یہ ایک بہت خطرناک صورتحال ہے، جہاں mind programming کو fighting tool کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جبکہ ہم ابھی بھی اس خوش فہمی میں مبتلہ ہیں کہ دشمن گولیوں، بذوکا، میزائیل وغیرہ سے ہم پر حملہ کریں گے۔
ھندی الفاظ کا اردو میں شمولیت
میں یہاں conservative mindset کا مظاہرہ نہیں کروں گا، کیونکہ اردو زبان کو پانی کی طرح fluent ہونا چاہیے جہاں نئے نئے الفاظ کو welcome کرنا چاہیئے، کیونکہ ہماری موجودہ اردو میں فارسی، عربی اور انگلش کے بہت سے الفاظ موجود ہیں، مگر اردو زبان کی اصل خوبصورتی اس کا تلفظ ہے جہاں غیر ملکی الفاظ جیسے انگلش وغیرہ بھی اردو کا حصہ لگتے ہیں، مگر آہستہ آہستہ جس طرح ہمارے بولنے کا تلفظ کو slowly تبدیل کیا جارہا ہے، ایک طرح کا slow poison ہے، کیونکہ آہستہ آہستہ "خ" بولنے کے بجائے "کھ" بولنے میں فخر سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری اپنی individuality داو پر لگی ہوئی ہے، کیونکہ پہلے اردو بولنے والے اور ہندی بولنے کے بیچ میں فرق ان کے تلفظ سے پہچانے جاتے تھے اور ہندی بولنے والے ہم اردو بولنے والوں سے خائف رہتے تھے کیونکہ ہم بہت سارے ایسے الفاظ پول لیتے تھے جو ہندی بولنے والے نہیں بول پاتے تھے، جیسے سنیل گواسکر کبھی اعجاز احمد کو اعجاز احمد بولنے کے بجائے اجاج احمد کہتے تھے، مگر آج ہماری post 2000 generation یہی accent میں بات کرنا پسند کرتی ہے as compared to ہم 1980s اور 1990s میں بیدا ہونے والے جو ابھی بھی اسی accent میں بات کرنا پسند کرتے۔
Fifth-generation warfare
"پانچویں نسل کی جنگی حکمت عملی ، آپریشنل ، اور تدبیراتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک پروپیگنڈا اور معلوماتی جنگ ہے ، بغیر کسی حد کے نقصان کے جس کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ 5 جی ڈبلیو میں ممکن ہے کہ ہدف کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ اس پر حملہ کیا گیا ہے ، اس طرح ہدف اس جنگ کو پہلے ہی ہار چکا ہے"
اس سے مطلب ہے ہماری ideology پر حملہ، کیونکہ اب بات یہاں تک آگئی ہے کہ کسی زمانے میں ہم اپنے کلچر اور ماضی کے بارے میں فخر کرتے تھے، آج وہی ہورہا ہے جو بانگلادیش میں ہوچکا ہے، جہاں آہستہ آہستہ ہندی کلچر کو اتنا common کردیا ہے کہ دونوں ممالک میں بہت کم فرق ہے، ہالانکہ جو فرق ہے وہ بہت گہرہ ہے مگر وہ لوگ جو بانگلادیش جاچکے ہیں، میری اس بات کو second ضرور کریں۔
میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں؟
میں ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ پہلے بھی کوششیں کی جاچکیں ہیں مگر جب ہمارے بڑے ہوتے تھے، جو ان چیزوں کے بیچ میں دیوار ہوتے تھے، ورنہ اس وقت بھی "شد" یعنی پاک صاف کرنے کی مہم، جہاں ان کا کہنا ہوتا ہے کہ پہلے ھندوستان میں سارے ھندو ہوا کرتے تھے جس پر مسلمان غاصب ہوئے، اسی وجہ سے پہلے بھی کوششیں کی جاتی تھیں، انڈیا میں تو اب یہ عام ہوچکا ہے کہ مسلمان کے گھر میں ھندو مذہب کی مورتیاں موجود ہیں یا مسلمان لڑکی کا غیر مسلمان لڑکے بلکہ اب تو زمانہ اور ambitious ہوچکا ہے، جہاں لڑکی لڑکی کے relation کو positively portray کیا جارہا ہے، اور وہی کھیل اب پاکستان میں کھیلنے کی تیاری کی جارہی ہے، جیسے پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی نے اپنی بیٹی پر سختی کی کیونکہ ہمارے اپنے مذہب میں موجود ہے جو جس کسی کی پیروی کرے گا، وہ نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو vulnerable دیکھا رہا ہے، اور ایک طرح کا invitation to offer ہے کہ ہمیں plagiarize کرو۔
مذہبی point of view
مشابہت ایک حالت کا نام ہے جو انسان
پر طاری ہوتی ہے، مشابہت کرنے سے جس کی مشابہت کی جائے اُسکی تعظیم ہوتی ہے، عمومی
طور پر یہ نا مناسب عادت ہے، اسی لئے شریعت نے کفار سے مشابہت کے مسئلے کو کافی
اہمیت دی ، اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعی طور پر حرام قرار دیا،
اور فرمایا: (جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اُنہی میں سے ہے) ابو داود،
(4031) اور البانی رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
کہتے ہیں:
"اس حدیث کا کم از کم یہ تقاضا ہے کہ
کفار سے مشابہت حرام ہے، اگرچہ ظاہری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان سے مشابہت
رکھنے والا شخص کافر ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی میں ہے:
(وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ
فَإِنَّهُ مِنْهُمْ) المائدة/51
ترجمہ: جو تم میں سے انکے ساتھ دوستی
رکھے گا تو وہ اُنہی میں سے ہوگا۔
تو اس حدیث کو مطلق تشبیہ پر محمول
کیا جاسکتا ہے، جو کہ کفر کا موجِب ہے، اور کم از کم اس تشبیہ کے کچھ اجزا کے حرام
ہونے کا تقاضا کرتا ہے، یا اسکا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح کی مشابہت ہوگی
اسی طرح کا حکم ہوگا، کفریہ کام میں مشابہت ہوگی تو کفر، گناہ کے کام میں مشابہت
ہوگی تو گناہ، اور اگر ان کفار کے کسی خاص کام میں مشابہت ہوئی تو اسکا بھی حکم
اُسی کام کے مطابق لگے گا، بہر حال اس حدیث کا تقاضا ہے کہ مشابہت اختیار کرنا حرام
ہے۔ انتہی مختصراً از کتاب "اقتضاء الصراط المستقيم" (1/270، 271)
مسلمانوں کیلئے کفار سے مشابہت کی
ممانعت کیلئے کیا حکمت ہے ؟ مشابہت کے نقصانات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ بھی جانی
جا سکتی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
1- اگر کوئی مسلمان کافر کی مشابہت
اختیار کرے تو وہ اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ کافر کی شکل وصورت مسلمان سے افضل ہے،
اور اس کی بنا پر اللہ کی شریعت اور اسکی مشیئت پر اعتراض آتا ہے۔
چنانچہ جو خاتون مرد کی مشابہت
اختیار کرتی ہے گویا کہ وہ اللہ تعالی کی خلقت پر اعتراض کرتی ہے، اور اسے تخلیقِ
الہی پسند نہیں ہے۔
2- کسی کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا
نفسیاتی طور پر کمزور ہونے کی دلیل ہے، جس سے لگتا ہے کہ یہ شخص اندر سے شکست خوردہ
ہے، جبکہ شریعت کبھی بھی مسلمانوں سے اس بات کو قبول نہیں کرے گی کہ وہ اپنی شکست
خوردہ حالت کا اعلان کرتے پھریں، چاہے حقیقت میں وہ شکست خوردہ ہی کیوں نہ ہوں۔
اس لئے کہ شکست تسلیم کر لینا مزید
کمزوری کا باعث بنتا ہے، جس کے باعث فاتح مزید طاقتور بن جاتا ہے، اور یہ کمزور کے
طاقتور بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔
اسی لئے کسی بھی قوم کے عقل مند
حضرات کبھی بھی اپنے معاشروں کو دشمنوں کے پیچھے لگ کر انکی مشابہت اختیار کرنے کی
اجازت نہیں دیتے، بلکہ وہ اپنی پہچان اور شخصیت باقی رکھتے ہوئےاپنی میراث ، لباس،
اور رسوم و رواج کی حفاظت کرتے ہیں، چاہے دشمنوں کے رسم و رواج ان سے افضل ہی کیوں
نہ ہوں؛ یہ سب کچھ اس لئے کہ وہ معاشرتی اور نفسیاتی اقدار کو جانتے ہیں۔
3- ظاہری منظر میں کسی کے ساتھ مشابہت
اختیار کرنے سے دل میں اس کیلئے محبت کے اسباب پیدا کرتی ہے، اسی لئے انسان اُسی کی
مشابہت اختیار کرتا ہے جس سے محبت بھی کرے، جبکہ مسلمانوں کو کفار سے تمام وسائل کے
ذریعے اعلانِ براءت کا حکم ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
(لَا يَتَّخِذْ الْمُؤْمِنُونَ
الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ
فَلَيْسَ مِنْ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً
وَيُحَذِّرُكُمْ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ) آل عمران/28 .
ترجمہ: مؤمنین اہل ایمان کو چھوڑ کر
کافروں کو ہرگز دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اسے اللہ سے کوئی واسطہ نہیں
اِلاّ کہ تمہیں ان کافروں سے بچاؤ کے لیے کسی قسم کا طرز عمل اختیار کرنا پڑے، اور
اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
(لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ
بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ
وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ
عَشِيرَتَهُمْ) المجادلة/22
ترجمہ: جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن
پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ کبھی انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں
جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا
بھائی یا کنبہ والے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی
فرمایا: (مضبوط ترین ایمان کا کڑا: اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے آپس میں ایک دوسرے
سے میل جول رکھنا اور دشمنوں سے دشمنی رکھنا اور اللہ کی خوشنودی کے لیے کسی سے
دوستی رکھنا اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے کسی سے بغض و نفرت رکھنا ہے) طبرانی
اور البانی نے السلسلة الصحيحة (998) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
اپنی کتاب: "اقتضاء الصراط المستقيم" (1/549) میں کہتے ہیں:
"ظاہری طور پر کسی کے ساتھ مشابہت اپنانا
دل میں اسکے بارے میں محبت پیدا کردیتا ہے، جس طرح دل میں موجود محبت ظاہری مشابہت
پر ابھارتی ہے، یہ ایک ایسی بات ہے جو عام مشاہدے میں پائی جاتی ہےاور اسکا تجربہ
بھی کیا گیا ہے" انتہی
4- ظاہری طور پر کفار کی مشابہت سے
انسان اس سے بھی خطرناک مرحلے کی طرف بڑھتا ہے اور وہ ہے کہ اندر سے بھی انسان اِنہی
کفار جیسا بن جاتا ہے، چنانچہ اِنہی جیسے اعتقادات رکھتا ہے، اور انکے افکار و
نظریات کو صحیح سمجھنے لگتا ہے، اس لئے کہ انسان کی ظاہری اور باطنی حالت میں شدید
تعلق پایا جاتا ہے، اور یہ دونوں ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
اقتضاء الصراط المستقيم (1/548) میں کہتے ہیں:
"ظاہری طور پر مشابہت باطنی طور پر
مشابہت کا باعث بنتے ہیں، اور یہ سب کچھ اتنا مخفی اور سلسلہ وار ہوتا ہے کہ احساس
نہیں ہوپاتا، جیسے کہ ہم نے ان یہودو نصاری کو دیکھا ہے جو مسلم معاشرے میں رہتے
تھے، ان میں دیگر یہود ونصاریٰ سے کم کفریہ نظریات پائے جاتے تھے، بعینہ ایسے وہ
مسلمان جو یہود ونصاریٰ کے معاشرے میں رہتے ہیں ، وہ لوگ دیگر مسلمانوں سے کم ایمان
رکھتے ہیں" انتہی
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ظاہری لباس میں مشابہت باطنی افکار
میں موافقت کا باعث بنتا ہے، جیسا کہ اس کے متعلق شرعی، عقلی اور واقعی دلائل موجود
ہیں، اسی لئے شریعتِ مطہرہ نے کفار ، حیوانات، شیاطین، خواتین، اور دیہاتی لوگوں سے
مشابہت منع قرار دی ہے" انتہی
الفروسية ص(122)
یہ چند ظاہری حکمتیں ہیں جن کی وجہ
سے شریعت نے مسلمانوں کو مشرکین کی مشابہت سے روکا ہے، اس لئے ہر مسلمان کیلئے
ضروری ہے کہ اللہ تعالی کے تمام احکامات کی پیروی کرے، اور یہ بات دل میں بیٹھا لے
کہ اللہ تعالی اسے کوئی بھی حکم بغیر کسی حکمت، فائدے اور مصلحت اور دنیا و آخرت
میں کامیابی کے نہیں دیگا ۔
واللہ اعلم .
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں