مائکرویو اٹیک
چونکہ ہم نہ کرنے کے برابر تحقیق کرتے ہیں، جبکہ اوپر موجود اسکرین شاٹ پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح perspective development کی جارہی ہے، میں یہاں انڈیا یا چین کی طرف داری نہیں کررہا ہوں مگر میں یہی کہوں گا کہ India is facing the same music which is used to play against its neighbours واقعی میں وقت ایک سا کبھی نہیں رہتا، کیونکہ ابھی کچھ وقت پہلے بھارت پاکستان میں اپنے بند کی وجہ سے جب مُون سُون کی بارشوں میں پاکستان کی سرحد کے برابر میں موجود بند کو کھول دیتے تھے، اب چین وہی کھیل بھارت کے ساتھ کررہا ہے، کیونکہ آج سوشل میڈیا کے بُوم کی وجہ سے لوگوں کے دماغ کو ری پروگرام کرنا ویسا ہی ہے جیسے آپ اپنے اسمارٹ فون میں موجود میڈیا بلیئر کے اندر پلے Play کے بٹن کے ساتھ موجود فارورڈ، فاسٹ فارورڈ کے آپشن کو استعمال کرنے کے برابر ہے، کیونکہ چین اس وقت وہی کھیل کھیل رہا ہے جو کہ بھارت کرتا ہے اور جو منتر Mantra ہے موجودہ جنگی طریقہ کار ہے، کیونکہ آج کے زمانے میں ایک ہی چیز کو متعدد بار اور مختلف طریقوں سے influenced کیا جاتا ہے یعنی metaphorically یہ بالکل ویسی ہی بات ہے جیسے آپ اپنے فون کی بیٹری کو مکمل طور پر استعمال کرکے چارج کرتے ہیں، اور یہاں منتر Mantra چارجر ہے جو اپنی مرضی کے واٹ کے حساب سے چارجز کو تیزی سے آگے پھیلایا جاتا ہے۔
میڈیا اور چارجر؟
جی ہاں! چاہے ہمارا نیوز میڈیا ہو، یا پھر سوشل میڈیا، دونوں ایک طرح سے ایک نارمل سے کوئک چارج چارجر کی مانند ہے، کیونکہ جس طرح ذیادہ پاور کا چارجر ذیادہ طاقت سے اپنا content کونٹینٹ یعنی چارچر کے معاملے میں چرجز اور ions جبکہ میڈیا، جس میں نیوز اور سوشل میڈیا دونوں شامل ہے، ایک طرح سے نئے پاور فل ions کی مانند ہمارے دماغوں میں نئے ions کی مانند نئی acceptance کو ہمارے لئے ضروری بنایا جارہا ہے۔
ہمارا معاشرہ
کیونکہ اگر ہم اپنے آس پاس نظر دوڑائیں جو بے صبری جس طرح امڈ کر ہمارے سامنے نمودار ہورہی ہے، اور چند nano-seconds کو بچا کر لگتا ایسا ہے جیسے کوہِ ہمالیہ کو یا تو سَر کرنا ہے، یا سَر کرلیں گے، جبکہ یہ سب مائنڈ گیم کے علاوہ کچھ نہیں، جبکہ وقت میرے لئے اور آپ کے لئے ایک ہی رفتار سے چل رہا ہے، یہ نہیں ہے کہ ایک بندہ کے لئے ایک رفتار میں وقت چل رہا ہے جبکہ دوسرے کے لئے دوڑ رہا ہے جبکہ وہی وقت تیسرے بندے کے لئے کچوے کی مانند دوڑ رہا ہے، ایسا صرف اِسی لئے ہورہا ہے کیونکہ یہ ایک طریقہ کار ہوتا ہے تاکہ سامنے والے کی attention کو divert کیا جائے، اور دوسری جانب اہمیت کو اجاگر کیا جائے تاکہ ہم اپنے ٹارگٹ کو لاک کرسکیں، کیونکہ اگر آپ نے 3 idiots فلم دیکھی ہے تو بالکل اسٹارٹ کا سین یاد کریں، جس میں چَتُرکے طریقے بتائے جارہے تھے، کہ کس طرح امتحان کو پاس کیا جاسکتا ہے، یا تو خود محنت کریں، یا پھر دوسروں کی attention کو اتنا plagiarized کردیں کہ آپ کے کم مارکس بھی ان سے اوپر رہیں، اور معذرت کے ساتھ ہم یہیں پر اپنی attention کو اِدھر اُدھر کرنے میں مشغُول رہ رہے ہیں، ہالانکہ جلد بازی کا کوئی فائدہ نہیں نہ ہی گدھوں کی طرح بھونکنے میں، کیونکہ کوئی بھی ذی الشعور انسان بِلاوجہ کسی انسان کو بیچ میں نہیں ٹوکتا ہے کیونکہ یہ ایک معیوب حرکت ہوتی ہے جس کو bifurcate کرنا اور اسکو accepted action کے تحت سمجھنا ایک وجہ بالکل ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بے صبری کا عُنصَر کو مزید عیاں کرتی ہے۔ مگر یہی چیز ہمارے معاشرے میں بگاڑ کا ذریعہ ہے کیونکہ جب ہم میں یہ ہمت نہیں کہ سامنے والے کی بات کو پورا سنیں تو ایسے میں معاشرے میں کچھ نہیں ہوسکتا، کیونکہ ایک معاشرہ صرف اسی وقت پنپ سکتا ہے جب ایکسچنج آف آیئڈیاز ہوتے ہیں ورنہ decay mechanism اسٹارٹ ہوجاتا ہے، اور اسی بناہ پر مائنڈ پروگرامنگ ذیادہ آسانی سے ہوسکتی ہے، چونکہ آپ کے اندر سامنے والے کی بات کو مکمل سننے کا حوصلہ نہیں ہوتا، تو ایسے میں اگر ہمارے بڑے بوڑھے اگر کچھ سمجھاتے بھی ہیں تو سمجھتے نہیں ہیں کیونکہ ہم سمجھنا نہیں چاہتے، مگر میں personally صرف نئے لوگوں کو blame نہیں کروں گا، بلکہ ہمارے بڑے بوڑھوں کو بھی equally ذمہ دار ٹھانوں گا، کیونکہ ہمارے آج کے بڑے بوڑھے showing off کی جانب ذیادہ راغب ہوچکے ہیں، جیسے آج کورونا آیا ہے تو فیس ماسک جس کو جنوری ۲۰۲۰ سے پہلے منہ پر لگانا گوارہ نہیں کرتے تھے، آج یعنی ۱۰ پہینے بعد اپنی ضرورت بنالی ہے، ورنہ کیا کراچی میں دھول مٹی جنوری ۲۰۲۰ سے پہلے موجود نہیں تھی؟ کیا کورونا کو ذمہ دار مان کر ہمارے کچھ بڑے بوڑھوں نے جمعہ کی نماز جس کو جنوری ۲۰۲۰ سے پہلے ہم بڑے اہتمام سے تیاری کرتے تھے، آہستہ آہستہ تکریم کھوئی جارہی ہے؟
بچے اپنے بڑوں کو follow کرتے ہیں
ہمارے بڑوں کو بھی یہ بات سمجھنی چاہئے کہ بچے ان کے ایکشن کا ری ایکشن کرتے ہیں، جو وہ آج کریں گے، وہی یہ بچے اپنی آنے والی نسلوں تک پہنچائیں گے، تو ایسے میں کیا آج ہمارے معاشرے میں جو unrest ہے، اسکے ذمہ دار ہم سب نہیں؟
اسکا بھارت چین سے کیا مقابلہ؟
بات مقابلے کی نہیں ہے، بات مائکرو اور میکرو لیول analysis کی ہے، کیونکہ مائکرو لیول یعنی میرے اور تمہارے لیول پر جو چیزیں ہورہی ہے، اسی کا رپل ایفیکٹ ripple effect ملکوں کے لیول پر دیکھ رہے ہیں، اور اگر مذہبی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ شاید وہی زمانہ ہے جہاں علم اُٹھالیا گیا ہے اور معلومات کا سمندر موجود ہے، مگر جب تک ہمارا دماغ کلئیر نہیں رہے گا، اور ذہن میں clarity موجود نہیں رہے گی، ہم چراغ تلے اندھیرے کی مانند ہی رہیں گے، یعنی چیز ہمارے سامنے ہی موجود رہے گی مگر چونکہ ہمارا زاویہ اور دیکھنے کا نظریہ ٹھیک طرف نہیں ہے، اسی لئے ہم بذات خود کنفیوژن کا شکار ہیں۔ اور اوپر چین-بھارت کا اسکرین شاٹ دینے کا مقصد یہی تھا کیونکہ ایک طرح کا زاویہ کو پراگندہ کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے، کیونکہ جب انڈیا 5th level hybrid warfare کے تحت اس طرح کنفیوژن بناتا ہے، کہ ایک ہی نیوز کو مختلف زویے سے ری لے relay کرکے لوگوں کے ذہن کو پروگرام کرتے ہیں، کیا چین، امریکہ/امریکا، روس اور دوسرے ممالک دودھ کے دھلے ہوئے ہیں؟ کیا مندرجہ بالا ممالک نے پروپگینڈہ کو بطور طاقت استعمال نہیں کیا ہے؟ کیا ٹرمپ کے الیکشن کے وقت روس نے ٹرمپ کے لئے پی آر نہیں کی تھی؟ کیا ٹرمپ کے الیکشن کے وقت لوگوں کی سوشل تفصیلات کو استعمال نہیں کیا گیا تھا جیسے پسند ناپسند اور کیا یہ کنفیوژ ووٹر ہے یا نہیں؟ کیونکہ یہاں کنفیوژ ووٹر سے مراد وہ ووٹر ہیں جنکو تھوڑی سی شہ دینے پر اپنا ذاویہ اور نظریہ بالکل تبدیل کرلیتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے ہیلری کلنٹن اور ٹرمپ کے الیکشن میں جہاں لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کیا گیا اور الیکٹورل ووٹنگ میں یک مشت ہیلری کلنٹن جیتنے کی پوزیشن سے ہارنا اسٹارٹ ہوگئیں۔
اسکا حل؟
میرے نذدیک تحقیق اسکا بہترین حل ہے، کیونکہ آج میڈیا اتنا کھل چکا ہے کہ virtually divide and rule کے نقشے پر چلا رہے ہیں، کیونکہ ہمارے نظریہ unattended رہے ہیں، ہمیں کنفرم نہیں ہے کہ کیا ضروری ہے اور کیا نہیں ہے، اور اگر کچھ ضروری بھی ہے تو کیونکر ہے اور کتنا ہے، اس کے بجائے ہم نے اپنے مائنڈ یعنی ذہن کو اوپِن رکھا ہے، جبکہ ہمیں ایک فرم اسٹانس firm stance رکھنا چاہئے، کیونکہ تحقیق کے بعد اس پر مستقل طور پر ایپلیکیشن وقت کی اور خاص طور پر اس زمانے میں اہم ضرورت ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں