Search me

Too many cooks spoil the meal

آخر الزمان میں معلومات کا انبار سے متعلق احادیثِ مبارکہ

ہمارے مذہبی کتابوں میں مستقبل کی تصویر کشی ہمیشہ اشاروں میں کی جاتی ہیں، کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ہاتھ پکڑ کر direct کریں، اسی وجہ سے ہماری اسلامی کتب میں کافی چیزیں ذو معنی یعنی کہ ambiguity رکھی جاتی ہے، کیونکہ کچھ چیزوں کی معلومات صرف اور صرف اللہ تعالٰی کی پاک ذات سے منسلک ہونی چاہئے۔

معلومات کی کثرت اور آج کا زمانہ

کل پورا پاکستان نے یہ چیز دیکھی، جب میری معلومات کے مطابق ایک system collapse کا مسئلہ تھا،

کیونکہ نیشنل گرڈ جہاں سے کے ای بھی کراچی کے لئے بجلی لیتی ہے، میں نے خود نوٹ کیا کہ بجلی یک دم نہیں گئی تھی، بلکہ fluctuation کے ساتھ گئی تھی، جس کا مطلب یہی ہے کہ کوئی فالٹ ہوا تھا نہ کہ جیسے کچھ conspiracy theorists کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں مارشل لا آگیا وغیرہ وغیرہ، جبکہ آج یعنی اتوار کے روز جب بال کٹانے نائی کے پاس گیا تو وہاں یہ باتیں بھی ہورہی تھیں کہ جنگ کے ماحول کی وجہ سے Artillery کی ٹرانسفر کی وجہ سے پورا پاکستان کو بلیک آوٹ کیا گیا، جس سے میں بالکل نفی کرتا ہوں کیونکہ  اگر آپ پاکستان کا رات میں سیٹلائٹ تصاویر کو ملاحظہ کریں، تو پاکستان ویسے ہی انڈیا کے مقابلے میں کم روشن دیکھائی دیتا ہے، پھر اس پر سونے پہ سہاگہ، آج کل کی ٹیکنالوجی اتنی ایڈوانس ہوچکی ہے، کیونکہ کچھ چیزیں جو مجھے پتا ہیں، نائٹ گوگلز، نائٹ وژن وغیرہ صرف کچھ چیزیں ہیں، جو کمرشلی موجود ہیں، باقی انگریزوں کی سوچ کو مدنظر رکھیں تو انگریز ہمیشہ اپنی پروٹو ٹائپ کو اکثر close-to-ready رکھتے ہیں، تو ایسے میں ممکن نہیں کہ بلیک آوٹ کا وہ فائدہ جو پاکستان نے ماضی میں حاصل کیا تھا، وہ اب بھی حاصل کرپائے، کیونکہ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ انڈیا کا امریکہ بہادر کے ساتھ بیکا BECA ایگریمنٹ ہوچکا ہے، تو ایسے میں انڈیا کو جو سپورٹ چاہئے، امریکہ بہادر اسے فراہم کررہا ہے، کیونکہ خود imagine کریں انڈیا کا جو معذرت خواہ رویہ لداخ کھونے کے وقت موجود تھا، اب یکثر تبدیل ہوچکا ہے، کیونکہ انڈیا کے پاس اب وہ ٹیکنالوجی ہے جس کی بناہ پر پاکستان کا یہ ٹیکٹک سمجھ سے بالاتر ہے۔ 

اب میں اس بلاگ کے مین پوائنٹ پر آتا ہوں

اب میں ۱۱:۳۰ بجے رات کے ٹائم کی کہانی سناتا ہوں، جہاں ایک یوٹیوب کی ویڈیو کہہ رہی تھی، ہم نے انڈیا اور امریکہ بہادر کو چکما دے دیا، خود بتائیں، جب امریکہ بہادر نے نائٹ وژن گوگلز کو کمرشلی available کردیا ہے، تو کیا پروٹو ٹائپ میں اس کے پاس ایسے سیٹلائٹ imageries کو  capture کرنے کی خصوصیت نہیں ہوگی جہاں سیٹلائٹ real time رات کے imageries کو دیکھ سکیں، جہاں اگر کوئی موومنٹ ہورہی ہوگی تو آسانی کے ساتھ دیکھا جاسکے گا، کیونکہ ایک چیز ہوتی ہے heat signatures جو اس طرح کے devices آسانی کے ساتھ گرم جسم کو دیکھا سکتے ہیں، تو ایسے میں یہ بیوقوفوں کی جنت کے مترادف رہنا بنتا ہے۔

مگر آفرین ہے ہمارے سوشل میڈیا کا، جو ہمیں انجمنِ بیوقوفانا میں بسانا چاہتے ہیں

کیونکہ اگر پروپگینڈہ کرنا بھی ہے تو کم سے کم کوئی پی آر کمپنی کو hire کریں، کچھ تحقیق کریں، کہ کس طرح عقلمندی سے سامنے والے (انڈیا اور امریکہ بہادر کو) demoralize اس طرح سے کریں، جس طرح سے یو ایس ایس آر کے ٹوٹنے کے بعد روس یعنی رشیا نے امریکہ کے اندر امریکہ بہادر کے خلاف پچھلے دو دھائی میں 5th generation war fare لڑی ہے، جو مجھے یاد پڑھ رہا ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کے الیکشن کے وقت کلنٹن کو ولن بنا کر پیش کیا جس کو امریکیوں نے retweets کیا جس کی وجہ سے یہ گلوبل ٹرینڈ بنا تھا اس پر سونے پہ سہاگہ دی کیمبرج اینالیٹکا نے جو رول ادا کیا ہے، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، جہاں فیس بک پر امریکہ میں موجود امریکیوں کا موجود ڈیٹا کو استعمال کرکے determine کرا گیا کہ کونسے ایسے ووٹرز ہیں جو ادھر ادھر ڈگمگا سکتے ہیں، ان کو استعمال کیا گیا۔

ہم واقعی میں ایک شتر مرغ کے 
مانند قوم ہیں جو اپنے ایک ببل 
میں رہنا پسند کرتے ہیں۔۔۔

تو دنیا اس پوزیشن پر پہچ گئی ہے اور ہم ہیں

کہ اس بات پر خوشیاں منا رہیں کہ ہم نے اپنی آرٹلری سرحد پر پہنچادیا ہے، یہ چیزیں سغیہ راز میں رکھیں جاتی ہیں، نہ کہ سوشل میڈیا کی زینت بنائی جاتی ہیں، ورنہ ہم نے خود دیکھا ہے سوشل میڈیا نے کس طرح اپنی پسند نا پسند اور ٹرینڈز کی base پر ٹیم سیلیکٹ کر کے جس طرح ٹیم کا بیڑا غڑق کیا ہے، میں نہیں سمجھتا یہاں ڈسکس کرنا چاہئے، کیونکہ ہمارے بڑے بزرگوں نے یہ بات کہی ہے کہ تول کر بولو نا کہ بول کر تولو، کیونکہ جس طرح کمان سے تیر نکلنے کے بعد کسی کے کنٹرول میں نہیں رہتا، ٹھیک اسی طرح ہمیں بھی ان چیزیں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، جو کہ ہم معذرت کے ساتھ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ اب میں ٹاپک پر پھر سے آتا ہوں جہاں ہم شتر مرغ کی مانند مٹی میں منہ ڈال کر سمجھ رہے ہوتے ہیں، کہ سب بہتر ہے، مگر at the end of the day اس میں نقصان شتر مرغ کا ہی ہوتا ہے، اور یہاں وہ شتر مرغ ہم خود ہیں۔

پی ڈی ایم اور پاکستان میں کھیلا جانے والا ففتھ جنریشن وار فئیر

شرم کا مقام ہے

کیونکہ ہم حالات و حاضرات کو properly analyze کرنے کے بجائے emotional اور sentimental ہورہے ہیں، اور دشمنان کو موقع دے رہے کہ موقع کے فائدہ اُٹھائیں۔

ہماری گندی سیاست

یہاں میں  پی ڈی ایم کی مائنڈ پروگرامنگ کے طریقہ کار پر شک کررہا ہوں، کیونکہ ہماری سیاسی جماعتوں میں یہ قابلیت نہیں کہ سائنٹیفک طریقوں پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کے زہنوں کو بدلیں، اس معاملے میں اس چیز کا قوی امکان ہے کہ کہیں نا کہیں سے ان کو ڈکٹیشن مل رہی ہے کہ ایسا کرو، اس چیز کو اس طریقے کے زریعے عمل درآمد کریں۔ 

کیونکہ

یہ بات بالکل ٹھیک ہے کیونکہ یہ انسانی دماغ کا خاصا ہے انسانی دماغ کو "ماموں" بنانے کے لئے ایک ہی چیز کو کم سے کم ۷ بار یا پھر اس سے زیادہ دفعہ ان معلومات کو narrate کرا جائے تو انسانی دماغ اس پوزیشن پر آجاتا ہے جہاں آہستہ آہستہ accept کرنا اسٹارٹ کردیتا ہے، اور اسی روِش پر آج ہمارا میڈیا (صرف نیوز میڈیا نہیں،تمام میڈیا والے اس میں شامل ہے)، اور اسی وجہ سے ان سب چیزوں کا اثر ہمارے معاشرتی اقدار پر بھی پڑ رہا ہے، کیونکہ ایک طرح کا احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ہے کہ اگر سامنے والے کی بولتی بند کردی تو یہی ہماری جیت ہے، جبکہ سائیکولوجی کے حساب سے cognitive communication کے مقابلے میں indirect communication کا impact زیادہ زور دار ہوتا ہے، یہ صرف شتر مرغ والی Tactic ہے جہاں شتر مڑغ صرف اپنی گردن مٹی کے اندر ڈال کر سمجھتا ہے کہ بچت ہوگئ جبکہ اسکا بقایہ جسم مٹی سے باہر ہوتا ہے یعنی exposed رہتا ہے، مگر اس کو احساس نہیں ہوتا ہے۔

وہی حال ان لوگوں کے ہیں جو احساس کمتری کے احساس کو چھپانے کے لئے بحث کرنے اور زبان چلانے میں عافیت جانتے ہیں۔ اور چونکہ یہ بیماری ہمارے معاشرے میں تحلیل ہوچکا ہے، تو اب پی ڈی ایم لوگوں کے زہنوں کے ساتھ اس حد تک کھیل رہیں ہیں کہ اپنے جلسوں میں پاکستان، پاکستان کی فوج اور فورسز کو اتنی بار گالیاں دو کہ ایک وقت ایسا آئے کہ لوگوں کو برا لگنا ختم ہوجائے۔

چاہے گجرانوالہ ہو، کراچی ہو، لاہور ہو

لاہور میں پنجابیوں کو لتاڑا، کراچی میں اردو بولنے والوں کو سخت الفاظ میں مخاطب کیا، یہ کیا گندا کھیل جارہا ہے؟

ان سب صورتحال کا ultimate beneficiary کون ہے؟

ان سب صورتحال کا beneficiary وہی لوگ ہیں جو پاکستان کے دشمن ہیں، کیونکہ یہ ففتھ جنریشن وار فئیر fifth generation warfare ہے ، جہاں دشمن کا اندازہ نہیں ہوتا کہ کون دشمن ہے، یعنی ذہن میں field of confusion کو create کرنا fifth generation warfare کا صرف ایک حصہ ہے۔

کیا اپنی تقاریر میں لوگوں کو اشتعال دلانا فریڈم آف اسپیچ ہے؟

کیا انسان بھول گیا ہے کہ یہ خصلت کس کی ہے؟ خچر، گدھے،  mule، تو کیا انسان اتنا گیا گزرہ ہوگیا ہے کہ اپنا خود کا comparison اوپر جانور سے کرے؟ کیا آئینِ پاکستان یا کسی بھی ملک کا آئین اس طرح کی ملک مخالف تقریر کی اجازت دے سکتا ہے؟ تو کس وجہ سے ان کو تقریر کی اجازت دی جارہی ہے! کیا یہ کرمینل negligence نہیں ہے ان اداروں کی جو ان سب چیزوں کو دیکھنے اورروک تھام پر معمور ہیں؟؟؟

تحقیق کریں کے تواندازہ ہوگا نا کہ کس طرح اپنے ہی اداروں کی تذلیل کرکے دشمن کو فائدہ دے رہے ہیں

مگر محنت کرنا ہماری طبعیت میں ہی نہیں ہے، اور یہ ہمارے لئے شرم کا مقام ہے۔ کیونکہ انسان کی طبیعیت میں جستجو کا عنصر موجود ہونا چاہئے جو ہم میں نا ہونے کے برابر رہ چکا ہے۔

2021

نیا سال

۲۰۲۱ جنوری کی یکم جمعہ مبارک کو آیا ہے، چونکہ ۲۰۲۰ میں اتنا کچھ سہا ہے اور سب سے بڑی بات دنیا کے سامنے کورونا وائرس کا بھونڈا مذاق prove کرنے میں کامیاب ہوگئے، کیونکہ جیسے میں نے اپنی پرانی پوسٹس میں کہا کہ ہم نے تحقیق کرنے کی عادت ختم کردی اور جس کی بناہ پر معلومات اور تفصیل کو ایک ہی زاویئے سے دیکھنا شروع کردیا ہے، کیونکہ ہمارے سامنے آپشن بھی اتنے کھلے ہوئے ہیں کہ سوچنے کی زحمت بھی نہیں ہے۔

Corona as a showing off cantique

میں ایسا اسی لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ مانتا ہوں کہ یہ وبا موجود ہے مگر اس کی fatality ریٹ سیگریٹ سے کم ہے، صرف ہمارے ذہنوں کے ساتھ کھیلا جارہا ہے اور کوئی بات نہیں، مگر ہم نے چونکہ تحقیق کو پرے رکھ دیا ہے اسی چیز کو یہ میڈیا اور نیوز ویب سائٹس exploit کررہیں ہیں، ورنہ میری ایک بات کو جواب دے دیں، جب ایک بیماری ۲۰ سکینڈ عام صابن سے دھونے پر نکل جاتی ہے تو کیونکر عوام کو ویکسین لگانے کے بہانے چپ لگا کر ہماری individuality، ہماری privacy، اور ہماری زاتیات کی کوئی اہمیت نہیں یہ باور کرایا جارہا ہے؟ کیا یہ سب ہمارا بکائو نیوز میڈیا گائڈ کررہا ہے؟

سونے پہ سہاگا

لوگوں نے بھی کورونا وائرس کو شو آف کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ہے، تمہیں کورونا نہیں ہوا، ہمارے گروپ سے باہر، بصورت دیگر ہمارے ساتھ آو، یہ تو منطق ہے ہمارے لوگوں کی۔ کیا اللہ تعالٰی پر توکل کرنا ہم نے نہیں سیکھا؟ ہمارے neighborhood میں ایک ملک ہے جہاں مبینہ طور پر یہ وبا پھوٹی، اور دوسرا وہ ملک جہاں ابھی تک پہلی لہر چل رہی ہے، مگر ہمارا اللہ تعالٰی پر توکل تھا اسی لئے دنیا کے ممالک کے برخلاف یہاں اتنا نقصان نہیں ہوا، مگر ہمارے پاس کے اسٹیٹس کو کے رویے شرم کا مقام ہے۔

کورونا کا رونا ہمیں ۲۰۲۱ میں بھی سننا پڑے گا

کیونکہ انکل گیٹس نے ایسا کہنا ہے، کیونکہ کیونکہ کیونکہ انہوں نے اپنے rules and regulations کو incorporate کرنا ہے ہے اس کے لئے ڈر کی حکومت ان کی اولین ترجیع ہے، جس کو یا تو آر یا پار مکمل کرنا ہے۔ کیونکہ ڈر کے ہاتھوں کافی چیزیں accept کرلیتے ہیں، کیونکہ acceptance دو ہی چیزوں میں ہوتی ہے ، یا تو ڈر سے یا پھر Adrenaline Rush کی وجہ سے۔

اسی وجہ سے

میں ۲۰۲۱ سے کچھ ذیادہ امید نہیں رکھ رہا ہوں، کیونکہ یہ ہمارے لئے مشکل وقت ہےاور میرا یہ ماننا ہے کہ اس سال کے آخر میں ہم یہی کہہ رہے ہوں گے کہ اس سے تو اچھا ۲۰۲۰ تھا۔

پاکستان میں اسرائل پر بحث بازی اور fifth generation warfare

یہ ایک خطرناک چیز ہے کیونکہ میں تو نیوز میڈیا اس حد تک نہیں دیکھتا کہ اس میں غیر ضروری طور پر اپنا ذہن کو پھنسا لوں، مگر لوگوں کو اس غیر ضروری بحث میں ڈھالا جارہا ہے۔

میں ایسا کیونکر کہہ رہا ہوں؟؟؟

 میں ایسا اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ اس چیز کا تعلق انسانی دماغ سے متعلق ہے، کیونکہ یہ انسانی دماغ کی خصوصیت ہے، کہ وہ چیز جس کو وہ ہمیشہ رد کررہا ہے، اگر۔۔۔ اگر۔۔۔ اگر۔۔۔ ۷ مرتبہ لگاتار یا کسی مستقل بندی کے ذریے ایک ہی بات یا چیز کو بار بار دیکھایا جائے، بولا جائے یا پھر repeatedly کانوں میں سُنا جائے تو اس طرح وہ رَد کرنے کی intensity کم ہوتے جاتی ہے۔

اب ایسے میں۔۔۔

بار بار اور بلاوجہ ایک ایسا ٹاپک جو پاکستان میں غیر معروف ہے (کیونکہ مذہبی بنیاد پر اسرائل کا تذکرا پسند نہیں کیا جاتا ہے) مگر ایک رات پہلے سب نارمل ہو اور یک دم یک مشت کچھ ہی گھنٹوں میں پاکستان میں Hot Topic بن گیا اور ٹویٹر پر Top Trending پر آگیا، آخر کون ہے جو پاکستان میں اس چیز کو accept کرانے کے درپے ہیں؟؟؟

نُور دھری

اب مزیدار بات یہی ہے کہ from nowhere یہ محترم یک دم پاکستانی اسکرین پر نمودار ہوتے ہیں، وہ بھی اپنے آپ کو صیہونی مسلمان کہلانے میں فخر ہے، میرا صرف ایک معصومانہ سوال ہے، کیا کوئی یہودی اپنے آپ کو مسلمانی یہودی کہلانے میں فخر کرے گا؟ تو یہ کیسا مسلمان ہے؟ کیا جو سعودی عرب نے اور متحدہ عرب امارات نے فلسطینی مسلمانوں کی پِیٹھ پر چُھرا گھونپا، مطلب یہی ہے نا کہ مسلمانوں کا identity crisis کا وقت ہے، جہاں مسلمانوں کی ایک شناخت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔

سعودی عرب میں نصاب میں تبدیلی

 کورونا وائرس کی وجہ سے فلائٹ کا نظام فی الوقت proper نہیں چل رہا ہے مگر متحدہ عرب امارات میں ۵۰،۰۰۰ اسرائلی اپنی کوئی تہوار ہناکا منانے پہنچے تھے، مگر سعودی عرب کے ںصاب میں اس حوالے سے pro-Israeli نصاب کو پروموٹ کیا جارہا ہے۔

I Pet Goat II

یہ ایک طرح کا exposition تھا جہاں مستقبلِ قریب اور بعید کے واقعات کو without any sequence یعنی کہ ترتیب کے بغیر randomly بتایا گیا تھا، جیسے کچھ چیزیں جو اس میں بتایا گئیں تھیں جیسے چین اور روس کو (کاپی رائٹ کی وجہ سے شاید میں اس میں سے چیزیں نہ دیکھا سکوں مگر یہاں گوگل کرلیں اور relate کریں کہ کیا ہوچکا ہے اور کیا ہونے کو ہے) اس میںmetaphorically دیکھایا گیا کہ چین اور روس کو بھی آہنی ہاتھ لیا جائے گا، جیسے کہ آپ اس پکچر میں دیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ اس مندرجہ ذیل تصویر میں ہتھوڑا روس کا دیکھایا گیا ہے جبکہ یہ چُھرا چین کو دیکھایا گیا ہے۔
 

عریانیت کا فروغ

یہ چیزہم سب اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں، جس طرح Women Empowerment کے نام پر عورت کو گھر کی چار دیواری سے باہر نکالنے اور attraction کے نام پر عورت کو عریانیت کی جانب مبزول کرایا جارہا ہے، کیونکہ ہمارے معاشرے میں عورت فیملی بناتی ہے، جبکہ عورت کو باہر نکالنے کی بناہ پر یوروپ میں کیا کچھ ہوچکا ہے، ان کا فیملی سسٹم اور فیملی کا سسٹم مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے، مطلب جانوروں والا حال کہ بلی pregnant ہوجاتی ہے مگر بلی کو خود نہیں پتا کہ اس کے پیٹ میں fetus کس بِلّے کا ہے، وہی حال اِن یوروپین کا ہوچکا ہے اور اب مسلمانوں میں بھی یہی چیز کو پروموٹ اس طریقے سے کیا جارہا ہے، کیونکہ پاکستان میں جس طرح Velo Sound System کے نام پر عریانیت کا بازار گرم کیا ہے، جیسے میں نے اِس بلاگ کے اسٹارٹ میں لکھا تھا کہ ایک چیز کو بار بار دیکھائیں گے تو دماغ اُس چیز کو رد کرنا آہستہ آہستہ کم کرتا ہے اور simultaneously دماغ اس چیز کی طلب کو بڑھادیتا ہے، یہ سب نیچرل ہے، اور یہی سب fifth generation warfare کا کچھ حصہ ہے۔

کراچی لاک ڈائون کے دوران

آج دوسری لہر کے آنے بعد کراچی میں لاک ڈائون پر عمل درامد کرایا گیا اور وہ علاقے جہاں آفس سے واپسی میں مجھے ہمیشہ رش کا سامنا ہوتا تھا، آج وہاں مجھے سناٹا دیکھائی دے رہا تھا، جسے کراچی والا ہونے کے ناطے مجھے دیکھ کر بہت دُکھ ہورہا تھا کیونکہ کراچی اپنے لوگوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے، اور آج وہاں کوئی لوگ ہی نہیں تھے۔
میرے نذدیک ورچوئل کرنسی بالکل ویسی ہی ہے جیسے کوئی بھی چیز کہنے کو آپکے پاس موجود ہے مگر اسکی موجودگی ہونے کے باوجود آپ کے پاس موجود نہ ہو، اور کوئی دوسرا یا تیسرا بندہ اس پر اپنا حق جتانا شروع کردے؟ کرنسی اسی Philosophy پر اسٹارٹ کی گئی تھی کہ لین دین مستقل بنیاد پر موجود رہے، اور لین دین Barter سسٹم کی basis پر شروع ہوا تھا کیونکہ لین دین میں دونوں پارٹی جن میں لینے والا اور دینے والا دونوں کا سکون کو مدنظر رکھا جاتا ہے، جو کہ بزنس law کے اسٹوڈنٹس بخوبی سمجھ سکتے ہیں، ورنہ ایک حد کے بعد یہ ransom کی سمت جاتی ہے، جیسا کہ بِٹ کوائین BitCoin کے اوائیل میں کچھ لوگوں نے تاوان کے لئے بٹ کوائین کو استعمال کیا، کیونکہ اس کو trace کوئی نہیں کرسکتا، مگر چونکہ اب ہمارے دماغوں کو اس حد تک پروگرام کردیا گیا ہے کہ اس چیز میں ہمارے دماغ نہیں جاتے اور mentally اس چیز کو ہم نے مان لیا ہے کہ یہی صحیح ہے، جبکہ اسلام کے حساب سے بھی بات کروں تو اسلام میں بھی سونا اور چاندی پر لین دین کا کہا گیا ہے کیونکہ ان چیزوں کی قدر و قیمت موجود ہے، اور جس کے پاس بھی یہ موجود ہوگا، اس کی قدر بھی ہوگی، جبکہ یہاں پیپر کرنسی کا ہمیں یقین نہیں کہ واقعی میں ۱۰۰ روپے کے پیچے اس کے متبادل سونا موجود بھی ہے کہ نہیں، اور کیا یہ ممکن نہیں کہ پیسے کی موجودگی میں ہم سب کنگال ہوچکے ہیں؟ زرا سوچیں۔۔۔

Accepting that 

یہ جوبیماریا ں ہمارے آس پاس موجود ہیں، کیا پہلے موجود نہیں تھیں؟ کیا پہلے ہمارا گلا خراب نہیں ہوا؟ کیا پہلے ایسا نہیں ہوا کہ taste buds نے اپنا کام یعنی taste recognize کرنا چھوڑا ہو؟ یہ کیونکر ہورہا ہے کہ کورونا سے مرنے والوں کو گاڑا جارہا ہے، صحیح طریقے سے تدفین بھی نہیں ہوتی؟ کیا اسکا سیدھا سیدھا مطلب یہ نہیں کہ ڈر کو ہمارے ذہنوں میں بٹھا کر اسی طرح کی جنیاتی تبدیلیاں ہمارے اندر لائی جارہی ہیں جیسے ہمارے سے پہلے کی نسلوں میں آئیں جو ۱۴ ۱۵ فٹ کے دیو ہیکل ہوا کرتے تھے اور آہستہ آہستہ fragile ہوتے ہوتے اس موڑ پر آئے؟ Beneficiary کو دیکھیں کہ انسانوں کو fragile کرکے کون فائدے میں ہے؟ کس کو فائدہ ہو رہا ہے، کون فائدہ اُٹھا رہا ہے اور کس کو کتنا فائدہ دلایا جارہا ہے۔ لوگوں کو شرم آنی چاہئے کہ اب بیماریوں کو بھی status symbol کے طور پر استعمال کیا اور کرا جارہا ہے اور ہمارے ذہنوں میں بھی یہی چیز ہمارے بڑوں کی جانب سے ہم میں ڈالی جارہی ہے۔

Virtual Communication

 اس بیماری کے آنے کے بعد جو سب سے بڑا ٹرینڈ آیا کہ ورچوئل رابطہ کو فروغ دیا جارہا ہے، جو کہ پہلے اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا تھا اور ابھی کچھ مہینے پہلے تک میں خود کہتا تھا کہ far fetched future میں شاید ہم اس جانب دلچسپی دیکھائیں، مگر دیکھ لیں، آفیشلی پاکستان میں ۲۶ فروری کو پہلا کیس آیا، اور آج نومبر کی ۲۶ اسٹارٹ ہونے والی ہے خود دیکھ لیں، ایس سی او سَمِٹ ورچوئل ہوئی، ابھی جی ۲۰ ریاض میں ورچائل ہونے والی ہے، جس سے اندازہ کرلیں یہ سب پری پلان تھا اور ہے۔

کورونا صرف ٹی وی میں ہے

 جی ہاں، کیونکہ جب سے کورونا آیا ہے، میں نے صرف اور صرف ٹی وی دیکھنا بند کیا ہے اور اپنے آپ کو کاموں میں، لکھائی میں، فیملی میں، اپنے آپ کو involve کیا، تو میرا ذہن اس جانب نہیں، جبکہ honestly اس دوران میری طبیعت بھی خراب ہوئی، مجھے اسکین پرابلم بھی ہوئی، زخم بھرنے میں سُستی ہوئی، بخار بھی آیا اور چکر بھی آئے مگر چونکہ میرا ذہن ان خرافاتی خیالات سے مبرہ تھا، اور اللہ تعالٰی پر توکل، تو ان سب چیزوں سے نکل گیا حالانکہ مجھے میرے آفس والوں نے بھی کہا کہ تمہاری آنکھیں اتری ہوئی لگ رہی ہیں، یا تم concentrate نہیں کر پارہے ہو، تھوڑا پاور نیپ لو، مگر چونکہ میرا ذہن صاف تھا، یہی symptoms مجھے بھی کچھ کچھ ہوئے، جیسے ایک دن میں ۳ مرتبہ بخار کا چڑھنا پھر اترنا، اسی لئے اب میرا اس حوالے سے پختہ یقین ہوچکا ہے کہ یہ سارا مائنڈ گیم ہے اور کچھ بھی نہیں۔

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting