Search me

انڈیا چین کی چھپن چھپائی اور جنگ کے نت نئے طریقے

مائکرویو اٹیک


چونکہ ہم نہ کرنے کے برابر تحقیق کرتے ہیں، جبکہ اوپر موجود اسکرین شاٹ پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح perspective development کی جارہی ہے، میں یہاں انڈیا یا چین کی طرف داری نہیں کررہا ہوں مگر میں یہی کہوں گا کہ India is facing the same music which is used to play against its neighbours واقعی میں وقت ایک سا کبھی نہیں رہتا، کیونکہ ابھی کچھ وقت پہلے بھارت پاکستان میں اپنے بند کی وجہ سے جب مُون سُون کی بارشوں میں پاکستان کی سرحد کے برابر میں موجود بند کو کھول دیتے تھے، اب چین وہی کھیل بھارت کے ساتھ کررہا ہے، کیونکہ آج سوشل میڈیا کے بُوم کی وجہ سے لوگوں کے دماغ کو ری پروگرام کرنا ویسا ہی ہے جیسے آپ اپنے اسمارٹ فون میں موجود میڈیا بلیئر کے اندر پلے Play کے بٹن کے ساتھ موجود فارورڈ، فاسٹ فارورڈ کے آپشن کو استعمال کرنے کے برابر ہے، کیونکہ چین اس وقت وہی کھیل کھیل رہا ہے جو کہ بھارت کرتا ہے اور جو منتر Mantra ہے موجودہ جنگی طریقہ کار ہے، کیونکہ آج کے زمانے میں ایک ہی چیز کو متعدد بار اور مختلف طریقوں سے influenced کیا جاتا ہے یعنی metaphorically یہ بالکل ویسی ہی بات ہے جیسے آپ اپنے فون کی بیٹری کو مکمل طور پر استعمال کرکے چارج کرتے ہیں، اور یہاں منتر Mantra چارجر ہے جو اپنی مرضی کے واٹ کے حساب سے چارجز کو تیزی سے آگے پھیلایا جاتا ہے۔

میڈیا اور چارجر؟

جی ہاں! چاہے ہمارا نیوز میڈیا ہو، یا پھر سوشل میڈیا، دونوں ایک طرح سے ایک نارمل سے کوئک چارج چارجر کی مانند ہے، کیونکہ جس طرح ذیادہ پاور کا چارجر ذیادہ طاقت سے اپنا content کونٹینٹ یعنی چارچر کے معاملے میں چرجز اور ions جبکہ میڈیا، جس میں نیوز اور سوشل میڈیا دونوں شامل ہے، ایک طرح سے نئے پاور فل ions کی مانند ہمارے دماغوں میں نئے ions کی مانند نئی acceptance کو ہمارے لئے ضروری بنایا جارہا ہے۔

ہمارا معاشرہ

کیونکہ اگر ہم اپنے آس پاس نظر دوڑائیں جو بے صبری جس طرح امڈ کر ہمارے سامنے نمودار ہورہی ہے، اور چند nano-seconds کو بچا کر لگتا ایسا ہے جیسے کوہِ ہمالیہ کو یا تو سَر کرنا ہے، یا سَر کرلیں گے، جبکہ یہ سب مائنڈ گیم کے علاوہ کچھ نہیں، جبکہ وقت میرے لئے اور آپ کے لئے ایک ہی رفتار سے چل رہا ہے، یہ نہیں ہے کہ ایک بندہ کے لئے ایک رفتار میں وقت چل رہا ہے جبکہ دوسرے کے لئے دوڑ رہا ہے جبکہ وہی وقت تیسرے بندے کے لئے کچوے کی مانند دوڑ رہا ہے، ایسا صرف اِسی لئے ہورہا ہے کیونکہ یہ ایک طریقہ کار ہوتا ہے تاکہ سامنے والے کی attention کو divert کیا جائے، اور دوسری جانب اہمیت کو اجاگر کیا جائے تاکہ ہم اپنے ٹارگٹ کو لاک کرسکیں، کیونکہ اگر آپ نے 3 idiots فلم دیکھی ہے تو بالکل اسٹارٹ کا سین یاد کریں، جس میں چَتُرکے طریقے بتائے جارہے تھے، کہ کس طرح امتحان کو پاس کیا جاسکتا ہے، یا تو خود محنت کریں، یا پھر دوسروں کی attention کو اتنا plagiarized کردیں کہ آپ کے کم مارکس بھی ان سے اوپر رہیں، اور معذرت کے ساتھ ہم یہیں پر اپنی attention کو اِدھر اُدھر کرنے میں مشغُول رہ رہے ہیں، ہالانکہ جلد بازی کا کوئی فائدہ نہیں نہ ہی گدھوں کی طرح بھونکنے میں، کیونکہ کوئی بھی ذی الشعور انسان بِلاوجہ کسی انسان کو بیچ میں نہیں ٹوکتا ہے کیونکہ یہ ایک معیوب حرکت ہوتی ہے جس کو bifurcate کرنا اور اسکو accepted action کے تحت سمجھنا ایک وجہ بالکل ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بے صبری کا عُنصَر کو مزید عیاں کرتی ہے۔ مگر یہی چیز ہمارے معاشرے میں بگاڑ کا ذریعہ ہے کیونکہ جب ہم میں یہ ہمت نہیں کہ سامنے والے کی بات کو پورا سنیں تو ایسے میں معاشرے میں کچھ نہیں ہوسکتا، کیونکہ ایک معاشرہ صرف اسی وقت پنپ سکتا ہے جب ایکسچنج آف آیئڈیاز ہوتے ہیں ورنہ decay mechanism اسٹارٹ ہوجاتا ہے، اور اسی بناہ پر مائنڈ پروگرامنگ ذیادہ آسانی سے ہوسکتی ہے، چونکہ آپ کے اندر سامنے والے کی بات کو مکمل سننے کا حوصلہ نہیں ہوتا، تو ایسے میں اگر ہمارے بڑے بوڑھے اگر کچھ سمجھاتے بھی ہیں تو سمجھتے نہیں ہیں کیونکہ ہم سمجھنا نہیں چاہتے، مگر میں personally صرف نئے لوگوں کو blame نہیں کروں گا، بلکہ ہمارے بڑے بوڑھوں کو بھی equally ذمہ دار ٹھانوں گا، کیونکہ ہمارے آج کے بڑے بوڑھے showing off کی جانب ذیادہ راغب ہوچکے ہیں، جیسے آج کورونا آیا ہے تو فیس ماسک جس کو جنوری ۲۰۲۰ سے پہلے منہ پر لگانا گوارہ نہیں کرتے تھے، آج یعنی ۱۰ پہینے بعد اپنی ضرورت بنالی ہے، ورنہ کیا کراچی میں دھول مٹی جنوری ۲۰۲۰ سے پہلے موجود نہیں تھی؟ کیا کورونا کو ذمہ دار مان کر ہمارے کچھ بڑے بوڑھوں نے جمعہ کی نماز جس کو جنوری ۲۰۲۰ سے پہلے ہم بڑے اہتمام سے تیاری کرتے تھے، آہستہ آہستہ تکریم کھوئی جارہی ہے؟ 

بچے اپنے بڑوں کو follow کرتے ہیں

 ہمارے بڑوں کو بھی یہ بات سمجھنی چاہئے کہ بچے ان کے ایکشن کا ری ایکشن کرتے ہیں، جو وہ آج کریں گے، وہی یہ بچے اپنی آنے والی نسلوں تک پہنچائیں گے، تو ایسے میں کیا آج ہمارے معاشرے میں جو unrest ہے، اسکے ذمہ دار ہم سب نہیں؟

اسکا بھارت چین سے کیا مقابلہ؟

بات مقابلے کی نہیں ہے، بات مائکرو اور میکرو لیول analysis کی ہے، کیونکہ مائکرو لیول یعنی میرے اور تمہارے لیول پر جو چیزیں ہورہی ہے، اسی کا رپل ایفیکٹ ripple effect ملکوں کے لیول پر دیکھ رہے ہیں، اور اگر مذہبی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ شاید وہی زمانہ ہے جہاں علم اُٹھالیا گیا ہے اور معلومات کا سمندر موجود ہے، مگر جب تک ہمارا دماغ کلئیر نہیں رہے گا، اور ذہن میں clarity موجود نہیں رہے گی، ہم چراغ تلے اندھیرے کی مانند ہی رہیں گے، یعنی چیز ہمارے سامنے ہی موجود رہے گی مگر چونکہ ہمارا زاویہ اور دیکھنے کا نظریہ ٹھیک طرف نہیں ہے، اسی لئے ہم بذات خود کنفیوژن کا شکار ہیں۔ اور اوپر چین-بھارت کا اسکرین شاٹ دینے کا مقصد یہی تھا کیونکہ ایک طرح کا زاویہ کو پراگندہ کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے، کیونکہ جب انڈیا 5th level hybrid warfare کے تحت اس طرح کنفیوژن بناتا ہے، کہ ایک ہی نیوز کو مختلف زویے سے ری لے relay کرکے لوگوں کے ذہن کو پروگرام کرتے ہیں، کیا چین، امریکہ/امریکا، روس اور دوسرے ممالک دودھ کے دھلے ہوئے ہیں؟ کیا مندرجہ بالا ممالک نے پروپگینڈہ کو بطور طاقت استعمال نہیں کیا ہے؟ کیا ٹرمپ کے الیکشن کے وقت روس نے ٹرمپ کے لئے پی آر نہیں کی تھی؟ کیا ٹرمپ کے الیکشن کے وقت لوگوں کی سوشل تفصیلات کو استعمال نہیں کیا گیا تھا جیسے پسند ناپسند اور کیا یہ کنفیوژ ووٹر ہے یا نہیں؟ کیونکہ یہاں کنفیوژ ووٹر سے مراد وہ ووٹر ہیں جنکو تھوڑی سی شہ دینے پر اپنا ذاویہ اور نظریہ بالکل تبدیل کرلیتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے ہیلری کلنٹن اور ٹرمپ کے الیکشن میں جہاں لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کیا گیا اور الیکٹورل ووٹنگ میں یک مشت ہیلری کلنٹن جیتنے کی پوزیشن سے ہارنا اسٹارٹ ہوگئیں۔

اسکا حل؟

میرے نذدیک تحقیق اسکا بہترین حل ہے، کیونکہ آج میڈیا اتنا کھل چکا ہے کہ virtually divide and rule کے نقشے پر چلا رہے ہیں، کیونکہ ہمارے نظریہ unattended رہے ہیں، ہمیں کنفرم نہیں ہے کہ کیا ضروری ہے اور کیا نہیں ہے، اور اگر کچھ ضروری بھی ہے تو کیونکر ہے اور کتنا ہے، اس کے بجائے ہم نے اپنے مائنڈ یعنی ذہن کو اوپِن رکھا ہے، جبکہ ہمیں ایک فرم اسٹانس firm stance رکھنا چاہئے، کیونکہ تحقیق کے بعد اس پر مستقل طور پر ایپلیکیشن وقت کی اور خاص طور پر اس زمانے میں اہم ضرورت ہے۔

لائن آف actual کنٹرول، لائن آف کنٹرول اور پاکستانی سیاست + سیاستدان

پاکستان کی سالمیت، ہمارے سیاستدان، ہمارے نیوز اینکرز

پہلے تو یہ ہے کہ میں اپنی  work-life management کی وجہ سے اپنی اس بلاگ پر ذیادہ ٹائم نہیں دے پارہا ہوں جس کے لئے معذرت خواہ ہوں، مگراس کی وجہ سے مجھے پاکستان سے متعلق کچھ مٹیرئل پر تحقیق کرنے کا موقع ملا، کیونکہ لیپ ٹاپ کھول کر ان چیزوں کو بغور نوٹ کررہا تھا، کیونکہ پاکستان میں معذرت کے ساتھ observe and record کا concept نہیں ہونے کے برابر ہے، جو کہ ہمارے آباو اجداد بخوبی کرتے تھے اور آج کے زمانے میں اس کو ریکارڈ کیپنگ اور ریسرچ پیپرز کے نام سے بھی جانا چاہتا ہے، اور یہ میں نہیں کہہ رہا مگر آپ اپنے شہر یا علاقے کی لوکل لائبرری میں جائیں اور کسی پاکستانی کا ریسرچ پیپر ڈھونڈ کر دیکھا دیں، چلیں آپ کی آسانی کے لئے آپ انٹرنیٹ کی سہولت بھی لے لیں، اور پھر بھی ڈھونڈ کردیکھا دیں۔

اسی وجہ سے

میں اپنے ملک کے میڈیا کو bash کرتا ہوں کیونکہ ہمارا میڈیا کو ہم ہمارا کہتے ہیں مگر معذرت کے ساتھ ہمارا میڈیا ہمیں اپنا نہیں سمجھتا بلکہ ان میڈیا ہاوسز کے اپنے مفادات ہیں، جو کہ بذات خود سیاسی مفادات ہیں، کیونکہ ہمارے سیاست دانوں نے ملکی مفادات کے برخلاف اپنے سیاسی مفادات کو ذیادہ اہمیت دیتا ہے۔

جیسا کہ ابھی دو مہینے پہلے

یاد کریں، ایک زمانہ تھا، بھارت نے کچھ ہی دن پہلے لداخ کھویا تھا، وہی جگہ جہاں 3 Idiots کا آخری سین شوٹ ہوا تھا اب چین کے قبضہ میں ہے، انڈیا اور انڈیا کا میڈیا اسی بات کا *** رونا لگایا ہوا تھا، مگر یہاں ہمارے اسپورٹس اینکرز آئی پی ایل پر 1.5 گھنٹے کی پوڈکاسٹ کرتے بیٹھے ہوئے تھے، جس پر ہمیں یو ٹیوب پر یہ سننے کو مل رہا تھا، کہ تمہارے میڈیا والے تمہارا نیشنل ٹی 20 ٹورنامنٹ کو سپورٹ کرنے کے بجائے ہماری آئی پی ایل کو سپورٹ کررہے ہیں، جو کہ ہم پاکستانی ہونے کے ناطے ہمارے لئے شرم کا مقام ہے، کیا اپنے ملک اور ملکی مفاد کو اہمیت دینا کیا بیوقوفی ہے؟ کیا سوچ کر یہ میڈیا والے جن کو ملکی patriotism  کو پروموٹ کرنے کے اور ہمارے دلوں میں ملکی حرمیت کو مزید تازہ کرنے کے پروگرامز کرنے کے، انڈیا کے کونٹینٹ کو پاکستان میں acceptance کے لئے بار بار یہ کونٹینٹ ہمارے سامنے متعدد بار لانا کسی warfare کا شاخسانہ نہیں؟

ایک چیز بار بار دیکھانا؟

اگر آپ میرے بلاگ پر پرانے پوسٹس پر نظر ڈالیں، تو یہ چیز میں نے بتائی ہے کہ انسانی دماغ کی خصوصیت اور خامی دونوں ہے کہ ایک چیز کو اگر بار بار دیکھائی جائے، تو بالاخر عین ممکن ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا، کہ یا تو ہار مان جائے گا، یا accept یا دونوں کرلے گا، جس کے لئے جب میں نے 5th generation warfare کے tools کو analyze کیا تو اس میں یہ بھی تھا کہ سامنے آئے بغیر یعنی اپنی خود کی فورس کو expose کئے بغیر home grown proxies کو استعمال کئے جائیں، جیسا کہ ہمارے پاس ہمارے اپنے اسپورٹس اینکرز اور وی لاگرز نے انڈین کونٹینٹ کو پاکستان میں سپورٹ کرکے کیا۔

اسپورٹس اور سیاست؟

اور اسکے بعد نواز شریف صاحب پاکستانی ٹیلی وژن اسکرین پر نمودار ہوتے ہیں، اور بتاتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو یعنی چور چوری نہ  کرنے کے طریقوں کو explain کرنے لگ جائیں، اس کے مصدق نواز شریف صاحب آتے ہیں، مطلب اپنی سیاست کرنے کے لئے میڈیا کو خرید کر ایسا کنٹرول کرنا بے شک نواز شریف صاحب کی سیاست کا tactic ہے، کیونکہ میڈیا کے ہاتھ میں یہ طاقت ہے کہ لوگوں کی mind programming کرے، جو کہ بھارتی نژاد پاکستانی میڈیا بخوبی کررہا ہے، کیونکہ محترم ایاز صادق صاحب کے بیوقوفی مصادق انڈیا مزید شیر بنا، اور اس واقعہ کے اگلے دن ریپبلک ٹی وی پر میجر گورو آریا نے پاکستان کو کھل کر جو دھمکی دی اور جو زہر اگلا، اس کو پاکستانی میڈیا نے کیش کرنا چاہئے تھا، جو کہ پتا نہیں کیونکر پاکستانی میڈیا کس مصلحت کے ماتحت خاموش رہی بلکہ اس دوران میڈیا پی ڈی ایم کو کووریج دینے میں اپنا خون پسینہ ایک کیا، جبکہ پردے کے دوسری جانب ایف اے ٹی ایف میں بھارتی صحافی پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں نا ڈالنے پر سوالات کی  بوچھار کررہے تھے اور یہ میں نہیں کہہ رہا مگر ہمارے صحافی اور نیوز اینکرز اس حوالے سے ہمیں گمراہ کرنے کے لئے ٹویٹر پر ٹرینڈز اور ٹویٹ کرنے میں ہی اپنی ذمہ داری سمجھ رہے تھے۔ تو ایسے میں اگر میں پاکستانی میڈیا کو اگر میں بھارتی نژاد پاکستانی میڈیا کہوں تو میرا نہیں خیال کہ اس میں کچھ غلط ہے۔

ان لوگوں کی وجہ سے

اب یہ صورتحال ہے کہ وہ صورتحال جہاں پاکستان ۷۴ سالوں میں پہلی بار بھارت پر مستقل طور پر انڈیا پر پریشر رکھ سکتا تھا، اب بھارت-چین کے جھگڑے میں عبداللہ دیوانے کے موافق پراکسی بن چکا ہے، ایک دھماکہ پاکستان میں کوئٹہ میں ہوچکا ہے، اور چین بھی ایک طرح سے کنفیوژن میں ہے کہ پاکستان کیا ہماری سپورٹ ہے یا زحمت، کیونکہ ہمارے ان غدار سیاستدانوں اور نیوز اینکرز کی وجہ سے جنگ کا ایپی سینٹر epicenter گھوم کر پاکستان کی جانب ہوچکا ہے۔

امریکی الیکشن اور بلیک واٹر

کیونکہ بلیک واٹر کو head کرنے والے وہی ٹیم تھی جو صدر اوبامہ کے ادوار میں ہوا کرتے تھے، اگر آپ ماضی میں جائیں تو وہاں جو بائڈن ہی دیکھیں گے جو ان چیزوں کو head کررہے تھے، بلکہ اگر آپ مزید یاد کریں تو وزیر اعظم گیلانی کو کس نے ڈانٹا تھا کہ یہ سننے کے لئے تمہیں حکومت دی تھی کہ تم یہ کہو کہ اسٹیبلشمنٹ کرنے نہیں دے رہی؟ کیا یہ سننے کے لئے تمہیں این آر او دلوایا تھا؟ تو اسی وجہ سے کوئی بعید نہیں کہ وہ چیزیں جو ٹرمپ کے دور میں رکیں تھیں، وہیں سے دوبارہ اسٹارٹ ہوگا، اس پر سونے پہ سہاگہ ہمارا بھارتی نژاد پاکستانی میڈیا سے اس حوالے سے کوئی امید رکھنا بلی سے دودھ کی رکھوالی کرنے کے مترادف ہے۔

میڈیا کو لگام لگاوٗ 

ان چیزوں سے نکلنے کے لئے پہلے پہل میڈیا ہاوٗسوں کو لگام لگائیں، کیونکہ ان میڈیا والوں کی وجہ سے پاکستان کاز کو بہت نقصان ہورہا ہے، اور جب تک ان لوگوں کو لگام نہیں لگائی جاتی مسئلہ حل نہیں ہوگا، کیونکہ کسی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مسئلہ کی بنیاد اور root cause کو سمجھنا ذیادہ ضروری ہے، کیونکہ جب تک مسئلہ کے root cause کو نہیں سمجھا جاتا، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

5th generation warfare اور پاکستانی سیاست

یہ کیا بلا ہے؟

یہ بلا وہی ہے جو as a  قوم ہم میں موجود ہے، یعنی ایک چیز کو دوسرے کے  اوپر اتنا تھوپنا کہ سامنے والا اُسی کو سچ سمجھنا شروع کردے، warfare اسی لئے کیونکہ اس میں وہ طور طریقے موجود ہیں جن کی وجہ سے سامنے والے کی سوچ کو اپنے قبضہ میں لیا جاسکتا ہے۔ 

ذیادہ دور نہیں

کچھ سال پہلے اگر اپنی یاداشت لے جائیں جب ڈونلڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن آپس میں الیکشن کے لئے ایک دوسرے سے compete کر رہے تھے، تو جب اس زمانے میں وہاں کے میڈیا نے ہیلری کلنٹن کو شیطان کا چیلا کہہ کر indirectly ٹرمپ کو وہی فائدہ ہوا تھا جو آج ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائڈن کو ملا، کیونکہ وہاں کے cognitive عناصر اس وقت ٹرمپ کو سپورٹ نہیں کرنے کے موڈ میں ہیں۔

پاکستانی میڈیا

پاکستانی میڈیا اس وقت وہی گیم کھیل رہا ہے، یعنی انفارمیشن کو اتنا کھول کر بتاوٗ کہ سامنے والے کے ذہن میں کنفیوژن آجائے، کیونکہ یہی قوم تھی، جو نواز شریف کے زمانے لوگ نواز شریف سے نالاں تھے مگر آج وہی لوگ ووٹ کو عزت دو کی رٹ لگائی ہوئی ہے، میرا یہ کہنا ہے کہ مسئلہ میڈیا کا نہیں ہے، کیونکہ میڈیا صرف چیزوں کو blindfolded کررہا ہے، مگر ان چیزوں کو analyze کرنا کس کا کام ہے؟ میڈیا اپنا کام کررہا ہے، مگر ان کو موقع کون دے رہا ہے؟

ہمارا میڈیا

 آفرین ہے ہمارے میڈیا پر، جو لوگوں کی نفسیات کو utilize کرتے ہوئے نیوز اینکرز کو اس طرح سے portray کرایا گیا ہے کہ نا چاہتے ہوئے بھی نیوز دیکھنا اسٹارٹ ہوجاتے ہیں، اور اسی بناہ پر ٹی وی چینلز کو ٹی آر پی کی مد میں فائدہ ہوتا ہے، اور اسی نفسیات کی بناہ پر جب سامنے والا بندہ ٹی وی کے سامنے بیٹھنا اسٹارٹ ہوجائے تو اس کا مائنڈ کو ری پروگرام کرنے کے لئے ایک ہی چیز کو متعدد بار اور مختلف طریقے سے دیکھا کر سامنے والے کے ذہن میں acceptance لایا جاسکتا ہے! کیونکہ جس طرح کی ان لوگوں کی ھیڈ لائن ہوتی ہے، اردو میں جسے شہ شرخی کہی جاتی ہے، نا کہ یہ کہ ھیڈ لائن میں ہی نیوز کو اتنا کھول دو کہ نیوز کی تفصیل میں ہم صرف نیوز اینکرز کو دیکھنے میں لگے ہوئے ہوتے ہیں، یعنی ساری نیوز آپکو نیوز ھیڈ لائن میں فراہم کردی گئی ہے، آگے فیشن شو چلے گا۔

نیوز میڈیا والوں کا ایجنڈہ

یہ ایک طرح کا اوپن سیکرٹ open secret ہے، کیونکہ اب تو یہ بات کھل کر discuss کی جارہی ہے کہ کونسا نیوز میڈیا کس سیاسی جماعت کی ملکیت ہے، جو کہ ایک بہت ہی بڑا بمر bummer ہے کیونکہ پاکستان کا نیشنل میڈیا ہونے کے ناطے ملکی مفاد کا خیال رکھنا اور سیاسی مفادات سے اوپر رکھنا ان کی اولین ذمہ داری ہونی چاہئے، ناکہ پی ڈی ایم جلسہ کو اتنا بڑھاوا دینا کہ ان کی ہمت ہوجائے کہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف بولنا، اور ہمت دیکھیں کہ پہلے پہل پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کے بعد گلگت-بلتستان کی عوام کے سامنے میٹھا میٹھا بولنا اسٹارٹ ہوگئے ہیں، مگر یہ دیکھیں کہ ان سب چیزوں کا فائدہ کون اُٹھا رہا ہے؟ انڈیا۔۔۔

میں پی ایم ایل این کو سپورٹ نہیں کررہا مگر

میڈیا والے بھی ایاز صادق کا بیان سے پہلے کی situation عیاں نہیں کی، کیونکہ اگر آپ اس متنازعہ بیان سے پہلے کے حالات بھی بیان کریں کیونکہ اس بیان سے صاف اندازہ یہی ہورہا تھا کہ کسی کو جواب دیا جارہا تھا، بیشک ایاز صادق صاحب کو بھی سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے تھا، کیونکہ کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی ضرب پر CTRL+Z کا آپشن نہیں ہوتا ہے، اگر آپ یہ بول رہے ہیں کہ بیان سیاسی تھا، تو سیاست میں کیا اس بات کی اجازت ہوتی ہے کہ جو منہ میں آئے repercussions کو نوٹ کئے بغیر بھونک دیں؟

بول کر تولنا یا تول کر بولنا

جو چیزوں کا رونا دھونا اس وقت پی ایم ایل این والے کہہ رہے ہیں کہ کسی دوسری سیاسی جماعت جو کہ یقیناََ پی ٹی آئی تھی، کو کہہ رہے تھے، اسی بیان کی وجہ سے اب دیکھیں بیرون ملک انڈیا میں ہمارے ملک کے خلاف پروپگینڈہ میں مزید تیزی آگئی ہے، پہلی بات تو یہ ہے پی ایم ایل این سے متعلق کہ جو اسٹیبلشمنٹ سے متعلق یہ لوگ کہہ رہے ہیں، پوری دنیا کی اسٹیبلشمنٹ more-or-less ایسی ہی ہوتی ہے، اسی لئے اپنی تیاری پوری رکھا کریں، کیونکہ ابھی امریکی الیکشن میں ہم سب نے دیکھا ہے کہ اگر آپ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا ہوں تو کیا ہوتا ہے اور نہ ہو تو کیا ہوتا ہے۔

دوسری بات، اگر آپ میرے بلوگ آرٹیکل کو بغور پڑھیں تو میں نے نظریہ اور identity کی بات کی تھی جو ہم نے کھوئی ہے اور بھارت نے حاصل کی ہے، کیونکہ ایسے کچھ واقعات ہوئے ہیں off late جن سے یہ چیزیں عیاں ہورہی ہیں، پہلا سعودی عرب کا ۲۰ ریال کا نوٹ جہاں چلیں مان لیتے ہیں کشمیر ابھی پاکستان کا حصہ نہیں مگر کس خوشی میں گلگت بلتستان کو بھی پاکستان سے الگ دیکھایا گیا؟ اور چلیں مان لیا ہوگیا، برادر اسلامی ملک ہے، (ویسے میرا اسلامی اور برادر دونوں سے اختلاف ہے) مگر جس طرح بھارت نے react کیا کہ کس طرح آپ نے کشمیر کو آزاد دیکھایا ہے، کیا پاکستانی میڈیا نے اس چیز کو اجاگر کیا؟ ہمارا بے شرم میڈیا اس چیز کو اجاگر کررہا ہے کہ نئے نوٹ کی وجہ سے بھارت کی چیخیں، جبکہ انڈیا کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ نہ دیکھانے کی وجہ سے احتجاج کیا تھا جبکہ یہ احتجاج ہمیں کرنا چاہئے تھا، کیونکہ emotionally اور geographically کشمیر پاکستان کے لئے اہم ہے۔ 

ایاز صادق صاحب کا سیاسی بیان

ہمارے سیاستدانوں کو بھی اگر اپنے آپ کو جانے مانے سیاستدان کہلوانےکا شوق ہے، تو زبان پر لگام رکھنا بھی سیکھیں، صرف اس ایک بیان کی وجہ سے اب بھارت دوبارہ شیر بن گیا ہے اور اس بیان کے اگلے دن میجر گورو آریا کا پاکستان کو کہنا کہ ۱۵ دن میں بلوچستان کے حالات دیکھنا کسی دھمکی سے کم نہیں، اور یہ ہمت کس نے دی؟ ایاز صادق صاحب کے صرف ایک سیاسی بیان نے، ویسے تو انڈیا بھی اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرنے میں کم نہیں، مگر ہمت ان کو ہمارے ہی سیاستدانوں نے دیا، کیونکہ انڈیا چانکیا کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے کنفیوژن اور دھوکہ دہی پر عمل کرتے ہیں، کیونکہ جس طرح گھر میں گھس کر مارا کو propagate کیا، ہمارے سیاستدانوں کو سمجھنا چاہئے کہ بولنے سے پہلے سوچ لیا کریں، کیونکہ جتنا برداشت کرسکتے ہیں اتنا بولیں، ورنہ خاموشی سے اپنے آپ کو پہلے طاقتور کریں پھر بھڑکیاں ماریں، یہاں ہم کاسمیٹک چیزوں پر انویسٹ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting