ہم بحیثیت قوم اپنے محدود وسائل کے غلط استعمال میں ملوث ہیں، جس کے اثرات ہماری معیشت اور معاشرتی توازن کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ بجلی، جو کہ ایک قیمتی اور محدود وسیلہ ہے، کا بے دریغ استعمال ہمارے غیر ذمہ دارانہ رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ فالتو لائٹس کا جلائے رکھنا، غیر ضروری ایئر کنڈیشنرز اور ہیٹرز کا استعمال اور بجلی کے آلات کو بلاوجہ چلتا چھوڑ دینا ہماری عام عادت بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ قیمتی وسائل کی چوری اور ان کی قیمت ادا کرنے سے گریز ایک افسوسناک حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہ مسئلہ صرف بجلی تک محدود نہیں۔ ہمارے نوجوان بھی ایک قیمتی قومی اثاثہ ہیں، جنہیں ہم جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو ضائع کرنا اور انہیں ترقی کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دینا ایک سنگین مسئلہ ہے جسے فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
معاشرتی سطح پر ایک اور بڑا مسئلہ بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ ہے، جو اپنی زندگی کے تجربات کو حتمی سمجھتے ہوئے نوجوانوں پر اپنی رائے مسلط کرتے ہیں۔ یہ رجحان نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو محدود کر دیتا ہے اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے۔
میں یہ باتیں اس لیے لکھ رہا ہوں کیونکہ کل کو میں بھی اسی مقام پر ہوں گا جہاں آج میرے بزرگ ہیں۔ وقت کی یہ گردش ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہم اپنے تجربات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی بجائے نئی نسل کو اپنی راہ خود چننے کا موقع دیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی سوچ اور رویوں میں مثبت تبدیلی لائیں۔ بجلی کے استعمال میں کفایت شعاری اپنائیں، نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیں اور بزرگوں کی رہنمائی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان کے ہر فیصلے کو حرف آخر نہ سمجھیں۔ وسائل کا دانشمندانہ استعمال اور نوجوانوں کو جدید دور کے مطابق تیار کرنا ہی ایک روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔