یہ ایک انگلش ٹرم ہے، جس کا استعمال کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی چیز ہونے سے پہلے ہی معاملات کو حل کیا جائے، اور عام طور پر proactively مسئلے کو حل کرنے کے لئے یہ ٹرم استعمال کی جاتی ہے جہاں کوئی بھی چیز ہونے سے پہلے ہی ختم کی جائے۔ اور یہ چیز ایک طرح کی تربیت کے طور پر اجاگر ہوتی ہے، کیونکہ جیسے میں نے اپنی پہلے کے آرٹیکل میں یہ بات کہی تھی، اور ہمارے آباؤ اجداد اس چیز کا بخوبی خیال رکھا کرتے تھے، کیونکہ اس زمانے میں چاہے کوئی قاضی ہی کیوں نہ ہو، روز مرہ کی زندگیوں میں کام آنے والی چیزوں/ہنر بھی سکھانے پر بھی emphasis رہتا تھا، کیونکہ آج کے زمانے کے حساب سے چیزوں کا مشاہدہ کریں گے، تو آج ہمارے معاشرے میں نا امیدی اسی وجہ سے موجود ہے، کیونکہ اگر پچھلے زمانے کی یہ ایکسر سائز کو نوٹ کریں تو اسی لئے کیا جاتا تھا کیونکہ انسانی سائیکولوجی ہے کہ کوئی یا کسی چیز کا متبادل نہ دیکھائی دے، تو جلدی نا امید ہوجاتا ہے، اور اگر آج کے زمانے کے تناظر میں دیکھیں تو ہمارے معاشرے میں صبر و شُکر کی کمی کا ایک reason یہ بھی ہے، کیونکہ اگر متبادل کی غیر موجودگی میں ہی یہ desperation کا عنصر عیاں ہوتا ہے، جو کہ ہمارے آج کے معاشرے میں خاص طور پر کراچی کے معاشرے (کیونکہ میں دوسرے علاقوں کی تصدیق نہیں کرسکتا) میں بے سکونی کی کیفیت کا ایک وجہ یہ بھی ہے۔
تو یہ میں یہاں کیوں استعمال کررہا ہوں؟؟؟
کیونکہ ملکوں کی صورتحال یک دم خراب نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک چین ری ایکشن ہوتا ہے، جو کہ پاکستان کے کیس میں ۵۰ سال پر محیط عرصہ ہے کیونکہ ۵۰ سال پہلے جو چین ری ایکشن ہوا تھا، اس کے ثمرات آج ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں، اسی لئے ابھی بھی اگر ہم یہ ٹرم کو استعمال کررہے ہیں، تو آئندہ آنے والے کم سے کم ۵ سالوں میں آج کے کاموں کے اثرات دکھیں گے، کیونکہ معذرت کے ساتھ ہم نے بحیثیت قوم ویسے ہی ہم نے بہت وقت ضائع کیا ہے۔
چونکہ وقت ضایع کرنا ہمارا قومی مشغلہ ہے، اسی وجہ جیسے ہم انگریزی میں ایک ٹرم استعمال کرتے ہیں، On the Brink of Eleventh Hour ہم آفس اور اسکولوں کے لئے نکلتے ہیں، یعنی پہنچنا ۹ بجے ہے اور رستہ اگرچہ ۲۰ منٹ کا ہے تو پورا پورا ۸:۳۰ بجے کے بعد نکلتے ہیں، جس پر میں قصور ٹرانسپورٹ والوں کا بعد میں ہے، پہلے بحیثیت قوم، ہمارا ہے، کیونکہ ہم میں شعور نہیں ہے، جبکہ یہی قوم جب باہر کے ممالک میں جاتی ہے تو فی الفور شعور آجاتا ہے، کیونکہ ہمارے ملک میں rules and regulations بالکل موجود ہیں، مگر اس کی implementation کو make sure کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟
میں یہاں حکومتی نمائندہ نہیں ہوں، بلکہ ایک کراچی والا ہونے کے ناطے کہہ رہا ہوں، کیونکہ ہماری ذمہ داری میں صرف نوکری کرنا نہیں ہے بلکہ سماجی ذمہ داری بھی ہم پر لاگو ہوتی ہے اور ہونی چاہئے، کیونکہ پہلے زمانے میں عوام میں یہ سماجی شعور ہوا کرتا تھا، بلکہ اس کو اپنی سماجی ذمہ داری سمجھتے تھے، جس کی آج بھی کچھ نہ کچھ اثرات موجود ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف اور صرف اپنا سوچ رہے ہیں، میں یہاں یہ فضول کی بحث میں نہیں پڑھنا چاہتا کہ عمران اچھا ہے، نواز شریف بہتر تھا یا ذرداری ہمارے واسطے ذیادہ اچھا تھا، مگر بات یہی ہے کہ بات ڈیمانڈ اور سپلائی کی ہے، اور جو ہماری ترجیحات ہوں گی، وہی ہماری ڈیمانڈ ہو گی، اور ڈیمانڈ ہمارے شعور پر depend کرتے ہیں، اور اسی بناہ پر ہماری demands ہوتی ہیں، اب معذرت کے ساتھ اگر ہماری ترجیحات اگر ٹھرک پن ہو نہ کہ میونسپل سروسز، ٹرانسپورٹیشن، رہن سہن وغیرہ، تو معذرت کے ساتھ ہمارا یہی حال ہونا ہے۔
گوروں نے ہمارے پاس کا وظیفہ کا concept کو adopt کیا، اور اپنے پاس سوشل سروسز نمبر کے نام سے اپنے پاس introduce کرایا، جو کہ بالکل ہمارے پاس کا زکوٰۃ اور وظیفہ کے کانسیپٹ پر based کرتا ہے، اور معذرت کے ساتھ یہ نظریہ ہم نے ماضی کی بھولی بسری یادگار بنا دیا، کیونکہ ہم نے لاشعور ہونے کا prove دیا، اور نتیجہ میں ہم نے اپنے کلچر میں موجود extra curriculum activities کو بالکل ختم کردیا اور ہمارے معاشرے کو بالکل stagnant اور ساکن کردیا، اس حوالے سے میرے ساتھ کافی لوگوں کی بحث بھی ہوئی کہ میں کہہ رہا ہوتا ہوں کہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینا چاہئے جبکہ سامنے سے مجھے جواب آتا ہے کہ عمران خان صحیح نہیں ہے نواز شریف ذیادہ اچھا تھا، میرا صرف یہی کہنا ہے کہ آپ کے لئے نواز شریف اگر اچھا تھا تو کتنی روزگار کے مواقع پیدا کئے؟ کیونکہ جیسے میں نے اوپر لکھا ہے کہ دنیا آج ڈیمانڈ اور سپلائی یعنی طلب و رسد پر based کرتا ہے، یعنی نواز شریف سے ہم نے یہ ڈیمانڈ کی کہ عوام کو روڈیں بنا کر دو، یہ ڈیمانڈ نہیں کیا کہ ان روڈوں کے اوپر چلنے والی ٹرانسپورٹ کو اس کے ساتھ upgrade کرو، میں یہاں عمران خان کا حمایتی یعنی یوتھیا نہیں ہوں، مگر اگر عمران خان کچھ اچھا کررہا ہے تو اس کو مجھے کڑوی زبان کے ساتھ ماننا پڑے گا، کیونکہ اکانومی کے steps کو فالو کروں تو یہی hierarchy کو فالو کیا جاتا ہے، کیونکہ جرمنی کی مثال لوں، تو اپنی ترقی کو ٹرین سے لنک کیا، ٹرین کی ٹائمنگ سے پوری اکانومی کو لنک کیا، جس سے ان کی پوری اکانومی جو ایک زمانے میں پاکستان سے loan لیا تھا، آج G8 گروپ کا ممبر ہے،
کیونکہ بحیثیت قوم اور بحیثیت پاکستانی ہم میں نہ ہی پاکستانیت ہے، نہ ہی معاشرتی طور پر، کیونکہ اگر وہ ڈگری جس کی base پر آج ہم بڑی بڑی پوسٹوں پر براجمان ہیں، اسی ڈگری کی ایڈمٹ کارڈ پر ایک وعدہ ہوتا ہے، جس پر ہم اپنے دستخط بھی کرتے ہیں، کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد کم سے کم دو بچوں کو ذاتی طور پر پڑھائیں گے، مگر نہ ہی ہم وہ وعدہ پورا کرتے ہیں، اور نہ ہی بی بی اے/ایم بی اے کے تھیسس رپورٹنگ میں وہ zeal ہوتی ہے، جو باہر کے ممالک میں اسٹوڈنٹس میں ہوتی ہے، کہ ان کو ڈگری کے حصول کے لئے کوئی نہ کوئی ٹارگٹ دیا جاتا ہے، جب وہ تارگٹ مکمل ہوتا ہے اس کو analyze اور تصدیق کے بعد ہی ڈگری ملتی ہے، چاہے اس کو کرنے میں اسٹاڈنٹ کو ۱۰ سال ہی کیوں نہ لگ جائیں،
گوگل کی example لیں
گوگل جو کہ آج کے زمانے میں ایک ٹیکنالوجیکل دیو کے طور پر دیکھا جاتا ہے، دو گریجوئیٹ اسٹوڈنٹس کا بروجیکٹ تھا، جو کہ Googleplex سے inspired ہو کر گوگل لیا گیا تھا،
مگر
بات یہی ہے کہ چونکہ ان دونوں اسٹوڈنٹس نے محنت کرکے گیراج سے شروعات کی
تھی تو ان کی بنیاد humble تھی، مگر ان کو اپنی حیثیت کا اندازہ تھا، ہمیں
چونکہ ان چیزوں کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا ہے تو ایسے میں undoubtedly
ہم میں arrogance موجود ہوتی ہے، اور چونکہ ہماری بنیاد میں ہی arrogance
ہوتی ہے، کیونکہ محنت تو ہم نے نہیں کی ہوتی ہے، اسی لئے نا سننے کی "عادت"
نہیں ہوتی ہے، تو جیسے میں نے اپنے آرٹیکل کے شروعات میں Nipping in to
the Bud کی ٹرم استعمال کی تھی، وہ اسی لئے کی تھی کیونکہ مسئلہ کیوں ہے،
یہ سب بتائیں گے، مگر کس وجہ سے ہے، کس لئے ہے، اور کیسے ختم ہوگا، یہ کوئی
نہیں بولے گا، کیونکہ یہاں ہر کوئی exploit کرنے کو دیکھ رہا ہوتا ہے،
کیونکہ اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر اس پر impose کرانا اپنی کامیابی
سمجھتے ہیں، جبکہ جو لوجیکل ذہن کا مالک ہوگا، وہ اپنے قول و فعل کے تضاد
کو بخوبی دیکھے گا،
تین رخی ذاویہ کا خاکہ |
ٹھرڈ ڈیمنشن پوائنٹ آف ویو
اگر ہم اسلامک نقطہ نظر دیکھیں تو کیا یہی اسلام کی تلقین نہیں کہ تول کر بولو، اور اپنے گریبان میں پہلے جھانکیں، یہی چیز اس پکچر میں دکھائی دی جارہی ہے کیونکہ یہاں X سے مراد ہم ہیں، Y سے مراد سامنے والا (جس سے ہم مخاطب ہیں) جبکہ Z ٹھرڈ آئی ویو ہے، جہاں ہم دوسرے ذاویے سے چیزوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں، مگر میں اس بات کی تصدیق کردوں کہ صرف اس کا یہ مطلب نہیں ہے جو ابھی میں نے بتایا، بلکہ basically یہ ایک طرح کا analysis کرنے کا طریقہ کار ہے، کیونکہ analysis کرنے کے لئے کافی دفعہ غیر جانبدار بھی ہونا ہوتا ہے، جو کہ ہمارے مذہب کی بھی تلقین ہے، اور ماضی بعید میں ہمارے پاس کے اُس وقت کے محترم قاضی حضرات اس چیز کو بخوبی دیکھتے تھے بلکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اسی چیز میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، یعنی ہمارے سارے مسائل کی جڑ ہماری مذہب سے دوری ہے، کیونکہ اگر ہم اپنا خود کا analysis نہیں کریں گے، تو ہمارے اندر humbleness کے بجائے arrogance خود بخود ہمارے اندر آجائے گی۔
کم سے کم اپنے اندر سامنے والے کی بات سننے کا حوصلہ تو رکھنا چاہئے
بات سننے کا حوصلہ کافی تصادم کی صورتحال کو حل کرنے میں مددگار ہوسکتا ہے |
چونکہ ہمارے اندر غیر ارادری طور پر arrogance موجود ہوتی ہے، تو ایسے میں غیر ارادری اور غیر محسوس طور پر احساس کمتری کا احساس automatically موجود ہوتا ہے، کیونکہ سامنے والے کو زبانی طور پر ڈھیر کرکے اس کو اپنی جیت کی مانند سمجھا جاتا ہے، جبکہ جیسے میں نے اوپر اخذ کیا کہ لوجیکل مائنڈ والا بندا ہمیشہ ground to earth اور humble رہتا ہے، اور سننے کا حوصلہ رکھتا ہے، اور جیسے میں نے کہا کہ اگر جس پوسٹ پر ہم بیٹھے ہیں، جتنی آسانی سے ہمیں بیچی جارہی ہے، (چونکہ اگر ہم earn کر رہے ہوتے تو کہانی یکثر تبدیل ہوتی)، وہ ہمیں حاصل کرنے کے لئے وقت اور محنت دونوں لگتی تو یہ چیز نیچرل ہوتی ہے کہ ہمارے اندر humbleness اور ground to earth کا رویہ بالکل موجود ہوتا، جس کے فقدان کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے میں یہ مسئلے مسائل دن بدن اجاگر ہورہے ہوتے ہیں، مگر جیسے میں نے اوپر یہ چیز لکھی ہے کہ ہمیں ہائی لائٹ کرنے کا شوق بالکل ہے مگر کیسے حل کریں گے، یہ کہیں نہیں پتہ، اور اگر کوئی بتا بھی دے تو اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ صرف اور صرف اسی کا پوائینٹ آف ویو کو دوسروں پر implement کرایا جائے، either by hook or by crook کیونکہ ایسا کرنے کو اپنی dominance کے طور پر دیکھا جاتا ہے، ورنہ اگر ہم سننے کا حوصلہ رکھیں تو ہوسکتا ہے سامنے والا شاید چیزوں کو کسی اور ذاویے سے دیکھ کر بہتر تجزیہ دے سکے جو کہ سب کے لئے ذیادہ فائدہ مند اور beneficial ہوسکے، مگر ہمارے arrogance کی وجہ سے ہم دوسروں کو یہ موقع نہیں دیتے ہیں۔
Mindset کے ساتھ ساتھ
Conflict Management
Arrogant اور Confident رہنا دو الگ چیزیں ہیں، اور ان کو دو الگ چیزوں کے طور پر ہی دیکھا جائے، تو بہتر ہے
ہم دراصل چیزوں کو دیکھنے کا ذاویہ اور نظریہ تبدیل کرنا ہو گا، بصورت دیگر جاہلوں کی طرح ہم Arrogance کو confidence کے لبادے میں اوڑھ کر اپنے ہی لوگوں کو جس طرح بے عزت کرتے ہیں، ایسے میں سامنے والے کو بھی موقع دے رہے ہیں، کہ بزور جان اپنی بات منوائے، نتیجے میں جو تصاویر پورے پاکستان کی ان چند لوگوں کی وجہ سے جاتی ہے، تو اس پر ذمہ داری کس پر لاگو ہوتی ہے، میں اگر نیوٹرل ہو کر اپنے آپ کو شامل کرکے بولوں تو ہم سب اس catastrophe کے ذمہ دار ہیں، کیونکہ سوسائٹی ایک طرح کی تسبیح کے دانوں کی طرح ہوتی ہے، ایک دانہ بھی اگر اپنی جگہ پر چپک جائے، تو ایسے میں یا تو ڈور ٹوٹے گی، یا پھر پوری تسیح بیکار ہوجائے گی، کیونکہ تسبیح کو گننے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، چاہے دعائیں ہوں، یا جو بھی ہو، کام آپ ہی کا رکتا ہے، تو ایسے میں ہمیں انسان ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داری کا احساس رکھنا چاہئے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں