Search me

کرونا وائرس اور ہماری mind programming

COVID-19 cases in Pakistan gradually increased within one day or is it otherwise?

یہ بات بھی ماننے کی ہے کہ ایک دم سے پاکستان میںCOVID-19 کے کیسز میں increase کا سادہ مطلب یہی ہے کہ اس وائرس کا slump کے پیریڈ سےبہت دور ہے، بلکہ ابھی وائرل میں ابھی اور اٹھان آئے گا۔

مگر۔۔۔

یہ بات ماننے کی ہے کہ جو فگر یہاں بتائی جارہی ہے، اس کی صداقت میں شک ہیے، کیونکہ پاکستان میں صرف یہی بیماری اور انفیکشن موجود نہیں بلکہ اور بھی بیماریاں اور انفیکشن موجود ہیں، تو کیا اتنی اموات صرف اس وباٗ کی وجہ سے ہے؟ کیونکہ میں بھی آفس جارہا ہوں، اللہ کا فضل ہے مجھے کچھ نہیں ہوا، مگر مسئلہ اتنا نہیں ہے جتنا ہوا بنایا جارہا ہے، بیشک اس میں شک کی کوئی گنجائیش نہیں مگر اتنا شکی مزاج ہونا بھی ہم مسلمانوں کو ذیب نہیں دیتا۔ اس کا یہ مطلب بالکل نہیں میں اس حقیقت کو نفی کر رہا ہوں، مگر میں صرف اپنا زاویہ واضع کر رہا ہوں، جس زاویئے سے ان سب scenario کو دیکھ رہا ہوں!

امریکہ اور چین کے بیچ میں trade war

اس point سے میں agree کرتا ہوں، کہ hype یعنی ہوا بنانے میں جو دو beneficiaries موجود ہیں، وہ امریکہ اور چین ہیں، جس میں ان دونوں فریقین کے حریف اور حلیف بھی شامل ہیں، کیونکہ امریکہ کو چین سے بہت ڈر تھا کیونکہ اس سے پہلے امریکہ نے Huawei کو ban کیا پھر Google کو پابند کیا کہ Huawei کو blacklist کیا جائے، جس کے رد عمل میں Huawei نے اپنا خود کا Operating System جس کو Harmony OS کہا گیا، جو کہ Huawei version of Android ہے، یہ بات یاد رکھیں کہ Android ایک free اور opensource operating system ہے، تو کوئی بھی اسکو استعمال کرسکتا ہے مگر وہاں گوگل کی سروسز استعمال نہیں کرسکتا، اسی لیئے امریکہ نے either by hook or by crook چین کی reputation گرانے کے لیئے یہ کیا، کیونکہ امریکہ نے اپنا مقصد یقینا حاصل کیا کیونکہ اس وائرس کی وجہ سے چینی نقش والے افراد کو ہتک نظر سے دیکھا جارہا تھا۔

امریکہ خود بھی کوئی دودھ کا دھلا نہیں

کیونکہ اب ان کی خود کی عوام پوچھ رہی ہے کہ کہاں ہیں اسپتال، ایسا کوئی اس وقت کرتا ہے جب اسکو اس حوالے سے معلومات ہو۔

ڈر کی حکومت

ان لوگوں کا main منترہ ڈر اور خوف ہوتا، کیونکہ ڈر کی وجہ سے یہ لوگ اپنی policies کو implement کرنے کے لیئے ڈر کا ساتھ لیتے ہیں، کیونکہ یہی ان کا طریقہ ہوتا ہے، اگر ماضی میں بھی دیکھیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ لوگ advance level of human psychology سے کھیلتے ہیں جہاں جھوٹ کو اتنی دفعہ کہنا کہ انسانی دماغ اس بات کوآہستہ آہستہ ماننا شروع کردیتا ہے، اس tactic کو ابھی بھی استعمال کیا جارہا ہے، اسی لیئے ہمیں بھی اس حوالے سے ہمیں اپنے ماضی کے حالات و واقعات کو صحیح طریقہ سے پڑھنا چاہیئے۔

A more severe 'curfew' sort lockdown on the cards


According to DG ISPR

  • شدید قسم کا لوک ڈائون ہو گا،
  • تمام gatherings جیسے چائے خانے وغیرہ بند ہوں گے،
  • پبلک ٹرانسپورٹ بالکل بند ہوگی،
  • صرف کریانہ، کھانے پینے، دوائی کی فیکٹری اور دکانیں اور صرف اسپتال کھلے ہوں گے،

پہلے پہل اگر انسانوں کی طرح ہم اگر عمل کرلیتے!

تو شاید اتنا سخت ہڑتال والا لوک ڈائون نہیں ہوتا، کیونکہ جیسے میں نے پرانی پوسٹس میں کہا کہ ہم نے اس لوک ڈائون پیریڈ کو چھٹی سمجھ کر منا رہے ہیں، instead اس کو as a قومی ذمہ داری کے تحت لیتے ہوئے ہمیں خود سے ذمہ داری کو مظاہرہ کرنا چاہیئے تھا؛
  • شام کو بیکری پر پائوں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی،
  • پارکوں میں (نام نہیں لوں گا) لوگوں کی موجودگی پر،
  • ATM machines میں hand sanitizers اٹھا کر لیکر جانے کے واقعات

ہماری آنکھیں کھولنے کے لیئے بہت ہے، کیونکہ ہمارے رویئے ایسے ہی ہوگئے ہیں، اس پر سونے پہ سہاگا ہم اگر غلط ہیں تو اتنی اخلاقی جراٗت نہیں ہے کہ مانیں کہ ہاں ہماری غلطی ہے یہ، کیا بحیثیت قوم یہ ہماری قومی ذمہ داری نہیں کہ اس چیز کو make sure کریں کہ جو چیز ہماری پوری قوم کو impact کر رہی ہو، وہاں کم سے کم کچھ solidarity دیکھائیں، پہلے ہم ہماری اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں پھر ڈیمانڈ کریں نا کہ ہماری یہ ضروریات پوری کریں، society کو contribute آپ نے کچھ بھی نہیں کرنا مگر sorry-to-say ہماری demands ایسی ہوتی ہیں جیسے من و سلوی کے زمانے میں بنی اسرائل کی ہوتی تھی۔

شرم کا مقام ہے ہمارے لیئے

مگر شرم ہمیں آنی نہیں ہے، کیونکہ society کے ساتھ اتنا بڑا کھلواڑ ہم نے کرنا ہے مگر in return اسی society سے expect یہ کرنا کہ society نے return میں high rate of investment دینا ہے آپ کو، ہماری societal etiquette  کس اندھے کنویں میں پھینک کر آئے ہیں ہم لوگ؟ کیا بحیثیت مسلمان یہ attitude اور behaviour ہمیں ذیب دیتا ہے کہ اس وقت جب ایک National Calamity کی Situation ہو، اور ہم اس طرح کی سمندری قذاقوں والا رویہ روا رکھیں، کہ Intend to take all and give nothing in return!, ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم یہ ہیں وہ ہیں وغیرہ وغیرہ جب لوگ ہی نہیں بچیں گے تو اس شان و شوکت اور نام کا برہم کس کو دیں گے، ان لوگوں کی قبروں پر؟ یا ان کے جنازوں پر؟ خدارا اس معاملے میں انسان بن کر سوچیں، کیونکہ there is going to be no future if anything happens to the timeline we're in...

Contagion - 2011

Contagion Movie Download Link اس ویب سائٹ کو access کرنے کے لیئے VPN On کرلیں

آج کل چونکہ کورونا وائرس کی وجہ گھر پر فارغ بیٹھا ہوں، اسی وجہ سے مووی دیکھنے کا ارادہ کیا، تو ایسے ہی سرچنگ کے دوران یہ مووی پر نظر پڑی، پہلے پہل مووی دیکھنے سے پہلے IMDB پر اس مووی کی ریٹنگ اور کہانی دیکھی، تو ابھی جو صورتحال ہے، یعنی airborne virus سے related, ہو بہو وہی صورتحال 2011 میں 2020 کو بتایا گیا ہے۔

Spoiler Alert

اگر آپنے یہ مووی نہیں دیکھی ہے تو ٹائم پاس کے لیے یہ مووی پہلے دیکھ لیں پھر اسکا ریویو دیکھیں تاکہ اندازہ ہو کہ کس طرح ایک اسکرپٹڈ زندگی ہم آجکل گزار رہے ہیں۔

اس مووی میں سب سے پہلے

اس مووی میں بتایا گیا ہے کہ airborne virus کیا ہوتا ہے، اور اس مووی کی protagonist ایک خاتون ہوتی ہیں ہانگ کانگ کے کاروباری سفر سے واپسی کے فورا. بعد ، بیتھ اموف فلو یا کسی اور قسم کے انفیکشن کی وجہ سے دم توڑ گیا۔ اسی دن اس کا جوان بیٹا فوت ہوگیا۔ تاہم اس کا شوہر مچ مدافع لگتا ہے۔ اس طرح ایک مہلک انفیکشن پھیلنا شروع ہوتا ہے۔ بیماریوں کے قابو پانے کے لئے امریکی مراکز کے ڈاکٹروں اور منتظمین کے ل anyone ، کسی کو بھی اس نئے انفیکشن کی حد یا کشش ثقل کا احساس ہونے سے پہلے کئی دن گزر جاتے ہیں۔ انھیں پہلے سوال میں وائرس کی قسم کی نشاندہی کرنی ہوگی اور پھر اس سے مقابلہ کرنے کا ایک ذریعہ تلاش کرنا ہوگا ، ایسا عمل جس میں ممکنہ طور پر کئی مہینے لگیں گے۔ جیسے ہی یہ بیماری دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں میں پھیلتی ہے ، لوگوں کے گھبراہٹ کے بعد معاشرتی نظام ٹوٹنا شروع ہوتا ہے۔

دوسرا دن

بیت امہوف (گیوینتھ پیلٹرو) ائیر پورٹ کے ایک لاؤنج میں کھانسی کر رہے ہیں اور جان نیل کی آواز آئی (ڈائریکٹر اسٹیون سوڈربرگ کی آواز ، ان کے غیر منقطع کیمیو کردار میں) ، جو اس کے ساتھ ابھی جنسی تعلقات میں تھے۔ ایک جنجال جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے بہت سے لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں۔

ہانگ کانگ کا ایک نوجوان پسینہ آتے ہوئے کشتی سے اتر گیا۔ وہ اپنے گھر والوں کے پاس گھر جاتا ہے اور اس کی بہن اسے تشویش میں دیکھتی ہے۔

لندن میں ، ایک ماڈل بیمار ہوکر اپنے ہوٹل کے کمرے میں واپس چلا گیا۔ ہوٹل کا عملہ کمرے میں آیا اور اسے باتھ روم کے فرش پر مردہ پایا۔

ہوائی جہاز میں ، ایک کاروباری شخص اس کے چہرے پر ایک درد زدہ لہجے میں لالچی سے باہر آتا ہے۔ وہ واپس اپنے گھر ٹوکیو جارہا ہے۔ جب وہ منزل سے گرتا ہے ، تب آتی ہے تو بس میں ہوتا تھا۔ اس کی موت کیمرے کے فون پر قید ہے۔

ہانگ کانگ کا یہ نوجوان لفٹ میں موجود متعدد افراد کے قریب کھانسی کرتے ہوئے اپنا اپارٹمنٹ چھوڑ کر چلا گیا۔ وہ سڑکوں پر چلتا ہے ، اس کا نظارہ اور زیادہ تیز ہوتا ہے۔ وہ ٹریفک میں چلتا ہے اور ٹرک کی زد میں آکر اسے ہلاک کردیا جاتا ہے۔

آخر کار ، مینیسوٹا میں ، بیت اپنے شوہر مِچ (میٹ ڈیمون) اور بیٹے کلارک (گریفن کین) کے پاس گھر آئے ، اور ان دونوں کو گلے لگا لیا۔

تیسرا دن

ڈاکٹر ایلس شیور (لارنس فش برن) اٹلانٹا میں قائم بیماری برائے قابو پانے اور روک تھام کے مرکز (سی ڈی سی) میں کام میں آتے ہیں۔ جاتے ہوئے ، وہ راجر (جان ہاکس) نامی ایک دربان سے گزرتا ہے جو ان کے پاس فٹ بال پول کی وجہ سے دوستانہ شرائط پر ہے۔ راجر نے شیور سے اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھا چونکہ اسکول کے خیال میں اس نے اے ڈی ایچ ڈی کر لیا ہے۔ راجر نے پوچھا کہ کیا شیور اس کی طرف دیکھ سکتا ہے لیکن شیور کا کہنا ہے کہ وہ اس قسم کا ڈاکٹر نہیں ہے۔ تاہم ، وہ کچھ لوگوں کو جانتا ہے لہذا وہ اپنے بیٹے کے لئے کسی اچھے ڈاکٹر کو راجر کے حوالے کرنے کی کوشش کرے گا۔

دریں اثنا ، مچ اسکول سے کلارک سے اس چیز کو لینے جاتا ہے جو ان کے خیال میں بخار ہے۔ مِچ کلارک سے کہتا ہے کہ وہ اسے شکریہ کے ذریعہ شکست دے دے گا۔

ایک نیوز آفس میں ایلن (جوڈ لاء) کے نام سے ایک بلاگر صحافی اور سازشی تھیوریسٹ ، لورین کے نام سے ایک ایڈیٹر سے ، ٹوکیو بس واقعے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ایلن کا خیال ہے کہ اس کا تعلق دنیا بھر میں مچھلی میں پارے سے ہونے والی زہر آلودگی سے ہوسکتا ہے۔ لورین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس طرح کے آزادانہ کام کے لئے بجٹ نہیں ہے لیکن ایلن کا کہنا ہے کہ یہ کہانی 24 گھنٹوں میں دنیا بھر میں جاسکتی ہے۔ لورین کا کہنا ہے کہ وہ اسے دوسرے ایڈیٹر کے پاس بھیج دیں گی۔ ایلن نے اسے بتایا کہ اس نے یہ گفتگو ریکارڈ کی ہے اور اگر وہ اس کی کہانی چوری کرتی ہے تو وہ اس کے خلاف مقدمہ کرے گا۔

چوتھا دن

بیت خراب ہے ، گھر میں ہے۔ وہ کافی کے ایک کپ کو دیکھتی ہے اور مچ کے دن کی بات کرتے ہی اسے لینے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے بجائے وہ اس کاؤنٹر اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔ مچ اس کو صاف کرنے میں مدد کرتا ہے ، جب بیت کو دورے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مچ خوفزدہ ہے ، اور اس نے دروازے پر کلارک کو اپنی والدہ کو جھپٹتے ہوئے دیکھا۔ مچ نے اسے 911 پر کال کرتے ہوئے اوپر جانے کو کہا۔

ہسپتال میں ، مچ اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ کیا ہوا ہے اور بیت کو الرجی ہونے پر جب اسے ایک اور دورے پڑتے ہیں اور مچ کو کمرے سے باہر دھکیل دیا جاتا ہے۔ بعد میں ایک ڈاکٹر اس سے ملنے آیا اور اسے بتایا کہ بیت ابھی دم توڑ گیا ہے۔ مچ صدمے میں ہے اور اس سے بات کرنے کو کہتی ہے ، خبر کی گنتی نہیں کررہی ہے۔ ڈاکٹر یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید اس کی بیوی نے چین میں کچھ اٹھا لیا ہو لیکن اس کی علامات سے ملنے کے لئے وہاں صحت سے متعلق الرٹ نہیں ہیں۔ میڈیکل بورڈ اس بات کا تعین کرنے کے لئے پوسٹ مارٹم کا حکم دے رہا ہے کہ اس نے کیا مارا۔ مچ حیرت زدہ ہے اور چیختا ہے ، "کیا ہوا؟!"

مچ کو کال آنے پر گھر سے بھگا دیا جا رہا ہے۔ اس کا بیٹا بیمار ہے۔ وہ نینی کو 911 پر فون کرنے کو کہتے ہیں۔ جب وہ گھر پہنچتا ہے تو ، نینی کا کہنا ہے کہ کلارک کو سر میں درد تھا لہذا اس نے اسے بستر پر رکھ دیا۔ مچ کے وہاں پہنچنے تک ، بہت دیر ہوچکی ہے ، اس کا بیٹا مر گیا ہے۔

پانچواں دن

سوئٹزرلینڈ میں ، ڈاکٹر لیونورا اورینٹیس (ماریون کوٹلارڈ) ، عالمی ادارہ صحت میں کام کرنے جاتے ہیں۔ وہ اس نامعلوم وائرس اور امریکہ ، چین ، لندن اور جاپان میں انفیکشن کے واقعات کے بارے میں بریفنگ سنبھالتی ہیں۔ وہ ڈبلیو ایچ او کو اس کی تحقیقات میں پوری طرح رہنے کی ضرورت کا اظہار کرتی ہے۔ وہ بیتھ کا ذکر انفیکشن کا ممکنہ آغاز ہونے کی حیثیت سے کرتی ہے۔

ہانگ کانگ میں ، اس نوجوان کی بہن جس کو متاثر ہوا تھا اس کے جسم کا آخری رسوا کردیا گیا تھا اور بس راکھ میں دفن ہونے کے لئے راکھ لے جانے کے لئے گئی تھی۔ جب ایک لڑکی کو مردہ حالت میں پایا گیا تو ایک صفائی کرنے والی خاتون بس کی جانچ کررہی ہیں۔ مرنے سے پہلے اس کے بھائی نے بھی اسے صاف طور پر متاثر کردیا تھا۔

شکاگو میں ، بیت کے عاشق جان نیل کو اسٹریچر پر چلایا جارہا ہے۔ وہ بھی انفکشن ہوگیا ہے۔ اس کی بیوی حیرت سے حیرت سے دیکھ رہی ہے ، کیا حیرت ہے

دو طبی رہنماؤں نے اس کی کھوپڑی کھولنے پر بیتھ پر پوسٹ مارٹم کیا۔ انہوں نے اس کے دماغ کے بارے میں کچھ عجیب و غریب نوٹ کیا۔ ان میں سے ایک شخص پوچھتا ہے کہ اسے نمونہ لینا چاہئے۔ "دراصل ، میں چاہتا ہوں کہ آپ میز سے دور کھڑے ہوں!" دوسرا ٹیکنیشن اسے بتاتا ہے۔ ٹیکنیشن اپنے ساتھی سے ہر ایک کو فون کرنے کو کہتا ہے۔

چھٹا دن

ڈاکٹر ایرن مائرز (کیٹ ونسلیٹ) کو ایلیس نے پراسرار وائرس پھیلنے پر اپنی ملازمت کے بارے میں آگاہ کیا۔ وہ انفیکشن کے معاملات کی تفتیش کرے گی۔ اگر اسے کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ اسے فون کرسکتی ہے ، کوئی سوال نہیں کیا گیا۔ ایرن قریبی سی ڈی سی آفس منتقل کرنے کے لئے مینیسوٹا کا سفر کرتا ہے۔

مچ کو واپس ہسپتال لے جایا جاتا ہے اور اسے قرنطین نگاہ میں رکھا جاتا ہے۔ اس کی سابقہ ​​شادی سے اس کی نوعمر بیٹی ، جوری اموف (انا جیکبی ہیرون) پہنچ گئی۔ وہ ایک فون پر بات کرتے ہیں۔ جوری کو کلارک کی موت کے بعد وہاں نہ ہونے کا قصوروار محسوس ہوتا ہے ، لیکن مچ کا کہنا ہے کہ یہ اس کی غلطی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ، اگر وہ ہوتی تو ، اسے بھی انفکشن ہوسکتا تھا۔ وہ سب چھوڑ گئی ہے۔ مچ جوری کو اپنی ماں کے گھر جانے کو کہتے ہیں ، لیکن جوری کا کہنا ہے کہ وہ اسے نہیں چھوڑیں گی۔ وہ اس کے ساتھ ہی رہ رہی ہے۔

ایرن وائرس اور ان کو احتیاطی تدابیر کے بارے میں بریفنگ دے رہی ہے جس کی انہیں لینے کی ضرورت ہے۔ ایک عورت پوچھتی ہے کہ کیا وہ کسی ایسی چیز سے گھبرارہی ہیں جس کے بارے میں وہ بہت کم جانتے ہیں۔ "ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ لوگوں کو خوفزدہ ہونے کے لئے کیا کہنا ہے۔" میئرز نوٹ کرتا ہے کہ وائرس رابطے کا ایک عارضہ ہے۔ لہذا لوگ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو جن سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے اور بات چیت کرتے ہیں ، انفیکشن کے ممکنہ بندرگاہ ہیں۔ میئرز کا کہنا ہے کہ مسئلہ کیریئرز ہے اور جس تعداد کو وہ ممکنہ طور پر متاثر کریں گے ، آر نمبر نہیں۔ فلو عام طور پر ایک شخص ہوتا ہے۔ پولیو ، پری ویکسین ، چار سے چھ کے درمیان تھی۔ جب تک کہ وہ زیادہ جانتے ہی نہیں ، اس وائرس کی R-Nnot تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔

دو ڈاکٹر ، ایلی ہیکسٹل (جینیفر ایہل) اور ڈیوڈ آئزنبرگ (ڈیمٹری مارٹن) ایک محفوظ بائیو لیب میں جاتے ہیں اور بیت کے جسم سے لئے گئے نمونے دوسروں میں دیکھتے ہیں۔ ہیکسٹال کا کہنا ہے کہ انہیں بھیجنا ضروری ہے

دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے

اچھی خاصی کہانی تو میں نے یہاں already explain کرچکا ہوں، مگر اسکے محرکات اور happening ہماری آج کی دنیا سے بہت میل یعنی match کھا رہے ہیں، جس طرح مووی میں بتایا ہے، اصلیت میں بھی ٹھیک اسی طرح ہورہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے Terminator 2 کی روبوٹ ٹیکنولوجی ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ It is just the matter of broadening your view and perspective on the larger scale.

کرونا۔۔۔کرونا۔۔۔کرونا

Beware of the 'Masalafied' gossips termed as 'a Reality', without any second thought

میں یہ بالکل نہیں کہتا کہ پاکستان میں کرونا وائرس بالکل موجود نہیں، بلکہ یہ بات ماننے کی بھی ہے کہ لوگ اس وائرس کی وجہ سے احتیاط پسند ہوگئے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمارے Twitterati ساتھی اس ڈر کو بہت اچھی طرح Click-bait کرہے ہیں، اور معذرت کے ساتھ، ہمارے electronic media personnel کسی تصدیق کے on the basis of ratings, ان افواہ کو اور بڑھاوا دے رہے ہیں، جس پر کھل کر یہ میڈیا والے expose ہورہے ہیں جہاں ان کی قابلیت کھل کر دیکھی جاسکتی ہے۔

میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں

آپ یہی دیکھیں، کہ اس وقت پاکستان میں جو بھی اموات ہورہی ہیں، سب کرونا کے سر ڈال کر میڈیا والے حج کرنے نکل جاتے ہیں، یہ بتائیں مجھے کہ؛
  • پاکستان میں ایسے کونسے ذرائع ہیں، جو یہ بات کنفرم کریں کہ فلاں بندہ واقعی میں Cronafied ہے؟
  • پاکستان میں Cronafied مریض کی تشخیص کے ذرایع کہاں اور کس شہر میں ہیں؟
  • جس ڈیوائس سے ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے کہ جیک کر رہے ہیں، وہ دراصل وہ چھوٹے بچے جن کا بخار ٹیسٹ نہیں کرسکتے، ان کا بخار ناپنے کے لیے یہ ڈیوائس ہے۔
  • کیا مجھے یہ بتا سکتے ہیں، کہ کرونا کی بیماری کسی بھی صیحتمند بندے کو ہوسکتی ہے، اور یہ فوراٰ اثر دیکھانے کے بجائے اپنا ٹائم لیتی ہے کیونکہ اگر کسی صحتمند جسم پر اٹیک کرتی ہے تو اس جسم پر اپنا اثر پیدا کرنے کے لئے اس بیماری کو وقت درکار ہوتا ہے، تو ایسے میں ہمارے so called میڈیا والوں کے پاس مستقبل کی ایسی کونسی ٹیکنولوجی آگئ ہے جو باقی دنیا کے پاس نہیں؟ 

خدارا

 ان میڈیا ہائوسز میں عورتیں بھی ہیں، اور کہا جاتا ہے مردوں کے مقابلے عورتوں میں قدرے ذیادہ empathy ہوتی ہے، کیا اس طرح کی panic پھیلا کر جس زہنی اذیت میں آپ ان مائوں کو، ان بہنوں کو، ان بیویوں کو ڈال رہی ہیں، جن کو معمولی بخار ہوا، تشخیص نہیں ہوتی ہے، صرف نیوز پہلے بریک کرنے کے چکر میں آپ ان تین عورتوں یعنی ۳ خاندان کو اس طرح effect اور impact کررہے ہیں، کیا ایسے کرتے میں آپ بھول جارہے ہیں، کہ مستقبل میں جب آپ ریٹائرڈ ہوجائو گے اور اس وقت ایسا کچھ آپ کے پوتے یا نواسے کے ساتھ ہوگا تو کیا وہ آپ برداشت کرسکتے؟ میری یہ بات کو یہ بول کر ہنسی میں ٹالا جائے گا کہ کل کس نے دیکھا یے، میں کوئی عالم دین نہیں صرف کوشش کرتا ہوں کہ اپنے عمل کو کسی کو تکالیف دینے میں نا استعمال کروں، مگر جتنی میری معلومات ہے، اسلام میں اس بات کا کونسیپٹ ہے، کہ جو آپ آج کرو گے، کل یا تو آپ خود یا پھر آپ کی آنے والی نسلیں وہ فصل کاٹیں گی، تو کیا عورت ذات ہوتے ہوئے کیا اس طرح کی چٹ پٹی مصالحہ والی "نیوز بریک" کرنے میں آپ اتنا بڑا رسک لو گے؟

دیکھا جائے گا

یہی reaction آنا ہے میرے سوال پر مگر ہم سب اپنے اپنے گریبان میں اگر جھانکیں تو کیا جو کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ہے، آج کل کی لڑکیوں کو جو بیماریاں ہورہی ہیں، بڑی عمر کی عورتوں میں کیوں نہیں ہوتی؟ آج کل کی بڑی عمر کی عورتوں کے چہروں پر وہ سختی نہیں جو آج کل کی جواں ساز لڑکیوں میں ہے، بریسٹ کینسر کے کیسیز پہلے شادر نادر نمودار ہوتے تھے جو اب 9 عورتوں میں سے ہر ایک عورت کو ہے، مطلب نیچر اپنا reaction کررہی ہے، بعد کا تو مجھے نا پتا ہے نا جاننا چاہتا ہوں کہ ان کے ساتھ کیا ہوتا مگر مطلب پرست ہونے کے بجائے اپنی سوسائٹی جس کے اندر آپ موجود ہیں کچھ اسکے لیئے بھی کریں، کیونکہ آپ نے اسی سوسائیٹی میں رہنا ہے تو کم سے کم اس کو تو اس طرح جہنم نہ بنائیں۔ جھوٹا مسلمان ہی بن جائیں، جھوٹا مسلمان کم از کم اس حد تک تو منافق نہیں ہوسکتا؟

اتنی لمبی تقریر کا لب لباب

اپنے آپ کو اگر journalist کہتی ہیں، تو ایک چیز ہوتی ہے تحقیق، جو از خود ایک بہت ہی بڑا ٹوپک ہے جہاں بہت ساری چیزوں کو آپ نے دیکھنا ہوتا ہے، which includes your body language and facial expressions, جہاں اس طرح کے sensitive ٹوپکس پر آپ نے اپنے رویئے اور چہرے پر کنٹرول رکھنا ہوتا ہے، یہی ایک facial journalist کا main mantra ہوتا ہے، کسی کو نمونیا ہوتا وہ بھی کرونا، کوئی چھینک کر بیمار پڑا وہ بھی کرونا، آخر آپ لوگ اس قوم کے اتنے جانی دشمن کیوں بنے ہوئے ہو؟ براہ مہربانی جتنی طاقت اور اپنے ڈریسز اور نیوز بریک کرنے میں لگاتیں ہیں، اسکا صرف 0.5 % اگر آپ content creation پر لگائیں تو میں سب سےے پہلے اپنے الفاظ واپس لوں گا، جس کا مجھے امید نہیں ہے، اسی لیئے اتنی بڑی بات بولی ہے میں نے۔

A disclaimer

This is to clarify that I was not objecting the news anchors only but also the directors, producers, and the content developers who're responsible for generating half cooked material for masalafying their content so that they get TRP, if they say they're one of another pillars of the country, hence act like one, and educate the masses who require education instead of spoonfeeding and spoiling them as spoiled child.

Act like one to be treated accordingly

اردو میں اگر اس بلوگ کا title لکھتا تو بہت harsh اور سخت زبان ہوجاتی مگر میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں، اسی وجہ سے title کو dilute کیا ہے English میں لکھ کر۔

CoronaVirus اور ہماری عوام کے رویئے

بلوگ پوسٹ میں آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات کنفرم کردوں کہ اس آرٹیکل میں CoronaVirus اور اس پر ہمارے لوگوں کی unable to flex themselves to current situation پر مبنی ہے۔

 کورونا وائرس اور یماری negligence

انسان ہونے کے ناطے یہ چیز ہمارے genes میں ہوتی تھی (ہے نہیں)، کہ ہم انسان اور مسلمان ہونے کے بجائے چلتے پھرتے حیوان بن چکے ہیں، کیونکہ یہ صرف بنکرز سے متعلق نہیں بلکہ overall پوری انسانیت کی بات ہے، بیشک بینکس اس وقت ہماری ضرورت بن چکی ہیں، اس لیئے بنکس کا کھلنا مجبوری اور وقت کی ضرورت ہے، مگر جس ہم کورونا وائرس کو پھیلا رہے ہیں، اس لوک ڈائون پیریڈ کو چھٹی کے دن کے طور پر منایا جارہا ہے، شام میں بیکری پر رش ہونے کا مطلب یہی ہے کہ چھٹی کے دن کے طور پر منایا جارہا ہے، ہالانکہ ہر کوئی یہ بات کہہ رہا ہے کہ بھیڑ نہ لگائیں مگر مجال ہے کہ پہلے مجھے کی رٹ لگانے کی جلدی ہوتی۔ ورنہ اس صورتحال میں ایران اور اٹلی کو دیکھ کر ہمیں ۱۵ دن کے لیے برداشت کرنا کوئی بڑی بات نہیں مگر میں صرف بینکس کی بات کروں، تو اس صورتحال میں دوسروں کے بارے میں سوچنے کے بجائے پہلے میں کی رٹ لگائی ہوئی ہے، آپکی جلدی کے چکر میں آپ کتنے لوگوں کی ذندگی سے کھلواڑ کر رہیں ہیں۔

جب کیش نکلانے اور ٹرانسفر کرنے کے لیئے اوپشن موجود ہیں

کیش نکالنے کے لیے آپکے پاس ATM کی صورت میں موجود ہے، جس پر اسٹیٹ بینک SBP نے limit کو 100,000/- ایک دن میں کردیا ہے جس کے بعد اس عقل کے اندھوں کو انسان ہونے کے ناطے بینک کے اندر بلاوجہ نہیں جانا چاہیئے، کیونک ایسے میں جو واقعی میں ضرورتمند ہہں انکا بھی حق مارا جارہا ہے، ورنہ اگر انسان ہونے تو اس چیز کا خیال رکھنا چاہیئے تھا، مگر ہم سب نے دیکھا کہ کس طرح بنکس میں رش لگا ہوا ہے جیسے کل کسی نے نہیں دیکھا، بالکل اسی طرح فنڈ ٹرانسفر اور بل بیمنٹس بھی ایزی پیسہ اور دوسرے مائکرو فائننس بنکس کے ذرئعے بھی ہو سکتا ہے اس کو پروموٹ کرنے کے لئے SBP نے charges کو waive کردیا ہے مگر پھر بھی عوام نے بلاوجہ کا رش لگانا ہے، ورنہ اوپشنز موجود ہیں اور یہ ان عوام کے لیئے ہی ہے، مگر افسوس صد افسوس اس عوام کی معصومیت پر

وہ عوام

  1. جو ایک فون ہر دو Whatsapp چلانا جانتی ہو
  2. جو Bigo Live اور similar apps پر پیمنٹس کرنا اور beans خریدنا جانتی ہو
  3. جو AliExpress اور Daraz.pk جیسی e-Commerce ویب سائٹ کو استعمال کرنا جانتی ہو
  4. جو ایک ساتھ 10 10 ATM کارڈ میں پیسے ڈال کر وائرس کے نمودار ہونے سے پہلے 100,000 روپے نکالتی تھی
وہ عوام اب اگر یہ کہے کہ اپنے regular chores کے لیئے ADC یعنی Alternative Distribution Channel کو استعمال کرنا نہیں آتا، تو کیا یہ ان لوگوں کے لیئے جن کو واقعی میں ان چیزوں کی سمجھ بوجھ نہیں، کیا ان لوگوں کا حق نہیں مارا جارہا ہے؟ کیا انسان ہونے کے ناطے ایسے لوگوں کا خیال کرنا نہیں چاہیئے؟

Bitcoin

اب جو باتیں سننے میں آرہیں ہیں، اب پاکستان میں بھی Bitcoin یعنی Crypto Currency کو پاکستان میں بھی Introduce کیا جائے گا، کیونکہ عوام کی اس panic buying اور panic banking کی وجہ سے اب Crypto Currency کو جو بھی پروموٹ کررہے تھے، وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکے ہیں، اسکا نقصان سب سے ذیادہ بنکس کو ہی ہوگا کیونکہ Crypto Currency کا مطلب ہے structure-less banking مطلب آپکی رقم آپ کے پاس ہوتے ہوئے بھی آپ کے پاس نہیں ہوگی، اور اسی لیے آپ کسی unknown کے اوپر dependent رہوگے کہ آپ کے صحیح غلط کا فیصلہ وہ کریں، تو اسی لیے تھوڑا صبر کا دامن ہاتھ میں رکھیں، 14 دن کی احتیاط زندگی بھر اپنی اور اپنے پچوں اور آنے والی نسلوں کو غلامی میں پھینکنا ذیادہ ضروری ہے؟سوچیئے گا ضرور۔۔۔
ِ

زمین نے کچھ سکھ کا سانس لیا


اس وائرس سے پہلے وینس کی گلیاں اپنی بدبو کی وجہ سے گٹر کا سماں دے رہی تھیں
ہم انسانوں کے لیئے یہ شرم کا مقام ہے، کیونکہ آج ایک رپورٹ میں دیکھ رہا تھا کہ اٹلی کا شہر وینس/Venice جہاں عرف عام میں so called کورونا وائرس پھیلا ہوا ہے، وہاإ وینس میں زمین نے خود سے replenish کرنے میں لگی ہوئی ہے، جہاں Venice کی ندییاں کراچی میں لیاری ندی کا سماں دیتی تھی، اور وہاں سے literally بدبو آنا شروع ہوگئی تھی، مگر اب جب لوک ڈاون ہوا ہے، جب سے زمین نے بھی شاید سکھ کا سانس لیا ہے، کیونکہ وہ ندی جس میں پانی کا رنگ زردی مائل ہوچکا تھا، اب آہستہ آہستہ transparent ہونا شروع ہوگیا ہے۔

جیسے میں نے اوپر کہا

زمین نے سکھ کا سانس لینا شروع کردیا، ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے، کہ اس زمین کو اس پوزیشن میں لانے میں ہم سب انسانوں کا contribution مثالی ہے، یہ ایک شرم کا مقام ہے، کیونکہ کہنے کو ہم اشرف المخلوقات کا شرف حاصل ہے، اس کے باوجود ہم سے ذیادہ civilized ہیں جنہوں نے nature سے نہ صرف کچھ لیا بلکہ پھر دیا، جبکہ ہم انسانوں نے یہ منترہ رکھا ہے کہ Intend to take all and give nothing، ایسے اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے یہ شرم کا مقام ہے، کیا انسان ہونے کے ناطے ہمیں جانوروں سے بہتر رہنا چاہیئے تھا۔


اس بار کا رمضان المبارک

اس بار کا رمضان المبارک شاید کچھ الگ ہو
اس بار کا رمضان المبارک کا مہینہ میرے اندازے کے مطابق کچھ الگ ہی ہوگا، کیونکہ بیشک 15 دن کے لیئے سندھ کو بند کیا جارہا ہے، مگر جو casual رویے اس وبا سے متعلق ہمارے ہیں، یہ بیماری پھر اٹھ سکتی ہے، کیونکہ صفائی ستھرائی کا معیار کا تو ہم سب کو پتہ ہے، اسی وجہ سے یہ وبا دوبارہ اٹھے گا، مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں تراویح کا اھتمام اس طرح نہیں ہوتا تھا جیسے ہمارے پاس ہوتا ہے، بلکہ عشاؑ کی نماز کے بعد واپس گھر آجاتے تھے اور بعد میں خود سے قیام الیل ادا کرتے تھے، ٹھیک اسی طرح (میں امید کرتا ہوں، کہ ایسا نہ ہو مگر جو حالات و واقعات اس وقت چل رہے ہیں) اس بار ہمیں بھی سادگی کو اپنانا ہوگا، ایک طرح سے اللہ تعالی نے ہمیں دوبارہ اپنا ایمان تازہ کرنے کا موقع دیا ہے، ماڈرن زبان میں بولوں تو Rediscover the True Spirit of Ramadan, کیونکہ صحابہ اکرام نے Community based رمضان کی بنیاد رکھی تھی، جہاں افطار کم ہوتا تھا مگر دل بڑے ہوتے تھے، شاید اللہ تعالی دوبارہ وہی cleansing procedure کو revive کروانا چاہتے ہیں، اسی وجہ سے حالات و واقعات اس طرف اشارہ دے رہے ہیں، کہ ہمیں سادگی سے رمضان گزارنا ہوگا، اور رمضان کی spirit کے مطابق ہمیں اپنے سے کم تر والوں کا specially اس مہینے میں دیکھنا ہوتا ہے، تو اس بار ہمیں اسی spirit کا مظاہرہ کرنا ہوگا، کیونکہ بیشک رمضان کے ٹائم تک بہت وقت ہوجائے گا مگر الرجی کی طرح یہ دوبارہ اٹھ سکتے ہیں، تو بحیثیت مسلمان ہمیں community کا خیال رکھنا ہوگا نہ کا صرف اپنا، اس کا اللہ تعالی کے سامنے کوئی اجر نہیں، کیونکہ یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیئے کہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا خیال رکھنا بھی یمارے ایمان کا لازمی جزو ہے۔
Picture of 22 March 2020 when people were
at a حلوہ پوری shop instead of taking
precautions against the
subjected virus

یہاں ہم سے social distancing نہیں ہو پارہی ہے اور سوشل ڈسٹنسنگ کو یوم چھٹی کے طور پر منا رہے ہیں

اور ہم ٹھیرے اسلام کے سوداگر اور ہر چیز میں اسلام کو لے آتے ہیں مسوائے وہاں جہاں ہمارے مفاد کو مسئلہ ہو، یہ حال ہوچکا ہے ہم مسلمانوں کا۔ ہم کیا روز قیامت کے دن اس بات کا جواب دے سکتے ہیں؟ سوچیئے گا ضرور اس حوالے سے

Karachi Lockdown

آج بروز پیر مارچ ۲۳، ۲۰۲۰ کراچی اور پورا صوبہ سندھ لاک ڈائون ہو رہا ہے، مگر sorry to say, لاک ڈائون اور ہڑتال میں فرق ہوتا ہے، 

Lock-down/Lockout اور Strike/ہڑتال میں فرق

Strikes are initiated by the employees and is when the workers cease work during a labor dispute.
 Lockouts are initiated by the employer and is a denial of employment during a labor dispute. ... Both sides use a work stoppage to gain leverage during negotiations and force the other side to agree to terms and conditions.
مگر ان دونوں میں ایک واضع فرق ہے، یہاں employers سے مطلب حکومت سے بھی ہوتا ہے اور یہاں Lockout کی اسٹریتیجی یہ ہے کہ کھانے پینے جیسے بیکری، دودھ، کریانہ اور گوشت کی دکانیں اور وہ کھانے پینے کی دکانیں جہاں سے drive-in کی سہولت ہو مطلب کھانے کی چیزیں لیکر جانے کی سہولت ہو، مگر وہ کھانے پینے کے ریسٹورنٹ جہاں صرف بیٹھ کر کھانا منع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ limited socialization کی اسٹریٹیجی ہے، کیونکہ یہ بیماری کو اسی طرح سے روکا جاسکتا ہے;

Shelf life کی ڈیفینیشن

Shelf life is the length of time that a commodity may be stored without becoming unfit for use, consumption, or sale. In other words, it might refer to whether a commodity should no longer be on a pantry shelf, or just no longer on a supermarket shelf
یہ ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے حساب سے ہے مگر جراثیموں کی بھی شیلف لائف ہوتی ہے کیونکہ یہ جراثیم کو host body یعنی جسم چاہیئے ہوتا ہے ورنہ جسم کے بغیر یہ جراثیم maximum/ذیادہ سے ذیادہ 14 دن تک رہ سکتا ے، ذیادہ سے ذیادہ اس لیئے کہا کیونکہ it varies, ہوا میں صرف ۳ گھنٹے کا ٹرن ارائونڈ ٹائم/TAT/Turnaround Time ہے، اسی لئے اس کے لیئے کہا ہے کہ ہاتھ صاف رکھیں اور گھر کے عام صابن سے بھی بچا جاسکتا ہے، صرف مستقل 20 سیکنڈز تک دھونا ہے، اس کا حل یہی ہے، اور جسم کی کوئی بھی opening جیسے ناک، آنکھ، کان اور اگر جسم میں کوئی گھاو ہے اس پر antiseptic لوشن یا دوائی لگئیں کیونکہ جیسے میں نے اوپر کہا ہے، اس وائرس کو جسم چاہیئے ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ مندرجہ بالا openings پر روک لگا کر ہی بچایا جاسکتا ہے، اور اگر آنکھ میں کھجلی ہوتی بھی ہے تو پانی سے صاف کریں کیونکہ ہاتھ سے بھی یہ جراثیم آنکھ کے رستہ جسم میں گھس سکتا ہے، اسی لیے اس بیماری سے صرف احتیاط سے بچا جاسکتا ہے۔

لوگوں کے رویے

ہمارے رویے کا اللہ ہی مالک ہے
میں کوئی activist نہیں مگر جب کوئی وبا عالمی لیول پر پھیل رہی ہے، تو ایسے میں ہمارے non-serious attitude کی وجہ سے خدا نا کرے دوسرا اٹلی نا بن جائے۔کیونکہ جب اٹلی میں اس وبا کا کہا گیا اور warn کیا گیا تو مذاق میں لیا اور رات بھر پارٹی اور شراب نوشی کرتے رہے، اور کچھ ہفتوں کے بعد اٹلی کے حال ہم سب کے سامنے ہے، بحیثیت مسلمان ہمیں اٹلی سے سبق لینا چاہیے تھا نا کہ یہ non-serious attitude جو ہم نے رکھا ہوا ہے کہ آنے دے دیکھا جائے گا، مطلب یہ کہ دنیا کے ایک کونے میں لوگ موت کے گھاٹ اتر رہے رہیں اور ہمارے پاس کورونا وائرس پر memes بن رہیں ہیں۔ کیا واقعی میں ہم اللہ تعالی کے عذاب کو دعوت نہیں دے رہے؟

اس موقع پر بھی موقع پرست بن رہے ہیں

جتنا ہم سے کہا جاتا ہے کہ جو کام نا کریں وہی کرنا ہے ہمیں
وہ hand-sanitizers جن کو ۵۰ ۶۰ روپے میں پوکٹ پیک لیتے تھے اب ۱۵۰ کا کردیا ہے، ۱۵۰ کا بیکٹ اب ۳۰۰ ۳۵۰ کا کردیا ہے، جب یہ حالات ہیں ہمارے تو اللہ تعالی کا عذاب کیوں نہیں آنا چاہیئے ہم پر؟ بیشک کاروبار کر رہے ہیں مگر کاروبار کے لیے منافع لینا ایک بات اور منافع خوری کرنا دوسری، کیا ہم بھول گئے ہیں کہ پچھلی قوموں پر جو عذاب الٰہی آیا ہے وہ کیوں آیا ہے؟ بحیثیت مسلمان اس چیز کا تربیت ہمیں دی گئی ہے کہ ایک غلطی دوبارہ نہیں کرنا، مگر یہاں ہمارے سامنے تمام اقوام کے حالات قرآن پاک میں موجود ہے پھر بھی گاہے بہ گاہے وہی حرکات کر رہے ہیں جن کی وجہ سے وہ اقوام دنیا کے نقشے سے غائب ہوئی ہیں۔

انسانیت کہاں گئی ہماری؟

ذیادہ پرانی بات نہیں کروں گا پاکستان کی آزادی کے وقت کی بات ہے جب مسلمان مہاجرین ہندوستان سے پاکستان ہجرت کر کے آئے تھے تو پاکستان میں موجود عوام نے دل کھول کر سپورٹ کی تھی انکی، آج daily wage مزدور جب اس صورتحال کی وجہ سے گھر پر کھانا نہیں لیجا سکتے تو کیا یہ ہماری societal responsibility نہیں کہ اس جیز کو مدنظر رکھیں؟ یا اس چیز کا حکم مذہب میں کہیں بھی نہیں دیا گیا ہے؟ مسلمان ہونے کے ناطےیہ نمود و نمائش کا عنصر ہم میں کہاں سے آگیا ہے؟
خدارا معاملے کی سنگینی کو سمجھیں

خدارا معاملے کی سنگینی کو سمجھیں

چین، اٹلی اور ایران میں بھی یماری طرح کے ہی انسان تھے جو اس دنیا میں نہیں ہیں، تو اب کیا اس بات کا انتظار کررہیں ہیں کہ یہ وبا ہمارے گھروں ہر دستک دے گی جب ہم ہوش کے ناخن لیں گے؟ کیا مسلمان ہونے کے ناطے یہ چیز ہمیں زیب دیتی ہے؟ زرا سوچیں اس بارے میں۔۔۔

Mind programming اور CoronaVirus

کرونا وائرس کے پاکستان میں نمودار ہونے کے ساتھ ہی موسمی سائنسدانوں کا برآمد ہونا پاکستان میں ایک نارمل بات ہے۔ مگر اب مسئلہ یہ ہے کہ اسی تناظر میں جو گندا گیم کھیلا جارہا، جہاں unconscious اور sub-conscious mind میں کافی چیزوں کو encode کرا جارہا ہے، جو ابھی تو نہیں مگر مستقبل قریب میں ضرور impact کرے گا۔

مذہب سے دوری

ہمارا میڈیا جس میں YouTube کا پاکستانی میڈیا بھی شامل ہے، اس وقت وہی کام کررہا ہے جو محلہ میں جھگڑہ کرانے والی آنٹی کراتی ہیں، کیونکہ کچھ چیزیں مذہب میں unknown رکھی گئی ہیں کیونکہ کچھ چیزیں اللہ تعالی نے یم انسانوں سے پوشیدہ رکھیں ہیں تو ان میں کچھ مصلحت ضرور ہے، اب جب کرونا وائرس کے بارے میں کافی چیزیں کھل کر آرہی ہے کہ صفائی رکھیں وغیرہ وغیرہ، مگر مسئلہ دراصل یہ ہے کہ انسان کی اپنی internal-immunity mechanism کو کنٹرول کرنا ہے تاکہ انسانوں کے احساسات اور spontaneous reactions کو کنٹرول کیا جائے اور سادی زبان میں کہوں تو Hybrid Human Beings بنانے کا ارادہ ہے، جہاں انسان کی individuality کو at-stake کرنے کا ارادہ ہے، کیونکہ اس وائرس سے پہلے انسانوں کو infect کیا جارہا ہے، پھر دوائی دی جائے گی جس سے انسانوں کا immune system کو tame کیا جائے گا، یہ ان لوگوں کے لیے عید کا سماں ہے جہاں وہ جان بوجھ کر بیمار ہونا چاہتے کیونکہ وہ لوگ attention seekers ہوتے ہیں، مگر اس کی قیمت اس طرح چکائیں گے کہ اس وائرس کو طابع ہوجائیں گے، جس سے انکی اپنی individuality اور self respect ختم ہوجائے گی، کیونکہ ان کے اپنے جسم کے اندر جو natural immune system ہے جو اللہ تعالی کی جانب سے ہمیں تحفہ دیا کیا ہے اور جواب میں ہم یہ تحفہ انسانوں کے ہاتھ میں بانٹ کر اللہ تعالی کی جانب سے دیا گیا اس لازوال تحفہ کی بے حرمتی کر رہے ہیں، باقی ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ ہر چیز کا ایک reaction ہوتا ہے اور یہ موجودہ کرونا وائرس اسی کا خمیازہ ہے، کیونکہ کچھ نہ کچھ تو ایسا ضرور ہوا ہے جس کی وجہ یہ وائرس پنپ رہا ہے۔

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting