مستیگو فوبیا سزا کا غیر معقول خوف ہے۔ اس حالت میں مبتلا کوئی شخص جب محض سزا کے بارے میں سوچتا ہے تو وہ بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنے کی توقع کر سکتا ہے۔ کچھ انتہائی صورتوں میں، ان کی بے چینی اتنی شدید اور دخل اندازی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے ماسٹیگو فوبیا کے نتیجے میں مکمل طور پر گھبراہٹ کے حملے بھی برداشت کر سکتے ہیں۔ تاہم، یہ شخص سے دوسرے شخص میں مختلف ہوگا، ساتھ ہی ساتھ ان کا مستیگوفوبیا کتنا شدید ہے۔ اگر کسی کو اپنے ماسٹیگو فوبیا کی وجہ سے گھبراہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو وہ دیگر علامات کے علاوہ دل کی دھڑکن میں اضافہ، بلڈ پریشر میں اضافہ، سانس لینے کی بڑھتی ہوئی شرح، پٹھوں میں تناؤ، لرزش، اور ضرورت سے زیادہ پسینہ آنے کی توقع کر سکتے ہیں۔
اس حالت میں مبتلا کوئی شخص انتہائی غیرمعمولی حالات میں بھی صحیح کام کرنے کی حد سے زیادہ فکر مند ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، یہ تصور کرنا قابل فہم ہے کہ مستیگو فوبیا میں مبتلا کوئی شخص اس خوف سے زمین پر ایک چوتھائی اٹھانے کے خلاف محسوس کر سکتا ہے کہ وہ اسے چوری کر رہے ہیں، جو اس کے بعد کسی قسم کی سزا کے ساتھ آئے گا۔ بنیادی طور پر، کوئی بھی ایسا عمل جس میں سزاؤں کا امکان ہو، مستیگوفوبیا کے شکار کسی کو بے چینی کی بہت زیادہ آمد دے سکتی ہے۔
مستیگوفوبیا کی علامات
جیسا کہ تقریباً ہر دوسرے فوبیا کا معاملہ ہے جو موجود ہے، ماسٹیگو فوبیا کا شکار کوئی شخص اپنی حالت کی سب سے زیادہ عام علامات میں سے ایک پریشانی ہونے کی توقع کر سکتا ہے۔ سزا کا ان کا شدید اور غیر معقول خوف ممکنہ طور پر ان کی روزمرہ کی زندگی میں بہت زیادہ پریشانی کا باعث بنے گا کیونکہ وہ ایسے فیصلے کر سکتے ہیں جو مکمل طور پر ان کے مستی گو فوبیا پر مبنی ہوں۔ اس طرح کے فیصلوں میں ان کا اخلاقی طور پر فالج تک ہوش میں رہنا شامل ہو سکتا ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ کسی بھی نتائج کا سامنا کرنے کے خوف کی وجہ سے فیصلے کرنے سے گریز کر سکتے ہیں، چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔
اگرچہ مستیگوفوبیا میں مبتلا کوئی شخص فیصلہ کرنے سے گریز کرتے وقت یا کام کرنے سے گریز کرتے وقت کم شدید اضطراب کا سامنا کرنے کی توقع کر سکتا ہے، لیکن اس طرح کی حرکتیں یا بے عملی طویل مدت میں ان کے مستیگو فوبیا کو مزید خراب کرنے کا امکان ہے۔ اس کا تعلق اس حقیقت سے ہے کہ سزا کے خوف سے بچنے کے لیے فعال طور پر ایسے حالات سے گریز کرتے ہوئے جہاں سزائیں ممکن ہوں گی، اس کے بعد وہ اپنے آپ کو سزا کے خوف کو تقویت دے رہے ہوں گے، یقیناً غیر ارادی طور پر۔
ذیل میں، آپ کو اس فوبیا کی کچھ اور عام علامات نظر آئیں گی:
- سزا کے بارے میں سوچتے وقت پریشانی
- جب سزا دی جائے تو شدید بے چینی
- فیصلے کرنے میں دشواری جہاں تک اس کا تعلق ممکنہ سزا سے ہے جس کا وہ تجربہ کر سکتے ہیں۔
- ان کی پریشانی کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔
- پٹھوں میں تناؤ، لرزش، اور پسینہ آنا۔
- گھبراہٹ کے حملوں کا تجربہ کر سکتا ہے
ماسٹیگوفوبیا کی وجوہات
ماسٹیگوفوبیا کی کوئی معروف وجوہات نہیں ہیں۔ چاہے جیسا بھی ہو، جینیات اور کسی کا ماحول دونوں ہی کسی بھی ذہنی عارضے کی نشوونما میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، بشمول ماسٹیگو فوبیا۔ مثال کے طور پر، دماغی بیماری کی خاندانی تاریخ رکھنے والے شخص کو مستیگوفوبیا ہونے کا زیادہ امکان ہو سکتا ہے۔ یہ ان کی وجہ سے ہو سکتا ہے پھر جن کے جینیاتی طور پر عام طور پر ذہنی بیماری پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
اگر کسی کے پاس ایسا جینیاتی رجحان ہوتا ہے، تو یہ صرف انہیں کسی قسم کے تکلیف دہ واقعے کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ مکمل طور پر تیار شدہ مستیگوفوبیا پیدا کریں۔ مثال کے طور پر، کوئی شخص اپنے ماضی میں ایک بار انتہائی وحشیانہ سزا کو برداشت کرنے کے نتیجے میں ماسٹیگو فوبیا پیدا کر سکتا ہے، جس سے وہ جسمانی یا نفسیاتی طور پر زخمی ہو جاتا ہے۔ ایسے شدید تجربات، صحیح جینیات کے ساتھ، کسی کے لیے سزا کا غیر معقول خوف پیدا کرنے کے لیے کافی ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسا خوف غیر معقول ہے، جب انہیں سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا سزا کے بارے میں سوچتے ہیں، تو وہ اس قدر عملی نہیں ہوں گے۔
اگرچہ ہم ماسٹیگوفوبیا کی صحیح وجوہات نہیں جانتے ہیں، لیکن زیادہ تر ذہنی صحت کے پیشہ ور افراد کے درمیان اتفاق رائے یہ ہے کہ جینیات اور کسی کا ماحول دونوں عملی طور پر کسی بھی ذہنی بیماری کی نشوونما میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لہذا، ان دو مختلف پیرامیٹرز پر گہری نظر ڈالنا فائدہ مند ہو سکتا ہے کیونکہ وہ کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں کہ آیا آپ کو ماسٹیگو فوبیا پیدا ہونے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے یا نہیں۔
مگر پاکستان کے کیس میں
سزا کا خوف ہونا ضروری ہے کیونکہ لنچنگ
(of a mob) kill (someone), especially by hanging, for an alleged offense with or without a legal trial.
her father had been lynched for a crime he didn't commit
اور اس طرح کا رویہ پاکستان میں کسی بھی طرح سے برداشت کرنا اس کو بڑھاوے کے مترادف سمجھنا چاہئے، کیونکہ ہم نے already پڑوسی ملک کو موقع دے دیا ہے کہ ان چند لوگوں کی وجہ سے پورے پاکستان کو ظالم بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔
مگر ہمیں احساس نہیں ہے کہ پاکستان کے رتبے کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا ہے، میں اپنا ذاتی پوائینٹ آف ویو بتاؤں تو میری پچھلی برانچ میں ایک بندا عمران خان کے خلاف رہتا تھا، میں پہلے اس بات کو نفی میں claim کردوں کہ میں نہ ہی کوئی یوتھیا ہوں، بلکہ اکانومی کا مسئلہ کا سب سے بڑا شکار میں خود ہوں،مگر جس طرح وہ نواز لیگ کا حامی رہتا تھا، اور اس کو ایسا represent کرتا تھا کہ جیسے ہمارا savior ہے، مگر اس بات کا جواب نہیں ہوتا تھا، کہ پاکستان کی رقم جو وہ لندن اور پانامہ میں لے کر گیا ہے، کیا اس کا جوابدہ بھی عمران خان ہے؟ کیا ہمارے اوپر عمران خان ٹیکس اپلائی کرنے کے بجائے اگر یہ رقم واپس لاتا تو کیا ہمیں ریلیف نہیں ملتا؟ کیا Post-Covid-Scenarios میں دنیا بالکل ویسی ہی ہے economic wise جیسے Covid-19 سے پہلے تھی؟ مگر اس کا ان سب چیزوں میں صرف اور صرف یہی جواب ہوتا تھا، کہ صاحب، ہمیں شکر سستی ملتی تھی، نواز شریف ہمیں سستا چاول اور شکر دیتا تھا، میں مانتا ہوں کہ ان سب چیزوں کو قوی طور پر نظر انداز کرنا واقعی میں صحییح بات نہیں ہوگی، اس کی بات میں بالکل سچائی ہے، کیونکہ انسان محنت صرف پیٹ کی پوچا پاٹ کے لئے ہی کرتا ہے، مگر میرا یہ سوال ہوتا تھا کہ کیا پیٹ کی پوجا پاٹ میں ہمیں پاکستان کو یکثر نظر انداز کرلینا چاہئے؟ اس کا جواب اس کے پاس بالکل نہیں ہوتا تھا، اور جیسا کہ آپ نے بھی اندازہ بخوبی لگا لیا ہوگا کہ اپنے آپ کو صحیح پیش کرنے کے لئے کیا، کیا حرکتیں پیش کرتا تھا، کیونکہ میں جیسے اپنے پچھلے بلاگ آرٹیکل میں لکھا بھی ہے کہ یہ سب کچھ احساس کمتری کا مظاہرہ ہے، کیونکہ انا پسند وہی بندہ ہوتا ہے جس کے پاس پوائینٹ پر بات کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے، مگر اول فول بکواس کرکے ٹائم سب کا ضائع کرتا ہے اور ضائع کرنے کو بحث کہہ کر بحث بازی کی بے عزتی کرنے میں ان لوگوں کو کوئی عار نہیں۔
اس وقت کا اصل مسئلہ
مگر نیوٹرل ہونے کے ناطے میں یہ بات تصدیق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت پاکستان کو جو سب سے بڑا مسئلہ ہے، اس میں یکم نواز شریف لیگ ہے، دوم انڈیا کی پروپگینڈہ مشین ہے، اور سوم عمران خان کی incapable اور incompetent ٹیم۔
Nipping in the bud
ایک ٹرم استعمال کی جاتی ہے، nip in the bud ، تو ان سب چیزوں کو ختم کرنا ہے تو پہلے انڈیا کی فنڈنگ کو پاکستان میں روکا جائے، کیونکہ 5th generation warfare میں سب سے ذیادہ کمال یہی ہے کہ کمال طریقے سے شطرنج کے پانسوں میں اپنے پیادوں کو خود سے deploy کرتے ہیں، یہاں deploy کرنے سے مراد مائینڈ پروگرامنگ ہے، جہاں پہلے جو چیز ہمارے لئے accepted بالکل نہیں تھی، اب ہمارے لئے بالاخر accepted کرائی جارہی ہے، اور میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ ہم اسی وجہ سے ان سب خرافات میں پڑھ رہے ہیں، کیونکہ کتابوں اور E-Books سے دوستی ختم کردی ہے، اور جیسے میں نے پہلے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ایک چیز ہوتی ہے کراس چیک کرنا، وہ ہم نے ماضی کی بھولی بسری یاد بنا کر پرانی دوات کی مانند unimportant بنادیا ہے، کراس چیکنگ کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ آپ کے پاس معلومات موجود ہو، اور معلومات کو کیسے استعمال کرنا ہے، اس کے لئے آپ کے پاس علم ہونا چاہئے، اور مجھے یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ تحقیقی مواد یعنی کتابیں یا پھر ای کتابیں ہونی چاہئے، یہ ساری باتیں شعور سے متعلق ہوتی ہیں، تعلیم ہو یا نہ ہو، مگر شعور ہونا الگ چیز ہونی چاہئے، پہلے زمانے میں لوگوں کے پاس تعلیم انٹر ہوتی تھی مگر شعور ہوتا تھا، آج ڈبل ایم بی اے ہیں، ایم فِل ہیں، مگر کیا اس لیول کا شعور ہے کہ اس چیز کی intensity کو سمجھیں کہ ہمارے ایک ایکشن سے دشمن کیسے فائدہ اٹھا رہا ہے؟ میرے نذدیک دشمن کو فائدہ پہنچانے کا مطلب یہی ہے کہ آپ دشمن کے آلأ کار بنے ہو جو کہ از خود نشانی ہے کہ ہم پاکستانیوں میں شعور کی کتنی کمی ہے! آپ کو احساس ہی نہیں ہے کہ آپ کے ایک ایکشن سے دنیا بھر میں موجود پاکستانی جہاں، جہاں موجود ہیں، کس کس مشکل صورتحال کو face کررہے ہوں گے، کیونکہ (دوبارہ کہہ رہا ہوں، اور متعدد بار کہوں گا) کہ ہم میں ملکی شعور کی کمی ہے۔
اس واقعے کی سی سی ٹی وی ویڈیو سے میں کیا سمجھا ہوں
اتنی ہولناک ویڈیو ہے، دیکھ کر پہلے تو مجھے پریشانی ہوئی کہ کیا میں کوئی زومبی کی مووی دیکھ رہا ہوں، کیونکہ یہ حیوانیت سے آگے کا لیول تھا، مگر اگر میں ویڈیو کے crux پر آؤں تو صاف لگ رہا تھا، کہ چونکہ راجکو انڈسٹری کو ہیوگو باس اور جرمن فٹبال ٹیم کا کنٹریکٹ ملا تھا، اس کی بنیاد پر وہاں کے correspondents پاکستان ان کی فیکٹری میں آرہے تھے، تو اس کی تیاری کے لئے وہاں پینٹ اور پالشنگ ہورہی تھی، اس طرح کی صورتحال اگر ہمارے گھروں میں بھی ہوتی ہے جہاں گھر میں پالش اور پینٹ کا کام ہورہا ہوتا ہے تو اس طرح کے اسٹیکر کو ہٹا دیا جاتا ہے، مگر صرف کام نہیں کرنے کے سو بہانے، اگر آپ اوپر والے پیراگراف پر جائیں جو آفس میں کام کرنے والے کی بات کی، جو نماز کو کام نہیں کرنے کے لئے استعمال کرتا تھا، ٹھیک اسی طرح یہاں بھی دکھائی دیا ہے کہ اسٹیکر کو اتار کر ڈسٹ بن کرنے پر یہ لوگ مشتعل ہوئے، جو کہ کوئی وجہ نہیں تھی، کیونکہ پہلی بات یہ تحریک لبیک پاکستان کا اسٹیکر تھا، اس پر اگر کوئی عبارت لکھی ہوئی بھی تھی، تو پہلے جب اس سری لنکن مینیجر نے کہا تو کیوں نہیں کیا؟
کیا اسلام اس چیز کی اجازت دیتا ہے؟
میں اپنے آپ کو اسلام کا سوداگر نہ ہی سمجھتا ہوں نہ سمجھنا چاہتا ہوں، مگر جتنی میری ناقص معلومات ہے اس کے مطابق یہ سب کچھ اسلام میں کہیں بھی موجود نہیں، اسلام تو وہ مذہب ہے، جہاں سب عورت کو نجاست کی علامت سمجھا جاتا تھا، تو ان کے ساتھ سب سے پہلے شفقت اس مذہب میں پیش کیا گیا اور ان کی عزت دی گئی، تو کیا یہ مذہب اس چیز کی اجازت دیگا کہ زندہ درگور کریں؟ کسی زندہ شخص کو اس طرح سے اذیت دیں کہ مرنے کے بعد اس شخص کی روح اپنی لاش کو دیکھ کر گھبرا جائے اور خدا سے التجا کرے کہ یہ سب کچھ مجھے کیونکر دیکھایا ہے؟
کیا یہ لوگ بھول گئے ہیں؟
کہ بحیثیت مسلمان ہمیں کہیں سے بھی یہ حق نہیں ہے کہ ہم جج بنیں، تو کس معاملے میں ہم نے ایسی حرکت کی، کیا سوچ کر نہ صرف ایسی حرکت کی بلکہ وہ بندہ جو غیر ملکی ہونے کو باوجود پاکستان کے لئے سوچ رہا تھا (بے شک تنخواہ لے رہا تھا) کہ غیرملکی کلائنٹ آئیں گے تو ان کے لئے ہماری vicinity اچھی دیکھائی دینی چاہئے، اگر وہ شخص اس چیز کی ذیمانڈ کر بھی رہا تھا، تو اس میں کیا غلط تھاَ؟ کیا یہ بات blasphemy میں نہیں آتی جہاں مذہب کو کام نہیں کرنے کے حیلے بحانے کے طور پر mock کرکے مذہب کا مذاق آراتے ہیں؟ کیا یہ مذہب کے ساتھ itself مذاق کرنا نہیں؟
ہم اپنے آپ کو کیونکر analyze نہیں کرتے کہ ہم انسان ہیں اور انسان ہونے کے ناطے غلط ہوسکتے ہیں
ایسی گھٹیا سوچ ہمارے اندر اس وقت ہی آسکتی ہے جب ہم میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو فرعون سمجھنا اسٹارٹ کردے، کیونکہ فرعونیت کا مطلب ہی اکڑ تھا، جبکہ اسی اللہ تعالی نے قوم ثمود کا جو حال کیا تھا، ہمارے لئے آج بھی باعث عبرت ہونا چاہئے ، مگرجس طرح کے رویے ہمارے موجود ہیں، ہمارا اللہ تعالی ہی حامی و ناصر ہو۔