Search me

لائن آف actual کنٹرول، لائن آف کنٹرول اور پاکستانی سیاست + سیاستدان

پاکستان کی سالمیت، ہمارے سیاستدان، ہمارے نیوز اینکرز

پہلے تو یہ ہے کہ میں اپنی  work-life management کی وجہ سے اپنی اس بلاگ پر ذیادہ ٹائم نہیں دے پارہا ہوں جس کے لئے معذرت خواہ ہوں، مگراس کی وجہ سے مجھے پاکستان سے متعلق کچھ مٹیرئل پر تحقیق کرنے کا موقع ملا، کیونکہ لیپ ٹاپ کھول کر ان چیزوں کو بغور نوٹ کررہا تھا، کیونکہ پاکستان میں معذرت کے ساتھ observe and record کا concept نہیں ہونے کے برابر ہے، جو کہ ہمارے آباو اجداد بخوبی کرتے تھے اور آج کے زمانے میں اس کو ریکارڈ کیپنگ اور ریسرچ پیپرز کے نام سے بھی جانا چاہتا ہے، اور یہ میں نہیں کہہ رہا مگر آپ اپنے شہر یا علاقے کی لوکل لائبرری میں جائیں اور کسی پاکستانی کا ریسرچ پیپر ڈھونڈ کر دیکھا دیں، چلیں آپ کی آسانی کے لئے آپ انٹرنیٹ کی سہولت بھی لے لیں، اور پھر بھی ڈھونڈ کردیکھا دیں۔

اسی وجہ سے

میں اپنے ملک کے میڈیا کو bash کرتا ہوں کیونکہ ہمارا میڈیا کو ہم ہمارا کہتے ہیں مگر معذرت کے ساتھ ہمارا میڈیا ہمیں اپنا نہیں سمجھتا بلکہ ان میڈیا ہاوسز کے اپنے مفادات ہیں، جو کہ بذات خود سیاسی مفادات ہیں، کیونکہ ہمارے سیاست دانوں نے ملکی مفادات کے برخلاف اپنے سیاسی مفادات کو ذیادہ اہمیت دیتا ہے۔

جیسا کہ ابھی دو مہینے پہلے

یاد کریں، ایک زمانہ تھا، بھارت نے کچھ ہی دن پہلے لداخ کھویا تھا، وہی جگہ جہاں 3 Idiots کا آخری سین شوٹ ہوا تھا اب چین کے قبضہ میں ہے، انڈیا اور انڈیا کا میڈیا اسی بات کا *** رونا لگایا ہوا تھا، مگر یہاں ہمارے اسپورٹس اینکرز آئی پی ایل پر 1.5 گھنٹے کی پوڈکاسٹ کرتے بیٹھے ہوئے تھے، جس پر ہمیں یو ٹیوب پر یہ سننے کو مل رہا تھا، کہ تمہارے میڈیا والے تمہارا نیشنل ٹی 20 ٹورنامنٹ کو سپورٹ کرنے کے بجائے ہماری آئی پی ایل کو سپورٹ کررہے ہیں، جو کہ ہم پاکستانی ہونے کے ناطے ہمارے لئے شرم کا مقام ہے، کیا اپنے ملک اور ملکی مفاد کو اہمیت دینا کیا بیوقوفی ہے؟ کیا سوچ کر یہ میڈیا والے جن کو ملکی patriotism  کو پروموٹ کرنے کے اور ہمارے دلوں میں ملکی حرمیت کو مزید تازہ کرنے کے پروگرامز کرنے کے، انڈیا کے کونٹینٹ کو پاکستان میں acceptance کے لئے بار بار یہ کونٹینٹ ہمارے سامنے متعدد بار لانا کسی warfare کا شاخسانہ نہیں؟

ایک چیز بار بار دیکھانا؟

اگر آپ میرے بلاگ پر پرانے پوسٹس پر نظر ڈالیں، تو یہ چیز میں نے بتائی ہے کہ انسانی دماغ کی خصوصیت اور خامی دونوں ہے کہ ایک چیز کو اگر بار بار دیکھائی جائے، تو بالاخر عین ممکن ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا، کہ یا تو ہار مان جائے گا، یا accept یا دونوں کرلے گا، جس کے لئے جب میں نے 5th generation warfare کے tools کو analyze کیا تو اس میں یہ بھی تھا کہ سامنے آئے بغیر یعنی اپنی خود کی فورس کو expose کئے بغیر home grown proxies کو استعمال کئے جائیں، جیسا کہ ہمارے پاس ہمارے اپنے اسپورٹس اینکرز اور وی لاگرز نے انڈین کونٹینٹ کو پاکستان میں سپورٹ کرکے کیا۔

اسپورٹس اور سیاست؟

اور اسکے بعد نواز شریف صاحب پاکستانی ٹیلی وژن اسکرین پر نمودار ہوتے ہیں، اور بتاتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو یعنی چور چوری نہ  کرنے کے طریقوں کو explain کرنے لگ جائیں، اس کے مصدق نواز شریف صاحب آتے ہیں، مطلب اپنی سیاست کرنے کے لئے میڈیا کو خرید کر ایسا کنٹرول کرنا بے شک نواز شریف صاحب کی سیاست کا tactic ہے، کیونکہ میڈیا کے ہاتھ میں یہ طاقت ہے کہ لوگوں کی mind programming کرے، جو کہ بھارتی نژاد پاکستانی میڈیا بخوبی کررہا ہے، کیونکہ محترم ایاز صادق صاحب کے بیوقوفی مصادق انڈیا مزید شیر بنا، اور اس واقعہ کے اگلے دن ریپبلک ٹی وی پر میجر گورو آریا نے پاکستان کو کھل کر جو دھمکی دی اور جو زہر اگلا، اس کو پاکستانی میڈیا نے کیش کرنا چاہئے تھا، جو کہ پتا نہیں کیونکر پاکستانی میڈیا کس مصلحت کے ماتحت خاموش رہی بلکہ اس دوران میڈیا پی ڈی ایم کو کووریج دینے میں اپنا خون پسینہ ایک کیا، جبکہ پردے کے دوسری جانب ایف اے ٹی ایف میں بھارتی صحافی پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں نا ڈالنے پر سوالات کی  بوچھار کررہے تھے اور یہ میں نہیں کہہ رہا مگر ہمارے صحافی اور نیوز اینکرز اس حوالے سے ہمیں گمراہ کرنے کے لئے ٹویٹر پر ٹرینڈز اور ٹویٹ کرنے میں ہی اپنی ذمہ داری سمجھ رہے تھے۔ تو ایسے میں اگر میں پاکستانی میڈیا کو اگر میں بھارتی نژاد پاکستانی میڈیا کہوں تو میرا نہیں خیال کہ اس میں کچھ غلط ہے۔

ان لوگوں کی وجہ سے

اب یہ صورتحال ہے کہ وہ صورتحال جہاں پاکستان ۷۴ سالوں میں پہلی بار بھارت پر مستقل طور پر انڈیا پر پریشر رکھ سکتا تھا، اب بھارت-چین کے جھگڑے میں عبداللہ دیوانے کے موافق پراکسی بن چکا ہے، ایک دھماکہ پاکستان میں کوئٹہ میں ہوچکا ہے، اور چین بھی ایک طرح سے کنفیوژن میں ہے کہ پاکستان کیا ہماری سپورٹ ہے یا زحمت، کیونکہ ہمارے ان غدار سیاستدانوں اور نیوز اینکرز کی وجہ سے جنگ کا ایپی سینٹر epicenter گھوم کر پاکستان کی جانب ہوچکا ہے۔

امریکی الیکشن اور بلیک واٹر

کیونکہ بلیک واٹر کو head کرنے والے وہی ٹیم تھی جو صدر اوبامہ کے ادوار میں ہوا کرتے تھے، اگر آپ ماضی میں جائیں تو وہاں جو بائڈن ہی دیکھیں گے جو ان چیزوں کو head کررہے تھے، بلکہ اگر آپ مزید یاد کریں تو وزیر اعظم گیلانی کو کس نے ڈانٹا تھا کہ یہ سننے کے لئے تمہیں حکومت دی تھی کہ تم یہ کہو کہ اسٹیبلشمنٹ کرنے نہیں دے رہی؟ کیا یہ سننے کے لئے تمہیں این آر او دلوایا تھا؟ تو اسی وجہ سے کوئی بعید نہیں کہ وہ چیزیں جو ٹرمپ کے دور میں رکیں تھیں، وہیں سے دوبارہ اسٹارٹ ہوگا، اس پر سونے پہ سہاگہ ہمارا بھارتی نژاد پاکستانی میڈیا سے اس حوالے سے کوئی امید رکھنا بلی سے دودھ کی رکھوالی کرنے کے مترادف ہے۔

میڈیا کو لگام لگاوٗ 

ان چیزوں سے نکلنے کے لئے پہلے پہل میڈیا ہاوٗسوں کو لگام لگائیں، کیونکہ ان میڈیا والوں کی وجہ سے پاکستان کاز کو بہت نقصان ہورہا ہے، اور جب تک ان لوگوں کو لگام نہیں لگائی جاتی مسئلہ حل نہیں ہوگا، کیونکہ کسی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مسئلہ کی بنیاد اور root cause کو سمجھنا ذیادہ ضروری ہے، کیونکہ جب تک مسئلہ کے root cause کو نہیں سمجھا جاتا، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting