Search me

Petrol prices should lower now - on immediate grounds

عالمی مارکیٹ میں آج تیل کی 10 فیصد گر چکی ہے اور تیل کی قیمت چند دنوں میں ٹوٹل 13 فیصد گری جب قیمت بڑھتی تو تیل 1 ہفتے میں بڑھا دیا جاتا اور جب کم ہوتی ہے تو کئی مہینے لگ جاتے یہ کہا جاتا تیل کئی ہفتوں بعد آئے گا 13 فیصد قیمت گرنے سے پاکستان میں پٹرول 125 روپے لیٹر ملنا چاہیے.

ویسے بھی

پاکستان میں شریف وہی ہے جس کو موقع ملا، اور موقع کا فائدہ نہیں اٹھایا، کیونکہ ابھی ۲ دن پہلے پیٹرول پمپس مالکان نے ملک گیر ہڑتال کی تھی، کہ ان کا کمیشن میں کٹوتی ہورہی تھی، well said مگر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو پیٹرول میں چوری کر کے دیں اور کمیشن کی ریکوری کریں؟ شرم آنی چاہئے، کیونکہ یا تو یہ پیٹرول کی چوری بند کریں تاکہ آپ کو یہ کمیشن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

COVID-19 Newer Variant


تازہ ترین اب تک دریافت ہونے والا سب سے زیادہ تبدیل شدہ ورژن ہے - اور اس میں اتپریورتنوں کی اتنی لمبی فہرست ہے کہ اسے ایک سائنسدان نے "خوفناک" کے طور پر بیان کیا ہے، جب کہ دوسرے نے مجھے بتایا کہ یہ سب سے برا ورژن ہے جو انہوں نے دیکھا تھا۔

یہ ابتدائی دن ہے اور تصدیق شدہ کیسز ابھی بھی زیادہ تر جنوبی افریقہ کے ایک صوبے میں مرتکز ہیں، لیکن اس کے مزید پھیلنے کے اشارے ہیں۔

فوری طور پر یہ سوالات موجود ہیں کہ نئی قسم کتنی تیزی سے پھیلتی ہے، اس کی ویکسین کے ذریعے دیے گئے کچھ تحفظات کو نظرانداز کرنے کی صلاحیت اور اس کے بارے میں کیا کرنا چاہیے۔

قیاس آرائیاں بہت ہیں، لیکن واضح جوابات بہت کم ہیں۔
 
تو، ہم کیا جانتے ہیں؟

یونانی کوڈ ناموں جیسے الفا اور ڈیلٹا کی مختلف شکلوں کی پیروی کرتے ہوئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس قسم کا نام Omicron رکھا ہے۔ 

پاکستان کا معاشی مستقبل

جیسا کہ پاکستانی رہنما بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے ملاقات کرتے ہیں، پاکستان جغرافیائی معاشیات کی بنیاد پر امریکہ کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے دور کے لیے کیس بنا رہا ہے۔ یہ اقتصادی اقدامات افغانستان میں طالبان کے قبضے سے پیچیدہ ہیں، جس سے امریکہ اور چین کے درمیان تزویراتی مسابقت میں اضافہ ہو رہا ہے اور COVID-19 وبائی مرض سے مسلسل معاشی نتیجہ نکل رہا ہے۔ اس نے پاکستان کی معیشت کو متعدد سمتوں سے چیلنجز کا سامنا کر دیا ہے، ملک کا مالی مستقبل ایک نازک موڑ پر ہے۔
یو ایس آئی پی نے پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین کے ساتھ ملک کے معاشی مستقبل، امریکہ کے ساتھ جیو اکنامک تعلقات کو فروغ دینے کی کوششوں اور علاقائی استحکام پر افغانستان کے بحران کے اثرات کے بارے میں بات چیت کی میزبانی کی۔
 

کمزور معاشی صورتحال

1999 کے اختتام پر، ہندوستان، بنگلہ دیش اور ویتنام کے مقابلے میں پاکستان کی فی کس سب سے زیادہ جی ڈی پی تھی۔ بیس سال بعد یہ گروپ میں سب سے نیچے ہے۔ سیاسی اتھل پتھل، افغانستان میں جنگ کی وجہ سے پرتشدد شورش، اور یکے بعد دیگرے حکومتوں کی اصلاحات کرنے میں ناکامی اس زوال کا ذمہ دار ہے۔ آج، پولرائزڈ سیاسی ماحول اور سویلین، عدالتی اور فوجی اداروں کے درمیان اشرافیہ کی سازشوں نے پائیدار اقتصادی ترقی اور اصلاحات کی ہیں جن کا امکان بہت زیادہ ہے۔ COVID-19 وبائی مرض نے چیلنج کو مزید تیز کر دیا ہے۔ 

اصلاحات ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہیں۔

دنیا کے بہت سے دوسرے حصوں کی طرح پاکستان بھی تیزی سے پولرائزڈ ملک بن گیا ہے۔ حکومت اور اس کے حامی یقینی طور پر کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس اور مثبت نمو کی طرف اشارہ کریں گے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ معیشت صحیح راستے پر ہے۔ اس کے ناقدین خوراک کی مہنگائی کے دوہرے ہندسے اور بڑھتے ہوئے قرض کی طرف اس بات کا ثبوت دیں گے کہ خان ڈیلیور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

لیکن سیاسی بیان بازی سے ہٹ کر، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت انہی مسائل کی زد میں ہے جن کی وجہ سے 2018 میں خان کو وراثت میں بحران ملا۔ معاشی مسابقت کو فروغ دینے والی بامعنی اصلاحات کے بغیر، برآمدات کو فروغ دینے والے پیداواری شعبوں میں براہ راست سرمایہ کاری اور اس کے خاتمے کی مسلسل کوششیں ریگولیٹری دلدل جو کرائے کی تلاش کو ترغیب دیتا ہے، پاکستان کی معیشت خون کی کمی کی شرح سے ترقی کرتی رہے گی۔

اس سفر کا آغاز توانائی کے شعبے میں اصلاحات سے ہونا چاہیے۔ توانائی کے شعبے کے بڑھتے ہوئے قرضے اور مارکیٹ کی ناکارہیاں کاروباروں اور گھرانوں کو بجلی اور گیس کی فراہمی میں بار بار رکاوٹوں کا باعث بن رہی ہیں۔ ستمبر میں، خان نے گیس کی "آسان" قلت سے خبردار کیا۔ کوئی بھی ملک قرضوں، سرمایہ کاری کی کمی اور درآمدات پر بڑھتے ہوئے انحصار سے دوچار توانائی کے شعبے کے ساتھ پائیدار ترقی اور اپنی پوری صلاحیت کو پورا نہیں کر سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بجلی کی غیر معتبر اور مہنگی فراہمی کی وجہ سے معیشت کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

اقتصادی ماہرین کے درمیان وسیع اتفاق رائے ہے کہ ان اصلاحات کو فوری طور پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ تاہم، سویلین اور فوجی حکمران دونوں ہی ان کا آغاز کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ پاکستان میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے اپنی مدت کا زیادہ تر حصہ اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوشش میں صرف کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ چیزوں کو ہلانے کی خواہش نہیں رکھتے ہیں۔ لیڈروں کو خدشہ ہے کہ اگر انہوں نے جمود کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تو حکومت کے اندر اور باہر موجودہ کرائے کی معیشت سے فائدہ اٹھانے والوں کی اقتدار پر گرفت کمزور ہو جائے گی۔ جیسا کہ مشرف زیدی نے ایک حالیہ مضمون میں دلیل دی، پاکستان میں سیاسی رہنما "چھوٹے مسائل کو حل کرنے کے لیے چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی تبدیل کرنے کی خواہش یا صلاحیت نہیں رکھتے۔"

پاکستان کے پالیسی سازوں کا حتمی مقصد اپنے نوجوانوں کے عزائم اور خواہشات کو پورا کرنا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے، ملک کو اچھی تنخواہ والی لاکھوں نوکریاں پیدا کرنی ہوں گی جو شہریوں کی قوت خرید کو بڑھاتی ہیں۔ حالات جس طرح کھڑے ہیں، پاکستانیوں کو اپنی قوت خرید میں مسلسل کمی، بجلی کی دائمی قلت، اور اچھی تنخواہ والی ملازمتوں کی کمی کا سامنا ہے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کے قرضے نے ان گھرانوں پر مزید قرضوں کا بوجھ ڈالا ہے جو کہ معیشت کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا ہے، بلکہ صرف اپنے کاموں کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ مزید پائیدار نہیں ہے اور سنگین اصلاحات کے بغیر، پاکستان اپنے ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کو ڈیموگرافک ڈیزاسٹر میں تبدیل کرنے کا خطرہ ہے۔

کمزور اقتصادی ترقی اور ملازمتوں کی کمی ایسے حالات پیدا کرتی ہے جو عدم استحکام کے لیے موزوں ہیں۔ لہٰذا، خان کی حکومت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ترقی کی بحالی اور پاکستان کو پائیدار اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے پر اپنی کوششوں پر توجہ مرکوز کرے۔

Now What?


دو وجہ ہیں، جن کی وجہ سے میں نے یہ آرٹیکل لکھا ہے، ایک تو جنوبی افریقہ میں کورونا وائرس عرف عام میں Covid-19 کا نیا variant  جو کہ کوہ نور ہیرے کے مترادف جنوبی افریقہ سے دریافت ہوا ہے، جس کو ہمارے "معزز میڈیا والے" (معزز کو اردو میں ج کے بعد والے حروف سے تبدیل کرلیں، مجھے یہ چیز نہیں پسند کہ abusive زبان پبلک فورم پر استعمال کروں)، جس طریقے سے پروموٹ کر رہے ہیں، یہی دوسرا پوائنٹ ہے، کہ بجائے اس کے کہ بار بار ایک نیوز کو دیکھایا جارہا ہے اور need  یعنی ضرورت کے طور پر ہمارے ذہنوں میں پروگرام کیا جارہا ہے، جبکہ یہ نیوز ہماری ضرورت بالکل نہیں ہے۔ اس کا تعلق ہمارے کونٹینٹ سیلیکشن سے متعلق ہوتی ہے، یعنی ہماری ترجیحات کیا، کیا ہیں, وہ ہماری upbringing کے اوپر depend کرتی ہے۔

ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئے

ہماری ترجیحات specifically categorized ہونی چاہئے، 
  • Law and Order اور اسکی پریکٹیکل ایپلیکیشن،
  • ایجوکیشن سیکٹر،
  • کو کریکیولم ایکٹیوٹی کے لئے جگہ مختص ہونی چاہئے،
  • پلاننگ اور کمیونیکشن،

Law and Order اور اس کی صحیح طریقے کی application

 یہاں ایپلیکیشن سے مراد وہ ایپلیکیشن نہیں جو اینڈرائڈ موبائل پر جو APK ہوتی ہے، جس کے ذریعے ہم اپنے اینڈرائڈ فونز پر ایپلیکیشن انسٹال کرتے ہیں۔ جس کی کلیکشن ہمیں گوگل پلے اسٹور ہے، جہاں کیٹگری کے حساب سے ایپلیکیشن فراہم کی گئی ہوتی ہے، مگر ہمارے معاملے میں ایپلیکیشن سے مراد یہ ہے کہ ہمارے پاس لا اینڈ آرڈر ہے مگر اس کو صحیح طریقے سے اپلائی نہیں کیا جاتا ہے، کیونکہ Law and Order میں یہ بھی چیز ہے کہ بجلی کے بل میں کوئی contradiction ہو تو اس میں بھی کیا، کیا  rules and regulations ہوتے ہیں، جن کی ذریعے refund ممکن ہو، مگر اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ عوام خود بھی پڑھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہاں عوام کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ پڑھنا نہیں چاہتی، دوسرے ممالک میں اس حوالے سے کافی فورم موجود ہیں، مگر معذرت کے ساتھ ہمارے پاس ایسے کوئی سوشل فورم نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کے سوشل فورم کی ڈیمانڈ کی ہی نہیں ہے، بلکہ سوشل میڈیا بولو تو فیس بک، واٹس ایپ، اور ٹک ٹاک ہے، دوسرے ممالک میں اسنیپ چیٹ اور ٹک ٹاک کو جس طرح استعمال کیا جارہا ہے، الامان الحفیظ، اس کے لئے بھی ہمارے کورٹ آف لا میں provision ہونی چاہئے، مگر اس کے لیے ہماری عوام میں بھی شعور ہونا چاہئے، کیونکہ انسان اور جانور میں فرق شعور کا ہوتا ہے۔

اس میں ہماری وہ رقم بھی شامل ہے، جو ہمارے پیارے سسیاستدانوں نے اسمگکل کر کے باہر لے گئے، اور میرے نذدیک اسی وعدے کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور نوز شریف لیگ کے مقابلے میں تحریکِ انصاف کو ذیادہ ووٹ ملے تھے، مگر معذرت کے ساتھ، چونکہ ان کے پاس (تحریک انصاف) کے پاس کوئی ایسا ٹھوس پلان موجود نہیں تھا کہ کس طرح انہوں نے لوٹی ہوئی رقم واپس لانی ہے، تو اسی وجہ سے یہ حکومت بھی اپنے ۵ سال کرتے ہوئے دیکھائی دے رہی ہے مگر بے ثمر، کیونکہ ان کے پاس اسٹریٹیجی کا فقدان تھا، کہ کہاں انویسٹ کرنا ہے، کہاں کرنا چاہئے، اور کس حساب سے کرنا چاہئے، اور کون کون سے دیکٹر اس حوالے سے مشکلات کر سکتے ہیں، اس کے لئے ان کے پاس کوئی نہ کوئی ضابطہ ہونا چاہئے تھا، جو کہ معذرت کے ساتھ، چلے ہوئے کارتوسوں سے امید رکھنا کہ برینڈ نیو کارتوسوں جیسا فائدہ اٹھائیں، اس سے بڑا کوئی بیوقوف نہیں ہے۔

Education Sector

ہمارے ایجوکیشن سیکٹر میں بھی وقتً اور time to time update ہونا چاہئے، نہ کہ آج کے زمانے میں بھی سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کمپیوٹر کی کتابوں میں ونڈوز ۹۸ پڑھایا جارہا ہے، جبکہ ہمیں ریسرچ پر کام کرنا چاہے، اور کمپئوٹر کی کتابوں (صرف مثال دے رہا ہوں) میں اپ ڈیٹ کرنا چاہئے، کیونکہ جب دنیا گھنٹوں کے حساب سے تطدیلی آرہی ہے، تو ایسے میں ہمارا کری کیولم بھی اسی حساب سے بہتر ہونا چاہئے، جبکہ ہم یہاں یہ کرنے کے بجائے انگریزوں کی بنائی ہوئی کتابوں (میں اس چیز کے خلاف نہیں کہ ان کی کتابوں کو نہیں پڑھنا چاہئے) مگر، جی ہاں، ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کی ذہنوں میں یہ چیزیں ڈال دی ہے کہ چاہے آپ کی قابلیت ہو یا نہ ہو، سامنے والے کو چپ کرانا stamping down your authority کے مترادف ہے، جو کہ صحیح بات نہیں، اور معذرت کے ساتھ، ہمارے بڑوں کو اس چیز کو make sure کرنا چاہئے تھا کہ یہ چیزوں کو پروموٹ کریں، مگر اس کے بجائے ہماری آنے والی نسلوں کو یہ چیز encode کروادی گئی ہے کہ اچھا پڑہو گے/گی، تو اچھی نوکری ملے گی/شوہر ملے گا، مگر ہم نے اس چیز کو eradicate کردیا ہے کہ ہم پہلے ان کو ایک اچھا انسان تو بنائیں، معذرت کے ساتھ، ہمارے ایک محترم سینیر نے مجھے بولا ہے کہ تم ****** ٔہو کیونکہ تم اپنے کام کو پروموٹ نہیں کرتے ہو، میں ہمیشہ وہ محترم کو جواب دیتا ہوں، کہ اس کے لئے ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ایک کلچر بنائیں جہاں آئڈیاز شئیر کرنے کی اجازت ہو، اور جیسے اوپر میں نے کہا کہ ایپلیکیشن، یہاں بھی پریکٹیکل ایپلیکیشن نہ ہونے کے برابر ہے، ہم یہ چیز کیونکر نہیں سمجھتے کہ ہم سوسائیٹی کا حصہ ہیں، اور سوسائیٹی ایک تسبیح کی طرح ہوتا ہے جس میں متعدد دانے موجود ہوتے ہیں، اور اگر اس میں چھٰیڑ چھاڑ کی تو ہم اپنا خود کا نقصان کریں گے، اور اوپر والی مثال میں تسبیح کو توڑ دیں گے، اور تسبیح کے دانے سارے اِدھر اُدھر بکھر جائیں گے، مگر ہماری تعلیم و تربیت کا یہ حال ہے کہ ہمیں یہ چیزیں glamorized کر کے بتایا جارہا ہے، اور ہمارے پاس کا میڈیا ان سب چیزوں کو ہمارے ذہنوں میں اس طرح پروگرام کرتا ہے، کہ ہمارے اندر کا شعور ختم ہوجاتا ہے، اور ہم اس چیز کو blindly follow کرنا اسٹارٹ کردیتے ہیں، جبکہ جیسے میں نے اپنی کسی آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ہم میں کراس چیک کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں،

ہمارے سامنے کتنے ریسرچ بکس آئی ہیں؟

پاکستان کے معاملے میں آپ لوگ خود بتائیں، ایک پڑھا لکھا بندہ اپنی exposure of grooming بھی دیکھاتا ہے، ہمارے پاس تو بندہ زرا سے کیش آفیسر سے سی ڈی انچارج بن جائے ہیں، تو ان کی آنکھیں چار ہوجاتی ہیں، ایسے پڑھے لکھوں کا کیا فائدہ؟ یا ہمارے پاس سے کتنی ریسرچز فراہم کی گئی ہیں؟ ریسرچ کا مواد کا ہونا صرف صفحات کالے کرنا نہیں ہوتا ہے، اس کو پڑھنے والے بھی اہمیت رکھتے ہیں، 

کیا ہم نے پاکستانی Education Curriculum کو پروموٹ کیا ہے؟ کیا یہ بحیثیت پاکستانی،  ہمارا ہے؟

یہ میں اس معاشرے میں کہہ رہا ہوں، جہاں اودو کی گنتی ۳۰ سے آگے نہیں آتی مگر انگلش میں کھ کھ کھ کر کے ٹریکٹر کے انجن بننے میں فخر کرتے ہیں، مگر اس پر انویسٹ کون کرے، کیونکہ اس سب چیزوں کا اثر سالوں میں نہیں ۱۰ سالوں مین دیکھائی دیتا ہے، اگر ۲۰۰۱ میں جب مشرف کا دور era تھا تو جب اسٹارٹ لیتے تو آج کسی نہ کسی طریقے سے ہمارے پاس پاکستانی مواد کی صورت میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا، مگر کیا آج ہمارا تعلیمی مواد موجودہ دور کے اسٹینڈرڈ پر موجود ہے؟ اس کی ڈیمانڈ کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ حکومتیں ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے rule پر عمل کرتی ہے، اور اس وجہ سے مشرف دور کے بعد سے جو بھی حکومتیں آئیں، اپنے پانچ سال مکمل ضرور کئے مگر یا تو دو حصوں میں یا پھر ٹویٹر پر ٹرینڈز کو فارورڈ کرنے میں گزار دیتے ہیں، جیسے موجودہ عمران حکومت میں بے شک کافی ایسے کام ہوئے ہیں، جن کے ثمرات ہمیں آنے والے ۱۰ سالوں میں دیکھائی دینا شروع کریں گی، مگر بے شک یہاں کی عوام کو اس چیز کی شعور نہیں، مگر جس امید سے عمران خان کو الیکٹ کیا گیا تھا، یہ امید تھی، کہ وہ مسائل جو عوام سے متعلق ہوں گی، ان پر کام کریں گے، مگر افسوس صد افسوس، انہوں نے بھی جو حکومتی نمائندے سیلیکٹ کئے، ان کی موجودگی میں کام ہونا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے، تو ایسے میں جب ہم ایک کتے سے گئے گزرے ہوچکے ہیں، جو کہ پیٹھنے سے پہلے دم سے جگہ صاف کرتا ہے پھر بیٹھتا ہے، اور یہاں ہماری اوقات اُس کتے سے بھی گئی گزری ہوچکی ہے، اور اس پر ہماری "اشرافیہ" اس چیز پر فخر کرتی ہے، جس پر ان لوگوں پر ماتم کرنے کا جی چاہتا ہے۔

Co-Curriculum Activities

پاکستان میں لوگوں کے لئے اینٹرٹینمنٹ کے نام پر اب ٹک ٹاک اسنیپ چیٹ رہ گیا ہے، نہ ہی ہمارے پاس ایسے زرایعے ہیں، جہاں سے ایسی چیزیں کرسکتیں ہیں۔ ہم نصابی سرگرمیاں (CCAs) جو پہلے غیر نصابی سرگرمیاں (ECA) کہلاتی ہیں غیر تعلیمی نصاب کے اجزاء ہیں جو بچے اور طلباء کی شخصیت کی نشوونما کے مختلف پہلوؤں کو تیار کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ بچے کی ہمہ جہت نشوونما کے لیے جذباتی، جسمانی، روحانی اور اخلاقی نشوونما کی ضرورت ہوتی ہے جو ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے مکمل ہو اور اس کی تکمیل ہو۔

ہم نصابی سرگرمیاں ان سرگرمیوں سے تعبیر کی جاتی ہیں جو نصابی یا بنیادی نصابی سرگرمیوں کی تکمیل اور تکمیل کے قابل بناتی ہیں۔ یہ طلباء کی شخصیت کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ کلاس روم کی تعلیم کو مضبوط بنانے کے لیے تعلیمی اداروں کا ایک بہت اہم حصہ اور پارسل ہیں۔

یہ سرگرمیاں اسکول کے اوقات کے بعد منعقد کی جاتی ہیں، جنہیں غیر نصابی سرگرمیاں کہا جاتا ہے۔ ہم نصابی سرگرمیاں بچے کی ثقافتی، سماجی، جمالیاتی نشوونما کو پورا کرنے کے لیے وسیع افق رکھتی ہیں۔

غیر نصابی سرگرمیوں کی مثالیں اور اقسام

  1. کھیل
  2. موسیقی کی سرگرمیاں
  3. بحث
  4. ماڈل
  5. فن
  6. موسیقی
  7. ڈرامہ
  8. بحث و مباحثہ
  9. اعلانیہ مقابلہ
  10. کہانی لکھنے کا مقابلہ
  11. مضمون نویسی کا مقابلہ
  12. فنی مہارت
  13. تلاوت مقابلہ
  14. وال میگزین کی سجاوٹ
  15. اسکول میگزین کے لیے لکھتا ہے۔
  16. لوک گانے، نغمے
  17. لوک رقص
  18. پھولوں کی نمائش
  19. اسکول کی سجاوٹ
  20. مجسمہ سازی۔
  21. فینسی ڈریس مقابلہ
  22. چارٹ اور ماڈلز کی تیاری
  23. البم بنانا
  24. فوٹوگرافی
  25. کلے ماڈلنگ
  26. کھلونا سازی۔
  27. صابن بنانا
  28. ٹوکری بنانا
  29. تنظیم کی نمائشیں
  30. تہوار کا جشن

طالب علم کی زندگی میں ہم نصابی سرگرمیوں کا کردار

ہم نصابی سرگرمیاں طلباء کو حاصل ہونے والے حقیقی اور عملی تجربات ہیں۔ اس سے طلباء کو معاشیات، کامرس، ریاضی، اکاؤنٹنسی، نیوٹریشن وغیرہ میں کیریئر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ زیادہ حد تک، نظریاتی علم کو تقویت ملتی ہے جب کلاس روم میں پڑھائے جانے والے مواد سے متعلقہ ہم نصابی سرگرمی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ شخصیت کے فکری پہلو مکمل طور پر کلاس روم سے مکمل ہوتے ہیں، جب کہ جمالیاتی نشوونما، کردار کی تعمیر، روحانی نشوونما، جسمانی نشوونما، اخلاقی اقدار، تخلیقی صلاحیتوں وغیرہ کو ہم نصابی سرگرمیوں سے مدد ملتی ہے۔ یہ اسکول کے ساتھ ساتھ کالج دونوں سطحوں پر طلباء کے درمیان ہم آہنگی، ایڈجسٹمنٹ، تقریر کی روانی، غیر معمولی تاثرات وغیرہ کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے۔ 

غیر نصابی سرگرمیوں کی اہمیت اور فوائد

  • ہم نصابی سرگرمیاں طالب علموں میں کھیل، اداکاری، گانے، تلاوت، تقریر اور بیان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
  • گیم ڈیبیٹس، میوزک، ڈرامہ وغیرہ میں شرکت جیسی سرگرمیاں تعلیم کے مجموعی کام کو حاصل کرنے میں مدد کرتی ہیں۔
  • یہ طلباء کو مباحثوں کے ذریعے آزادانہ طور پر اظہار خیال کرنے کے قابل بناتا ہے۔
  • کھیل اور کھیل بچے کو فٹ اور توانا رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔
  • یہ صحت مند مسابقت کی روح کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے۔
  • یہ سرگرمیاں طلباء کی رہنمائی کرتی ہیں کہ کس طرح کسی سرگرمی کو منظم اور پیش کیا جائے، مہارت کیسے تیار کی جائے، مختلف حالات میں کس طرح تعاون اور ہم آہنگی پیدا کی جائے- یہ سب قائدانہ خصوصیات میں مدد کرتے ہیں۔
  • جب بچہ ثقافتی سرگرمیوں کے دوران منتظمین، ساتھی شرکاء، اساتذہ، اسکول سے باہر کے لوگوں سے رابطے میں آتا ہے تو یہ سماجی کاری، خود کی شناخت، اور خود تشخیص کی راہیں فراہم کرتا ہے۔
  • دوسروں کے خیالات اور احساسات کا احترام کرنے کے لیے اقدار کو ابھاریں۔
  • یہ آپ کو فیصلہ سازی میں کامل بناتا ہے۔
  • اس سے اپنائیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
  • سی سی اے سیکھنے کے لیے تحریک فراہم کرتا ہے۔
  • CCA جسمانی، نفسیاتی، اخلاقی، تعلیمی، شہری، سماجی، جمالیاتی، ثقافتی تفریحی، اور تادیبی اقدار جیسی اقدار کو فروغ دیتا ہے۔

نصابی سرگرمیوں کو منظم کرنے میں استاد کا کردار

  • استاد کو ایک اچھا منصوبہ ساز ہونا چاہیے تاکہ سال بھر مختلف سرگرمیوں کو منظم طریقے سے انجام دیا جا سکے۔
  • اساتذہ کا فرض ہونا چاہیے کہ وہ ہم نصابی سرگرمیوں کے دوران بچے کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرے۔
  • استاد کو کچھ اختراعی پروگرام متعارف کروا کر ایک اختراعی کے طور پر کام کرنا چاہیے۔
  • استاد کو ایک اچھا منتظم ہونا چاہیے تاکہ طلبہ اس کا زیادہ سے زیادہ تجربہ کر سکیں۔
  • اسے بھی ڈائریکٹر، ریکارڈر، تشخیص کار، مینیجر، فیصلہ ساز، مشیر، محرک، کمیونیکیٹر، کوآرڈینیٹر کی طرح کام کرنا چاہیے، تاکہ طالب علم اور بچہ ہم نصابی سرگرمیوں کے زیادہ سے زیادہ بہتر پہلوؤں کو حاصل کر سکیں۔

اسٹریٹجک پلان کے لیے مواصلاتی منصوبہ کیوں اہم ہے؟ 

تنظیم کے سائز، اس کے جغرافیہ یا صنعت سے قطع نظر، ایک مواصلاتی منصوبہ اسٹریٹجک پلان کے نفاذ کے لیے اہم ہے۔ اسٹریٹجک منصوبوں کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کے لیے، وہ افراد کی ایک وسیع رینج کے ان پٹ اور عزم پر انحصار کرتے ہیں جنہیں ابتدائی مراحل سے لے کر نتائج کی تخلیق تک اس عمل میں شامل اور آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔

مواصلات مشغولیت پیدا کرتا ہے۔

کسی اسٹریٹجک منصوبے کی تخلیق اور اس پر عمل درآمد کے دوران بعض اوقات مواصلات کی اہمیت کو نظر انداز یا کم سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ منصوبہ بندی کی کوششوں میں شامل افراد اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ کیا ہو رہا ہے، لیکن جو لوگ ٹیم سے باہر ہیں وہ اکثر بے خبر اور غیر ملوث ہوتے ہیں۔ مؤثر مواصلت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ تنظیم کے تمام اراکین اس منصوبے، اس کی اہمیت اور ان پر کیسے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ آخر کار، کامیابی حاصل کرنے کے لیے، اسٹریٹجک منصوبے تنظیم کے بہت سے لوگوں کی سرگرمیوں پر انحصار کرتے ہیں -- نہ صرف منصوبہ بندی کرنے والی ٹیم۔

مواصلات وسیع ان پٹ پیدا کرتا ہے۔

اسٹریٹجک منصوبہ بندی کے عمل میں ایک اہم مرحلہ SWOT ہے -- طاقتیں، کمزوریاں، مواقع اور خطرات -- تجزیہ۔ اس تجزیے میں تنظیم کے اندر اور باہر افراد کی ایک وسیع صف سے ان پٹ کو شامل کرنا چاہیے تاکہ اندھے دھبوں سے بچا جا سکے۔ ملازمین، دکانداروں، صارفین، کمیونٹی کے اراکین اور دیگر اہم حلقوں کے ساتھ بات چیت، اور ان کے ان پٹ اور فیڈ بیک کی فعال درخواست، اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ منصوبہ اثرات کی ایک وسیع رینج پر غور کرتا ہے جو تنظیم پر مثبت اور منفی دونوں طرح سے اثر انداز ہوں گے۔
مواصلات مفروضوں کو جانچنے میں مدد کرتا ہے۔

آزادانہ طور پر کام کرنے والے لوگوں کا ایک چھوٹا سا گروہ اچھی طرح سے ایسے مفروضے بنا سکتا ہے جو سامنے والے لوگوں کی حقیقت کی عکاسی نہیں کرتے۔ جیسا کہ منصوبہ تیار ہوتا ہے مواصلات مفروضوں کو جانچنے میں مدد کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، SWOT تجزیہ تنظیم کے ساتھ شیئر کیا جا سکتا ہے تاکہ اس کے اراکین اس بات پر غور کر سکیں کہ آیا صحیح اشیاء کو شامل کیا گیا ہے۔ جیسے جیسے حکمت عملی تیار ہوتی ہے، ان پٹ اس بات کا تعین کرنے میں مدد کر سکتی ہے کہ آیا وہ مناسب اور واضح طور پر قائم کردہ مقاصد کے ساتھ منسلک ہیں۔
مواصلات پیشرفت پر اپ ڈیٹ فراہم کرتا ہے۔

اکثر کمپنیاں اپنے اسٹریٹجک منصوبوں کے نفاذ میں جدوجہد کرتی ہیں۔ منصوبہ کے لاگو ہوتے ہی متعدد حلقوں سے بات چیت جاری رکھنا، پیش رفت، رکاوٹوں اور پلان میں تبدیلیوں کے بارے میں اپ ڈیٹس کا اشتراک کرنا، منصوبہ کو زندہ رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ چونکہ افراد کو منصوبہ بندی کے بعض مقاصد کے حصول کے لیے ذمہ داری سونپی گئی ہے، ان سے یہ بھی ضروری ہونا چاہیے کہ وہ اپنی پیشرفت کی مستقل بنیادوں پر رپورٹ کریں۔ اسٹریٹجک پلان کی ترقی اور نفاذ کے دوران لوگوں کی ایک وسیع رینج کو مؤثر طریقے سے لوپ میں رکھ کر، کمپنیاں اپنی کامیابی کو یقینی بناتی ہیں۔

کراچی میں ایک روزہ پیٹرول کی بندش

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting