جب بھی ہم ازلی دشمن کی بات کرتے ہیں، ہمارے ذہنوں میں سب سے پہلے بھارت کا نام آتا ہے، مگر میرے نذدیک ہمارا سب سے
بڑا دشمن ہماری ignorance ہے۔ کیونکہ پہلی بات یہی ہے کہ جمہوریت اور پارلیمانی سسٹم میں فرق کا شعور ہونا چاہئے، بصورت دیگر اگر کسی ********** کے ********* کو ایک بریانی، ایک سموسے یا پھر ایک ہزار روپے کے عیوض پانچ سال کے لئے اپنے سر پر بٹھالیتے ہیں، یا پھر کسی کی گلی میں نالا بنانے کے عیوض آپ کو کراچی میں حکومت مل جاتی ہے، بلکہ معذرت کے ساتھ کراچی میں activities کے لئے مختص vicinity کس طرح یادگار کے طور پر اپارٹمنٹس میں تبدیل پوا؟
بڑا دشمن ہماری ignorance ہے۔ کیونکہ پہلی بات یہی ہے کہ جمہوریت اور پارلیمانی سسٹم میں فرق کا شعور ہونا چاہئے، بصورت دیگر اگر کسی ********** کے ********* کو ایک بریانی، ایک سموسے یا پھر ایک ہزار روپے کے عیوض پانچ سال کے لئے اپنے سر پر بٹھالیتے ہیں، یا پھر کسی کی گلی میں نالا بنانے کے عیوض آپ کو کراچی میں حکومت مل جاتی ہے، بلکہ معذرت کے ساتھ کراچی میں activities کے لئے مختص vicinity کس طرح یادگار کے طور پر اپارٹمنٹس میں تبدیل پوا؟
کیونکہ جمہوریت میں
جمہوریت میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ جمہور کی نمائندگی کرنا، یعنی جس طرح مسلمانوں کی صورتحال ہوچکی ہے کہ جمہور کی نمائندگی میں فتوے مل چکے ہیں جہاں مسلمان علما نے ہندوستان میں سورج کی پرستش جس کو اب بھارت میں قانون بنادیا گیا ہے، یعنی کوئی اگر ان traditions کو follow نہیں بھی کرنا چاہتا تو ایسا کوئی آپشن نہیں، کیونکہ جمہوریت کی رو سے یہ جمہور کی نمائندگی ہے، یعنی اگر پاکستان میں بھی جمہوریت کو ہمارے ہر مسائل کا حل بنا کر دکھایا جئے، جس کو ہمارے معزز سیاسی جماعتیں مفاہمتی (منفقانہ) پالیسی کو استعمال کررہی ہیں، اور کراچی میں اپنا ووٹ بینک بنارہیں ہیں، مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں، مجھے مسئلہ لوگوں سے ہے، جن کے اوپر ایک scientific جمہوریت نافذ کردیا گیا ہے، کیونکہ جیسے میں نے اوپر کہیں لکھا ہے، کسی نے آپ کے لئے کوئی کام کردیا ہے، تو جمہوریت کے رو کے حساب سے آپ کو facilitate کیا جائے گا، مگر پاکستان کہاں ہے؟
پاکستان میں اور کراچی میں جمہوریت کی وجہ سے
جمہوریت کی رو سے اگر majority یعنی جمہور اس بات کی اجازت دے دے کہ پاکستان میں پیپسی یا کوکا کولا کی جگہ Wine، برینڈی اور Beer کو allow کردیا جائے، تو جمہوریت کی رو سے اس کو allow کردیا جائگا، اس کے لئے صرف آپ کو extensive مائنڈ پروگرامنگ کرانی پڑے گی، تاکہ علما کے قلم سے ایسے فتوے لکھوائے جائیں جس کی رو سے demand and acceptance کو create کیا جائے، جو کہ Post-Musharraf Era ہمارے سیاسی جماعتیں لگی ہوئی ہیں، بجائے اس کے کہ عوام اور پاکستان کے مسائل کو حل کرانے کے، پانچ سال ایک سرکس کی طرح اپنے ادوار مکمل کریں گے اور نتیجے میں آپ خود پی پی پی، پی ایم ایل این، اور ابھی پی ٹی آئی بھی اسی نقش قدم پر چل رہی ہے، بجائے اس کے کہ یہ سب ڈرامہ کے بجائے ہمارے اور پاکستان کے مسائل پر توجہ دینے کے، again یہاں بھی مسئلہ سیاسی شعور کی لاعلمی کی وجہ سے ہے.
ویسے بھی
سائنسی جریدے پولیٹیکل سائیکالوجی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جو لوگ سیاست کے بارے میں کم جانتے ہیں وہ اپنے سیاسی علم کے بارے میں زیادہ پراعتماد ہوتے ہیں۔ نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جب متعصبانہ شناختوں کو چالو کیا گیا تو یہ اثر بڑھ گیا۔
"Dunning-Kruger Effect کا خیال ہے کہ جن افراد کو کسی موضوع کے بارے میں بہت کم علم ہے، وہ سب سے زیادہ پراعتماد ہوں گے کہ وہ اس موضوع کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ باشعور افراد بھی اپنی علمیت میں رعایت کریں گے، "مطالعہ کے مصنف ایان آنسن، یونیورسٹی آف میری لینڈ، بالٹیمور کاؤنٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر نے وضاحت کی۔
"2016 کے انتخابات کے دوران دیگر اسکالرز کو ٹویٹر پر اس موضوع پر بحث کرنے کے مشاہدے کے بعد میں ڈننگ-کروگر اثر میں تیزی سے دلچسپی لینے لگا۔ میں متعدد سیاسی ماہر نفسیات کی پیروی کرتا ہوں جنہوں نے سوشل میڈیا پنڈت طبقے پر حیرانی کا اظہار کیا، جو کہ انتخابات کی اپنی بھرپور کوریج میں 'ڈننگ-کروگیرش رجحانات' کا بظاہر مظاہرہ کرتے ہیں۔
"Dunning-Kruger Effect کا خیال ہے کہ جن افراد کو کسی موضوع کے بارے میں بہت کم علم ہے، وہ سب سے زیادہ پراعتماد ہوں گے کہ وہ اس موضوع کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ باشعور افراد بھی اپنی علمیت میں رعایت کریں گے، "مطالعہ کے مصنف ایان آنسن، یونیورسٹی آف میری لینڈ، بالٹیمور کاؤنٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر نے وضاحت کی۔
"2016 کے انتخابات کے دوران دیگر اسکالرز کو ٹویٹر پر اس موضوع پر بحث کرنے کے مشاہدے کے بعد میں ڈننگ-کروگر اثر میں تیزی سے دلچسپی لینے لگا۔ میں متعدد سیاسی ماہر نفسیات کی پیروی کرتا ہوں جنہوں نے سوشل میڈیا پنڈت طبقے پر حیرانی کا اظہار کیا، جو کہ انتخابات کی اپنی بھرپور کوریج میں 'ڈننگ-کروگیرش رجحانات' کا بظاہر مظاہرہ کرتے ہیں۔
کراچی کو جس طرح سے exploit کیا جارہا ہے
کیونکہ ہم لوگوں میں سیاسی شعور نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہم نے ایک بریانی کی پلیٹ کے لئے پانچ سالوں کے لئے
without accountability ان چوروں کو پورے پاکستان پر مسلط کردیتے ہیں اور نتیجے میں یادگار کے نام پر یا سیاسی جماعتوں کے اثر پر پلے گراؤنڈ کی ذمین پر اپنا ووٹ بینک قائم کرلیں گے، کیونکہ یہ پاکستانی جمہوریت ہے۔ اور پاکستانی جمہوریت ہونے کے ناطے، یہ ایکشن ہمارے اپنے اندر سیاسی غیر شعوری کی عکاس ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے بھی فرمایا ہے جس کا متن یہی ہے کہ جیسی عوام ہوگی، ویسے ہی حکمران ہوں گے، کیونکہ عوام اور حکمران دونوں ایک ہی سکے کی دو الگ، الگ سائیڈ یعنی ایک سکے کا چاند ہے اور دوسرا چھاپ، مگر اس سیاسی غیر شعوری کی وجہ سے میرا اپنا یہ ماننا ہے کہ ہم پاکستانی جمہوری سیاست سے پالکل نا آشنا ہے،
without accountability ان چوروں کو پورے پاکستان پر مسلط کردیتے ہیں اور نتیجے میں یادگار کے نام پر یا سیاسی جماعتوں کے اثر پر پلے گراؤنڈ کی ذمین پر اپنا ووٹ بینک قائم کرلیں گے، کیونکہ یہ پاکستانی جمہوریت ہے۔ اور پاکستانی جمہوریت ہونے کے ناطے، یہ ایکشن ہمارے اپنے اندر سیاسی غیر شعوری کی عکاس ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے بھی فرمایا ہے جس کا متن یہی ہے کہ جیسی عوام ہوگی، ویسے ہی حکمران ہوں گے، کیونکہ عوام اور حکمران دونوں ایک ہی سکے کی دو الگ، الگ سائیڈ یعنی ایک سکے کا چاند ہے اور دوسرا چھاپ، مگر اس سیاسی غیر شعوری کی وجہ سے میرا اپنا یہ ماننا ہے کہ ہم پاکستانی جمہوری سیاست سے پالکل نا آشنا ہے،
اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں، ایک subtle disclaimer
یہاں میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا ہوں کہ کراچی صرف کسی ایک کا ہے، کراچی پورے پاکستان کا ہے، مگر کراچی کو جینے دو، اپنے ووٹ بینک کو پروان چڑھانے کے لئے مونٹیسری نہ بنایا جائے، کیونکہ اس ووٹ بینک بنانے کے چکر میں کراچی کی شکل مسخ کردی ہے، جہاں گرین بیلٹس اور storm water drainage ہونی چاہئے تھی، وہاں آبادیاں اور کالونیاں بنا دی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں کراچی اپنی جاہلیت کی وجہ سے مسخ ہورہا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں