جب میں یہ بلاگ لکھ رہا ہوں، تو ساتھ ہی یوٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھ رہا ہوں جو حیرت انگیز طور پر میرے حالیہ حالات سے جڑی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ یہ ویڈیو ان ہی مسائل پر روشنی ڈالتی ہے جن سے میں گزر رہا ہوں: گھریلو ناچاقی، جذباتی الجھنیں، اور ایسے حالات جو دوسروں کو فائدہ اٹھانے کا موقع دے سکتے ہیں۔
میں 35 سال کا ایک ذمہ دار شخص ہوں، اور زندگی کے تجربات نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ مسائل کو سمجھنا اور ان کا تجزیہ کرنا کتنا ضروری ہے۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ وہ مسائل جو مجھے واضح نظر آ رہے ہیں، میری والدہ، جو 60 سال کی زندگی گزار چکی ہیں، ان کو نظر نہیں آ رہے۔
یہی وہ خلا ہے جو ہمارے درمیان ناچاقی کو جنم دے رہا ہے۔ وہ اپنی نیت سے غلط نہیں ہیں، لیکن ان کے تجربات، سوچ اور جذبات میرے موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں ان سے اپنے نقطہ نظر کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں، تو وہ اسے نظر انداز کر دیتی ہیں یا اسے غلط سمجھ لیتی ہیں۔
تیسرے کا فائدہ
ایسے حالات میں سب سے زیادہ خطرہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی تیسرا شخص، جو اس صورت حال کو سمجھتا ہو، ان اختلافات کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو مجھے سب سے زیادہ فکر مند کرتی ہے۔ ہماری جذباتی کمزوری اور نااتفاقی کسی اور کے لیے موقع بن سکتی ہے، اور یہ وہ چیز ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
آگے کا راستہ
یہ سب لکھتے ہوئے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اس مسئلے کا حل کیا ہو سکتا ہے؟
سب سے پہلے، میں اپنی والدہ کے ساتھ بات چیت کا راستہ کھلا رکھنے کی کوشش کروں گا۔ ان کے ساتھ وقت گزار کر انہیں اپنے حالات اور جذبات کو بہتر طریقے سے سمجھانے کی کوشش کروں گا۔
دوسرا، میں اپنی ذات پر کام کروں گا، تاکہ میں جذباتی طور پر مضبوط رہوں اور کسی بھی تیسرے شخص کے اثر سے محفوظ رہوں۔
تیسرا، میں یہ سمجھنے کی کوشش کروں گا کہ اختلافات کے باوجود، گھر کی یکجہتی کو کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
گھر کے تعلقات اور جذباتی پیچیدگیاں آسان نہیں ہوتیں، لیکن اگر ان پر توجہ دی جائے اور تحمل سے کام لیا جائے، تو ان کے حل بھی ممکن ہیں۔ یہ بلاگ لکھتے ہوئے مجھے ایک بار پھر یہ احساس ہوا کہ مسئلے کو سمجھنا اور اس کا تجزیہ کرنا ہی پہلا قدم ہے۔ اب وقت ہے عمل کرنے کا، تاکہ میں نہ صرف اپنے حالات کو بہتر بنا سکوں بلکہ اپنے گھر کے تعلقات کو بھی محفوظ رکھ سکوں۔
عزت اور رویے: نسلوں کے درمیان ایک پل
میرا ماننا ہے کہ وقت ایک ایسا پہیہ ہے جو ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔ آج میرے والدین جس مقام پر ہیں، 20 یا 30 سال بعد میں بھی وہیں پہنچ جاؤں گا۔ یہی سوچ مجھے اپنے رویے اور اقدار کے بارے میں مزید حساس بناتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عزت ایک ایسی چیز ہے جو نہ صرف دی جانی چاہیے بلکہ کمائی بھی جاتی ہے۔
جب میں یہ کہتا ہوں کہ عزت میں deserve کرتا ہوں، تو اس کے ساتھ یہ بھی میرا ایمان ہے کہ میرے والدین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وہی رویہ اپنائیں جو وہ خود دوسروں سے اپنے لیے چاہتے ہیں۔ یہ اصول، "Treat others just like you want yourself to be treated"، نہ صرف زندگی کو آسان بناتا ہے بلکہ نسلوں کے درمیان ایک مضبوط پل بھی بناتا ہے۔
یہاں میرا مقصد ہرگز بڑوں کی عزت یا ان کے تجربے کو کم تر دکھانا نہیں ہے۔ ان کی زندگی کے تجربات اور قربانیاں ہماری زندگی کی بنیاد ہیں۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ عزت دو طرفہ راستہ ہے۔ اگر والدین یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے بچے ان کی عزت کریں گے اور ان کی بات مانیں گے، تو اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ بچوں کو سنیں، ان کے جذبات کو سمجھیں، اور انہیں وہ مقام دیں جس کے وہ مستحق ہیں۔
زندگی کے اس سفر میں، ہر نسل کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوتا ہے۔ والدین اپنی زندگی کے اس مرحلے پر جہاں رہنمائی فراہم کرتے ہیں، وہاں بچوں کے جذبات اور سوچ کو بھی جگہ دینا ضروری ہے۔ اسی طرح، بچوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے والدین کے تجربات اور مشوروں کا احترام کریں۔
میری سوچ کا خلاصہ یہ ہے کہ عزت اور محبت کی بنیاد مساوات اور انصاف پر ہونی چاہیے۔ اگر ہم اپنے بڑوں کے ساتھ وہی سلوک کریں جو ہم اپنی بڑھاپے میں دوسروں سے چاہتے ہیں، تو نہ صرف خاندان میں سکون ہوگا بلکہ ہمارے رشتے بھی زیادہ مضبوط ہوں گے۔
اسٹیٹس ٹریپ: ہماری پرمپرا اور معاشرتی الجھنیں
یہ ایک سادہ سی بات ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی سادگی میرے گھر میں بحث کا باعث بن رہی ہے۔ میری والدہ اور ان کے نقش قدم پر چلتی ہوئی میری بیوی بھی اسی سوچ کی پیروی کر رہی ہیں، جس نے مجھے گہرے تجزیے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس معاملے میں ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ "اسٹیٹس ٹریپ" کیا ہے اور یہ ہماری زندگیوں پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں اکثر یہ سوچ پروان چڑھائی جاتی ہے کہ اپنی اولاد کو اسی راستے پر چلایا جائے جس پر والدین چلے ہیں۔ اسے ہندی میں "پرمپرا" کہتے ہیں، اور انگریزی میں "لیگیسی"۔ یہ خیال کہ ہماری اولاد ہمارے نقش قدم پر چلتی رہے، ایک طرف تو خوبصورت لگتا ہے، لیکن دوسری طرف یہ ایک گہرے مسئلے کو جنم دیتا ہے۔ اس لیگیسی کے چکر میں ہم مستقبل کے امکانات کو محدود کر رہے ہیں اور نئی نسل کو غیر ضروری دباؤ کا شکار بنا رہے ہیں۔
اب اگر ہم اس مسئلے کو مزید گہرائی سے دیکھیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہم اسٹیٹس اور دکھاوے کے چکر میں اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگی برباد کر رہے ہیں؟ مثال کے طور پر، اگر آپ کی سالانہ آمدنی 4 لاکھ ہے، لیکن آپ ایک ایسی چیز خریدنے کا سوچ رہے ہیں جس کی قیمت 10 لاکھ ہے، صرف اس لیے کہ آپ دنیا کے سامنے اپنی حیثیت ظاہر کر سکیں، تو یہ دنیا کی سب سے بڑی بے وقوفی ہوگی۔
یہی وہ سوچ ہے جو ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی معاشی اور سماجی برائیوں کا باعث بن رہی ہے۔ ہم اپنے وسائل سے زیادہ خرچ کرنے کی عادت کو اپنی شان سمجھتے ہیں، لیکن اس کے نتیجے میں نہ صرف ہمارا اپنا مستقبل خطرے میں پڑتا ہے بلکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی قرض اور مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں۔
کسے ذمہ دار ٹھہرائیں؟
اس الجھن کے لیے ذمہ داری کس پر ڈالی جائے؟ والدین پر، جو اپنی اولاد کو اپنی پرانی روایات میں جکڑتے ہیں؟ یا معاشرے پر، جو اسٹیٹس اور دکھاوے کو اہمیت دیتا ہے؟ شاید دونوں۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنی نسلوں کو آزادانہ فیصلے کرنے دیں، اور معاشرے کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حیثیت کا مطلب دکھاوا نہیں بلکہ حقیقی خوشحالی ہے۔
آگے کا راستہ
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی سوچ اور عمل کو تبدیل کریں۔ ہمیں اپنی ضروریات اور خواہشات کے درمیان فرق کو سمجھنا ہوگا۔ اپنی نسلوں کو پرمپرا کے جال سے آزاد کرکے ان کے لیے بہتر مواقع پیدا کرنے چاہئیں، تاکہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کریں اور دکھاوے کے بجائے حقیقی خوشی کو اہمیت دیں۔
یہ بلاگ صرف ایک سوال نہیں بلکہ ایک دعوتِ فکر ہے۔ کیا ہم اپنی نسلوں کو آزاد اور خودمختار بنانا چاہتے ہیں، یا انہیں اسٹیٹس ٹریپ کا غلام؟ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔
کیا ہمارے لئے واقعی میں ضروری ہے کہ ہم اس گولڈی لوکس زون کے پیرادوکس میں اپنے آپ کو پھنسا کر رکھیں؟
شناخت کا بحران: کیا ہم صحیح اور غلط کا تعین کر پا رہے ہیں؟
انگریزی زبان میں اسے identification کہتے ہیں—یعنی یہ سمجھنا اور پہچاننا کہ ہمارے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ایسا کوئی نظام یا mechanism بنایا ہے جس کی مدد سے ہم اس فرق کو واضح کر سکیں؟ یا ہم محض اپنی ضد، انا، اور موروثی روایات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، جو نہ صرف ہمیں بلکہ ہماری آئندہ نسلوں کو بھی متاثر کر رہی ہیں؟
ہمارے بڑے، اپنی دانائی اور تجربے کے زور پر ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہی ہر بات میں صحیح ہیں۔ ان کے اس خودساختہ "صحیح ہونے" کے احساس نے ان کی آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ دی ہے کہ انہیں یہ دکھائی ہی نہیں دیتا کہ اس ضد اور جبر کے چکر میں وہ اپنے ہی مستقبل کے ساتھ کیسا غیر ذمہ دارانہ کھیل کھیل رہے ہیں۔
ہماری ترجیحات اور ان کا اثر
یہ پہچان کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، ہر نسل کے لیے ضروری ہے۔ لیکن جب بڑی نسل اپنی ترجیحات کو نئی نسل پر مسلط کرتی ہے، تو نہ صرف ان کی تخلیقی صلاحیتیں دبتی ہیں بلکہ وہ جذباتی اور ذہنی طور پر بھی شدید دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ مسئلہ صرف گھریلو سطح تک محدود نہیں، بلکہ ہمارے معاشرتی اور ثقافتی نظام کا حصہ بن چکا ہے۔ Identification کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے اصولوں کو واضح کریں، اپنی ضروریات کو خواہشات سے الگ کریں، اور اس بات کو سمجھیں کہ ہماری ترجیحات کا اثر نہ صرف ہم پر بلکہ ہماری آئندہ نسلوں پر بھی ہوگا۔
آگے کا راستہ
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خود کو اس جمود سے آزاد کریں۔ ہمیں ایک ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے جہاں ہر نسل کے افراد کو اپنی شناخت بنانے کا موقع ملے۔
بات چیت کو فروغ دیں: بڑوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کا تجربہ قیمتی ہے، لیکن ان کے تجربات ہر وقت اور ہر حال میں قابلِ عمل نہیں ہوتے۔ نئی نسل کے خیالات کو سننا اور سمجھنا ضروری ہے۔
تعلیم اور شعور: ہمیں اپنی تعلیم اور تربیت کے ذریعے بچوں میں یہ صلاحیت پیدا کرنی چاہیے کہ وہ اپنی ضروریات اور خوابوں کو سمجھ سکیں، اور اپنے لیے صحیح فیصلے کر سکیں۔
لچکدار رویہ: ہمیں اپنے رویوں میں لچک پیدا کرنی ہوگی۔ دنیا بدل رہی ہے، اور پرانی روایات کے ساتھ جڑے رہنے کے بجائے ہمیں ان روایات کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔
یہ بلاگ محض ایک سوال نہیں بلکہ ایک دعوتِ فکر ہے۔ کیا ہم اپنی نسلوں کو آزاد، خودمختار، اور تخلیقی بنانا چاہتے ہیں، یا انہیں اپنے اصولوں کے تنگ دائرے میں قید رکھنا چاہتے ہیں؟ فیصلہ ہم سب کے ہاتھ میں ہے۔ آئیں، identification کے ذریعے صحیح اور غلط کا فرق سمجھیں اور ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھیں۔
یہی چیز زرا بھارت یا کسی طاقتور ملک کے لئے بول کر دیکھتے!
پرانے وقتوں میں آج کے زمانے کے متعلق بتایا گیا تھا کہ برائی ایسے تمہارے اوپر نازل ہوں گی جیسے بارش کے قطرے، پہلے پہل اس حوالے سے یہ سمجھا گیا کہ ریڈیو ویوز کے متعلق ہے، مگر اب سمجھ آرہا ہے کہ ہم translations میں پھنسے رہے، اصل چیز یہی تھی کہ پاکستان آج کے دور میں مخالف پروپیگنڈے کی یلغار کا شکار ہے، جو کہ پرانے وقتوں میں بارش کی مانند بتلایا گیا تھا ، اور بدقسمتی سے ہم یہ جنگ مسلسل ہار رہے ہیں، کیونکہ نا صرف یہ جنگ کو طریقے کے ساتھ لڑی جاتی ہے، نا کہ شور و غل مچا کر، جو کہ ایک ہجوم کی ڈیفینیشن ہے، نا ہی ہم نے کچھ بنانے کی کوشش کی ہے، بلکہ الٹا جو ہمارے اباؤ اجداد نے بنایا تھا، وہ بھی تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ تو میرے نذدیک یہ صرف ایک سفارتی ناکامی نہیں بلکہ قومی غیرت اور سلامتی پر حملہ ہے۔
مخالف عناصر مسلسل جھوٹے بیانیے پھیلا کر پاکستان کو عالمی سطح پر کمزور اور غیر مستحکم ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بالاکوٹ حملے کے بعد بھارتی میڈیا نے جھوٹے دعوے اور من گھڑت کہانیاں گھڑ کر ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا، مگر افسوس کہ ہمارا قومی میڈیا اور حکومتی ادارے اس کے جواب میں کمزور ثابت ہوئے، کیونکہ میرے نذدیک ہم ان سب کے لئے کبھی تیار تھے ہی نہیں، نا ہی ہمیں یونی ورسٹی میں اس بارے میں پڑھایا گیا ہے، بجائے اس کے کہ ہم رٹے مار مار کر اسٹوڈنٹس کے نام پر Zombies بنا رہے ہیں، ایسے میں ہمیں انتظار کرنا چاہئے کہ ایک Zombie apocalypse کا انتظار کریں، کیونکہ ہمارے موجودہ حالات ہمیں واقعی میں اس جانب لے جارہے ہیں، جہاں ہم اپنے خود کے لئے ایک طرح کی wall of no return کی جانب لے جارہے ہیں۔
ہماری خاموشی اور کمزور بیانیے کے نتیجے میں عالمی سطح پر ہماری ساکھ متاثر ہوئی، معیشت کو شدید نقصان پہنچا اور قوم میں مایوسی اور عدم اعتماد بڑھا۔ سی پیک جیسے اہم منصوبے کے خلاف بھی جھوٹے پراپیگنڈے کیے گئے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔
آئی سی سی چمپئینز ٹرافی 2025 میں بھی بھارت نے متعصبانہ رویہ اختیار کیا، جبکہ بقیہ چھ ممالک کو پاکستان آنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا، بلکہ ابھی بھی ویسٹ انڈیز کی ٹیم جنوری میں پاکستان میں سیریز کھیلنے کے لئے موجود ہے، اس کے برعکس بھارت نے سیاسی دباؤ ڈال کر اپنے میچز دبئی منتقل کروا لیے، جس سے پاکستان کے عالمی تشخص کو نقصان پہنچا۔
ہمارے میڈیا کا رویہ اس دوران غیر سنجیدہ رہا، جوش و خروش دکھانے کے بجائے تعمیری اور مدبرانہ صحافت کا مظاہرہ نہ کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ ٹی آر پی اور ریٹنگز کے لالچ میں ملکی وقار سے بڑھ کر ہے؟
پاکستان میں خواتین کے ساتھ بھی پروپیگنڈے کے تحت ناانصافی ہو رہی ہے۔ میڈیا اور اشتہارات میں خواتین کو صرف جنسی علامت (Sex Symbol) بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، جس سے ان کی عزت و وقار پامال ہو رہی ہے اور یہ ہماری ثقافت و دینی اقدار کے سراسر خلاف ہے۔ اس غیر اخلاقی رویے کے باعث ہماری نوجوان نسل اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو رہی ہے۔ حالانکہ یہ چیزیں دنیا میں بھی ہورہی ہیں، مگر پاکستان کو جس طرح ان چیزوں میں ڈالا جارہا ہے، اور جس طرح پاکستان کا نام اس طرح کی controversies میں ڈال کر گندہ کیا جارہا ہے، اور اس کے اوپر جس طرح سے پاکستانی میڈیا اور کی بورڈ وارئیرز (keyboard warriors) پاکستان کے لئے کام کررہے ہیں، ہمیں واقعی میں بیرونی دشمنوں کی ضرورت نہیں، یہ لوگ ہیں نا!
اگر ہم نے اس صورتحال پر قابو نہ پایا تو:
پاکستان مزید بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہوگا۔
معیشت مزید زوال پذیر ہوگی۔
قومی بیانیہ مکمل طور پر مخالف قوتوں کے قبضے میں چلا جائے گا۔
اب وقت ہے کہ ہم ایک مؤثر قومی بیانیہ تشکیل دیں، پروفیشنل میڈیا ٹیمیں اور جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے سچائی پر مبنی حقائق پیش کریں۔ خواتین کے احترام اور پاکستان کی اصل شناخت کو اجاگر کریں تاکہ ہمارا قومی وقار، استحکام اور خودمختاری محفوظ رہ سکے۔
ہماری معاشرتی ساخت میں ایک سنگین مسئلہ جڑ پکڑ چکا ہے، جو کہ بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ اور نوجوانوں پر اپنی رائے کو حتمی قرار دینے کا ہے۔ یہ رویہ نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبانے اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
تاریخی تناظر
اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہر ترقی یافتہ قوم نے خود کو وقت کے ساتھ جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے۔ صنعتی انقلاب کے دوران یورپ نے نئی ٹیکنالوجی اور صنعتی مہارتوں کو اپنایا، جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی ناکامیوں سے سیکھ کر خود کو جدیدیت کے سانچے میں ڈھالا۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بزرگوں کے تجربات کو حرف آخر سمجھتے ہوئے نوجوانوں کو اپنی ہی طرز پر زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے، چاہے دنیا کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر چکی ہو۔
عالمی دنیا میں تبدیلی کا اصول
ترقی یافتہ اقوام مسلسل خود کو اپ ڈیٹ کرتی ہیں۔ تعلیمی نظام، کاروباری حکمت عملیاں اور معاشرتی اقدار سب وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہیں۔ گوگل، ایپل اور ٹیسلا جیسی کمپنیاں جدید سوچ کو فروغ دیتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں نوجوانوں کو نئے آئیڈیاز پیش کرنے سے روکا جاتا ہے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اکثر "ناپختہ" کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گوگل، ایپل اور ایمیزون جیسی کمپنیاں وجود میں نہیں آئیں کیونکہ ہم نے تخلیقی سوچ اور نئے آئیڈیاز کو فروغ نہیں دیا۔
صنفی امتیاز اور خواتین کا کردار
ہم نے صنفی امتیاز کو بھی فروغ کردیا ہے۔ خواتین کو اکثر ایسے کرداروں میں محدود کر دیا جاتا ہے جہاں انہیں سنجیدہ مواقع سے محروم رکھا جاتا ہے۔ جب ان سے کسی تعمیری کردار کی توقع کی جاتی ہے تو ماضی کی روایات کا حوالہ دے کر انہیں پیچھے رکھا جاتا ہے، جو کہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، چونکہ ہم عورتوں کے اندر موجود خوبیوں کو استعمال کرنے کے بجائے ان کو ضائع کررہے ہیں۔
بزرگوں کی سوچ میں یہ خود پسندانہ رویہ کیوں؟
1. خوف اور عدم تحفظ:
بزرگ اپنے تجربات کو محفوظ ترین سمجھتے ہیں اور نئے خیالات کو خطرہ تصور کرتے ہیں۔
2. سماجی تسلط:
بزرگوں کو ہمیشہ حتمی اتھارٹی سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی رائے کو حرف آخر مانا جاتا ہے۔
3. تاریخی پس منظر:
ماضی کے روایتی نظام میں استاد، والدین اور بزرگوں کی رائے کو بغیر سوال کیے قبول کرنا ادب سمجھا جاتا تھا۔
توازن کی ضرورت
بزرگوں کی موجودگی ہماری زندگیوں میں آکسیجن کی طرح اہم ہے، جو رہنمائی اور تجربے کا باعث بنتی ہے۔ تاہم، جیسے آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں توازن ضروری ہے، ویسے ہی بزرگوں اور نوجوانوں کی سوچ میں بھی اعتدال ضروری ہے تاکہ نہ تو تجربے کو نظر انداز کیا جائے اور نہ تخلیقی صلاحیتوں کو دبایا جائے۔
بحث کے دو رخ:
احترام بمقابلہ جوابی دلائل
1. جوابی بحث (Tit-for-Tat Argument):
اس میں ہر فریق دوسرے کی بات کا سخت جواب دیتا ہے جس سے اختلافات بڑھتے ہیں اور مسئلے کا حل نہیں نکلتا۔
2. احترام کے ساتھ بحث:
اس میں دونوں فریق ایک دوسرے کی بات کو توجہ سے سنتے ہیں، اختلاف کو عزت کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور حل کی طرف بڑھتے ہیں۔
تبدیلی کے لیے عملی اقدامات:
1. بزرگوں کی رہنمائی:
بزرگوں کو مشورہ دینا چاہیے کہ وہ نوجوانوں کی تخلیقی سوچ کی حوصلہ افزائی کریں اور اپنی رائے کو رہنمائی کے طور پر پیش کریں۔
2. نوجوانوں کی تخلیقی آزادی:
نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو آزمانے اور تجربہ کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ ان کے خیالات کو عملی شکل دی جا سکے۔
3. مکالمے کا فروغ:
معاشرتی سطح پر ایسی گفتگو کو فروغ دیا جائے جس میں اختلاف رائے کو احترام سے سنا جائے۔
4. مسلسل سیکھنے کی روایت:
بزرگوں اور نوجوانوں دونوں کے لیے سیکھنے کے عمل کو مستقل جاری رکھا جائے تاکہ وقت کے ساتھ ترقی ممکن ہو۔
5. نئے آئیڈیاز کی پذیرائی:
ایسے پلیٹ فارمز بنائے جائیں جہاں نوجوانوں کے نئے خیالات اور کاروباری منصوبوں کو فروغ دیا جائے تاکہ پاکستان میں بھی عالمی معیار کی کمپنیاں بن سکیں۔
جب تک ہم اپنے معاشرتی رویوں میں یہ تبدیلی نہیں لائیں گے، تب تک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کا خطرہ برقرار رہے گا۔ ہر نسل کی اپنی منفرد صلاحیتیں ہوتی ہیں اور انہیں دبانے کے بجائے اجاگر کرنا ہی معاشرتی ترقی کی اصل کنجی ہے۔
پاکستانی معاشرہ روایات، عقیدت اور احترام کی بنیادوں پر قائم ہے۔ بزرگوں کا احترام اور ان کی موجودگی ہمیشہ سے ہمارے خاندانی نظام کا ایک اہم ستون رہی ہے۔ تاہم، موجودہ حالات میں ایک ایسا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے جو معاشرتی ترقی کے لیے رکاوٹ بن رہا ہے۔ بزرگوں کی جانب سے نوجوانوں کی تخلیقی سوچ کو دبانے اور ہر نئی رائے کو غیر ضروری سمجھنے کا رویہ، ہماری اجتماعی ترقی میں کمی کی ایک بڑی وجہ بن چکا ہے۔
تاریخی تناظر اور حالیہ صورت حال
اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ترقی یافتہ اقوام نے ہمیشہ اپنی روایات کے ساتھ خود کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے۔ صنعتی انقلاب کے دوران یورپ نے زرعی معیشت سے صنعتی معیشت کی طرف پیش قدمی کی اور جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی ناکامیوں سے سیکھ کر جدیدیت کو اپنایا۔
بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں یہ تبدیلی کا رجحان بہت کمزور رہا ہے۔ بزرگوں کی خود پسندی اور اپنی رائے کو حتمی سمجھنے کا رویہ نوجوانوں کی تخلیقی آزادی کو محدود کر دیتا ہے۔ نئے خیالات کی مخالفت اور پرانی روایات پر اصرار ہمیں ایک محدود ذہنیت میں مقید رکھے ہوئے ہے۔
مثبت سوچ کی کمی کے اسباب
1. خوف اور عدم تحفظ:
بزرگ اپنے تجربات اور فیصلوں کو محفوظ ترین سمجھتے ہیں اور کسی بھی نئی سوچ کو معاشرتی بگاڑ تصور کرتے ہیں۔
2. سماجی تسلط:
ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں بزرگوں کی رائے کو حتمی مانا جاتا ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا موقع نہیں ملتا۔
3. تعلیمی اور معاشرتی جمود:
ہمارے تعلیمی نظام میں تنقیدی سوچ اور سوال کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔
4. روایتی سوچ کا تسلط:
ہر نئی تبدیلی کو ایک خطرہ تصور کیا جاتا ہے اور ماضی کے تجربات کو جدید حلوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔
پاکستان میں گوگل، ایپل اور ایمیزون کیوں نہیں؟
پاکستان میں گوگل، ایپل اور ایمیزون جیسی کمپنیاں نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہی منفی اور محدود سوچ ہے۔ ہم نے کبھی نوجوانوں کے آئیڈیاز کو نہ صرف پذیرائی نہیں دی بلکہ ان کے نئے منصوبوں کو "غیر حقیقت پسندانہ" کہہ کر مسترد کر دیا۔ ایسے ماحول میں تخلیقی صلاحیتوں کا ابھرنا ممکن نہیں۔
دقیانوسیت کو پروموٹ کرنا
ہماری معاشرتی ساخت میں ایک سنگین مسئلہ جڑ پکڑ چکا ہے، جو کہ بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ اور نوجوانوں پر اپنی رائے کو حتمی قرار دینے کا ہے۔ یہ رویہ نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبانے اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے
بزرگوں کی موجودگی کی اہمیت اور توازن
بزرگوں کی موجودگی آکسیجن کی طرح ضروری ہے،
جو ہمارے لیے رہنمائی اور تجربے کا خزانہ ہے۔ تاہم، جیسے آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں توازن ضروری ہے، ویسے ہی بزرگوں کے تجربے اور نوجوانوں کی تخلیقی سوچ میں بھی اعتدال ضروری ہے۔ نہ تو بزرگوں کو نظرانداز کیا جائے اور نہ ہی نوجوانوں کو دبایا جائے۔
بحث کے انداز میں فرق
1. جوابی دلائل (Tit-for-Tat Argument):
اس میں ہر فریق دوسرے کی بات کا سخت جواب دیتا ہے جس سے مسائل مزید بگڑ جاتے ہیں۔
2. احترام کے ساتھ بحث:
اس میں دونوں فریق ایک دوسرے کی بات کو احترام سے سنتے ہیں اور حل کی تلاش میں مثبت رویہ اپناتے ہیں۔
تبدیلی کے لیے اقدامات
1. بزرگوں کا رہنمائی کا کردار:
بزرگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی رائے کو حتمی فیصلے کی بجائے ایک رہنمائی کے طور پر پیش کریں۔
2. نوجوانوں کی تخلیقی آزادی:
نوجوانوں کو اپنی سوچ کے مطابق تجربات کرنے دیے جائیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو آزما سکیں۔
3. مسلسل سیکھنے کی روایت:
بزرگ اور نوجوان دونوں کو سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنا چاہیے تاکہ وقت کے ساتھ ترقی ممکن ہو۔
4. نئے آئیڈیاز کی پذیرائی:
ایسے پلیٹ فارمز بنائے جائیں جہاں نوجوانوں کے نئے خیالات اور کاروباری منصوبوں کو فروغ دیا جائے۔
5. تعلیمی نظام میں بہتری:
ایسے تعلیمی نصاب کو فروغ دیا جائے جو تنقیدی سوچ، سوال کرنے کی عادت اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرے۔
نتیجہ
جب تک ہم اپنے معاشرتی رویوں میں یہ مثبت تبدیلیاں نہیں لائیں گے، تب تک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کا خطرہ برقرار رہے گا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر نسل کی اپنی منفرد صلاحیتیں ہوتی ہیں، جنہیں دبانے کے بجائے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ بزرگوں کی رہنمائی اور نوجوانوں کی تخلیقی سوچ کا امتزاج ہی پاکستان کو ایک روشن اور ترقی یافتہ قوم بنا سکتا ہے۔