Search me

Translate

Social Media responsibility

ذمہ داری ایک ایسا احساس ہوتا ہے جہاں آپ کو دیکھانا ہوتا ہے کہ کوئی بھی کام کرنے کے اہل ہو، جیسے کسی کرکٹ ٹیم میں ہر کھلاڑی کے اوپر کوئی نہ کوئی responsibilityدی ہوئی ہوتی ہے، کیونکہ اس کے ایک ایکشن سے پوری ٹیم کا مورال اور representation ایک طرح یا کسی نہ کسی طرح سے matterضرور کرتا ہے، اور جیسے جیسے آپ بڑے ہوتے جاتے ہیں، چاہے انسان ہو، ٹی وہ ہو یا YouTubeچینل ہو، ذمہ داری بڑھتے جاتی ہے، جس میں یہ چیز بھی آتی ہے کہ کیا میسج communicateکرتے ہو۔ جوکہ ہمارے بزرگوں کی بھی تربیت تھی کہ پہلے تولو پھر بولو۔

ملکی representation

اگر ملکی حرمیت کی بات کروں تو معذرت کے ساتھ پاکستان میں ہم مادر پدر آزاد ہیں، جبکہ یہ ہم ہی ہوتے ہیں، جہاں شُرطہ یا cops یا پھر rules and regulations کا ڈر ہوتا ہے اس کے وجہ سے انسان کے بچے بنے ہوئے ہوتے ہیں، یہاں کوئی پکڑ دھکڑ نہیں تو جو بھی منہ میں آتا ہے، تو جانوروں کی طرح پہلے بولنا ہے پھر سوچنا ہے کہ کیا بول دیا ہے، جبکہ انسان اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے پتا نہیں کیسے ان کو انسان بولیں۔

لوگوں نے بولنا ہے کہ میں پیچھے پڑ جاتا ہوں

مگر خود بتائیں، اپنے ملک کی پروڈکٹ کو ہر ملک پہلے اہمیت دیتا ہے پھر imported goods کو، جبکہ میں YouTubeپر ایک پوڈکاسٹ سن رہا تھا، جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ ہماری genetic groomingایسی ہوئی ہے کہ عربوں میں اور ہم میں ایک چیز common ہے، ہم دونوں ایک طرح کی consumer society  ہیں، constructive اور creative societyنہیں، اسی وجہ سے ہمیں ترکی کے ڈرونز چاہئے، چین کے JF-17 چاہئے جبکہ خود initiateنہیں کرنا کہ global partnership on domestic grounds کریں، یعنی investor کا confidenceکو growکریں، تھوڑا transparency لائیں اپنے پائپ لائن میں اور اپنے home grown product کو پہلے اہمیت دیں، کیونکہ جب تک ہم خود سے Made In Pakistanکو اہمیت نہ دیں گے، باہر سے شاید مریخی آکر کریں گے، مگر اس دنیا میں تو کوئی بھی نہ کرے۔

اب اپنے پوئنٹ پر آتا ہوں

مجھے سمجھ نہیں آتا ہمارا میڈیا باہر والوں کو جس طرح replicateکرتا ہے، کیایہ نہیں دیکھائی دے رہا ہوتا ہے، کہ کس طرح massesکا perspective buildingکرتے ہیں، خاص طور پر ملکی حرمیت کو، پھر سے معذرت خواہ ہوں اگر آپ کو ایسا لگے کہ میں ان پوڈکاسٹرز کے بلاوجہ پیچھے پڑا ہوا ہوں، مگر یہ ہم ہی لوگ ہوں گے نا جو ملکی کرکٹ پروڈکٹ کو supportکریں گے، نا کہ ان بے شرموں کی طرح جہاں آئی پی ایل اور پاکستان کا نیشنل ٹی ٹوئنٹی آگے پیچھے چل رہا ہے، اور آہستہ آہستہ پی ٹی وی کی coverageکا اسٹینڈرڈ بھی بلند ہوا ہے، جس کو ہمیں appreciateکرنا چاہئے مگر معذرت کے ساتھ ان بے شرموں نے اپنے پوڈکاسٹ کا majority airtimeآئی پی ایل کو dedicateکیا، کیا ایسی بے لوث سپورٹ کوئی غیر ملکی براڈکاسٹر پاکستانی پروڈکٹ کو دیا ہے؟ ہماری پروڈکٹ کو کوئی غیر ملکی جب تک اہمیت نہیں دے گا، جب تک ہم خود نہ دیں۔ ورنہ خود کے جسم پر خارش کرنے سے باہر والے کو کوئی مسئلہ نہ ہوگا، بلکہ ناخن کے نشانات ہمیں ہی پڑیں گے، جس کی بناہ پر مستقبل میں نت نئے الرجی کا سامنا بھی کرسکتے ہیں۔

Ripple Effect یا Butterfly Effect

یہ تربیت ہمارے بڑے بوڑھوں کی تھی کہ سوچ سمجھ کر اور case and affectکے اصول کو ذہن میں رکھ کر بات کرتے تھے، جو کہ آج غائب ہے، آج جو یہ پوڈکاسٹرز خوشی خوشی انڈیا انڈیا کررہے ہیں، کیا یہ ممکن نہیں کہ جب انڈیا پاکستان کے خلاف کوئی جارحیت کرنے کی کوشش کرے گا، تو یہاں کی majority اس چیز کو non seriousلے گا، بے شک اسپورٹس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر ملکی حرمیت اسپورٹس سے اوپر ہمیشہ رہا ہے، کیونکہ کوئی بھی اسپورٹس کی ٹیم اپنے ملک کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے چاہے نیشنل ٹیم ہو یا کسی ملک کی فرنچائز ہو، ملک کا نام پہلے آتا ہے تو ایسے میں یہ argumentفضول کا ہے کہ کھیل کا کوئی مذہب یا ملک نہیں ہوتا۔ ملک ایک identity factorہوتا ہے، جس کو یہ پوڈکاسٹرز exploit کررہے ہیں۔

بات جیلیسی کی نہیں

بات ملکی پروڈکٹ کو اہمیت دینے کی ہے کیونکہ 1990s میں جب پاکستانی کرکٹرز انڈیا پر ہاوی ہوتے تھے، یہی چیز انڈیا نے اس وقت کی اور اپنے کرکٹرز کو وہ اہمیت دینا اسٹارٹ کی جس کی بناہ پر آج پاکستانی کرکٹرز کے مقابلے میں انڈین کرکٹرز کی ذیادہ اہمیت ہے، جس کی بناہ پر یہ بات کنفرم ہے کہ ملکی پروڈکٹ کو اہمیت دینے کا نتیجہ انڈین ٹیم ہے کیونکہ جو پرانے لوگ یہ لائن پڑھ رہے ہیں مجھے بتائیں کیا 1990s میں ایسا نہیں تھا؟ کیا اب میں اگر یہ بات کررہا ہوں تو کیا میں انڈیا سے جل رہا ہوں؟ یا میں پاکستانی ہو کر سوچنا اور پاکستان کرکٹ کو اہمیت دینا انڈیا کے ساتھ جیلیسی ہے؟ یہ ہمارے پوڈکاسٹرز کس راہ پر چل رہے ہیں؟

نیشنل ٹی 20

مانتا ہوں کہ کووریج کا اسٹینڈرڈ وہ نہیں جو ہونا چاہئے مگر کم سے کم پاکستانی ہونے کے ناطے کم سے کم بیک تو کریں، ہمارا National Dilemma یہی ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر، جبکہ آج یہ وقت ہے کہ ملکی پروڈکٹ کو اہمیت دینا وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ 1990s میں پاکستانی عوام پاکستانی ڈومیسٹک کرکٹ کو انڈیا کے مقابلے میں ذیادہ اہمیت دیتی تھی، جس کی وجہ سے اس زمانے میں پی ٹی وی کی ٹیکنکل ٹیم پاکستان کے گیمز کو produceکرتے تھے، جبکہ اسٹار اسپورٹس صرف براڈکاسٹر ہوا کرتا تھا، کیونکہ اس زمانے میں ہم اپنے لوگوں کو اہمیت دیتے تھے نہ کہ اب کی طرح جہاں جیسے میں نے اوپر کہا کہ گھر کی مرغی دال برابر، وہ حال کر کے رکھا ہوا ہے ہم نے۔ اور سونے پہ سہاگہ ہمارے پوڈکاسٹرز جن کو ذیادہ masses فالو کرتے ہیں وہ بھی دھڑلے اور بے شرمی سےان لوگوں کو سپورٹ کررہے ہیں جن کی وجہ سے massesکی mind programming بڑے پیمانے پر کی جارہی ہے، مجھے مسئلہ اس سے نہیں مجھے مسئلہ اس سے ہے کہ کچھ تو حدرکھو، کچھ تو شرم کرو، جانتا ہوں کہ نہیں ہے مگرتھوڑا بہت pretendکرلو، کیونکہ ان لوگوں کو appreciateکرنے کے لئے بہت ہیں، تمہیں appreciateکرنے کے لئے کون ہے؟ یہاں یہ بات سوٹ کرتی ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال خود کی بھی چال بھول گیا۔

The Second Wave

یہ ایک بہت ہی بڑی خطر ناک بات ہے کیونکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کی پریکٹس کی بناہ پر آہستہ آہستگی سے acceptanceیعنی ہم آہنگی بنائی جارہی ہے، یعنی ذہن کو اس جانب مائل کیا جارہا ہے جس کا اثر ہم پر تو نہیں مگر ہماری آنے والی نسلوں پر ضرور ہوگی کیونکہ یہ چیزیں جینریشنز پر اثر انداز ہوتیں ہیں، اور جیسا کہ آپ سب بھی جانتےہیں کہ جینریشنز کا اثر فوری نہیں ہوتا بلکہ اپنا وقت لیتی ہے۔

ماضی میں بھی پاکستان میں ایسا ہوچکا ہے

جب پاکستان میں پہلی پہلی بار عورتوں کی ایک پروڈکٹ کو متعارف کیا جارہا تھا، تو پہلی بار پاکستان میں جو reactionآیا تھا، اس کمپنی کو فورا وہ پروڈکٹ واپس لینی پڑی تھی، مگر کچھ سالوں کے بعد جب دوسری بار پاکستان میں ایسا ہوا تو پہلی بار کے مقابلے میں reactionاس بار ہلکا تھا۔

اس کو mind programmingکہتے ہیں

یعنی ایک بات کو اتنی مرتبہ دھرانا کے سننے والے کو یہی لگے کہ یہی ٹھیک ہے، جیسے ایک لفظ sexدس سال پہلے ایک tabooتھا مگر آج ایک روزانہ استعمال کا لفظ ہے۔

Getting Back to the Point

اب یہاں بار بار کورونا کا رولا بول بول کر اور نیوز چینل والوں کا بار بار ایسا چورن بیچنا اور زخیرہ مافیہ والوں کو، اور ہماری panic buying endorsed عوام نے یہاں بہت بڑا رول کو playکرنا ہے کیونکہ پچھلی بار کا scenarioہمارے سب کے لئے نیا تھا مگر اب چونکہ یہ سیکنڈ ویو ہے، تو ایسے میں ہم سب تیار ہیں، کیا ہم بھول گئے جب ان دنوں میں امتیاز سوپر مارکٹ کھولی گئی تھی تو کیسے عوام گھسی تھی جیسے کل آنا ہی نہیں ہے۔۔۔

میرا نہیں خیال اس بار بھی کچھ ذیادہ فرق ہوگا بمقابلہ پچھلی بار

بلکہ اس بار کچھ لوگوں نے اس so calledبیماری کو status queکے طور پر استعمال کریں گے، جیسے کچھ لوگوں نے مجھے کہا کہ ماسک پہننے سے تمہیں مٹی سے چھینکیں نہیں آئیں گیں کیونکہ اصل میں مجھے مٹی سے بہت الرجی ہے، میں نے جواب میں یہی کہا کہ ٹھیک ہے مگر مٹی سونگنا ذیادہ خطرناک ہے کہ اپنے جسم کی گند اور کاربن ڈائی آکسائڈ کو دوبارا اندر لینا؟ کیونکہ اللہ تعالی نے inhale اور exhaleکا نظام الگ رکھا ہے تو کوئی مصلحت ہوگی، اب ایسے میں show offکے لئے بیماری پالنا کہ مجھے یہ بیماری ہے کیا فخر کی بات ہے؟ زرا اس حوالے سے بھی سوچیں۔۔۔

Facebook social plugin

بلاگ میں مزید دیکھیں

You might like

$results={5}