Search me

عید کا چاند

ہماری عوام کا عجب اُتاولہ پن

ابھی میں جب یہ لائین لکھ رہا ہوں، ابھی کچھ شہادتیں موصول ہوئی ہیں، جہاں اس بات کی شہادت دی گئی ہے کہ چاند دکھائی دے دیا گیا ہے، اور اس کا حتمی فیصلہ آئندہ کچھ وقت میں ہوجائے گا۔

میرا اپنا point-of-view

یہاں میرا یہ ماننا ہے کہ
  • آج ہم جدید دور میں موجود ہیں، ایسے میں Mars Rovers سیارہ مریخ کی مستقبل کی پوزیشن کا estimate لگا کر اپنے روورز کی ٹیک آف کرالیتے، تو کیا ہم زمین پر رہتے ہوئے یہی estimation probability نہیں اپنا سکتے؟
  • صرف رمضان اور چھوٹی عید میں چاند کی ۲۹ اور ۳۰ تاریخ پر اختلاف ہوتا ہے؟ باقی ۱۰ مہینے سب نارمل کیوں ہوتا ہے؟
  • جب ہمارے پاس City Concentric Annual Lunar Calendar موجود ہے، اس میں بھی میں نے دیکھا ہے کہ اس مہینے کا اختتام ۳۰ دنوں پر محیط ہے، تو ایسے میں یہ جہالت دیکھانے کی جلد بازی کس چیز کی؟
  • اگر عید منانے کی اتنی جلدی ہے، تو پہلے رمضان کے فرائص مکمل کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھنی چاہئے، کیونکہ میرا معصومانہ سوال یہی ہے کہ چونکہ عید، رمضان کے بعد آتی ہے، تو ایسے میں عید اس وقت ہی مکمل ہونی چاہئے جب رمضان المبارک کے فرائض ہم نے اس کی صحیح نیت کے ساتھ مکمل کیا ہے یا نہیں؟
  • اس Pandemic کے دوران جہاں سماجی دوری کی ضرورت اہمیت کی حامل ہے، تو ایسے میں کیا یہی ضروری ہے کہ تھوڑا صبر کا پیمانہ قائم رکھیں، ابھی پڑوسی ملک میں ہم نے قم کے میلے کے بعد پورے بھارت کی جو درگت ہوئی، آئی پی ایل postponed ہوئی، ان کے شمشان گھاٹ میں جلانے کی جگہ کی کمی ہوگئی ہے، مگر ہماری ترجیحات میں عید کی شاپنگ اور نئے نوٹ ہیں، اور نئے نوٹ کو دکھانے کے لئے عید منانی ہے، ورنہ majority عید کی صبح سو کر ہی یا گھروں کے اندر بیٹھ کر مناتے ہیں، اور شام میں نکلتے ہیں، 
  • اس پر بھی سونے پہ سہاگہ کہ شام کے اوقات میں لاک ڈاوٗن لاگو ہوتا ہے تو ایسے میں اتنا کیا اتاولا پن ہے کہ رمضان کے فرائض ادا نہیں کرکے آپ عید منا رہے ہیں؟
  • جب ایک Pandemic چل رہا ہے تو ایسے میں ترجیع میں یہ ہونا چاہئے کہ زندگی بچانی ہے، زندگی رہے گی تو آنے والے سالوں میں عید کے شوق پورے کرلیں، جب کہ یہاں یہ حالت ہے کہ ہماری پوری قوم Tomorrow Never Comes کے منطق منانے کے درپے ہے۔
  • جب ایسی صورتحال ہے تو ایسے میں ہر چیز صرف حکومت کے اوپر ڈالنا صحیح ہے یا پھر عوام کو بھی ذمہ داری کا احساس دکھانا ضروری ہے؟
کیا اس صورتحال میں یہ اتاولا پن دکھانا ضروری ہے؟

عوام کو بھی ذمہ داری دکھانی چاہئے

اب یہ لائن لکھنے پر مجھے کافی لوگ یہ کہہ کر criticize کریں گے کہ پوری دنیا کی عوام ایسی ہی ہوتی ہے، مانتا ہوں، مگر مجھے صرف یہی بات کی تصدیق کردیں کہ جب یہی عوام دبئی یا کسی اور ملک میں جاتے ہے، تو وہاں یہی رویہ جو پاکستان کی سرزمین میں قدم رکھتے ہی مادر پدر آزاد ہوجاتے ہیں، کیوں نہیں کر پاتے ہیں، یہ جگاڑیں جن کی بدولت کراچی میں لاک ڈاوٗن میں بھی رمضان بازار کو عید بازار میں تبدیل کردیا گیا ہے، under which authority وہ یہ سب کچھ کر رہے ہیں، جب ایک صورتحال موجود ہے جہاں سوشل ڈسٹینسنگ وقت کی اہم ضرورت ہے، تو تھوڑی ذمہ داری ہماری عوام پر بھی لاگو ہورہی ہے،

میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں

کیونکہ پاکستان میں بیشک حکومت نے کھانے پینے پر دن کی روشنی میں کھانے پینے کی مکمل ممانعت ہوتی ہے، کیوں ہوتی ہے؟ اس لئے کیونکہ عوام اس ممانعت میں اپنا حصہ اور اپنا contribution ڈالتی ہے جس کی وجہ سے شام ۴ بجے کے بعد کھانے کی دوکانیں کھلنا اسٹارٹ ہوتی ہیں، باقی پورا دن اپنی سماجی ذمہ داری سمجھتے ہوئے خود ہی دوکانیں بند رکھتے ہیں، تو اسی وجہ سے یہ پابندی اتنی کارگر ہوتی ہے، جبکہ سماجی دوری Mass Gathering کی پابندی کا اطلاق کیوں نہیں ہورہا ہے، اگر عوام نے پہلے سماجی دوری کا اطلاق اسی طرح جیسے روزے کے ٹائم میں کھانے پینے کی دکانیں بند کر کے کرتے ہیں، اسی طرح کرتے تو کیا اس لاک ڈاوٗن کی ضرورت پڑتی؟ اصل میں ہماری عوام میں شعور کی کمی ہے، جس کی بناہ پر اپنا کام ہوجائے، باقی سب گئے بھاڑ میں، کی منطق چل رہے ہیں۔ اگر عوام خود اس چیز کا اطلاق کرتی، اور حکومت کی leniency کو misuse نہیں کرتے، تو کیا صورتحال لاک ڈاوٗن کی جانب جاتی؟ یہ سوچ کا فقدان ہے ہم سب میں۔

ابھی کل ہی کی بات ہے

میں اپنی جاب کے سلسلے میں اپنی برانچ اے ٹی ایم کے مسئلے کی وجہ سے دستگیر جانا ہوا، اور رات ۱۲:۳۰ بجے جب میں وہاں سے نکل رہا تھا، تو مجال ہے کہ کہیں مجھے لاک ڈاوٗن کی صورتحال دکھی ہو، بیکری ہو، شاورما کی دکان ہو، آئس کریم پارلر ہو سب کھلے ہوئے تھے اور کہیں بھی مجھے ایسا احساس نہیں ہوا کہ کراچی میں لاک ڈاوٗن کی صورتحال ہے، جبکہ جیسے ہی میں دستگیر سے سیدھا لکی ون کی جانب نکلتا ہوں تو وہاں مجھے احساس ہوا کہ ہاں کراچی میں لاک ڈاوٗن ہورہا ہے،

ایسی بد احتیاطی کا فائدہ؟

الٹا نقصان ہے، اور ایسے لوگوں کو دشمنوں کی کوئی ضرورت نہیں، یہ اپنے دشمن خود ہیں، یعنی چلتے پھرتے ٹائم بم بن کر گھوم رہے ہیں۔

رہی بات عید بازار کی

اتنا فضول خرچی کس بات کی، اگر اللہ نے اتنا کچھ دیا ہے، پھر بھی اس صورتحال میں situation ہم سے کیا demand کررہی ہے، اور vice-versa کس جانب جارہے ہیں، مجھے اس حوالے صفحے کالے کرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں صرف اتنا کہوں گا، کہ جان ہے تو جہاں ہے، آج تھوڑی احتیاط کرلیں تو عید بعد میں بھی منائی جاسکتی ہے، کم سے کم اپنے لئے نہیں تو اپنے گھر والے، اپنی بیوی بچوں اور اپنے رشتہ داروں کا ہی سوچیں، کیونکہ آپ ان سب کے ساتھ inter-related ہیں تو ایسے میں آپ کے ایکشن سے ان لوگوں کو جو ناقابل تلافی نقصان ہوگا، اسکا کچھ سوچا ہے؟ کیا اس کے بارے میں سوچا ہے؟ نہیں سوچا ہے تو ہم سے بڑا حماقتی کوئی نہیں ہے۔

اس پر یہ واٹس ایپ والے حکیم لقمان

اللہ تعالی ان واٹس ایپ والے حکیم لقمانی انکل کی خرافات سے محفوظ رکھے، جو چیل اڑی کو بھینس اڑی کے منطق rumors کو بڑھاوا دیتے ہیں، پہلے زمانوں میں یہ کام محلے میں خالہ زبیدہ کیا کرتیں تھیں، جس کا ذمہ آج یہ واٹس ایپ والے انکلوں نے اپنے مضبوط کاندھوں پر اٹھا لیا ہے، میں again اس بات کی تصدیق کروں، کہ میں نہ کوئی عالم ہوں، نہ ہی کوئی فاضل، مگر صرف کوئی بھی معلومات میرے پاس آتی ہے تو اسکو ویلیڈیٹ Validate ضرور کرتا ہوں، بصورت دیگر آگے فارورڈ نہیں کرتا، کیونکہ یہ میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ بغیر تصدیق کے معلومات وہ بھی ایسی تفصیل جس کی کوئی تصدیق نہ ہو، اس کے بڑھاوے میں میری کوئی contribution ہو، بلکہ اسے اپنی انفرادی ذمہ داری سمجھتا ہوں، مگر معذرت کے ساتھ ہمارے آج کل کے بڑے اس چیز کی ذمہ داری کا احساس نہیں رکھتے، یہ نہیں دیکھ رہے ہیں، کہ آج کل سوشل میڈیا اتنا vibrant ہوچکا ہے کہ ٹویٹر پر منٹوں کے حساب سے مختلف ممالک کے ٹرینڈ تبدیل ہوچکے ہوتے ہیں، حالانکہ ہمارے بڑوں کو اس بات کی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔

کیونکہ

یہی انکلوں کی وجہ سے یہ موجودہ وبا کو casually لیا جارہا ہے، کیونکہ یہاں بھی cause and effect کا فارمولا لاگو ہوتا ہے، اور اگر ہمارے بڑے بزرگ اس طرح کا casual attitude رکھیں گے تو imagine کرلیں ہم کس جانب جارہے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح عید کے موقع پر بھی یہ انکل ہمارے ذہنوں میں wrong number ڈالنے کی ذمہ داری اپنے اوپر لی ہوئی ہے، کیونکہ۔۔۔کیونکہ۔۔۔کیونکہ۔۔۔ ہم نوجوانوں کے مقابلے صورتحال کو بغور دیکھنے کے بعد ہی ایکشن لینے کے بجائے جلد بازی ان بزرگوں کا شیوہ بن چکا ہے اور اسی وجہ سے ہمیں باہری دشمن کے بجائے ان انکلوں سے ذیادہ خطرہ ہے۔





مسجد الاقصی اور ہم مسلمانوں کے افعال

Identity Crisis اور مسلمان
دنیا میں قومیں اپنی
 شناخت سے پہچانی
 جاتی ہیں، جس سے 
آج کا مسلمان جوج رہا 
ہے۔

میں کوئی عالم فاضل نہیں مگر بات ہے عام سی اور شرم کی، کہ ہم مسلمانوں نے دنیا کو ترغیب دی کہ stereotype کے بجائے، چیزوں پر تحقیق کرنا اور logic پر مختلف چیزوں کو دیکھنا، اگر سادی زبان میں بات کروں تو یہ ہمارے آباو اجداد کی تلقین تھی جو انہوں نے دنیا کو پڑھایا، اور اس کی ریسرچ کی، کتابیں بنائیں،جامعہ الاظہر جیسی یونی ورسٹی بنائی، جس کی base پر آج کی موجودہ جامعۃ کام کرتی ہیں، آج انہی کی نشانیوں کو دنیا آپ ﷺ کی احادیث کے مطابق مسلمانوں کو دنیا کوئی لذیذ کھانے کے مترادف چٹ کرنے کے درپے ہیں۔

کسی بھی قوم کے لئے شناخت کیوں ضروری ہے؟؟؟

شناخت اور پہچان ایک طرح سے ایک دوسرے کے synonyms ہیں، اور پیچان اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے ضریعے آپ کو ایک عدد پہچان ملتی ہے، اور گمنامی میں نہیں گزارتے، اورابھی معذرت کے ساتھ پچھلے ۳۰ سالوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہے، اس میں ہمارے اپنے مسلمانوں کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے، ورنہ انگریز کی بھی منطق کو فالو کریں تو اپنا نظریہ دوسروں پر impose کرنے کے لئے انہی لوگوں میں سے اُن کے ہم خیال لوگوں کو جمع کرتے ہیں، اور ان کو استعمال کرتے ہیں، ٹھیک اسی طرح یہاں بھی مسلمانوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا ہاتھ ہوچکا ہے، کیونکہ جیسے میں نے اوپر کہا ہے کہ شناخت کسی بھی قوم کی development کے لئے ضروری ہوتی ہے، بصورت دیگر وہ دیگر اقوام کے ساتھ mix ہو کر انہی کی طرح ہوجاتے ہیں۔

دنیا میں دو ہی اقوام مذہب کی بنیاد پر آزاد ہوئے ہیں

ان میں سے ایک اسرائل ہے اور دوسرا پاکستان، اور دونوں اقوام قریباً ایک ہی طرح کی صورتحال کی بناہ پر آزادی لی تھی، کیونکہ اسرائل کا ایک زمانہ تھا وجود ہی نہیں تھا، اور ان کے لیڈران کو اس بات کی فکر تھی کہ کہیں ان کی قوم دوسرے اقوام کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی ہی شناخت نہ کھو جائیں، کیونکہ جب تک آپ میں ایک حد تک individualism رہے گی، تو جب تک آپ کی پیچان رہے گی ورنہ آپ انہی میں سے ہوجاو گے، ٹھیک اسی طرح پاکستان کے معاملے میں بھی یہی صورتحال تھی، کیونکہ جیسے قائدِ اعظم نے یہ بات کہی کہ اگر مسلمان یہاں رہے، تو زندگی بھر ہندوں اور انگریزوں کو اپنی loyalty دیکھانے میں زندگیاں گزر جائیں گی، جو کہ آج کے ہندوستان میں مسلمانوں کا حال ہے، جہاں آج بھی مسلمانوں کو طرح طرح کی باتیں سننی پڑتی ہیں، بلکہ Cross-Religion شادیاں بھی عام ہیں، جن کی وجہ سے مسلمانوں کی اپنی شناخت ہندوستان میں ٹھیک اسی طرح کی ہے جیسے ہمارے باتھ روم ٹوائلٹ رول کی ہوتی ہے، وہی حالات اس وقت مسلمانوں کی ہندوستان میں ہورہی ہے۔
مسلمانوں کی شناخت کافی چیزوں پر مبنی ہوتی ہے

اگر یہ اوپر والی ایمج کو بغور دیکھیں، تو شناخت میں کافی چیزیں آتی ہیں، جس میں عام طور پر بلڈنگ

بھی ہوتی ہے، جیسے کراچی میں فرئیر ہال ہے، جو انٹیک انگریزوں کی heritage میں شامل ہے، ٹھیک اسی طرح پہلے کی الفنسٹین اسٹریٹ جو آج کی زیب النسا اسٹریٹ ہے وہاں بھی انگریزوں کی نشانی کے طور پر یہ چیز کو مین ٹین کیا گیا ہے، یا پھر جیسے ایمپریس مارکٹ، جو کہ کراچی شہر کا ایک ہیریٹیج heritage ہے، کیونکہ اب یہ بلڈنگز کراچی کی پہچان بن چکیں ہیں، اور انگریزوں کی نشانی کی طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ اور یہ exercise دنیا بھر میں کی جاتی ہے، جیسے فرانس نے ایفل ٹاور پیرس کی نشانی کی طور پر استعمال کی جاتی ہے، اور اگر دنیا میں کسی شہر کو خوبصورت کہا جاتا ہے تو پیرس سے تشبیح دی جاتی ہے، جیسے ہمارے پاس کے سیاستدانوں نے بھی لاہور کو پیرس سے تشبیح دی گئ تھی۔(No Pun Intended)

واپس ٹاپک پر آتا ہوں

یہ تو مختلف ممالک کی نشانیوں کو بتایا ہے، جبکہ مسجد الاقصی جو کہ ہمارے لئے بحیثیت مسلمان بہت اہمیت کی حامل اس لئے بھی ہے، کیونکہ یہاں معاملہ کسی ملک کا نہیں ہے، اسلام کا ہے، جو کہ ہمارا ایمان سے متعلق ہے، جیسے اس وبا کی بناہ پر جمعہ کے روز کا تقدس پامال ہوچکا ہے، کیونکہ اب جس طرح لوگ جمعہ کی جماعت کو for-granted لیا ہے، ورنہ پہلے وہ بندہ جو کوئی نماز نہیں پڑھتا تھا وہ بھی کم سے کم جمعہ کی نماز پڑھ ہی لیتا تھا، مگر اب ان سب کو ایک بہانہ مل بھی چکا ہے کہ کورونا کو الزام دے کر جماعت کو bifurcate کرتے ہیں، ٹھیک اسی طرح اسلام کی شناخت میں سے ایک مسجد الاقصی ہے، جو مکہ مکرمہ سے پہلے ہمارا قبلہ ہوا کرتا تھا اور جہاں اچھے خاصے عرصہ منہ کر کے نماز پڑھتے رہے ہیں، اب اس کو توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور معذرت کے ساتھ scientifically کی جارہی ہے، کیونکہ ہم نے تو اپنی تحقیق کو پانی میں بہا دی ہیں، جبکہ یہ گورے لوگ اپنی تحقیق بلکہ ساتھ ساتھ مارے تحقیق کے نسخے بھی زمین بوس کیے اور نشانیوں کے طور پر سنبھال کر رکھے، اور markings سے دئے، اور اس کے بعد یہ تحقیق کو recover کیا اور اس کی بناہ پر آج یہ لوگ اس معراج پر ہیں اور ہم ہیں کہ قرآن پڑھنے کا ٹائم نہیں ہے مگر بلی گے گلے میں گھنٹی کی مانند قرآنی آیات کو گلے میں باندھ کر گھومتے ہیں، مطلب قرآن مجید جس کو فالو کرتے ہوئے موجودہ scientists نے کافی دریافتیں کی ہیں، اور ہم اس مذہب کے پیروکار قرآن کو صرف تعویز گنڈے کی حد تک limit کر کے رکھا ہے، جس کو ان لوگوں نے آہستہ سے ہمارے ذہنوں میں پیوست کردیا ہے، جس کی بناہ پر اب ہمارے دلوں میں ہماری شناخت یعنی اسلام کو آہستہ آہستہ سے دوسری چیزوں سے replace کیا ہے، جس کی بناہ پر اب ان لوگوں کی اتنی ہمت ہوچکی ہے کہ پہلے مسجد اقصی کی بنیادوں کو کھوکلا کیا گیا، اور اب تقریباً تیاری مکمل کرلی گئی ہے کہ مسجد الاقصی کو شہید کردیا جائے گا اور اس کو 3rd Temple سے تبدیل کردیا جائئے گا، کیونکہ ہم مسلمانوں کی ترجیحات تبدیل ہوچکیں ہیں، 

We are being ignorant of reality

نہ ہم نے

  1. کوئی تحقیق پر کام کیا؛
  2. Research and Development پر کوئی کام کیا؛
  3. تحقیق کی بنیاد پر اپنے آپ کو مضبوط کیا؛
  4. تحقیق کی بنیاد پر بحیثیت مسلمان اپنے آپ کو develop کیا؛
  5. اس حوالے سے کوئی تحقیقی مواد دنیا کو دیا؛ 
  6. فرسٹ ہینڈ انفارمیشن کے لئے ہم نے کوئی تحقیق کی؛
  7. ہمارا سارا تحقیق مواد انگریزوں سے ہوتے ہوئے ہی آتا ہے، اس میں ہماری اپنی کوئی محنت شامل نہیں ہوتی ہے؛

ایسے میں
We are being ignorant of the fact and unwilling
to learn

ہم ان لوگوں کے لئے آسان شکار ہیں، کہ پہلے ہمارے مواد کو ختم کیا، پھر ہمارے literates کو آہستہ سے پردے سے دور کیا، زیادہ تر کو defame کرکے نکالا گیا، حالانکہ ایسے لوگ آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں، ان کو رستے سے ہٹایا اور ان کو اپنے مٹیرئیل سے replace کیا، جس کی وجہ سے ہماری مذہبی تقدس آہستہ سے ہمارے ذہنوں اور دلوں سے دور ہوا، تو ایسے میں پہلے مسجد الاقصی، پھر آہستہ سے ہوتے ہوئے بادشاہی مسجد لاہور تک یہ سب کچھ آجائے گا اور ہم ان لوگوں کو ویلکم کر رہے ہوں گے، کیونکہ ہم میں یہ چیز آچکی ہے کہ تحقیق بالکل نہیں کرنی کہ ایسا ہو رہا ہے تو کیوں ہورہا ہے اور اسی بات کے ذریعے ہمیں exploit کیا جارہا ہے، جس کو ہم نے ماننا بالکل نہیں ہے

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting