Search me

ہم پاکستانی اور ہماری شناخت

مجھے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئے مگر اس وقت جس era میں موجود ہیں، یہاں mind programming جس طریقے سے کی جارہی ہے، جیسے ابھی پی ایس ایل میچز کے دوران میں نے عورتوں کے exhibition matches کی پروموشن کے لئے ایک particular hashtags استعمال کیا گیا ہے، جو کہ نواز شریف کی خواہش بھی تھی، یعنی #LevelPlayingField،

اب کہنے کی بات ہے

اب میری یہ بات کہنے کے بعد کچھ لوگوں نے یہ بات ضرور کرنی ہے، کہ میں اپنا ذہن کھول کر رکھوں، مگر psychologically اگر ہم پاکستانی psyche کو مدنظر رکھیں، تو آہستہ آہستہ سے لوگوں کو کیا descenticized نہیں کیا جارہا؟ کیا ایسے hashtags استعمال کر کے ایک common ground نہیں بنایا جارہا؟ کیا ایسی چیز پہلے پاکستان میں نہیں ہوئی؟

کچھ زیادہ دور نہ جائیں

کچھ عرصہ پہلے عورتوں کے sanitary napkins کی پروموشن پاکستان میں کی گئی، تو اس کے لئے water-test کیا گیا، as usual پہلی بار یہی پاکستانی عوام کا ری ایکشن اتنا سخت تھا، جس کی بناہ پر اس کمپنی نے اس پروڈکٹ کو پروموٹ کرنا بند کردیا، مگر اس کے بعد کچھ وقت بعد دوبارہ جب کیا گیا، تو پچھلی بار کے comparatively کم ری ایکشن آیا تھا، اور اس کے بعد ان لوگوں کی مارکٹنگ strategy ایسی تھی، کہ لوگوں کی سوچ کے ساتھ tweaking کی جائے، جس کی وجہ سے وہ کمپنی 3rd time lucky رہی، کیا یہی ممکن نہیں کہ یہی چیز آج پاکستان میں دوبارہ سے کی جارہی ہے؟

ویسے بھی level playing field ایک ایسی ٹرم ہے

کیونکہ ہماری mentality جس طرح کی ہے، ایک طرح سے 3 Idiots میں Chatur کا character کی طرح ہیں، جہاں اس مووی کے اسٹارٹ میں بتایا گیا تھا، کہ امتحان میں پاس کرنے کے دو طریقے ہیں، یکم خوب دل لگا کر پڑھیں؛ بصورت دیگر دوم دوسروں کو distract کرکے دوسری چیزوں میں involve کرا کر اپنے آپ کو اوپر لائیں، ٹھیک اسی طرح جیسے آج یعنی ۵ مارچ ۲۰۲۳ کو کراچی کنگز کی صورتحال ہے، جہاں یو ٹیوب پر کراچی کنگز کا مذاق اڑایا جارہا ہے، جہاں یہ کہا گیا ہے کہ زلمی اپنے آخری ۴ میچ ہار جائے، وغیرہ وغیرہ،  

وہی حال ہمارا ہے

کیونکہ ہمارے لوگوں کی impulsive mindset کی وجہ سے یہ چیز بھی ان کے ذہنوں میں موجود ہے، جو کہ ہمارے مذہب سے بالکل دور ہے، کہ دو غلط چیزیں ہوجائیں گی تو آگے چیزیں ٹھیک ہوجائیں گیں، چلیں مان لیتیں ہے کہ فی الفور تو چیزیں ٹھیک ہوجائیں، مگر ان سب چیزوں کا ripple effect کیا ہوگا، اس کو بھی مدنظر رکھیں، مگر یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، کیونکہ یہاں میں نے ایک چیز دیکھی ہے، کہ اگر میں کسی کے ساتھ disagree کررہا ہوں، تو ایسے میں میرے اوپر personal attacks start ہوجاتے ہیں، اور ایسے میں یہ سوچا جاتا ہے کہ اپنے غلط کو اس کو غلط ثابت کر کے صحیح کرسکتے ہیں، جو کہ بحیثیت مسلمان ہمیں اجازت نہیں ہے، کیونکہ میرے نذدیک یہ بےشرمی اور بے حودگی ہے، مگر جیسے میں نے پہلے کہا ہے کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے،

ابھی جو میں دیکھ رہا ہوں

یہ لائن جو بھی پڑھ رہا ہے، وہ یہی کہے گا، کہ یہ حاجی ثنا اللہ ہے، بھائی! میرا یہ باتیں کہنے کا صرف مقصد یہی ہے کہ بے شک میں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوں، مگر جوجلد بازی کا مظاہرہ ہمارے لوگ دے رہے ہوتے ہیں، جیسے ٹریفک میں بھی وہی ٹرم یعنی لیول پلئینگ فیلڈ کے موافق چلتے ہوئے ٹریفک میں wrong way یعنی غلط راستہ استعمال کرتے ہیں، without knowing کہ ان سب کا repercussions کیا ہوسکتے ہیں، کیونکہ پڑھے لکھے لوگ ایسی صورتحال میں یہ بھی دیکھتے ہیں، کہ ان کے آج کے ایکشن کا کل کیا ری ایکشن ہوسکتا ہے، مگر معذرت کے ساتھ جیسے کراچی کی slang language میں بات کروں، جلد بازی میں لیا گیا ایکشن ایک دو بار فائدہ دے سکتا ہے مگر every day is not a Sunday، 

میں صرف یہی بات کررہا ہوں

ابھی بھی ہمارے لئے موقع ہے کہ مسلمان بن کر سوچیں، آپ کو سہولت چاہئے، تو سہولت کے لئے کم سے کم اخلاقی اقدار کو مدنظر رکھیں، respect the law کیونکہ جب تک عام عوام rule of the law کو respect نہیں دیں گے، تو ایسے میں معاشرے میں یہ ٹسل بازی چلتے رہے گی، کیونکہ یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ جیسی عوام ہوگی، ویسی ہی حکمران، تو ایسے میں کیا ہماری اوقات ہے کہ اللہ تعالی کے وعدے کے خلاف جاسکتے ہیں؟ کیا ہماری یہ اوقات ہے، کہ مان لیا کسی کو imposingly آپ نے منا لیا کہ آپ صحیح ہو، اور وہ صحیح نہیں ہے، مگر کیا اس بات کو make sure کرسکتے ہیں، کہ  وہ بندہ ہماری دل سے عزت کرے گا؟ یہ چیز اللہ تعالئ نے ہمیں بحیثیت مسلمان یہ بات بتائی ہے، جس کو یکسر ignore کر کے ہم اس domain میں اس دائیرے میں enter ہورہے ہیں، جسے narcissistic disorder syndrome  کہتے ہیں، 

یہ کیا بلا ہے؟

اس معاملے میں، میں صحیح بندہ نہیں ہوں، مگر ایک common laymen term میں بات کروں تو ایک ایسی feeling ہے جہاں سامنے والا بندہ دوسرے بندے کو نیچا دکھا کر سکون ملتا ہے، جو کہ feeling حیوانوں میں بھی ہوتی ہے، تو ایسے میں انسان ہونے کے ناطے کیا یہ ہمیں suit کرتا ہے کہ انسان ہوتے ہوئے ہم جانوروں کی طرح ایکٹ کریں؟ یہی چیز معذرت کے ساتھ میں نے خاص طور پر کراچی کے معاملے میں دیکھا ہے، مگر یہ بات بھی ماننے کی ہے کہ صرف اور صرف کراچی میں نہیں، بلکہ یہ attention seeking syndrome پورے پاکستان میں ہے، جہاں اپنے آپ کو معلوماتی دکھانے کے لئے بےشرمی کی کسی بھی حد پر جاسکتے ہیں، 


The Ripple Effect/Snowball effect/Sandstorm effect

یہ تین الگ الگ effects ہیں، مگر ان کے impacts ایک دوسرے کے ساتھ inter-related ہیں، کیونکہ ریپل effect یعنی کسی پانئ کے پونڈ میں اگر ہم پتھر پھینکتے ہیں، تو اسکی لہریں جو نکلتی ہیں، اسکو ripple effect کہتے ہیں، کیونکہ ہم نہیں جانتے ہیں کہ ہماری بات کا کیا impact ہوسکتا ہے، تو ایسے میں بڑے بزرگوں کی مانیں تو زبان سے الفاظ اور بندوق سے گولی نکلنے کے بعد نقصان کا ازالا کرنا قریباً ناممکن ہوتا ہے، تو کیا انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے لئے ضروری نہیں کہ حیوانیت دکھانے کے بجائے تھوڑا انسان بن جائیں؟؟؟

کیونکہ ہر بات کا کچھ نا کچھ ری ایکشن ضرور ہوتا ہے

اور معذرت کے ساتھ، ایک اتاولا شخص یا اتاولی عورت کبھی یہ بات سمجھ نہیں سکتا/سکتی۔۔۔

ہمارے رویے

یہاں میں ایک پاکستانی ہونے کے ناطے کہنے لگا ہوں، کیونکہ ہمیں پاکستانی ہونے کے ناطے اپنے آپ کو سیاسی جماعتوں کے ماتحت بننا پسند ہے،

میں ایسا کیونکر کہہ رہا ہوں؟

کیونکہ بات ترجیحات کا ہوتا ہے، جس کو ہم manipulate کرتے ہیں، کیونکہ سیاسی جماعتوں کو کراچی شہر کو اپنا ووٹ بینک بنانے میں مصروف ہیں، خود بتائیں، ن لیگ نے کراچی میں کیا کام کیا ہے؟ اگر ہم ان کی contribution جو پنجاب میں کی ہے، اس کو کراچی سے موازنہ کریں، تو نا کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔

ابھی پاکستان اور آسٹریلیا کی کرکٹ سیریز کا دوسرا میچ کراچی میں ہورہا ہے

اور معذرت کے ساتھ، as usual ہم کراچی کے نیشنل اسٹیڈئم کو خالی دیکھ رہے ہیں، مگر کیا ہم نے سوچنے کی کوشش کی ہے کہ ایسا کیونکر ہورہا ہے؟ کیونکہ ہمارے رویے ایسے ہوگئے ہیں، کہ دیکھا جائےگا، consequences کا سوچنا نہیں ہے کہ ہمارے اس ایکشن کا کیا ری ایکشن ہوگا، کیونکہ میں یہاں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ کراچی کو خالی کرو، کیونکہ شہر لوگوں کے رہنے کے لئے ہوتے ہیں، جبکہ یہاں ہماری سیاسی جماععتیں، جن کو پاور ہم عوام ہی نے دی ہے، انہوں نے کراچی کو اپنا ووٹ بینک بنا لیا ہے، کیونکہ جمہوریت میں یہ چیز ہے کہ ووٹ شہر سے دیا گیا ہے، اور یہاں سیاسی جماعتوں نے بجائے نئے شہروں کو بنائیں، کراچی کو رگڑے جارہے ہیں، جہاں facilities بنانی چاہئے تھی، وہاں یاد گار شہدہ کے نام پر اپارٹمنٹ بنے ہوئے ہیں، جن کا انجام recently وہی پلازہ کی مانند ہو گا جن کا ابھی recent time میں demolition ہوا ہے، نام نہیں لوں گا، مگر ہماری سیاسی جماعتوں نے جس طرح کراچی کو over populate کردیا ہے کہ جتنا یہ شہر اپنے وہائشوں کو سہولت فراہم کرسکتا ہے اس سے زیادہ populate کردیا ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ صرف کام کرنے کراچی آتے ہیں، مگر نا کراچی کو own کرتے ہیں، اور نا اس بات کی ڈیمانڈ کرتے ہیں، کہ کراچی کیوں بھیج رہے ہو، ہمارے گاؤں کے قرب میں نوکریاں دی جائیں، مگر ہماری ترجیحات میں ملک اور شہر دور کہیں ہے پہلے اپنی ترجیحات معنی رکھتی ہیں، اور اسی وجہ سے اب کراچی اتنا congested ہوچکا ہے کہ کراچی میں انٹرنیشنل میچ دیکھنے کے لئے ۳۰۰ روپے خرچ کرنے کے لئے بھی کوئی تیار نہیں، جبکہ یہی لوگ پنجاب میں vacation منانے کے لئے میچز کو enjoy کرتے ہیں، جبکہ کراچی میں اتنا بڑا گیم ہورہا ہے، اس کو دیکھنے کے لئے کسی کے پاس ٹائم نہیں، کیونکہ کراچی کو اتنا congested جو کردیا ہے۔

مسلمان ہونے کے ناطے

میں زیادہ لمبی نہیں کروں گا، مگر مسلمان ہونے کی ہم نوٹنکی کرتے ہیں، کیونکہ ہم سب اگلے درجے کے منافق ہیں، کیونکہ ہمیں اپنی فکر ہے مگر ملک کا نہیں سوچنا ہے، کیونکہ ملک ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے، اور یہاں بھی منافقت شامل ہے کیونکہ بات چیت کی حد تک تو ہم پاکستانی ہیں مگر جب بات ہماری اور ملکی ترجیحات پر آتی ہیں، تو ایسے میں منافقت میں ہم اپنی ترجیحات دکھاتے ہیں، اور نتیجے میں یہی ہوتا ہے جو اس وقت کراچی میں ہورہا ہے، کیونکہ کراچی میں اپنی پاور دکھانے کے لئے اتنے اندھے ہوچکے ہیں، کہ کراچی کا ماحول خراب کرنے میں بھی تیار ہیں، 

خود دیکھیں

ایک تو rules and regulations کی application کا فقدان ہے، rules بالکل موجود ہیں، مگر وہ کیسے اپلائی ہوں گی، اس کا فقدان ہے، جبکہ یہی لوگ جب پاکستان سے باہر جاتے ہیں تو انسان کے بچے بنے ہوئے ہوتے ہیں، جبکہ جیسے ہی قائد اعظم انٹرنیشنل پر لینڈ ہوتے ہیں، مادر پدر آزاد ہوجاتے ہیں، کیونکہ قانون کی ایپلیکیشن اتنی مشکل ہے کہ گناہگار کو گناہ کا مرتکب کرنے میں ۲۰، ۲۰ سال لگ جاتے ہیں، کیونکہ as usual کچرے کو کراچی میں ووٹ بینک کے نام پر لا کر رکھ دیا ہے، اور قانون سیاسی جماعتوں کی رکھیل ہے، کیونکہ ہم عوام نے اپنی قبر کھودنے کا خود ارادہ کردیا ہے، 

شعور کی کمی

کیونکہ میرا یہی ماننا ہے کہ ہم عوام میں شعور کی کمی ہے اور شعور کا تعلق پڑھائی سے بالکل نہیں ہے، مگر جیسے اوپر میں نے لکھا ہے کہ ہمارے رویے ایسے ہوچکے ہیں کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا، اور ساتھ میں اس احساس کمتری کا مظاہرہ کہ ہمارے پاس پیسا ہے تو سامنے والے کو ہم نے خرید کر رکھ لیا ہے، ہمارے باپ کا خریدا ہوا نوکر ہے، میں ایک بینک میں کام کرتا ہوں، وہاں بہت دیکھا ہے کہ ایس او پی کی بات کرو کہ ایک وقت میں ایک بندہ کاؤنٹر پر رہے تو اتنی سی بات کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، پہلے میری ایک بات کا جواب دے دیں، ایسے میں بحث کر کے آپ کیا prove کرنا چاہتے ہو؟ خاموش اگر رہتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ کمزور ہیں، یا جواب نہیں دے سکتے؟ مگر خاموش اس لئے رہتے ہیں کیونکہ یہ ہماری تربیت ہوتی ہے، مگر یہ بات بھی یاد رکھیں کہ اگر کبھی یہ حرکتیں اور یہ trolling کسی نے escalate کردی، تو بات پولیس پر جاسکتی ہے، کیونکہ اگر کوئی آپ کو کاونٹر پر رش لگانے سے منع کررہا ہے، تو ایسے میں اگرچہ ٹکٹ کا سسٹم نہیں بھی ہے، تو ایسے میں کسی بھی حال میں آپ کاؤنٹر پر رش نہیں لگا سکتے ہیں، مگر معذرت کے ساتھ ہمیں جلدی اتنی ہوتی ہے کہ اپنا کام جلدی کرکے نکلنا چاہتے، جبکہ ایسی چیزوں کو پڑھاوا دینا اصل میں ہمارے character کی کمی ہے، ورنہ کیا وہ لوگ بیوقوف ہیں جو ٹکٹ نہیں ہونے کے باوجود خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں، حالانکہ ان کو بھی جلدی ہوتی ہے، مگر ایسی جلد بازی کی وجہ سے آپ ٹیلر کا نقصان کررہے ہو، کیا اس چیز کا ادراک ہے؟ اس کا تو ہمارا مذہب جس کے لبادے میں ہم کام چوری کرتے ہیں، میرے اپنے سامنے ایک واقعہ ہوا کہ ایک کسٹمر کو فارغ کر کے ٹیلر کیش سمیٹ رہا تھا، ایسے میں ایک اور کسٹمر آتا ہے اور ۵۰۰۰ کے کچھ  نوٹ کاونٹر پر پھینکتا ہے اور بولتا ہے کہ اس کو گن کر پرچی بناؤ، اب مسئلہ یہ ہوا تھا، کہ اس کا پرانا کیش اور اس کسٹمر کا کیش مکس ہوگیا اور ایسے میں جو رقم بنی تھی، ۱۵۰۰۰ کم تھی مگر اس میں ۱۵۰۰۰ زیادہ سے رقم کی سلپ بنادی، جو کہ شام میں جب balancing میں پتا چلی، جو کہ as usual ٹیلر کو اپنے خود کے پاس سے پیمنٹ کرنی پڑی، جس میں، میں نے اور اس برانچ کے آپریشن منیجر نے کچھ رقم ڈال دی تھی، مگر خود بتائیں، ایسی جلد بازی کا کیا فائدہ کہ جس کی وجہ سے ایک ٹیلر جو مشکل سے ۲۵۰۰۰ مہینے کے کماتا ہے، اور آفس کے بعد رکشہ چلاتا ہے، ایسے بندے کے لئے ۱۵۰۰۰ ایک ساتھ arrange کرنا، کتنی مشکلات کے ساتھ کی ہوگی، مگر ہم نمازیں پوری پڑھتے ہیں، نماز کے بعد حقوق العباد کے سوال پر خاموشی کے علاوہ کوئی جواب ہے؟ حالانکہ یہ چیز کو avoid کیا جاسکتا تھا مگر ایک نیا لڑکا، یہ چالاکیوں کو تھوڑی جانے گا۔ مگر یہ واقعہ بتانے کا مقصد یہی تھا کہ کتنے بڑے منافق بن چکے ہیں۔

ہماری عوام کا اتاولا پن

یہ میں ہمیشہ ہی کہتا رہا ہوں کہ ہم لوگ emotionally بہت ایکٹو ہیں، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ بہت سے لوگوں نے فوراً conclusion پر پہنچنا ہے کہ اس لڑکے کو کیا ہوا ہے ایسا کہہ رہا ہے بجائے اس کے کہ آکر پڑھیں کہ سامنے بندہ کہنا کیا جارہا ہے، اس کے بجائے ہم لوگ trollers والے ہجوم کے مانند بن رہے ہیں۔

پہلے یہ بتائیں کہ ٹرولنگ کرنے سے کیا سکون ملتا ہے؟

  • کیا ٹرولنگ کرنے سے آپ کو groove میں چڑھاؤ آتا ہے؟
  • کیا ٹرولنگ کرنے سے یا mock موک کرنے سے سامنے والا آپ کو وہ عزت یا respect دے گا، جو آپ سمجھ رہے تھے کہ آپ deserve کرتے ہیں؟
  • کیا ہر چیز میں اپنے آپ کو ـرکشہ ڈرائیورـ کی مانند ہر جگہ اپنی ٹانگ اَڑانے سے کیا آپ intelligent دکھائی پڑھتے ہیں، یا ہر چیز میں lime light میں موجودگی کیا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ قابل ہیں؟

آخر آج میں اتنا aggressive کیونکر ہورہا ہوں؟
گدھا کاری ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے

آج ایک کیس دیکھا، (میں کیس سے پہلے کچھ کہنا چاہ رہا تھا، مگر میں یہاں موک یا ٹرول نہیں کرنا چاہتا)، میرے ساتھ بلاوجہ کا بحث بازی کررہا ہے کہ نوٹ کیوں ایک جانب کررہا ہوں، ایسے ہی گنوں، اس سے پہلے میں آگے بڑھوں، میں بتادوں کہ میں آفس میں کیش ذمہ داری بھی دیکھتا ہوں، ساتھ میں دوسری ذمہ داریاں، جیسے ریپورٹنگ وغیرہ، تو اسی لئے میں نے یہ بات کہی ہے کہ میں کیش کی ذمہ داری بھی دیکھتا ہوں، تو ایسے میں ایک صاحب آئے اور مجھ پر پریشر ڈالنے لگ گئے کہ جلدی جلدی کروں، تو میں as usual پہلے نوٹوں کی اسکروٹنی، جس میں پہلے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ head count یعنی جتنے نوٹ موجود ہیں، وہ وہی رقم بن رہیں ہیں، جو ڈپازٹ سلپ پر موجود ہے، یا نہیں، تو وہاں پہلے مجھے ٹوکا، کہ گن کیوں رہے ہو، جب میں کہہ رہا ہوں، وہاں میں نے آرام سے ان سے کہا کہ سر یہ میرے لئے ضروری ہے کہ make sure رقم پوری ہے، تو جواب میں مجھے کہہ رہے ہیں، کہ ایسی کوئی ایس او پی موجود نہیں، جبکہ گلوبلی یہ right آفیسر کو دیا گیا ہے کہ وہ proper scrutiny کرے، کیونکہ آفسر کی assurity اور تصدیق ہر یہ رقم برانچ کے والٹ میں بند کیا جاتا ہے، پہلی بات یہ ہے کہ یہ گدھا کاری کی آزادی آپ کو صرف پاکستان میں موجود ہے، دبئی جو کراچی سے ۱:۳۰ گھنٹہ دور ہے، وہاں آپ ایسا بول کر دکھاؤ، labour laws وہاں کے اتنے سخت ہیں، لیبر اس بات پر آپ کو sue کرسکتا ہے، کہ آپ نے اس کے پروفیشنل پروسس میں مداخلت کی ہے، دوسری بات یہ ہے کسٹمر کے حقوق کے ساتھ کسٹمر کے ذمہ داریاں بھی موجود ہے، مگر معذرت کے ساتھ یہودیوں کی طرح جو قرآن کی ایک آیت کا حوالا دے کر اپنی بات منوانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہوتے تھے، جب کہ ہمارے مذہب میں ہر چیز کو قدرتی طور پر اٹھایا گیا ہے، میں مذہب کے معاملے میں اچھا نہیں ہوں، مگر جتنا بھی میں پڑھا ہے، اس کے حساب سے قرآن میں متعدد جگہ ذہن میں سوال پیدا ہے، اورسوال پیدا کرنے کے بعد اگلی آیت، اگلی صورت میں اس کا جواب دیا گیا ہے یہ پھر کچھ چیزوں کو متعدد بار واضع کیا گیا ہے مگر کھل کر نہیں بتایا گیا ہے (read Jerusalem) جس کو قرآن میں میری ناقص معلومات کے مطابق اشاروں میں ضرور واضع کیا گیا ہے مگر نام کہیں بھی نہیں لیا گیا، تو اتنی لمبی تمہید باندھنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ جب ہمارے اپنے قرآن مجید میں ایسی کوئی پریکٹس نہیں تو ہم جس منہ سے ایسی پریکٹس کو نا صرف implement کرتے بلکہ اس سے ذیادہ بری بات یہی ہے کہ اس act کو پروموٹ بھی کررہے ہیں، اس میں ذمہ داری ہمارے بڑوں کی ہے، کیونکہ ہمارے بڑے اب صرف ایک ہی motive یعنی اپنی اہمیت دکھانے کے لئے جتنی محنت کرتے ہیں، اتنی محنت معاشرہ بنانے میں لگاتے تو پاکستان کا یہ حال نہیں ہوتا!

اب میرے ساتھ جو ہوا، 

میرے ساتھ جو بھی ہوا، ایسے میں اگر میں کسی اور ملک میں ہوتا تو وہاں employee security رہتی ہے، جس کو make sure کرنا عوام کی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر معذرت کے ساتھ customer is always right مگر میں ساتھ میں یہ بھی add کروں گا، کہ customer is always right but customer is not a king ping, instead make customer accountable for what it is demanding. اور اب میں مدے پر آتا ہوں، جمہوریت کا سب سے بڑا نقصان اس معاشرے میں ذیادہ ہے، جہاں معاشرتی شعور کی کمی ہے، ایسی چیز کی ڈیمانڈ کرنا جو معاشرے کے کام نہیں آئے گا، اس کے بجائے کسی ایک خلقت، کسی ایک کمیونٹی، کسی ایک فرقہ کو سپورٹ دینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

ایسے میں پاکستان کہاں گیا؟

میں اوپر والے واقعے سے یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ صرف میرے ساتھ ہوا اس لئے یہ اچھی بات نہیں، کسی بھی معاملے میں


دیکھیں، ہم ہر جگہ دیکھیں، جس طرح کی مفاہمتی پالیسی کراچی میں چل رہی ہے، کیونکہ ووٹ بینک بنانے کی روِش کی بناہ پر ہر کوئی اپنے ووٹ بینک کو کراچی لا کر سیٹل کر رہے ہیں، کس لئے؟ مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں کہ یہ لوگ آرہے ہیں، مجھے مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ کراچی آکر جس ناگفتہ بہ صورتحال میں رہ رہے ہوتے ہیں، اس پر ان لوگوں کو صرف ایک بریانی کی پلیٹ پر ۵ سال کا approval مل جاتا ہے، معذرت کے ساتھ مشرف کے ٹائم کے بعد سے پاکستان میں یہی کھیل ہورہا ہے، خود دیکھیں، حکومتیں اپنا tenure مکمل کررہی ہیں، مگر کیا regime نے کیا؟ continuity نہیں ہونے کی بناہ پر پاکستان کی جو حالت ہوچکی ہے، ہم پاکستانیوں نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان اس جمہوریت میں پہنچادیا ہے، جس کا ہمیں کوئی احساس نہیں، احساس اس لئے نہیں ہے، کیونکہ ہمیں شعور نہیں، شعور ہوتا، تو پہلے پہل سوال کرتے کہ ہمارے ٹیکس کی رقم کہاں صرف ہورہی ہے! اگر ٹیکس کا پیسہ دے کر بھی ہمیں آغا خان اسپتال، یا دوسرے پرائیوٹ اسپتال میں علاج معالجہ کرانا ہے، تو کس بات کا ٹیکس آپ لے رہے ہو؟ اگر ہم میں شعور ہوتا تو تو اس بات کا سوال کرتے، بہت پہلے ہمارے اسی پاکستان میں وظیفہ کا سسٹم ہوتا تھا، اب کہاں ہے؟ جمہوریت کی وجہ سے اب یہ تمام سیاسی جماعتیں musical chair کھیلنے میں لگی ہوئی ہیں، اور اس پر سونے پہ سہاگہ، عوام کو احساس ہی نہیں ہے (کیونکہ ان کو شعور نہیں ہے) کہ ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے، یہ کہہ کر لالی پاپ دیا جاتا ہے کہ باہر جاؤ، اور رقم پاکستان بھیجو، یہ ہماری achievement ہے، شرم کا مقام ہے ہم پاکستانیوں کے لئے، کیا کبھی پاکستانی بن کر سوچا ہے؟ کیا کبھی پاکستان کے لئے بھی سوچا ہے؟

ابھی مری کا سانحہ ہوا ہے

اور اس سانحہ کے بعد مجھے کابل کی تصاویر دیکھنے کو ملی، جہاں مری سے ذیادہ برفباری ہوئی ہے۔ مگر جس طرح ان لوگوں نے حب الوطنی کا مظاہرہ کیا، وہاں کی ویڈیوز دیکھ رہا تھا، برفباری کے دوران بھی کام بھی ہورہا تھا، لوگ برفباری بھی انجوائے کررہے تھے، ٹریفک بھی چل رہا تھا، جبکہ ہمارے پاس سے کیا نیوز نکل رہی ہے، ۳۰۰۰ کا ہوٹل کا کمرا ۴۰۰۰۰ کا بیچا گیا، گاڑی کو tow out کرنے کے چارجز لئے گئے، over capacity کس بلبوطے پر کیا گیا؟ بیشک عوام کسی بھی ملک کی عقلمند نہیں ہوتی، اس چیز کی ذمہ داری یقینی طور پر حکومت وقت کی ہوتی ہے، مگر عوام بری الذمہ بالکل نہیں، کیونکہ بیشک سمجھ بوجھ بالکل نہیں مگر بات یہ ہے کہ ملکی شعور کے تقدس کا خیال رکھنا چاہئے تھا، یہ عوام کی بھی ذمہ داری تھی کہ ٹک ٹاک کے لالچ میں تمام رکاوٹوں کو بالا تاک رکھ کر اس طوفان میں آگئے، نتیجے میں نہ صرف اپنی جان گنوائی بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا یہ image باور کروائی کہ ہم پاکستانی اس قابل نہیں کہ آپ کو host کرسکیں، ہماری اوقات نہیں۔

آخر ملک کے بارے میں ہم کیونکر نہیں سوچتے؟

بیشک ہماری حکومتیں (موجودہ حکومت کو ملا کر)، یہ سب لوگ incompetent ہیں، اور جمہوریت کی آڑ میں اپنا ووٹ بینک بنانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا ہے۔

پاکستان کا ازلی دشمن،

جب بھی ہم ازلی دشمن کی بات کرتے ہیں، ہمارے ذہنوں میں سب سے پہلے بھارت کا نام آتا ہے، مگر میرے نذدیک ہمارا سب سے

بڑا دشمن ہماری ignorance ہے۔ کیونکہ پہلی بات یہی ہے کہ جمہوریت اور پارلیمانی سسٹم میں فرق کا شعور ہونا چاہئے، بصورت دیگر اگر کسی ********** کے ********* کو ایک بریانی، ایک سموسے یا پھر ایک ہزار روپے کے عیوض پانچ سال کے لئے اپنے سر پر بٹھالیتے ہیں، یا پھر کسی کی گلی میں نالا بنانے کے عیوض آپ کو کراچی میں حکومت مل جاتی ہے، بلکہ معذرت کے ساتھ کراچی میں activities کے لئے مختص vicinity کس طرح یادگار کے طور پر اپارٹمنٹس میں تبدیل پوا؟ 

کیونکہ جمہوریت میں 

جمہوریت میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ جمہور کی نمائندگی کرنا، یعنی جس طرح مسلمانوں کی صورتحال ہوچکی ہے کہ جمہور کی نمائندگی میں فتوے مل چکے ہیں جہاں مسلمان علما نے ہندوستان میں سورج کی پرستش جس کو اب بھارت میں قانون بنادیا گیا ہے، یعنی کوئی اگر ان traditions کو follow نہیں بھی کرنا چاہتا تو ایسا کوئی آپشن نہیں، کیونکہ جمہوریت کی رو سے یہ جمہور کی نمائندگی ہے، یعنی اگر پاکستان میں بھی جمہوریت کو ہمارے ہر مسائل کا حل بنا کر دکھایا جئے، جس کو ہمارے معزز سیاسی جماعتیں مفاہمتی (منفقانہ) پالیسی کو استعمال کررہی ہیں، اور کراچی میں اپنا ووٹ بینک بنارہیں ہیں، مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں، مجھے مسئلہ لوگوں سے ہے، جن کے اوپر ایک scientific جمہوریت نافذ کردیا گیا ہے، کیونکہ جیسے میں نے اوپر کہیں لکھا ہے، کسی نے آپ کے لئے کوئی کام کردیا ہے، تو جمہوریت کے رو کے حساب سے آپ کو facilitate کیا جائے گا، مگر پاکستان کہاں ہے؟

پاکستان میں اور کراچی میں جمہوریت کی وجہ سے

 جمہوریت کی رو سے اگر majority یعنی جمہور اس بات کی اجازت دے دے کہ پاکستان میں پیپسی یا کوکا کولا کی جگہ Wine، برینڈی اور Beer کو allow کردیا جائے، تو جمہوریت کی رو سے اس کو allow کردیا جائگا، اس کے لئے صرف آپ کو extensive مائنڈ پروگرامنگ کرانی پڑے گی، تاکہ علما کے قلم سے ایسے فتوے لکھوائے جائیں جس کی رو سے demand and acceptance کو create کیا جائے، جو کہ Post-Musharraf Era ہمارے سیاسی جماعتیں لگی ہوئی ہیں، بجائے اس کے کہ عوام اور پاکستان کے مسائل کو حل کرانے کے، پانچ سال ایک سرکس کی طرح اپنے ادوار مکمل کریں گے اور نتیجے میں آپ خود پی پی پی، پی ایم ایل این، اور ابھی پی ٹی آئی بھی اسی نقش قدم پر چل رہی ہے، بجائے اس کے کہ یہ سب ڈرامہ کے بجائے ہمارے اور پاکستان کے مسائل پر توجہ دینے کے، again یہاں بھی مسئلہ سیاسی شعور کی لاعلمی کی وجہ سے ہے.

ویسے بھی

سائنسی جریدے پولیٹیکل سائیکالوجی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جو لوگ سیاست کے بارے میں کم جانتے ہیں وہ اپنے سیاسی علم کے بارے میں زیادہ پراعتماد ہوتے ہیں۔ نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جب متعصبانہ شناختوں کو چالو کیا گیا تو یہ اثر بڑھ گیا۔

"Dunning-Kruger Effect کا خیال ہے کہ جن افراد کو کسی موضوع کے بارے میں بہت کم علم ہے، وہ سب سے زیادہ پراعتماد ہوں گے کہ وہ اس موضوع کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ باشعور افراد بھی اپنی علمیت میں رعایت کریں گے، "مطالعہ کے مصنف ایان آنسن، یونیورسٹی آف میری لینڈ، بالٹیمور کاؤنٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر نے وضاحت کی۔

"2016 کے انتخابات کے دوران دیگر اسکالرز کو ٹویٹر پر اس موضوع پر بحث کرنے کے مشاہدے کے بعد میں ڈننگ-کروگر اثر میں تیزی سے دلچسپی لینے لگا۔ میں متعدد سیاسی ماہر نفسیات کی پیروی کرتا ہوں جنہوں نے سوشل میڈیا پنڈت طبقے پر حیرانی کا اظہار کیا، جو کہ انتخابات کی اپنی بھرپور کوریج میں 'ڈننگ-کروگیرش رجحانات' کا بظاہر مظاہرہ کرتے ہیں۔

کراچی کو جس طرح سے exploit کیا جارہا ہے

کیونکہ ہم لوگوں میں سیاسی شعور نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہم نے ایک بریانی کی پلیٹ کے لئے پانچ سالوں کے لئے

without accountability ان چوروں کو پورے پاکستان پر مسلط کردیتے ہیں اور نتیجے میں یادگار کے نام پر یا سیاسی جماعتوں کے اثر پر پلے گراؤنڈ کی ذمین پر اپنا ووٹ بینک قائم کرلیں گے، کیونکہ یہ پاکستانی جمہوریت ہے۔ اور پاکستانی جمہوریت ہونے کے ناطے، یہ ایکشن ہمارے اپنے اندر سیاسی غیر شعوری کی عکاس ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے بھی فرمایا ہے جس کا متن یہی ہے کہ جیسی عوام ہوگی، ویسے ہی حکمران ہوں گے، کیونکہ عوام اور حکمران دونوں ایک ہی سکے کی دو الگ، الگ سائیڈ یعنی ایک سکے کا چاند ہے اور دوسرا چھاپ، مگر اس سیاسی غیر شعوری کی وجہ سے میرا اپنا یہ ماننا ہے کہ ہم پاکستانی جمہوری سیاست سے پالکل نا آشنا ہے، 

اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں، ایک subtle disclaimer 

یہاں میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا ہوں کہ کراچی صرف کسی ایک کا ہے، کراچی پورے پاکستان کا ہے، مگر کراچی کو جینے دو، اپنے ووٹ بینک کو پروان چڑھانے کے لئے مونٹیسری نہ بنایا جائے، کیونکہ اس ووٹ بینک بنانے کے چکر میں کراچی کی شکل مسخ کردی ہے، جہاں گرین بیلٹس اور storm water drainage ہونی چاہئے تھی، وہاں آبادیاں اور کالونیاں بنا دی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں کراچی اپنی جاہلیت کی وجہ سے مسخ ہورہا ہے۔


We as Pakistanis are definitely hypocrites

ہوسکتا ہے کہ میں غلط ہوں، اور دعا بھی یہی کررہا ہوں، کہ جو میں سوچ رہا ہوں، وہ واقعی میں غلط ہوں کیونکہ پاکستانی ہونے کے ناطے ہمارے لئے شرم کا مقام ہے۔

میں ایسا کیونکر کہہ رہا ہوں؟


ِیہ ویڈیو ڈالنے کا مقصد یہی ہے کہ کسی قوم کا رہن سہن دیکھنا ہے کہ وہ واقعی میں کوئی قوم ہے یا ریوڑ یا پھر ہجوم، تو ان کا ٹریفک دیکھیں، مگر معذرت کے ساتھ، ہمارے پاس بلا وجہ کا مقابلہ بازی، بے فضول کا، کیونکہ ہم سب میں ایک احساسِ کمتری کا عنصر بالکل موجود ہے، جہاں ہم اس کو اپنی شان (جو کہ بالکل موجود نہیں) مگر اپنی جھوٹی شان دکھانے سے کس چیز کا سکون مل رہا ہوتا ہے؟ اگر ان جاہلوں کی منطق استعمال کروں تو یہ بات مانتے ہوئے شرم آرہی ہے کہ ہم پاکستانیوں میں اتنا اتاولا پن اور احساس کمتری آچکی ہے، کہ attention seeking کے چکر میں اس چیز کا بھی خیال نہین کہ پاکستان کا کیسا image ہم بحیثیت پاکستانی دکھا رہے ہیں، ہمارے اندر سے اس چیز کا احساس یکثر ختم ہوچکا ہے کہ ہمارے اس (مندرجہ بالا ویڈیو میں) ایکشن سے دنیا میں پاکستان کا کیا نقشہ دکھا رہے ہیں۔

میں اصل میں اس آرٹیکل کے لئے ہماری عوام کی جہالت جہاں ایک امریکی ولوگر جو ذینب مارکٹ، جس کو کراچی کی ایک بڑی مارکٹ تصور کی جاتی ہے، وہاں آیا تھا، اور وہاں ایک دکاندار نے اس کو دہشتگرد کہا، بےشک امریکی حکومت نے پاکستان کے ساتھ اچھا نہیں کیا، مگر کیا مسلمان ہونے کے ناطے یہ چیز سوٹ کرتی ہے، کہ اس طرح کی گدھا کاری کریں؟ یہاں ہمیں پاکستان کو پروموٹ کرنا ہے یا پھر اپنی انا کی تسکین کرانی ہے؟

پس پردہ تصویر اس چیز کی عکاسی ہے کہ گدھا کاری کی وجہ


اور ملکی مفاد کو اہمیت نہیں دینے کی وجہ سے پاکستان کا یہ image اب دنیا میں بن چکا ہے، جبکہ بھارت میں جہاں کا روپیہ پاکستان روپے کے مقابلے میں گئی گزری قرار دی گئی ہے، مگر مجھے یہ سرچ ریزلٹ ڈھونڈنے میں اتنی محنت کرنی پڑی، اس کے برعکس اوپر والی سرچ ریزلٹ مجھے پہلی کوشش میں ہی دکھائی دی، صرف ہماری گدھا کاری کی وجہ سے، کیونکہ ہمیں صرف اپنی بھڑاس نکالنے کی جلدی ہوتی ہے، بھڑاس نکالنی بھی ہے تو کم سے کم انسانوں کی طرح تو نکالو، یہ گدھا کاری کی کیا ضرورت؟
اب یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد ہمیں احساس ہوجانا چاہئے کہ ان سیاسی جماعتوں نے کس طرح ہمیں استعمال کیا ہے، بجائے اسکے کہ ہم ان سے سوال کرتے کہ ہمارے ٹیکس کی پیسوں کا استعمال کہاں کیا ہے، کیونکہ یہاں مسئلہ accountability کا ہے، کیونکہ نہ کوئی پوچھ گچھ ہے، نہ سزا کا ڈر، مگر جیسے اللہ تعالی نے فرمایا ہے جس کا مفہوم یہی ہے کہ جیسی عوام ہوگی، ویسے ہی حکمران ہم پر موجود ہوں گے، اور فرق صاف ظاہر ہے۔

سیاسی جماعتوں کو لگام لگائیں

یہ مادر پدر آزادی صرف پاکستان میں حاصل ہے کہ پاکستان کی سڑکوں کو پولیٹکل پارٹیز کے بینرز سے گندا کرکے اپنی سیاسی طاقت دکھانے کا موقع مل جاتا ہے، مگر ایسے میں پاکستان کہاں ہے؟ مجھے ان سیاسی جماعتوں سے یہی سوال ہے کہ اس جمہوریت کا فائدہ کیا ہے جب آپ جمہوریت کی آڑ میں اندرون ملک سے لوگوں کو لا کر کراچی میں بسا رہے ہیں، مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں کہ کیوں آرہے ہیں، مگر سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ان لوگوں کو کراچی میں لاکر بسایا جارہا ہے، جس پر ان لوگوں کی سپورٹ پر یہ تارکین ان کے لئے ووٹ بینک اور پاکستان کے لئے liability بنتے ہیں، اسی لئے اس آرٹیکل کے بالکل شروع میں میں نے ہجوم کا لفظ استعمال کیا تھا، وہ بھی وہ والا ہجوم جو لائٹ کے پیچھے بھاگنے کا شوقین ہے، اور یہ سیاسی جماعتیں اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو لائٹ دکھائی ہے، اور حسبِ عادت ہم لوگ ان کی لائٹ کے پیچھے لائن لگائی ہوئی ہے، میں یہاں کسی خاص سیاسی جماعت کی بات نہیں کررہا ہوں، تمام سیاسی جماعتوں نے یہی روش رکھی ہوئی ہے، کیونکہ ہم بجائے اسکے کہ کراس چیک کریں، رٹہ بازی یعنی شارٹ کٹ کی جانب چل دئے، جس کا نتیجہ آج ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ یہ سب جمہوریت کی بدولت ہمیں تحفے مِل رہے ہیں، کیونکہ جمہوریت میں Might is right کا concept ہے، یعنی majority کی بات مانی جائے، اور اسی وجہ سے یہ سیاسی جماعتیں کراچی میں بجائے Co-Curriculum Activities کے لئے مختص جگہ کو اپنی سیاسی جماعتوں کے لئے استعمال کرے، اور عوام نے ان لوگوں کو سپورٹ کیا، جو کہ شعور کی کمی کا خمیازہ ہے، کیونکہ اگر یہ لوگ جو ٹرک کی لائٹ کے پیچھے لگتے ہوئے کراچی نہیں آتے، تو ان سیاسی جماعتوں کو کراچی میں سپورٹ نہیں ملتی صرف جمہوریت کی وجہ سے ان لوگوں کو یہاں سپورٹ ملی، یعنی یہ قوم جمہوریت کے قابل نہیں، خود دیکھ لیں، مشرف کا دور جیسا بھی تھا، Post-Musharraf ادوار سے کافی بہتر تھا، کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں پانچ سال عوام کے بہبود کے لئے کچھ کرنے کے بجائے (ٹیسٹ میچ کرکٹ میں جب میچ کو ڈرا کرنا ہوتاہے) ٹھیک اسی طرح، اپنے پانچ سال پورے کئے، شور ہنگامے کئے مگر جو کام سب سے اہم تھا، یعنی عوام کی فلاح، وہی نہیں کیا، کیونکہ جمہوریت کی وجہ سے ان کی mass majority کراچی میں موجود ہے، اور majority کی بنیاد پر کوئی ان سیاسی جماعتوں کو کچھ نہیں کہہ سکتا، اور اس پر سونے پہ سہاگہ، ہماری عوام ان لوگوں کو سپورٹ کرتی ہے، جو کہ شعور کی کمی کی عکاس ہے۔

ویسے بھی پاکستان کی سڑکوں پر پاکستان کے جھنڈے لگے ہوئے ہونا چاہئے نہ کہ ان سیاسی جماعتوں کے

ویسے بھی بیرون ملک آپ یہ سب کچھ نہیں کرسکتے جو ہمیں پاکستان میں آزادی ہے، کیونکہ دوسرے ملک میں آپ کو ملکی مفاد کا خیال رکھنا ہوتا ہے، اور اس پر یہ کہ وہاں قانون سیاسی جماعتوں کے ماتحت نہیں ہوتی، مگر معذرت کے ساتھ، پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے یہ سب ڈپارٹمنٹ حکومت کے ماتحت ہوچکی ہیں، جس کی وجہ سے یہ ڈپارٹمنٹ حکومت کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں، کہ حکومتی مشینری کیسے استعمال ہوتی ہے۔ 

پاکستانی مفاد 

ہمیں پاکستانی مفاد اور ترجیحات کو دیکھنا چاہئے نہ کہ رٹہ مارو اور سڑک پر نکل جاؤ، جو کہ آج کل پاکستان میں ہورہا ہے، جہاں گدھوں کو گاڑیاں ملی ہوئی ہیں اور چلانے کا ڈھنگ نہیں، حالانکہ پاکستان میں opportunity بے حساب ہے، مگر دیکھنے والی نظر ہونی چاہئے۔ کیونکہ entertainment deprived society میں ہم رہ رہے ہیں، تو ایسے میں ہمارے معاشرے میں گھومنے پھرنے اور دلچسپی کے پوائنٹ ہونے چاہئے تھے جو کہ نہ ہونے کے برابر رہ چکے ہیں، کیونکہ ہماری ترجیحات میں پاکستان اور معاشرے کے لئے سوچ نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے برعکس ہم نے یہی سوچا ہوا ہے کہ بیرون ملک محنت کرلیں گے مگر پاکستان میں اس کا 0.01% بھی نہیں کریں گے، کیونکہ ہمارے لئے پاکستان کوئی معنی نہیں رکھتا، نہ ہی معاشرے میں موجود لوگ، جبکہ
ہمارا مذہب بھی اس چیز کو پسند نہیں کرتا، کیونکہ ہمارے نذدیک یہ بات بھی ہے کہ اپنے گھر والوں کے بعد محلے اور پڑوسی کے حقوق ہیں، مگر آج کے زمانے میں ہم نے ان سب چیزوں کو یکثر فراموش کردیا ہے، مگر اپنے مطلب کے لئے مذہب کو بالکل استعمال کرنا ہے، تو یقیناً ہم پاکستانیوں سے بڑا کوئی منافق نہیں، مسئلہ پاکستان میں نہیں، مسئلہ ہم لوگوں میں ہے، مگر چونکہ ہمیں اپنی غلطیاں دکھائی نہیں دیتی ہیں، تو ایسے میں یہ بات بھی flushed down the gutter۔

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting