Identity Crisis اور مسلماندنیا میں قومیں اپنی
شناخت سے پہچانی
جاتی ہیں، جس سے
آج کا مسلمان جوج رہا
ہے۔
شناخت سے پہچانی
جاتی ہیں، جس سے
آج کا مسلمان جوج رہا
ہے۔
میں کوئی عالم فاضل نہیں مگر بات ہے عام سی اور شرم کی، کہ ہم مسلمانوں نے دنیا کو ترغیب دی کہ stereotype کے بجائے، چیزوں پر تحقیق کرنا اور logic پر مختلف چیزوں کو دیکھنا، اگر سادی زبان میں بات کروں تو یہ ہمارے آباو اجداد کی تلقین تھی جو انہوں نے دنیا کو پڑھایا، اور اس کی ریسرچ کی، کتابیں بنائیں،جامعہ الاظہر جیسی یونی ورسٹی بنائی، جس کی base پر آج کی موجودہ جامعۃ کام کرتی ہیں، آج انہی کی نشانیوں کو دنیا آپ ﷺ کی احادیث کے مطابق مسلمانوں کو دنیا کوئی لذیذ کھانے کے مترادف چٹ کرنے کے درپے ہیں۔
کسی بھی قوم کے لئے شناخت کیوں ضروری ہے؟؟؟
شناخت اور پہچان ایک طرح سے ایک دوسرے کے synonyms ہیں، اور پیچان اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے ضریعے آپ کو ایک عدد پہچان ملتی ہے، اور گمنامی میں نہیں گزارتے، اورابھی معذرت کے ساتھ پچھلے ۳۰ سالوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہے، اس میں ہمارے اپنے مسلمانوں کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے، ورنہ انگریز کی بھی منطق کو فالو کریں تو اپنا نظریہ دوسروں پر impose کرنے کے لئے انہی لوگوں میں سے اُن کے ہم خیال لوگوں کو جمع کرتے ہیں، اور ان کو استعمال کرتے ہیں، ٹھیک اسی طرح یہاں بھی مسلمانوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا ہاتھ ہوچکا ہے، کیونکہ جیسے میں نے اوپر کہا ہے کہ شناخت کسی بھی قوم کی development کے لئے ضروری ہوتی ہے، بصورت دیگر وہ دیگر اقوام کے ساتھ mix ہو کر انہی کی طرح ہوجاتے ہیں۔
دنیا میں دو ہی اقوام مذہب کی بنیاد پر آزاد ہوئے ہیں
ان میں سے ایک اسرائل ہے اور دوسرا پاکستان، اور دونوں اقوام قریباً ایک ہی طرح کی صورتحال کی بناہ پر آزادی لی تھی، کیونکہ اسرائل کا ایک زمانہ تھا وجود ہی نہیں تھا، اور ان کے لیڈران کو اس بات کی فکر تھی کہ کہیں ان کی قوم دوسرے اقوام کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی ہی شناخت نہ کھو جائیں، کیونکہ جب تک آپ میں ایک حد تک individualism رہے گی، تو جب تک آپ کی پیچان رہے گی ورنہ آپ انہی میں سے ہوجاو گے، ٹھیک اسی طرح پاکستان کے معاملے میں بھی یہی صورتحال تھی، کیونکہ جیسے قائدِ اعظم نے یہ بات کہی کہ اگر مسلمان یہاں رہے، تو زندگی بھر ہندوں اور انگریزوں کو اپنی loyalty دیکھانے میں زندگیاں گزر جائیں گی، جو کہ آج کے ہندوستان میں مسلمانوں کا حال ہے، جہاں آج بھی مسلمانوں کو طرح طرح کی باتیں سننی پڑتی ہیں، بلکہ Cross-Religion شادیاں بھی عام ہیں، جن کی وجہ سے مسلمانوں کی اپنی شناخت ہندوستان میں ٹھیک اسی طرح کی ہے جیسے ہمارے باتھ روم ٹوائلٹ رول کی ہوتی ہے، وہی حالات اس وقت مسلمانوں کی ہندوستان میں ہورہی ہے۔
مسلمانوں کی شناخت کافی چیزوں پر مبنی ہوتی ہے |
اگر یہ اوپر والی ایمج کو بغور دیکھیں، تو شناخت میں کافی چیزیں آتی ہیں، جس میں عام طور پر بلڈنگ
بھی ہوتی ہے، جیسے کراچی میں فرئیر ہال ہے، جو انٹیک انگریزوں کی heritage میں شامل ہے، ٹھیک اسی طرح پہلے کی الفنسٹین اسٹریٹ جو آج کی زیب النسا اسٹریٹ ہے وہاں بھی انگریزوں کی نشانی کے طور پر یہ چیز کو مین ٹین کیا گیا ہے، یا پھر جیسے ایمپریس مارکٹ، جو کہ کراچی شہر کا ایک ہیریٹیج heritage ہے، کیونکہ اب یہ بلڈنگز کراچی کی پہچان بن چکیں ہیں، اور انگریزوں کی نشانی کی طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ اور یہ exercise دنیا بھر میں کی جاتی ہے، جیسے فرانس نے ایفل ٹاور پیرس کی نشانی کی طور پر استعمال کی جاتی ہے، اور اگر دنیا میں کسی شہر کو خوبصورت کہا جاتا ہے تو پیرس سے تشبیح دی جاتی ہے، جیسے ہمارے پاس کے سیاستدانوں نے بھی لاہور کو پیرس سے تشبیح دی گئ تھی۔(No Pun Intended)
بھی ہوتی ہے، جیسے کراچی میں فرئیر ہال ہے، جو انٹیک انگریزوں کی heritage میں شامل ہے، ٹھیک اسی طرح پہلے کی الفنسٹین اسٹریٹ جو آج کی زیب النسا اسٹریٹ ہے وہاں بھی انگریزوں کی نشانی کے طور پر یہ چیز کو مین ٹین کیا گیا ہے، یا پھر جیسے ایمپریس مارکٹ، جو کہ کراچی شہر کا ایک ہیریٹیج heritage ہے، کیونکہ اب یہ بلڈنگز کراچی کی پہچان بن چکیں ہیں، اور انگریزوں کی نشانی کی طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ اور یہ exercise دنیا بھر میں کی جاتی ہے، جیسے فرانس نے ایفل ٹاور پیرس کی نشانی کی طور پر استعمال کی جاتی ہے، اور اگر دنیا میں کسی شہر کو خوبصورت کہا جاتا ہے تو پیرس سے تشبیح دی جاتی ہے، جیسے ہمارے پاس کے سیاستدانوں نے بھی لاہور کو پیرس سے تشبیح دی گئ تھی۔(No Pun Intended)
واپس ٹاپک پر آتا ہوں
یہ تو مختلف ممالک کی نشانیوں کو بتایا ہے، جبکہ مسجد الاقصی جو کہ ہمارے لئے بحیثیت مسلمان بہت اہمیت کی حامل اس لئے بھی ہے، کیونکہ یہاں معاملہ کسی ملک کا نہیں ہے، اسلام کا ہے، جو کہ ہمارا ایمان سے متعلق ہے، جیسے اس وبا کی بناہ پر جمعہ کے روز کا تقدس پامال ہوچکا ہے، کیونکہ اب جس طرح لوگ جمعہ کی جماعت کو for-granted لیا ہے، ورنہ پہلے وہ بندہ جو کوئی نماز نہیں پڑھتا تھا وہ بھی کم سے کم جمعہ کی نماز پڑھ ہی لیتا تھا، مگر اب ان سب کو ایک بہانہ مل بھی چکا ہے کہ کورونا کو الزام دے کر جماعت کو bifurcate کرتے ہیں، ٹھیک اسی طرح اسلام کی شناخت میں سے ایک مسجد الاقصی ہے، جو مکہ مکرمہ سے پہلے ہمارا قبلہ ہوا کرتا تھا اور جہاں اچھے خاصے عرصہ منہ کر کے نماز پڑھتے رہے ہیں، اب اس کو توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور معذرت کے ساتھ scientifically کی جارہی ہے، کیونکہ ہم نے تو اپنی تحقیق کو پانی میں بہا دی ہیں، جبکہ یہ گورے لوگ اپنی تحقیق بلکہ ساتھ ساتھ مارے تحقیق کے نسخے بھی زمین بوس کیے اور نشانیوں کے طور پر سنبھال کر رکھے، اور markings سے دئے، اور اس کے بعد یہ تحقیق کو recover کیا اور اس کی بناہ پر آج یہ لوگ اس معراج پر ہیں اور ہم ہیں کہ قرآن پڑھنے کا ٹائم نہیں ہے مگر بلی گے گلے میں گھنٹی کی مانند قرآنی آیات کو گلے میں باندھ کر گھومتے ہیں، مطلب قرآن مجید جس کو فالو کرتے ہوئے موجودہ scientists نے کافی دریافتیں کی ہیں، اور ہم اس مذہب کے پیروکار قرآن کو صرف تعویز گنڈے کی حد تک limit کر کے رکھا ہے، جس کو ان لوگوں نے آہستہ سے ہمارے ذہنوں میں پیوست کردیا ہے، جس کی بناہ پر اب ہمارے دلوں میں ہماری شناخت یعنی اسلام کو آہستہ آہستہ سے دوسری چیزوں سے replace کیا ہے، جس کی بناہ پر اب ان لوگوں کی اتنی ہمت ہوچکی ہے کہ پہلے مسجد اقصی کی بنیادوں کو کھوکلا کیا گیا، اور اب تقریباً تیاری مکمل کرلی گئی ہے کہ مسجد الاقصی کو شہید کردیا جائے گا اور اس کو 3rd Temple سے تبدیل کردیا جائئے گا، کیونکہ ہم مسلمانوں کی ترجیحات تبدیل ہوچکیں ہیں،
We are being ignorant of reality
نہ ہم نے
- کوئی تحقیق پر کام کیا؛
- Research and Development پر کوئی کام کیا؛
- تحقیق کی بنیاد پر اپنے آپ کو مضبوط کیا؛
- تحقیق کی بنیاد پر بحیثیت مسلمان اپنے آپ کو develop کیا؛
- اس حوالے سے کوئی تحقیقی مواد دنیا کو دیا؛
- فرسٹ ہینڈ انفارمیشن کے لئے ہم نے کوئی تحقیق کی؛
- ہمارا سارا تحقیق مواد انگریزوں سے ہوتے ہوئے ہی آتا ہے، اس میں ہماری اپنی کوئی محنت شامل نہیں ہوتی ہے؛
ایسے میںWe are being ignorant of the fact and unwilling
to learn
to learn
ہم ان لوگوں کے لئے آسان شکار ہیں، کہ پہلے ہمارے مواد کو ختم کیا، پھر ہمارے literates کو آہستہ سے پردے سے دور کیا، زیادہ تر کو defame کرکے نکالا گیا، حالانکہ ایسے لوگ آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں، ان کو رستے سے ہٹایا اور ان کو اپنے مٹیرئیل سے replace کیا، جس کی وجہ سے ہماری مذہبی تقدس آہستہ سے ہمارے ذہنوں اور دلوں سے دور ہوا، تو ایسے میں پہلے مسجد الاقصی، پھر آہستہ سے ہوتے ہوئے بادشاہی مسجد لاہور تک یہ سب کچھ آجائے گا اور ہم ان لوگوں کو ویلکم کر رہے ہوں گے، کیونکہ ہم میں یہ چیز آچکی ہے کہ تحقیق بالکل نہیں کرنی کہ ایسا ہو رہا ہے تو کیوں ہورہا ہے اور اسی بات کے ذریعے ہمیں exploit کیا جارہا ہے، جس کو ہم نے ماننا بالکل نہیں ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں