Search me

کراچی لاک ڈائون کے دوران

آج دوسری لہر کے آنے بعد کراچی میں لاک ڈائون پر عمل درامد کرایا گیا اور وہ علاقے جہاں آفس سے واپسی میں مجھے ہمیشہ رش کا سامنا ہوتا تھا، آج وہاں مجھے سناٹا دیکھائی دے رہا تھا، جسے کراچی والا ہونے کے ناطے مجھے دیکھ کر بہت دُکھ ہورہا تھا کیونکہ کراچی اپنے لوگوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے، اور آج وہاں کوئی لوگ ہی نہیں تھے۔
میرے نذدیک ورچوئل کرنسی بالکل ویسی ہی ہے جیسے کوئی بھی چیز کہنے کو آپکے پاس موجود ہے مگر اسکی موجودگی ہونے کے باوجود آپ کے پاس موجود نہ ہو، اور کوئی دوسرا یا تیسرا بندہ اس پر اپنا حق جتانا شروع کردے؟ کرنسی اسی Philosophy پر اسٹارٹ کی گئی تھی کہ لین دین مستقل بنیاد پر موجود رہے، اور لین دین Barter سسٹم کی basis پر شروع ہوا تھا کیونکہ لین دین میں دونوں پارٹی جن میں لینے والا اور دینے والا دونوں کا سکون کو مدنظر رکھا جاتا ہے، جو کہ بزنس law کے اسٹوڈنٹس بخوبی سمجھ سکتے ہیں، ورنہ ایک حد کے بعد یہ ransom کی سمت جاتی ہے، جیسا کہ بِٹ کوائین BitCoin کے اوائیل میں کچھ لوگوں نے تاوان کے لئے بٹ کوائین کو استعمال کیا، کیونکہ اس کو trace کوئی نہیں کرسکتا، مگر چونکہ اب ہمارے دماغوں کو اس حد تک پروگرام کردیا گیا ہے کہ اس چیز میں ہمارے دماغ نہیں جاتے اور mentally اس چیز کو ہم نے مان لیا ہے کہ یہی صحیح ہے، جبکہ اسلام کے حساب سے بھی بات کروں تو اسلام میں بھی سونا اور چاندی پر لین دین کا کہا گیا ہے کیونکہ ان چیزوں کی قدر و قیمت موجود ہے، اور جس کے پاس بھی یہ موجود ہوگا، اس کی قدر بھی ہوگی، جبکہ یہاں پیپر کرنسی کا ہمیں یقین نہیں کہ واقعی میں ۱۰۰ روپے کے پیچے اس کے متبادل سونا موجود بھی ہے کہ نہیں، اور کیا یہ ممکن نہیں کہ پیسے کی موجودگی میں ہم سب کنگال ہوچکے ہیں؟ زرا سوچیں۔۔۔

Accepting that 

یہ جوبیماریا ں ہمارے آس پاس موجود ہیں، کیا پہلے موجود نہیں تھیں؟ کیا پہلے ہمارا گلا خراب نہیں ہوا؟ کیا پہلے ایسا نہیں ہوا کہ taste buds نے اپنا کام یعنی taste recognize کرنا چھوڑا ہو؟ یہ کیونکر ہورہا ہے کہ کورونا سے مرنے والوں کو گاڑا جارہا ہے، صحیح طریقے سے تدفین بھی نہیں ہوتی؟ کیا اسکا سیدھا سیدھا مطلب یہ نہیں کہ ڈر کو ہمارے ذہنوں میں بٹھا کر اسی طرح کی جنیاتی تبدیلیاں ہمارے اندر لائی جارہی ہیں جیسے ہمارے سے پہلے کی نسلوں میں آئیں جو ۱۴ ۱۵ فٹ کے دیو ہیکل ہوا کرتے تھے اور آہستہ آہستہ fragile ہوتے ہوتے اس موڑ پر آئے؟ Beneficiary کو دیکھیں کہ انسانوں کو fragile کرکے کون فائدے میں ہے؟ کس کو فائدہ ہو رہا ہے، کون فائدہ اُٹھا رہا ہے اور کس کو کتنا فائدہ دلایا جارہا ہے۔ لوگوں کو شرم آنی چاہئے کہ اب بیماریوں کو بھی status symbol کے طور پر استعمال کیا اور کرا جارہا ہے اور ہمارے ذہنوں میں بھی یہی چیز ہمارے بڑوں کی جانب سے ہم میں ڈالی جارہی ہے۔

Virtual Communication

 اس بیماری کے آنے کے بعد جو سب سے بڑا ٹرینڈ آیا کہ ورچوئل رابطہ کو فروغ دیا جارہا ہے، جو کہ پہلے اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا تھا اور ابھی کچھ مہینے پہلے تک میں خود کہتا تھا کہ far fetched future میں شاید ہم اس جانب دلچسپی دیکھائیں، مگر دیکھ لیں، آفیشلی پاکستان میں ۲۶ فروری کو پہلا کیس آیا، اور آج نومبر کی ۲۶ اسٹارٹ ہونے والی ہے خود دیکھ لیں، ایس سی او سَمِٹ ورچوئل ہوئی، ابھی جی ۲۰ ریاض میں ورچائل ہونے والی ہے، جس سے اندازہ کرلیں یہ سب پری پلان تھا اور ہے۔

کورونا صرف ٹی وی میں ہے

 جی ہاں، کیونکہ جب سے کورونا آیا ہے، میں نے صرف اور صرف ٹی وی دیکھنا بند کیا ہے اور اپنے آپ کو کاموں میں، لکھائی میں، فیملی میں، اپنے آپ کو involve کیا، تو میرا ذہن اس جانب نہیں، جبکہ honestly اس دوران میری طبیعت بھی خراب ہوئی، مجھے اسکین پرابلم بھی ہوئی، زخم بھرنے میں سُستی ہوئی، بخار بھی آیا اور چکر بھی آئے مگر چونکہ میرا ذہن ان خرافاتی خیالات سے مبرہ تھا، اور اللہ تعالٰی پر توکل، تو ان سب چیزوں سے نکل گیا حالانکہ مجھے میرے آفس والوں نے بھی کہا کہ تمہاری آنکھیں اتری ہوئی لگ رہی ہیں، یا تم concentrate نہیں کر پارہے ہو، تھوڑا پاور نیپ لو، مگر چونکہ میرا ذہن صاف تھا، یہی symptoms مجھے بھی کچھ کچھ ہوئے، جیسے ایک دن میں ۳ مرتبہ بخار کا چڑھنا پھر اترنا، اسی لئے اب میرا اس حوالے سے پختہ یقین ہوچکا ہے کہ یہ سارا مائنڈ گیم ہے اور کچھ بھی نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting