرت نے خود بتادیا کہ اسلام ظابطہ زندگی ہے اور زندگی گزارنے کا طریقہ فراہم کرتا ہے، مگر اس کے بجائے ہم توہم پرستی پر عمل کرنا اسٹارٹ کردیا ہے، جبکہ ہمیں بحیثیت مسلمان اس بات کی تلقین کی گئی ہے، کہ اگر آپ کسی پر انگلی اٹھاتے ہیں، تو بقیہ انگلیاں آپ کی جانب ہوتی ہیں، 

ہورہے ہوتے ہیں تو اس دن مجھے لفٹ نہیں ملتی، مگر ہم لوگوں کی عادت ہے کہ اپنی اچھی عادات کو پروموٹ بالکل نہیں کرتے مگر اپنی برائی پر اپنے سر پر مٹی پلید کرتے ہیں۔

برائی ہر معاشرے میں ہے

مگر جس طرح ہم اپنے خود کے سر پر خاک ڈالنے کے مترادف ڈالتے رہتے ہیں، اور نہ صرف ڈالتے ہیں، بلکہ فخر کے ساتھ اس کو بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ دنیا کے ہر معاشرے میں یہ چیزیں موجود ہیں، مگر اس طرح کی نیوز اگر پاکستان سے اجاگر ہورہی ہیں، تو ایسے میں سعودی عرب جو distrust دکھائی کہ وہ ہمیں ادھار دیں گے، مگر in case اگر کوئی کیس ہوتا ہے تو Saudi Law لاگو ہوگا، صرف اسی لئے کیونکہ عدالتی نظام پر بھروسہ بالکل نہیں۔

اس پر ستم زریفی

حرمتِ رسول ﷺ میں Straight Encounter کے مترادف ہم نے من و عن عمل کرنا استعمال کردیا ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی ﷺ سے والہانہ محبت ہے، ایسے میں چھوٹی سی چنگاری بھی ان تخریب کاروں کا کام کردے گی، کیونکہ معذرت کے ساتھ ہم نے تحقیق کرنا چھوڑدی ہے، کیونکہ اگر اس بات کا احساس رہے گا کہ کوئی بھی کلیم ہم کریں گے تو اس پر تحقیق ہو گی تو کسی میں ہمت نہیں ہوگی کہ ایسا کلیم کریں، مگر۔۔۔

اس کے لئے ضروری ہے

کہ انصاف کا حصول timely اور swiftly ہونا چاہئے، کیونکہ جب  law and order کو حصول جلدی ہو، تب ہی آپ انصاف کرسکتے ہو، اور انصاف کے حصول کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ آٓپ delayed justice کے بجائے quick justice کے مترادف ہونا چاہئے۔
 
پاکستان میں سب سے زیادہ غلط سمجھے جانے والے قانونی تصورات میں سے ایک 'تیز انصاف' ہے: ملزم کے لیے ایک ضروری تحفظ سے، یہ 'رفتار' کے نام پر بنیادی منصفانہ ٹرائل کی ضمانتوں سے انکار کرنے کا بہانہ بن گیا ہے۔ منصفانہ ٹرائل کے حق کو اب پاکستان کے آئین میں ایک 'بنیادی حق' کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ منصفانہ ٹرائل کے حق کی ترجمانی کرتے ہوئے، سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مقننہ کا ارادہ "اسے وہی معنی دینا تھا جو پاکستان میں فقہ میں وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ اور سرایت کرتا ہے"۔

ایک منصفانہ مقدمے کی ایک بنیادی شرط، جسے پاکستانی قانون کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق (ICCPR) کے آرٹیکل 9 اور 14 میں تسلیم کیا گیا ہے، جس کا پاکستان ایک فریق ہے، یہ ہے کہ مقدمے کی سماعت بغیر کسی تاخیر کے اور اندرونِ خانہ ہونا چاہیے۔ ایک معقول وقت — جسے بول چال میں 'جلد ٹرائل' یا 'جلد انصاف' کہا جاتا ہے۔

بغیر کسی تاخیر کے مقدمہ چلانے کے حق کا مطلب یہ ہے کہ مقدمے کی سماعت مناسب وقت کے اندر ہونی چاہیے، عالمی سطح پر تسلیم شدہ محاورے کو سمیٹتے ہوئے ’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے‘۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے مطابق، ہر کیس کے حالات میں کیا معقول ہے، اس کا اندازہ بنیادی طور پر کیس کی پیچیدگی، اور ملزمان اور حکام کے طرز عمل کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جانا چاہیے۔

 

پاکستان میں عدالتوں نے خبردار کیا ہے کہ "جلد ٹرائل کبھی بھی طریقہ کار کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے"۔

بغیر کسی تاخیر کے ٹرائل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بے گناہی کے قیاس کا احترام کیا جاتا ہے، اور ملزمان کو اپنے دفاع کا موقع ملنے کے بغیر ان کی آزادی سے محروم نہیں کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد ملزم کو درپیش غیر یقینی صورتحال کو بھی محدود کرنا اور الزام سے منسلک کسی بدنما داغ کے امکان کو کم کرنا ہے۔ اس طرح، "تیز مقدمے کی سماعت" کا حق انصاف کی منظم اور موثر انتظامیہ کے ذریعے وسیع تر عوامی مفادات کا تحفظ بھی چاہتا ہے تاکہ صرف وہی لوگ سزا پا سکیں جو کسی جرم کے مرتکب ہوں۔ تاہم، یہ ضمانت، سب سے پہلے اور سب سے اہم، ملزم کا حق ہے - اور منصفانہ ٹرائل کے حقوق کو تقویت دینے کے بجائے کم کرنے کے تصور کا غلط استعمال انصاف کی خرابی کو جنم دیتا ہے۔

پاکستان میں عدالتوں نے بھی اس بات کو تقویت دی ہے کہ "جلد ٹرائل ہر ملزم کا ناقابل تنسیخ حق ہے"۔ اور انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ "تیز ٹرائل کبھی بھی طریقہ کار کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے" یا دوسرے حقوق جن کا ایک حقدار ہے، کیونکہ فوجداری نظام انصاف کا حتمی مقصد "انصاف کا انتظام کرنا ہے، نہ کہ کسی کیس کو جلد نمٹانا"۔

عملی طور پر، تاہم، متعدد 'خصوصی قوانین' نے سنگین جرائم کی ایک حد کے لیے 'تیز مقدمے کی سماعت' کا وعدہ کیا ہے، اس اصول کو اس کے سر پر بغیر کسی تاخیر کے مقدمہ چلانے کے حق کو تبدیل کر دیا ہے: انہوں نے مقدمات کے لیے غیر معقول حد تک مختصر وقت کا فریم مقرر کیا ہے۔ نتیجہ اخذ کیا جائے، اور زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ تاخیر کی بنیادی وجوہات پر توجہ دینے کے بجائے، انہوں نے 'اسپیڈ' کے نام پر ملزمان کے بنیادی منصفانہ ٹرائل کے حقوق کو ختم کر دیا ہے۔

مثال کے طور پر، انسداد دہشت گردی ایکٹ، 1997 کو لے لیجیے، جو دہشت گردی، فرقہ وارانہ تشدد کی روک تھام اور "گھناؤنے جرائم کے فوری ٹرائل" کے لیے فراہم کرتا ہے۔ قانون کہتا ہے کہ عدالتوں کو ایکٹ کے تحت مقدمات کا فیصلہ سات دنوں کے غیر حقیقی وقت کے اندر کرنا چاہیے۔ یہ ملزمین کے ضمانت حاصل کرنے کے حق پر پابندیاں لگاتا ہے اور انہیں ضابطہ فوجداری کے تحت دستیاب متعدد تحفظات سے انکار کرتا ہے، بشمول یہ کہ گواہوں کی موجودگی میں تلاشی لی جائے۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اے ٹی اے ایک "سخت قانون" ہے جو منصفانہ ٹرائل کے حقوق کو نمایاں طور پر کم کرتا ہے۔

اسی طرح، آئین میں 23 ویں ترمیم اور آرمی ایکٹ 1952 میں کی گئی ترامیم، "خصوصی اقدامات … دہشت گردی سے متعلق بعض جرائم کو تیزی سے نمٹانے کے لیے" فراہم کرتی ہیں۔ وہ فوجی عدالتوں کو دہشت گردی سے متعلقہ بعض جرائم میں ملوث شہریوں پر مقدمہ چلانے کی اجازت دیتے ہیں، یہ دائرہ اختیار فطری طور پر عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری سے مطابقت نہیں رکھتا۔

فوجی عدالتوں کا طریقہ کار بھی مبہم ہے اور ان کی سماعت عوام کے لیے

بند ہے، جس کی وجہ سے منصفانہ مقدمے کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں جن میں پسند کے وکیل کے حق سے انکار بھی شامل ہے۔ ملزمان کے خلاف الزامات ظاہر کرنے میں ناکامی؛ مجرموں کو ثبوت اور فیصلے کی وجوہات کے ساتھ فیصلے کی نقول دینے میں ناکامی؛ اور بہت زیادہ تعداد میں سزائیں - تقریباً 98 فیصد - تشدد اور بد سلوکی کے خلاف مناسب حفاظتی اقدامات کے بغیر 'اعترافات' پر مبنی۔

اس کے علاوہ، قومی احتساب آرڈیننس، 1999 کی تمہید میں کہا گیا ہے کہ "بدعنوانی کے مقدمات کو جلد نمٹانے" کے لیے موثر اقدامات فراہم کرنا مناسب اور ضروری ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ احتساب عدالتیں 30 دن کے اندر مقدمات کا فیصلہ کریں گی۔ کچھ جرائم کے لیے جرم مان کر ثبوت کے بوجھ کو الٹ دیتا ہے۔ انکوائری کے کسی بھی مرحلے پر بغیر وارنٹ گرفتاری کی اجازت دیتا ہے۔ مقدمے کی سماعت سے پہلے کی حراست کی طویل مدت فراہم کرتا ہے؛ اور قانون کے تحت جرائم کو ناقابل ضمانت قرار دیتا ہے۔

اگرچہ تاخیر کو کم کرنے کا مقصد قابل تعریف ہے اور پاکستان میں قانون کی اصلاح کے لیے ایک ترجیح ہونی چاہیے، لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ 'رفتار' پر زور انصاف کی ضرورت پر بہت کم غور کیا جاتا ہے - انصاف مجرموں کو سزا دینے اور بے گناہوں کو بری کرنے کے بارے میں ہے۔ فوری انتقام کی خواہش کے بجائے۔ یہ 'رفتار' فوجداری نظام انصاف کی مضبوطی سے نہیں بلکہ جابرانہ اقدامات کے ذریعے حاصل کی گئی ہے جیسے کہ بے گناہی کے قیاس اور عوامی سماعت کے حق، آزادی کے حق میں رکاوٹ ڈالنے اور انکار کرنے جیسے پرانے اصولوں کو تبدیل کرنے کے ذریعے۔ اپنے دفاع کی تیاری کے لیے کافی وقت اور سہولیات کے حق کا الزام لگایا۔

پاکستان میں فوجداری مقدمات میں طویل تاخیر سے مایوسی جائز ہے، لیکن کئی دہائیوں کی نظر اندازی کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کا راتوں رات کوئی حل نہیں ہے۔ حقیقی معنوں میں تیز رفتار 'انصاف' کو یقینی بنانے کے لیے فوجداری نظام انصاف میں بڑے پیمانے پر نظر ثانی اور اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔ اسے اسی طرح کے قانونی نظاموں کے ساتھ دوسرے دائرہ اختیار کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہوگی۔ اس بات کو یقینی بنانا کہ منصفانہ ٹرائل کے حق کی کم از کم ضمانتیں ہر وقت محفوظ رہیں؛ اور اصل سے ڈرائنگ ججوں، وکلاء اور تفتیش کاروں کے روزمرہ کے تجربات، انصاف کے بنیادی اصولوں کی قیمت پر 'رفتار' کی خواہش سے متاثر عجلت میں نہیں، غلط تصور شدہ اقدامات۔

کیا ہم واقعی میں مستقبل میں ہیں؟

کس طرح ہماری مائنڈ پروگرامنگ کی جارہی ہے؟

زیادہ دور نہیں، پندرہ سال پہلے کی بات کررہا ہوں، جب آئی فون نے ایک جدت لائی تھی جہاں نوکیا اور بلیک بیری جیسے برینڈ موجود تھے، جو کہ فیچر فون کی کیٹیگری میں آتے تھے، ان کے مقابلے میں ایک ایسا فون کا مارکٹ میں آنا جس کو چلانے کے لئے ہمیں کوئی کی بورڈ کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ استعمال کے لئے اپ کی اسکرین ہی آپکا کی بورڈ بن رہا ہے، ایک جدت یعنی innovation تھی، جس کے بعد فیچر فون کے مقابلے میں فون کی ایک نئی کیٹگری کو introduce کیا گیا جسکو اسمارٹ فون کا نام دیا گیا جہاں سے اسمارٹ فون خاموشی کے ساتھ ہماری زندگیوں میں اس طرح سراعیت کی ہے، آج کے زمانے میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح اسمارٹ فونز نے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کے متبادل کے طور پر اپنے آپ کو کنفرم کردیا ہے!

مگر اس کا اِس ٹاپک سے کیا جوڑ؟؟؟

اس کا اس ٹاپک سے یقینی طور پر جوڑ ہے کیونکہ تھیوری آف ریلیٹیوٹی theory of relativity  کے حساب سے اگر کل (یعنی ماضی) اور حال کا موازنہ کریں تو میں اپنی ذاتی اور ناقص رائے کے مترادف موجودہ ٹائم پیریڈ میں ہم اس دورہے پر ہیں جہاں کے بعد ہم نئے پراسسز کو استعمال کرنے لگیں گے، اور پرانے طریقوں کو آہستہ آہستہ سے متروف کرنے لگیں گے۔

میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں؟

کیونکہ ہم پاکستانیوں کی ایک بری بات ہے کہ ہم ایک چیز کو فالو کرنے اسٹارٹ کردیتے ہیں تو ہوکا کی بنیاد پر استعمال شروع کردیتے ہیں، جیسے ۱۰ سالوں میں جس طرح سے سنیما کی جگہ سینی پلیکس Cineplex نے لی، تو ہر اینٹرٹینمنٹ گروپ نے کوشش کی، کہ اپنے شاپنگ ارینا Shopping Arena کے ساتھ ایک سینی پلیکس کی موجودگی ضروری ہے، جبکہ میں اگر ماضی میں لے کر جائوں، ۱۹۹۸ میں جب Blockbuster ایک بہت ہی زبردست وی ایچ ایس رینٹنگ سروس تھی، اُس نے مستقبل کے چلینجز کو Overlook کیا، اور نتیجہ میں آج Blockbuster کو کوئی نہیں جانتا بلکہ دنیا اب نیٹ فلکس اور اسی طرح کی متعدد اسٹریمنگ سروسز نے بلاک بسٹر کو یکسر ختم کردیا ہے، ٹھیک اسی طرح آج سینی پلیکس کے بزنس پر وہی وقت آرہا ہے جو early-2000s میں بلاک بسٹر اور کوڈیک Kodak کے ساتھ ہوا، جہاں مستقبل کے متعلق complacency کی وجہ سے آج ان کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے۔

وہ کیوں؟

ہو سکتا ہے میں Exaggerate  کررہا ہوں مگر (یہ میرا اپنی زاتی رائے ہے)، ابھی زیک اسنائڈر Zack Snyder کی Justice League ریلیز ہوئی، کیسے ہوئے، آن لائن اسٹریمنگ کے زریعے ایچ بی او میکس HBO max کے زریعے ہوئی، یعنی سطحی بات کروں تو جو کوڈیک اور بلاک بسٹر کے ساتھ ہوا تھا، اب ٹائم سینی پلیکس کے بزنس کی الٹی گنتی اسٹارٹ ہوچکی ہے جس میں تبدیلی ہم آنے والے دس سالوں میں یقینی طور پر دیکھنا اسٹارٹ کردیں گے، کیونکہ ایک سال پہلے تک کسی نے زوم کا نام بھی نہیں سنا تھا، مگر آج ہر آرگنائزیشن میں زوم پر میٹنگ، ٹریننگ کی جارہی ہوتی ہے، اور ہمارے اسمارٹ فون کے مستقل ایپلیکیشن یا ایپس میں سے ایک بن چکا ہے۔

ایسے میں

ایسے میں میری ناقص رائے کے مطابق اتاولے ہونے کا وقت نہیں ہے بلکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہمارے آس پاس جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، اس کو بغور دیکھیں اور دیکھنے کے بعد ہی اپنی opinion کو generate کریں، کیونکہ یہ زمانہ ایسا ہے جہاں بہت زیادہ تبدیلیاں آنے والی ہیں، تو اسکے حساب سے ہمیں ان تبدیلیوں کو یقینی طور پر دیکھنا ہوگا، اور ان چیزوں کو اگر ہم نے for-granted لیا تو اس کا نقصان بھی ہمیں ہی بھرنا ہوگا۔

کراچی لاک ڈائون کے دوران

آج دوسری لہر کے آنے بعد کراچی میں لاک ڈائون پر عمل درامد کرایا گیا اور وہ علاقے جہاں آفس سے واپسی میں مجھے ہمیشہ رش کا سامنا ہوتا تھا، آج وہاں مجھے سناٹا دیکھائی دے رہا تھا، جسے کراچی والا ہونے کے ناطے مجھے دیکھ کر بہت دُکھ ہورہا تھا کیونکہ کراچی اپنے لوگوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے، اور آج وہاں کوئی لوگ ہی نہیں تھے۔
میرے نذدیک ورچوئل کرنسی بالکل ویسی ہی ہے جیسے کوئی بھی چیز کہنے کو آپکے پاس موجود ہے مگر اسکی موجودگی ہونے کے باوجود آپ کے پاس موجود نہ ہو، اور کوئی دوسرا یا تیسرا بندہ اس پر اپنا حق جتانا شروع کردے؟ کرنسی اسی Philosophy پر اسٹارٹ کی گئی تھی کہ لین دین مستقل بنیاد پر موجود رہے، اور لین دین Barter سسٹم کی basis پر شروع ہوا تھا کیونکہ لین دین میں دونوں پارٹی جن میں لینے والا اور دینے والا دونوں کا سکون کو مدنظر رکھا جاتا ہے، جو کہ بزنس law کے اسٹوڈنٹس بخوبی سمجھ سکتے ہیں، ورنہ ایک حد کے بعد یہ ransom کی سمت جاتی ہے، جیسا کہ بِٹ کوائین BitCoin کے اوائیل میں کچھ لوگوں نے تاوان کے لئے بٹ کوائین کو استعمال کیا، کیونکہ اس کو trace کوئی نہیں کرسکتا، مگر چونکہ اب ہمارے دماغوں کو اس حد تک پروگرام کردیا گیا ہے کہ اس چیز میں ہمارے دماغ نہیں جاتے اور mentally اس چیز کو ہم نے مان لیا ہے کہ یہی صحیح ہے، جبکہ اسلام کے حساب سے بھی بات کروں تو اسلام میں بھی سونا اور چاندی پر لین دین کا کہا گیا ہے کیونکہ ان چیزوں کی قدر و قیمت موجود ہے، اور جس کے پاس بھی یہ موجود ہوگا، اس کی قدر بھی ہوگی، جبکہ یہاں پیپر کرنسی کا ہمیں یقین نہیں کہ واقعی میں ۱۰۰ روپے کے پیچے اس کے متبادل سونا موجود بھی ہے کہ نہیں، اور کیا یہ ممکن نہیں کہ پیسے کی موجودگی میں ہم سب کنگال ہوچکے ہیں؟ زرا سوچیں۔۔۔

Accepting that 

یہ جوبیماریا ں ہمارے آس پاس موجود ہیں، کیا پہلے موجود نہیں تھیں؟ کیا پہلے ہمارا گلا خراب نہیں ہوا؟ کیا پہلے ایسا نہیں ہوا کہ taste buds نے اپنا کام یعنی taste recognize کرنا چھوڑا ہو؟ یہ کیونکر ہورہا ہے کہ کورونا سے مرنے والوں کو گاڑا جارہا ہے، صحیح طریقے سے تدفین بھی نہیں ہوتی؟ کیا اسکا سیدھا سیدھا مطلب یہ نہیں کہ ڈر کو ہمارے ذہنوں میں بٹھا کر اسی طرح کی جنیاتی تبدیلیاں ہمارے اندر لائی جارہی ہیں جیسے ہمارے سے پہلے کی نسلوں میں آئیں جو ۱۴ ۱۵ فٹ کے دیو ہیکل ہوا کرتے تھے اور آہستہ آہستہ fragile ہوتے ہوتے اس موڑ پر آئے؟ Beneficiary کو دیکھیں کہ انسانوں کو fragile کرکے کون فائدے میں ہے؟ کس کو فائدہ ہو رہا ہے، کون فائدہ اُٹھا رہا ہے اور کس کو کتنا فائدہ دلایا جارہا ہے۔ لوگوں کو شرم آنی چاہئے کہ اب بیماریوں کو بھی status symbol کے طور پر استعمال کیا اور کرا جارہا ہے اور ہمارے ذہنوں میں بھی یہی چیز ہمارے بڑوں کی جانب سے ہم میں ڈالی جارہی ہے۔

Virtual Communication

 اس بیماری کے آنے کے بعد جو سب سے بڑا ٹرینڈ آیا کہ ورچوئل رابطہ کو فروغ دیا جارہا ہے، جو کہ پہلے اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا تھا اور ابھی کچھ مہینے پہلے تک میں خود کہتا تھا کہ far fetched future میں شاید ہم اس جانب دلچسپی دیکھائیں، مگر دیکھ لیں، آفیشلی پاکستان میں ۲۶ فروری کو پہلا کیس آیا، اور آج نومبر کی ۲۶ اسٹارٹ ہونے والی ہے خود دیکھ لیں، ایس سی او سَمِٹ ورچوئل ہوئی، ابھی جی ۲۰ ریاض میں ورچائل ہونے والی ہے، جس سے اندازہ کرلیں یہ سب پری پلان تھا اور ہے۔

کورونا صرف ٹی وی میں ہے

 جی ہاں، کیونکہ جب سے کورونا آیا ہے، میں نے صرف اور صرف ٹی وی دیکھنا بند کیا ہے اور اپنے آپ کو کاموں میں، لکھائی میں، فیملی میں، اپنے آپ کو involve کیا، تو میرا ذہن اس جانب نہیں، جبکہ honestly اس دوران میری طبیعت بھی خراب ہوئی، مجھے اسکین پرابلم بھی ہوئی، زخم بھرنے میں سُستی ہوئی، بخار بھی آیا اور چکر بھی آئے مگر چونکہ میرا ذہن ان خرافاتی خیالات سے مبرہ تھا، اور اللہ تعالٰی پر توکل، تو ان سب چیزوں سے نکل گیا حالانکہ مجھے میرے آفس والوں نے بھی کہا کہ تمہاری آنکھیں اتری ہوئی لگ رہی ہیں، یا تم concentrate نہیں کر پارہے ہو، تھوڑا پاور نیپ لو، مگر چونکہ میرا ذہن صاف تھا، یہی symptoms مجھے بھی کچھ کچھ ہوئے، جیسے ایک دن میں ۳ مرتبہ بخار کا چڑھنا پھر اترنا، اسی لئے اب میرا اس حوالے سے پختہ یقین ہوچکا ہے کہ یہ سارا مائنڈ گیم ہے اور کچھ بھی نہیں۔

لائن آف actual کنٹرول، لائن آف کنٹرول اور پاکستانی سیاست + سیاستدان

پاکستان کی سالمیت، ہمارے سیاستدان، ہمارے نیوز اینکرز

پہلے تو یہ ہے کہ میں اپنی  work-life management کی وجہ سے اپنی اس بلاگ پر ذیادہ ٹائم نہیں دے پارہا ہوں جس کے لئے معذرت خواہ ہوں، مگراس کی وجہ سے مجھے پاکستان سے متعلق کچھ مٹیرئل پر تحقیق کرنے کا موقع ملا، کیونکہ لیپ ٹاپ کھول کر ان چیزوں کو بغور نوٹ کررہا تھا، کیونکہ پاکستان میں معذرت کے ساتھ observe and record کا concept نہیں ہونے کے برابر ہے، جو کہ ہمارے آباو اجداد بخوبی کرتے تھے اور آج کے زمانے میں اس کو ریکارڈ کیپنگ اور ریسرچ پیپرز کے نام سے بھی جانا چاہتا ہے، اور یہ میں نہیں کہہ رہا مگر آپ اپنے شہر یا علاقے کی لوکل لائبرری میں جائیں اور کسی پاکستانی کا ریسرچ پیپر ڈھونڈ کر دیکھا دیں، چلیں آپ کی آسانی کے لئے آپ انٹرنیٹ کی سہولت بھی لے لیں، اور پھر بھی ڈھونڈ کردیکھا دیں۔

اسی وجہ سے

میں اپنے ملک کے میڈیا کو bash کرتا ہوں کیونکہ ہمارا میڈیا کو ہم ہمارا کہتے ہیں مگر معذرت کے ساتھ ہمارا میڈیا ہمیں اپنا نہیں سمجھتا بلکہ ان میڈیا ہاوسز کے اپنے مفادات ہیں، جو کہ بذات خود سیاسی مفادات ہیں، کیونکہ ہمارے سیاست دانوں نے ملکی مفادات کے برخلاف اپنے سیاسی مفادات کو ذیادہ اہمیت دیتا ہے۔

جیسا کہ ابھی دو مہینے پہلے

یاد کریں، ایک زمانہ تھا، بھارت نے کچھ ہی دن پہلے لداخ کھویا تھا، وہی جگہ جہاں 3 Idiots کا آخری سین شوٹ ہوا تھا اب چین کے قبضہ میں ہے، انڈیا اور انڈیا کا میڈیا اسی بات کا *** رونا لگایا ہوا تھا، مگر یہاں ہمارے اسپورٹس اینکرز آئی پی ایل پر 1.5 گھنٹے کی پوڈکاسٹ کرتے بیٹھے ہوئے تھے، جس پر ہمیں یو ٹیوب پر یہ سننے کو مل رہا تھا، کہ تمہارے میڈیا والے تمہارا نیشنل ٹی 20 ٹورنامنٹ کو سپورٹ کرنے کے بجائے ہماری آئی پی ایل کو سپورٹ کررہے ہیں، جو کہ ہم پاکستانی ہونے کے ناطے ہمارے لئے شرم کا مقام ہے، کیا اپنے ملک اور ملکی مفاد کو اہمیت دینا کیا بیوقوفی ہے؟ کیا سوچ کر یہ میڈیا والے جن کو ملکی patriotism  کو پروموٹ کرنے کے اور ہمارے دلوں میں ملکی حرمیت کو مزید تازہ کرنے کے پروگرامز کرنے کے، انڈیا کے کونٹینٹ کو پاکستان میں acceptance کے لئے بار بار یہ کونٹینٹ ہمارے سامنے متعدد بار لانا کسی warfare کا شاخسانہ نہیں؟

ایک چیز بار بار دیکھانا؟

اگر آپ میرے بلاگ پر پرانے پوسٹس پر نظر ڈالیں، تو یہ چیز میں نے بتائی ہے کہ انسانی دماغ کی خصوصیت اور خامی دونوں ہے کہ ایک چیز کو اگر بار بار دیکھائی جائے، تو بالاخر عین ممکن ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا، کہ یا تو ہار مان جائے گا، یا accept یا دونوں کرلے گا، جس کے لئے جب میں نے 5th generation warfare کے tools کو analyze کیا تو اس میں یہ بھی تھا کہ سامنے آئے بغیر یعنی اپنی خود کی فورس کو expose کئے بغیر home grown proxies کو استعمال کئے جائیں، جیسا کہ ہمارے پاس ہمارے اپنے اسپورٹس اینکرز اور وی لاگرز نے انڈین کونٹینٹ کو پاکستان میں سپورٹ کرکے کیا۔

اسپورٹس اور سیاست؟

اور اسکے بعد نواز شریف صاحب پاکستانی ٹیلی وژن اسکرین پر نمودار ہوتے ہیں، اور بتاتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو یعنی چور چوری نہ  کرنے کے طریقوں کو explain کرنے لگ جائیں، اس کے مصدق نواز شریف صاحب آتے ہیں، مطلب اپنی سیاست کرنے کے لئے میڈیا کو خرید کر ایسا کنٹرول کرنا بے شک نواز شریف صاحب کی سیاست کا tactic ہے، کیونکہ میڈیا کے ہاتھ میں یہ طاقت ہے کہ لوگوں کی mind programming کرے، جو کہ بھارتی نژاد پاکستانی میڈیا بخوبی کررہا ہے، کیونکہ محترم ایاز صادق صاحب کے بیوقوفی مصادق انڈیا مزید شیر بنا، اور اس واقعہ کے اگلے دن ریپبلک ٹی وی پر میجر گورو آریا نے پاکستان کو کھل کر جو دھمکی دی اور جو زہر اگلا، اس کو پاکستانی میڈیا نے کیش کرنا چاہئے تھا، جو کہ پتا نہیں کیونکر پاکستانی میڈیا کس مصلحت کے ماتحت خاموش رہی بلکہ اس دوران میڈیا پی ڈی ایم کو کووریج دینے میں اپنا خون پسینہ ایک کیا، جبکہ پردے کے دوسری جانب ایف اے ٹی ایف میں بھارتی صحافی پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں نا ڈالنے پر سوالات کی  بوچھار کررہے تھے اور یہ میں نہیں کہہ رہا مگر ہمارے صحافی اور نیوز اینکرز اس حوالے سے ہمیں گمراہ کرنے کے لئے ٹویٹر پر ٹرینڈز اور ٹویٹ کرنے میں ہی اپنی ذمہ داری سمجھ رہے تھے۔ تو ایسے میں اگر میں پاکستانی میڈیا کو اگر میں بھارتی نژاد پاکستانی میڈیا کہوں تو میرا نہیں خیال کہ اس میں کچھ غلط ہے۔

ان لوگوں کی وجہ سے

اب یہ صورتحال ہے کہ وہ صورتحال جہاں پاکستان ۷۴ سالوں میں پہلی بار بھارت پر مستقل طور پر انڈیا پر پریشر رکھ سکتا تھا، اب بھارت-چین کے جھگڑے میں عبداللہ دیوانے کے موافق پراکسی بن چکا ہے، ایک دھماکہ پاکستان میں کوئٹہ میں ہوچکا ہے، اور چین بھی ایک طرح سے کنفیوژن میں ہے کہ پاکستان کیا ہماری سپورٹ ہے یا زحمت، کیونکہ ہمارے ان غدار سیاستدانوں اور نیوز اینکرز کی وجہ سے جنگ کا ایپی سینٹر epicenter گھوم کر پاکستان کی جانب ہوچکا ہے۔

امریکی الیکشن اور بلیک واٹر

کیونکہ بلیک واٹر کو head کرنے والے وہی ٹیم تھی جو صدر اوبامہ کے ادوار میں ہوا کرتے تھے، اگر آپ ماضی میں جائیں تو وہاں جو بائڈن ہی دیکھیں گے جو ان چیزوں کو head کررہے تھے، بلکہ اگر آپ مزید یاد کریں تو وزیر اعظم گیلانی کو کس نے ڈانٹا تھا کہ یہ سننے کے لئے تمہیں حکومت دی تھی کہ تم یہ کہو کہ اسٹیبلشمنٹ کرنے نہیں دے رہی؟ کیا یہ سننے کے لئے تمہیں این آر او دلوایا تھا؟ تو اسی وجہ سے کوئی بعید نہیں کہ وہ چیزیں جو ٹرمپ کے دور میں رکیں تھیں، وہیں سے دوبارہ اسٹارٹ ہوگا، اس پر سونے پہ سہاگہ ہمارا بھارتی نژاد پاکستانی میڈیا سے اس حوالے سے کوئی امید رکھنا بلی سے دودھ کی رکھوالی کرنے کے مترادف ہے۔

میڈیا کو لگام لگاوٗ 

ان چیزوں سے نکلنے کے لئے پہلے پہل میڈیا ہاوٗسوں کو لگام لگائیں، کیونکہ ان میڈیا والوں کی وجہ سے پاکستان کاز کو بہت نقصان ہورہا ہے، اور جب تک ان لوگوں کو لگام نہیں لگائی جاتی مسئلہ حل نہیں ہوگا، کیونکہ کسی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مسئلہ کی بنیاد اور root cause کو سمجھنا ذیادہ ضروری ہے، کیونکہ جب تک مسئلہ کے root cause کو نہیں سمجھا جاتا، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

Is it or is it otherwise?

 Mind programming on the high during the second wave

مجھے personally سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کیونکر ایک ایسی بیماری کو دماغی بخار بنانے میں مشغول ہیں اور کیونکر ہمارے ذہنوں میں یہ  بات ٹھیک اسی طرح ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے چھوٹے بچوں کے منہ کے اندر ان کی والدائیں Cerelac کا چمچہ ڈالتی ہیں؟؟؟

قدرتی طور پر اگر کوئی وباء پھیلتی بھی ہے، تب بھی۔۔۔

 اس موقع پر بھی gradually circumstances build up ہوتی ہیں نہ کہ ایک ٹیک گرو جس نے پہلے Windows 95 بنائی تھی اور اب ویکسین کے بزنس میں انویسٹمنٹ کی ہوئی ہے اس کے اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے بولنے پر ایک فلو کی بیماری کو ہوا بناکر پیش کیا جارہا ہے، اوراس شخص کے کہنے پر دنیا میں یہ بیماری اُٹھ رہی ہے اور ٹھیک اسی طرح بیٹھ بھی رہی ہے، وہ بھی دنوں کے حساب سے بیماری اُٹھ کر بیٹھ بھی جارہی ہے، یہ بیماری ہے کہ پالتو کتا؟ کیونکہ میں نے یہ دیکھا ہے کہ contamination کو clearہونے میں بھی مہینے لگتے ہیں، نہ کہ یہاں جہاں دنوں میں اٹھک بیٹھک جاری ہے۔

دوسری بات

اس بیماری کی intensity ایک بندے کے بعد دوسرے بندے میں intensity کم ہوجاتی پھر 14دن کے قرنطینہ کے بعد بندا صحیح ہوجاتا ہے، اور ساتھ میں لوگوں نے اسی وجہ سے اس کو امیروں کی بیماری بنا کر پیش کررہے ہیں،کیونکہ کچھ attention seekers کے لئے یہ ایک موقع ہے جس کی بناہ پر معاشرے میں مشہور ہونا ذیادہ ضروری ہے، اور بیشک ماسک پہن کر وہ کاربن ڈائی آکسائڈ جسے نارملی آپ کے جسم سے باہر نکلنا چائے، آپ اس ٭٭٭ کی حرکت کی وجہ سے بیشک attention gatherکرلے رہے ہیں مگر ساتھ میں نیچرلی اللہ تعالی نے جو سسٹم رکھا ہے کہ آکسیجن کو اندر جانا ہے اور جسم کے اندر کا کاربن ڈائی آکسائڈ باہر، مگر یہاں وہ گندی ہوا ہم دوبارا اندر لے کر اپنے آپ پر ظلم کررہے ہیں۔

 ان سب کا فائدہ کس کو ہورہا ہے 

یہ دیکھنا ہمارا کام ہے کیونکہ beneficiary management آج کے زمانے میں بڑی چیز ہے کہ ان سب کا فائدہ کون اٹھا رہا ہے، کس کی وجہ سے اُٹھا رہا ہے، کیوں اُٹھا رہا ہے، کس طریقے سے کتنا اُٹھا رہا ہے یہ سب کچھ دیکھیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی برابر ہوجائے گا، کیونکہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ دنیا کو panicمیں لاکر کن لوگوں کا فائدہ ہورہا ہے۔

London Bridge is falling down

لندن اور انگلینڈ کا پھر سننے میں آرہا ہے کہ بند ہونے کو لگا ہے، اور ہم چونکہ followersمیں آتے ہیں، دیکھا دیکھی ہمیں بھی لاک ڈاؤن کا دورہ پڑے گا، کیونکہ ہم سب کو ٭٭٭ سمجھا ہوا ہے، 

اصل چیز دماغ ہے

ہم سب کے آس پاس اور اندر ایسے خطرناک بیکٹیریا موجود ہیں مگر جب تک دماغ کا حکم صادر نہیں ہوتا یہ خرافاتی بیکٹیریا ہمارے جسم میں نہیں آسکتے، تو اس طرح کی mind programmingکی بناہ پر اس barrierکو unlock کیا جارہا ہے تاکہ آنے والے انسان کی قوت مدافعت کمزور رہے، کیونکہ ان لوگوں کے لئے یہ affordکرنا آسان نہیں کہ اسی ریٹ پر دنیا کی آبادی بڑھتے رہے۔ آپ خود بتائیں، کیا ہم سب کے ساتھ ایسا نہیں ہوا کہ ایک دوائی ہم پر اثر نہیں کرتی مگر کوئی ایسا چہرہ جس پر آپکو بھروسہ ہوتا ہے اس سے وہی دوائی لینے پر آپکی طبیعت ٹھیک ہوجاتی ہے؟ کیونکہ اس صورتحال میں دماغ کی طرف سے acceptanceہوتی ہے،

میرے اپنے ساتھ کا experience

ابھی ان کراچی کی بارشوں میں میرا دائیاں پاؤں بری طرح زخمی ہوا جس کی بناہ پر چھالا ہوا اور بگڑ گیا کیونکہ اآفس میں پاؤں لٹکا کر بیٹھ رہا تھا، مگر جب میں ڈاکٹر کے پاس گیا اور دو دن کی دوائی سے چھالا سوکھ چکا ہے اور اب recovery modeپر ہے کیونکہ چوٹ کی وجہ سے ٹشو ڈیمج ہوئے تھے، مگر بات یہی تھی کہ یہ سب میں نے اگست 2020 سے اب تک دیکھا ہے، کیونکہ وہ ڈاکٹر پر میرا بھروسہ ہے۔

بتانے کا مقصد

بتانے کا مقصد یہی ہے کہ بار بار cognitive thinking کو exploitکرا جارہا ہے تاکہ ہم بڑے لوگوں کے ماتحت رہیں اور ان لوگوں کے کام آسکیں اور اپنی زندگیاں ان لوگوں کے پاس گروی رکھیں، جس کی آزادی اللہ کی طرف سے ہمیں ملی ہوئی ہے مگر ان لوگوں نے against the natureجانا ہے۔

The Second Wave

یہ ایک بہت ہی بڑی خطر ناک بات ہے کیونکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کی پریکٹس کی بناہ پر آہستہ آہستگی سے acceptanceیعنی ہم آہنگی بنائی جارہی ہے، یعنی ذہن کو اس جانب مائل کیا جارہا ہے جس کا اثر ہم پر تو نہیں مگر ہماری آنے والی نسلوں پر ضرور ہوگی کیونکہ یہ چیزیں جینریشنز پر اثر انداز ہوتیں ہیں، اور جیسا کہ آپ سب بھی جانتےہیں کہ جینریشنز کا اثر فوری نہیں ہوتا بلکہ اپنا وقت لیتی ہے۔

ماضی میں بھی پاکستان میں ایسا ہوچکا ہے

جب پاکستان میں پہلی پہلی بار عورتوں کی ایک پروڈکٹ کو متعارف کیا جارہا تھا، تو پہلی بار پاکستان میں جو reactionآیا تھا، اس کمپنی کو فورا وہ پروڈکٹ واپس لینی پڑی تھی، مگر کچھ سالوں کے بعد جب دوسری بار پاکستان میں ایسا ہوا تو پہلی بار کے مقابلے میں reactionاس بار ہلکا تھا۔

اس کو mind programmingکہتے ہیں

یعنی ایک بات کو اتنی مرتبہ دھرانا کے سننے والے کو یہی لگے کہ یہی ٹھیک ہے، جیسے ایک لفظ sexدس سال پہلے ایک tabooتھا مگر آج ایک روزانہ استعمال کا لفظ ہے۔

Getting Back to the Point

اب یہاں بار بار کورونا کا رولا بول بول کر اور نیوز چینل والوں کا بار بار ایسا چورن بیچنا اور زخیرہ مافیہ والوں کو، اور ہماری panic buying endorsed عوام نے یہاں بہت بڑا رول کو playکرنا ہے کیونکہ پچھلی بار کا scenarioہمارے سب کے لئے نیا تھا مگر اب چونکہ یہ سیکنڈ ویو ہے، تو ایسے میں ہم سب تیار ہیں، کیا ہم بھول گئے جب ان دنوں میں امتیاز سوپر مارکٹ کھولی گئی تھی تو کیسے عوام گھسی تھی جیسے کل آنا ہی نہیں ہے۔۔۔

میرا نہیں خیال اس بار بھی کچھ ذیادہ فرق ہوگا بمقابلہ پچھلی بار

بلکہ اس بار کچھ لوگوں نے اس so calledبیماری کو status queکے طور پر استعمال کریں گے، جیسے کچھ لوگوں نے مجھے کہا کہ ماسک پہننے سے تمہیں مٹی سے چھینکیں نہیں آئیں گیں کیونکہ اصل میں مجھے مٹی سے بہت الرجی ہے، میں نے جواب میں یہی کہا کہ ٹھیک ہے مگر مٹی سونگنا ذیادہ خطرناک ہے کہ اپنے جسم کی گند اور کاربن ڈائی آکسائڈ کو دوبارا اندر لینا؟ کیونکہ اللہ تعالی نے inhale اور exhaleکا نظام الگ رکھا ہے تو کوئی مصلحت ہوگی، اب ایسے میں show offکے لئے بیماری پالنا کہ مجھے یہ بیماری ہے کیا فخر کی بات ہے؟ زرا اس حوالے سے بھی سوچیں۔۔۔

Cause and Effect

وجہ اور اسکے اثرات

یہ ایک ایسی reason ہے جہاں ہم بحیثیت قوم اپنے آپ کو پاک دامن سمجھتے مگر دوسرے پر کیچڑ اچھالنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہ ایک گند ہے جو ہمیں انسانوں سے انسان نما جانور میں تبدیل کر رہا ہے، کیونکہ پہلی بات انسان میں صبر ہوتا ہے اور دوسرے کی بات مکمل سننے کی ہمت ہوتی ہے، اس پر یہ کہ انسان ہمیشہ اپنے آپ کو accountable رکھتا ہے اور یہ سوچتا ہے کہ تول کر بولو، نہ کہ بول کر تولو۔ یہ جانوروں کی خصلت ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ میں ٹھیک ہوں سامنے والا ٹھیک نہیں ہے، اس حرکت کی وجہ سے ایک فرشتہ مردود کے level پر جاچکا ہے، پھر بھی ہم "انسانوں" کو وعید نہیں ہے تو پھر کیا کہیں۔۔۔

سامنے والے کو بلاوجہ کا گندا کرنا

پھر expect کرنا اللہ تعالی رحمٰن ہے، معاف کردے گا، یہ رویہ رہیں گے تو گناہ کا احساس ندامت کیوں رکھا گیا ہے؟ کوئی وجہ ہوگی تب ہی ان احساسات کو رکھا گیا ہے، ورنہ فضول ہوتا تو کیونکر ان چیزوں کو رکھتے؟

Corona Virus Pandemic

ہمارے لوگوں کو جگت بازی کی اتنی بڑی بیماری کینسر کی طرح ہوچکی ہے، کہ اپنا دین ایمان کو دوبارا تر و تازہ کرنے کے لیئے مساجد میں جانے میں دم نکلا جاتا ہے، مگر اسی مذہب کا ایک تہوار منانے کے لیئے عید کی تیاری کے لیے یہی قوم Social Distancing کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔

Depression

مساجد جانے سے صرف ہم میں ایک امید جاگتی ہے، اور اس امید کی بدولت انسان نے بڑے بڑے معارکہ سر کیئے ہیں جن سے ہماری یعنی انسانوں کی تاریخ بھری پڑی ہے، اس امید کو ختم کرکے اگر ہم کسی انسان کے بنائے ہوئے شیطانی نظام کو follow کرنا شروع کردیں، تو کیا یہ ہم اپنے فیملی سسٹم کو ختم نہیں کررہے؟ جب امید ہی نہیں رہے گی تو کیا ہم اشرف المخلوقات سے حیوان میں نہیں تبدیل ہوجائیں گے؟ کیا ڈپریشن کا شکار انسان صحیح سوج بوجھ کے ساتھ کوئی فیصلہ لے سکتا ہے؟ یہ تو واقعی میں انہیں prophecies کی طرف جارہے ہیں جہاں کہا جاتا تھا کہ صبح اٹھتے تھے تو مومن ہوتے تھے پر رات تک اوروں میں تبدیل ہوجاتے تھے۔ اسی حال کی جانب ہم جارہے ہیں۔




Unlimited Web Hosting

Mind Programming: From Persuasion and Brainwashing, to Self-Help and Practical Metaphysics

Brainwashing and marketing are big business; and your precious mind is a coveted commodity. In this book Eldon Taylor exposes all and tells you how to take your power back and be free to become your own best self. Eldon is really a master!
Joan Borysenko, Ph.D., Author of Minding the Body, Mending the Mind and Your Soul's Compass

In reading Eldon Taylor’s book Mind Programming: From Persuasion and Brainwashing to Self-Help and Practical Metaphysics, I embarked upon a journey beginning at Psych 101 and ending deep into postgraduate Metaphysics; a reading experience that delivers a near-visceral adventure that begins with imagination and ends in near-manifestation. Eldon reveals the extraordinary reality of a virtually unrecognized dimension where each of us lives every day but are completely unaware--the subliminal realm. I recently produced a motion picture featuring 23 Living Luminaries, each of whom shares pearls of wisdom and enlightened insights as to how we can all achieve true happiness and our purpose in life. Although it was an extraordinary cast, in retrospect I wish there had been 24. Eldon Taylor brings an invaluable teaching to seekers of wisdom and understanding. The world of higher learning has a new Œhigh bar¹ with his work.
Michael J Lasky, producer and founder, Gotham Metro Studios, Inc.

*From the new film Living Luminaries (on the Serious Business of Happiness) featuring 23 luminaries such as Eckhart Tolle, Marianne Williamson, Don Miguel Ruiz, Michael Bernard Beckwith, Geronimo JiJaga (Pratt), Dr. Obadiah Harris, and many extraordinary masters of conscious disciplines.

Dr. Eldon Taylor's new book is a must-read! If you've ever questioned your purpose in life or felt bound by a culture that's driven by mass media, you now have at your fingertips the knowledge and tools to break the chains of this cycle. Eldon goes in-depth to illustrate and expose how we've been programmed from birth by social constraints; and he methodically reveals the psychological techniques that advertisers, politicians, corporations, and the media use to control us. He then provides strategies and solutions to free your mind from these tactics and rise to a new level of consciousness.
As you read this book, you'll feel the blinders being removed and will truly see the world in an entirely new light.
Jeff Warrick, documentary film-maker, Programming the Nation?


Concerning the above, it is a widely accepted fact that the same is being religiously incorporated into Pakistan society.

The risks of social isolation

According to a 2018 national survey by Cigna, loneliness levels have reached an all-time high, with nearly half of 20,000 U.S. adults reporting they sometimes or always feel alone. Forty percent of survey participants also reported they sometimes or always feel that their relationships are not meaningful and that they feel isolated.
Such numbers are alarming because of the health and mental health risks associated with loneliness. According to a meta-analysis co-authored by Julianne Holt-Lunstad, Ph.D., a professor of psychology and neuroscience at Brigham Young University, a lack of social connection heightens health risks as much as smoking 15 cigarettes a day or having alcohol use disorder. She’s also found that loneliness and social isolation are twice as harmful to physical and mental health as obesity (Perspectives on Psychological Science, Vol. 10, No. 2, 2015).
"There is robust evidence that social isolation and loneliness significantly increase the risk for premature mortality, and the magnitude of the risk exceeds that of many leading health indicators," Holt­Lunstad says.
To stem such health risks, campaigns and coalitions to reduce social isolation and loneliness—an individual’s perceived level of social isolation—have been launched in Australia, ­Denmark, and the United Kingdom. These national programs bring together research experts, nonprofit and government agencies, community groups, and skilled volunteers to raise awareness of loneliness and address social isolation through evidence-based interventions and advocacy.
But is loneliness really increasing, or is it a condition that humans have always experienced at various times of life? In other words, are we becoming lonelier or just more inclined to recognize and talk about the problem?
These are tough questions to answer because historical data about loneliness are scant. Still, some research suggests that social isolation is increasing, so loneliness maybe, too, says Holt-Lunstad. The most recent U.S. census data, for example, show that more than a quarter of the population lives alone—the highest rate ever recorded. Also, more than half of the population is unmarried, and marriage rates and the number of children per household have declined since the previous census. Rates of volunteerism have also decreased, according to research by the University of Maryland’s Do Good Institute, and an increasing percentage of Americans report no religious affiliation—suggesting declines in the kinds of religious and other institutional connections that can provide a community.
"Regardless of whether loneliness is increasing or remaining stable, we have lots of evidence that a significant portion of the population is affected by it," says Holt­Lunstad. "Being connected to others socially is widely considered a fundamental human need—crucial to both well-being and survival."
As experts in behavior change, psychologists are well-positioned to help the nation combat loneliness. Through their research and public policy work, many psychologists have been providing data and detailed recommendations for advancing social connection as a U.S. public health priority on both the societal and individual levels.
"With an increasing aging population, the effects of loneliness on public health are only anticipated to increase," Holt-Lunstad says. "The challenge we face now is figuring out what can be done about it."

Who is most likely?

Loneliness is an experience that has been around since the beginning of time—and we all deal with it, according to Ami Rokach, Ph.D., an instructor at York University in Canada and a clinical psychologist. "It’s something every single one of us deals with from time to time," he explains, and can occur during life transitions such as the death of a loved one, a divorce or a move to a new place. This kind of loneliness is referred to by researchers as reactive loneliness.
Problems can arise, however, when an experience of loneliness becomes chronic, Rokach notes. "If reactive loneliness is painful, chronic loneliness is torturous," he says. Chronic loneliness is most likely to set in when individuals either don’t have the emotional, mental or financial resources to get out and satisfy their social needs or they lack a social circle that can provide these benefits, says psychologist Louise Hawkley, Ph.D., a senior research scientist at the research organization NORC at the University of Chicago.
"That’s when things can become very problematic, and when many of the major negative health consequences of loneliness can set in," she says.
Last year, a Pew Research Center survey of more than 6,000 U.S. adults linked frequent loneliness to dissatisfaction with one’s family, social, and community life. About 28 percent of those dissatisfied with their family life feel lonely all or most of the time, compared with just 7 percent of those satisfied with their family life. Satisfaction with one’s social life follows a similar pattern: 26 percent of those dissatisfied with their social lives are frequently lonely, compared with just 5 percent of those who are satisfied with their social lives. One in five Americans who say they are not satisfied with the quality of life in their local communities feel frequent loneliness, roughly triple the 7 percent of Americans who are satisfied with the quality of life in their communities.
And, of course, loneliness can occur when people are surrounded by others—on the subway, in a classroom, or even with their spouses and children, according to Rokach, who adds that loneliness is not synonymous with chosen isolation or solitude. Rather, loneliness is defined by people’s levels of satisfaction with their connectedness, or their perceived social isolation.

Concerning Pakistan

Self Isolation/Social Distancing & the Family system

Isolation in Pakistani society is something not very well versed practice, as it is a human psychology that sudden and/or gradual social interactions after this social isolation mechanism, is surely going to impact our psyche in the long run which is hard to observe in the short span.

The Family bonding/system

It is surely going to impact our family system just like it had in Europe and the Americas, where none of the partners knows whether other is cheating on him/her or otherwise because too much of isolation means a social animal like the human beings get bored and detract from the available family members might involve emotions to get attracted for someone other than the husband/wife and same is the concern with other family members,.

The relaxation of self-isolation

When this self-isolation is relaxed, it is going to have the same impact just like the water on the freshly dried cemented wall, which results in creating newer cracks. That is why what I observed, the labors usually soak wet khaki cloth on walls so that slowly and gradually tilting the wall slowly because the sudden impact of hydrogen and oxygen molecules from the Water H2O, starts to react from the cement molecules, where O2 starts oxidation process within the cement mixture.

Now coming back to Human Psychology

When such a similar process deteriorates the cement concrete procedure in newly built walls, the same is applicable for human psychology because the way this self-imposed isolation was incorporated, now the relaxation would definitely have the same impact just like oxidation in the concrete procedure.

The Hope Factor

The hope is something very important yet least discussed on general because our South Asian societies are laid on the basic principles of hope and faith, and hence now the masses are being detracted from the مساجد, Temples, گردوارا, Churches amid this Pandemic but I am afraid the faith we had on Allah and/or the God (the other religions portray of Allah), in the time of greys is being hit very hard and instead now we've been encoding like a slow poison which is going to relay the impact within decades.



Unlimited Web Hosting

Fifth generation warfare

یہ ایک بہت خطرناک صورتحال ہے، جہاں mind programming کو fighting tool کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جبکہ ہم ابھی بھی اس خوش فہمی میں مبتلہ ہیں کہ دشمن گولیوں، بذوکا، میزائیل وغیرہ سے ہم پر حملہ کریں گے۔

ھندی الفاظ کا اردو میں شمولیت

میں یہاں conservative mindset کا مظاہرہ نہیں کروں گا، کیونکہ اردو زبان کو پانی کی طرح fluent ہونا چاہیے جہاں نئے نئے الفاظ کو welcome کرنا چاہیئے، کیونکہ ہماری موجودہ اردو میں فارسی، عربی اور انگلش کے بہت سے الفاظ موجود ہیں، مگر اردو زبان کی اصل خوبصورتی اس کا تلفظ ہے جہاں غیر ملکی الفاظ جیسے انگلش وغیرہ بھی اردو کا حصہ لگتے ہیں، مگر آہستہ آہستہ جس طرح ہمارے بولنے کا تلفظ کو slowly تبدیل کیا جارہا ہے، ایک طرح کا slow poison ہے، کیونکہ آہستہ آہستہ "خ" بولنے کے بجائے "کھ" بولنے میں فخر سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری اپنی individuality داو پر لگی ہوئی ہے، کیونکہ پہلے اردو بولنے والے اور ہندی بولنے کے بیچ میں فرق ان کے تلفظ سے پہچانے جاتے تھے اور ہندی بولنے والے ہم اردو بولنے والوں سے خائف رہتے تھے کیونکہ ہم بہت سارے ایسے الفاظ پول لیتے تھے جو ہندی بولنے والے نہیں بول پاتے تھے، جیسے سنیل گواسکر کبھی اعجاز احمد کو اعجاز احمد بولنے کے بجائے اجاج احمد کہتے تھے، مگر آج ہماری post 2000 generation یہی accent میں بات کرنا پسند کرتی ہے as compared to ہم 1980s اور 1990s میں بیدا ہونے والے جو ابھی بھی اسی accent میں بات کرنا پسند کرتے۔

Fifth-generation warfare

"پانچویں نسل کی جنگی حکمت عملی ، آپریشنل ، اور تدبیراتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک پروپیگنڈا اور معلوماتی جنگ ہے ، بغیر کسی حد کے نقصان کے جس کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ 5 جی ڈبلیو میں ممکن ہے کہ ہدف کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ اس پر حملہ کیا گیا ہے ، اس طرح ہدف اس جنگ کو پہلے ہی ہار چکا ہے" 

اس سے مطلب ہے ہماری ideology پر حملہ، کیونکہ اب بات یہاں تک آگئی ہے کہ کسی زمانے میں ہم اپنے کلچر اور ماضی کے بارے میں فخر کرتے تھے، آج وہی ہورہا ہے جو بانگلادیش میں ہوچکا ہے، جہاں آہستہ آہستہ ہندی کلچر کو اتنا common کردیا ہے کہ دونوں ممالک میں بہت کم فرق ہے، ہالانکہ جو فرق ہے وہ بہت گہرہ ہے مگر وہ لوگ جو بانگلادیش جاچکے ہیں، میری اس بات کو second ضرور کریں۔

میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں؟

میں ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ پہلے بھی کوششیں کی جاچکیں ہیں مگر جب ہمارے بڑے ہوتے تھے، جو ان چیزوں کے بیچ میں دیوار ہوتے تھے، ورنہ اس وقت بھی "شد" یعنی پاک صاف کرنے کی مہم، جہاں ان کا کہنا ہوتا ہے کہ پہلے ھندوستان میں سارے ھندو ہوا کرتے تھے جس پر مسلمان غاصب ہوئے، اسی وجہ سے پہلے بھی کوششیں کی جاتی تھیں، انڈیا میں تو اب یہ عام ہوچکا ہے کہ مسلمان کے گھر میں ھندو مذہب کی مورتیاں موجود ہیں یا مسلمان لڑکی کا غیر مسلمان لڑکے بلکہ اب تو زمانہ اور ambitious ہوچکا ہے، جہاں لڑکی لڑکی کے relation کو positively portray کیا جارہا ہے، اور وہی کھیل اب پاکستان میں کھیلنے کی تیاری کی جارہی ہے، جیسے پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی نے اپنی بیٹی پر سختی کی کیونکہ ہمارے اپنے مذہب میں موجود ہے جو جس کسی کی پیروی کرے گا، وہ نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو vulnerable دیکھا رہا ہے، اور ایک طرح کا invitation to offer ہے کہ ہمیں plagiarize کرو۔

مذہبی point of view

مشابہت ایک حالت کا نام ہے جو انسان پر طاری ہوتی ہے، مشابہت کرنے سے جس کی مشابہت کی جائے اُسکی تعظیم ہوتی ہے، عمومی طور پر یہ نا مناسب عادت ہے، اسی لئے شریعت نے کفار سے مشابہت کے مسئلے کو کافی اہمیت دی ، اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعی طور پر حرام قرار دیا، اور فرمایا: (جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اُنہی میں سے ہے) ابو داود، (4031) اور البانی رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اس حدیث کا کم از کم یہ تقاضا ہے کہ کفار سے مشابہت حرام ہے، اگرچہ ظاہری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان سے مشابہت رکھنے والا شخص کافر ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی میں ہے:
(وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ) المائدة/51
ترجمہ: جو تم میں سے انکے ساتھ دوستی رکھے گا تو وہ اُنہی میں سے ہوگا۔

تو اس حدیث کو مطلق تشبیہ پر محمول کیا جاسکتا ہے، جو کہ کفر کا موجِب ہے، اور کم از کم اس تشبیہ کے کچھ اجزا کے حرام ہونے کا تقاضا کرتا ہے، یا اسکا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح کی مشابہت ہوگی اسی طرح کا حکم ہوگا، کفریہ کام میں مشابہت ہوگی تو کفر، گناہ کے کام میں مشابہت ہوگی تو گناہ، اور اگر ان کفار کے کسی خاص کام میں مشابہت ہوئی تو اسکا بھی حکم اُسی کام کے مطابق لگے گا، بہر حال اس حدیث کا تقاضا ہے کہ مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔ انتہی مختصراً از کتاب "اقتضاء الصراط المستقيم" (1/270، 271)

مسلمانوں کیلئے کفار سے مشابہت کی ممانعت کیلئے کیا حکمت ہے ؟ مشابہت کے نقصانات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ بھی جانی جا سکتی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں: 

1- اگر کوئی مسلمان کافر کی مشابہت اختیار کرے تو وہ اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ کافر کی شکل وصورت مسلمان سے افضل ہے، اور اس کی بنا پر اللہ کی شریعت اور اسکی مشیئت پر اعتراض آتا ہے۔
چنانچہ جو خاتون مرد کی مشابہت اختیار کرتی ہے گویا کہ وہ اللہ تعالی کی خلقت پر اعتراض کرتی ہے، اور اسے تخلیقِ الہی پسند نہیں ہے۔ 

2- کسی کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا نفسیاتی طور پر کمزور ہونے کی دلیل ہے، جس سے لگتا ہے کہ یہ شخص اندر سے شکست خوردہ ہے، جبکہ شریعت کبھی بھی مسلمانوں سے اس بات کو قبول نہیں کرے گی کہ وہ اپنی شکست خوردہ حالت کا اعلان کرتے پھریں، چاہے حقیقت میں وہ شکست خوردہ ہی کیوں نہ ہوں۔
اس لئے کہ شکست تسلیم کر لینا مزید کمزوری کا باعث بنتا ہے، جس کے باعث فاتح مزید طاقتور بن جاتا ہے، اور یہ کمزور کے طاقتور بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔
اسی لئے کسی بھی قوم کے عقل مند حضرات کبھی بھی اپنے معاشروں کو دشمنوں کے پیچھے لگ کر انکی مشابہت اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتے، بلکہ وہ اپنی پہچان اور شخصیت باقی رکھتے ہوئےاپنی میراث ، لباس، اور رسوم و رواج کی حفاظت کرتے ہیں، چاہے دشمنوں کے رسم و رواج ان سے افضل ہی کیوں نہ ہوں؛ یہ سب کچھ اس لئے کہ وہ معاشرتی اور نفسیاتی اقدار کو جانتے ہیں۔

3- ظاہری منظر میں کسی کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے دل میں اس کیلئے محبت کے اسباب پیدا کرتی ہے، اسی لئے انسان اُسی کی مشابہت اختیار کرتا ہے جس سے محبت بھی کرے، جبکہ مسلمانوں کو کفار سے تمام وسائل کے ذریعے اعلانِ براءت کا حکم ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
(لَا يَتَّخِذْ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنْ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمْ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ) آل عمران/28 .
ترجمہ: مؤمنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو ہرگز دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اسے اللہ سے کوئی واسطہ نہیں اِلاّ کہ تمہیں ان کافروں سے بچاؤ کے لیے کسی قسم کا طرز عمل اختیار کرنا پڑے، اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
(لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ) المجادلة/22
ترجمہ: جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ کبھی انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی یا کنبہ والے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا: (مضبوط ترین ایمان کا کڑا: اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے آپس میں ایک دوسرے سے میل جول رکھنا اور دشمنوں سے دشمنی رکھنا اور اللہ کی خوشنودی کے لیے کسی سے دوستی رکھنا اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے کسی سے بغض و نفرت رکھنا ہے) طبرانی اور البانی نے السلسلة الصحيحة (998) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب: "اقتضاء الصراط المستقيم" (1/549) میں کہتے ہیں:
"ظاہری طور پر کسی کے ساتھ مشابہت اپنانا دل میں اسکے بارے میں محبت پیدا کردیتا ہے، جس طرح دل میں موجود محبت ظاہری مشابہت پر ابھارتی ہے، یہ ایک ایسی بات ہے جو عام مشاہدے میں پائی جاتی ہےاور اسکا تجربہ بھی کیا گیا ہے" انتہی
4- ظاہری طور پر کفار کی مشابہت سے انسان اس سے بھی خطرناک مرحلے کی طرف بڑھتا ہے اور وہ ہے کہ اندر سے بھی انسان اِنہی کفار جیسا بن جاتا ہے، چنانچہ اِنہی جیسے اعتقادات رکھتا ہے، اور انکے افکار و نظریات کو صحیح سمجھنے لگتا ہے، اس لئے کہ انسان کی ظاہری اور باطنی حالت میں شدید تعلق پایا جاتا ہے، اور یہ دونوں ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اقتضاء الصراط المستقيم (1/548) میں کہتے ہیں:
"ظاہری طور پر مشابہت باطنی طور پر مشابہت کا باعث بنتے ہیں، اور یہ سب کچھ اتنا مخفی اور سلسلہ وار ہوتا ہے کہ احساس نہیں ہوپاتا، جیسے کہ ہم نے ان یہودو نصاری کو دیکھا ہے جو مسلم معاشرے میں رہتے تھے، ان میں دیگر یہود ونصاریٰ سے کم کفریہ نظریات پائے جاتے تھے، بعینہ ایسے وہ مسلمان جو یہود ونصاریٰ کے معاشرے میں رہتے ہیں ، وہ لوگ دیگر مسلمانوں سے کم ایمان رکھتے ہیں" انتہی
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ظاہری لباس میں مشابہت باطنی افکار میں موافقت کا باعث بنتا ہے، جیسا کہ اس کے متعلق شرعی، عقلی اور واقعی دلائل موجود ہیں، اسی لئے شریعتِ مطہرہ نے کفار ، حیوانات، شیاطین، خواتین، اور دیہاتی لوگوں سے مشابہت منع قرار دی ہے" انتہی
الفروسية ص(122)
یہ چند ظاہری حکمتیں ہیں جن کی وجہ سے شریعت نے مسلمانوں کو مشرکین کی مشابہت سے روکا ہے، اس لئے ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ اللہ تعالی کے تمام احکامات کی پیروی کرے، اور یہ بات دل میں بیٹھا لے کہ اللہ تعالی اسے کوئی بھی حکم بغیر کسی حکمت، فائدے اور مصلحت اور دنیا و آخرت میں کامیابی کے نہیں دیگا ۔
واللہ اعلم .


Unlimited Web Hosting

غیر ضروری سیاسی حالات

اب تو میں خود تھک گیا ہوں یہ بات کو اجاگر کر کے کہ موقع محل اور اسکے مناسبت سے act کریں مگر نہیں ہم میں attention seeking کی اتنی گندی عادت ہے کہ ایک لمحے کو بھی یہ نہیں سوچتے کہ ان کی ان حرکات سے پاکستان کو کیا فائدہ ہورہا ہے؟ کیا ملک کے بارے میں ہم سوچتے ہیں؟

میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں؟ میرا ایسا کہنے کی کیا وجہ ہے؟

میں اس طرح اس لئے کہہ رہا ہوں، کیونکہ ایک ایسے موقع پر جب پورا پاکستان بند ہے اور پاکستان کی طرح پوری دنیا اس وقت متقفل ہے جس کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ جس طرح ہم ٹی وی، لیپ ٹاپ اور موبائیل پر دنیا بھر کی خبر دیکھتے تو کیا یہ عین ممکن نہیں کہ دنیا بھی ہمارے ملک میں موجود افراتفری اور سیاسی ہلچل کو انارکی / anarchy کی حیثیت میں دیکھیں تو کیا ہم پاکستان کو دنیا میں کس طرح present کر رہے ہیں؟

کیا یہ وقت ہے سیاست کرنے کا؟

میں یہاں سیاسی جماعتوں کو الزام دینے کے بجائے عام عوام کو hit on the back کروں گا کیونکہ میرا یہ ماننا ہے کہ جیسی عوام ہوگی، ویسا ہی میڈیا ہوگا، اور ایسے میں اگر میڈیا یہ چیزیں دیکھا رہا ہے تو وہ اس وقت ہی دیکھائے گا جب demand ہوگی، آج کا زمانہ demand and supply کے rule پر چلتا ہے، ورنہ کیا میڈیا کو پاگل کتے نے کاٹا ہے جو اس طرح کا exaggerated content دیکھائے؟ پوری دنیا کا میڈیا دیکھ لیں اور ہمارے ملک کا میڈیا دیکھیں، ایسا لگتا ہے پوری دنیا اپنی خود کی entertainment کے لیئے پاکستان کو استعمال کررہا ہے!

مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے؟

کیا اس طرح کے حرکتیں کرنا ضروری ہے؟

اس طرح کے پوسٹس پردنیا میں ہم کیا میسیج بھیج رہے ہیں؟

کیا اس ایشو کی وجہ سے ایک ٹرینڈ ایسا شروع کرنا ضروری ہے؟

عوام کو خود اس طرح کا مٹیریئل پسند ہے

یہ لوگ پاکستان میں لوگوں کو اس موقع پر لڑا کر پوپ کارن کھانے میں مشغول ہیں اور یہاں بیوقوفوں کی طرح ہم جھگڑا کرتے بیٹھیں ہیں۔۔۔

کیا ان حالات میں ہمیں پاکستان کی متعلق نہیں سوچنا چاہیئے؟

کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے، مگر کیا واقعی میں پاکستان اتنا گیا گزرا ہے جتنا کراچی ہے؟ ان جیالوں نے کراچی کو دوسرا لاڑکانہ بنادیا ہے اس پر کراچی پر اپنا حق جتا رہے ہیں؟ پورے سندھ کے لئے on ground آپ نے کرا کیا ہے؟ یہ باتیں نہ کریں کہ یہ کیا وہ کیا فلاں ڈھمکانا، overall سندھ صوبہ کی کیا حالت ہے؟ کہاں investment کی ہے آپ نے اور rate of overall return on investment کا کیا ratio ہے، زرا statistics کو واضع کریں، کراچی کی ownership سے پہلے سندھ کو تو own کریں، سندھ میں perform کریں تاکہ کراچی بھی اپنے اپ کو سندھ کا حصہ تسلیم کرے، سندھ دو حصوں میں تقصیم ہے، ایک کراچی اور حیدرآباد ہے، باقی اندرون سندھ۔ دونوں سندھ کے کلچر، پلڈنگز، رہن سہن وغیرہ سب ایک دوسرے سے قدرے الگ ہے، تو ایسے میں یہ لوگ interior Sindh سے کراچی میں settle کرتے ہیں، ان لوگوں کی عقل یہاں سے آگے نہیں ہوتی!

اب جب کہ کرونا ہے

انکے پاس اپنا کوئی پلان نہیں کہ ان سب چیزوں سے کیسے tackle کرنا تو اس موقع پر بھی اپنی سیاست کرنے کا موقع نہیں چھوڑتے، مگر جیسے میں نے شروع میں کہا کہ مسئلہ عوام کا ہے، عوام جب تک خود تبدیل نہیں ہوگی پاکستان کی حالت نہیں تبدیل ہوگی۔



Unlimited Web Hosting

کراچی ایسا بھی تھا



Best Web Hosting in Pakistan
اس contamination سے پہلے کراچی ایسا ہوا کرتا تھا
 اب کراچی ایسا ہوا کرتا ہے، دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کیونکہ مٰیں اسی شہر میں پیدا ہوا، پلا بڑھا مگر یہ سین پہلے کبھی نہیں دیکھا
 


Unlimited Web Hosting

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting