Search me

Translate

پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کی یلغار: جاگیں ورنہ دیر ہو جائے گی!

یہی چیز زرا بھارت یا کسی
 طاقتور ملک  کے لئے
 بول کر دیکھتے!
پرانے وقتوں میں آج کے زمانے کے متعلق بتایا گیا تھا کہ برائی ایسے تمہارے اوپر نازل ہوں گی جیسے بارش کے قطرے، پہلے پہل اس حوالے سے یہ سمجھا گیا کہ ریڈیو ویوز کے متعلق ہے، مگر اب سمجھ آرہا ہے کہ ہم translations میں پھنسے رہے، اصل چیز یہی تھی کہ پاکستان آج کے دور میں مخالف پروپیگنڈے کی یلغار کا شکار ہے، جو کہ پرانے وقتوں میں بارش کی مانند بتلایا گیا تھا ، اور بدقسمتی سے ہم یہ جنگ مسلسل ہار رہے ہیں، کیونکہ نا صرف یہ جنگ کو طریقے کے ساتھ لڑی جاتی ہے، نا کہ شور و غل مچا کر، جو کہ ایک ہجوم کی ڈیفینیشن ہے، نا ہی ہم نے کچھ بنانے کی کوشش کی ہے، بلکہ الٹا جو ہمارے اباؤ اجداد نے بنایا تھا، وہ بھی تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ تو میرے نذدیک یہ صرف ایک سفارتی ناکامی نہیں بلکہ قومی غیرت اور سلامتی پر حملہ ہے۔

مخالف عناصر مسلسل جھوٹے بیانیے پھیلا کر پاکستان کو عالمی سطح پر کمزور اور غیر مستحکم ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بالاکوٹ حملے کے بعد بھارتی میڈیا نے جھوٹے دعوے اور من گھڑت کہانیاں گھڑ کر ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا، مگر افسوس کہ ہمارا قومی میڈیا اور حکومتی ادارے اس کے جواب میں کمزور ثابت ہوئے، کیونکہ میرے نذدیک ہم ان سب کے لئے کبھی تیار تھے ہی نہیں، نا ہی ہمیں یونی ورسٹی میں اس بارے میں پڑھایا گیا ہے، بجائے اس کے کہ ہم رٹے مار مار کر اسٹوڈنٹس کے نام پر Zombies بنا رہے ہیں، ایسے میں ہمیں انتظار کرنا چاہئے کہ ایک Zombie apocalypse کا انتظار کریں، کیونکہ ہمارے موجودہ حالات ہمیں واقعی میں اس جانب لے جارہے ہیں، جہاں ہم اپنے خود کے لئے ایک طرح کی wall of no return کی جانب لے جارہے ہیں۔

ہماری خاموشی اور کمزور بیانیے کے نتیجے میں عالمی سطح پر ہماری ساکھ متاثر ہوئی، معیشت کو شدید نقصان پہنچا اور قوم میں مایوسی اور عدم اعتماد بڑھا۔ سی پیک جیسے اہم منصوبے کے خلاف بھی جھوٹے پراپیگنڈے کیے گئے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔

آئی سی سی چمپئینز ٹرافی 2025 میں بھی بھارت نے متعصبانہ رویہ اختیار کیا، جبکہ بقیہ چھ ممالک کو پاکستان آنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا، بلکہ ابھی بھی ویسٹ انڈیز کی ٹیم جنوری میں پاکستان میں سیریز کھیلنے کے لئے موجود ہے، اس کے برعکس بھارت نے سیاسی دباؤ ڈال کر اپنے میچز دبئی منتقل کروا لیے، جس سے پاکستان کے عالمی تشخص کو نقصان پہنچا۔

ہمارے میڈیا کا رویہ اس دوران غیر سنجیدہ رہا، جوش و خروش دکھانے کے بجائے تعمیری اور مدبرانہ صحافت کا مظاہرہ نہ کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ ٹی آر پی اور ریٹنگز کے لالچ میں ملکی وقار سے بڑھ کر ہے؟

پاکستان میں خواتین کے ساتھ بھی پروپیگنڈے کے تحت ناانصافی ہو رہی ہے۔ میڈیا اور اشتہارات میں خواتین کو صرف جنسی علامت (Sex Symbol) بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، جس سے ان کی عزت و وقار پامال ہو رہی ہے اور یہ ہماری ثقافت و دینی اقدار کے سراسر خلاف ہے۔ اس غیر اخلاقی رویے کے باعث ہماری نوجوان نسل اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو رہی ہے۔ حالانکہ یہ چیزیں دنیا میں بھی ہورہی ہیں، مگر پاکستان کو جس طرح ان چیزوں میں ڈالا جارہا ہے، اور جس طرح پاکستان کا نام اس طرح کی controversies میں ڈال کر گندہ کیا جارہا ہے، اور اس کے اوپر جس طرح سے پاکستانی میڈیا اور کی بورڈ وارئیرز (keyboard warriors) پاکستان کے لئے کام کررہے ہیں، ہمیں واقعی میں بیرونی دشمنوں کی ضرورت نہیں، یہ لوگ ہیں نا!

اگر ہم نے اس صورتحال پر قابو نہ پایا تو:

  • پاکستان مزید بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہوگا۔
  • معیشت مزید زوال پذیر ہوگی۔
  • قومی بیانیہ مکمل طور پر مخالف قوتوں کے قبضے میں چلا جائے گا۔

اب وقت ہے کہ ہم ایک مؤثر قومی بیانیہ تشکیل دیں، پروفیشنل میڈیا ٹیمیں اور جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے سچائی پر مبنی حقائق پیش کریں۔ خواتین کے احترام اور پاکستان کی اصل شناخت کو اجاگر کریں تاکہ ہمارا قومی وقار، استحکام اور خودمختاری محفوظ رہ سکے۔

پاکستانی بزرگوں کی نوجوانوں کی جانب بے رخی

ہماری معاشرتی ساخت میں ایک سنگین مسئلہ جڑ پکڑ چکا ہے، جو کہ بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ اور نوجوانوں پر اپنی رائے کو حتمی قرار دینے کا ہے۔ یہ رویہ نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبانے اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ تاریخی تناظر اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہر ترقی یافتہ قوم نے خود کو وقت کے ساتھ جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے۔ صنعتی انقلاب کے دوران یورپ نے نئی ٹیکنالوجی اور صنعتی مہارتوں کو اپنایا، جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی ناکامیوں سے سیکھ کر خود کو جدیدیت کے سانچے میں ڈھالا۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بزرگوں کے تجربات کو حرف آخر سمجھتے ہوئے نوجوانوں کو اپنی ہی طرز پر زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے، چاہے دنیا کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر چکی ہو۔

عالمی دنیا میں تبدیلی کا اصول 

 ترقی یافتہ اقوام مسلسل خود کو اپ ڈیٹ کرتی ہیں۔ تعلیمی نظام، کاروباری حکمت عملیاں اور معاشرتی اقدار سب وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہیں۔ گوگل، ایپل اور ٹیسلا جیسی کمپنیاں جدید سوچ کو فروغ دیتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں نوجوانوں کو نئے آئیڈیاز پیش کرنے سے روکا جاتا ہے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اکثر "ناپختہ" کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گوگل، ایپل اور ایمیزون جیسی کمپنیاں وجود میں نہیں آئیں کیونکہ ہم نے تخلیقی سوچ اور نئے آئیڈیاز کو فروغ نہیں دیا۔ 

صنفی امتیاز اور خواتین کا کردار

ہم نے صنفی امتیاز کو بھی فروغ کردیا ہے۔ خواتین کو اکثر ایسے کرداروں میں محدود کر دیا جاتا ہے جہاں انہیں سنجیدہ مواقع سے محروم رکھا جاتا ہے۔ جب ان سے کسی تعمیری کردار کی توقع کی جاتی ہے تو ماضی کی روایات کا حوالہ دے کر انہیں پیچھے رکھا جاتا ہے، جو کہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، چونکہ ہم عورتوں کے اندر موجود خوبیوں کو استعمال کرنے کے بجائے ان کو ضائع کررہے ہیں۔

بزرگوں کی سوچ میں یہ خود پسندانہ رویہ کیوں؟

1. خوف اور عدم تحفظ:

 بزرگ اپنے تجربات کو محفوظ ترین سمجھتے ہیں اور نئے خیالات کو خطرہ تصور کرتے ہیں۔ 

2. سماجی تسلط:

بزرگوں کو ہمیشہ حتمی اتھارٹی سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی رائے کو حرف آخر مانا جاتا ہے۔

3. تاریخی پس منظر:

ماضی کے روایتی نظام میں استاد، والدین اور بزرگوں کی رائے کو بغیر سوال کیے قبول کرنا ادب سمجھا جاتا تھا۔ توازن کی ضرورت بزرگوں کی موجودگی ہماری زندگیوں میں آکسیجن کی طرح اہم ہے، جو رہنمائی اور تجربے کا باعث بنتی ہے۔ تاہم، جیسے آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں توازن ضروری ہے، ویسے ہی بزرگوں اور نوجوانوں کی سوچ میں بھی اعتدال ضروری ہے تاکہ نہ تو تجربے کو نظر انداز کیا جائے اور نہ تخلیقی صلاحیتوں کو دبایا جائے۔

بحث کے دو رخ:

احترام بمقابلہ جوابی دلائل 

1. جوابی بحث (Tit-for-Tat Argument):

 اس میں ہر فریق دوسرے کی بات کا سخت جواب دیتا ہے جس سے اختلافات بڑھتے ہیں اور مسئلے کا حل نہیں نکلتا۔ 

2. احترام کے ساتھ بحث: 

اس میں دونوں فریق ایک دوسرے کی بات کو توجہ سے سنتے ہیں، اختلاف کو عزت کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور حل کی طرف بڑھتے ہیں۔

تبدیلی کے لیے عملی اقدامات:

1. بزرگوں کی رہنمائی:

بزرگوں کو مشورہ دینا چاہیے کہ وہ نوجوانوں کی تخلیقی سوچ کی حوصلہ افزائی کریں اور اپنی رائے کو رہنمائی کے طور پر پیش کریں۔ 

2. نوجوانوں کی تخلیقی آزادی: 

نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو آزمانے اور تجربہ کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ ان کے خیالات کو عملی شکل دی جا سکے۔ 

3. مکالمے کا فروغ: 

معاشرتی سطح پر ایسی گفتگو کو فروغ دیا جائے جس میں اختلاف رائے کو احترام سے سنا جائے۔ 

4. مسلسل سیکھنے کی روایت:

بزرگوں اور نوجوانوں دونوں کے لیے سیکھنے کے عمل کو مستقل جاری رکھا جائے تاکہ وقت کے ساتھ ترقی ممکن ہو۔ 

5. نئے آئیڈیاز کی پذیرائی: 

ایسے پلیٹ فارمز بنائے جائیں جہاں نوجوانوں کے نئے خیالات اور کاروباری منصوبوں کو فروغ دیا جائے تاکہ پاکستان میں بھی عالمی معیار کی کمپنیاں بن سکیں۔ جب تک ہم اپنے معاشرتی رویوں میں یہ تبدیلی نہیں لائیں گے، تب تک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کا خطرہ برقرار رہے گا۔ ہر نسل کی اپنی منفرد صلاحیتیں ہوتی ہیں اور انہیں دبانے کے بجائے اجاگر کرنا ہی معاشرتی ترقی کی اصل کنجی ہے۔


Pakistani society and lack of positivity - due to which frustration erupts | پاکستانی بزرگوں کا کردار اور مثبت سوچ کی کمی

پاکستانی معاشرہ روایات، عقیدت اور احترام کی بنیادوں پر قائم ہے۔ بزرگوں کا احترام اور ان کی موجودگی ہمیشہ سے ہمارے خاندانی نظام کا ایک اہم ستون رہی ہے۔ تاہم، موجودہ حالات میں ایک ایسا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے جو معاشرتی ترقی کے لیے رکاوٹ بن رہا ہے۔ بزرگوں کی جانب سے نوجوانوں کی تخلیقی سوچ کو دبانے اور ہر نئی رائے کو غیر ضروری سمجھنے کا رویہ، ہماری اجتماعی ترقی میں کمی کی ایک بڑی وجہ بن چکا ہے۔ 

تاریخی تناظر اور حالیہ صورت حال 

 اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ترقی یافتہ اقوام نے ہمیشہ اپنی روایات کے ساتھ خود کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے۔ صنعتی انقلاب کے دوران یورپ نے زرعی معیشت سے صنعتی معیشت کی طرف پیش قدمی کی اور جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی ناکامیوں سے سیکھ کر جدیدیت کو اپنایا۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں یہ تبدیلی کا رجحان بہت کمزور رہا ہے۔ بزرگوں کی خود پسندی اور اپنی رائے کو حتمی سمجھنے کا رویہ نوجوانوں کی تخلیقی آزادی کو محدود کر دیتا ہے۔ نئے خیالات کی مخالفت اور پرانی روایات پر اصرار ہمیں ایک محدود ذہنیت میں مقید رکھے ہوئے ہے۔ 

مثبت سوچ کی کمی کے اسباب 

1. خوف اور عدم تحفظ: 

بزرگ اپنے تجربات اور فیصلوں کو محفوظ ترین سمجھتے ہیں اور کسی بھی نئی سوچ کو معاشرتی بگاڑ تصور کرتے ہیں۔ 

2. سماجی تسلط: 

 ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں بزرگوں کی رائے کو حتمی مانا جاتا ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ 

3. تعلیمی اور معاشرتی جمود: 

ہمارے تعلیمی نظام میں تنقیدی سوچ اور سوال کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ 

4. روایتی سوچ کا تسلط: 

ہر نئی تبدیلی کو ایک خطرہ تصور کیا جاتا ہے اور ماضی کے تجربات کو جدید حلوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ 

پاکستان میں گوگل، ایپل اور ایمیزون کیوں نہیں؟ 

 پاکستان میں گوگل، ایپل اور ایمیزون جیسی کمپنیاں نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہی منفی اور محدود سوچ ہے۔ ہم نے کبھی نوجوانوں کے آئیڈیاز کو نہ صرف پذیرائی نہیں دی بلکہ ان کے نئے منصوبوں کو "غیر حقیقت پسندانہ" کہہ کر مسترد کر دیا۔ ایسے ماحول میں تخلیقی صلاحیتوں کا ابھرنا ممکن نہیں۔ 

دقیانوسیت کو پروموٹ کرنا

ہماری معاشرتی ساخت میں ایک سنگین مسئلہ جڑ پکڑ چکا ہے، جو کہ بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ اور نوجوانوں پر اپنی رائے کو حتمی قرار دینے کا ہے۔ یہ رویہ نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبانے اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے

بزرگوں کی موجودگی کی اہمیت اور توازن بزرگوں کی موجودگی آکسیجن کی طرح ضروری ہے،

جو ہمارے لیے رہنمائی اور تجربے کا خزانہ ہے۔ تاہم، جیسے آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں توازن ضروری ہے، ویسے ہی بزرگوں کے تجربے اور نوجوانوں کی تخلیقی سوچ میں بھی اعتدال ضروری ہے۔ نہ تو بزرگوں کو نظرانداز کیا جائے اور نہ ہی نوجوانوں کو دبایا جائے۔ 

بحث کے انداز میں فرق 

1. جوابی دلائل (Tit-for-Tat Argument): 

اس میں ہر فریق دوسرے کی بات کا سخت جواب دیتا ہے جس سے مسائل مزید بگڑ جاتے ہیں۔ 

2. احترام کے ساتھ بحث:

اس میں دونوں فریق ایک دوسرے کی بات کو احترام سے سنتے ہیں اور حل کی تلاش میں مثبت رویہ اپناتے ہیں۔ 

تبدیلی کے لیے اقدامات 

1. بزرگوں کا رہنمائی کا کردار: 
بزرگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی رائے کو حتمی فیصلے کی بجائے ایک رہنمائی کے طور پر پیش کریں۔ 

2. نوجوانوں کی تخلیقی آزادی: 

نوجوانوں کو اپنی سوچ کے مطابق تجربات کرنے دیے جائیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو آزما سکیں۔ 

3. مسلسل سیکھنے کی روایت: 

بزرگ اور نوجوان دونوں کو سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنا چاہیے تاکہ وقت کے ساتھ ترقی ممکن ہو۔ 

4. نئے آئیڈیاز کی پذیرائی:

ایسے پلیٹ فارمز بنائے جائیں جہاں نوجوانوں کے نئے خیالات اور کاروباری منصوبوں کو فروغ دیا جائے۔ 

5. تعلیمی نظام میں بہتری:

ایسے تعلیمی نصاب کو فروغ دیا جائے جو تنقیدی سوچ، سوال کرنے کی عادت اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرے۔ 

نتیجہ جب تک ہم اپنے معاشرتی رویوں میں یہ مثبت تبدیلیاں نہیں لائیں گے، تب تک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کا خطرہ برقرار رہے گا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر نسل کی اپنی منفرد صلاحیتیں ہوتی ہیں، جنہیں دبانے کے بجائے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ بزرگوں کی رہنمائی اور نوجوانوں کی تخلیقی سوچ کا امتزاج ہی پاکستان کو ایک روشن اور ترقی یافتہ قوم بنا سکتا ہے۔


معاشرتی ترقی کی راہ میں بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ کا رکاوٹ

بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ اور نوجوانوں پر اپنی رائے مسلط کرنے کا رجحان

ہماری معاشرتی ساخت میں ایک سنگین مسئلہ جڑ پکڑ چکا ہے، جو کہ بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ اور نوجوانوں پر اپنی رائے کو حتمی قرار دینے کا ہے۔ یہ رجحان اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ جو راستہ بزرگوں نے اپنایا، وہی واحد اور درست ہے۔ اس کے نتیجے میں نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتیں دب جاتی ہیں اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

تاریخی تناظر

اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہر ترقی یافتہ قوم نے وقت کے ساتھ خود کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے۔ صنعتی انقلاب کے دوران یورپ میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی جہاں روایتی زرعی معاشرتی ڈھانچے کو پیچھے چھوڑ کر نئی ٹیکنالوجی اور صنعتی مہارتوں کو اپنایا گیا۔ اسی طرح جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی ناکامیوں کو قبول کرتے ہوئے نئی حکمت عملی اختیار کی اور جدیدیت کو اپناتے ہوئے عالمی معیشت میں اپنی جگہ بنائی۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں تاریخی اسباق کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بزرگ اپنے ماضی کے تجربات کو حتمی سچائی سمجھتے ہوئے نوجوانوں کو اپنی ہی طرز پر زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں، چاہے دنیا کتنی ہی آگے کیوں نہ بڑھ چکی ہو۔

عالمی دنیا میں تبدیلی کا اصول

آج کی دنیا میں ترقی یافتہ اقوام مستقل خود کو اپ ڈیٹ کرتی ہیں۔ تعلیمی نظام، کاروباری حکمت عملیاں اور معاشرتی اقدار سب وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہیں۔ گوگل، ایپل اور ٹیسلا جیسی کمپنیاں اس کی مثال ہیں، جو جدید رجحانات اور نئی سوچ کو فروغ دیتی ہیں۔

اس کے برعکس ہمارے ہاں نوجوانوں کو روایتی سوچ کے مطابق چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہیں نئے آئیڈیاز پیش کرنے سے روکا جاتا ہے اور اکثر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو صرف "ناپختہ" کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔

صنفی امتیاز اور خواتین کا کردار

ہم نے اپنے معاشرے میں صنفی امتیاز کو بھی بڑھاوا دیا ہے۔ خواتین کو اکثر ایسے کرداروں میں قید کر دیا گیا ہے جہاں انہیں شور مچانے اور عملی طور پر کچھ نہ کرنے کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ جب ان سے کسی تعمیری کردار کی توقع کی جاتی ہے تو وہ یہی کہتی ہیں کہ "آپ نے بھی یہی کیا تھا۔" یہ رویہ نہ صرف معاشرتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ خواتین کی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔

بزرگوں کی سوچ میں یہ خود پسندانہ رویہ کیوں؟

  1. خوف اور عدم تحفظ: بزرگ اپنے تجربات اور فیصلوں کو محفوظ ترین سمجھتے ہیں اور نئے خیالات کو خطرہ سمجھتے ہیں۔
  2. سماجی تسلط: معاشرتی ڈھانچے میں بزرگوں کو ہمیشہ حتمی اتھارٹی سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی رائے کو ہی سچائی تصور کرتے ہیں۔
  3. تاریخی پس منظر: ماضی کے روایتی نظام جہاں استاد، والدین اور بزرگوں کی رائے کو بغیر سوال کیے قبول کرنا ہی ادب سمجھا جاتا تھا۔

حل کی راہیں

وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے معاشرتی رویوں میں تبدیلی لائیں۔

  1. بزرگوں کو رہنمائی کا کردار دینا: بزرگوں کی تجربات سے سیکھنا ضروری ہے، لیکن ان کی رائے کو حرف آخر ماننا نہیں۔
  2. نوجوانوں کی تخلیقی آزادی: نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں آزمانے اور تجربات کرنے کا موقع دینا چاہیے۔
  3. مسلسل سیکھنے کی روایت: تمام عمر سیکھنے کا عمل جاری رکھنا چاہیے، جیسے دنیا کی کامیاب اقوام کرتی ہیں۔

بزرگوں کی موجودگی اور توازن کی اہمیت

بزرگوں کی موجودگی ہماری زندگیوں میں اتنی ہی اہم ہے جتنی آکسیجن کا ہمارے جسم میں ہونا، اور ان کی رہنمائی کی ضرورت اتنی ہی ضروری ہے جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج۔ لیکن یہ سب کچھ توازن میں ہونا چاہیے۔ کیونکہ زندگی میں توازن سے ہی ہر چیز اپنی اصل جگہ پر صحیح طریقے سے کام کرتی ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ بزرگوں کی رہنمائی اہم ہے، لیکن ان کی رائے کو مکمل طور پر مسلط کرنے کی بجائے نوجوانوں کو اپنی آزادی، تخلیقی صلاحیتوں اور خیالات کو آزمانے کا موقع بھی ملنا چاہیے۔

جب تک ہم اپنے معاشرتی ڈھانچے میں یہ تبدیلی نہیں لائیں گے، تب تک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کا خطرہ رہے گا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہر نسل کی اپنی منفرد صلاحیتیں ہوتی ہیں اور انہیں دبانے کے بجائے اجاگر کرنا ہی معاشرتی ترقی کی کنجی ہے۔



Too little and too late

آپ نے پاکستان میں ٹیلنٹ کو پالش کرنے کے معاملے پر ایک بہت ہی جذباتی اور پرخاش انداز میں پیش کیا ہے۔ آپ نے موجودہ نظام میں موجود خامیاں اور کوتاہیوں کو بڑی شدت سے اجاگر کیا ہے۔

میرے تجزیے کے اہم نکات:

  • نظام کی ناکامی: میرا یہ ماننا ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کو پالش کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی، بالکل درست ہے۔ نظام کی ناکامی کی وجہ سے ہمارے نوجوان اپنی صلاحیتوں کو نکالنے کے لیے مناسب مواقع نہیں پا رہے۔
  • جگاڑ کا کلچر: میں نے جگاڑ کے کلچر کو بھی اس مسئلے کا ایک بڑا سبب قرار دیا ہے اور یہ بات بھی بالکل درست ہے۔ جگاڑ کی اس سوچ نے ہمارے معاشرے کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
  • طاقتوروں کو مراعات اور کمزوروں کو سزا: میرا یہ ماننا کہ پاکستان میں طاقتور لوگ ہمیشہ قانون سے بالاتر رہتے ہیں جبکہ کمزور لوگوں کو سزا دی جاتی ہے۔ یہ بات بھی پاکستان کی تلخ حقیقت ہے۔
  • عذروں کی تلاش: آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم ہر ناکامی کے لیے کوئی نہ کوئی عذر تلاش کر لیتے ہیں اور اس کی ذمہ داری کسی اور پر ڈال دیتے ہیں۔

آپ کے تجزیے پر تنقید اور تجاویز:

  • زیادہ تعمیری تجاویز: میرا یہ ماننا ہے کہ موجودہ صورتحال کے حل کے لیے کوئی تعمیری تجاویز پیش نہیں کیں۔ جہاں آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔
  • حل کے لیے انفرادی کردار: میں نے صرف نظام کو مورد الزام ٹھہرایا ہے لیکن ہمیں بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنی سطح پر کوششیں کرنی ہوں گی۔
  • مثبت تبدیلی کے لیے امید: ہمیں بحیثیت مسلمان ہمیشہ ایک اچھی امید رکھنی چاہئے۔

مزید تجزیہ اور تجاویز:

  • تعلیمی نظام میں اصلاح: تعلیمی نظام کو اس طرح ڈیزائن کیا جانا چاہیے کہ ہر بچے کی صلاحیتوں کو نکالا جا سکے۔
  • سماجی تبدیلی: سماج میں ایک ایسا ماحول بنانا چاہیے جہاں ہر فرد کو اپنی صلاحیتوں کو نکالنے کے لیے برابر کے مواقع مل سکیں۔
  • حکومت کی ذمہ داری: حکومت کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے اور ٹیلنٹ کو پالش کرنے کے لیے موثر اقدامات کرنی چاہئیں۔
  • عوامی شعور میں تبدیلی: عوام کو یہ سمجھانا چاہیے کہ ٹیلنٹ کو پالش کرنا ہمارے ملک کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔

نتیجہ:

میرا تجزیہ میں یقناً کمی بیشی ہوسکتی ہے، مگر میرے حساب سے تجزیہ پاکستان میں موجود ایک بڑے مسئلے کو اجاگر کرتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے تو ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔ ہمیں سب کو مل کر کوشش کرنی ہوگی اور ایک مثبت تبدیلی لانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔

اضافی تجاویز:

  • مختلف شعبوں میں ٹیلنٹ ہنٹ: مختلف شعبوں میں ٹیلنٹ ہنٹ کے پروگرام منعقد کیے جائیں تاکہ نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو دکھانے کا موقع مل سکے۔
  • منٹرنگ اور رہنمائی: نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں کو پالش کرنے کے لیے مناسب رہنمائی اور منٹرنگ فراہم کی جائے۔
  • کاروباری اداروں کا کردار: کاروباری اداروں کو بھی نوجوانوں کو تربیت دینے اور انہیں ملازمت کے مواقع فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

آپ کی رائے:

میں آپ کی رائے جاننے کے لیے بہت مشتاق ہوں۔ آپ کے خیال میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟

آپ کی رائے:

میں آپ کی رائے جاننے کے لیے بہت مشتاق ہوں۔ آپ کے خیال میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟

نوٹ: یہ ترجمہ صرف ایک مثال ہے اور اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ آپ کی مدد کرے گا۔



کے الیکٹرک اور ہم

ہم بحیثیت قوم اپنے محدود وسائل کے غلط استعمال میں ملوث ہیں، جس کے اثرات ہماری معیشت اور معاشرتی توازن کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ بجلی، جو کہ ایک قیمتی اور محدود وسیلہ ہے، کا بے دریغ استعمال ہمارے غیر ذمہ دارانہ رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ فالتو لائٹس کا جلائے رکھنا، غیر ضروری ایئر کنڈیشنرز اور ہیٹرز کا استعمال اور بجلی کے آلات کو بلاوجہ چلتا چھوڑ دینا ہماری عام عادت بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ قیمتی وسائل کی چوری اور ان کی قیمت ادا کرنے سے گریز ایک افسوسناک حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہ مسئلہ صرف بجلی تک محدود نہیں۔ ہمارے نوجوان بھی ایک قیمتی قومی اثاثہ ہیں، جنہیں ہم جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو ضائع کرنا اور انہیں ترقی کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دینا ایک سنگین مسئلہ ہے جسے فوری توجہ کی ضرورت ہے۔

معاشرتی سطح پر ایک اور بڑا مسئلہ بزرگوں کی خود پسندانہ سوچ ہے، جو اپنی زندگی کے تجربات کو حتمی سمجھتے ہوئے نوجوانوں پر اپنی رائے مسلط کرتے ہیں۔ یہ رجحان نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو محدود کر دیتا ہے اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے۔

میں یہ باتیں اس لیے لکھ رہا ہوں کیونکہ کل کو میں بھی اسی مقام پر ہوں گا جہاں آج میرے بزرگ ہیں۔ وقت کی یہ گردش ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہم اپنے تجربات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی بجائے نئی نسل کو اپنی راہ خود چننے کا موقع دیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی سوچ اور رویوں میں مثبت تبدیلی لائیں۔ بجلی کے استعمال میں کفایت شعاری اپنائیں، نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیں اور بزرگوں کی رہنمائی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان کے ہر فیصلے کو حرف آخر نہ سمجھیں۔ وسائل کا دانشمندانہ استعمال اور نوجوانوں کو جدید دور کے مطابق تیار کرنا ہی ایک روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔



کے الیکٹرک والوں کی (اور ہماری اپنی) غنڈہ گردی

یہ بلاگ لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

عام طور پر میں ایسے موضوعات پر لکھنے سے گریز کرتا ہوں، مگر موجودہ حالات نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ اپنی خاموشی توڑوں۔ میرے گھر میں بجلی کے مسائل کی ذمہ داری میرے ہی کندھوں پر ڈال دی گئی ہے، حالانکہ میری مصروفیات کچھ ایسی ہیں کہ صبح 8 بجے گھر سے نکلتا ہوں اور رات 9 بجے کے قریب واپس آتا ہوں۔ ایسے میں یہ افسوسناک ہے کہ گھر میں کوئی اور اس ذمہ داری کو اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

محلے میں صرف ایک یا دو انکلز ہیں جو پورے محلے کے مسائل کی شکایات درج کرواتے ہیں۔ دوسری طرف میرے والدین، جو خود کو بزرگوں کی فہرست میں شامل کروانے کے شوقین ہیں، ذمہ داری اٹھانے کے بجائے لائن مین کو پیسے دے کر مسئلہ حل کروانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

یہ رویہ صرف ذاتی پریشانی تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک وسیع سماجی مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے جہاں اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے بجائے لوگ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور حقائق کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہ بلاگ اسی غیر ذمہ دارانہ رویے اور اجتماعی جوابدہی کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے لکھا جا رہا ہے۔

جبکہ

آج کی دنیا میں اعداد و شمار اور ڈیٹا کو حقائق کی بنیاد سمجھا جاتا ہے، مگر ہمارے بزرگ ہمیں مسلسل حقائق سے انکار کرتے ہوئے مذاق کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کے الیکٹرک اس کی واضح مثال ہے — ان کے اپنے سسٹم میں یہ واضح ہے کہ بجلی کی بحالی ممکن نہیں، اس کے باوجود یہ لوگ شیڈول کے مطابق اور بغیر شیڈول کے لوڈ شیڈنگ کو ایسے پیش کر رہے ہیں جیسے یہ کوئی "مفت سہولت" ہو۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں لوگ ایسی کھلی بدانتظامی کے خلاف آواز بلند کرتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود کے الیکٹرک کی ایپ دن میں چار بار بجلی جانے کی رپورٹ دیتی ہے، مگر میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق، خاص طور پر ہفتہ اور اتوار کو جب میں گھر پر ہوتا ہوں، بجلی کی بندش اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس مسلسل حقیقت سے انکار اور جوابدہی کی کمی کا یہی رویہ ظاہر کرتا ہے کہ کیسے ہمارے بزرگ بنیادی ترقی کے معیارات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

اور، اس پر سونے پہ سہاگہ

مجھے میری اپنی سگی ماں کی جانب سے ایسے غیر منطقی اور سطحی مشورے دیے جا رہے ہیں کہ ایک سولر شیٹ ہی لگوا لو۔ پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ کیا گھر میں کمانے والے افراد موجود ہیں؟ بجائے اصل مسائل کو حل کرنے کے، ایسے غیر سنجیدہ مشورے دیے جا رہے ہیں کہ "سولر شیٹ لگوا لو" یا "قرض لے لو"۔ سوال یہ ہے کہ قرض کو ادا کون کرے گا؟ یہ غیر سنجیدگی کی انتہا ہے!

یہ ہمارے بڑے ہیں، جنہیں مستقبل کی کوئی فکر نہیں، بس آج کسی نہ کسی طرح سہولت حاصل کرنی ہے، اور کل کے مسائل مرتضیٰ خود دیکھ لے گا۔ آج جو مشکلات پیدا کر دی جا رہی ہیں، وہ مستقبل میں میرے لیے ویسی ہی خطرناک صورتحال کھڑی کر دیں گی، جیسے فلم Interstellar میں کوپر اور برینڈ کے ساتھ ہوا تھا، جب وہ Waterworld پہنچے تو پہلے پانی دیکھ کر خوش ہوئے، مگر اگلے ہی لمحے دیو قامت لہروں نے انہیں تباہی کے قریب پہنچا دیا تھا۔

میرے اپنے والدین بھی بالکل یہی رویہ اپنا رہے ہیں۔ لیکن معذرت کے ساتھ، ہمارے معاشرتی حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ یہاں حقیقت بیان کرنے والا شخص ہی ولن بن جاتا ہے۔ اور اگر یہی حقیقت ہے تو میں خود کو ولن کے طور پر دیکھنے کو تیار ہوں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ میرے لیے معاملات نہایت پیچیدہ اور مشکل بنا دیے گئے ہیں، مگر میں پھر بھی اپنے مؤقف پر مضبوطی سے قائم ہوں۔ جس صورتحال میں مجھے ڈالا جا رہا ہے، اس میں مجھے اپنی زندگی کے فیصلے خود ہی کرنے ہوں گے۔ میں یہ سمجھ چکا ہوں کہ وہ وقت گزر گیا جب والدین پر اندھا اعتماد کیا جا سکتا تھا۔ موجودہ حالات میں تو ان پر بھی بھروسہ کرنے کے بجائے ایک خوف سا محسوس ہوتا ہے، کہ کہیں ان کی کوتاہ نظری میرے مستقبل کو مزید نقصان نہ پہنچا دے۔



کے الیکٹرک کی نااہلی اور استحصالی ہتھکنڈے



اب ان کے رویے پر اور کیا بات کروں؟ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے کے الیکٹرک اپنے ذاتی مفادات کے تحت اپنی سولر شیٹس کو فروغ دینے کے لیے روایتی بجلی کے نظام کو جان بوجھ کر بدنام کر رہا ہو، تاکہ صارفین کو مجبوراً ان کے مہنگے متبادل ذرائع اپنانے پڑیں۔

میری آنکھوں کے سامنے حقیقت واضح ہے۔ صبح 7:35 کا وقت میٹر پر دکھایا جا رہا ہے، مگر 7:15 پر بھی، جب میں دفتر جانے کے لیے بیدار ہوتا تھا، بجلی غائب ہوتی تھی۔ یہ محض ایک بار نہیں، بلکہ مسلسل ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے جس نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ ورنہ شاید میں بھی ان بڑی عمر کے لوگوں کی طرح خاموشی کا روزہ رکھ لیتا اور ہر زیادتی کو تقدیر مان کر برداشت کرتا رہتا۔

لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے!

میں 13,000 سے 14,000 روپے ماہانہ ادا کر رہا ہوں، اور اس کے بدلے میں کیا مل رہا ہے؟ غیر معیاری سروس، بلاجواز لوڈشیڈنگ اور مسلسل استحصال۔ یہ صورتحال نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ ایک منصوبہ بند استحصال کا نتیجہ بھی نظر آتی ہے جہاں صارفین کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔

یہ رویہ ناقابل قبول ہے اور اس پر سوال اٹھانا ہر ذمہ دار شہری کا فرض بنتا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کے الیکٹرک نے سہولت دینے کے بجائے ایک نیا کاروباری ماڈل بنا لیا ہے، جہاں صارفین کی مشکلات کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے۔ بار بار بجلی کی بندش، غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور مہنگے بلوں کا تسلسل، ایک ایسے نظام کی نشاندہی کرتا ہے جو مکمل طور پر صارف دشمن بن چکا ہے۔

ایک طرف صارفین کو بھاری بھرکم بل بھیجے جا رہے ہیں اور دوسری جانب بنیادی سہولت سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ جب سوال اٹھایا جائے تو جواب ملتا ہے: "سسٹم اپگریڈ ہو رہا ہے"، یا "گرڈ اسٹیشن میں فالٹ ہے"۔ حقیقت یہ ہے کہ فالٹ نظام میں نہیں، بلکہ انتظامیہ کی نااہلی اور بدنیتی میں ہے۔

یہ سب کچھ جان بوجھ کر صارفین کو ذہنی طور پر جھکا دینے کی ایک چال معلوم ہوتی ہے، تاکہ وہ روایتی بجلی کے بجائے مہنگے متبادل جیسے سولر سسٹمز کی طرف جانے پر مجبور ہو جائیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ادارے عوامی خدمت کے لیے ہیں یا منافع خوری کے؟

ہم، بطور شہری، یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ:

  1. ادائیگی کے باوجود معیاری سروس کیوں نہیں دی جا رہی؟
  2. بجلی کی غیر اعلانیہ بندش کی ذمہ داری کون قبول کرے گا؟
  3. حسابات میں شفافیت کیوں نہیں؟

وقت آ گیا ہے کہ عوام اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں۔ بجلی کی بندش کوئی فطری آفت نہیں بلکہ ایک بدانتظامی اور استحصال کی پالیسی ہے۔ جب تک ہم سوال اٹھاتے رہیں گے اور جواب طلب کرتے رہیں گے، ان اداروں کو اپنی روش بدلنی پڑے گی۔

یہ خاموشی توڑنے کا وقت ہے۔ حقوق کا مطالبہ کرنے کا وقت ہے۔ انصاف کے لیے آواز بلند کرنے کا وقت ہے۔



Unmasking Men's Issues: Lessons from the Atul Subhash Case – A Critical Analysis by Dhruv Rathee

یہ ویڈیو معاشرتی دباؤ اور ناانصافیوں پر روشنی ڈالتی ہے جو خاص طور پر شادی کے بعد مردوں کو درپیش ہوتی ہیں۔ ویڈیو میں دفعہ 498A جیسے قوانین کے غلط استعمال کو اجاگر کیا گیا ہے جو ازدواجی تنازعات میں مردوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کا باعث بنتے ہیں۔ مردوں کے مسائل، جو اکثر انتہا پسند صنفی نظریات کی وجہ سے نظرانداز ہو جاتے ہیں، کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، جن میں پدری دھوکہ دہی (paternity fraud) ، بچوں کی حوالگی کے مسائل، اور مردوں کے ساتھ زیادتی جیسے معاملات شامل ہیں، جو سماج میں ایک داغ بن چکے ہیں۔
ویڈیو میں مزید مردوں کی ذہنی صحت، ڈپریشن، اور کیرئیر کے انتخاب میں درپیش مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے، جس میں تدریس اور نرسنگ جیسے شعبوں میں مردوں کی شرکت کو تنقید کا نشانہ بنایا جانا شامل ہے۔ اسی طرح گھر سنبھالنے والے مردوں کے کردار کو بھی معاشرتی بدنامی کا سامنا ہے۔ اختتام میں، ویڈیو ایک مضبوط پیغام دیتی ہے کہ صنفی مسائل کو حل کرنے کے لیے یکجہتی اور باہمی سمجھ بوجھ ضروری ہے۔ اعتماد اور ہم آہنگی ہی صحت مند تعلقات کی بنیاد ہے، اور ان مسائل پر متوازن گفتگو ہی معاشرتی انصاف کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ مردوں کو بے روزگاری کے باعث بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ان کی ڈیٹنگ اور شادی کے امکانات کو متاثر کرتا ہے۔ بے روزگاری، خاص طور پر مردوں کے لیے، ایک سنگین سماجی داغ سمجھا جاتا ہے جو ڈیٹنگ اور شادی میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ معاشرتی توقع یہ ہے کہ ایک مرد کا ملازمت یافتہ ہونا ضروری ہے، اور اس پر مزید دباؤ یہ ڈالا جاتا ہے کہ اسے معقول آمدنی بھی کمانا ہوگی تاکہ اسے رشتے کے قابل سمجھا جائے۔ اس بدنامی کے اثرات ذاتی زندگی میں بھی گہرے ہیں، جہاں تنہا رہنا بعض اوقات رد یا تنقید کا سامنا کرنے سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ مزید برآں، طلاق کے بعد مردوں کو اپنے بچوں تک رسائی میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے، کیونکہ اکثر انہیں بچوں سے ملنے کے حقوق نہیں دیے جاتے، جو والد کی حیثیت سے ان کے کردار کو کمتر سمجھنے کے سماجی رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ اتول سوبھاش کیس نے ان سنگین مسائل پر وسیع پیمانے پر بحث چھیڑ دی ہے، جس نے مردوں کو درپیش چیلنجز اور سماجی توقعات کے دباؤ کو نمایاں کیا ہے۔ یہ جاری گفتگو اس بات کی شدت سے نشاندہی کرتی ہے کہ مردوں کی بے روزگاری اور والدین کے حقوق کے گرد موجود بدنامی کو ختم کرنے کے لیے فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اتول سوبھاش کیس نے مرکزی دھارے میں مردوں کے مسائل کو نمایاں کیا اتول سوبھاش کا چونکا دینے والا کیس مرکزی دھارے میں مردوں کے مسائل پر اہم بحث کا باعث بنا ہے۔ جیسے ہی یہ کیس عوام کی توجہ کا مرکز بنا، اس نے ایک ناقص قانونی اور عدالتی نظام میں مردوں کو درپیش مشکلات کو اجاگر کیا، جسے حکومتی ڈھانچے میں بدعنوانی نے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بہت سی آوازیں سامنے آئیں جو مردوں کے ساتھ ہونے والے نظامی جبر پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں، خاص طور پر انصاف میں تاخیر اور بھارتی تعزیرات ہند کی دفعہ 498A سے منسلک مشکلات پر زور دیا گیا ہے۔ یہ کیس کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں بلکہ ایک وسیع تر مسئلے کی عکاسی کرتا ہے، جسے معاشرے میں مردوں کے حقوق اور ان کے ساتھ ہونے والے سلوک کے حوالے سے سنجیدہ مکالمے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بحث کے گرد ماحول خاصا جذباتی ہے، کیونکہ لوگ ان مسائل پر اصلاحات اور بڑھتی ہوئی آگاہی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ صنفی مسائل کی پیچیدگیوں کو اب سنجیدگی سے تسلیم کیا جا رہا ہے۔ دفعہ 498A کا ازدواجی تنازعات میں اکثر غلط استعمال، مردوں کے ساتھ ناانصافی کا سبب بنتا ہے بحث کا مرکز بھارتی تعزیرات ہند کی دفعہ 498A کے پیچیدہ پہلو اور اس کے ازدواجی تنازعات میں غلط استعمال کے گرد گھومتا ہے۔ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ مسئلہ سطحی مکالمے سے کہیں زیادہ گہرا ہے، جہاں عموماً صرف میاں بیوی کے تعلقات تک بات محدود رہتی ہے۔ اگرچہ گھریلو تشدد پر کافی گفتگو ہوتی ہے، لیکن دفعہ 498A کو اکثر طلاق کے معاملات میں ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں مردوں کو شدید نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ صورتحال اس قدر سنگین ہو چکی ہے کہ اعلیٰ عدالتی سطح پر بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ دو سال قبل، بھارتی سپریم کورٹ نے دفعہ 498A کے غلط استعمال کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ یہ قانون، جو اصل میں خواتین کو گھریلو تشدد سے بچانے کے لیے بنایا گیا تھا، اب ایسے تشویشناک ماحول کو جنم دے رہا ہے جہاں اسے ازدواجی تنازعات میں بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اصل متاثرین کی آواز دب جاتی ہے اور حقیقی مسائل پسِ پردہ چلے جاتے ہیں، جو انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔ [00:00:00 - 00:02:06]
 شادی کے بعد مردوں کو درپیش سماجی دباؤ اور چیلنجز کا تعارف۔ -
[00:00:00] مردوں کو بے روزگاری کے باعث بدنامی کا سامنا، جو ان کی ڈیٹنگ اور شادی کے امکانات کو متاثر کرتا ہے۔ -
[00:00:27] اتول سوبھاش کیس نے مرکزی دھارے میں مردوں کے مسائل کو اجاگر کیا۔ -
[00:00:58] دفعہ 498A کا ازدواجی تنازعات میں اکثر غلط استعمال کیا جاتا ہے، جو مردوں کے ساتھ ناانصافی کا سبب بنتا ہے۔ -
[00:01:26] ذاتی دشمنیوں کو نمٹانے کے لیے دفعہ 498A کے غلط استعمال کی نشاندہی خود سپریم کورٹ نے بھی کی۔
[00:00:00 - 00:02:06] شادی کے بعد مردوں کو درپیش سماجی دباؤ اور چیلنجز کا تعارف۔ -
[00:00:00] مردوں کو بے روزگاری کے باعث بدنامی کا سامنا، جو ان کی ڈیٹنگ اور شادی کے امکانات کو متاثر کرتا ہے۔ -
[00:00:27] اتول سوبھاش کیس نے مرکزی دھارے میں مردوں کے مسائل کو اجاگر کیا۔ -
[00:00:58] دفعہ 498A کا ازدواجی تنازعات میں اکثر غلط استعمال کیا جاتا ہے، جو مردوں کے ساتھ ناانصافی کا سبب بنتا ہے۔ -
[00:01:26] ذاتی دشمنیوں کو نمٹانے کے لیے دفعہ 498A کے غلط استعمال کی نشاندہی خود سپریم کورٹ نے بھی کی۔
[00:04:14 - 00:07:14] ویڈیو میں مردوں کے مسائل پر گہرے اور سنجیدہ مباحثے کیے گئے ہیں۔ -
[00:04:14] مردوں کے مسائل اکثر دونوں اصناف کے انتہا پسندانہ نظریات کی وجہ سے نظرانداز ہو جاتے ہیں۔ -
[00:04:48] دھروو راتی اکیڈمی پروڈکٹیوٹی اور مواد کی تخلیق پر رعایتی کورسز پیش کرتی ہے۔ -
[00:06:04] فیمنزم برابری کے حقوق کے بارے میں ہے، مردوں کے خلاف نہیں۔ -
[00:06:44] پدرشاہی نظام مردوں کو جذباتی اظہار میں محدود کر کے ان کی انسانیت کو مجروح کرتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے خواتین کے مسائل میں ہوتا ہے۔
[00:07:15 - 00:10:04] ویڈیو میں مردوں کے مخصوص مسائل جیسے پدری دھوکہ دہی اور بچوں کی حوالگی کے معاملات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ -
[00:07:15] پدری دھوکہ دہی اور اس کے حوالے سے معاشرتی رویے مردوں کے لیے سنگین مسائل پیدا کرتے ہیں۔ -
[00:07:36] بچوں کی حوالگی کے معاملات میں اکثر ماؤں کو ترجیح دی جاتی ہے، جس سے باپوں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ -
[00:08:17] مردوں کے ساتھ زیادتی اور اس سے جڑے سماجی داغ کو بہت کم رپورٹ کیا جاتا ہے۔ -
[00:09:23] مردوں کے ساتھ زیادتی کے قانونی پیچیدگیوں پر بات کی گئی ہے، جس میں حفاظتی نظام کی خامیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
[00:10:05 - 00:15:44] مردوں میں ڈپریشن، سماجی توقعات اور کیریئر سے جڑے تعصبات پر گفتگو۔ -
[00:10:05] لڑکوں کو بچپن سے نرم جذبات سے دور رہنے کی تربیت دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں جذباتی دباؤ پیدا ہوتا ہے۔ -
[00:11:25] دوستی کے تعلقات مردوں اور عورتوں میں مختلف ہوتے ہیں، جس سے جذباتی سہارا ملنے میں فرق آتا ہے۔ -
[00:12:51] مردوں میں خودکشی کی شرح زیادہ ہے، مگر ان میں ڈپریشن کو کم پہچانا جاتا ہے۔ -
[00:15:18] مردوں میں ڈپریشن کی علامات مختلف انداز میں ظاہر ہوتی ہیں، جو اکثر نشے کی لت جیسے مسائل کا سبب بنتی ہیں۔
[00:15:45 - 00:22:44] کیریئر سے جڑے تعصبات اور سماجی توقعات جو مردوں کو متاثر کرتی ہیں، کا جائزہ۔ -
[00:15:45] کچھ کیریئر مردوں کے لیے تعصبات کا شکار ہیں، جو ان کے کیریئر کے انتخاب کو متاثر کرتے ہیں۔ -
[00:17:07] پری اسکول تدریس اور نرسنگ میں مردوں کی کم شرکت ہوتی ہے کیونکہ ان شعبوں کو روایتی طور پر خواتین کے شعبے سمجھا جاتا ہے۔ -
[00:19:27] مردوں کو ابتدائی تعلیم کے شعبوں میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، مگر وہ بچوں کی نشونما پر مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔ -
[00:21:02] مردوں کی بے روزگاری شادی کے امکانات پر اثرانداز ہوتی ہے؛ معاشرتی توقعات کے مطابق انہیں کمائی کے حوالے سے زیادہ دباؤ ہوتا ہے۔
[00:22:45 - 00:25:42] مردوں کے لیے گھریلو کام کرنے والے کے طور پر سماجی آراء اور جڑے ہوئے تعصبات کا جائزہ۔ -
[00:22:45] مردوں کو گھریلو کام کرنے والے کے طور پر انتخاب کرنے پر بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب کہ خواتین کے لیے ایسا نہیں ہوتا۔ -
[00:23:39] جان لینن ایک مثال ہیں کہ ایک مرد نے مکمل وقت کا والد بننے کا انتخاب کیا۔ -
[00:24:41] گھریلو کام کرنے والے کرداروں کو عزت دینی چاہیے اور انہیں جنس کی تفریق کے بغیر منتخب کیا جانا چاہیے۔ -
[00:25:24] مردوں اور خواتین کے مسائل آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور ان کے حل کے لیے اجتماعی کوششیں ضروری ہیں۔
[00:25:43 - 00:28:09] صنفی مسائل کے حل کے لیے یکجہتی کی اپیل کے ساتھ اختتام۔ -
[00:25:43] صنفی مساوات کو الزام تراشی کا کھیل نہیں بننا چاہیے؛ تعاون سب سے اہم ہے۔ -
[00:26:26] تعلقات اعتماد اور ہم آہنگی پر مبنی ہونے چاہئیں، نہ کہ سطحی اقدار پر۔ -
[00:27:20] قانونی نظام میں نظامی مسائل موجود ہیں، جنہیں حل کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ -
[00:27:39] مزید تحقیق کے لیے کورسز اور متعلقہ ویڈیوز کے لنکس فراہم کیے گئے ہیں۔


ہمارے معاشرتی تضاد

مجھے پورا یقین ہے کہ ہم خود ان مسائل کو بڑھا چڑھا کر اپنے اوپر مسلط کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ میری رائے سخت لگے، مگر حقیقت یہی ہے کہ اگر صحیح رہنمائی اور ہدایات پر عمل کیا جائے تو ہمارے یہاں کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو حل نہ ہوسکے۔ مسئلہ ہماری غفلت اور غیر سنجیدہ رویے کا ہے، نہ کہ مسائل کی پیچیدگی کا۔

ہم نے خود ہی ایسا معاشرہ تشکیل کر دیا ہے 

  • جہاں خود کو عقل نہیں، وہاں دوسروں کے عیب تلاش کر کے خود کو برتر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
  • ایجوکیشن کے نام پر محض رٹہ سسٹم کو فروغ دیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں ذہنی طور پر مفلوج افراد (Zombies) تیار کیے جا رہے ہیں، جن کی عالمی سطح پر کوئی اہمیت نہیں۔
  • اگر واقعی اتنے لوگ پاکستان سے بیرون ملک جا رہے ہیں تو وہ عالمی سطح پر کیوں نمایاں نہیں؟ دبئی یا سعودی عرب کے علاوہ دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ان کی نمائندگی کیوں نہیں؟ کیا ہم نے ان کی تعلیم اس معیار کی دی ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنی شناخت بنا سکیں؟
  • کیا ہمارے معاشرے میں تعلیم و تربیت کے عمل کو مؤثر اور مثبت انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے؟
  • کیا ہم نے سیکھنے اور سکھانے کے ایسے مواقع پیدا کیے ہیں جہاں باہمی تعاون (Collaboration) کو فروغ دیا جاتا ہو اور اجتماعی ترقی کو ممکن بنایا جائے؟
  • کیا ہمارا تعلیمی نظام محض نمبر لینے تک محدود ہو چکا ہے، یا واقعی میں تخلیقی سوچ اور عملی مہارتوں کو فروغ دیتا ہے؟
  • کیا ہم اپنے نوجوانوں کو صرف ڈگری کے پیچھے بھگانے کے بجائے اصل زندگی کی مہارتیں سکھا رہے ہیں؟
  • کیا سیکھنے اور سکھانے کے عمل میں تنقیدی سوچ اور سوال کرنے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے؟
  • ہمارے ادارے کیا واقعی قابلیت اور محنت کی بنیاد پر افراد کو آگے بڑھا رہے ہیں یا محض سفارشی اور خوشامدی کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے؟
  • کیا ہم نے اپنی اخلاقی اقدار اور سماجی شعور کو تعلیمی نظام کا لازمی حصہ بنایا ہے یا صرف کتابی تعلیم تک محدود کر دیا ہے؟
  • کیا ہمارے تعلیمی ادارے طلبہ کو عالمی معیار کے مطابق تیار کر رہے ہیں یا محض ڈگریاں بانٹنے کے مراکز بن چکے ہیں؟
  • کیا ہم اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار خود کو سمجھتے ہیں یا دوسروں پر الزام تراشی کو ترجیح دیتے ہیں؟
  • کیا واقعی ہم نے تعلیم کو ایک تبدیلی کا ذریعہ بنایا ہے یا اسے کاروبار بنا کر رکھ دیا ہے؟

ہم "صحیح" ہیں!

یہ ذہنیت نے ہماری عقل اور سمجھ بوجھ کو سلب کر لیا ہے۔ انسان ہمیشہ ارتقاء کرتا آیا ہے، لیکن آج جس اخلاقی پستی میں ہم گر چکے ہیں، وہ اس لیے ہے کہ ہم نے ترقی پر فل اسٹاپ لگا دیا ہے اور اپنے آپ کو یہ سمجھ کر مطمئن ہو گئے ہیں کہ ہم ہمیشہ درست ہیں۔

تم بھی تو یہی بات کررہے ہو!

میں نے یہاں "کولیبریشن" کا لفظ استعمال کیا ہے، جسے ہماری رٹہ بازی کی صلاحیتیں نہیں سمجھ سکتیں۔ اب میں یہاں کولیبریشن کی تعریف نہیں بتاؤں گا، کیونکہ ہم نے پہلے ہی اس کا بیڑہ غرق کر دیا ہے، منہ کے سامنے دے کر۔ ہم اسلام کے سوداگر بنے پھرتے ہیں، حالانکہ اسلام نے ہمیں یہ نہیں سکھایا کہ اپنا گریبان چھوڑ کر دوسروں کو دیکھتے رہیں۔ یہ یہودیوں کی روش تھی، جسے ہم نے اپنالیا ہے۔ دونوں طریقوں میں بہت فرق ہے (اور یہ دونوں طریقے کیا ہیں، خود ہی سمجھ لو)۔ مگر اس میں ایک اور بات ہے کہ ہمارے اندر سمجھ بوجھ کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے ہم ان دونوں پہلوؤں میں فرق نہیں کر پاتے۔

بچوں کو کیا بنا رہے ہیں، صرف اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے

ہوسکتا ہے کہ میں یہاں غلط ہوں، مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک احساس کمتری کی قسم ہے۔ جب ہمارے بزرگ اس پوزیشن پر پہنچتے ہیں جہاں فیصلہ سازی ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے، تو اللہ نے انہیں یہ حکم دیا ہے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ لیکن کیا بحیثیت معاشرہ ہم میں سے کوئی بھی اپنی ذمہ داری نبھا رہا ہے؟

یہ صورتحال مشکل لگ سکتی ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ ذمہ داری ایک مشترکہ کوشش ہے۔ تبدیلی ہمارے اندر سے شروع ہوتی ہے، اور صرف باہمی سمجھوتے اور مشترکہ جوابدہی کے ذریعے ہی ہم ترقی کرسکتے ہیں۔ ہم سب کا کردار ہے ایک بہتر مستقبل کی تشکیل میں، اور صرف تعاون اور خود احتساب کے ذریعے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔

بلاگ میں مزید دیکھیں

You might like

$results={5}