Pages

جنوری 08, 2025

Pakistani society and lack of positivity - due to which frustration erupts | پاکستانی بزرگوں کا کردار اور مثبت سوچ کی کمی

پاکستانی معاشرہ روایات، عقیدت اور احترام کی بنیادوں پر قائم ہے۔ بزرگوں کا احترام اور ان کی موجودگی ہمیشہ سے ہمارے خاندانی نظام کا ایک اہم ستون رہی ہے۔ تاہم، موجودہ حالات میں ایک ایسا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے جو معاشرتی ترقی کے لیے رکاوٹ بن رہا ہے۔ بزرگوں کی جانب سے نوجوانوں کی تخلیقی سوچ کو دبانے اور ہر نئی رائے کو غیر ضروری سمجھنے کا رویہ، ہماری اجتماعی ترقی میں کمی کی ایک بڑی وجہ بن چکا ہے۔ 

تاریخی تناظر اور حالیہ صورت حال 

 اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ترقی یافتہ اقوام نے ہمیشہ اپنی روایات کے ساتھ خود کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے۔ صنعتی انقلاب کے دوران یورپ نے زرعی معیشت سے صنعتی معیشت کی طرف پیش قدمی کی اور جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی ناکامیوں سے سیکھ کر جدیدیت کو اپنایا۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں یہ تبدیلی کا رجحان بہت کمزور رہا ہے۔ بزرگوں کی خود پسندی اور اپنی رائے کو حتمی سمجھنے کا رویہ نوجوانوں کی تخلیقی آزادی کو محدود کر دیتا ہے۔ نئے خیالات کی مخالفت اور پرانی روایات پر اصرار ہمیں ایک محدود ذہنیت میں مقید رکھے ہوئے ہے۔ 

مثبت سوچ کی کمی کے اسباب 

1. خوف اور عدم تحفظ: 

بزرگ اپنے تجربات اور فیصلوں کو محفوظ ترین سمجھتے ہیں اور کسی بھی نئی سوچ کو معاشرتی بگاڑ تصور کرتے ہیں۔ 

2. سماجی تسلط: 

 ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں بزرگوں کی رائے کو حتمی مانا جاتا ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ 

3. تعلیمی اور معاشرتی جمود: 

ہمارے تعلیمی نظام میں تنقیدی سوچ اور سوال کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ 

4. روایتی سوچ کا تسلط: 

ہر نئی تبدیلی کو ایک خطرہ تصور کیا جاتا ہے اور ماضی کے تجربات کو جدید حلوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ 

پاکستان میں گوگل، ایپل اور ایمیزون کیوں نہیں؟ 

 پاکستان میں گوگل، ایپل اور ایمیزون جیسی کمپنیاں نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہی منفی اور محدود سوچ ہے۔ ہم نے کبھی نوجوانوں کے آئیڈیاز کو نہ صرف پذیرائی نہیں دی بلکہ ان کے نئے منصوبوں کو "غیر حقیقت پسندانہ" کہہ کر مسترد کر دیا۔ ایسے ماحول میں تخلیقی صلاحیتوں کا ابھرنا ممکن نہیں۔ 

دقیانوسیت کو پروموٹ کرنا

ہماری معاشرتی ساخت میں ایک سنگین مسئلہ جڑ پکڑ چکا ہے، جو کہ بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ اور نوجوانوں پر اپنی رائے کو حتمی قرار دینے کا ہے۔ یہ رویہ نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبانے اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے

بزرگوں کی موجودگی کی اہمیت اور توازن بزرگوں کی موجودگی آکسیجن کی طرح ضروری ہے،

جو ہمارے لیے رہنمائی اور تجربے کا خزانہ ہے۔ تاہم، جیسے آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں توازن ضروری ہے، ویسے ہی بزرگوں کے تجربے اور نوجوانوں کی تخلیقی سوچ میں بھی اعتدال ضروری ہے۔ نہ تو بزرگوں کو نظرانداز کیا جائے اور نہ ہی نوجوانوں کو دبایا جائے۔ 

بحث کے انداز میں فرق 

1. جوابی دلائل (Tit-for-Tat Argument): 

اس میں ہر فریق دوسرے کی بات کا سخت جواب دیتا ہے جس سے مسائل مزید بگڑ جاتے ہیں۔ 

2. احترام کے ساتھ بحث:

اس میں دونوں فریق ایک دوسرے کی بات کو احترام سے سنتے ہیں اور حل کی تلاش میں مثبت رویہ اپناتے ہیں۔ 

تبدیلی کے لیے اقدامات 

1. بزرگوں کا رہنمائی کا کردار: 
بزرگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی رائے کو حتمی فیصلے کی بجائے ایک رہنمائی کے طور پر پیش کریں۔ 

2. نوجوانوں کی تخلیقی آزادی: 

نوجوانوں کو اپنی سوچ کے مطابق تجربات کرنے دیے جائیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو آزما سکیں۔ 

3. مسلسل سیکھنے کی روایت: 

بزرگ اور نوجوان دونوں کو سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنا چاہیے تاکہ وقت کے ساتھ ترقی ممکن ہو۔ 

4. نئے آئیڈیاز کی پذیرائی:

ایسے پلیٹ فارمز بنائے جائیں جہاں نوجوانوں کے نئے خیالات اور کاروباری منصوبوں کو فروغ دیا جائے۔ 

5. تعلیمی نظام میں بہتری:

ایسے تعلیمی نصاب کو فروغ دیا جائے جو تنقیدی سوچ، سوال کرنے کی عادت اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرے۔ 

نتیجہ جب تک ہم اپنے معاشرتی رویوں میں یہ مثبت تبدیلیاں نہیں لائیں گے، تب تک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کا خطرہ برقرار رہے گا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر نسل کی اپنی منفرد صلاحیتیں ہوتی ہیں، جنہیں دبانے کے بجائے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ بزرگوں کی رہنمائی اور نوجوانوں کی تخلیقی سوچ کا امتزاج ہی پاکستان کو ایک روشن اور ترقی یافتہ قوم بنا سکتا ہے۔


مکمل تحریر >>

جنوری 07, 2025

معاشرتی ترقی کی راہ میں بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ کا رکاوٹ

بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ اور نوجوانوں پر اپنی رائے مسلط کرنے کا رجحان

ہماری معاشرتی ساخت میں ایک سنگین مسئلہ جڑ پکڑ چکا ہے، جو کہ بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ اور نوجوانوں پر اپنی رائے کو حتمی قرار دینے کا ہے۔ یہ رجحان اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ جو راستہ بزرگوں نے اپنایا، وہی واحد اور درست ہے۔ اس کے نتیجے میں نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتیں دب جاتی ہیں اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

تاریخی تناظر

اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہر ترقی یافتہ قوم نے وقت کے ساتھ خود کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے۔ صنعتی انقلاب کے دوران یورپ میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی جہاں روایتی زرعی معاشرتی ڈھانچے کو پیچھے چھوڑ کر نئی ٹیکنالوجی اور صنعتی مہارتوں کو اپنایا گیا۔ اسی طرح جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی ناکامیوں کو قبول کرتے ہوئے نئی حکمت عملی اختیار کی اور جدیدیت کو اپناتے ہوئے عالمی معیشت میں اپنی جگہ بنائی۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں تاریخی اسباق کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بزرگ اپنے ماضی کے تجربات کو حتمی سچائی سمجھتے ہوئے نوجوانوں کو اپنی ہی طرز پر زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں، چاہے دنیا کتنی ہی آگے کیوں نہ بڑھ چکی ہو۔

عالمی دنیا میں تبدیلی کا اصول

آج کی دنیا میں ترقی یافتہ اقوام مستقل خود کو اپ ڈیٹ کرتی ہیں۔ تعلیمی نظام، کاروباری حکمت عملیاں اور معاشرتی اقدار سب وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہیں۔ گوگل، ایپل اور ٹیسلا جیسی کمپنیاں اس کی مثال ہیں، جو جدید رجحانات اور نئی سوچ کو فروغ دیتی ہیں۔

اس کے برعکس ہمارے ہاں نوجوانوں کو روایتی سوچ کے مطابق چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہیں نئے آئیڈیاز پیش کرنے سے روکا جاتا ہے اور اکثر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو صرف "ناپختہ" کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔

صنفی امتیاز اور خواتین کا کردار

ہم نے اپنے معاشرے میں صنفی امتیاز کو بھی بڑھاوا دیا ہے۔ خواتین کو اکثر ایسے کرداروں میں قید کر دیا گیا ہے جہاں انہیں شور مچانے اور عملی طور پر کچھ نہ کرنے کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ جب ان سے کسی تعمیری کردار کی توقع کی جاتی ہے تو وہ یہی کہتی ہیں کہ "آپ نے بھی یہی کیا تھا۔" یہ رویہ نہ صرف معاشرتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ خواتین کی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔

بزرگوں کی سوچ میں یہ خود پسندانہ رویہ کیوں؟

  1. خوف اور عدم تحفظ: بزرگ اپنے تجربات اور فیصلوں کو محفوظ ترین سمجھتے ہیں اور نئے خیالات کو خطرہ سمجھتے ہیں۔
  2. سماجی تسلط: معاشرتی ڈھانچے میں بزرگوں کو ہمیشہ حتمی اتھارٹی سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی رائے کو ہی سچائی تصور کرتے ہیں۔
  3. تاریخی پس منظر: ماضی کے روایتی نظام جہاں استاد، والدین اور بزرگوں کی رائے کو بغیر سوال کیے قبول کرنا ہی ادب سمجھا جاتا تھا۔

حل کی راہیں

وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے معاشرتی رویوں میں تبدیلی لائیں۔

  1. بزرگوں کو رہنمائی کا کردار دینا: بزرگوں کی تجربات سے سیکھنا ضروری ہے، لیکن ان کی رائے کو حرف آخر ماننا نہیں۔
  2. نوجوانوں کی تخلیقی آزادی: نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں آزمانے اور تجربات کرنے کا موقع دینا چاہیے۔
  3. مسلسل سیکھنے کی روایت: تمام عمر سیکھنے کا عمل جاری رکھنا چاہیے، جیسے دنیا کی کامیاب اقوام کرتی ہیں۔

بزرگوں کی موجودگی اور توازن کی اہمیت

بزرگوں کی موجودگی ہماری زندگیوں میں اتنی ہی اہم ہے جتنی آکسیجن کا ہمارے جسم میں ہونا، اور ان کی رہنمائی کی ضرورت اتنی ہی ضروری ہے جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج۔ لیکن یہ سب کچھ توازن میں ہونا چاہیے۔ کیونکہ زندگی میں توازن سے ہی ہر چیز اپنی اصل جگہ پر صحیح طریقے سے کام کرتی ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ بزرگوں کی رہنمائی اہم ہے، لیکن ان کی رائے کو مکمل طور پر مسلط کرنے کی بجائے نوجوانوں کو اپنی آزادی، تخلیقی صلاحیتوں اور خیالات کو آزمانے کا موقع بھی ملنا چاہیے۔

جب تک ہم اپنے معاشرتی ڈھانچے میں یہ تبدیلی نہیں لائیں گے، تب تک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کا خطرہ رہے گا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہر نسل کی اپنی منفرد صلاحیتیں ہوتی ہیں اور انہیں دبانے کے بجائے اجاگر کرنا ہی معاشرتی ترقی کی کنجی ہے۔



مکمل تحریر >>

جنوری 06, 2025

Too little and too late

آپ نے پاکستان میں ٹیلنٹ کو پالش کرنے کے معاملے پر ایک بہت ہی جذباتی اور پرخاش انداز میں پیش کیا ہے۔ آپ نے موجودہ نظام میں موجود خامیاں اور کوتاہیوں کو بڑی شدت سے اجاگر کیا ہے۔

میرے تجزیے کے اہم نکات:

  • نظام کی ناکامی: میرا یہ ماننا ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کو پالش کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی، بالکل درست ہے۔ نظام کی ناکامی کی وجہ سے ہمارے نوجوان اپنی صلاحیتوں کو نکالنے کے لیے مناسب مواقع نہیں پا رہے۔
  • جگاڑ کا کلچر: میں نے جگاڑ کے کلچر کو بھی اس مسئلے کا ایک بڑا سبب قرار دیا ہے اور یہ بات بھی بالکل درست ہے۔ جگاڑ کی اس سوچ نے ہمارے معاشرے کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
  • طاقتوروں کو مراعات اور کمزوروں کو سزا: میرا یہ ماننا کہ پاکستان میں طاقتور لوگ ہمیشہ قانون سے بالاتر رہتے ہیں جبکہ کمزور لوگوں کو سزا دی جاتی ہے۔ یہ بات بھی پاکستان کی تلخ حقیقت ہے۔
  • عذروں کی تلاش: آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم ہر ناکامی کے لیے کوئی نہ کوئی عذر تلاش کر لیتے ہیں اور اس کی ذمہ داری کسی اور پر ڈال دیتے ہیں۔

آپ کے تجزیے پر تنقید اور تجاویز:

  • زیادہ تعمیری تجاویز: میرا یہ ماننا ہے کہ موجودہ صورتحال کے حل کے لیے کوئی تعمیری تجاویز پیش نہیں کیں۔ جہاں آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔
  • حل کے لیے انفرادی کردار: میں نے صرف نظام کو مورد الزام ٹھہرایا ہے لیکن ہمیں بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنی سطح پر کوششیں کرنی ہوں گی۔
  • مثبت تبدیلی کے لیے امید: ہمیں بحیثیت مسلمان ہمیشہ ایک اچھی امید رکھنی چاہئے۔

مزید تجزیہ اور تجاویز:

  • تعلیمی نظام میں اصلاح: تعلیمی نظام کو اس طرح ڈیزائن کیا جانا چاہیے کہ ہر بچے کی صلاحیتوں کو نکالا جا سکے۔
  • سماجی تبدیلی: سماج میں ایک ایسا ماحول بنانا چاہیے جہاں ہر فرد کو اپنی صلاحیتوں کو نکالنے کے لیے برابر کے مواقع مل سکیں۔
  • حکومت کی ذمہ داری: حکومت کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے اور ٹیلنٹ کو پالش کرنے کے لیے موثر اقدامات کرنی چاہئیں۔
  • عوامی شعور میں تبدیلی: عوام کو یہ سمجھانا چاہیے کہ ٹیلنٹ کو پالش کرنا ہمارے ملک کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔

نتیجہ:

میرا تجزیہ میں یقناً کمی بیشی ہوسکتی ہے، مگر میرے حساب سے تجزیہ پاکستان میں موجود ایک بڑے مسئلے کو اجاگر کرتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے تو ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔ ہمیں سب کو مل کر کوشش کرنی ہوگی اور ایک مثبت تبدیلی لانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔

اضافی تجاویز:

  • مختلف شعبوں میں ٹیلنٹ ہنٹ: مختلف شعبوں میں ٹیلنٹ ہنٹ کے پروگرام منعقد کیے جائیں تاکہ نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو دکھانے کا موقع مل سکے۔
  • منٹرنگ اور رہنمائی: نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں کو پالش کرنے کے لیے مناسب رہنمائی اور منٹرنگ فراہم کی جائے۔
  • کاروباری اداروں کا کردار: کاروباری اداروں کو بھی نوجوانوں کو تربیت دینے اور انہیں ملازمت کے مواقع فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

آپ کی رائے:

میں آپ کی رائے جاننے کے لیے بہت مشتاق ہوں۔ آپ کے خیال میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟

آپ کی رائے:

میں آپ کی رائے جاننے کے لیے بہت مشتاق ہوں۔ آپ کے خیال میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟

نوٹ: یہ ترجمہ صرف ایک مثال ہے اور اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ آپ کی مدد کرے گا۔



مکمل تحریر >>

کے الیکٹرک اور ہم

ہم بحیثیت قوم اپنے محدود وسائل کے غلط استعمال میں ملوث ہیں، جس کے اثرات ہماری معیشت اور معاشرتی توازن کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ بجلی، جو کہ ایک قیمتی اور محدود وسیلہ ہے، کا بے دریغ استعمال ہمارے غیر ذمہ دارانہ رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ فالتو لائٹس کا جلائے رکھنا، غیر ضروری ایئر کنڈیشنرز اور ہیٹرز کا استعمال اور بجلی کے آلات کو بلاوجہ چلتا چھوڑ دینا ہماری عام عادت بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ قیمتی وسائل کی چوری اور ان کی قیمت ادا کرنے سے گریز ایک افسوسناک حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہ مسئلہ صرف بجلی تک محدود نہیں۔ ہمارے نوجوان بھی ایک قیمتی قومی اثاثہ ہیں، جنہیں ہم جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو ضائع کرنا اور انہیں ترقی کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دینا ایک سنگین مسئلہ ہے جسے فوری توجہ کی ضرورت ہے۔

معاشرتی سطح پر ایک اور بڑا مسئلہ بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ ہے، جو اپنی زندگی کے تجربات کو حتمی سمجھتے ہوئے نوجوانوں پر اپنی رائے مسلط کرتے ہیں۔ یہ رجحان نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو محدود کر دیتا ہے اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے۔

میں یہ باتیں اس لیے لکھ رہا ہوں کیونکہ کل کو میں بھی اسی مقام پر ہوں گا جہاں آج میرے بزرگ ہیں۔ وقت کی یہ گردش ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہم اپنے تجربات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی بجائے نئی نسل کو اپنی راہ خود چننے کا موقع دیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی سوچ اور رویوں میں مثبت تبدیلی لائیں۔ بجلی کے استعمال میں کفایت شعاری اپنائیں، نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیں اور بزرگوں کی رہنمائی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان کے ہر فیصلے کو حرف آخر نہ سمجھیں۔ وسائل کا دانشمندانہ استعمال اور نوجوانوں کو جدید دور کے مطابق تیار کرنا ہی ایک روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔



مکمل تحریر >>

جنوری 05, 2025

کے الیکٹرک والوں کی (اور ہماری اپنی) غنڈہ گردی

یہ بلاگ لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

عام طور پر میں ایسے موضوعات پر لکھنے سے گریز کرتا ہوں، مگر موجودہ حالات نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ اپنی خاموشی توڑوں۔ میرے گھر میں بجلی کے مسائل کی ذمہ داری میرے ہی کندھوں پر ڈال دی گئی ہے، حالانکہ میری مصروفیات کچھ ایسی ہیں کہ صبح 8 بجے گھر سے نکلتا ہوں اور رات 9 بجے کے قریب واپس آتا ہوں۔ ایسے میں یہ افسوسناک ہے کہ گھر میں کوئی اور اس ذمہ داری کو اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

محلے میں صرف ایک یا دو انکلز ہیں جو پورے محلے کے مسائل کی شکایات درج کرواتے ہیں۔ دوسری طرف میرے والدین، جو خود کو بزرگوں کی فہرست میں شامل کروانے کے شوقین ہیں، ذمہ داری اٹھانے کے بجائے لائن مین کو پیسے دے کر مسئلہ حل کروانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

یہ رویہ صرف ذاتی پریشانی تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک وسیع سماجی مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے جہاں اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے بجائے لوگ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور حقائق کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہ بلاگ اسی غیر ذمہ دارانہ رویے اور اجتماعی جوابدہی کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے لکھا جا رہا ہے۔

جبکہ

آج کی دنیا میں اعداد و شمار اور ڈیٹا کو حقائق کی بنیاد سمجھا جاتا ہے، مگر ہمارے بزرگ ہمیں مسلسل حقائق سے انکار کرتے ہوئے مذاق کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کے الیکٹرک اس کی واضح مثال ہے — ان کے اپنے سسٹم میں یہ واضح ہے کہ بجلی کی بحالی ممکن نہیں، اس کے باوجود یہ لوگ شیڈول کے مطابق اور بغیر شیڈول کے لوڈ شیڈنگ کو ایسے پیش کر رہے ہیں جیسے یہ کوئی "مفت سہولت" ہو۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں لوگ ایسی کھلی بدانتظامی کے خلاف آواز بلند کرتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود کے الیکٹرک کی ایپ دن میں چار بار بجلی جانے کی رپورٹ دیتی ہے، مگر میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق، خاص طور پر ہفتہ اور اتوار کو جب میں گھر پر ہوتا ہوں، بجلی کی بندش اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس مسلسل حقیقت سے انکار اور جوابدہی کی کمی کا یہی رویہ ظاہر کرتا ہے کہ کیسے ہمارے بزرگ بنیادی ترقی کے معیارات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

اور، اس پر سونے پہ سہاگہ

مجھے میری اپنی سگی ماں کی جانب سے ایسے غیر منطقی اور سطحی مشورے دیے جا رہے ہیں کہ ایک سولر شیٹ ہی لگوا لو۔ پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ کیا گھر میں کمانے والے افراد موجود ہیں؟ بجائے اصل مسائل کو حل کرنے کے، ایسے غیر سنجیدہ مشورے دیے جا رہے ہیں کہ "سولر شیٹ لگوا لو" یا "قرض لے لو"۔ سوال یہ ہے کہ قرض کو ادا کون کرے گا؟ یہ غیر سنجیدگی کی انتہا ہے!

یہ ہمارے بڑے ہیں، جنہیں مستقبل کی کوئی فکر نہیں، بس آج کسی نہ کسی طرح سہولت حاصل کرنی ہے، اور کل کے مسائل مرتضیٰ خود دیکھ لے گا۔ آج جو مشکلات پیدا کر دی جا رہی ہیں، وہ مستقبل میں میرے لیے ویسی ہی خطرناک صورتحال کھڑی کر دیں گی، جیسے فلم Interstellar میں کوپر اور برینڈ کے ساتھ ہوا تھا، جب وہ Waterworld پہنچے تو پہلے پانی دیکھ کر خوش ہوئے، مگر اگلے ہی لمحے دیو قامت لہروں نے انہیں تباہی کے قریب پہنچا دیا تھا۔

میرے اپنے والدین بھی بالکل یہی رویہ اپنا رہے ہیں۔ لیکن معذرت کے ساتھ، ہمارے معاشرتی حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ یہاں حقیقت بیان کرنے والا شخص ہی ولن بن جاتا ہے۔ اور اگر یہی حقیقت ہے تو میں خود کو ولن کے طور پر دیکھنے کو تیار ہوں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ میرے لیے معاملات نہایت پیچیدہ اور مشکل بنا دیے گئے ہیں، مگر میں پھر بھی اپنے مؤقف پر مضبوطی سے قائم ہوں۔ جس صورتحال میں مجھے ڈالا جا رہا ہے، اس میں مجھے اپنی زندگی کے فیصلے خود ہی کرنے ہوں گے۔ میں یہ سمجھ چکا ہوں کہ وہ وقت گزر گیا جب والدین پر اندھا اعتماد کیا جا سکتا تھا۔ موجودہ حالات میں تو ان پر بھی بھروسہ کرنے کے بجائے ایک خوف سا محسوس ہوتا ہے، کہ کہیں ان کی کوتاہ نظری میرے مستقبل کو مزید نقصان نہ پہنچا دے۔



مکمل تحریر >>

بلاگ میں مزید دیکھیں

You might like

$results={5}

Search me

Translate