Search me

We as Pakistanis are definitely hypocrites

ہوسکتا ہے کہ میں غلط ہوں، اور دعا بھی یہی کررہا ہوں، کہ جو میں سوچ رہا ہوں، وہ واقعی میں غلط ہوں کیونکہ پاکستانی ہونے کے ناطے ہمارے لئے شرم کا مقام ہے۔

میں ایسا کیونکر کہہ رہا ہوں؟


ِیہ ویڈیو ڈالنے کا مقصد یہی ہے کہ کسی قوم کا رہن سہن دیکھنا ہے کہ وہ واقعی میں کوئی قوم ہے یا ریوڑ یا پھر ہجوم، تو ان کا ٹریفک دیکھیں، مگر معذرت کے ساتھ، ہمارے پاس بلا وجہ کا مقابلہ بازی، بے فضول کا، کیونکہ ہم سب میں ایک احساسِ کمتری کا عنصر بالکل موجود ہے، جہاں ہم اس کو اپنی شان (جو کہ بالکل موجود نہیں) مگر اپنی جھوٹی شان دکھانے سے کس چیز کا سکون مل رہا ہوتا ہے؟ اگر ان جاہلوں کی منطق استعمال کروں تو یہ بات مانتے ہوئے شرم آرہی ہے کہ ہم پاکستانیوں میں اتنا اتاولا پن اور احساس کمتری آچکی ہے، کہ attention seeking کے چکر میں اس چیز کا بھی خیال نہین کہ پاکستان کا کیسا image ہم بحیثیت پاکستانی دکھا رہے ہیں، ہمارے اندر سے اس چیز کا احساس یکثر ختم ہوچکا ہے کہ ہمارے اس (مندرجہ بالا ویڈیو میں) ایکشن سے دنیا میں پاکستان کا کیا نقشہ دکھا رہے ہیں۔

میں اصل میں اس آرٹیکل کے لئے ہماری عوام کی جہالت جہاں ایک امریکی ولوگر جو ذینب مارکٹ، جس کو کراچی کی ایک بڑی مارکٹ تصور کی جاتی ہے، وہاں آیا تھا، اور وہاں ایک دکاندار نے اس کو دہشتگرد کہا، بےشک امریکی حکومت نے پاکستان کے ساتھ اچھا نہیں کیا، مگر کیا مسلمان ہونے کے ناطے یہ چیز سوٹ کرتی ہے، کہ اس طرح کی گدھا کاری کریں؟ یہاں ہمیں پاکستان کو پروموٹ کرنا ہے یا پھر اپنی انا کی تسکین کرانی ہے؟

پس پردہ تصویر اس چیز کی عکاسی ہے کہ گدھا کاری کی وجہ


اور ملکی مفاد کو اہمیت نہیں دینے کی وجہ سے پاکستان کا یہ image اب دنیا میں بن چکا ہے، جبکہ بھارت میں جہاں کا روپیہ پاکستان روپے کے مقابلے میں گئی گزری قرار دی گئی ہے، مگر مجھے یہ سرچ ریزلٹ ڈھونڈنے میں اتنی محنت کرنی پڑی، اس کے برعکس اوپر والی سرچ ریزلٹ مجھے پہلی کوشش میں ہی دکھائی دی، صرف ہماری گدھا کاری کی وجہ سے، کیونکہ ہمیں صرف اپنی بھڑاس نکالنے کی جلدی ہوتی ہے، بھڑاس نکالنی بھی ہے تو کم سے کم انسانوں کی طرح تو نکالو، یہ گدھا کاری کی کیا ضرورت؟
اب یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد ہمیں احساس ہوجانا چاہئے کہ ان سیاسی جماعتوں نے کس طرح ہمیں استعمال کیا ہے، بجائے اسکے کہ ہم ان سے سوال کرتے کہ ہمارے ٹیکس کی پیسوں کا استعمال کہاں کیا ہے، کیونکہ یہاں مسئلہ accountability کا ہے، کیونکہ نہ کوئی پوچھ گچھ ہے، نہ سزا کا ڈر، مگر جیسے اللہ تعالی نے فرمایا ہے جس کا مفہوم یہی ہے کہ جیسی عوام ہوگی، ویسے ہی حکمران ہم پر موجود ہوں گے، اور فرق صاف ظاہر ہے۔

سیاسی جماعتوں کو لگام لگائیں

یہ مادر پدر آزادی صرف پاکستان میں حاصل ہے کہ پاکستان کی سڑکوں کو پولیٹکل پارٹیز کے بینرز سے گندا کرکے اپنی سیاسی طاقت دکھانے کا موقع مل جاتا ہے، مگر ایسے میں پاکستان کہاں ہے؟ مجھے ان سیاسی جماعتوں سے یہی سوال ہے کہ اس جمہوریت کا فائدہ کیا ہے جب آپ جمہوریت کی آڑ میں اندرون ملک سے لوگوں کو لا کر کراچی میں بسا رہے ہیں، مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں کہ کیوں آرہے ہیں، مگر سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ان لوگوں کو کراچی میں لاکر بسایا جارہا ہے، جس پر ان لوگوں کی سپورٹ پر یہ تارکین ان کے لئے ووٹ بینک اور پاکستان کے لئے liability بنتے ہیں، اسی لئے اس آرٹیکل کے بالکل شروع میں میں نے ہجوم کا لفظ استعمال کیا تھا، وہ بھی وہ والا ہجوم جو لائٹ کے پیچھے بھاگنے کا شوقین ہے، اور یہ سیاسی جماعتیں اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو لائٹ دکھائی ہے، اور حسبِ عادت ہم لوگ ان کی لائٹ کے پیچھے لائن لگائی ہوئی ہے، میں یہاں کسی خاص سیاسی جماعت کی بات نہیں کررہا ہوں، تمام سیاسی جماعتوں نے یہی روش رکھی ہوئی ہے، کیونکہ ہم بجائے اسکے کہ کراس چیک کریں، رٹہ بازی یعنی شارٹ کٹ کی جانب چل دئے، جس کا نتیجہ آج ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ یہ سب جمہوریت کی بدولت ہمیں تحفے مِل رہے ہیں، کیونکہ جمہوریت میں Might is right کا concept ہے، یعنی majority کی بات مانی جائے، اور اسی وجہ سے یہ سیاسی جماعتیں کراچی میں بجائے Co-Curriculum Activities کے لئے مختص جگہ کو اپنی سیاسی جماعتوں کے لئے استعمال کرے، اور عوام نے ان لوگوں کو سپورٹ کیا، جو کہ شعور کی کمی کا خمیازہ ہے، کیونکہ اگر یہ لوگ جو ٹرک کی لائٹ کے پیچھے لگتے ہوئے کراچی نہیں آتے، تو ان سیاسی جماعتوں کو کراچی میں سپورٹ نہیں ملتی صرف جمہوریت کی وجہ سے ان لوگوں کو یہاں سپورٹ ملی، یعنی یہ قوم جمہوریت کے قابل نہیں، خود دیکھ لیں، مشرف کا دور جیسا بھی تھا، Post-Musharraf ادوار سے کافی بہتر تھا، کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں پانچ سال عوام کے بہبود کے لئے کچھ کرنے کے بجائے (ٹیسٹ میچ کرکٹ میں جب میچ کو ڈرا کرنا ہوتاہے) ٹھیک اسی طرح، اپنے پانچ سال پورے کئے، شور ہنگامے کئے مگر جو کام سب سے اہم تھا، یعنی عوام کی فلاح، وہی نہیں کیا، کیونکہ جمہوریت کی وجہ سے ان کی mass majority کراچی میں موجود ہے، اور majority کی بنیاد پر کوئی ان سیاسی جماعتوں کو کچھ نہیں کہہ سکتا، اور اس پر سونے پہ سہاگہ، ہماری عوام ان لوگوں کو سپورٹ کرتی ہے، جو کہ شعور کی کمی کی عکاس ہے۔

ویسے بھی پاکستان کی سڑکوں پر پاکستان کے جھنڈے لگے ہوئے ہونا چاہئے نہ کہ ان سیاسی جماعتوں کے

ویسے بھی بیرون ملک آپ یہ سب کچھ نہیں کرسکتے جو ہمیں پاکستان میں آزادی ہے، کیونکہ دوسرے ملک میں آپ کو ملکی مفاد کا خیال رکھنا ہوتا ہے، اور اس پر یہ کہ وہاں قانون سیاسی جماعتوں کے ماتحت نہیں ہوتی، مگر معذرت کے ساتھ، پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے یہ سب ڈپارٹمنٹ حکومت کے ماتحت ہوچکی ہیں، جس کی وجہ سے یہ ڈپارٹمنٹ حکومت کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں، کہ حکومتی مشینری کیسے استعمال ہوتی ہے۔ 

پاکستانی مفاد 

ہمیں پاکستانی مفاد اور ترجیحات کو دیکھنا چاہئے نہ کہ رٹہ مارو اور سڑک پر نکل جاؤ، جو کہ آج کل پاکستان میں ہورہا ہے، جہاں گدھوں کو گاڑیاں ملی ہوئی ہیں اور چلانے کا ڈھنگ نہیں، حالانکہ پاکستان میں opportunity بے حساب ہے، مگر دیکھنے والی نظر ہونی چاہئے۔ کیونکہ entertainment deprived society میں ہم رہ رہے ہیں، تو ایسے میں ہمارے معاشرے میں گھومنے پھرنے اور دلچسپی کے پوائنٹ ہونے چاہئے تھے جو کہ نہ ہونے کے برابر رہ چکے ہیں، کیونکہ ہماری ترجیحات میں پاکستان اور معاشرے کے لئے سوچ نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے برعکس ہم نے یہی سوچا ہوا ہے کہ بیرون ملک محنت کرلیں گے مگر پاکستان میں اس کا 0.01% بھی نہیں کریں گے، کیونکہ ہمارے لئے پاکستان کوئی معنی نہیں رکھتا، نہ ہی معاشرے میں موجود لوگ، جبکہ
ہمارا مذہب بھی اس چیز کو پسند نہیں کرتا، کیونکہ ہمارے نذدیک یہ بات بھی ہے کہ اپنے گھر والوں کے بعد محلے اور پڑوسی کے حقوق ہیں، مگر آج کے زمانے میں ہم نے ان سب چیزوں کو یکثر فراموش کردیا ہے، مگر اپنے مطلب کے لئے مذہب کو بالکل استعمال کرنا ہے، تو یقیناً ہم پاکستانیوں سے بڑا کوئی منافق نہیں، مسئلہ پاکستان میں نہیں، مسئلہ ہم لوگوں میں ہے، مگر چونکہ ہمیں اپنی غلطیاں دکھائی نہیں دیتی ہیں، تو ایسے میں یہ بات بھی flushed down the gutter۔

Pakistan currency and its symbol

خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور یہ چیز آج prove کرتی ہے

 کیونکہ جس طرح جنرل بیپن راوت نے یہ بات کہی تھی کہ ہم کشمیریوں کا ڈی این اے تبدیل کریں گے، اور ۲۷ فروری کو ہاٹ لائن پر یہ بات کہی گئی کہ ان کو رستے سے ہٹاؤ ورنہ یہ ہمارے نشانے پر ہیں، آج ان کا انتم سنسکار ہوا ہے۔

مسلمان ہونے کے ناطے مجھے ایسا نہیں کہنا چاہئے

مگر اس طرح کے لوگ اور دیسی لبرلز جن کو یہ دکھائی دے رہا تھا کہ فیصل آباد میں عورتوں کو مبینہ طور پر برہنہ کیا گیا، حالانکہ اگر آپ اپنے آپ کو لبرل کہتے ہو، تو آپ کو کسی بھی بات کو کراس چیک کرنا چاہئے، ایسی کوئی بات کسی تصدیق کے نہیں کرنی چاہئے تھی کہ یہ ٹھیک نہیں ہوا، میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ ٹھیک بالکل نہیں ہوا، مگر ایک ٹرم جو ہم نے ہالی ووڈ سے adopt کی ہے، Cause and Effect، یعنی جو ایکشن آپ کرتے ہیں، اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں، اس کے بارے میں خیال رکھنا I guess لبرلز کی خصلت ہوتی ہے، نہ کہ یہ کہ جس ملک میں آپ رہ رہے ہیں اس میں کوئی contribution نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ اگر آپ لبرل ہیں، تو جس طرح ہہ لبرل ازم آپ لوگوں نے مائنڈ پروگرامنگ کے ذریعے سے سرعیت کی ہے، اس کا صرف ۱ فیصد اگرچہ لوگوں میں اس چیز کا شعور ڈالنے میں لگاتے کہ ٹیکس کے پیسوں کو کیسے utilize کریں، اس کا سوال کرنا سکھاتے کہ ہم ٹیکس کا پیسہ دے رہے ہیں تو اس کا فائدہ کیا مل رہا ہے، کیا یہ چیز آپ لبرلز کی ہے؟

میں لبرل نہیں

کیونکہ کم سے کم میں آپ لوگوں کی طرح منافق نہیں ہوں، خاص طور پر آپ لوگ اور ہمارے ـمعزز میڈیا والےـ کیونکہ اگر آپ کیپشن کو پڑھیں تو کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ ڈیفینیشن ہمارے میڈیا گروپ والوں پر بالکل ٹھیک بیٹھتی؟ کیا ہمارا میڈیا دنیا میں ہمیں یہ show نہیں کراتا کہ ہم (پاکستانی) دنیا کے نقشے پر بدنما داغ ہیں، اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ ہمیں یہ بھی show کیا جاتا ہے کہ ان کا معاشرہ سب سے بہترین ہے، جبکہ خود بتائیں، مجھے یہ بات یہاں لکھنی چاہئے یا نہیں مگر اب جب کھل کر بات کرنی ہے تو ایسا ہی صحیح، مگر ان کے معاشرے میں ۱۸ سال کی عمر میں اگر کوئی لڑکی کنواری رہتی ہے تو اس لڑکی کو کیا کیا القابات سے نوازا جاتا ہے، الامان الخر، بلکہ ان کے معاشرے میں یہ نارمل بات ہے کہ ۱۸ویں سالگرہ تک اپنی کنوارا پن سے جان چھوڑے، اور آپ لبرلز یہ کہہ رہے ہو کہ ہم پیک ورڈ ہیں اور ہمیں اپنی معاشرتی اقدار کو چھوڑ کر ان کو اپنانا چاہئے، جو کہ ویسے بھی بحری قذاقوں کی اولادوں میں سے ہیں، میں مانتا ہوں، غلطیاں ہماری بھی ہیں، مگر یہ بتائیں کہ کیا اس چیز کی آزادی آپ کو انڈیا میں ملے گی، جو آپ کو پاکستان میں مل رہی ہے کہ جو منہ میں آئے بھونک دو؟ انسانوں کا کام گفتگو کرنا ہوتا ہے، بھونکنا نہیں، آپ سے گزارش یہی ہے کہ براہ مہربانی جتنی energy بھونکنے میں لگاتے ہیں، اس کا ایک فیصد (پھر سے) استعمال کرلیتے تو کم سے کم اور کسی نہ کسی حد تک انسان لگتے، اور انسان کبھی منافق نہیں ہوتا ہے، منافقت غیر انسانی فطرت ہے، اور اس معاملے میں شیطانی عمل ہے، کیونکہ انسان دوست ہوتا ہے، اور دوستی و منافقت میں کوئی relation نہیں تو ایسے میں اگرچہ آپ اور ہمارا میڈیا کسی منافق سے کم نہیں۔

جس طرح فیصل آباد کو میڈیا والوں نے ٹرینڈ کیا 

اور ثالث کا کردار ادا کیا، اس سے بڑی منافقت کوئی نہیں ہے، کیونکہ مجھے یاد ہے جب سری لنکن مینیجر والا واقعہ ہوا تھا، تو ایسے میں پہلے میڈیا والوں نے بجائے constructively چیزوں کو tackle کرنے کے بجائے یعنی لوگوں کو گائڈ کرنا کہ کسی بھی معاملے میں اس طرح کا بیان دینا وہ بھی اس وقت جب prove نہیں ہوا کہ واقعی میں گستاخی ہوئی تھی یا نہیں، کیونکہ ہمارے پاس کے لوگوں میں (ہر ایک میں نہیں) مگر یہ عادت ہے کہ کوئی benefit مل رہا ہوتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ میرے ساتھی کو بھی اس میں سے کچھ مل جائے، بلکہ اب سوچ یہ ہوتی ہے کہ اس کو ملے نہ ملے، اس کا بھی مجھے مل جائے، ہمارے ٹریفک کا حال ہی دیکھ لیں، میں صفحوں کو مزید گندا نہیں کرنا چاہتا کہ ہم سب نے دیکھا ہے کہ ایک گاڑی کس طرح لائن کی پاسداری کرتی ہے، اور ٹریفک سگنل کے کتنے آگے کھڑی ہوتی، بجائے اسکے کے تھوڑا انتظار کرلے، گاڑی گزرے گی تو اس کے پیچھے گیپ میں نکلے، مگر ہمیں یہ عادت ہے کہ میں پہلے نکل جاؤں، اور انتظار کرنا میری شان کے خلاف ہے، 

مسئلہ ہم میں ہی ہے

بے شک میں لبرل نہیں مگر بات یہی ہے کہ جس طرح کے نفسا نفسی کے دور میں ہم موجود ہیں، ایسے میں ہم نے تحقیق اور کراس چیکنگ کا عنصر بھی اپنے اندر سے یکسر ختم کردیا ہے، ورنہ جن کو کلمہ پڑھنا، اس کا مفہوم اور مطلب نہیں آتا، چلو یہ تو بہت بڑی بات کررہا ہوں، شعور نہیں ہو، ان کے منہ سے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ ہم نے ناموسِ رسالت ﷺ کا خیال کیا ہے، جبکہ ہمارے مذہب میں ایسا کوئی concept نہیں ہے، 

مسجدِ نبوی ﷺ میں رفع حاجت والے واقعہ کی مثال

جہاں ایک کمزور دماغ والا بندہ غلطی سے مسجد نبوی میں پیشاب کردیتا ہے، ایسا کوئی واقعہ اگر چہ آج ہوجاتا، تو اس بندے کا بالکل اس سری لنکن منیجر کی طرح نام و نشان موجود نہیں رہتا کیونکہ ہم نے لکھنا پڑھنا اور اس کے ساتھ لکھنے پڑھنے کا شعور اپنے اندر سے بالکل ختم کردیا ہے، جبکہ آپ ﷺ نے اس وقت یہ عمل نہ صرف کرنے دیا بلکہ بعد از خود ڈول کے ذریعے پانی بہا کر جگہ صاف کردی، جس کی بدولت آپ ﷺ کے رویے سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا، ہمارے بڑوں نے اپنا رویہ کس پائے پر رکھا، اور یہاں ہم نے اپنے آپ کو حیوانیت کے دلدل میں ڈال دیا ہے۔

دشمن کے پلان میں ایندھن بننے میں ہمیں کیا اچھا لگتا ہے؟

اوپر جب میں نے جنرل بیپن راوت کا زکر کیا تو یہ کہا کہ کشمیریوں کا ڈی این اے تبدیل کریں گے، ایسا کرنے کے لئے ان کو اندر کے بھیدی چاہئے ہوتے ہیں، اور یہ ہمارے پاس کے لوگوں کی کمزوری ہے، تعلیم ہونا نہ ہونا کوئی criteria نہیں، مگر اصل بات یہی ہے کہ بندے کے اندر شعور ہونا چاہئے کہ اگر اس طریقے سے پیسے کما بھی لے گا، تو کیا وہ آزادی اس کو میسر رہے گی جو روکھی سوکھی کھا کر اس کو میسر ہوتی ہے؟ یہ بات شعور کی ہوتی ہے۔ کیونکہ فیصل آباد کے واقعے میں مجھے صاف طور پر یہ لگا کہ ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ کیسے ان کے اس ایکشن کو دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف نہ صرف استعمال کریں گے، بلکہ ان کی اپنی individuality اور respect ختم ہوچکی ہے، بلکہ ان کے اس ایکشن کی وجہ سے عورت زات کی عزت ہمارے معاشرے سے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس کی ایک مثال مذہب سے دوری بھی ہے

کیونکہ یہ دونوں واقعات لبرلز کو ایک موقع دینے کے برابر ہے جہاں ridiculing the religion and faith and beliefs ان لوگوں کا مین اور کور پروگرام ہوتا ہے، keeping in mind آج کے زمانے میں معلومات کا زخیرہ ہے جبکہ علم اٹھا لیا گیا ہے، کیونکہ معلومات ایک حیوان کو بھی ہوتی ہے مگر اس کو استعمال کرنے کا ڈھنگ ہمیں علم فراہم کرتا ہے، تو آپ خود بتائیں، اس مینجر کی لاش کے ساتھ بے حرمتی کرتے ہوئے لبیک یا رسول اللہ بولتے ہوئے آپ نے blasphemy نہیں کی؟ جبکہ آپ منافق بھی ہو، مذہب کی مانتے بالکل نہیں ہو، مگر جہاں اپنی بات آجائے، مذہب میں اپنی مطلب کی شق کو اپنے حساب سے استعمال کرنا از خود منافقت نہیں؟ جبکہ بقول سی سی ٹی وی، اس کو اردو اور عربی نہیں پڑھنی آتی تھی، تو ایسے میں it was unintentional اور جب اس کو پتا چلا کہ اس سے یہ حرکت ہوئی ہے، تو اس نے معافی بھی مانگی، مگر منافقت یہی ہے کہ اپنے personal scores کو settle کرنے کے لئے اسلام اور پاکستان کی دھجیاں بکھیرنے میں ہم لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔

اب دیکھیں ہمارے خلاف کیا ٹرینڈ چل رہا ہے

ہم نے لوگوں کو کیا موقع دے دیا ہے کہ ابھی ہم رو رہے ہوتے ہیں کہ نوکریاں نہیں ہیں، جبکہ ہمارے آج کے ایکشن سے آنے والے وقت کی نوکریاں بھی کھا چکے ہیں۔

https://twitter.com/hashtag/withdrawgspplusfrompak?src=hashtag_click

Another perspective of Faisalabad incident, can't deny foreign involvement

سزا کا خوف

مستیگو فوبیا سزا کا غیر معقول خوف ہے۔ اس حالت میں مبتلا کوئی شخص جب محض سزا کے بارے میں سوچتا ہے تو وہ بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنے کی توقع کر سکتا ہے۔ کچھ انتہائی صورتوں میں، ان کی بے چینی اتنی شدید اور دخل اندازی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے ماسٹیگو فوبیا کے نتیجے میں مکمل طور پر گھبراہٹ کے حملے بھی برداشت کر سکتے ہیں۔ تاہم، یہ شخص سے دوسرے شخص میں مختلف ہوگا، ساتھ ہی ساتھ ان کا مستیگوفوبیا کتنا شدید ہے۔ اگر کسی کو اپنے ماسٹیگو فوبیا کی وجہ سے گھبراہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو وہ دیگر علامات کے علاوہ دل کی دھڑکن میں اضافہ، بلڈ پریشر میں اضافہ، سانس لینے کی بڑھتی ہوئی شرح، پٹھوں میں تناؤ، لرزش، اور ضرورت سے زیادہ پسینہ آنے کی توقع کر سکتے ہیں۔

اس حالت میں مبتلا کوئی شخص انتہائی غیرمعمولی حالات میں بھی صحیح کام کرنے کی حد سے زیادہ فکر مند ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، یہ تصور کرنا قابل فہم ہے کہ مستیگو فوبیا میں مبتلا کوئی شخص اس خوف سے زمین پر ایک چوتھائی اٹھانے کے خلاف محسوس کر سکتا ہے کہ وہ اسے چوری کر رہے ہیں، جو اس کے بعد کسی قسم کی سزا کے ساتھ آئے گا۔ بنیادی طور پر، کوئی بھی ایسا عمل جس میں سزاؤں کا امکان ہو، مستیگوفوبیا کے شکار کسی کو بے چینی کی بہت زیادہ آمد دے سکتی ہے۔

مستیگوفوبیا کی علامات

جیسا کہ تقریباً ہر دوسرے فوبیا کا معاملہ ہے جو موجود ہے، ماسٹیگو فوبیا کا شکار کوئی شخص اپنی حالت کی سب سے زیادہ عام علامات میں سے ایک پریشانی ہونے کی توقع کر سکتا ہے۔ سزا کا ان کا شدید اور غیر معقول خوف ممکنہ طور پر ان کی روزمرہ کی زندگی میں بہت زیادہ پریشانی کا باعث بنے گا کیونکہ وہ ایسے فیصلے کر سکتے ہیں جو مکمل طور پر ان کے مستی گو فوبیا پر مبنی ہوں۔ اس طرح کے فیصلوں میں ان کا اخلاقی طور پر فالج تک ہوش میں رہنا شامل ہو سکتا ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ کسی بھی نتائج کا سامنا کرنے کے خوف کی وجہ سے فیصلے کرنے سے گریز کر سکتے ہیں، چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔

اگرچہ مستیگوفوبیا میں مبتلا کوئی شخص فیصلہ کرنے سے گریز کرتے وقت یا کام کرنے سے گریز کرتے وقت کم شدید اضطراب کا سامنا کرنے کی توقع کر سکتا ہے، لیکن اس طرح کی حرکتیں یا بے عملی طویل مدت میں ان کے مستیگو فوبیا کو مزید خراب کرنے کا امکان ہے۔ اس کا تعلق اس حقیقت سے ہے کہ سزا کے خوف سے بچنے کے لیے فعال طور پر ایسے حالات سے گریز کرتے ہوئے جہاں سزائیں ممکن ہوں گی، اس کے بعد وہ اپنے آپ کو سزا کے خوف کو تقویت دے رہے ہوں گے، یقیناً غیر ارادی طور پر۔

ذیل میں، آپ کو اس فوبیا کی کچھ اور عام علامات نظر آئیں گی:

  • سزا کے بارے میں سوچتے وقت پریشانی
  • جب سزا دی جائے تو شدید بے چینی
  • فیصلے کرنے میں دشواری جہاں تک اس کا تعلق ممکنہ سزا سے ہے جس کا وہ تجربہ کر سکتے ہیں۔
  • ان کی پریشانی کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔
  • پٹھوں میں تناؤ، لرزش، اور پسینہ آنا۔
  • گھبراہٹ کے حملوں کا تجربہ کر سکتا ہے

ماسٹیگوفوبیا کی وجوہات

ماسٹیگوفوبیا کی کوئی معروف وجوہات نہیں ہیں۔ چاہے جیسا بھی ہو، جینیات اور کسی کا ماحول دونوں ہی کسی بھی ذہنی عارضے کی نشوونما میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، بشمول ماسٹیگو فوبیا۔ مثال کے طور پر، دماغی بیماری کی خاندانی تاریخ رکھنے والے شخص کو مستیگوفوبیا ہونے کا زیادہ امکان ہو سکتا ہے۔ یہ ان کی وجہ سے ہو سکتا ہے پھر جن کے جینیاتی طور پر عام طور پر ذہنی بیماری پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

اگر کسی کے پاس ایسا جینیاتی رجحان ہوتا ہے، تو یہ صرف انہیں کسی قسم کے تکلیف دہ واقعے کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ مکمل طور پر تیار شدہ مستیگوفوبیا پیدا کریں۔ مثال کے طور پر، کوئی شخص اپنے ماضی میں ایک بار انتہائی وحشیانہ سزا کو برداشت کرنے کے نتیجے میں ماسٹیگو فوبیا پیدا کر سکتا ہے، جس سے وہ جسمانی یا نفسیاتی طور پر زخمی ہو جاتا ہے۔ ایسے شدید تجربات، صحیح جینیات کے ساتھ، کسی کے لیے سزا کا غیر معقول خوف پیدا کرنے کے لیے کافی ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسا خوف غیر معقول ہے، جب انہیں سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا سزا کے بارے میں سوچتے ہیں، تو وہ اس قدر عملی نہیں ہوں گے۔

اگرچہ ہم ماسٹیگوفوبیا کی صحیح وجوہات نہیں جانتے ہیں، لیکن زیادہ تر ذہنی صحت کے پیشہ ور افراد کے درمیان اتفاق رائے یہ ہے کہ جینیات اور کسی کا ماحول دونوں عملی طور پر کسی بھی ذہنی بیماری کی نشوونما میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لہذا، ان دو مختلف پیرامیٹرز پر گہری نظر ڈالنا فائدہ مند ہو سکتا ہے کیونکہ وہ کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں کہ آیا آپ کو ماسٹیگو فوبیا پیدا ہونے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے یا نہیں۔

مگر پاکستان کے کیس میں

سزا کا خوف ہونا ضروری ہے کیونکہ لنچنگ

(of a mob) kill (someone), especially by hanging, for an alleged offense with or without a legal trial.
her father had been lynched for a crime he didn't commit

اور اس طرح کا رویہ پاکستان میں کسی بھی طرح سے برداشت کرنا اس کو بڑھاوے کے مترادف سمجھنا چاہئے، کیونکہ ہم نے already پڑوسی ملک کو موقع دے دیا ہے کہ ان چند لوگوں کی وجہ سے پورے پاکستان کو ظالم بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔

مگر ہمیں احساس نہیں ہے کہ پاکستان کے رتبے کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا ہے، میں اپنا ذاتی پوائینٹ آف ویو بتاؤں تو میری پچھلی برانچ میں ایک بندا عمران خان کے خلاف رہتا تھا، میں پہلے اس بات کو نفی میں claim کردوں کہ میں نہ ہی کوئی یوتھیا ہوں، بلکہ اکانومی کا مسئلہ کا سب سے بڑا شکار میں خود ہوں،مگر جس طرح وہ نواز لیگ کا حامی رہتا تھا، اور اس کو ایسا represent کرتا تھا کہ جیسے ہمارا savior  ہے، مگر اس بات کا جواب نہیں ہوتا تھا، کہ پاکستان کی رقم جو وہ لندن اور پانامہ میں لے کر گیا ہے، کیا اس کا جوابدہ بھی عمران خان ہے؟ کیا ہمارے اوپر عمران خان ٹیکس اپلائی کرنے کے بجائے اگر یہ رقم واپس لاتا تو کیا ہمیں ریلیف نہیں ملتا؟ کیا Post-Covid-Scenarios میں دنیا بالکل ویسی ہی ہے economic wise جیسے Covid-19 سے پہلے تھی؟ مگر اس کا ان سب چیزوں میں صرف اور صرف یہی جواب ہوتا تھا، کہ صاحب، ہمیں شکر سستی ملتی تھی، نواز شریف ہمیں سستا چاول اور شکر دیتا تھا، میں مانتا ہوں کہ ان سب چیزوں کو قوی طور پر نظر انداز کرنا واقعی میں صحییح بات نہیں ہوگی، اس کی بات میں بالکل سچائی ہے، کیونکہ انسان محنت صرف پیٹ کی پوچا پاٹ کے لئے ہی کرتا ہے، مگر میرا یہ سوال ہوتا تھا کہ کیا پیٹ کی پوجا پاٹ میں ہمیں پاکستان کو یکثر نظر انداز کرلینا چاہئے؟ اس کا جواب اس کے پاس بالکل نہیں ہوتا تھا، اور جیسا کہ آپ نے بھی اندازہ بخوبی لگا لیا ہوگا کہ اپنے آپ کو صحیح پیش کرنے کے لئے کیا، کیا حرکتیں پیش کرتا تھا، کیونکہ میں جیسے اپنے پچھلے بلاگ آرٹیکل میں لکھا بھی ہے کہ یہ سب کچھ احساس کمتری کا مظاہرہ ہے، کیونکہ انا پسند وہی بندہ ہوتا ہے جس کے پاس پوائینٹ پر بات کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے، مگر اول فول بکواس کرکے ٹائم سب کا ضائع کرتا ہے اور ضائع کرنے کو بحث کہہ کر بحث بازی کی بے عزتی کرنے میں ان لوگوں کو کوئی عار نہیں۔

اس وقت کا اصل مسئلہ

مگر نیوٹرل ہونے کے ناطے میں یہ بات تصدیق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت پاکستان کو جو سب سے بڑا مسئلہ ہے، اس میں یکم نواز شریف لیگ ہے، دوم انڈیا کی پروپگینڈہ مشین ہے، اور سوم عمران خان کی incapable اور incompetent ٹیم۔

Nipping in the bud

ایک ٹرم استعمال کی جاتی ہے، nip in the bud ، تو ان سب چیزوں کو ختم کرنا ہے تو پہلے انڈیا کی فنڈنگ کو پاکستان میں روکا جائے، کیونکہ 5th generation warfare میں سب سے ذیادہ کمال یہی ہے کہ کمال طریقے سے شطرنج کے پانسوں میں اپنے پیادوں کو خود سے deploy کرتے ہیں، یہاں deploy کرنے سے مراد مائینڈ پروگرامنگ ہے، جہاں پہلے جو چیز ہمارے لئے accepted بالکل نہیں تھی، اب ہمارے لئے بالاخر accepted کرائی جارہی ہے، اور میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ ہم اسی وجہ سے ان سب خرافات میں پڑھ رہے ہیں، کیونکہ کتابوں اور E-Books سے دوستی ختم کردی ہے، اور جیسے میں نے پہلے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ایک چیز ہوتی ہے کراس چیک کرنا، وہ ہم نے ماضی کی بھولی بسری یاد بنا کر پرانی دوات کی مانند unimportant بنادیا ہے، کراس چیکنگ کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ آپ کے پاس معلومات موجود ہو، اور معلومات کو کیسے استعمال کرنا ہے، اس کے لئے آپ کے پاس علم ہونا چاہئے، اور مجھے یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ تحقیقی مواد یعنی کتابیں یا پھر ای کتابیں ہونی چاہئے، یہ ساری باتیں شعور سے متعلق ہوتی ہیں، تعلیم ہو یا نہ ہو، مگر شعور ہونا الگ چیز ہونی چاہئے، پہلے زمانے میں لوگوں کے پاس تعلیم انٹر ہوتی تھی مگر شعور ہوتا تھا، آج ڈبل ایم بی اے ہیں، ایم فِل ہیں، مگر کیا اس لیول کا شعور ہے کہ اس چیز کی intensity کو سمجھیں کہ ہمارے ایک ایکشن سے دشمن کیسے فائدہ اٹھا رہا ہے؟ میرے نذدیک دشمن کو فائدہ پہنچانے کا مطلب یہی ہے کہ آپ دشمن کے آلأ کار بنے ہو جو کہ از خود نشانی ہے کہ ہم پاکستانیوں میں شعور کی کتنی کمی ہے! آپ کو احساس ہی نہیں ہے کہ آپ کے ایک ایکشن سے دنیا بھر میں موجود پاکستانی جہاں، جہاں موجود ہیں، کس کس مشکل صورتحال کو face کررہے ہوں گے، کیونکہ (دوبارہ کہہ رہا ہوں، اور متعدد بار کہوں گا) کہ ہم میں ملکی شعور کی کمی ہے۔

اس واقعے کی سی سی ٹی وی ویڈیو سے میں کیا سمجھا ہوں

اتنی ہولناک ویڈیو ہے، دیکھ کر پہلے تو مجھے پریشانی ہوئی کہ کیا میں کوئی زومبی کی مووی دیکھ رہا ہوں، کیونکہ یہ حیوانیت سے آگے کا لیول تھا، مگر اگر میں ویڈیو کے crux پر آؤں تو صاف لگ رہا تھا، کہ چونکہ راجکو انڈسٹری کو ہیوگو باس اور جرمن فٹبال ٹیم کا کنٹریکٹ ملا تھا، اس کی بنیاد پر وہاں کے correspondents پاکستان ان کی فیکٹری میں آرہے تھے، تو اس کی تیاری کے لئے وہاں پینٹ اور پالشنگ ہورہی تھی، اس طرح کی صورتحال اگر ہمارے گھروں میں بھی ہوتی ہے جہاں گھر میں پالش اور پینٹ کا کام ہورہا ہوتا ہے تو اس طرح کے اسٹیکر کو ہٹا دیا جاتا ہے، مگر صرف کام نہیں کرنے کے سو بہانے، اگر آپ اوپر والے پیراگراف پر جائیں جو آفس میں کام کرنے والے کی بات کی، جو نماز کو کام نہیں کرنے کے لئے استعمال کرتا تھا، ٹھیک اسی طرح یہاں بھی دکھائی دیا ہے کہ اسٹیکر کو اتار کر ڈسٹ بن کرنے پر یہ لوگ مشتعل ہوئے، جو کہ کوئی وجہ نہیں تھی، کیونکہ پہلی بات یہ تحریک لبیک پاکستان کا اسٹیکر تھا، اس پر اگر کوئی عبارت لکھی ہوئی بھی تھی، تو پہلے جب اس سری لنکن مینیجر نے کہا تو کیوں نہیں کیا؟

کیا اسلام اس چیز کی اجازت دیتا ہے؟

میں اپنے آپ کو اسلام کا سوداگر نہ ہی سمجھتا ہوں نہ سمجھنا چاہتا ہوں، مگر جتنی میری ناقص معلومات ہے اس کے مطابق یہ سب کچھ اسلام میں کہیں بھی موجود نہیں، اسلام تو وہ مذہب ہے، جہاں سب عورت کو نجاست کی علامت سمجھا جاتا تھا، تو ان کے ساتھ سب سے پہلے شفقت اس مذہب میں پیش کیا گیا اور ان کی عزت دی گئی، تو کیا یہ مذہب اس چیز کی اجازت دیگا کہ زندہ درگور کریں؟ کسی زندہ شخص کو اس طرح سے اذیت دیں کہ مرنے کے بعد اس شخص کی روح اپنی لاش کو دیکھ کر گھبرا جائے اور خدا سے التجا کرے کہ یہ سب کچھ مجھے کیونکر دیکھایا ہے؟

کیا یہ لوگ بھول گئے ہیں؟

کہ بحیثیت مسلمان ہمیں کہیں سے بھی یہ حق نہیں ہے کہ ہم جج بنیں، تو کس معاملے میں ہم نے ایسی حرکت کی، کیا سوچ کر نہ صرف ایسی حرکت کی بلکہ وہ بندہ جو غیر ملکی ہونے کو باوجود پاکستان کے لئے سوچ رہا تھا (بے شک تنخواہ لے رہا تھا) کہ غیرملکی کلائنٹ آئیں گے تو ان کے لئے ہماری  vicinity اچھی دیکھائی دینی چاہئے، اگر وہ شخص اس چیز کی ذیمانڈ کر بھی رہا تھا، تو اس میں کیا غلط تھاَ؟ کیا یہ بات blasphemy میں نہیں آتی جہاں مذہب کو کام نہیں کرنے کے حیلے بحانے کے طور پر mock کرکے مذہب کا مذاق آراتے ہیں؟ کیا یہ مذہب کے ساتھ itself مذاق کرنا نہیں؟

ہم اپنے آپ کو کیونکر analyze نہیں کرتے کہ ہم انسان ہیں اور انسان ہونے کے ناطے غلط ہوسکتے ہیں

ایسی گھٹیا سوچ ہمارے اندر اس وقت ہی آسکتی ہے جب ہم میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو فرعون سمجھنا اسٹارٹ کردے، کیونکہ فرعونیت کا مطلب ہی اکڑ تھا، جبکہ اسی اللہ تعالی نے قوم ثمود کا جو حال کیا تھا، ہمارے لئے آج بھی باعث عبرت ہونا چاہئے ، مگرجس طرح کے رویے ہمارے موجود ہیں، ہمارا اللہ تعالی ہی حامی و ناصر ہو۔

تحقیقات

Nipping in the bud

کل کے واقعات میں، میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ انسانیت سوز واقعہ اور زلالت کو حرمت رسول ﷺ سے تشبیح دینا، شرم کا مقام ہے، اور اس پر یہ کہ کل کے واقعے کی سی سی ٹی فوٹیج نکالی گئی، اور اس پر یہ کُلی کھلی ہے کہ سری لنکن مینجر discipline میں پابندی کا حامی تھا، مگر جو لوگ فیکٹری میں کام کرتے ہیں، یہ بات کنفرم کریں گے، کہ ہڈ حرامی میں ورکر کو کوئی جواز چاہئے ہوتا ہے

https://www.facebook.com/watch/?v=396706145487754
 
سیالکوٹ میں سری لنکا کے فیکٹری مینیجر پریانتھا کمارا کو توہین مذہب کے الزام میں مارے جانے پر مزید گرفتاریاں اور مذمت کا سلسلہ جاری ہے، ڈان ڈاٹ کام کی جانب سے ہفتے کے روز حاصل ہونے والی نئی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ اس شخص کے ایک ساتھی نے اسے ہجوم سے بچانے کی کوشش کی۔ خوفناک واقعہ سے پہلے

کمارا کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا اور جمعہ کو اس کے جسم کو آگ لگا دی گئی۔ وزیرآباد روڈ پر واقع راجکو انڈسٹریز کے ملازمین نے جمعہ کے روز اس پر توہین مذہب کا الزام لگاتے ہوئے احاطے میں احتجاج کیا تھا۔

مظاہرین نے وزیرآباد روڈ پر ٹریفک معطل کر دی تھی اور ان میں فیکٹری کے تمام مزدوروں اور مقامی لوگوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ ہجوم کو دھیرے دھیرے چند درجن سے سینکڑوں کی تعداد میں بڑھتے دیکھ کر کمارا چھت کی طرف لپکا۔

لنچنگ سے پہلے لی گئی فوٹیج میں ایک ساتھی کو کمارا کو فیکٹری کی چھت پر بچانے کی کوشش کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا جہاں سے وہ بھاگ گیا تھا جبکہ دو درجن کے قریب لوگوں کا ہجوم آہستہ آہستہ بڑھتا گیا۔ویڈیو میں، ہجوم میں سے کچھ لوگوں کو نعرے لگاتے اور کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ "وہ (مینیجر) آج نہیں بچ سکے گا"، جب کہ ساتھی نے کمارا کو اپنے جسم سے بچانے کی کوشش کی، جو اس آدمی کی ٹانگوں سے چمٹی ہوئی تھی۔بعد ازاں کارکنوں نے ساتھی پر قابو پالیا اور کمارا کو گھسیٹ کر سڑک پر لے گئے اور لاتوں، پتھروں اور لوہے کی سلاخوں سے اس پر تشدد کیا جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعد ہجوم نے لاش کو آگ لگا دی تھی۔

کمارا، سری لنکن عیسائی، راجکو انڈسٹریز میں 10 سال سے کام کر رہے تھے۔

اس وحشیانہ قتل کی سرکاری اہلکاروں اور انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔ 

118 سمیت 13 بنیادی مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔

جمعہ کو دیر گئے ڈی سی سیالکوٹ اور ڈی پی او نے صوبائی حکام کے اجلاس کو ویڈیو لنک کے ذریعے واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ متوفی ایک سخت منتظم کے طور پر جانا جاتا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ 110 کے قریب مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ دیگر کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ رات گئے ایک بیان میں، آئی جی پی نے دعویٰ کیا کہ گرفتار ہونے والوں میں دو اہم ملزمان فرحان ادریس اور عثمان رشید بھی شامل ہیں۔

ہفتہ کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی برائے اطلاعات حسن خاور نے گرفتاریوں کی تعداد 118 تک اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا کہ 200 چھاپے مارے گئے اور حراست میں لیے گئے افراد میں 13 بنیادی مشتبہ افراد شامل ہیں۔ پنجاب کے آئی جی پی راؤ سردار علی خان کے ہمراہ لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں، معاون خصوصی نے کہا کہ پولیس نے 160 سی سی ٹی وی کیمروں سے فوٹیج حاصل کی ہے اور اضافی ویڈیو اور ڈیٹا کے ذرائع جیسے کہ موبائل ڈیٹا اور کال ریکارڈز کا بھی تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ خاور نے کہا، "کافی پیش رفت ہوئی ہے اور تحقیقات جاری ہیں،" انہوں نے مزید کہا کہ وزارت داخلہ اور خارجہ کے ذریعے لاش سری لنکا کے سفارت خانے کے حوالے کی جائے گی۔

انہوں نے کہا، "میں آپ کو ایک بار پھر یقین دلانا چاہتا ہوں کہ انصاف نہ صرف ہو گا بلکہ ہوتا ہوا دیکھا جائے گا،" انہوں نے کہا، انہوں نے مزید کہا کہ کسی کو کوئی چھوٹ نہیں دی جائے گی اور کارروائی کی جائے گی۔ اپنے فرائض میں غفلت آئی جی پی نے جمعہ کے واقعات کی ٹائم لائن فراہم کرتے ہوئے کہا کہ اب تک موصول ہونے والی معلومات کے مطابق، یہ واقعہ جمعہ کی صبح 10:02 بجے شروع ہوا اور صبح 10:45 بجے کے قریب تشدد اور مار پیٹ تک بڑھ گیا، جس کے نتیجے میں کمارا کی موت صبح 11:05 بجے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو صبح 11:28 پر اس واقعہ کی اطلاع دی گئی اور وہ 11:45 پر موقع پر پہنچی۔

آئی جی پی نے کہا کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے جلد از جلد انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چالان پیش کیا جائے گا۔

سری لنکن وزیراعظم کو یقین ہے کہ وزیراعظم عمران ’ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے‘

سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجا پاکسے نے کہا کہ وہ منیجر پر وحشیانہ اور جان لیوا حملے سے صدمے میں ہیں۔

"میرا دل ان کی اہلیہ اور خاندان کے لیے دھڑکتا ہے۔ # سری لنکا اور اس کے لوگوں کو یقین ہے کہ وزیر اعظم [عمران خان] تمام ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے اپنے عزم پر قائم رہیں گے،" انہوں نے ہفتہ کو ٹویٹ کیا۔

سری لنکا کی میڈیا آرگنائزیشن نیوز 1st کی رپورٹ کے مطابق، سری لنکا کی پارلیمنٹ نے بھی ہفتے کے روز اپنے اجلاس کے دوران لنچنگ کی مذمت کی۔

"حکومت سری لنکا کی یونیورسٹی کی ڈگری ہولڈر اور پاکستان میں ایک فیکٹری کے مینیجر پریانتھا کمارا دیاوادنا کی موت پر اظہار تعزیت کرنا چاہتی ہے، جو علاقائی حدود سے قطع نظر انتہا پسندوں کے حملے کا نشانہ بنی تھی۔ حکومت اس غیر انسانی حملے کی شدید مذمت کرتی ہے جس نے دنیا کو حیران کر دیا،" وزیر دنیش گناوردینا نے کہا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ انہوں نے وزیراعظم عمران کی "انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مداخلت" کی تعریف کی۔


سری لنکا پورے ملک پر الزام نہیں لگا رہا: قریشی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کمارا کے لنچنگ کو ایک "افسوسناک واقعہ" اور ملک کے لئے "شرم کی بات" قرار دیا۔ ہفتہ کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں قریشی نے کہا کہ واقعے کی اعلیٰ ترین ریاستی سطح پر نگرانی کی جا رہی ہے، وزیر اعظم عمران خان تحقیقات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ "ہم سری لنکا کے ساتھ رابطے میں ہیں ہم نے ان کے ہائی کمشنر کو لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ کیا اور میں بتانا چاہتا ہوں کہ انہوں نے پاکستان کے موقف اور فوری ردعمل کو سراہا ہے۔

"یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس نے سب کو دکھ پہنچایا ہے... لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ 'اس کی وجہ سے ہم کسی پورے طبقہ یا ملک کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔' وہ توقع کرتے ہیں کہ پاکستان ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گا۔ قریشی نے مزید کہا کہ وہ آج سری لنکا کے وزیر خارجہ سے رابطہ کریں گے اور انہیں تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ان کے خیال میں یہ ایک افسوسناک فعل ہے لیکن پاکستانی حکومت اور قوم کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"

مفتی منیب کا کہنا ہے کہ میڈیا قبل از وقت الزام تراشی سے

گریز کرے۔

مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمان نے واقعے کی مذمت کی لیکن میڈیا سے مطالبہ کیا کہ وہ معاملے کی تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے کسی گروہ یا فرد کو ذمہ دار ٹھہرانے سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ جب ملک میں آئینی اور قانونی نظام موجود ہے تو اس میں کسی بھی قسم کی کمی کے باوجود قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’’معاشرے میں انارکی اور لاقانونیت پھیلتی ہے جو کہ کسی بھی طرح ملک کے لیے سود مند نہیں ہے اور بین الاقوامی سطح پر ملک کا منفی امیج بنتا ہے‘‘۔

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting