Pages

13/7/25

کراچی، جذبات اور خود غرضی: جب کسی کا درد دوسروں کے لیے تماشہ بن جائے

تمہید: گزشتہ دنوں ایک اجنبی سے واٹس ایپ پر گفتگو ہوئی۔ آغاز ایک مختصر ملاقات سے ہوا، اور باتیں رفتہ رفتہ ذاتی مسائل کی طرف بڑھیں۔ میں نے دل کھول کر اپنے جذبات، اپنی تنہائی، اور گھر کے اندر احترام کی کمی کا ذکر کیا۔ بدقسمتی سے جو جواب ملا، اُس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا کراچی نے انسانوں کو بےحس بنا دیا ہے؟ 📌 آئیے اس واقعے کی جزئیات کو سمجھتے ہیں، تاکہ معاملہ صرف ایک لڑکی یا ایک چیٹ تک محدود نہ رہے بلکہ اس سے نکل کر ہم اپنی معاشرتی سوچ کو جانچ سکیں۔
 ❗ 1. احساسِ تنہائی (Loneliness): “Being married, I am lonely.” یہ کوئی ڈرامائی جملہ نہیں تھا۔ ایک شادی شدہ مرد کی وہ سچائی تھی جو اکثر نظر انداز کی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں مرد کا درد صرف مالی پریشانیوں تک محدود سمجھا جاتا ہے، جذباتی خلاء کو "کمزوری" کہا جاتا ہے۔
 ❗ 2. جذباتی لاپرواہی (Surface-Level Empathy): “Jesy kal k bd sy sb sahi ho jayega.” جب آپ اپنی روح کھول کر کسی کے سامنے رکھیں، اور جواب میں ایسا فقرہ سنیں، تو درد دوگنا ہو جاتا ہے۔ جذبات کو ’ٹالنے‘ اور ’سمجھنے‘ میں فرق ہے۔
 ❗ 3. Humaira Asghar Incident — کراچی کی بےحسی کا استعارہ اب یہی بےحسی حمیرہ اصغر کے دل دہلا دینے والے واقعے میں بھی دکھائی دی، جہاں: ایک خاتون اپنی ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار ہو کر کراچی کی سڑکوں پر نیم برہنہ حالت میں پائی گئیں۔ بجائے مدد کے، لوگوں نے اس پر ویڈیوز بنائیں، مذاق اڑایا، اور سوشل میڈیا پر ‘ٹریفک جام ماڈل’ کہہ کر شیئر کیا۔ کسی نے نہ پوچھا کہ: "یہ عورت کیوں اس حال میں ہے؟" بلکہ سب نے کہا: "ویڈیو بناو، کل وائرل ہوگی۔" 🔻 یہ وہی شہر ہے جہاں لوگ بظاہر روشن خیال ہیں، مگر کسی کی تکلیف اُن کے لیے بس تفریح ہے۔
 ❗ 4. جذباتی مرکزیت کی چالاکی (Emotional Shifting): “Mujhy apki life ki sari problems solve kr k khushi hogi…” ایسا لگتا ہے جیسے کسی کا درد سن کر دوسرے کو ہیرو بننے کی جلدی ہوتی ہے — لیکن درد کو محسوس کیے بغیر۔
 ❗ 5. کراچی کا المیہ: بےحسی کا بڑھتا ہوا کلچر ہم وہ معاشرہ بن گئے ہیں جو کسی کے "Why are you not okay?" کی جگہ "Drama mat karo" کہتا ہے۔ Empathy ایک نعمت تھی، اب مذاق بن چکی ہے۔
 🌆 کراچی اور جذباتی رشتے: کراچی میں رشتے اب مستقل نہیں رہے — سب کچھ وقتی ہے، موسمی ہے۔ جذبات کی جگہ اب تو self-defense اور sarcasm نے لے لی ہے۔
 🔚 نتیجہ: جب آپ کسی کو اپنی کہانی سناتے ہیں اور جواب میں وہ صرف جذباتی لیکچر دے کر نکل جائے — تو یہ صرف ایک خراب چیٹ نہیں، یہ اس معاشرے کا آئینہ ہے۔ یہ چیٹ، ایک فرد نہیں، پورے کراچی کی اجتماعی بےحسی کی عکاسی تھی۔ اور Humaira Asghar جیسے واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم نے احساس کھو دیا ہے۔
 🖋️ اختتامی نوٹ: کراچی ایک ایسا شہر بن چکا ہے جہاں: کسی کا درد ایک وائرل لمحہ ہوتا ہے، نہ کہ مدد کا موقع۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم empathy کو واپس لائیں۔ دوسروں کی بات سننے کی عادت اپنائیں — صرف بولنے کی نہیں۔


بلاگ میں مزید دیکھیں

You might like

$results={5}

Search me

Translate