یہ اچھا وقت نہیں کہ میں ایسا کہوں کہ یہ سب اچھا ہورہا ہےمگر پاکستانی حکومت اپنی پی آراستعمال کررہی ہے اور انٹرنیشنلی جواب مانگ رہی ہے کہ جب آپ لوگوں کو ہماری ضرورت تھی تو جب ہمیں آپ کی ضرورت تھی تو جب آپ کہاں تھے؟؟؟ ہماری پچھلی حکومتوں میں یہ اخلاقی جرات نہیں تھی۔
پہلے میں مندرجہ بالا اسکرین شاٹ کو ڈسکس کروں گا، جہاں حکومت برطانیہ نے ای سی بی کے decision کو بیک نہیں کیا ہے، خاص طور پر جب ہائی کمیشنر اگر اسلام آباد میں بیٹھ کر یہ لائن بولے تو ای سی بی کہاں بیٹھی ہوئی ہے؟
میں جب اپنا آرٹیکل لکھنے کے لئے یہ آرٹیکلز کاanalysis کررہا تھا، تو پاکستان نے سب سے ذیادہ away ٹورز کئے ہیں، اس میں ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے ہوم گیمز بھی اوے گیمز رہے ہیں، کیونکہ statistics کی مانوں تو پچھلے ۱۸ مہینوں میں پاکستان نے ۳۵ گیمز کھیلے اور پاکستان کے بعد جو دوسرا نمبر تھا وہ آسٹریلیا تھا جس نے اسی ٹائم پیریڈ میں ۲۴ گیمز کھیلے تھی، مگر ان ۱۸ مہینوں میں پاکستان نے دو بار انگلینڈ کا ٹور کیا، نیوزی لینڈ کا ایک، جنوبی افریقہ اور زمبابوے اور آخر میں ویسٹ انڈیز کا ٹور کیا جس کے بعد پاکستان کا مصروف ہوم سیزن تھا، جس میں سے دو سیریز میں سے ایک سیریز کو تو ختم شد سمجھیں اور دوسری ہوم سیریز کو بھی goner سمجھیں، بلکہ آنے والے ٹائم میں آسٹریلیا سے بھی وہی امید ہے جو نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے پیش کیا، مگر جس طرح پاکستان نے کرکٹ دوستی کا حق ادا کیا، مگر اس کے متبادل میں کچھ زیادہ امید رکھ لی تھی، جس کو ٹھیس پہنچی ہے۔ مگر میرا اب یہی کہنا ہے کہ پاکستان کو اب بیک اپ پلان کی جانب جانا چاہیئے بالکل ویسا ہی جیسا جنوبی افریقہ نے اپنے ڈومیسٹک کو ڈیویلپ کیا، کیونکہ میرے نذدیک یہی حل ہے، کیونکہ یہاں پاکستان کرکٹ as a product بات کررہا ہوں، بالکل ویسا ہی جیسے آپ کسی سوپر مارکٹ جاتے ہیں، جیسے میں جاتا ہوں تو مجھے چونکہ ایک particular برینڈ کا شیمپو suit کیا ہے تو میں اسی برینڈ کی جانب جاؤں گا، حالانکہ وہاں ہیڈ اینڈ شولڈرز بھی ہوگا مگر میں اپنے برینڈ کی جانب جاؤں گا کیونکہ میں اپنے برینڈ کو ٹیسٹ کرچکا ہوں۔
اس mentality کے لئے ضروری بھی ہے
کہ ہم اپنے home grown technicians، براڈکاسٹرز، ٹیکنیکل ٹیمز وغیرہ اور ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کو عزت دینا سیکھیں کیونکہ جب آپ ان ہنر مندوں کو عزت دیں گے تو ایک ایکو سسٹم بھی بنے گا، اور نتیجہ میں انویسٹرز یہاں بھی انویسٹ کرے گا، ورنہ پاکستان میں ۲۰۰۹ کے بعد سے یہی ہورہا ہے کہ ریڈی میڈ ٹیمپلیٹ کو اٹھا کر پاکستان کے ہوم گیمز میں انکارپوریٹ کردیا جاتا ہے، جبکہ ہمیں اپنے ہوم گرون ٹیمپلیٹس کو استعمال کرنا چاہئے، مگر معذرت کے ساتھ جو ہم نہیں کررہے ہیں کیونکہ ہم میں ٹرولنگ کی اتنی گندی گند آچکی ہے کہ ہنر مند اور ششکے بازوں میں فرق کرنا بھول ہی گئے ہیں، بالکل ویسے ہی، جب ہم فرئیر ہال کراچی کے پاس سے شام میں گزرتے ہیں تو کافی لوگ ٹک ٹاک بناتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں، کیونکہ ہم نے ان لوگوں کا مذاق اُڑایا ہے جو ہمیں constructive activities کی جانب لا سکتے تھے، جو کہ نہیں ہے تب ہی ہم ٹرولنگ کی جانب مبذول ہوئے ہیں، اور اب میراثی بننے کی تیاری ہے، بات ساری ذہنیت کی ہے۔
اس کے بجائے کہ ان لوگوں کے پیچھے بھاگیں، پہلے اپنی کرکٹ اکانومی بنائیں، I am quoting Ramiz Raja دبئی لاہور سے 1.5 گھنٹہ دور ہے مگر یہاں سے بھاگ کر وہاں ببل environment میں خوشی خوشی جارہے ہیں، یہی کرکٹرز جب پی ایس ایل میں آتے ہیں، تب بھی مسئلہ نہیں ہوتا، تو ایسے میں، میں اس نتیجہ پر پہنچ رہا ہوں کہ اگر آپ کی کرکٹ اکانومی جس میں پریزنٹیشن، پروڈکشن، مارکٹنگ، اسٹریمنگ وغیرہ اس کے کچھ حصے ہیں، مگر جب آپ کی کرکٹ کے یہ aspect پاور فل ہوں گے، تو یہی آپ کو revenue کو generate کرکے دیں گے، اور جب revenue جینیریٹ ہوگا تو آپ کی پروڈکٹ میں پیسہ آئے گا، اور جب پیسہ آئے گا تو یہ لوگ اپنی لنگوٹ چھوڑ کر آئیں گے، پھر چاہے ۵ آئی ہو، ۶ آئی ہو یا ۱۰ آئی، یہ لوگ بالکل ویسے ہی آئیں گے جیسے آئی پی ایل کے لئے یہ لوگوں نے نیشنل ڈیوٹی چھوڑی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں