Search me

Data Management and its implications/applications in Pakistan

ان کا کہنا ہے کہ جو ممالک ڈیٹا مینجمنٹ کی اہمیت کو نہیں سمجھتے ان کے جدید معیشت میں زندہ رہنے کے امکانات کم ہیں۔ اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کسی ملک کا ڈیٹا اس کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔ ڈیٹا کسی ملک کی معلومات، علم اور بالآخر درست فیصلوں اور اعمال کے لیے حکمت کی بنیاد ہے۔

ڈیٹا مینجمنٹ کے پیشے کے بارے میں بنیادی تفصیلات

Pakistani Authorities fighting back - positively

یہ اچھا وقت نہیں کہ میں ایسا کہوں کہ یہ سب اچھا ہورہا ہےمگر پاکستانی حکومت اپنی پی آراستعمال کررہی ہے اور انٹرنیشنلی جواب مانگ رہی ہے کہ جب آپ لوگوں کو ہماری ضرورت تھی تو جب ہمیں آپ کی ضرورت تھی تو جب آپ کہاں تھے؟؟؟ ہماری پچھلی حکومتوں میں یہ اخلاقی جرات نہیں تھی۔
 



 
پہلے میں مندرجہ بالا اسکرین شاٹ کو ڈسکس کروں گا، جہاں حکومت برطانیہ نے ای سی بی کے decision کو بیک نہیں کیا ہے، خاص طور پر جب ہائی کمیشنر اگر اسلام آباد میں بیٹھ کر یہ لائن بولے تو ای سی بی کہاں بیٹھی ہوئی ہے؟
 
میں جب اپنا آرٹیکل لکھنے کے لئے یہ آرٹیکلز کاanalysis کررہا تھا، تو پاکستان نے سب سے ذیادہ away ٹورز کئے ہیں، اس میں ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے ہوم گیمز بھی اوے گیمز رہے ہیں، کیونکہ statistics کی مانوں تو پچھلے ۱۸ مہینوں میں پاکستان نے ۳۵ گیمز کھیلے اور پاکستان کے بعد جو دوسرا نمبر تھا وہ آسٹریلیا تھا جس نے اسی ٹائم پیریڈ میں ۲۴ گیمز کھیلے تھی، مگر ان ۱۸ مہینوں میں پاکستان نے دو بار انگلینڈ کا ٹور کیا، نیوزی لینڈ کا ایک، جنوبی افریقہ اور زمبابوے اور آخر میں ویسٹ انڈیز کا ٹور کیا جس کے بعد پاکستان کا مصروف ہوم سیزن تھا، جس میں سے دو سیریز میں سے ایک سیریز کو تو ختم شد سمجھیں اور دوسری ہوم سیریز کو بھی goner سمجھیں، بلکہ آنے والے ٹائم میں آسٹریلیا سے بھی وہی امید ہے جو نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے پیش کیا، مگر جس طرح پاکستان نے کرکٹ دوستی کا حق ادا کیا، مگر اس کے متبادل میں کچھ زیادہ امید رکھ لی تھی، جس کو ٹھیس پہنچی ہے۔ مگر میرا اب یہی کہنا ہے کہ پاکستان کو اب بیک اپ پلان کی جانب جانا چاہیئے بالکل ویسا ہی جیسا جنوبی افریقہ نے اپنے ڈومیسٹک کو ڈیویلپ کیا، کیونکہ میرے نذدیک یہی حل ہے، کیونکہ یہاں پاکستان کرکٹ as a product بات کررہا ہوں، بالکل ویسا ہی جیسے آپ کسی سوپر مارکٹ جاتے ہیں، جیسے میں جاتا ہوں تو مجھے چونکہ ایک particular برینڈ کا شیمپو suit کیا ہے تو میں اسی برینڈ کی جانب جاؤں گا، حالانکہ وہاں ہیڈ اینڈ شولڈرز بھی ہوگا مگر میں اپنے برینڈ کی جانب جاؤں گا کیونکہ میں اپنے برینڈ کو ٹیسٹ کرچکا ہوں۔

اس mentality کے لئے ضروری بھی ہے 

 کہ ہم اپنے home grown technicians، براڈکاسٹرز، ٹیکنیکل ٹیمز وغیرہ اور ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کو عزت دینا سیکھیں کیونکہ جب آپ ان ہنر مندوں کو عزت دیں گے تو ایک ایکو سسٹم بھی بنے گا، اور نتیجہ میں انویسٹرز یہاں بھی انویسٹ کرے گا، ورنہ پاکستان میں ۲۰۰۹ کے بعد سے یہی ہورہا ہے کہ ریڈی میڈ ٹیمپلیٹ کو اٹھا کر پاکستان کے ہوم گیمز میں انکارپوریٹ کردیا جاتا ہے، جبکہ ہمیں اپنے ہوم گرون ٹیمپلیٹس کو استعمال کرنا چاہئے، مگر معذرت کے ساتھ جو ہم نہیں کررہے ہیں کیونکہ ہم میں ٹرولنگ کی اتنی گندی گند آچکی ہے کہ ہنر مند اور ششکے بازوں میں فرق کرنا بھول ہی گئے ہیں، بالکل ویسے ہی، جب ہم فرئیر ہال کراچی کے پاس سے شام میں گزرتے ہیں تو کافی لوگ ٹک ٹاک بناتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں، کیونکہ ہم نے ان لوگوں کا مذاق اُڑایا ہے جو ہمیں constructive activities کی جانب لا سکتے تھے، جو کہ نہیں ہے تب ہی ہم ٹرولنگ کی جانب مبذول ہوئے ہیں، اور اب میراثی بننے کی تیاری ہے، بات ساری ذہنیت کی ہے۔


اس کے بجائے کہ ان لوگوں کے پیچھے بھاگیں، پہلے اپنی کرکٹ اکانومی بنائیں، I am quoting Ramiz Raja دبئی لاہور سے 1.5 گھنٹہ دور ہے مگر یہاں سے بھاگ کر وہاں ببل environment میں خوشی خوشی جارہے ہیں، یہی کرکٹرز جب پی ایس ایل میں آتے ہیں، تب بھی مسئلہ نہیں ہوتا، تو ایسے میں، میں اس نتیجہ پر پہنچ رہا ہوں کہ اگر آپ کی کرکٹ اکانومی جس میں پریزنٹیشن، پروڈکشن، مارکٹنگ، اسٹریمنگ وغیرہ اس کے کچھ حصے ہیں، مگر جب آپ کی کرکٹ کے یہ aspect پاور فل ہوں گے، تو یہی آپ کو revenue کو generate کرکے دیں گے، اور جب revenue جینیریٹ ہوگا تو آپ کی پروڈکٹ میں پیسہ آئے گا، اور جب پیسہ آئے گا تو یہ لوگ اپنی لنگوٹ چھوڑ کر آئیں گے، پھر چاہے ۵ آئی ہو، ۶ آئی ہو یا ۱۰ آئی، یہ لوگ بالکل ویسے ہی آئیں گے جیسے آئی پی ایل کے لئے یہ لوگوں نے نیشنل ڈیوٹی چھوڑی ہے۔

Where are we as Pakistanis?

معذرت کے ساتھ، ہم سب کچھ ہیں، مگر پاکستانی نہیں، اتنا بڑا ہاتھ ہمارے ساتھ ہوچکا ہے، مگر مجال/محال ہے کہ ہماری سوچ پاکستان سے باہر گئی ہو کہ پاکستان کے بارے میں کیا کچھ خبریں باہر بریک ہورہی ہیں، خیر اس حوالے سے کیا کہنا یہاں معذرت کے ساتھ ہم لوگ اتنے پتھر دل ہوچکے ہیں کہ بارش کے موسم کی وجہ سے ایک بینک کا کیش آفیسر بائیک سے گرنے کی وجہ سے لیٹ آتا ہے تو میں نے اپنے گناہ گار کانوں سے کسٹمر کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مرتا ہے تو مرے میرا چیک کیش کر کے دے۔

اس قدر پتھر دل ہوچکے ہیں، تو ایسے میں پاکستان کہاں ہے؟

 پاکستانی بننے کے لئے پہلے انسانیت ہونا ضروری ہے، پہلے میں سوچتا تھا کہ کیونکر یہ پاکستانی قوم بائیک پر سیون اپ کی بوتل لے کر چلتی ہے، مگر جب میں نے خود تجربہ کیا تو ماشا اللہ سے ہمارے پیٹرول پمپ والے مالکان پیٹرول بھرنے میں جس طریقے کی ڈںڈی مارتے ہیں، اس کے جواب میں لوگوں نے بوتل رکھنا اسٹارٹ کی ہے، یعنی جب انسان کو انسان پر بھروسہ نہیں ہے تو انسانیت کہاں ہے؟

جب ایسی پکچرز پاکستان کی دیکھی جائیں گی، تو آپ لوگ کیا سمجھتے ہیں، وہ لوگ ہمیں کیسے پرکھتے ہوں گے؟

میں دو philosophies کا firm believer ہوں، یکم for every action, there is an equal and opposite reaction دوم Murphy's Law یعنی ہر ہونے والی چیز ہو کر ہی رہے گی، چاہے آپ جتنے جتن کرلیں، اور کوئی بھی چیز ہونے کے لئے کچھ فیکٹرز ہوتے ہیں، جن کو پرفارم کرتے ہیں تب ہی رع ایکشن میں یہ آؤٹ پٹ آتا ہے جس کے نتیجے میں ہم یہ کہتے ہہیں کہ ہمارے ساتھ یہ سب کچھ ہوگیا، جب کہ ہوسکتا ہے کچھ سالوں پہلے آپ نے کچھ ایسا کیا ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں آج یہ نتائج ہمیں دکھائی دیتے ہیں، مگر چونکہ ہم شتر مرغ کی مانند منہ مٹی کے اندر ڈال کر سمجھتے ہیں، کہ All is Well تو ایسے میں ہمارا اللہ ہی مالک ہے۔

پہلے #PAKvNZ پھر #PAKvENG ، مگر پاکستان کے متعلق تھوڑی سوچنا ہے ہمیں

کیونکہ اگر پااکستان کے متعلق ہم نے سوچنا اسٹارٹ کردیا تو ہمارے زاتی مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہے، کیونکہ اگر میں اندر کی بات کروں تو ہمارے کرکٹ بورڈ کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کے مفادات میں ہی نہیں کہ پاکستان میں کھیل ہو بلکہ ان کے اپنے مفادات میں یہی ہوتا ہے پاکستان کو دبئی کو اپنا ہوم گراؤنڈ بنا لیں، کیونکہ دبئی میں ان لوگوں کو زیادہ فائدہ ہورہا ہوتا ہے، کیونکہ جس طرح ۲۰۲۱ کے پی ایس ایل کا سکینڈ لیگ ابو ظہبی میں ہواجبکہ انہی دنوں میں کراچی میں لاک ڈاؤن ہلکا ہونے والا تھا تو ایسے میں اگر پاکستان میں کرکٹ ترجیع ہوتی تو پی ایس ایل کے بقیہ گیم بھی پاکستان میں کراسکتے تھے، جس کو بلاوجہ ابو ظہبی ٹرانسفر کیا گیا۔

پاکستان کو چاہئے

اپنا stance کو firm رکھیں کہ پاکستان کی ہوم سیریز کا مطلب ہے پاکستان کے اپنے گراؤنڈز میں پاکستان اپنے opponents کے ساتھ کھیلے، نہ کہ کسی نیوٹرل وینیو جیسے دبئی وغیرہ میں جہاں ہمارے لڑکوں کو پاکستان میں موجود enthusiastic crowd نہیں ملتا، جیسے ایک مثال دوں پی ایس ایل کے مقابلے جب دبئی وغیرہ میں ہوتے تھے، اس کے فوراً بعد جب لاہور میں پہلا پی ایس ایل کا گیم ہوا تھا، تو ہر ایک نے فرق دیکھا تھا کہ کیسا کراؤڈ آیا تھا پھر جب کراچی کو ہوسٹنگ کے حقوق ملے تھے تو کس طرح سے کراچی نے نمائندگی کی تھی، اس کے لئے مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ویسے بھی ہوم کراؤڈ کا ایڈوانٹیج ہر ٹیم اٹھاتی ہے، تو اگر پاکستان بھی یہی ایڈوانٹیج اٹھاتی ہے تو اس میں کوئی ایسی بات نہیں جس پر کوئی برائی ہو۔

میڈیا کنٹرول

میڈیا کنٹرول سے مراد پاکستانی کرکٹ اور کرکٹ متعلق نیوز کی فلٹریشن کی ضرورت ہے، کیونکہ اب جس زمانے میں ہم رہ رہے ہیں، اب صرف کراچی سے خیبر ہماری نیوز نہیں دیکھی جاتی بلکہ دنیا میں ہر طرف اور شاید انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن تک بھی سنی جاتی ہے تو آج کل کی صورتحال میں پاکستان کی عزت کروائیں، پاکستانی کرکٹ اور پاکستانی کرکٹ کلچر کو prominent دیکھائیں اور اپنے ہیریٹیج پر یعنی پاکستانی ہونے پر فخر کریں، کیونکہ پاکستانی اگر عزت نہیں کرے گا، تو ایسے میں ہم کیسے امید کریں گے کہ باہر والے ہماری عزت کریں گے؟

میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں

کیونکہ میں عمران خان کا سپورٹر نہیں ہوں، مگر جس طرح عمران خان اینڈ کو نے ابھی ری ایکٹ کیا ہے، موقع، محل اور موقع محل کے حساب سے بالکل ٹھیک تھا کیونکہ جو مثال نیو زی لینڈ نے پیش کی ہے، اس کا ڈو مینو ایفیکٹ کے طور پر کرکٹ پاکستان سے جا بھی سکتی ہے، ایسے میں ہمیں اپنا stance کو firm رکھنا چاہئے، کیونکہ اس وقت ہمارے ساؤتھ ایشیا کے ریجن میں علاقائی صورتحال کے تناظر میں کوئی بھی ٹیم کے چانس کم لگ رہے ہیں کہ ہوم گیمز مل سکیں، جب کہ ہم وہاں گیمز کھیلنے کے لئے مرے جاتے ہیں، کیونکہ یہ ایک طرح کی زلالت (زبان کے لئے پیشگی معذرت) ہوئی ہے کہ ہمارے دو ہوم گیمز abandoned ہوچکے ہیں، زندہ قوموں کے لئے یہ بہت بڑی چیز ہوتی ہے۔




اپنی کرکٹ اور پاکستان کو اہمیت دیں

 مسئلہ سارا یہی ہے کہ ہم اپنی چیزوں کو اہمیت دینا سیکھیں کیونکہ Pakistan Comes First ملک پہلے پاقی سب کچھ بعد میں، کیونکہ پاکستان میں جو کچھ بھی ہوا، مجھے ابھی تک یہی لگ رہا ہے کہ یہ افواہ بھی ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے نیو زی لینڈ بھاگی ہے، کیونکہ یہ ففتھ جنریشن وار ہے جو کہ base ہی کرتی ہے افواہ پر، اور سوشل میڈیا پر word-of-mouth کی بہت اہمیت ہوتی ہے

آئندہ کے لئے لائحہ عمل

پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستانیوں کو آئندہ کے لئے سخت اور firm stance رکھنا چاہئے، اور اس کے لئے ہمارے پاس پلان اے، پلان بی ہونا چاہئے، اور کبھی پاکستان allow نہ کرے کہ اپنے ہوم گیمز پاکستان میں ہی کھیلنا پسند کرے، اور ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہئے، اور پاکستانی ہونے کے ناطے اپنے فورسز پر نہ صرف فخر کریں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی یہ چیزوں کو پروموٹ کریں اور بلاوجہ کا بچھے نہ جائیں، کیونکہ اس حرکت کی وجہ  سے پاکستان کی حرمت سے جس طرح سے کھیلا گیا ہے، ناقابل تلافی نقصان پہنچاچکے ہیں۔

کیونکہ Absolutely World Class Security کے باوجود یہ سب کچھ ہونا

کیونکہ ہماری طبعیت میں گھر کی مرغی دال برابر رکھیں گے، کیونکہ ہم نے بھی یہی بیوقوفی کی حرکتیں کیں ہیں کہ دنیا میں دنیا کے سامنے اپنی اور پاکستان کی عزت نہیں کرائی تو ظاہر ہے سامنے والے کو تو موقع مل رہا ہے کہ آپ کو exploit کرے، بصورت دیگر اسی طرح ہم exploit ہوتے رہیں گے، (معذرت کے ساتھ، کسی کو اگر برا لگے تو)

چانکیا کے نظریہ کے متصدق

آج جب میں یہ لائن لکھ رہا ہوں، پاکستان اور نیو زی لینڈ کی سیریز کو ختم ہوئے دو دن ہوگئے ہیں، اور شرم کا مقام ہم پاکستانیوں کے لئے ہے کہ ہم میں سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جو ایسے موقع پر بھی پاکستانی بننے کے بجائے ن لیگی اور پی ٹی آئی والے بننا زیادہ ضروری ہے، جو کہ ہمارے لئے بحیثیت پاکستانی شرم کا مقام ہے۔


ففتھ جنریشن وار فئیر 

Fifth Generation Warfare کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو دماغی نقشہ بندی کے اوپر depend کرتا ہے، یعنی آسان زبان میں ذہن سازی، اور ذہن سازی کی مانیں تو Hinduism کے مطابق ایک کیریکٹر چانکیا ہے، 

نظریہ چانکیا

آچاریہ چانکیا یا روایتی طور پر وشنوگپتا کے طور پر شناخت کیا گیا ایک قدیم ہندوستانی استاد ، عالم ، ماہر معاشیات ، قانون دان اور شاہی مشیر تھا۔ انہیں ارتھ شاستر کی تصنیف کا سہرا دیا جاتا ہے جو کہ دوسری صدی قبل مسیح کا ایک متن ہے۔ انہیں ہندوستان میں سیاسی علوم اور معاشیات کا علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ ان کے کام کو کلاسیکی معاشیات کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ اس کے تمام صحیفے اور مکالمے گپتا سلطنت کے قریب کھو گئے تھے اور بیسویں صدی کے اوائل میں دوبارہ مل گئے تھے۔
موریہ سلطنت کے قیام میں چانکیہ کا اہم کردار تھا۔ اس نے پہلے موریہ بادشاہ چندر گپت کو اقتدار میں آنے میں مدد اور مشورہ دیا۔ اس نے چندر گپت اور اس کے بیٹے بندوسار دونوں کے لیے بطور چیف مشیر خدمات انجام دیں۔
چانکیہ کا نظریہ تین اصولوں پر مبنی ہے۔ دام (پیسہ) ، سیم (کاجول) ، ڈنڈ (فورس) ، بیڈ (اختلاف) پہیلی کا پانچواں ٹکڑا بھی ہے لیکن پہلے ، آئیے مرکزی چار پر توجہ دیں۔

صم۔

یہ چانکیہ کے نظریے کے کئی ٹکڑوں کا پہلا ٹکڑا ہے۔ صام کا مطلب ہے کسی کو قائل کر کے کچھ کرنے پر راضی کرنا۔ یہ کئی طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔

نمبر 1 ، آپ دوسرے شخص کو بتا سکتے ہیں کہ وہ کیا حاصل کرے گا اگر اس نے وہ کام کیا جس کے لیے کہا گیا ہے۔

Numero Dos ، آپ دوسرے شخص کو دکھا سکتے ہیں کہ یہ خاص کام انہیں کیسے فائدہ پہنچائے گا۔

نمبر 3 ، دوسرے شخص کو دکھانا کہ وہ کس طرح کام سے منسلک ہیں۔ یہ خون ، مقصد یا فائدہ ہو سکتا ہے۔

آخری لیکن کم از کم نہیں۔ دوسرے شخص کو بتائیں کہ اسے دیا گیا کام کرنا اس کے لیے کتنا ثواب کا باعث ہوگا۔

سام شاید ایک حکمت عملی کی طرح لگتا ہے جو مخالف اور مرکزی کرداروں کے ذریعہ ٹی وی سیریز اور فلموں میں استعمال ہوتی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ چانکیہ کے نظریے میں پہلی چیز ہے۔ یہ اس کے نظریے کی کمزور ترین حکمت عملی ہے اور اس کا آسانی سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ بڑے بڑے درج ذیل ہیں۔

دام

ڈیم اگلی بڑی چیز ہے جو بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے کام کو پورا کرنے کے لیے پیسے استعمال کریں۔ یہ بنیادی طور پر رشوت ہے۔ آپ نے شاید یہ کام خود کیا ہے ، کچھ کھجوروں کو چکنا اور اپنے کام کو انجام دینے کے لیے ایک فائل میں ایک یا دو بل کاٹ کر۔ یہ اس کے نظریے کی مضبوط ترین حکمت عملی ہے۔ چونکہ اس میں پیسے کی شمولیت ہے اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں پیسے کی بات چیت۔

یہ قوموں کے ذریعہ بہت زیادہ استعمال ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ نہ صرف ان کے رہنما بلکہ مقامی شہری بھی۔ خاص طور پر ان قوموں میں جہاں کرپشن تیزی سے چلتی ہے اور رشوت کے بارے میں دوسری سوچ نہیں دی جاتی۔ یہاں تک کہ قومیں چانکیہ کی اس تکنیک کو گھناؤنے جرائم کے لیے استعمال کرتی ہیں اور اپنی دشمن قوم پر ظالمانہ کارروائیاں کرتی ہیں۔

دام عام طور پر یہ کہہ کر استعمال کیا جاتا ہے کہ یہ فراہم کردہ خدمات کی ادائیگی ہے اور اس کے ساتھ شاذ و نادر ہی رشوت کی اصطلاح مختص کی جاتی ہے۔ لہذا ، یہ دام حاصل کرنے والا اداکار خود کو کچھ ٹھیک محسوس کرتا ہے۔ یہ صحیح معنوں میں ایک گھناؤنا آلہ ہے جو ہندوستان اور دیگر ممالک یکساں طور پر استعمال کرتے ہیں۔ قطع نظر ہم سب کو یہ تسلیم کرنا ہوگا ، کہ یہ ایسی چیز ہے جو کام کرتی ہے۔

ڈانڈ۔

ڈانڈ یا ڈنڈا کا مطلب ہے کہ طاقت کے استعمال سے کاموں کو انجام دیا جائے۔ یہ ایک عام معلوم حقیقت ہے کہ خوف سب سے بڑا قائل ہے۔ مزید برآں ، انڈیا اور امریکہ جیسی بڑی قوموں کے لیے ڈان کو بطور پیشگی حکمت عملی استعمال کرنا بہت عام ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ڈانڈ کو بطور حکمت عملی استعمال کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ مسلسل دوسرے ممالک کو تجارتی بلاکس یا حملے کی دھمکیاں دیتا ہے اگر وہ عمل نہیں کرتے ہیں۔ ڈنڈ ایک حقیقی حکمت عملی ہے جسے 2019 میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نریندر مودی نے پاکستان کے لیے واٹر بلاکس ، ٹریڈ بلاکس اور ایئر اسپیس بلاکس لگا کر بھی اسی طرح کی حکمت عملی ترتیب دی ہے۔

بیڈ

اختلاف یا باہمی مداخلت یہ ایک حکمت عملی ہے جو حکم دیتی ہے۔ جو آپ چاہتے ہیں اسے حاصل کرنے کے لیے آپ کو اپنے دشمن کی صفوں کے درمیان آگ لگانی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دشمنوں کو آپس میں لڑائیں تاکہ وہ اندر سے کھوکھلے ہو جائیں اور ان کا تختہ الٹنا یا ان کی زمین پر قبضہ کرنا آسان ہو جائے۔

اگر آپ نے تاریخ کلاس اور اسلامیات کلاس میں تھوڑی توجہ دی ہے تو آپ آسانی سے بتا سکتے ہیں کہ یہودی اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1965 کی جنگ کے دوران یہودیوں کو بھارتی وزیر دفاع کے کان بھرنے کا سہرا بھی دیا جاتا ہے۔ بھارت کو بتانا کہ اگر وہ پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو اسے بید استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی وقت بنگلہ دیش کو الگ کرنے کے بیج بوئے گئے۔

Ideology of Chanakya and cancellation of #PAKvNZ

یہ انسانی دماغ کی خاصیت ہے کہ ایک بات اگر متعدد بار کہی جائے، چاہے جھوٹ ہی صحیح، مگر متعدد بار کہی جائے اور ایک وقت آتا ہے کہ انسانی دماغ اس چیز کو صحیح ماننے لگ جاتا ہے۔


کیونکہ

 نیو زی لینڈ کی ٹیم ۱۱ ستمبر کو پاکستان میں لینڈ کرتی ہے مگر ٹیم کے لینڈ کرنے سے پہلے ہی ۲۱ اگست ۲۰۲۱ یعنی کابل فتح ہونے کے چند دن بعد ہی انڈیا کے اخباروں میں شہ سرخی بنی ہوئی تھی کہ آنے والے دنوں میں نیوزی لینڈ کا دورہ پاکستان کینسل ہونے کی گھوشنہ ہے، ایک مہینہ پہلے کونسی ایسی چڑیا ان کے ہاتھ لگ گئی تھی؟ میرے نذدیک یہ prediction نہیں بلکہ scripted لگ رہی ہے۔
اوپر اگر بغور پڑھیں تو پڑھنے کے بعد نیچے موجود اسکرین شاٹ پڑھیں، پڑھنے کے بعد مجھےspontaneously وہی باپ بیٹے اور گدھے والی کہانی یادآرہی ہے جہاں چاہے باپ گدھے پر بیٹھے، بیٹا گدھے پر بیٹھے یا پھر کوئی بیٹھے ہی نہیں، لوگوں کا کام ہے کہ انگلیاں اٹھائیں، مگرہم نہ ہی کوئی جوکر ہیں نہ ہمارا کام ہر ایک کو خوش کرنا اور satisfy کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔
اب ایسے میں کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ بحیثیت پاکستانی، ہمیں پاکستانی ہوکر سوچنے کے بجائے ن لیگی، پی ٹی آئی والے، بن کر سوچنا زیادہ اہمیت کے حامل رہا، ورنہ ایسے موقع پر ہمیں پاکستانی ہوکر سوچنا چاہئے تھا۔ مگر افسوس کا مقام ہم پاکستانیوں کے لئے ہے جہاں بجائے یہ سوچنے کے لئے کہ ایک انٹرنیشنل گیم کا host country کو کیا فائدہ ہوتا ہے، مگر افسوس صد افسوس ہم ملک کے علاوہ سب کی سنتے ہیں۔ اب اگر میرے دائیں جانب موجود اسکرین شاٹ کی مان لوں تو یہ بتائیں کہ ۱۱ ستمبر سے NZ کی ٹیم جسے عرف عام میں بلیک کیپس بھی کہا جاتا ہے، پاکستان میں موجودہے، اگر واقعی میں سیکیورٹی کا مسئلہ تھا، تو ایسے میں بلیک کیپس کی سیکیورٹی ٹیم نے یہ چیز کیوں نہیں ہائی لائٹ کی؟ کیا بنگلادیش میں اتنی سخت سیکیورٹی نہیں تھی؟ تو سیکیورٹی کا نزلہ پاکستان کے منہ پر کیوں پھینکا جارہا ہے؟

ڈاٹس کو ملائیں اور اسٹوری دیکھیں

اب یہ بتائیں کہ انڈینز کو کیسے ۲۲ اگست کو پتا چل چکا تھا کہ کیوی ٹیم کے ساتھ پاکستان میں صورتحال صحیح نہیں ہوسکتی ہے، حالانکہ کیوی سیکیورٹی ٹیم مکمل طور پر satisfied ہوئی تھی جس کی بناہ پر بنائی گئی رپورٹ کی بنیاد پر کیوی ٹیم پاکستان ۱۱ ستمبر پاکستان لینڈ کرتی اور ۱۱ تاریخ سے ۱۶ تاریخ تک کوئی مسئلہ نہیں ہوا اور یک دم سے ۱۷ تاریخ کو ہم پاکستانیوں پر یہ خبر ٹوٹتی ہے، مجھے یاد ہے میں جلدی جلدی جمعہ کی نماز پڑھ کر نماز بریک کے دوران کھانا کھاتے ہوئے ٹاس کے لئے فون کھولا کہ ٹاس دیکھوں کہ کون ٹاس جیتنے لگا ہے، مگر خلاف توقع کچھ بھی نہیں آیا تو میں نے نیوز چینل پر متزلزل خبروں کی بھرمار تھی، کبھی آرہا تھا کہ کو وڈ کی وجہ سے، پھر سننے میں آیا کہ لوجسٹک کا مسئلہ ہوا اور دو بج کر ۱۰ منٹ پر خبر آنا اسٹارٹ ہوگئی کہ کیوی ٹیم پاکستان میں نہیں کھیلنی چاہتی، جس کے بعد پہلے اس دن کا کھیل، پھر راولپنڈی لیگ یعنی ون ڈے لیگ اور اس کے بعد پوری white ball سیریز ہی کینسل ہوگئی، وہ بھی ۲:۰۰ سے ۲:۳۰ بجے کے دوران۔ اس لئے میں ابھی بھی کہہ رہا ہوں، کہ things are not as simple as we are thinking اور ایسے میں this is the high time to think Pakistani کیونکہ اس واقعے سے زیادہ مجھے اس بات پر غصہ آیا کہ جہاں ملک کی اہمیت ہوتی ہے وہاں ہم سیاسی جماعتوں کی طرف داری کررہے ہیں۔

Nipping in to the bud


یہ ایک انگلش ٹرم ہے، جس کا استعمال کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی چیز ہونے سے پہلے ہی معاملات کو حل  کیا جائے، اور عام طور پر proactively مسئلے کو حل کرنے کے لئے یہ ٹرم استعمال کی جاتی ہے جہاں کوئی بھی چیز ہونے سے پہلے ہی ختم کی جائے۔ اور یہ چیز ایک طرح کی تربیت کے طور پر اجاگر ہوتی ہے، کیونکہ جیسے میں نے اپنی پہلے کے آرٹیکل میں یہ بات کہی تھی، اور ہمارے آباؤ اجداد اس چیز کا بخوبی خیال رکھا کرتے تھے، کیونکہ اس زمانے میں چاہے کوئی قاضی ہی کیوں نہ ہو، روز مرہ کی زندگیوں میں کام آنے والی چیزوں/ہنر بھی سکھانے پر بھی emphasis رہتا تھا، کیونکہ آج کے زمانے کے حساب سے چیزوں کا مشاہدہ کریں گے، تو آج ہمارے معاشرے میں نا امیدی اسی وجہ سے موجود ہے، کیونکہ اگر پچھلے زمانے کی یہ ایکسر سائز کو نوٹ کریں تو اسی لئے کیا جاتا تھا کیونکہ انسانی سائیکولوجی ہے کہ کوئی یا کسی چیز کا متبادل نہ دیکھائی دے، تو جلدی نا امید ہوجاتا ہے، اور اگر آج کے زمانے کے تناظر میں دیکھیں تو ہمارے معاشرے میں صبر و شُکر کی کمی کا ایک reason یہ بھی ہے، کیونکہ اگر متبادل کی غیر موجودگی میں ہی یہ desperation کا عنصر عیاں ہوتا ہے، جو کہ ہمارے آج کے معاشرے میں خاص طور پر کراچی کے معاشرے (کیونکہ میں دوسرے علاقوں کی تصدیق نہیں کرسکتا) میں بے سکونی کی کیفیت کا ایک وجہ یہ بھی ہے۔

تو یہ میں یہاں کیوں استعمال کررہا ہوں؟؟؟

کیونکہ ملکوں کی صورتحال یک دم خراب نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک چین ری ایکشن ہوتا ہے، جو کہ پاکستان کے کیس میں ۵۰ سال پر محیط عرصہ ہے کیونکہ ۵۰ سال پہلے جو چین ری ایکشن ہوا تھا، اس کے ثمرات آج ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں، اسی لئے ابھی بھی اگر ہم یہ ٹرم کو استعمال کررہے ہیں، تو آئندہ آنے والے کم سے کم ۵ سالوں میں آج کے کاموں کے اثرات دکھیں گے، کیونکہ معذرت کے ساتھ ہم نے بحیثیت قوم ویسے ہی ہم نے بہت وقت ضائع کیا ہے۔


چونکہ ہم میں وقت ضائع کرنے کی عادت ہے

چونکہ وقت ضایع کرنا ہمارا قومی مشغلہ ہے، اسی وجہ جیسے ہم انگریزی میں ایک ٹرم استعمال کرتے ہیں، On the Brink of Eleventh Hour ہم آفس اور اسکولوں کے لئے نکلتے ہیں، یعنی پہنچنا ۹ بجے ہے اور رستہ اگرچہ ۲۰ منٹ کا ہے تو پورا پورا ۸:۳۰ بجے کے بعد نکلتے ہیں، جس پر میں قصور ٹرانسپورٹ والوں کا بعد میں ہے، پہلے بحیثیت قوم، ہمارا ہے، کیونکہ ہم میں شعور نہیں ہے، جبکہ یہی قوم جب باہر کے ممالک میں جاتی ہے تو فی الفور شعور آجاتا ہے، کیونکہ ہمارے ملک میں rules and regulations بالکل موجود ہیں، مگر اس کی implementation کو make sure کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟

کیا ساری ذمہ داری صرف اور صرف حکومت کی ہے؟

میں یہاں حکومتی نمائندہ نہیں ہوں، بلکہ ایک کراچی والا ہونے کے ناطے کہہ رہا ہوں، کیونکہ ہماری ذمہ داری میں صرف نوکری کرنا نہیں ہے بلکہ سماجی ذمہ داری بھی ہم پر لاگو ہوتی ہے اور ہونی چاہئے، کیونکہ پہلے زمانے میں عوام میں یہ سماجی شعور ہوا کرتا تھا، بلکہ اس کو اپنی سماجی ذمہ داری سمجھتے تھے، جس کی آج بھی کچھ نہ کچھ اثرات موجود ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف اور صرف اپنا سوچ رہے ہیں، میں یہاں یہ فضول کی بحث میں نہیں پڑھنا چاہتا کہ عمران اچھا ہے، نواز شریف بہتر تھا یا ذرداری ہمارے واسطے ذیادہ اچھا تھا، مگر بات یہی ہے کہ بات ڈیمانڈ اور سپلائی کی ہے، اور جو ہماری ترجیحات ہوں گی، وہی ہماری ڈیمانڈ ہو گی، اور ڈیمانڈ ہمارے شعور پر depend کرتے ہیں، اور اسی بناہ پر ہماری demands ہوتی ہیں، اب معذرت کے ساتھ اگر ہماری ترجیحات اگر ٹھرک پن ہو نہ کہ میونسپل سروسز، ٹرانسپورٹیشن، رہن سہن وغیرہ، تو معذرت کے ساتھ ہمارا یہی حال ہونا ہے۔


باہر کے مماملک میں سوشل سروسز نمبر اور ہمارے کلچر کا وظیفہ کا concept

گوروں نے ہمارے پاس کا وظیفہ کا concept کو adopt کیا، اور اپنے پاس سوشل سروسز نمبر کے نام سے اپنے پاس introduce کرایا، جو کہ بالکل ہمارے پاس کا زکوٰۃ اور وظیفہ کے کانسیپٹ پر based کرتا ہے، اور معذرت کے ساتھ یہ نظریہ ہم نے ماضی کی بھولی بسری یادگار بنا دیا، کیونکہ ہم نے لاشعور ہونے کا prove دیا، اور نتیجہ میں ہم نے اپنے کلچر میں موجود extra curriculum activities کو بالکل ختم کردیا اور ہمارے معاشرے کو بالکل stagnant اور ساکن کردیا، اس حوالے سے میرے ساتھ کافی لوگوں کی بحث بھی ہوئی کہ میں کہہ رہا ہوتا ہوں کہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینا چاہئے جبکہ سامنے سے مجھے جواب آتا ہے کہ عمران خان صحیح نہیں ہے نواز شریف ذیادہ اچھا تھا، میرا صرف یہی کہنا ہے کہ آپ کے لئے نواز شریف اگر اچھا تھا تو کتنی روزگار کے مواقع پیدا کئے؟ کیونکہ جیسے میں نے اوپر لکھا ہے کہ دنیا آج ڈیمانڈ اور سپلائی یعنی طلب و رسد پر based کرتا ہے، یعنی نواز شریف سے ہم نے یہ ڈیمانڈ کی کہ عوام کو روڈیں بنا کر دو، یہ ڈیمانڈ نہیں کیا کہ ان روڈوں کے اوپر چلنے والی ٹرانسپورٹ کو اس کے ساتھ upgrade کرو، میں یہاں عمران خان کا حمایتی یعنی یوتھیا نہیں ہوں، مگر اگر عمران خان کچھ اچھا کررہا ہے تو اس کو مجھے کڑوی زبان کے ساتھ ماننا پڑے گا، کیونکہ اکانومی کے steps کو فالو کروں تو یہی hierarchy کو فالو کیا جاتا ہے، کیونکہ جرمنی کی مثال لوں، تو اپنی ترقی کو ٹرین سے لنک کیا، ٹرین کی ٹائمنگ سے پوری اکانومی کو لنک کیا، جس سے ان کی پوری اکانومی جو ایک زمانے میں پاکستان سے loan لیا تھا، آج G8 گروپ کا ممبر ہے، 

مگر ہماری ترجیحات تو کچھ اور ہیں

کیونکہ بحیثیت قوم اور بحیثیت پاکستانی ہم میں نہ ہی پاکستانیت ہے، نہ ہی معاشرتی طور پر، کیونکہ اگر وہ ڈگری جس کی base پر آج ہم بڑی بڑی پوسٹوں پر براجمان ہیں، اسی ڈگری کی ایڈمٹ کارڈ پر ایک وعدہ ہوتا ہے، جس پر ہم اپنے دستخط بھی کرتے ہیں، کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد کم سے کم دو بچوں کو ذاتی طور پر پڑھائیں گے، مگر نہ ہی ہم وہ وعدہ پورا کرتے ہیں، اور نہ ہی بی بی اے/ایم بی اے کے تھیسس رپورٹنگ میں وہ zeal ہوتی ہے، جو باہر کے ممالک میں اسٹوڈنٹس میں ہوتی ہے، کہ ان کو ڈگری کے حصول کے لئے کوئی نہ کوئی ٹارگٹ دیا جاتا ہے، جب وہ تارگٹ مکمل ہوتا ہے اس کو analyze اور تصدیق کے بعد ہی ڈگری ملتی ہے، چاہے اس کو کرنے میں اسٹاڈنٹ کو ۱۰ سال ہی کیوں نہ لگ جائیں، 

گوگل کی example لیں

گوگل جو کہ آج کے زمانے میں ایک ٹیکنالوجیکل دیو کے طور پر دیکھا جاتا ہے، دو گریجوئیٹ اسٹوڈنٹس کا بروجیکٹ تھا، جو کہ Googleplex سے inspired ہو کر گوگل لیا گیا تھا،
 
 
مگر بات یہی ہے کہ چونکہ ان دونوں اسٹوڈنٹس نے محنت کرکے گیراج سے شروعات کی تھی تو ان کی بنیاد humble تھی، مگر ان کو اپنی حیثیت کا اندازہ تھا، ہمیں چونکہ ان چیزوں کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا ہے تو ایسے میں undoubtedly ہم میں arrogance موجود ہوتی ہے، اور چونکہ ہماری بنیاد میں ہی arrogance ہوتی ہے، کیونکہ محنت تو ہم نے نہیں کی ہوتی ہے، اسی لئے نا سننے کی "عادت" نہیں ہوتی ہے، تو جیسے میں نے اپنے آرٹیکل کے شروعات میں Nipping in to the Bud کی ٹرم استعمال کی تھی، وہ اسی لئے کی تھی کیونکہ مسئلہ کیوں ہے، یہ سب بتائیں گے، مگر کس وجہ سے ہے، کس لئے ہے، اور کیسے ختم ہوگا، یہ کوئی نہیں بولے گا، کیونکہ یہاں ہر کوئی exploit کرنے کو دیکھ رہا ہوتا ہے، کیونکہ اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر اس پر impose کرانا اپنی کامیابی سمجھتے ہیں، جبکہ جو لوجیکل ذہن کا مالک ہوگا، وہ اپنے قول و فعل کے تضاد کو بخوبی دیکھے گا، 
تین رخی ذاویہ کا خاکہ

ٹھرڈ ڈیمنشن پوائنٹ آف ویو

اگر ہم اسلامک نقطہ نظر دیکھیں تو کیا یہی اسلام کی تلقین نہیں کہ تول کر بولو، اور اپنے گریبان میں پہلے جھانکیں، یہی چیز اس پکچر میں دکھائی دی جارہی ہے کیونکہ یہاں X سے مراد ہم ہیں، Y سے مراد سامنے والا (جس سے ہم مخاطب ہیں) جبکہ Z ٹھرڈ آئی ویو ہے، جہاں ہم دوسرے ذاویے سے چیزوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں، مگر میں اس بات کی تصدیق کردوں کہ صرف اس کا یہ مطلب نہیں ہے جو ابھی میں نے بتایا، بلکہ basically یہ ایک طرح کا analysis کرنے کا طریقہ کار ہے، کیونکہ analysis کرنے کے لئے کافی دفعہ غیر جانبدار بھی ہونا ہوتا ہے، جو کہ ہمارے مذہب کی بھی تلقین ہے، اور ماضی بعید میں ہمارے پاس کے اُس وقت کے محترم قاضی حضرات اس چیز کو بخوبی دیکھتے تھے بلکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اسی چیز میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، یعنی ہمارے سارے مسائل کی جڑ ہماری مذہب سے دوری ہے، کیونکہ اگر ہم اپنا خود کا analysis نہیں کریں گے، تو ہمارے اندر humbleness کے بجائے arrogance خود بخود ہمارے اندر آجائے گی۔

کم سے کم اپنے اندر سامنے والے کی بات سننے کا حوصلہ تو رکھنا چاہئے

بات سننے کا حوصلہ کافی
تصادم کی صورتحال کو
حل کرنے میں مددگار ہوسکتا ہے

چونکہ ہمارے اندر غیر ارادری طور پر arrogance موجود ہوتی ہے، تو ایسے میں غیر ارادری اور غیر محسوس طور پر احساس کمتری کا احساس automatically موجود ہوتا ہے، کیونکہ سامنے والے کو زبانی طور پر ڈھیر کرکے اس کو اپنی جیت کی مانند سمجھا جاتا ہے، جبکہ جیسے میں نے اوپر اخذ کیا کہ لوجیکل مائنڈ والا بندا ہمیشہ ground to earth اور humble رہتا ہے، اور سننے کا حوصلہ رکھتا ہے، اور جیسے میں نے کہا کہ اگر جس پوسٹ پر ہم بیٹھے ہیں، جتنی آسانی سے ہمیں بیچی جارہی ہے، (چونکہ اگر ہم earn کر رہے ہوتے تو کہانی یکثر تبدیل ہوتی)، وہ ہمیں حاصل کرنے کے لئے وقت اور محنت دونوں لگتی تو یہ چیز نیچرل ہوتی ہے کہ ہمارے اندر humbleness اور ground to earth کا رویہ بالکل موجود ہوتا، جس کے فقدان کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے میں یہ مسئلے مسائل دن بدن اجاگر ہورہے ہوتے ہیں، مگر جیسے میں نے اوپر یہ چیز لکھی ہے کہ ہمیں ہائی لائٹ کرنے کا شوق بالکل ہے مگر کیسے حل کریں گے، یہ کہیں نہیں پتہ، اور اگر کوئی بتا بھی دے تو اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ صرف اور صرف اسی کا پوائینٹ آف ویو کو دوسروں پر implement کرایا جائے، either by hook or by crook کیونکہ ایسا کرنے کو اپنی dominance کے طور پر دیکھا جاتا ہے، ورنہ اگر ہم سننے کا حوصلہ رکھیں تو ہوسکتا ہے سامنے والا شاید چیزوں کو کسی اور ذاویے سے دیکھ کر بہتر تجزیہ دے سکے جو کہ سب کے لئے ذیادہ فائدہ مند اور beneficial ہوسکے، مگر ہمارے arrogance کی وجہ سے ہم دوسروں کو یہ موقع نہیں دیتے ہیں۔

Mindset کے ساتھ ساتھ

یہاں مسئلہ سامنے والے کو سننے کا بھی ہے، مگر اس کے ساتھ مسئلہ یہ بھی ہے کہ بیفضول بحث بازی میں involve ہو کر سامنے والے کو چپ کرانے میں ہی اپنی جیت سمجھتے ہیں، یہ نہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ معاشرے میں ان کی contribution کیا ہے، کسی سے پوچھو تو لگتا ایسا ہے جیسا کہ میں نے ادھار میں اس کے گردے مانگ لئے ہیں، مگر بحث بازی اور اس کے اوپر بہانہ بازی، ایک ایسا خطرناک کیمیکل ری ایکشن ہے، جس کے نتائج ہم سالوں تک نہیں، صدیوں تک بھگتیں گے، اور شاید اسی وجہ سے ہمارے اباؤ اجداد ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے تھے، مگر معذرت کے ساتھ ہم بحیثیت قوم اس بُری چیز کو بڑھاوا دیا ہے، تو اب جس کے منہ میں زبان ہے، بولنا ضروری ہے، بولنے سے پہلے بولے جانے والا الفاظ کے استعمال کے repercussion کو مدنظر رکھنا جیسا ہم نے چھوڑ ہی دیا ہے، کیونکہ آپ کے بولے جانے والے الفاظ کے اثرات آنے میں کچھ گھنٹے، دن یا مہینے نہیں لگتے، بلکہ صدیاں لگ جاتی ہے، کیونکہ for the time being میں تو انسان اپنے emotions اور ری ایکشن پر کنٹرول بخوبی کردیتا ہے، مگر کہیں نہ کہی، in-cognitively لاوے کی طرح پک رہا ہوتا ہے، جس کا خود ادا کرنے والے بندے کو بھی احساس نہیں ہوتا ہے، مگر کہیں نا کہیں لاوا پک کر آتش فشاں کا منظر پیش کرنا شروع کردیتا ہے، پہلے ہمارے بڑے بزرگ اس چیز پر روک لگا کر رکھتے تھے، مگر معذرت کے ساتھ میں یہاں قصور وار ہمارے آج کے بڑے بزرگوں کو دوں گا، کیونکہ انہوں نے اس اہم چیز کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا ہے، جب فاؤنڈیشن ہی ایسی ہوگی، تو اینڈ یوزر پروڈکٹ تو ایسی ہی ہونی ہے۔

Conflict Management

اسی وجہ سے تصادم کی صورتحال ہوتی ہے کیونکہ ہم میں سننے کا حوصلہ نہیں، اگر آپ اسی آرٹیکل کے اسٹارٹ میں جائیں تو میں نے اشارۃ تصادم کو ڈسکس کیا، جہاں ہم ہر بات پر عمران خان، نواز شریف اور زرداری کو بیچ میں لے آتے ہیں، جبکہ ہم بحیثیت قوم، ہماری ترجیحات میں یہ چیز ہونی چاہئے کہ تصادم کی صورتحال کو ہوا دینے کے بجائے لوجیکل ترجیحات کو اہمیت دینی چاہئے، اور اپنے پوائنٹ کو prove کرنے کے لئے لوجک بھی دینی چاہئے، تاکہ دوسرا / سامنے والا بھی غیر ارادری طور پر آپ کی بات ماننے لگے، بصورت دیگر بات تصادم کی جانب مبذول ہوتی ہے، مگر معذرت کے ساتھ ہمیں اس کا شعور نہیں ہوتا، لوجک بالکل دیں مگر ذیڈ ایکسس کو مدنظر رکھ کر Argue بھی کریں تو Argue کرتے ہوئے آپ اچھے بھی لگو گے، بصورت دیگر آپ دشمنیاں پیدا کرو گے،

Arrogant اور Confident رہنا دو الگ چیزیں ہیں، اور ان کو دو الگ چیزوں کے طور پر ہی دیکھا جائے، تو بہتر ہے

ہم دراصل چیزوں کو دیکھنے کا ذاویہ اور نظریہ تبدیل کرنا ہو گا، بصورت دیگر جاہلوں کی طرح ہم Arrogance کو confidence کے لبادے میں اوڑھ کر اپنے ہی لوگوں کو جس طرح بے عزت کرتے ہیں، ایسے میں سامنے والے کو بھی موقع دے رہے ہیں، کہ بزور جان اپنی بات منوائے، نتیجے میں جو تصاویر پورے پاکستان کی ان چند لوگوں کی وجہ سے جاتی ہے، تو اس پر ذمہ داری کس پر لاگو ہوتی ہے، میں اگر نیوٹرل ہو کر اپنے آپ کو شامل کرکے بولوں تو ہم سب اس catastrophe کے ذمہ دار ہیں، کیونکہ سوسائٹی ایک طرح کی تسبیح کے دانوں کی طرح ہوتی ہے، ایک دانہ بھی اگر اپنی جگہ پر چپک جائے، تو ایسے میں یا تو ڈور ٹوٹے گی، یا پھر پوری تسیح بیکار ہوجائے گی، کیونکہ تسبیح کو گننے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، چاہے دعائیں ہوں، یا جو بھی ہو، کام آپ ہی کا رکتا ہے، تو ایسے میں ہمیں انسان ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داری کا احساس رکھنا چاہئے۔
 

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting