کاش ہم یہ سب باتیں سمجھ جائیں pic.twitter.com/EKkDnHKkty
— Haqeeqat TV (@Haqeeqat_TV) December 3, 2021
Link List
Search me
Are we Muslims?
ہم کیا بن رہے ہیں؟
برائی ہر معاشرے میں ہے
اس کے لئے ضروری ہے
پاکستان میں سب سے زیادہ غلط سمجھے جانے والے قانونی تصورات میں سے ایک 'تیز انصاف' ہے: ملزم کے لیے ایک ضروری تحفظ سے، یہ 'رفتار' کے نام پر بنیادی منصفانہ ٹرائل کی ضمانتوں سے انکار کرنے کا بہانہ بن گیا ہے۔ منصفانہ ٹرائل کے حق کو اب پاکستان کے آئین میں ایک 'بنیادی حق' کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ منصفانہ ٹرائل کے حق کی ترجمانی کرتے ہوئے، سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مقننہ کا ارادہ "اسے وہی معنی دینا تھا جو پاکستان میں فقہ میں وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ اور سرایت کرتا ہے"۔TLP people's in Darhna
— Muhammad BilAL Naqvi (@ikbilalRaza) December 3, 2021
TLp out of Darhna days.....
Out of Darhna days they sails....! #Sialkot pic.twitter.com/cHk6Z9XQ3N
ایک منصفانہ مقدمے کی ایک بنیادی شرط، جسے پاکستانی قانون کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق (ICCPR) کے آرٹیکل 9 اور 14 میں تسلیم کیا گیا ہے، جس کا پاکستان ایک فریق ہے، یہ ہے کہ مقدمے کی سماعت بغیر کسی تاخیر کے اور اندرونِ خانہ ہونا چاہیے۔ ایک معقول وقت — جسے بول چال میں 'جلد ٹرائل' یا 'جلد انصاف' کہا جاتا ہے۔
بغیر کسی تاخیر کے مقدمہ چلانے کے حق کا مطلب یہ ہے کہ مقدمے کی سماعت مناسب وقت کے اندر ہونی چاہیے، عالمی سطح پر تسلیم شدہ محاورے کو سمیٹتے ہوئے ’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے‘۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے مطابق، ہر کیس کے حالات میں کیا معقول ہے، اس کا اندازہ بنیادی طور پر کیس کی پیچیدگی، اور ملزمان اور حکام کے طرز عمل کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جانا چاہیے۔
پاکستان میں عدالتوں نے خبردار کیا ہے کہ "جلد ٹرائل کبھی بھی طریقہ کار کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے"۔
We are doomed as a nation.🥺#Sialkot pic.twitter.com/x2Xeq28rZY
— Imran Khan (@imran_khan8888) December 3, 2021
بغیر کسی تاخیر کے ٹرائل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بے گناہی کے قیاس کا احترام کیا جاتا ہے، اور ملزمان کو اپنے دفاع کا موقع ملنے کے بغیر ان کی آزادی سے محروم نہیں کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد ملزم کو درپیش غیر یقینی صورتحال کو بھی محدود کرنا اور الزام سے منسلک کسی بدنما داغ کے امکان کو کم کرنا ہے۔ اس طرح، "تیز مقدمے کی سماعت" کا حق انصاف کی منظم اور موثر انتظامیہ کے ذریعے وسیع تر عوامی مفادات کا تحفظ بھی چاہتا ہے تاکہ صرف وہی لوگ سزا پا سکیں جو کسی جرم کے مرتکب ہوں۔ تاہم، یہ ضمانت، سب سے پہلے اور سب سے اہم، ملزم کا حق ہے - اور منصفانہ ٹرائل کے حقوق کو تقویت دینے کے بجائے کم کرنے کے تصور کا غلط استعمال انصاف کی خرابی کو جنم دیتا ہے۔
پاکستان میں عدالتوں نے بھی اس بات کو تقویت دی ہے کہ "جلد ٹرائل ہر ملزم کا ناقابل تنسیخ حق ہے"۔ اور انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ "تیز ٹرائل کبھی بھی طریقہ کار کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے" یا دوسرے حقوق جن کا ایک حقدار ہے، کیونکہ فوجداری نظام انصاف کا حتمی مقصد "انصاف کا انتظام کرنا ہے، نہ کہ کسی کیس کو جلد نمٹانا"۔
عملی طور پر، تاہم، متعدد 'خصوصی قوانین' نے سنگین جرائم کی ایک حد کے لیے 'تیز مقدمے کی سماعت' کا وعدہ کیا ہے، اس اصول کو اس کے سر پر بغیر کسی تاخیر کے مقدمہ چلانے کے حق کو تبدیل کر دیا ہے: انہوں نے مقدمات کے لیے غیر معقول حد تک مختصر وقت کا فریم مقرر کیا ہے۔ نتیجہ اخذ کیا جائے، اور زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ تاخیر کی بنیادی وجوہات پر توجہ دینے کے بجائے، انہوں نے 'اسپیڈ' کے نام پر ملزمان کے بنیادی منصفانہ ٹرائل کے حقوق کو ختم کر دیا ہے۔
مثال کے طور پر، انسداد دہشت گردی ایکٹ، 1997 کو لے لیجیے، جو دہشت گردی، فرقہ وارانہ تشدد کی روک تھام اور "گھناؤنے جرائم کے فوری ٹرائل" کے لیے فراہم کرتا ہے۔ قانون کہتا ہے کہ عدالتوں کو ایکٹ کے تحت مقدمات کا فیصلہ سات دنوں کے غیر حقیقی وقت کے اندر کرنا چاہیے۔ یہ ملزمین کے ضمانت حاصل کرنے کے حق پر پابندیاں لگاتا ہے اور انہیں ضابطہ فوجداری کے تحت دستیاب متعدد تحفظات سے انکار کرتا ہے، بشمول یہ کہ گواہوں کی موجودگی میں تلاشی لی جائے۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اے ٹی اے ایک "سخت قانون" ہے جو منصفانہ ٹرائل کے حقوق کو نمایاں طور پر کم کرتا ہے۔
اسی طرح، آئین میں 23 ویں ترمیم اور آرمی ایکٹ 1952 میں کی گئی ترامیم، "خصوصی اقدامات … دہشت گردی سے متعلق بعض جرائم کو تیزی سے نمٹانے کے لیے" فراہم کرتی ہیں۔ وہ فوجی عدالتوں کو دہشت گردی سے متعلقہ بعض جرائم میں ملوث شہریوں پر مقدمہ چلانے کی اجازت دیتے ہیں، یہ دائرہ اختیار فطری طور پر عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری سے مطابقت نہیں رکھتا۔
فوجی عدالتوں کا طریقہ کار بھی مبہم ہے اور ان کی سماعت عوام کے لیے
بند ہے، جس کی وجہ سے منصفانہ مقدمے کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں جن میں پسند کے وکیل کے حق سے انکار بھی شامل ہے۔ ملزمان کے خلاف الزامات ظاہر کرنے میں ناکامی؛ مجرموں کو ثبوت اور فیصلے کی وجوہات کے ساتھ فیصلے کی نقول دینے میں ناکامی؛ اور بہت زیادہ تعداد میں سزائیں - تقریباً 98 فیصد - تشدد اور بد سلوکی کے خلاف مناسب حفاظتی اقدامات کے بغیر 'اعترافات' پر مبنی۔پاکستان میں انتہا پسندی روکنے کا واحد طریقہ
— Haqeeqat TV (@Haqeeqat_TV) December 3, 2021
جن پاگلوں کے جتھے نے آج سری لنکا کے مینیجر کو جلایا ہے سب سے پہلے عدالت کاروائی کر کےانکو 48 گھنٹوں میں سزائے موت سنائے اور اسی وقت سزا پر عمل ہو انکو اپیل کا کوئی حق نا ہو نا انکا کوئی نماز جنازہ پڑھائے
ورنہ ہر گلی محلے میں یہ ہوگا
اس کے علاوہ، قومی احتساب آرڈیننس، 1999 کی تمہید میں کہا گیا ہے کہ "بدعنوانی کے مقدمات کو جلد نمٹانے" کے لیے موثر اقدامات فراہم کرنا مناسب اور ضروری ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ احتساب عدالتیں 30 دن کے اندر مقدمات کا فیصلہ کریں گی۔ کچھ جرائم کے لیے جرم مان کر ثبوت کے بوجھ کو الٹ دیتا ہے۔ انکوائری کے کسی بھی مرحلے پر بغیر وارنٹ گرفتاری کی اجازت دیتا ہے۔ مقدمے کی سماعت سے پہلے کی حراست کی طویل مدت فراہم کرتا ہے؛ اور قانون کے تحت جرائم کو ناقابل ضمانت قرار دیتا ہے۔
اگرچہ تاخیر کو کم کرنے کا مقصد قابل تعریف ہے اور پاکستان میں قانون کی اصلاح کے لیے ایک ترجیح ہونی چاہیے، لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ 'رفتار' پر زور انصاف کی ضرورت پر بہت کم غور کیا جاتا ہے - انصاف مجرموں کو سزا دینے اور بے گناہوں کو بری کرنے کے بارے میں ہے۔ فوری انتقام کی خواہش کے بجائے۔ یہ 'رفتار' فوجداری نظام انصاف کی مضبوطی سے نہیں بلکہ جابرانہ اقدامات کے ذریعے حاصل کی گئی ہے جیسے کہ بے گناہی کے قیاس اور عوامی سماعت کے حق، آزادی کے حق میں رکاوٹ ڈالنے اور انکار کرنے جیسے پرانے اصولوں کو تبدیل کرنے کے ذریعے۔ اپنے دفاع کی تیاری کے لیے کافی وقت اور سہولیات کے حق کا الزام لگایا۔
پاکستان میں فوجداری مقدمات میں طویل تاخیر سے مایوسی جائز ہے، لیکن کئی دہائیوں کی نظر اندازی کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کا راتوں رات کوئی حل نہیں ہے۔ حقیقی معنوں میں تیز رفتار 'انصاف' کو یقینی بنانے کے لیے فوجداری نظام انصاف میں بڑے پیمانے پر نظر ثانی اور اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔ اسے اسی طرح کے قانونی نظاموں کے ساتھ دوسرے دائرہ اختیار کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہوگی۔ اس بات کو یقینی بنانا کہ منصفانہ ٹرائل کے حق کی کم از کم ضمانتیں ہر وقت محفوظ رہیں؛ اور اصل سے ڈرائنگ ججوں، وکلاء اور تفتیش کاروں کے روزمرہ کے تجربات، انصاف کے بنیادی اصولوں کی قیمت پر 'رفتار' کی خواہش سے متاثر عجلت میں نہیں، غلط تصور شدہ اقدامات۔
کیا ہم واقعی میں مستقبل میں ہیں؟
کس طرح ہماری مائنڈ پروگرامنگ کی جارہی ہے؟
مگر اس کا اِس ٹاپک سے کیا جوڑ؟؟؟
میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں؟
وہ کیوں؟
ایسے میں
کراچی لاک ڈائون کے دوران
Accepting that
یہ جوبیماریا ں ہمارے آس پاس موجود ہیں، کیا پہلے موجود نہیں تھیں؟ کیا پہلے ہمارا گلا خراب نہیں ہوا؟ کیا پہلے ایسا نہیں ہوا کہ taste buds نے اپنا کام یعنی taste recognize کرنا چھوڑا ہو؟ یہ کیونکر ہورہا ہے کہ کورونا سے مرنے والوں کو گاڑا جارہا ہے، صحیح طریقے سے تدفین بھی نہیں ہوتی؟ کیا اسکا سیدھا سیدھا مطلب یہ نہیں کہ ڈر کو ہمارے ذہنوں میں بٹھا کر اسی طرح کی جنیاتی تبدیلیاں ہمارے اندر لائی جارہی ہیں جیسے ہمارے سے پہلے کی نسلوں میں آئیں جو ۱۴ ۱۵ فٹ کے دیو ہیکل ہوا کرتے تھے اور آہستہ آہستہ fragile ہوتے ہوتے اس موڑ پر آئے؟ Beneficiary کو دیکھیں کہ انسانوں کو fragile کرکے کون فائدے میں ہے؟ کس کو فائدہ ہو رہا ہے، کون فائدہ اُٹھا رہا ہے اور کس کو کتنا فائدہ دلایا جارہا ہے۔ لوگوں کو شرم آنی چاہئے کہ اب بیماریوں کو بھی status symbol کے طور پر استعمال کیا اور کرا جارہا ہے اور ہمارے ذہنوں میں بھی یہی چیز ہمارے بڑوں کی جانب سے ہم میں ڈالی جارہی ہے۔
Virtual Communication
اس بیماری کے آنے کے بعد جو سب سے بڑا ٹرینڈ آیا کہ ورچوئل رابطہ کو فروغ دیا جارہا ہے، جو کہ پہلے اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا تھا اور ابھی کچھ مہینے پہلے تک میں خود کہتا تھا کہ far fetched future میں شاید ہم اس جانب دلچسپی دیکھائیں، مگر دیکھ لیں، آفیشلی پاکستان میں ۲۶ فروری کو پہلا کیس آیا، اور آج نومبر کی ۲۶ اسٹارٹ ہونے والی ہے خود دیکھ لیں، ایس سی او سَمِٹ ورچوئل ہوئی، ابھی جی ۲۰ ریاض میں ورچائل ہونے والی ہے، جس سے اندازہ کرلیں یہ سب پری پلان تھا اور ہے۔
کورونا صرف ٹی وی میں ہے
جی ہاں، کیونکہ جب سے کورونا آیا ہے، میں نے صرف اور صرف ٹی وی دیکھنا بند کیا ہے اور اپنے آپ کو کاموں میں، لکھائی میں، فیملی میں، اپنے آپ کو involve کیا، تو میرا ذہن اس جانب نہیں، جبکہ honestly اس دوران میری طبیعت بھی خراب ہوئی، مجھے اسکین پرابلم بھی ہوئی، زخم بھرنے میں سُستی ہوئی، بخار بھی آیا اور چکر بھی آئے مگر چونکہ میرا ذہن ان خرافاتی خیالات سے مبرہ تھا، اور اللہ تعالٰی پر توکل، تو ان سب چیزوں سے نکل گیا حالانکہ مجھے میرے آفس والوں نے بھی کہا کہ تمہاری آنکھیں اتری ہوئی لگ رہی ہیں، یا تم concentrate نہیں کر پارہے ہو، تھوڑا پاور نیپ لو، مگر چونکہ میرا ذہن صاف تھا، یہی symptoms مجھے بھی کچھ کچھ ہوئے، جیسے ایک دن میں ۳ مرتبہ بخار کا چڑھنا پھر اترنا، اسی لئے اب میرا اس حوالے سے پختہ یقین ہوچکا ہے کہ یہ سارا مائنڈ گیم ہے اور کچھ بھی نہیں۔
لائن آف actual کنٹرول، لائن آف کنٹرول اور پاکستانی سیاست + سیاستدان
پاکستان کی سالمیت، ہمارے سیاستدان، ہمارے نیوز اینکرز
اسی وجہ سے
جیسا کہ ابھی دو مہینے پہلے
ایک چیز بار بار دیکھانا؟
اسپورٹس اور سیاست؟
ان لوگوں کی وجہ سے
امریکی الیکشن اور بلیک واٹر
میڈیا کو لگام لگاوٗ
Is it or is it otherwise?
Mind programming on the high during the second wave
مجھے personally سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کیونکر ایک ایسی بیماری کو دماغی بخار بنانے میں مشغول ہیں اور کیونکر ہمارے ذہنوں میں یہ بات ٹھیک اسی طرح ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے چھوٹے بچوں کے منہ کے اندر ان کی والدائیں Cerelac کا چمچہ ڈالتی ہیں؟؟؟
قدرتی طور پر اگر کوئی وباء پھیلتی بھی ہے، تب بھی۔۔۔
اس موقع پر بھی gradually circumstances build up ہوتی ہیں نہ کہ ایک ٹیک گرو جس نے پہلے Windows 95 بنائی تھی اور اب ویکسین کے بزنس میں انویسٹمنٹ کی ہوئی ہے اس کے اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے بولنے پر ایک فلو کی بیماری کو ہوا بناکر پیش کیا جارہا ہے، اوراس شخص کے کہنے پر دنیا میں یہ بیماری اُٹھ رہی ہے اور ٹھیک اسی طرح بیٹھ بھی رہی ہے، وہ بھی دنوں کے حساب سے بیماری اُٹھ کر بیٹھ بھی جارہی ہے، یہ بیماری ہے کہ پالتو کتا؟ کیونکہ میں نے یہ دیکھا ہے کہ contamination کو clearہونے میں بھی مہینے لگتے ہیں، نہ کہ یہاں جہاں دنوں میں اٹھک بیٹھک جاری ہے۔
دوسری بات
اس بیماری کی intensity ایک بندے کے بعد دوسرے بندے میں intensity کم ہوجاتی پھر 14دن کے قرنطینہ کے بعد بندا صحیح ہوجاتا ہے، اور ساتھ میں لوگوں نے اسی وجہ سے اس کو امیروں کی بیماری بنا کر پیش کررہے ہیں،کیونکہ کچھ attention seekers کے لئے یہ ایک موقع ہے جس کی بناہ پر معاشرے میں مشہور ہونا ذیادہ ضروری ہے، اور بیشک ماسک پہن کر وہ کاربن ڈائی آکسائڈ جسے نارملی آپ کے جسم سے باہر نکلنا چائے، آپ اس ٭٭٭ کی حرکت کی وجہ سے بیشک attention gatherکرلے رہے ہیں مگر ساتھ میں نیچرلی اللہ تعالی نے جو سسٹم رکھا ہے کہ آکسیجن کو اندر جانا ہے اور جسم کے اندر کا کاربن ڈائی آکسائڈ باہر، مگر یہاں وہ گندی ہوا ہم دوبارا اندر لے کر اپنے آپ پر ظلم کررہے ہیں۔
ان سب کا فائدہ کس کو ہورہا ہے
یہ دیکھنا ہمارا کام ہے کیونکہ beneficiary management آج کے زمانے میں بڑی چیز ہے کہ ان سب کا فائدہ کون اٹھا رہا ہے، کس کی وجہ سے اُٹھا رہا ہے، کیوں اُٹھا رہا ہے، کس طریقے سے کتنا اُٹھا رہا ہے یہ سب کچھ دیکھیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی برابر ہوجائے گا، کیونکہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ دنیا کو panicمیں لاکر کن لوگوں کا فائدہ ہورہا ہے۔
London Bridge is falling down
لندن اور انگلینڈ کا پھر سننے میں آرہا ہے کہ بند ہونے کو لگا ہے، اور ہم چونکہ followersمیں آتے ہیں، دیکھا دیکھی ہمیں بھی لاک ڈاؤن کا دورہ پڑے گا، کیونکہ ہم سب کو ٭٭٭ سمجھا ہوا ہے،
اصل چیز دماغ ہے
ہم سب کے آس پاس اور اندر ایسے خطرناک بیکٹیریا موجود ہیں مگر جب تک دماغ کا حکم صادر نہیں ہوتا یہ خرافاتی بیکٹیریا ہمارے جسم میں نہیں آسکتے، تو اس طرح کی mind programmingکی بناہ پر اس barrierکو unlock کیا جارہا ہے تاکہ آنے والے انسان کی قوت مدافعت کمزور رہے، کیونکہ ان لوگوں کے لئے یہ affordکرنا آسان نہیں کہ اسی ریٹ پر دنیا کی آبادی بڑھتے رہے۔ آپ خود بتائیں، کیا ہم سب کے ساتھ ایسا نہیں ہوا کہ ایک دوائی ہم پر اثر نہیں کرتی مگر کوئی ایسا چہرہ جس پر آپکو بھروسہ ہوتا ہے اس سے وہی دوائی لینے پر آپکی طبیعت ٹھیک ہوجاتی ہے؟ کیونکہ اس صورتحال میں دماغ کی طرف سے acceptanceہوتی ہے،
میرے اپنے ساتھ کا experience
ابھی ان کراچی کی بارشوں میں میرا دائیاں پاؤں بری طرح زخمی ہوا جس کی بناہ پر چھالا ہوا اور بگڑ گیا کیونکہ اآفس میں پاؤں لٹکا کر بیٹھ رہا تھا، مگر جب میں ڈاکٹر کے پاس گیا اور دو دن کی دوائی سے چھالا سوکھ چکا ہے اور اب recovery modeپر ہے کیونکہ چوٹ کی وجہ سے ٹشو ڈیمج ہوئے تھے، مگر بات یہی تھی کہ یہ سب میں نے اگست 2020 سے اب تک دیکھا ہے، کیونکہ وہ ڈاکٹر پر میرا بھروسہ ہے۔
بتانے کا مقصد
بتانے کا مقصد یہی ہے کہ بار بار cognitive thinking کو exploitکرا جارہا ہے تاکہ ہم بڑے لوگوں کے ماتحت رہیں اور ان لوگوں کے کام آسکیں اور اپنی زندگیاں ان لوگوں کے پاس گروی رکھیں، جس کی آزادی اللہ کی طرف سے ہمیں ملی ہوئی ہے مگر ان لوگوں نے against the natureجانا ہے۔
The Second Wave
یہ ایک بہت ہی بڑی خطر ناک بات ہے کیونکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کی پریکٹس کی بناہ پر آہستہ آہستگی سے acceptanceیعنی ہم آہنگی بنائی جارہی ہے، یعنی ذہن کو اس جانب مائل کیا جارہا ہے جس کا اثر ہم پر تو نہیں مگر ہماری آنے والی نسلوں پر ضرور ہوگی کیونکہ یہ چیزیں جینریشنز پر اثر انداز ہوتیں ہیں، اور جیسا کہ آپ سب بھی جانتےہیں کہ جینریشنز کا اثر فوری نہیں ہوتا بلکہ اپنا وقت لیتی ہے۔
ماضی میں بھی پاکستان میں ایسا ہوچکا ہے
جب پاکستان میں پہلی پہلی بار عورتوں کی ایک پروڈکٹ کو متعارف کیا جارہا تھا، تو پہلی بار پاکستان میں جو reactionآیا تھا، اس کمپنی کو فورا وہ پروڈکٹ واپس لینی پڑی تھی، مگر کچھ سالوں کے بعد جب دوسری بار پاکستان میں ایسا ہوا تو پہلی بار کے مقابلے میں reactionاس بار ہلکا تھا۔
اس کو mind programmingکہتے ہیں
یعنی ایک بات کو اتنی مرتبہ دھرانا کے سننے والے کو یہی لگے کہ یہی ٹھیک ہے، جیسے ایک لفظ sexدس سال پہلے ایک tabooتھا مگر آج ایک روزانہ استعمال کا لفظ ہے۔
Getting Back to the Point
اب یہاں بار بار کورونا کا رولا بول بول کر اور نیوز چینل والوں کا بار بار ایسا چورن بیچنا اور زخیرہ مافیہ والوں کو، اور ہماری panic buying endorsed عوام نے یہاں بہت بڑا رول کو playکرنا ہے کیونکہ پچھلی بار کا scenarioہمارے سب کے لئے نیا تھا مگر اب چونکہ یہ سیکنڈ ویو ہے، تو ایسے میں ہم سب تیار ہیں، کیا ہم بھول گئے جب ان دنوں میں امتیاز سوپر مارکٹ کھولی گئی تھی تو کیسے عوام گھسی تھی جیسے کل آنا ہی نہیں ہے۔۔۔
میرا نہیں خیال اس بار بھی کچھ ذیادہ فرق ہوگا بمقابلہ پچھلی بار
بلکہ اس بار کچھ لوگوں نے اس so calledبیماری کو status queکے طور پر استعمال کریں گے، جیسے کچھ لوگوں نے مجھے کہا کہ ماسک پہننے سے تمہیں مٹی سے چھینکیں نہیں آئیں گیں کیونکہ اصل میں مجھے مٹی سے بہت الرجی ہے، میں نے جواب میں یہی کہا کہ ٹھیک ہے مگر مٹی سونگنا ذیادہ خطرناک ہے کہ اپنے جسم کی گند اور کاربن ڈائی آکسائڈ کو دوبارا اندر لینا؟ کیونکہ اللہ تعالی نے inhale اور exhaleکا نظام الگ رکھا ہے تو کوئی مصلحت ہوگی، اب ایسے میں show offکے لئے بیماری پالنا کہ مجھے یہ بیماری ہے کیا فخر کی بات ہے؟ زرا اس حوالے سے بھی سوچیں۔۔۔
Cause and Effect
سامنے والے کو بلاوجہ کا گندا کرنا
Corona Virus Pandemic
ہمارے لوگوں کو جگت بازی کی اتنی بڑی بیماری کینسر کی طرح ہوچکی ہے، کہ اپنا دین ایمان کو دوبارا تر و تازہ کرنے کے لیئے مساجد میں جانے میں دم نکلا جاتا ہے، مگر اسی مذہب کا ایک تہوار منانے کے لیئے عید کی تیاری کے لیے یہی قوم Social Distancing کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔
Mind Programming: From Persuasion and Brainwashing, to Self-Help and Practical Metaphysics
The risks of social isolation
According to a 2018 national survey by Cigna, loneliness levels have reached an all-time high, with nearly half of 20,000 U.S. adults reporting they sometimes or always feel alone. Forty percent of survey participants also reported they sometimes or always feel that their relationships are not meaningful and that they feel isolated.Such numbers are alarming because of the health and mental health risks associated with loneliness. According to a meta-analysis co-authored by Julianne Holt-Lunstad, Ph.D., a professor of psychology and neuroscience at Brigham Young University, a lack of social connection heightens health risks as much as smoking 15 cigarettes a day or having alcohol use disorder. She’s also found that loneliness and social isolation are twice as harmful to physical and mental health as obesity (Perspectives on Psychological Science, Vol. 10, No. 2, 2015).
"There is robust evidence that social isolation and loneliness significantly increase the risk for premature mortality, and the magnitude of the risk exceeds that of many leading health indicators," HoltLunstad says.
To stem such health risks, campaigns and coalitions to reduce social isolation and loneliness—an individual’s perceived level of social isolation—have been launched in Australia, Denmark, and the United Kingdom. These national programs bring together research experts, nonprofit and government agencies, community groups, and skilled volunteers to raise awareness of loneliness and address social isolation through evidence-based interventions and advocacy.
But is loneliness really increasing, or is it a condition that humans have always experienced at various times of life? In other words, are we becoming lonelier or just more inclined to recognize and talk about the problem?
These are tough questions to answer because historical data about loneliness are scant. Still, some research suggests that social isolation is increasing, so loneliness maybe, too, says Holt-Lunstad. The most recent U.S. census data, for example, show that more than a quarter of the population lives alone—the highest rate ever recorded. Also, more than half of the population is unmarried, and marriage rates and the number of children per household have declined since the previous census. Rates of volunteerism have also decreased, according to research by the University of Maryland’s Do Good Institute, and an increasing percentage of Americans report no religious affiliation—suggesting declines in the kinds of religious and other institutional connections that can provide a community.
"Regardless of whether loneliness is increasing or remaining stable, we have lots of evidence that a significant portion of the population is affected by it," says HoltLunstad. "Being connected to others socially is widely considered a fundamental human need—crucial to both well-being and survival."
As experts in behavior change, psychologists are well-positioned to help the nation combat loneliness. Through their research and public policy work, many psychologists have been providing data and detailed recommendations for advancing social connection as a U.S. public health priority on both the societal and individual levels.
"With an increasing aging population, the effects of loneliness on public health are only anticipated to increase," Holt-Lunstad says. "The challenge we face now is figuring out what can be done about it."
Who is most likely?
Loneliness is an experience that has been around since the beginning of time—and we all deal with it, according to Ami Rokach, Ph.D., an instructor at York University in Canada and a clinical psychologist. "It’s something every single one of us deals with from time to time," he explains, and can occur during life transitions such as the death of a loved one, a divorce or a move to a new place. This kind of loneliness is referred to by researchers as reactive loneliness.Problems can arise, however, when an experience of loneliness becomes chronic, Rokach notes. "If reactive loneliness is painful, chronic loneliness is torturous," he says. Chronic loneliness is most likely to set in when individuals either don’t have the emotional, mental or financial resources to get out and satisfy their social needs or they lack a social circle that can provide these benefits, says psychologist Louise Hawkley, Ph.D., a senior research scientist at the research organization NORC at the University of Chicago.
"That’s when things can become very problematic, and when many of the major negative health consequences of loneliness can set in," she says.
Last year, a Pew Research Center survey of more than 6,000 U.S. adults linked frequent loneliness to dissatisfaction with one’s family, social, and community life. About 28 percent of those dissatisfied with their family life feel lonely all or most of the time, compared with just 7 percent of those satisfied with their family life. Satisfaction with one’s social life follows a similar pattern: 26 percent of those dissatisfied with their social lives are frequently lonely, compared with just 5 percent of those who are satisfied with their social lives. One in five Americans who say they are not satisfied with the quality of life in their local communities feel frequent loneliness, roughly triple the 7 percent of Americans who are satisfied with the quality of life in their communities.
And, of course, loneliness can occur when people are surrounded by others—on the subway, in a classroom, or even with their spouses and children, according to Rokach, who adds that loneliness is not synonymous with chosen isolation or solitude. Rather, loneliness is defined by people’s levels of satisfaction with their connectedness, or their perceived social isolation.
Concerning Pakistan
Self Isolation/Social Distancing & the Family system
Isolation in Pakistani society is something not very well versed practice, as it is a human psychology that sudden and/or gradual social interactions after this social isolation mechanism, is surely going to impact our psyche in the long run which is hard to observe in the short span.The Family bonding/system
It is surely going to impact our family system just like it had in Europe and the Americas, where none of the partners knows whether other is cheating on him/her or otherwise because too much of isolation means a social animal like the human beings get bored and detract from the available family members might involve emotions to get attracted for someone other than the husband/wife and same is the concern with other family members,.The relaxation of self-isolation
When this self-isolation is relaxed, it is going to have the same impact just like the water on the freshly dried cemented wall, which results in creating newer cracks. That is why what I observed, the labors usually soak wet khaki cloth on walls so that slowly and gradually tilting the wall slowly because the sudden impact of hydrogen and oxygen molecules from the Water H2O, starts to react from the cement molecules, where O2 starts oxidation process within the cement mixture.Now coming back to Human Psychology
When such a similar process deteriorates the cement concrete procedure in newly built walls, the same is applicable for human psychology because the way this self-imposed isolation was incorporated, now the relaxation would definitely have the same impact just like oxidation in the concrete procedure.The Hope Factor
The hope is something very important yet least discussed on general because our South Asian societies are laid on the basic principles of hope and faith, and hence now the masses are being detracted from the مساجد, Temples, گردوارا, Churches amid this Pandemic but I am afraid the faith we had on Allah and/or the God (the other religions portray of Allah), in the time of greys is being hit very hard and instead now we've been encoding like a slow poison which is going to relay the impact within decades.Fifth generation warfare
ھندی الفاظ کا اردو میں شمولیت
Fifth-generation warfare
میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں؟
مذہبی point of view
غیر ضروری سیاسی حالات
میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں؟ میرا ایسا کہنے کی کیا وجہ ہے؟
کیا یہ وقت ہے سیاست کرنے کا؟
مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے؟
کیا اس طرح کے حرکتیں کرنا ضروری ہے؟ |
اس طرح کے پوسٹس پردنیا میں ہم کیا میسیج بھیج رہے ہیں؟ |
کیا اس ایشو کی وجہ سے ایک ٹرینڈ ایسا شروع کرنا ضروری ہے؟ |
عوام کو خود اس طرح کا مٹیریئل پسند ہے |
یہ لوگ پاکستان میں لوگوں کو اس موقع پر لڑا کر پوپ کارن کھانے میں مشغول ہیں اور یہاں بیوقوفوں کی طرح ہم جھگڑا کرتے بیٹھیں ہیں۔۔۔ |