پاکستان کی تاریخ میں کئی بار ایسا ہوا کہ جو کہا گیا، وہ کیا نہیں گیا، یا جو کیا گیا، وہ کہا نہیں گیا۔ اسے ہم "منافقت" کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، غلط باتیں پھیلانے (جنہیں ہم "افواہیں" کہہ سکتے ہیں) نے بھی بہت نقصان کیا۔ اور پاکستان ان افواہوں کا اچھا جواب دینے میں ناکام رہا۔ اس کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد کم ہوا، ملک کی پہچان کمزور ہوئی، اور دنیا میں پاکستان کی عزت کو نقصان پہنچا۔ آئیے اسے آسان الفاظ میں سمجھتے ہیں۔
---
1. منافقت کیا ہے اور پاکستان میں کیسے نظر آئی؟
منافقت کا مطلب ہے کہ بات اور عمل میں فرق ہو۔ پاکستان میں کئی بار ایسا ہوا:
-
پاکستان بننے کا خواب اور حقیقت:
پاکستان اس لیے بنا کہ مسلمانوں کو اپنا ملک ملے جہاں سب کے ساتھ انصاف ہو۔ لیکن کئی بار، خاص کر فوجی حکومتوں کے وقت، لوگوں کو آزادی اور حقوق نہیں دیے گئے۔ مثال کے طور پر، فوجی حکمرانوں نے لوگوں کی آواز دبا دی، جو پاکستان کے اصل مقصد کے خلاف تھا۔
-
صوبوں اور زبانوں کے حقوق:
تعارف introduction
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ پاکستان میں آج کل جو مسائل ہم دیکھ رہے ہیں، ان کی اصلیت کیا ہے؟ ہماری موجودہ نسل کو اکثر یہ خیال آتا ہے کہ یہ سب کچھ اچانک شروع ہوا، لیکن حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں، اور شاید کچھ لوگوں کو یہ بات ناگوار گزرے، مگر ماننا پڑے گا کہ یہ مسائل یکدم ہمارے سامنے نہیں آئے۔ ان کی جڑیں ہمارے ماضی میں، بالخصوص پاکستان کی آزادی کے وقت سے ہی موجود ہیں۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو ہمیں اپنی تاریخ کی طرف مڑ کر دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔
قائد اعظم کے بعد کا پاکستان after demise of Quaid-e-Azam
پاکستان کی تشکیل 14 اگست 1947 کو ہوئی، اور اس عظیم خواب کو حقیقت میں بدلنے والے قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ لیکن بدقسمتی سے، پاکستان کے قیام کے صرف ایک سال بعد، ستمبر 1948 میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے جانے کے بعد ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والوں نے ایسی راہ اختیار کی کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان اپنے اصل مقصد سے ہٹ گیا، گویا اسے 'ہائی جیک' کر لیا گیا۔
اس دور میں ایک اہم قدم 1949 میں اٹھایا گیا، جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے 'قرارداد مقاصد' منظور کی۔ اس قرارداد میں یہ وعدہ کیا گیا کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہوگا، جہاں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دیے جائیں گے، اور اقلیتوں کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔ لیکن عملی طور پر ان وعدوں پر عمل نہ ہو سکا، اور یہیں سے مسائل نے جنم لینا شروع کیا۔
زبان کا مسئلہ اور صوبائی ناراضگی grievances at the start of Pakistan while respecting regional languages
جب پاکستان نے اردو کو اپنی قومی زبان قرار دیا، تو اس فیصلے نے ملک کے اندر لسانی تنوع کو نظرانداز کر دیا۔ بنگالی، سندھی، اور بلوچی جیسی زبانیں پس منظر میں چلی گئیں۔ اس سے لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ان کی ثقافت اور شناخت کو اہمیت نہیں دی جا رہی۔ خاص طور پر مشرقی پاکستان میں، جہاں بنگالی اکثریت تھی، یہ فیصلہ ناقابل قبول تھا۔ 1952 میں ڈھاکہ میں زبان کے تحریک کے دوران، جب طلبہ نے اپنی زبان کے حق کے لیے آواز اٹھائی، تو پولیس کی فائرنگ سے کئی افراد شہید ہوئے۔ اس واقعے نے بنگالی قوم پرستی کو ہوا دی، اور ناراضگی بڑھتی چلی گئی۔
اسی طرح، سندھ، بلوچستان، اور دیگر علاقوں میں بھی اپنی زبانوں اور ثقافت کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے مرکز سے دوری بڑھنے لگی۔ لوگوں کو لگا کہ جو برابری کے وعدے کیے گئے تھے، وہ محض کاغذوں تک محدود رہ گئے۔
مشرقی پاکستان کا الگ ہونا annexation of East Pakistan into Bangladesh
یہ ناراضگی 1971 میں اپنے عروج پر پہنچی، جب مشرقی پاکستان پاکستان سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ یہ صرف ایک لسانی تنازعہ نہیں تھا، بلکہ سیاسی اور معاشی ناانصافیوں کا نتیجہ تھا۔ 1970 کے انتخابات کے بعد سیاسی بحران پیدا ہوا، اور فوجی کارروائی نے حالات کو مزید خراب کر دیا۔ بھارت کی مدد سے مشرقی پاکستان نے آزادی حاصل کی، اور پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک دردناک باب ہے، جس نے ملک کی جغرافیائی اور سیاسی ساخت کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔
دیگر صوبوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی complex relationship between provinces
مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد بھی دیگر صوبوں میں ناراضگی ختم نہ ہوئی۔ بلوچستان، جہاں قدرتی وسائل کی بہتات ہے، وہاں ترقی کی کمی اور سیاسی حقوق کی پامالی نے علیحدگی پسند تحریکوں کو جنم دیا۔ سندھ میں، خاص طور پر کراچی جیسے شہروں میں، لسانی اور نسلی تناؤ نے حالات کو پیچیدہ بنا دیا۔ خیبر پختونخواہ میں پشتون قوم پرستی اور افغانستان سے قربت کی وجہ سے بعض اوقات علیحدگی کی باتیں بھی سامنے آئیں۔ ان سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ صوبوں اور مرکز کے درمیان اعتماد کا فقدان بڑھتا گیا۔
بیرونی خطرات اور مخالفین کے عزائم external factors impacting internal circumstances
ان اندرونی کمزوریوں کا فائدہ ہمارے مخالفین نے اٹھایا۔ کچھ انڈین بلاگرز اور تجزیہ کاروں کے مطابق، بلوچستان پر ان کی نظر ہے، اور وہاں علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دے کر مداخلت کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح، خیبر پختونخواہ کو افغانستان میں ضم کرنے اور سندھ کو 'سندھو دیش' بنانے کی باتیں بھی کی جاتی ہیں۔ ان کے خیال میں، اگر یہ سب ہو گیا، تو پاکستان صرف وسطی اور شمالی پنجاب تک محدود رہ جائے گا۔ یہ محض پروپیگنڈا نہیں، بلکہ ہماری اپنی خامیوں کا نتیجہ ہے، جنہوں نے مخالفین کو ایسے مواقع فراہم کیے۔
نتیجہ end result
یہ سب دیکھ کر ایک بات واضح ہوتی ہے کہ ہم نے خود اپنی غلطیوں سے اپنے مخالفین کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔ اگر ہم نے وقت پر اپنی پالیسیوں کو درست کیا ہوتا، صوبوں کو ان کے جائز حقوق دیے ہوتے، اور قومی یکجہتی کو فروغ دیا ہوتا، تو آج حالات مختلف ہوتے۔ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ہمیں اب ایک ایسا پاکستان بنانا ہوگا جہاں ہر صوبے اور ہر شہری کو برابری کا حق ملے۔ کیا ہم اپنی تاریخ کے ان دروس کو سمجھ کر ایک متحد اور مضبوط پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں؟ یہ سوال ہم سب کے سامنے ہے، اور اس کا جواب ہمارے عمل سے ہی ملے گا
2. افواہوں نے کیا نقصان کیا؟
افواہوں کا مطلب ہے غلط یا یکطرفہ باتیں پھیلانا تاکہ لوگ ان پر یقین کر لیں۔ پاکستان میں یہ دو طرح سے ہوا:
-
اندرونی افواہیں(internal conflicts):
فوجی حکومتوں نے پاکستان میں میڈیا اور سکولوں کی کتابوں پر سخت کنٹرول رکھا۔ انہوں نے صرف وہی معلومات عوام تک پہنچائیں جو ان کے ایجنڈے کے مطابق تھیں، اور کئی بار سچ کو چھپا کر غلط بیانیہ پیش کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں لوگوں میں الجھن پیدا ہوئی اور وہ درست حقائق سے محروم رہے۔
باہر سے افواہوں کا کردار
دوسری طرف، بھارت اور پاکستان نے ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے کی جنگ لڑی، خاص طور پر کشمیر کے معاملے پر۔ بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے، جبکہ پاکستان نے بھارت کو خطے میں امن کو سبوتاژ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ان الزامات نے دونوں ممالک کی حکومتوں کو اندرونی طور پر مضبوط کرنے میں تو مدد دی، لیکن عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔
یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح معلومات پر کنٹرول اور باہمی افواہوں نے نہ صرف اندرونی طور پر عوام کو گمراہ کیا بلکہ پاکستان کی بین الاقوامی شبیہ کو بھی دھچکا لگایا۔3. پاکستان جواب کیوں نہ دے سکا؟
پاکستان ان افواہوں کا اچھا جواب نہیں دے سکا، جس سے مسائل بڑھ گئے:
-
دنیا میں غلط سمجھا گیا:
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں واقعی بہت بڑا نقصان اٹھایا ہے۔ ہزاروں لوگوں کی جانیں گئیں اور اربوں روپے معاشی تباہی میں ضائع ہوئے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پاکستان نے اس جنگ میں ایک فرنٹ لائن ریاست کے طور پر کردار ادا کیا، لیکن بدقسمتی سے دنیا کو یہ سمجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکا کہ وہ خود دہشت گردی کا شکار ہے، نہ کہ اس کا ذمہ دار۔ آپ کے اس نکتے میں بہت وزن ہے، اور اس کی کئی وجوہات ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے نقصانات
پاکستان نے 9/11 کے بعد سے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں حصہ لیا اور اس کی بھاری قیمت چکائی۔ اعداد و شمار کے مطابق، 80,000 سے زائد پاکستانی شہری اور فوجی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ معاشی طور پر، پاکستان کو تقریباً 126 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ اس کے علاوہ، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔ یہ قربانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ کوششیں کیں۔
دنیا کے سامنے ناکامی کی وجوہات
لیکن سوال یہ ہے کہ پھر بھی عالمی برادری پاکستان کو شک کی نگاہ سے کیوں دیکھتی ہے؟ اس کی چند اہم وجوہات ہیں:
1. جغرافیائی محل وقوع:
پاکستان کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے، جو دہشت گردی کا ایک بڑا مرکز رہا ہے۔ اس قربت کی وجہ سے پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے، حالانکہ پاکستان نے ان کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشنز کیے ہیں۔
2. منفی میڈیا تصویر:
عالمی میڈیا میں پاکستان کی تصویر اکثر منفی پیش کی جاتی ہے۔ بعض ممالک، جیسے بھارت، اس تاثر کو تقویت دیتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان اپنی قربانیوں کو مؤثر طریقے سے اجاگر نہیں کر سکا۔
3. سفارتی کمزوری:
پاکستان کی سفارت کاری عالمی سطح پر اپنا موقف واضح کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا کو یہ سمجھانا مشکل ہوا کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے اور اس کے خلاف لڑ رہا ہے۔
4. اندرونی مسائل:
سیاسی عدم استحکام، کرپشن، اور اداروں کی کمزوری نے بھی پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ اس سے عالمی برادری میں یہ تاثر مضبوط ہوا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف پوری طرح سنجیدہ نہیں۔
پاکستان کی کامیابیاں
اس کے باوجود، یہ کہنا غلط ہوگا کہ پاکستان نے کچھ نہیں کیا۔ آپریشن ضربِ عضب اور رد الفساد جیسے فوجی آپریشنز نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی۔ دہشت گرد حملوں میں نمایاں کمی آئی، اور پاکستان نے امریکہ اور نیٹو افواج کے ساتھ بھی تعاون کیا۔ لیکن اس تعاون اور قربانیوں کے باوجود، عالمی سطح پر پاکستان کو وہ پذیرائی نہیں ملی جس کا وہ مستحق ہے۔
آگے کا راستہ
اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے پاکستان کو چند اقدامات اٹھانے ہوں گے:
سفارتی کوششوں میں بہتری: عالمی فورمز جیسے اقوام متحدہ پر اپنا موقف مضبوطی سے پیش کرنا ہوگا۔
میڈیا حکمت عملی: اپنی کامیابیوں اور قربانیوں کو اجاگر کرنے کے لیے ایک مؤثر میڈیا مہم چلانی چاہیے۔
اندرونی استحکام: اداروں کو مضبوط کرنا اور سیاسی استحکام لانا ضروری ہے تاکہ دنیا کو پاکستان کی سنجیدگی پر یقین ہو۔
نتیجہ
آپ کا کہنا بالکل درست ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت نقصان اٹھایا، لیکن اس کی کہانی کو دنیا تک پہنچانے میں ناکامی رہی۔ اس ناکامی کو دور کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جو سفارت کاری، میڈیا، اور اندرونی اصلاحات پر مبنی ہو۔ پاکستان نہ صرف دہشت گردی کا شکار ہے بلکہ اس کے خلاف لڑنے والا ایک بہادر ملک بھی ہے—بس اسے اپنی آواز دنیا تک زیادہ مؤثر طریقے سے پہنچانے کی ضرورت ہے۔
3. میڈیا اور بات چیت (negotiations) کی کمزوری:
آپ نے بالکل درست کہا کہ پاکستان نے میڈیا اور عالمی سطح پر رابطے کو مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کیا، جس کی وجہ سے دوسروں کے بیانیے غالب رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا اور لوگوں میں مایوسی بڑھی۔ آئیے اس کے اسباب اور اثرات کو تفصیل سے دیکھتے ہیں۔
وجوہات
پاکستان کے اس ناکام رابطے کے پیچھے چند اہم وجوہات ہیں:
میڈیا حکمت عملی کی کمی: پاکستان نے اپنی کامیابیوں، قربانیوں اور ترقی کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے کوئی مضبوط میڈیا حکمت عملی نہیں اپنائی۔ اس کے برعکس، مخالف ممالک نے اپنے پروپیگنڈے کو منظم اور مؤثر انداز میں پھیلایا، جس سے پاکستان کی آواز دب گئی۔
سفارتی کمزوری: عالمی فورمز جیسے اقوام متحدہ یا دیگر پلیٹ فارمز پر پاکستان کی نمائندگی کمزور رہی۔ اس کی وجہ سے پاکستان کا موقف سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔
اندرونی مسائل: ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام اور اداروں کی کمزوری نے بھی پاکستان کی عالمی ساکھ کو کمزور کیا۔ جب اندرونی طور پر مضبوطی نہ ہو، تو باہر کی دنیا میں اثر کم ہوتا ہے۔
نتائج
اس صورتحال کے پاکستان پر گہرے اثرات مرتب ہوئے:
منفی شبیہ کا پھیلاؤ: دنیا بھر میں پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھا جانے لگا جو دہشت گردی اور عدم استحکام سے جڑا ہوا ہے، حالانکہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ اس منفی بیانیے نے پاکستان کی اصل قربانیوں اور کوششوں کو پس پشت ڈال دیا۔
عوام میں مایوسی: پاکستانی عوام کو لگا کہ ان کی محنت اور قربانیوں کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ اس سے ان میں بے چینی اور ناامیدی بڑھی۔
میں یہاں اپنی بات پر ثابت قدم رہوں گا کہ میڈیا اور رابطے کی اس ناکامی نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا۔ لیکن اسے بہتر کرنے کے لیے ابھی بھی راستے موجود ہیں۔ پاکستان کو اپنی آواز کو مضبوط اور مؤثر بنانے کے لیے میڈیا حکمت عملی کو بہتر کرنا ہوگا، سفارتی سطح پر سرگرمی بڑھانی ہوگی، اور اندرونی طور پر اداروں کو مستحکم کرنا ہوگا۔ اسی طرح سے پاکستان اپنی ساکھ کو بہتر بنا سکتا ہے اور اپنے لوگوں کے اعتماد کو بحال کر سکتا ہے۔
4. اس سب کے کیا اثرات ہوئے؟
منافقت، افواہوں، اور جواب نہ دینے سے بہت سے مسائل پیدا ہوئے:
-
لوگوں کا بھروسہ ختم ہوا:
بار بار جھوٹ اور غلط باتوں سے لوگوں نے حکومت پر یقین کرنا چھوڑ دیا۔
-
ملک کی پہچان کمزور ہوئی:
سچ نہ بتانے اور افواہوں کی وجہ سے لوگوں کو اپنی تاریخ اور مقصد سمجھنے میں مشکل ہوئی۔
-
دنیا میں عزت کم ہوئی:
باہر سے آنے والی افواہوں کا جواب نہ دینے سے پاکستان کے لیے سفارتی اور معاشی نقصان ہوا۔
5. اس کا حل کیا ہو سکتا ہے؟
ان مسائل کو دور کرنے کے لیے کچھ آسان چیزیں کی جا سکتی ہیں:
-
سچائی اور اچھی تعلیم:
سکولوں میں سچی تاریخ پڑھائی جائے اور لوگوں کو سوچنے کی طاقت دی جائے تاکہ وہ افواہوں سے بچ سکیں۔
-
بہتر بات چیت میڈیا اور سفارت کاری کو مضبوط کر کے پاکستان اپنی بات دنیا تک پہنچا سکتا ہے۔ -
لوگوں کو باخبر کرنا:
عوام کو سچ بتا کر انہیں مضبوط کیا جائے تاکہ وہ افواہوں سے لڑ سکیں اور حکومت سے سوال پوچھ سکیں۔
آخر میں(last words)
پاکستان کی تاریخ میں منافقت، افواہوں کا زور، اور ان کا جواب نہ دینے کی کمزوری نے بہت نقصان کیا۔ اس سے لوگوں کا اعتماد، ملک کی پہچان، اور دنیا میں عزت متاثر ہوئی۔ اگر سچائی کو اپنایا جائے، بات چیت بہتر کی جائے، اور لوگوں کو باخبر کیا جائے، تو پاکستان ان مسائل سے نکل سکتا ہے اور اپنی کہانی کو بہتر بنا سکتا ہے۔
پاکستان اس وقت چیمپئنز ٹرافی 2025 کے بخار میں مبتلا ہے، ہر طرف جوش و خروش نظر آ رہا ہے، لیکن ایک سوال جو مجھے مسلسل پریشان کر رہا ہے: کیا ہم واقعی اس بڑے ایونٹ کے لیے تیار ہیں؟ مجھے یاد ہے جب پاکستان اور آسٹریلیا کی سیریز کے دوران ای ٹکٹنگ کا سسٹم BookMe.pk کے ذریعے ہوا تھا، تب چیزیں قدرے منظم اور آسان لگ رہی تھیں۔ میں اور میری بیوی کراچی ٹیسٹ دیکھنے گئے تھے، اور صرف دو QR کوڈ والے پرنٹس لے کر ہم باآسانی انٹری حاصل کر سکے۔ لیکن اب، کیا ہم وہی سہولت اور پروفیشنلزم چیمپئنز ٹرافی میں دیکھیں گے؟ یا پھر ایک بار وہی بدنظمی، بلیک میں ٹکٹوں کی فروخت، اور عام شائقین کے ساتھ دھوکہ دہی کا بازار گرم ہوگا؟ پاکستان میں کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں، بلکہ ایک جذباتی وابستگی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی بڑا ایونٹ آتا ہے، تو ہمارے منتظمین کی نااہلی سب پر عیاں ہو جاتی ہے۔ کیا اس بار کچھ نیا ہوگا، یا پھر وہی پرانی کہانی؟
موجودہ (ای) ٹکٹنگ سسٹم
چیمپئنز ٹرافی 2025 کے لیے ایک بار پھر وہی پرانا اور فرسودہ "آرڈر اینڈ ڈیلیور" والا نظام نافذ کر دیا گیا ہے، جہاں آپ کو پہلے PCB.TCS.COM.PK پر جا کر آرڈر دینا ہوگا۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی! ایک شناختی کارڈ پر صرف چار ٹکٹوں کی حد لگا دی گئی ہے، اور اس کے بعد آپ کو ایک یونیک نمبر یا اپنا CNIC نمبر فراہم کرنا ہوگا۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں میرا اعتراض ہے۔
یہ نظام بظاہر تو منظم لگتا ہے، مگر حقیقت میں انتہائی خطرناک ہے۔ پاکستان میں شناختی کارڈز کے ساتھ فراڈ اور ڈیٹا لیک کے
آفیشل ٹی سی ایس کا ہوم پیج اسکرین شاٹ
سیکڑوں واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں، خاص طور پر سم کارڈز کے اجرا کے دوران جب ہزاروں لوگ اپنی لاعلمی میں کسی اور کے نام پر رجسٹرڈ سمز کے بوجھ تلے دب چکے تھے۔ تو کیا ہمیں اس بار بھی وہی دھوکہ دہی دیکھنے کو ملے گی؟
کیا واقعی PCB اور TCS کے پاس وہ سیکیورٹی میکانزم موجود ہے جو عوام کے ڈیٹا کو محفوظ رکھ سکے؟ یا پھر ہم ایک اور بڑے اسکینڈل کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ کیا اس بار بھی عام کرکٹ شائقین کے ساتھ زیادتی ہوگی، اور ٹکٹیں صرف "بااثر افراد" کے ہاتھ لگیں گی؟
پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامی صلاحیت ہمیشہ سوالیہ نشان رہی ہے، اور چیمپئنز ٹرافی 2025 کے ٹکٹنگ سسٹم کے ساتھ جو پہلا تاثر مل رہا ہے، وہ قطعی طور پر امید افزا نہیں ہے۔
رسیدیں جمع کرنے کا ہوکا
یہی بیوروکریسی کی دقیانوسی سوچ ہے جو ہر جگہ ہماری ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ کاغذ کا بے دریغ استعمال، غیر ضروری مراحل، اور عوام کو خواری میں ڈالنے والا سسٹم—یہ سب کچھ میں نے 2024 کے انتخابات میں بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک سیدھے سادے ووٹنگ کے عمل کو کتنا پیچیدہ بنا دیا گیا تھا۔ ایک ہی چھوٹے سے کمرے میں چھ مختلف پریزائیڈنگ افسران ایک کام انجام دے رہے تھے، جو ایک ہی بندہ بھی سنبھال سکتا تھا۔
پہلا شخص صرف مجھے اندر داخل کر رہا تھا۔
دوسرا شخص میرا CNIC چیک کرکے رجسٹر پر انٹری کر رہا تھا۔
تیسرا شخص نیشنل اسمبلی کا ہرا بیلٹ پیپر دے رہا تھا۔
چوتھا شخص پروونشل اسمبلی کا سفید بیلٹ پیپر دے رہا تھا۔
پانچواں شخص یہ چیک کر رہا تھا کہ میں نے دونوں بیلٹ پیپر لے لیے ہیں۔
اور چھٹا شخص صرف اور صرف مجھے انگوٹھے پر ٹھپہ لگانے کے لیے بیٹھا تھا!
یہ سب کیا تھا؟ صرف ایک پروسیس کو مصنوعی طور پر پیچیدہ بنا کر عوام کو استعمال کرنے کا ایک نیا طریقہ۔ افسوسناک پہلو یہ تھا کہ ہمارے عوام خود بھی اس عمل کا حصہ بننے پر فخر محسوس کر رہے تھے۔
اور اب یہی کچھ چیمپئنز ٹرافی 2025 کے ٹکٹنگ سسٹم میں دہرایا جا رہا ہے۔
پہلے آپ PCB.TCS.COM.PK پر آرڈر کریں گے۔
پھر صرف چار ٹکٹوں کی حد میں بندھے رہیں گے۔
اس کے بعد آپ کو یا تو ایک "یونیک کوڈ" یا اپنا شناختی کارڈ نمبر لے کر ٹی سی ایس کے دفتر جانا ہوگا۔
وہاں جا کر فزیکل ٹکٹ پرنٹ کرایا جائے گا۔
یہ سب فضول مشقت کیوں؟ کیا یہ کام ایک سادہ QR کوڈ پرنٹ کرکے گھر بیٹھے حل نہیں کیا جا سکتا؟ میں نے پاکستان-آسٹریلیا 2022 کے ٹیسٹ میچ کے لیے BookMe.pk کے ذریعے دو QR ٹکٹ خریدے اور آرام سے اسٹیڈیم میں انٹری لی۔ لیکن جب یہی ٹکٹنگ کا نظام 2019 کی پاکستان-سری لنکا سیریز میں TCS کے پاس تھا، تب بھی مجھے بہادرآباد کے TCS آفس جا کر فزیکل ٹکٹ پرنٹ کرانا پڑا تھا!
یہ کونسی ڈیجیٹلائزیشن ہے؟
یہ سہولت ہے یا ایک اور عذاب؟
کیا PCB اور TCS واقعی عوام کو آسانی دینا چاہتے ہیں، یا بس انہیں خواری میں ڈال کر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ "انتظامات بہت سخت ہیں"؟
یہی دقیانوسی سوچ ہمیں ترقی نہیں کرنے دیتی۔ یہاں ہر معاملے میں غیر ضروری پیچیدگیاں ڈال دی جاتی ہیں، اور عوام بھی اس کو تقدیر سمجھ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ کیا ہم کبھی اس "بیوروکریسی کے وائرس" سے آزاد ہو سکیں گے؟ یا پھر ہمیشہ کی طرح ہمیں استعمال کیا جاتا رہے گا؟
مگر میں نے یہ بھی دیکھا ہے
یہ رسیدیں جمع کرنے کا ہوکا شاید ہماری قوم کی سرشت میں شامل ہو چکا ہے۔ ایک سیدھے سادے QR کوڈ کو بھی "صحیح" پرنٹ کرانے کے لیے خوار ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے! مجھے یاد ہے کہ جب جنوبی افریقہ نے 2021 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا، تب بھی یہی بکھیڑا تھا۔ لوگ اپنے QR کوڈز کو "درست" پرنٹ کرانے کے لیے مشرق سینٹر جا رہے تھے، تاکہ وہ اسکین ہو سکے۔ یہ کونسی دقیانوسی سوچ ہے؟ QR کوڈ میں ایسی کوئی حد بندی نہیں ہوتی، یہ ایک ڈیجیٹل سسٹم ہے، نہ کہ کوئی قدیم زمانے کی مہر!
میں ہر روز بینک میں چیکس پر QR کوڈ کی ویلیڈیشن دیکھتا ہوں، جہاں بس لیزر کو ہلکی سی جھلک ملے، تو ڈیٹا فائل میں منتقل ہو جاتا ہے۔ پھر بھی، پاکستان جیسے ملک میں ایک سادہ QR کوڈ بھی اتنا بڑا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے۔اصل مسئلہ یہ نہیں کہ QR کوڈ اسکین نہیں ہوتا، اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو خواری کی لت لگ چکی ہے!ہمارے لوگ رسیدیں جمع کرنے اور لائنوں میں لگنے کو "اصل سسٹم" سمجھتے ہیں، جبکہ اصل ڈیجیٹل ترقی اس کے برعکس ہے۔
یہی "کاغذ پر اندھا اعتماد" ہے جو ہمارے سسٹم کو پیچھے لے جا رہا ہے۔ ہم آج بھی فزیکل کاغذی ثبوت کے بغیر سچ کو سچ ماننے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک ہاتھ میں پرچی نہ ہو، ہماری قوم کو سکون نہیں آتا۔ ڈیجیٹل انقلاب آیا، مگر ہم اب بھی TCS کے چکر لگانے میں ہی اپنی شان سمجھتے ہیں!
ٹھپہ
پاکستانیوں کی ٹھپہ سے محبت اور کاغذی ثبوت کے بغیر نہ ماننے کی ضد مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی۔ میرے سامنے کی مثال لے لیں—میرے اپنے گھر کے K-Electric کے بل کا معاملہ۔ میں نے بل کی ادائیگی آن لائن کی، مگر پھر بھی ٹھپہ کے بغیر کسی کو یقین نہیں آیا! Due date 30 تاریخ تھی، مگر آج 5 دن گزر چکے ہیں، نہ K-Electric کی ایپ پر کوئی اپڈیٹ، نہ کسی بینکنگ ایپ پر "Payment Done" کا پیغام! یہ کونسا جدید نظام ہے جو خودکار بینکنگ کے نام پر بھی سست روی کا شکار ہے؟
یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ manual banking کو متبادل کے طور پر رکھیں، مگر خودکار بینکنگ کو مکمل طور پر اختیار تو کریں! مگر نہیں، ہماری قوم کو لائنوں میں لگنے اور ٹھپہ لگوانے کا چسکا لگ چکا ہے۔ اور جب یہی قوم غیر ضروری خواری اور وقت کے ضیاع پر اعتراض کرتی ہے، تو منافقت اور نوسر بازی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستانی کرنسی کو بھی تبدیل کیا جا رہا ہے، کیونکہ بہت سے "ایماندار" پاکستانیوں نے کالے دھن کو روپوں کی شکل میں گھروں میں چھپا رکھا ہے۔
یہ سب دیکھ کر مجھے اللہ کا وہ فرمان یاد آتا ہے: "جیسی رعایا ہوگی، ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کیے جائیں گے۔"
اور میں یہ حقیقت اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں۔ یہی وہ قوم ہے جو خود دھوکہ دیتی ہے، پھر حکمرانوں سے شفافیت کی امید بھی رکھتی ہے۔اپنی بددیانتی کو نظرانداز کر کے، صرف دوسروں کو کوسنا ہماری قومی عادت بن چکی ہے!
جب میں یہ بلاگ لکھ رہا ہوں، تو ساتھ ہی یوٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھ رہا ہوں جو حیرت انگیز طور پر میرے حالیہ حالات سے جڑی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ یہ ویڈیو ان ہی مسائل پر روشنی ڈالتی ہے جن سے میں گزر رہا ہوں: گھریلو ناچاقی، جذباتی الجھنیں، اور ایسے حالات جو دوسروں کو فائدہ اٹھانے کا موقع دے سکتے ہیں۔
میں 35 سال کا ایک ذمہ دار شخص ہوں، اور زندگی کے تجربات نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ مسائل کو سمجھنا اور ان کا تجزیہ کرنا کتنا ضروری ہے۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ وہ مسائل جو مجھے واضح نظر آ رہے ہیں، میری والدہ، جو 60 سال کی زندگی گزار چکی ہیں، ان کو نظر نہیں آ رہے۔
یہی وہ خلا ہے جو ہمارے درمیان ناچاقی کو جنم دے رہا ہے۔ وہ اپنی نیت سے غلط نہیں ہیں، لیکن ان کے تجربات، سوچ اور جذبات میرے موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں ان سے اپنے نقطہ نظر کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں، تو وہ اسے نظر انداز کر دیتی ہیں یا اسے غلط سمجھ لیتی ہیں۔
تیسرے کا فائدہ
ایسے حالات میں سب سے زیادہ خطرہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی تیسرا شخص، جو اس صورت حال کو سمجھتا ہو، ان اختلافات کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو مجھے سب سے زیادہ فکر مند کرتی ہے۔ ہماری جذباتی کمزوری اور نااتفاقی کسی اور کے لیے موقع بن سکتی ہے، اور یہ وہ چیز ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
آگے کا راستہ
یہ سب لکھتے ہوئے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اس مسئلے کا حل کیا ہو سکتا ہے؟
سب سے پہلے، میں اپنی والدہ کے ساتھ بات چیت کا راستہ کھلا رکھنے کی کوشش کروں گا۔ ان کے ساتھ وقت گزار کر انہیں اپنے حالات اور جذبات کو بہتر طریقے سے سمجھانے کی کوشش کروں گا۔
دوسرا، میں اپنی ذات پر کام کروں گا، تاکہ میں جذباتی طور پر مضبوط رہوں اور کسی بھی تیسرے شخص کے اثر سے محفوظ رہوں۔
تیسرا، میں یہ سمجھنے کی کوشش کروں گا کہ اختلافات کے باوجود، گھر کی یکجہتی کو کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
گھر کے تعلقات اور جذباتی پیچیدگیاں آسان نہیں ہوتیں، لیکن اگر ان پر توجہ دی جائے اور تحمل سے کام لیا جائے، تو ان کے حل بھی ممکن ہیں۔ یہ بلاگ لکھتے ہوئے مجھے ایک بار پھر یہ احساس ہوا کہ مسئلے کو سمجھنا اور اس کا تجزیہ کرنا ہی پہلا قدم ہے۔ اب وقت ہے عمل کرنے کا، تاکہ میں نہ صرف اپنے حالات کو بہتر بنا سکوں بلکہ اپنے گھر کے تعلقات کو بھی محفوظ رکھ سکوں۔
عزت اور رویے: نسلوں کے درمیان ایک پل
میرا ماننا ہے کہ وقت ایک ایسا پہیہ ہے جو ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔ آج میرے والدین جس مقام پر ہیں، 20 یا 30 سال بعد میں بھی وہیں پہنچ جاؤں گا۔ یہی سوچ مجھے اپنے رویے اور اقدار کے بارے میں مزید حساس بناتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عزت ایک ایسی چیز ہے جو نہ صرف دی جانی چاہیے بلکہ کمائی بھی جاتی ہے۔
جب میں یہ کہتا ہوں کہ عزت میں deserve کرتا ہوں، تو اس کے ساتھ یہ بھی میرا ایمان ہے کہ میرے والدین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وہی رویہ اپنائیں جو وہ خود دوسروں سے اپنے لیے چاہتے ہیں۔ یہ اصول، "Treat others just like you want yourself to be treated"، نہ صرف زندگی کو آسان بناتا ہے بلکہ نسلوں کے درمیان ایک مضبوط پل بھی بناتا ہے۔
یہاں میرا مقصد ہرگز بڑوں کی عزت یا ان کے تجربے کو کم تر دکھانا نہیں ہے۔ ان کی زندگی کے تجربات اور قربانیاں ہماری زندگی کی بنیاد ہیں۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ عزت دو طرفہ راستہ ہے۔ اگر والدین یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے بچے ان کی عزت کریں گے اور ان کی بات مانیں گے، تو اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ بچوں کو سنیں، ان کے جذبات کو سمجھیں، اور انہیں وہ مقام دیں جس کے وہ مستحق ہیں۔
زندگی کے اس سفر میں، ہر نسل کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوتا ہے۔ والدین اپنی زندگی کے اس مرحلے پر جہاں رہنمائی فراہم کرتے ہیں، وہاں بچوں کے جذبات اور سوچ کو بھی جگہ دینا ضروری ہے۔ اسی طرح، بچوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے والدین کے تجربات اور مشوروں کا احترام کریں۔
میری سوچ کا خلاصہ یہ ہے کہ عزت اور محبت کی بنیاد مساوات اور انصاف پر ہونی چاہیے۔ اگر ہم اپنے بڑوں کے ساتھ وہی سلوک کریں جو ہم اپنی بڑھاپے میں دوسروں سے چاہتے ہیں، تو نہ صرف خاندان میں سکون ہوگا بلکہ ہمارے رشتے بھی زیادہ مضبوط ہوں گے۔
اسٹیٹس ٹریپ: ہماری پرمپرا اور معاشرتی الجھنیں
یہ ایک سادہ سی بات ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی سادگی میرے گھر میں بحث کا باعث بن رہی ہے۔ میری والدہ اور ان کے نقش قدم پر چلتی ہوئی میری بیوی بھی اسی سوچ کی پیروی کر رہی ہیں، جس نے مجھے گہرے تجزیے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس معاملے میں ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ "اسٹیٹس ٹریپ" کیا ہے اور یہ ہماری زندگیوں پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں اکثر یہ سوچ پروان چڑھائی جاتی ہے کہ اپنی اولاد کو اسی راستے پر چلایا جائے جس پر والدین چلے ہیں۔ اسے ہندی میں "پرمپرا" کہتے ہیں، اور انگریزی میں "لیگیسی"۔ یہ خیال کہ ہماری اولاد ہمارے نقش قدم پر چلتی رہے، ایک طرف تو خوبصورت لگتا ہے، لیکن دوسری طرف یہ ایک گہرے مسئلے کو جنم دیتا ہے۔ اس لیگیسی کے چکر میں ہم مستقبل کے امکانات کو محدود کر رہے ہیں اور نئی نسل کو غیر ضروری دباؤ کا شکار بنا رہے ہیں۔
اب اگر ہم اس مسئلے کو مزید گہرائی سے دیکھیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہم اسٹیٹس اور دکھاوے کے چکر میں اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگی برباد کر رہے ہیں؟ مثال کے طور پر، اگر آپ کی سالانہ آمدنی 4 لاکھ ہے، لیکن آپ ایک ایسی چیز خریدنے کا سوچ رہے ہیں جس کی قیمت 10 لاکھ ہے، صرف اس لیے کہ آپ دنیا کے سامنے اپنی حیثیت ظاہر کر سکیں، تو یہ دنیا کی سب سے بڑی بے وقوفی ہوگی۔
یہی وہ سوچ ہے جو ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی معاشی اور سماجی برائیوں کا باعث بن رہی ہے۔ ہم اپنے وسائل سے زیادہ خرچ کرنے کی عادت کو اپنی شان سمجھتے ہیں، لیکن اس کے نتیجے میں نہ صرف ہمارا اپنا مستقبل خطرے میں پڑتا ہے بلکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی قرض اور مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں۔
کسے ذمہ دار ٹھہرائیں؟
اس الجھن کے لیے ذمہ داری کس پر ڈالی جائے؟ والدین پر، جو اپنی اولاد کو اپنی پرانی روایات میں جکڑتے ہیں؟ یا معاشرے پر، جو اسٹیٹس اور دکھاوے کو اہمیت دیتا ہے؟ شاید دونوں۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنی نسلوں کو آزادانہ فیصلے کرنے دیں، اور معاشرے کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حیثیت کا مطلب دکھاوا نہیں بلکہ حقیقی خوشحالی ہے۔
آگے کا راستہ
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی سوچ اور عمل کو تبدیل کریں۔ ہمیں اپنی ضروریات اور خواہشات کے درمیان فرق کو سمجھنا ہوگا۔ اپنی نسلوں کو پرمپرا کے جال سے آزاد کرکے ان کے لیے بہتر مواقع پیدا کرنے چاہئیں، تاکہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کریں اور دکھاوے کے بجائے حقیقی خوشی کو اہمیت دیں۔
یہ بلاگ صرف ایک سوال نہیں بلکہ ایک دعوتِ فکر ہے۔ کیا ہم اپنی نسلوں کو آزاد اور خودمختار بنانا چاہتے ہیں، یا انہیں اسٹیٹس ٹریپ کا غلام؟ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔
کیا ہمارے لئے واقعی میں ضروری ہے کہ ہم اس گولڈی لوکس زون کے پیرادوکس میں اپنے آپ کو پھنسا کر رکھیں؟
شناخت کا بحران: کیا ہم صحیح اور غلط کا تعین کر پا رہے ہیں؟
انگریزی زبان میں اسے identification کہتے ہیں—یعنی یہ سمجھنا اور پہچاننا کہ ہمارے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ایسا کوئی نظام یا mechanism بنایا ہے جس کی مدد سے ہم اس فرق کو واضح کر سکیں؟ یا ہم محض اپنی ضد، انا، اور موروثی روایات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، جو نہ صرف ہمیں بلکہ ہماری آئندہ نسلوں کو بھی متاثر کر رہی ہیں؟
ہمارے بڑے، اپنی دانائی اور تجربے کے زور پر ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہی ہر بات میں صحیح ہیں۔ ان کے اس خودساختہ "صحیح ہونے" کے احساس نے ان کی آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ دی ہے کہ انہیں یہ دکھائی ہی نہیں دیتا کہ اس ضد اور جبر کے چکر میں وہ اپنے ہی مستقبل کے ساتھ کیسا غیر ذمہ دارانہ کھیل کھیل رہے ہیں۔
ہماری ترجیحات اور ان کا اثر
یہ پہچان کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، ہر نسل کے لیے ضروری ہے۔ لیکن جب بڑی نسل اپنی ترجیحات کو نئی نسل پر مسلط کرتی ہے، تو نہ صرف ان کی تخلیقی صلاحیتیں دبتی ہیں بلکہ وہ جذباتی اور ذہنی طور پر بھی شدید دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ مسئلہ صرف گھریلو سطح تک محدود نہیں، بلکہ ہمارے معاشرتی اور ثقافتی نظام کا حصہ بن چکا ہے۔ Identification کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے اصولوں کو واضح کریں، اپنی ضروریات کو خواہشات سے الگ کریں، اور اس بات کو سمجھیں کہ ہماری ترجیحات کا اثر نہ صرف ہم پر بلکہ ہماری آئندہ نسلوں پر بھی ہوگا۔
آگے کا راستہ
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خود کو اس جمود سے آزاد کریں۔ ہمیں ایک ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے جہاں ہر نسل کے افراد کو اپنی شناخت بنانے کا موقع ملے۔
بات چیت کو فروغ دیں: بڑوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کا تجربہ قیمتی ہے، لیکن ان کے تجربات ہر وقت اور ہر حال میں قابلِ عمل نہیں ہوتے۔ نئی نسل کے خیالات کو سننا اور سمجھنا ضروری ہے۔
تعلیم اور شعور: ہمیں اپنی تعلیم اور تربیت کے ذریعے بچوں میں یہ صلاحیت پیدا کرنی چاہیے کہ وہ اپنی ضروریات اور خوابوں کو سمجھ سکیں، اور اپنے لیے صحیح فیصلے کر سکیں۔
لچکدار رویہ: ہمیں اپنے رویوں میں لچک پیدا کرنی ہوگی۔ دنیا بدل رہی ہے، اور پرانی روایات کے ساتھ جڑے رہنے کے بجائے ہمیں ان روایات کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔
یہ بلاگ محض ایک سوال نہیں بلکہ ایک دعوتِ فکر ہے۔ کیا ہم اپنی نسلوں کو آزاد، خودمختار، اور تخلیقی بنانا چاہتے ہیں، یا انہیں اپنے اصولوں کے تنگ دائرے میں قید رکھنا چاہتے ہیں؟ فیصلہ ہم سب کے ہاتھ میں ہے۔ آئیں، identification کے ذریعے صحیح اور غلط کا فرق سمجھیں اور ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھیں۔