Search me

Nipping in to the bud


یہ ایک انگلش ٹرم ہے، جس کا استعمال کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی چیز ہونے سے پہلے ہی معاملات کو حل  کیا جائے، اور عام طور پر proactively مسئلے کو حل کرنے کے لئے یہ ٹرم استعمال کی جاتی ہے جہاں کوئی بھی چیز ہونے سے پہلے ہی ختم کی جائے۔ اور یہ چیز ایک طرح کی تربیت کے طور پر اجاگر ہوتی ہے، کیونکہ جیسے میں نے اپنی پہلے کے آرٹیکل میں یہ بات کہی تھی، اور ہمارے آباؤ اجداد اس چیز کا بخوبی خیال رکھا کرتے تھے، کیونکہ اس زمانے میں چاہے کوئی قاضی ہی کیوں نہ ہو، روز مرہ کی زندگیوں میں کام آنے والی چیزوں/ہنر بھی سکھانے پر بھی emphasis رہتا تھا، کیونکہ آج کے زمانے کے حساب سے چیزوں کا مشاہدہ کریں گے، تو آج ہمارے معاشرے میں نا امیدی اسی وجہ سے موجود ہے، کیونکہ اگر پچھلے زمانے کی یہ ایکسر سائز کو نوٹ کریں تو اسی لئے کیا جاتا تھا کیونکہ انسانی سائیکولوجی ہے کہ کوئی یا کسی چیز کا متبادل نہ دیکھائی دے، تو جلدی نا امید ہوجاتا ہے، اور اگر آج کے زمانے کے تناظر میں دیکھیں تو ہمارے معاشرے میں صبر و شُکر کی کمی کا ایک reason یہ بھی ہے، کیونکہ اگر متبادل کی غیر موجودگی میں ہی یہ desperation کا عنصر عیاں ہوتا ہے، جو کہ ہمارے آج کے معاشرے میں خاص طور پر کراچی کے معاشرے (کیونکہ میں دوسرے علاقوں کی تصدیق نہیں کرسکتا) میں بے سکونی کی کیفیت کا ایک وجہ یہ بھی ہے۔

تو یہ میں یہاں کیوں استعمال کررہا ہوں؟؟؟

کیونکہ ملکوں کی صورتحال یک دم خراب نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک چین ری ایکشن ہوتا ہے، جو کہ پاکستان کے کیس میں ۵۰ سال پر محیط عرصہ ہے کیونکہ ۵۰ سال پہلے جو چین ری ایکشن ہوا تھا، اس کے ثمرات آج ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں، اسی لئے ابھی بھی اگر ہم یہ ٹرم کو استعمال کررہے ہیں، تو آئندہ آنے والے کم سے کم ۵ سالوں میں آج کے کاموں کے اثرات دکھیں گے، کیونکہ معذرت کے ساتھ ہم نے بحیثیت قوم ویسے ہی ہم نے بہت وقت ضائع کیا ہے۔


چونکہ ہم میں وقت ضائع کرنے کی عادت ہے

چونکہ وقت ضایع کرنا ہمارا قومی مشغلہ ہے، اسی وجہ جیسے ہم انگریزی میں ایک ٹرم استعمال کرتے ہیں، On the Brink of Eleventh Hour ہم آفس اور اسکولوں کے لئے نکلتے ہیں، یعنی پہنچنا ۹ بجے ہے اور رستہ اگرچہ ۲۰ منٹ کا ہے تو پورا پورا ۸:۳۰ بجے کے بعد نکلتے ہیں، جس پر میں قصور ٹرانسپورٹ والوں کا بعد میں ہے، پہلے بحیثیت قوم، ہمارا ہے، کیونکہ ہم میں شعور نہیں ہے، جبکہ یہی قوم جب باہر کے ممالک میں جاتی ہے تو فی الفور شعور آجاتا ہے، کیونکہ ہمارے ملک میں rules and regulations بالکل موجود ہیں، مگر اس کی implementation کو make sure کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟

کیا ساری ذمہ داری صرف اور صرف حکومت کی ہے؟

میں یہاں حکومتی نمائندہ نہیں ہوں، بلکہ ایک کراچی والا ہونے کے ناطے کہہ رہا ہوں، کیونکہ ہماری ذمہ داری میں صرف نوکری کرنا نہیں ہے بلکہ سماجی ذمہ داری بھی ہم پر لاگو ہوتی ہے اور ہونی چاہئے، کیونکہ پہلے زمانے میں عوام میں یہ سماجی شعور ہوا کرتا تھا، بلکہ اس کو اپنی سماجی ذمہ داری سمجھتے تھے، جس کی آج بھی کچھ نہ کچھ اثرات موجود ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف اور صرف اپنا سوچ رہے ہیں، میں یہاں یہ فضول کی بحث میں نہیں پڑھنا چاہتا کہ عمران اچھا ہے، نواز شریف بہتر تھا یا ذرداری ہمارے واسطے ذیادہ اچھا تھا، مگر بات یہی ہے کہ بات ڈیمانڈ اور سپلائی کی ہے، اور جو ہماری ترجیحات ہوں گی، وہی ہماری ڈیمانڈ ہو گی، اور ڈیمانڈ ہمارے شعور پر depend کرتے ہیں، اور اسی بناہ پر ہماری demands ہوتی ہیں، اب معذرت کے ساتھ اگر ہماری ترجیحات اگر ٹھرک پن ہو نہ کہ میونسپل سروسز، ٹرانسپورٹیشن، رہن سہن وغیرہ، تو معذرت کے ساتھ ہمارا یہی حال ہونا ہے۔


باہر کے مماملک میں سوشل سروسز نمبر اور ہمارے کلچر کا وظیفہ کا concept

گوروں نے ہمارے پاس کا وظیفہ کا concept کو adopt کیا، اور اپنے پاس سوشل سروسز نمبر کے نام سے اپنے پاس introduce کرایا، جو کہ بالکل ہمارے پاس کا زکوٰۃ اور وظیفہ کے کانسیپٹ پر based کرتا ہے، اور معذرت کے ساتھ یہ نظریہ ہم نے ماضی کی بھولی بسری یادگار بنا دیا، کیونکہ ہم نے لاشعور ہونے کا prove دیا، اور نتیجہ میں ہم نے اپنے کلچر میں موجود extra curriculum activities کو بالکل ختم کردیا اور ہمارے معاشرے کو بالکل stagnant اور ساکن کردیا، اس حوالے سے میرے ساتھ کافی لوگوں کی بحث بھی ہوئی کہ میں کہہ رہا ہوتا ہوں کہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینا چاہئے جبکہ سامنے سے مجھے جواب آتا ہے کہ عمران خان صحیح نہیں ہے نواز شریف ذیادہ اچھا تھا، میرا صرف یہی کہنا ہے کہ آپ کے لئے نواز شریف اگر اچھا تھا تو کتنی روزگار کے مواقع پیدا کئے؟ کیونکہ جیسے میں نے اوپر لکھا ہے کہ دنیا آج ڈیمانڈ اور سپلائی یعنی طلب و رسد پر based کرتا ہے، یعنی نواز شریف سے ہم نے یہ ڈیمانڈ کی کہ عوام کو روڈیں بنا کر دو، یہ ڈیمانڈ نہیں کیا کہ ان روڈوں کے اوپر چلنے والی ٹرانسپورٹ کو اس کے ساتھ upgrade کرو، میں یہاں عمران خان کا حمایتی یعنی یوتھیا نہیں ہوں، مگر اگر عمران خان کچھ اچھا کررہا ہے تو اس کو مجھے کڑوی زبان کے ساتھ ماننا پڑے گا، کیونکہ اکانومی کے steps کو فالو کروں تو یہی hierarchy کو فالو کیا جاتا ہے، کیونکہ جرمنی کی مثال لوں، تو اپنی ترقی کو ٹرین سے لنک کیا، ٹرین کی ٹائمنگ سے پوری اکانومی کو لنک کیا، جس سے ان کی پوری اکانومی جو ایک زمانے میں پاکستان سے loan لیا تھا، آج G8 گروپ کا ممبر ہے، 

مگر ہماری ترجیحات تو کچھ اور ہیں

کیونکہ بحیثیت قوم اور بحیثیت پاکستانی ہم میں نہ ہی پاکستانیت ہے، نہ ہی معاشرتی طور پر، کیونکہ اگر وہ ڈگری جس کی base پر آج ہم بڑی بڑی پوسٹوں پر براجمان ہیں، اسی ڈگری کی ایڈمٹ کارڈ پر ایک وعدہ ہوتا ہے، جس پر ہم اپنے دستخط بھی کرتے ہیں، کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد کم سے کم دو بچوں کو ذاتی طور پر پڑھائیں گے، مگر نہ ہی ہم وہ وعدہ پورا کرتے ہیں، اور نہ ہی بی بی اے/ایم بی اے کے تھیسس رپورٹنگ میں وہ zeal ہوتی ہے، جو باہر کے ممالک میں اسٹوڈنٹس میں ہوتی ہے، کہ ان کو ڈگری کے حصول کے لئے کوئی نہ کوئی ٹارگٹ دیا جاتا ہے، جب وہ تارگٹ مکمل ہوتا ہے اس کو analyze اور تصدیق کے بعد ہی ڈگری ملتی ہے، چاہے اس کو کرنے میں اسٹاڈنٹ کو ۱۰ سال ہی کیوں نہ لگ جائیں، 

گوگل کی example لیں

گوگل جو کہ آج کے زمانے میں ایک ٹیکنالوجیکل دیو کے طور پر دیکھا جاتا ہے، دو گریجوئیٹ اسٹوڈنٹس کا بروجیکٹ تھا، جو کہ Googleplex سے inspired ہو کر گوگل لیا گیا تھا،
 
 
مگر بات یہی ہے کہ چونکہ ان دونوں اسٹوڈنٹس نے محنت کرکے گیراج سے شروعات کی تھی تو ان کی بنیاد humble تھی، مگر ان کو اپنی حیثیت کا اندازہ تھا، ہمیں چونکہ ان چیزوں کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا ہے تو ایسے میں undoubtedly ہم میں arrogance موجود ہوتی ہے، اور چونکہ ہماری بنیاد میں ہی arrogance ہوتی ہے، کیونکہ محنت تو ہم نے نہیں کی ہوتی ہے، اسی لئے نا سننے کی "عادت" نہیں ہوتی ہے، تو جیسے میں نے اپنے آرٹیکل کے شروعات میں Nipping in to the Bud کی ٹرم استعمال کی تھی، وہ اسی لئے کی تھی کیونکہ مسئلہ کیوں ہے، یہ سب بتائیں گے، مگر کس وجہ سے ہے، کس لئے ہے، اور کیسے ختم ہوگا، یہ کوئی نہیں بولے گا، کیونکہ یہاں ہر کوئی exploit کرنے کو دیکھ رہا ہوتا ہے، کیونکہ اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر اس پر impose کرانا اپنی کامیابی سمجھتے ہیں، جبکہ جو لوجیکل ذہن کا مالک ہوگا، وہ اپنے قول و فعل کے تضاد کو بخوبی دیکھے گا، 
تین رخی ذاویہ کا خاکہ

ٹھرڈ ڈیمنشن پوائنٹ آف ویو

اگر ہم اسلامک نقطہ نظر دیکھیں تو کیا یہی اسلام کی تلقین نہیں کہ تول کر بولو، اور اپنے گریبان میں پہلے جھانکیں، یہی چیز اس پکچر میں دکھائی دی جارہی ہے کیونکہ یہاں X سے مراد ہم ہیں، Y سے مراد سامنے والا (جس سے ہم مخاطب ہیں) جبکہ Z ٹھرڈ آئی ویو ہے، جہاں ہم دوسرے ذاویے سے چیزوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں، مگر میں اس بات کی تصدیق کردوں کہ صرف اس کا یہ مطلب نہیں ہے جو ابھی میں نے بتایا، بلکہ basically یہ ایک طرح کا analysis کرنے کا طریقہ کار ہے، کیونکہ analysis کرنے کے لئے کافی دفعہ غیر جانبدار بھی ہونا ہوتا ہے، جو کہ ہمارے مذہب کی بھی تلقین ہے، اور ماضی بعید میں ہمارے پاس کے اُس وقت کے محترم قاضی حضرات اس چیز کو بخوبی دیکھتے تھے بلکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اسی چیز میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، یعنی ہمارے سارے مسائل کی جڑ ہماری مذہب سے دوری ہے، کیونکہ اگر ہم اپنا خود کا analysis نہیں کریں گے، تو ہمارے اندر humbleness کے بجائے arrogance خود بخود ہمارے اندر آجائے گی۔

کم سے کم اپنے اندر سامنے والے کی بات سننے کا حوصلہ تو رکھنا چاہئے

بات سننے کا حوصلہ کافی
تصادم کی صورتحال کو
حل کرنے میں مددگار ہوسکتا ہے

چونکہ ہمارے اندر غیر ارادری طور پر arrogance موجود ہوتی ہے، تو ایسے میں غیر ارادری اور غیر محسوس طور پر احساس کمتری کا احساس automatically موجود ہوتا ہے، کیونکہ سامنے والے کو زبانی طور پر ڈھیر کرکے اس کو اپنی جیت کی مانند سمجھا جاتا ہے، جبکہ جیسے میں نے اوپر اخذ کیا کہ لوجیکل مائنڈ والا بندا ہمیشہ ground to earth اور humble رہتا ہے، اور سننے کا حوصلہ رکھتا ہے، اور جیسے میں نے کہا کہ اگر جس پوسٹ پر ہم بیٹھے ہیں، جتنی آسانی سے ہمیں بیچی جارہی ہے، (چونکہ اگر ہم earn کر رہے ہوتے تو کہانی یکثر تبدیل ہوتی)، وہ ہمیں حاصل کرنے کے لئے وقت اور محنت دونوں لگتی تو یہ چیز نیچرل ہوتی ہے کہ ہمارے اندر humbleness اور ground to earth کا رویہ بالکل موجود ہوتا، جس کے فقدان کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے میں یہ مسئلے مسائل دن بدن اجاگر ہورہے ہوتے ہیں، مگر جیسے میں نے اوپر یہ چیز لکھی ہے کہ ہمیں ہائی لائٹ کرنے کا شوق بالکل ہے مگر کیسے حل کریں گے، یہ کہیں نہیں پتہ، اور اگر کوئی بتا بھی دے تو اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ صرف اور صرف اسی کا پوائینٹ آف ویو کو دوسروں پر implement کرایا جائے، either by hook or by crook کیونکہ ایسا کرنے کو اپنی dominance کے طور پر دیکھا جاتا ہے، ورنہ اگر ہم سننے کا حوصلہ رکھیں تو ہوسکتا ہے سامنے والا شاید چیزوں کو کسی اور ذاویے سے دیکھ کر بہتر تجزیہ دے سکے جو کہ سب کے لئے ذیادہ فائدہ مند اور beneficial ہوسکے، مگر ہمارے arrogance کی وجہ سے ہم دوسروں کو یہ موقع نہیں دیتے ہیں۔

Mindset کے ساتھ ساتھ

یہاں مسئلہ سامنے والے کو سننے کا بھی ہے، مگر اس کے ساتھ مسئلہ یہ بھی ہے کہ بیفضول بحث بازی میں involve ہو کر سامنے والے کو چپ کرانے میں ہی اپنی جیت سمجھتے ہیں، یہ نہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ معاشرے میں ان کی contribution کیا ہے، کسی سے پوچھو تو لگتا ایسا ہے جیسا کہ میں نے ادھار میں اس کے گردے مانگ لئے ہیں، مگر بحث بازی اور اس کے اوپر بہانہ بازی، ایک ایسا خطرناک کیمیکل ری ایکشن ہے، جس کے نتائج ہم سالوں تک نہیں، صدیوں تک بھگتیں گے، اور شاید اسی وجہ سے ہمارے اباؤ اجداد ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے تھے، مگر معذرت کے ساتھ ہم بحیثیت قوم اس بُری چیز کو بڑھاوا دیا ہے، تو اب جس کے منہ میں زبان ہے، بولنا ضروری ہے، بولنے سے پہلے بولے جانے والا الفاظ کے استعمال کے repercussion کو مدنظر رکھنا جیسا ہم نے چھوڑ ہی دیا ہے، کیونکہ آپ کے بولے جانے والے الفاظ کے اثرات آنے میں کچھ گھنٹے، دن یا مہینے نہیں لگتے، بلکہ صدیاں لگ جاتی ہے، کیونکہ for the time being میں تو انسان اپنے emotions اور ری ایکشن پر کنٹرول بخوبی کردیتا ہے، مگر کہیں نہ کہی، in-cognitively لاوے کی طرح پک رہا ہوتا ہے، جس کا خود ادا کرنے والے بندے کو بھی احساس نہیں ہوتا ہے، مگر کہیں نا کہیں لاوا پک کر آتش فشاں کا منظر پیش کرنا شروع کردیتا ہے، پہلے ہمارے بڑے بزرگ اس چیز پر روک لگا کر رکھتے تھے، مگر معذرت کے ساتھ میں یہاں قصور وار ہمارے آج کے بڑے بزرگوں کو دوں گا، کیونکہ انہوں نے اس اہم چیز کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا ہے، جب فاؤنڈیشن ہی ایسی ہوگی، تو اینڈ یوزر پروڈکٹ تو ایسی ہی ہونی ہے۔

Conflict Management

اسی وجہ سے تصادم کی صورتحال ہوتی ہے کیونکہ ہم میں سننے کا حوصلہ نہیں، اگر آپ اسی آرٹیکل کے اسٹارٹ میں جائیں تو میں نے اشارۃ تصادم کو ڈسکس کیا، جہاں ہم ہر بات پر عمران خان، نواز شریف اور زرداری کو بیچ میں لے آتے ہیں، جبکہ ہم بحیثیت قوم، ہماری ترجیحات میں یہ چیز ہونی چاہئے کہ تصادم کی صورتحال کو ہوا دینے کے بجائے لوجیکل ترجیحات کو اہمیت دینی چاہئے، اور اپنے پوائنٹ کو prove کرنے کے لئے لوجک بھی دینی چاہئے، تاکہ دوسرا / سامنے والا بھی غیر ارادری طور پر آپ کی بات ماننے لگے، بصورت دیگر بات تصادم کی جانب مبذول ہوتی ہے، مگر معذرت کے ساتھ ہمیں اس کا شعور نہیں ہوتا، لوجک بالکل دیں مگر ذیڈ ایکسس کو مدنظر رکھ کر Argue بھی کریں تو Argue کرتے ہوئے آپ اچھے بھی لگو گے، بصورت دیگر آپ دشمنیاں پیدا کرو گے،

Arrogant اور Confident رہنا دو الگ چیزیں ہیں، اور ان کو دو الگ چیزوں کے طور پر ہی دیکھا جائے، تو بہتر ہے

ہم دراصل چیزوں کو دیکھنے کا ذاویہ اور نظریہ تبدیل کرنا ہو گا، بصورت دیگر جاہلوں کی طرح ہم Arrogance کو confidence کے لبادے میں اوڑھ کر اپنے ہی لوگوں کو جس طرح بے عزت کرتے ہیں، ایسے میں سامنے والے کو بھی موقع دے رہے ہیں، کہ بزور جان اپنی بات منوائے، نتیجے میں جو تصاویر پورے پاکستان کی ان چند لوگوں کی وجہ سے جاتی ہے، تو اس پر ذمہ داری کس پر لاگو ہوتی ہے، میں اگر نیوٹرل ہو کر اپنے آپ کو شامل کرکے بولوں تو ہم سب اس catastrophe کے ذمہ دار ہیں، کیونکہ سوسائٹی ایک طرح کی تسبیح کے دانوں کی طرح ہوتی ہے، ایک دانہ بھی اگر اپنی جگہ پر چپک جائے، تو ایسے میں یا تو ڈور ٹوٹے گی، یا پھر پوری تسیح بیکار ہوجائے گی، کیونکہ تسبیح کو گننے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، چاہے دعائیں ہوں، یا جو بھی ہو، کام آپ ہی کا رکتا ہے، تو ایسے میں ہمیں انسان ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داری کا احساس رکھنا چاہئے۔
 

Vulgarity vs Fashion in Pakistan

میں عام طور پر اس طرح کے ٹاپک کو اجتناب کرتا ہوں، کیونکہ میں بلاوجہ کا اپنے آپ کو راکھی ساونت نہیں دکھانا چاہتا ہوں، مگر جب ایک پاکستانی ٹی وی چینل کے ایوارڈ شو کی کلپس لیک ہوئی تو اندازہ ہوا دنیا کہاں پہنچ چکی ہے، اور میں کہاں بیٹھا ہوں، ویسے مجھے ۲۰۰۳ میں پاکستانی میڈیا کو دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ کہیں نہ کہیں پاکستان میں بھی یہ چیزیں زور پکڑیں گی، جو کہ ۱۷ سال بعد پاکستان میں ایک reality ہے، بے شک اس کا reaction بہت سخت آیا ہے مگر یاد کریں، پاکستان میں یہی چیز پہلے بھی ہوچکی ہے جب پاکستان میں پہلی پہلی دفعہ عورتوں کے سینیٹری نیپکنز کو introduce کرایا جارہا تھا، تو پہلی بار جتنا reaction آیا تھا، تیسری بار میں سوسائٹی نے accept کرلیا تھا۔ کیونکہ implementation کے دو طریقہ کار ہوتے ہیں، ایک forcefully implement کرائی جاتی ہے اور دوسرے معاملے میں implementation at will ہے، یہاں معاملہ forcefully implementation کا ہے، جہاں یہ بات بھی ماننے کی ہے کہ ۷ بار ایک چیز کو بار بار دکھایا جائے تو آہستہ آہستہ ہمارا ذہن اس تبدیلی کو ماننا اسٹارٹ کردیتا ہے، اور یہی چیز آج پاکستان میں حاوی ہے، کہ بذریعہ زور زبردستی اپنا حکم سر خم منوائیں۔

۲۰۰۳ میں

اگر آپ یہ پکچر اور اسی طرح کی اور پکچرز دیکھیں تو ایک چیز واضع ہوتی ہے کہ ۲۰۰۶ کے فون revolution سے پہلے کے زمانے میں یہ seduction کی  tactics نہیں ہوتی تھی بلکہ اس زمانہ میں ڈوپٹہ کو seduction tools کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اور اسی بناہ پر لڑکی کے لئے لڑکا اور لڑکے کے لئے لڑکی untouchable تھے، مگر اسکی وجہ سے دونوں جنس میں متوازن فرق رکھا جاتا تھا، جو کہ اچھی بات تھی، کیونکہ اس کی وجہ سے عورتوں کو بکاؤ مال کے طور پر نہیں treat کیا جاتا تھا۔ کیونکہ اسی وجہ سے آپ غور کریں ہمارے پاس کے لڑکی لڑکوں میں وہ مچیورٹی نہیں ہے، کیونکہ خود دیکھیں ایک پاکستانی لڑکی جو کراچی میں بیٹھی ہوئی اور ایک پاکستانی لڑکی جو پاکستان سے باہر بیٹھی ہے، دونوں کے ذہنی لیول کو دیکھ لیں فرق صاف ظاہر ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ ہے وہ ہے فلاں ڈھمکانا، مگر چونکہ ہم منافق ہیں، تو یہ بات کی وجہ سے ہم نے پاکستان کو کہاں ۱۹۵۰ میں ویسٹ جرمنی کو loan دیا تھا، اور آج ہم اس پستی میں ہیں۔

۲۰۰۶ کا موبائل ریوولوشن

 ۲۰۰۶ کا موبائل ریوولوشن اس صورتحال میں وہی کام کیا جو سلگتے ہوئے کوئلوں پر پنکھا کرتا ہے، یعنی آگ ذیادہ بھڑکائی بھی نہیں، بلکہ ہلکی پھلکی آگ سلگتے ہوئے رکھی، کیونکہ اس ریوولوشن سے پہلے لیپ ٹاپ کسی کے پاس ہوتا تھا تو دوسرے اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، مگر اس کے بعد موبائل کمپیوٹنگ کا زمانہ آتا ہے، یہاں موبائل سے مراد پورٹی بلیٹی ہے، کیونکہ پہلے جو بھی کام ہوتا تھا گھر پر موجود پی سی، اور پھر وہاں سے Lexar کی یو ایس بی سے آفس کے کمپیوٹر میں ٹرنسفر ہوتا تھا، مگر پھر اس ریوولوشن کے بعد ہر چیز real time میں اپ ڈیٹ ہونے لگی، اور مجھے کچھ کچھ یاد ہے فیس بک نے اسی زمانے میں فیس بک لائیو کا concept کو reveal کیا تھا جو آج ایک common چیز ہے، مگر یہی وہ point in time تھا جہاں سے یہ سب مسائل اسٹارٹ ہوئے، لوگوں کو اپنی احساس کمتری کو satisfy کرنے کے لئے فیس بک لائیو، واٹس ایپ لائیو، اسنیپ چیٹ وغیرہ کی سہولت میسر ہوئی، مگر چونکہ ہماری ذہنی ڈیویلپمنٹ نہیں ہوئی ہے، تو ہم نے اپنے اندر کی ٹھرک پن کو تسکین پہنچانے کے لئے استعمال شروع کردیا، جبکہ دوسری جانب جائیں جو ای سی بی یعنی انگلش کرکٹ بورڈ کا بھی ٹک ٹاک ہینڈلر موجود ہے مگر کیا وہاں ای سی بی کے ماتحت کرکٹرز کیا لندن کی لڑکیوں کی ٹھرک پن کی تسکین پہنچاتے ہیں؟؟؟ بات سوچ کی ہے۔ دنیا کو ہم کیا بتا رہے ہیں، کہ پاکستان یہ ہے، سوشلی ہم اتنے ٹھرکی ہیں۔۔۔ شرم کا مقام ہے ہمارے لئے دو وجہ سے، ایک تو ٹھرک پن دوسرا کس طرح پاکستان کو دنیا بھر میں ٹھرکی دیکھا رہے ہیں!

میں یہ نہیں کہہ رہا 

کہ جو بھی اس ایوارڈ شو میں ہوا بالکل ٹھیک ہوا، مگر میرا یہ پوائینٹ آف ویو یہ ہے کہ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو ایکٹیوٹی کے نام پر کیا دیا ہے؟ اسلام کو بالکل فالو کریں مگر بات ساری یہ ہے کہ majority wise ہمارے معاشرے میں کوئی ایکٹیوٹی ہے؟ ہم نے اپنے پیارے مذہب کو تعویذ وغیرہ کی نظر کردیا ہے، یہ بتائیں کتنے astronomical sites بنی ہوئی ہیں جہاں مجھ جیسے شوقین لوگ کراچی سے بذریعہ دوربین دوسرے سیاروں، چاند وغیرہ دیکھیں؟ صرف یہی نہیں، کوئی vocational training سینٹر اسٹارٹ کیا؟ کیا ہمارے پاس ایسا کلچر ہے کہ غبارے والے کے پاس بھی بڑے پیمانے پر بینک اکاؤنٹ موجود ہو؟ میں خود کہہ رہا ہوں، ایزی پیسہ اور جیز کیش کا اکاؤنٹ ۳۰ منٹ میں کھل جاتا ہے، جبکہ conventional banking account کم سے کم بھی ۱ دن میں کھلتا ہے، تو یہ سارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے اپنی خود کی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں ہیں، جس میں، میں خود بھی شامل ہوں، کیونکہ ۱۹۴۰ تک ہمارے آباؤ اجداد continuous training کے concept کو فالو کرتے تھے، کیونکہ گھر کے بڑے اپنے سے چھوٹوں پر برہم بازی کے بجائے زندگی جینے کے طریقے سکھاتے تھے اور ان کو experience کراتے تھے، آج کے کلچر میں کیا یہ ممکن ہے؟

بے ترتیب ہم، اور ہمارے طور طریقے

ہم بے ترتیب اور haphazard ہیں، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ آگے کا پلان کرنا نہیں جانتے، اسی وجہ سے شارٹ کٹ یعنی ہماری زبان میں جگاڑ؛ اور اسی کا خمیازہ اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ لڑکیاں physical enticing کے mode میں ہوتے ہیں، جبکہ اگر نے ٹریننگ کو کلچر اپنے ملک میں اسٹارٹ کیا ہوتا تو ۲۰۰۳ سے بھی لے کرچلیں تو آج تک ایک کلچر بن چکا ہوتا جس طرح پاکستان میں ٹک ٹاک کا کلچر بن چکا ہے، تو اتنا ہی ٹائم یہاں دے دیا ہوتا تو آج کم سے کم ملک کا فائدہ ہوچکا ہوتا، مگر ملک کا کون سوچتا ہے، وہ بھی آج کے زمانے میں۔ کیونکہ میرا ذاتی پوائنٹ آف ویو ہے کہ لڑکیوں کو بکاؤ مال بنانے کے بجائے لڑکیوں کو as a resource  بناؤ جیسے تھائی لینڈ، اور متعدد ایسٹ ایشین ممالک نے بنایا، جس میں سنگا پور سر فہرست ہے، مگر اس کے لئے پراپر ووکیشنل ٹریننگ کے طریقہ کار کو laid down کرنا پڑے گا، اور یہی اصل مسئلہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا، پھل کھانے تو ہر کوئی آجاتا ہے مگر سوسائٹی میں اپنا حصہ ڈالنے کی مورل ذمہ داری کی شرم و حیا کسی میں نہیں ہے، تو ایسے میں ریاستِ مدینہ بنے گی، جب ہم خود منافق بھی ہیں، اور فرعون بھی بنے بیٹھے ہیں؟

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ

کہ لڑکیوں کو شٹل کاک میں بند کر کے رکھو،  مگر بات یہی ہے کہ جیسے ہر نئی چیز کے استعمال کا ایک user manual ہوتا ہے کہ کیسے استعمال کرنا ہے تاکہ صحیح طریقے سے استعمال کریں، کیونکہ جب ہم یعنی end user  صحٰح طریقے سے استعمال کریں گے تب ہی تو صحیح استعمال آئے گا، اور جب صحیح استعمال آئے گا تب ہی ایک maturity level بنے گا بصورتِ دیگر جب ہم میں مچیورٹی نہیں ہوگی تو اتنی اتنی سے باتوں میں arouseاور excited  ہوں گے، جیسے آج کل ہمارے چھوٹوں کو آئی فون استعمال کو ھوکا ہوچکا ہے، لینا ہے تو آئی فون ہی لینا ہے، میں خود ایک آئی فون کا اینڈ یوزر رہ چکا ہوں، اور میں نے جانا ہے کہ کس طرح آئی کلاؤڈ سے گوگل ڈرائیو پر اپنے پورے کونٹیکٹس اور کلینڈر ایکپورٹ کئے، کیونکہ معذرت کے ساتھ ایپل کے سپورٹڈ اسٹرکچر پاکستان میں فی الوقت میسر نہیں، مگر جیسے میں نے اوپر لکھا کہ ہمارے چھوٹوں کو شوق ہے کہ بس آئی فون ہو چاہے کِٹ کیٹگری کا ہی کیوں نہ ہو، مگر شو آف کرنا ہے کہ میرے پاس ایپل کے لوگو والا فون موجود ہے جس سے میں مرر ایمیج لے سکتا ہوں، خیر enough is enough اینڈ یوزر کی بات کی تو اسی ایسپیکٹ پر ایک اور چیز expose ہوئی کہ ہم consuming society ہیں، manufacturing society نہیں، ہمیں ہر چیز بنی بنائی اپنی گھر کی دہلیز پر چاہئے، جبکہ باہر کے ممالک میں اسی چیز کے لئے سوشل سروس نمبر موجود ہے جو کہ ہمارے پاس ماضی بعید میں وظیفہ کے نام پر دیا جاتا تھا، جو اب اسی طرح ختم ہوچکا ہے جیسے ڈائنو سار دنیا سے، مگر چونکہ ہم منافق بن چکے ہیں، اسی لئے ہمیں ہماری اپنی غلطی، غلطی نہیں لگتی، اور اپنا ہی تھوکا ہوا چاٹتے ہیں اور چاٹنے پر مجبور ہیں، اور اس میں حکومت سے ذیادہ ہم عوام کا قصور ہے، کیونکہ دنیا بھر میں یہی چلتا ہے کہ ڈیمانڈ اور سپلائی، یعنی طلب و رسد، اور خود دیکھیں، ہمیں کس چیز کی ہے؟؟؟ ٹھرک پن کی، اور جب ٹھرک ہماری طلب ہوگی تو ہمارے سیاست دان اور حکومتیں خوشی خوشی یہ خواہش پوری کریں گی، کیونکہ ان کو بھی اپنی حکومت پوری کرنے کے لئے حکم کا اِکا مل چکا ہوتا ہے، اور جو لفظ میں نے استعمال کیا ہے، مجھے خود استعمال کرتے ہوئے نجس لگتا ہے، ہماری ترجیع ہو، میں کیوں ترجیع کہہ رہا ہوں، میں اسی لئے کہہ رہا ہوں، کیونکہ کراچی کی کوئی بھی سڑک دیکھ لو، مردانہ کمزوری کے اشتہارات اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم بذات قوم ایک ٹھرکی قوم بن چکے ہیں، ملک کو blame نہیں کریں، blame goes to us as civilians of this gift from Allah، کیونکہ ہماری اپنی کرتوتوں کی وجہ سے پاکستان یہاں تک پہنچا ہے، کہ آج ہمارے گھروں کی لڑکیاں وہی کام کررہی ہیں جو پہلے ہیرا منڈی اور دوسری اسی طرح کے بازارِ حسن میں ہوا کرتا تھا، اور اس میں کوئی عار نہیں، کیونکہ یہ چیز ہماری ترجیحات میں شامل ہوچکی ہیں، اور ترجیحات بھی اس لیول کی کہ جب ہمیں یہ چیز ٹائم پر نہیں ملے گی، تو اس بات کی exploitation ہوگی جیسے اس بار کے ایوارڈ شو میں ہوئی،معذرت کے ساتھ نہ ہم میں فیشن سینس ہے نہ ہی عریانیت کا سینس ہے، مگر براہ مہربانی، اس طرح کی چیزوں سے پہلے پاکستان میں لوگوں کو شعور دیں، مگر معذرت کے ساتھ اگر شعور دے دیا تو ان لوگوں کی دکان کیسے چمکے گی؟ کیونکہ ان لوگوں کی دکان چل ہی ہماری ٹھرک پن پر ہے؛  تو ایسے میں پہلے پہل ہمارے گھروں کی عام لڑکیوں کے ذہن میں یہ بات لائی گئی کہ لڑکیوں کو protect کرنا ان کی exploitation ہے، جس کی وجہ سے آج ہماری لڑکیوں کو عادی بنایا پھر اس ایوارڈ کے نام پر برہنہ پن کا واٹر ٹیسٹ کیا گیا، جس کے نتیجے میں آئندہ آنے والے ۱۰ سالوں میں، میں ہمارے پاس سے بھی پاکستان کے اندر سے ایک ملکہ شراوت نکلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، کیونکہ ہم نے اپنے اندر سے دیکھنے اور سکھانے کا عنصر یک طرفہ طور پر تنسیخ کردیا ہے، میں پھر سے یہی کہوں گا کہ لڑکیاں اگر ایسے تنگ کپڑے پہنیں گی، تو اس کےmasses کو یعنی ہمارے پاس کے عام  لوگوں کو ریڈی تو کریں، لوگوں کو ٹرین تو کریں تاکہ ہماری خلقت ذہنی طور اس چیز کو accept کرے، نہ کہ لڑکیوں کو seductive figure کے طور پر ایک بکاؤ مال کے طور پر ٹریٹ کیا جائے، جو میرے نذدیک لڑکیوں کے ساتھ خود ذیادتی ہے، کیونکہ کوئی بھی شرمیلی عبایا والی لڑکی کے لئے کام کرنے کے لئے اس کلچر کے بعد گھر سے باہر نکلنا مشکل ہوجائے گا، کیونکہ اگر وہ گھر سے باہر نکلے گی تو اس چیز کا قوی امکان ہے کہ اس کو اپنا پردہ اتارنا پڑے گا، کیا ایسا کلچر ہم اپنے یہاں فروغ دینا چاہ رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے گھر میں موجود عورتوں کو دوسروں کی نظر کی تسکین کا باعث بنانے میں فخر ہے یا پھر ایک ایسا کلچر بنائیں جہاں ہر عورت گھر سے باہر اپنے امور اپنے کمفرٹ لیول میں رہتے ہوئے کرے، یا پھر ایسا کلچر جہاں گھر سے نکلنے والی ہر عورت سیکس سیمبل کے طور پر دیکھی جانی چاہئے؟ معذرت کے ساتھ یہ فسادی لبرلز سے مجھے یہی شکایت ہے ، حالانکہ میں کوئی کٹر مذہبی نہیں ہوں، (اس پر فخر نہیں ہونا چاہئے) مگر اسکا قطعی یہ مطلب نہیں کہ غلط کو غلط کہنے کی اخلاقی جرات نہیں ہو، مگر کم سے کم ایسا منافق نہیں، بلکہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ لوگوں کو شعور دیں نہ کہ انسانی حیوان اور حوس کا پجاری بنائیں، جو کہ معذرت کے ساتھ ہمارے لبرل خلقت اور میڈیا اس روش کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے کیونکہ ہمارے پاس شعور کی اشد کمی ہے، اگر شعور ہوتا تو یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس کو اتنا highlight  کیا جاتا۔

عید کا چاند

ہماری عوام کا عجب اُتاولہ پن

ابھی میں جب یہ لائین لکھ رہا ہوں، ابھی کچھ شہادتیں موصول ہوئی ہیں، جہاں اس بات کی شہادت دی گئی ہے کہ چاند دکھائی دے دیا گیا ہے، اور اس کا حتمی فیصلہ آئندہ کچھ وقت میں ہوجائے گا۔

میرا اپنا point-of-view

یہاں میرا یہ ماننا ہے کہ
  • آج ہم جدید دور میں موجود ہیں، ایسے میں Mars Rovers سیارہ مریخ کی مستقبل کی پوزیشن کا estimate لگا کر اپنے روورز کی ٹیک آف کرالیتے، تو کیا ہم زمین پر رہتے ہوئے یہی estimation probability نہیں اپنا سکتے؟
  • صرف رمضان اور چھوٹی عید میں چاند کی ۲۹ اور ۳۰ تاریخ پر اختلاف ہوتا ہے؟ باقی ۱۰ مہینے سب نارمل کیوں ہوتا ہے؟
  • جب ہمارے پاس City Concentric Annual Lunar Calendar موجود ہے، اس میں بھی میں نے دیکھا ہے کہ اس مہینے کا اختتام ۳۰ دنوں پر محیط ہے، تو ایسے میں یہ جہالت دیکھانے کی جلد بازی کس چیز کی؟
  • اگر عید منانے کی اتنی جلدی ہے، تو پہلے رمضان کے فرائص مکمل کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھنی چاہئے، کیونکہ میرا معصومانہ سوال یہی ہے کہ چونکہ عید، رمضان کے بعد آتی ہے، تو ایسے میں عید اس وقت ہی مکمل ہونی چاہئے جب رمضان المبارک کے فرائض ہم نے اس کی صحیح نیت کے ساتھ مکمل کیا ہے یا نہیں؟
  • اس Pandemic کے دوران جہاں سماجی دوری کی ضرورت اہمیت کی حامل ہے، تو ایسے میں کیا یہی ضروری ہے کہ تھوڑا صبر کا پیمانہ قائم رکھیں، ابھی پڑوسی ملک میں ہم نے قم کے میلے کے بعد پورے بھارت کی جو درگت ہوئی، آئی پی ایل postponed ہوئی، ان کے شمشان گھاٹ میں جلانے کی جگہ کی کمی ہوگئی ہے، مگر ہماری ترجیحات میں عید کی شاپنگ اور نئے نوٹ ہیں، اور نئے نوٹ کو دکھانے کے لئے عید منانی ہے، ورنہ majority عید کی صبح سو کر ہی یا گھروں کے اندر بیٹھ کر مناتے ہیں، اور شام میں نکلتے ہیں، 
  • اس پر بھی سونے پہ سہاگہ کہ شام کے اوقات میں لاک ڈاوٗن لاگو ہوتا ہے تو ایسے میں اتنا کیا اتاولا پن ہے کہ رمضان کے فرائض ادا نہیں کرکے آپ عید منا رہے ہیں؟
  • جب ایک Pandemic چل رہا ہے تو ایسے میں ترجیع میں یہ ہونا چاہئے کہ زندگی بچانی ہے، زندگی رہے گی تو آنے والے سالوں میں عید کے شوق پورے کرلیں، جب کہ یہاں یہ حالت ہے کہ ہماری پوری قوم Tomorrow Never Comes کے منطق منانے کے درپے ہے۔
  • جب ایسی صورتحال ہے تو ایسے میں ہر چیز صرف حکومت کے اوپر ڈالنا صحیح ہے یا پھر عوام کو بھی ذمہ داری کا احساس دکھانا ضروری ہے؟
کیا اس صورتحال میں یہ اتاولا پن دکھانا ضروری ہے؟

عوام کو بھی ذمہ داری دکھانی چاہئے

اب یہ لائن لکھنے پر مجھے کافی لوگ یہ کہہ کر criticize کریں گے کہ پوری دنیا کی عوام ایسی ہی ہوتی ہے، مانتا ہوں، مگر مجھے صرف یہی بات کی تصدیق کردیں کہ جب یہی عوام دبئی یا کسی اور ملک میں جاتے ہے، تو وہاں یہی رویہ جو پاکستان کی سرزمین میں قدم رکھتے ہی مادر پدر آزاد ہوجاتے ہیں، کیوں نہیں کر پاتے ہیں، یہ جگاڑیں جن کی بدولت کراچی میں لاک ڈاوٗن میں بھی رمضان بازار کو عید بازار میں تبدیل کردیا گیا ہے، under which authority وہ یہ سب کچھ کر رہے ہیں، جب ایک صورتحال موجود ہے جہاں سوشل ڈسٹینسنگ وقت کی اہم ضرورت ہے، تو تھوڑی ذمہ داری ہماری عوام پر بھی لاگو ہورہی ہے،

میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں

کیونکہ پاکستان میں بیشک حکومت نے کھانے پینے پر دن کی روشنی میں کھانے پینے کی مکمل ممانعت ہوتی ہے، کیوں ہوتی ہے؟ اس لئے کیونکہ عوام اس ممانعت میں اپنا حصہ اور اپنا contribution ڈالتی ہے جس کی وجہ سے شام ۴ بجے کے بعد کھانے کی دوکانیں کھلنا اسٹارٹ ہوتی ہیں، باقی پورا دن اپنی سماجی ذمہ داری سمجھتے ہوئے خود ہی دوکانیں بند رکھتے ہیں، تو اسی وجہ سے یہ پابندی اتنی کارگر ہوتی ہے، جبکہ سماجی دوری Mass Gathering کی پابندی کا اطلاق کیوں نہیں ہورہا ہے، اگر عوام نے پہلے سماجی دوری کا اطلاق اسی طرح جیسے روزے کے ٹائم میں کھانے پینے کی دکانیں بند کر کے کرتے ہیں، اسی طرح کرتے تو کیا اس لاک ڈاوٗن کی ضرورت پڑتی؟ اصل میں ہماری عوام میں شعور کی کمی ہے، جس کی بناہ پر اپنا کام ہوجائے، باقی سب گئے بھاڑ میں، کی منطق چل رہے ہیں۔ اگر عوام خود اس چیز کا اطلاق کرتی، اور حکومت کی leniency کو misuse نہیں کرتے، تو کیا صورتحال لاک ڈاوٗن کی جانب جاتی؟ یہ سوچ کا فقدان ہے ہم سب میں۔

ابھی کل ہی کی بات ہے

میں اپنی جاب کے سلسلے میں اپنی برانچ اے ٹی ایم کے مسئلے کی وجہ سے دستگیر جانا ہوا، اور رات ۱۲:۳۰ بجے جب میں وہاں سے نکل رہا تھا، تو مجال ہے کہ کہیں مجھے لاک ڈاوٗن کی صورتحال دکھی ہو، بیکری ہو، شاورما کی دکان ہو، آئس کریم پارلر ہو سب کھلے ہوئے تھے اور کہیں بھی مجھے ایسا احساس نہیں ہوا کہ کراچی میں لاک ڈاوٗن کی صورتحال ہے، جبکہ جیسے ہی میں دستگیر سے سیدھا لکی ون کی جانب نکلتا ہوں تو وہاں مجھے احساس ہوا کہ ہاں کراچی میں لاک ڈاوٗن ہورہا ہے،

ایسی بد احتیاطی کا فائدہ؟

الٹا نقصان ہے، اور ایسے لوگوں کو دشمنوں کی کوئی ضرورت نہیں، یہ اپنے دشمن خود ہیں، یعنی چلتے پھرتے ٹائم بم بن کر گھوم رہے ہیں۔

رہی بات عید بازار کی

اتنا فضول خرچی کس بات کی، اگر اللہ نے اتنا کچھ دیا ہے، پھر بھی اس صورتحال میں situation ہم سے کیا demand کررہی ہے، اور vice-versa کس جانب جارہے ہیں، مجھے اس حوالے صفحے کالے کرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں صرف اتنا کہوں گا، کہ جان ہے تو جہاں ہے، آج تھوڑی احتیاط کرلیں تو عید بعد میں بھی منائی جاسکتی ہے، کم سے کم اپنے لئے نہیں تو اپنے گھر والے، اپنی بیوی بچوں اور اپنے رشتہ داروں کا ہی سوچیں، کیونکہ آپ ان سب کے ساتھ inter-related ہیں تو ایسے میں آپ کے ایکشن سے ان لوگوں کو جو ناقابل تلافی نقصان ہوگا، اسکا کچھ سوچا ہے؟ کیا اس کے بارے میں سوچا ہے؟ نہیں سوچا ہے تو ہم سے بڑا حماقتی کوئی نہیں ہے۔

اس پر یہ واٹس ایپ والے حکیم لقمان

اللہ تعالی ان واٹس ایپ والے حکیم لقمانی انکل کی خرافات سے محفوظ رکھے، جو چیل اڑی کو بھینس اڑی کے منطق rumors کو بڑھاوا دیتے ہیں، پہلے زمانوں میں یہ کام محلے میں خالہ زبیدہ کیا کرتیں تھیں، جس کا ذمہ آج یہ واٹس ایپ والے انکلوں نے اپنے مضبوط کاندھوں پر اٹھا لیا ہے، میں again اس بات کی تصدیق کروں، کہ میں نہ کوئی عالم ہوں، نہ ہی کوئی فاضل، مگر صرف کوئی بھی معلومات میرے پاس آتی ہے تو اسکو ویلیڈیٹ Validate ضرور کرتا ہوں، بصورت دیگر آگے فارورڈ نہیں کرتا، کیونکہ یہ میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ بغیر تصدیق کے معلومات وہ بھی ایسی تفصیل جس کی کوئی تصدیق نہ ہو، اس کے بڑھاوے میں میری کوئی contribution ہو، بلکہ اسے اپنی انفرادی ذمہ داری سمجھتا ہوں، مگر معذرت کے ساتھ ہمارے آج کل کے بڑے اس چیز کی ذمہ داری کا احساس نہیں رکھتے، یہ نہیں دیکھ رہے ہیں، کہ آج کل سوشل میڈیا اتنا vibrant ہوچکا ہے کہ ٹویٹر پر منٹوں کے حساب سے مختلف ممالک کے ٹرینڈ تبدیل ہوچکے ہوتے ہیں، حالانکہ ہمارے بڑوں کو اس بات کی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔

کیونکہ

یہی انکلوں کی وجہ سے یہ موجودہ وبا کو casually لیا جارہا ہے، کیونکہ یہاں بھی cause and effect کا فارمولا لاگو ہوتا ہے، اور اگر ہمارے بڑے بزرگ اس طرح کا casual attitude رکھیں گے تو imagine کرلیں ہم کس جانب جارہے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح عید کے موقع پر بھی یہ انکل ہمارے ذہنوں میں wrong number ڈالنے کی ذمہ داری اپنے اوپر لی ہوئی ہے، کیونکہ۔۔۔کیونکہ۔۔۔کیونکہ۔۔۔ ہم نوجوانوں کے مقابلے صورتحال کو بغور دیکھنے کے بعد ہی ایکشن لینے کے بجائے جلد بازی ان بزرگوں کا شیوہ بن چکا ہے اور اسی وجہ سے ہمیں باہری دشمن کے بجائے ان انکلوں سے ذیادہ خطرہ ہے۔





بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting