Search me

ICC Champions Trophy - and Pakistani media

پاکستان کا آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں پروڈکٹ پلیسمنٹ: بھارت کی مزاحمت اور ہمارا کھویا ہوا موقع پاکستان کو 2025 میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کی ذمہ داری ملی تو یہ ہمارے ملک کے لیے ایک بڑے اعزاز کی بات تھی۔ 1996 کے بعد یہ پہلا آئی سی سی ٹورنامنٹ تھا جو پاکستانی سرزمین پر منعقد ہونے جا رہا تھا۔ لیکن بھارت کی جانب سے پاکستان کا سفر نہ کرنے کے اعلان نے نہ صرف ہمارے منصوبوں کو دھچکا پہنچایا بلکہ اس موقع کو بہترین طریقے سے استعمال کرنے کا بھی ایک موقع کھو دیا۔
بھارت کا انکار اور اس کے اثرات بھارت کی کرکٹ ٹیم کا پاکستان کا سفر کرنے سے انکار، سرکاری طور پر سیکیورٹی خدشات کی بنا پر تھا، لیکن اس کے پس پردہ کئی سیاسی وجوہات بھی تھیں۔ اس انکار نے ہمیں نہ صرف عالمی سطح پر خجالت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ہماری معیشت اور کرکٹ کی دنیا میں ہماری ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا۔
پروڈکٹ پلیسمنٹ کا موقع آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی جیسے بڑے ایونٹ میں پروڈکٹ پلیسمنٹ ایک بہترین موقع ہوتا ہے جس کے ذریعے ملک کی معیشت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اس ایونٹ کے دوران مختلف برانڈز کو دنیا بھر میں دکھانے کا موقع ملتا ہے، جو ہمارے مقامی کاروبار اور معیشت کو مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا تھا۔

پروڈکٹ پلیسمنٹ کے فوائد 

1.مقامی مصنوعات کی عالمی مارکیٹنگ: چیمپئنز ٹرافی میں مقامی برانڈز کی تشہیر کرنے سے نہ صرف ان کی عالمی سطح پر پہچان بڑھتی بلکہ ہماری معیشت کو بھی فائدہ پہنچتا۔
2. سیاحت کا فروغ: اس ایونٹ کے دوران پاکستان کی خوبصورتی، ثقافت اور سیاحتی مقامات کی تشہیر سے ملک میں سیاحت کو فروغ مل سکتا تھا۔
3. اسپانسرشپ ڈیلز: مقامی اور بین الاقوامی اسپانسرز کے ساتھ معاہدے کرنے سے نہ صرف مالی فوائد حاصل ہوتے بلکہ مستقبل کے لیے بھی مضبوط بنیاد رکھی جا سکتی تھی۔

کیا کیا جا سکتا تھا؟

میڈیا کے ذریعے جواب ہمیں اپنے میڈیا کا بہتر استعمال کرتے ہوئے عالمی سطح پر بھارت کی مزاحمت کے خلاف اپنا موقف واضح کرنا چاہیے تھا۔ بھارتی میڈیا نے اپنے بیانیے کو مضبوطی سے پیش کیا، جبکہ ہمیں بھی چاہیے تھا کہ ہم عالمی میڈیا کے ذریعے اپنی سیکیورٹی اقدامات اور پاکستان کی امن و امان کی صورتحال کو صحیح طریقے سے پیش کرتے۔

پروڈکٹ پلیسمنٹ کی حکمت عملی

1. مقامی برانڈز کی شراکت داری: ہمیں مقامی برانڈز کو آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے دوران اسپانسرشپ کے مواقع فراہم کرنے چاہیے تھے، تاکہ وہ اپنی مصنوعات کو عالمی سطح پر پیش کر سکیں۔
2. بین الاقوامی برانڈز کی شراکت داری: ہمیں بین الاقوامی برانڈز کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دینی چاہیے تھی، تاکہ وہ ہمارے ملک میں اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کر سکیں۔
3.ٹیکنالوجی کا استعمال: ہمیں ٹیکنالوجی کے ذریعے پروڈکٹ پلیسمنٹ کو موثر بنانا چاہیے تھا، جیسے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، ویڈیو مارکیٹنگ، اور آن لائن تشہیر کے ذریعے۔
سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر کرنا ہمیں اپنی سیکیورٹی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہیے تھے، تاکہ دنیا کو یہ یقین دلا سکیں کہ پاکستان ایک محفوظ ملک ہے اور یہاں بین الاقوامی ایونٹس کا انعقاد ممکن ہے۔
آگے کا راستہ بھارت کی مزاحمت کے باوجود، ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ ہمیں اپنی کرکٹ کی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے مزید محنت کرنی چاہیے اور بین الاقوامی ایونٹس کی میزبانی کے مواقع کو بہتر طریقے سے استعمال کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی مقامی مصنوعات کو عالمی سطح پر پیش کرنے کے لیے مضبوط حکمت عملی اپنانی چاہیے اور میڈیا کو موثر طریقے سے استعمال کرنا چاہیے۔
نتیجہ پاکستان کے پاس آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کے ذریعے عالمی سطح پر اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کا سنہری موقع تھا، لیکن بھارت کی مزاحمت اور ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہم اس موقع کو بھرپور طریقے سے استعمال نہ کر سکے۔ ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے مستقبل میں بہتر منصوبہ بندی کرنی چاہیے، تاکہ ہم اپنے ملک کو عالمی سطح پر پیش کر سکیں اور ہماری معیشت اور کرکٹ کی دنیا میں ہماری ساکھ کو مضبوط بنا سکیں۔ 




I can be contacted on my handler
Responsive advertisement
Best WordPress Hosting

Meherbano controversy

مہربانو: بولڈ ڈانس ویڈیوز کی وجہ سے تنقید کا سامنا

پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی معروف اداکارہ مہربانو، جو کہ "میرے ہم نشین"، "بلا"، "میرے پاس تم ہو"، "چڑیلز" اور "ٹکسالی گیٹ" جیسے مشہور ڈراموں میں اپنی بہترین اداکاری سے شہرت حاصل کر چکی ہیں، ان دنوں سوشل میڈیا پر اپنی بولڈ ڈانس ویڈیوز کی وجہ سے خبروں میں ہیں۔ ان ویڈیوز میں ان کے لباس کو نا مناسب قرار دیتے ہوئے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

شادی اور اسکرین سے دوری

مہربانو نے ہدایت کار اور پروڈیوسر شہروز کاظم علی سے شادی کی ہے، جس کے بعد سے وہ ٹی وی اسکرین سے غائب ہیں لیکن سوشل میڈیا پر بہت ایکٹیو ہیں۔ شادی کے بعد بھی انہوں نے اپنے فن اور شوق کو جاری رکھا اور اکثر اپنی ڈانس ویڈیوز انسٹاگرام پر شیئر کرتی رہتی ہیں۔

ڈانس کا شوق اور تنقید

مہربانو کو ڈانس کا شوق ہے اور اس شوق کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے باقاعدہ ڈانس کلاسز بھی لی ہیں۔ ان کی حالیہ ڈانس ویڈیوز میں انہیں آف وائٹ شارٹس کے ساتھ گرین ٹینک ٹاپ میں دیکھا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

ان کی حالیہ ویڈیو کو مداحوں کی جانب سے پسند نہیں کیا گیا۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ مہربانو ہمیشہ ایک ہی طرح کے ڈانس مووز پیش کرتی ہیں اور ان کا لباس بہت بولڈ ہوتا ہے، جو نا مناسب ہے۔

ہماری رائے

کسی بھی فنکار کے لیے تنقید کا سامنا کرنا نیا نہیں ہے۔ یہ ہر فنکار کی زندگی کا حصہ ہے کہ ان کے کام کو سراہا بھی جائے گا اور تنقید بھی کی جائے گی۔ جہاں تک مہربانو کی بات ہے، انہیں اپنے فن اور شوق کو جاری رکھنے کا پورا حق ہے۔ امید ہے کہ مستقبل میں وہ اپنی ڈانس ویڈیوز کے ساتھ ساتھ دیگر پروجیکٹس میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کریں گی اور اپنے مداحوں کے دل جیتتی رہیں گی۔






I can be contacted on my handler
Responsive advertisement
Best WordPress Hosting

When people closer to you are the first to hurt you
















feel free to support me via Dominance Pakistan

Support me on my ARTMO refers

I can be contacted on my handler
Responsive advertisement
Best WordPress Hosting

Instant and Delayed gratification

فوری تسکین اور تاخیری تسکین خواہشات کو پورا کرنے یا اہداف کے حصول کے لیے دو متضاد نقطہ نظر ہیں، ہر ایک کے اپنے اپنے نتائج اور ہماری سوچ کے نمونوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ فوری تسکین سے مراد طویل مدتی نتائج پر غور کیے بغیر خواہشات کی فوری تسکین ہے۔ اس میں مستقبل کے نتائج کی پرواہ کیے بغیر موجودہ لمحے میں خوشی یا تکمیل کی تلاش شامل ہے۔ مثالوں میں غیر صحت بخش خوراک میں ملوث ہونا، زبردستی خریدنا، یا تاخیر کرنا شامل ہیں۔ دوسری طرف، تاخیر سے تسکین میں مستقبل میں زیادہ انعامات حاصل کرنے کے حق میں فوری خوشی یا انعامات کی قربانی دینا شامل ہے۔ اس کے لیے صبر، نظم و ضبط اور طویل مدتی فوائد کی خاطر قلیل مدت میں تکلیف یا تکلیف کو برداشت کرنے کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثالوں میں پیسہ بچانا، تعلیم حاصل کرنا یا ہنر کی نشوونما کرنا، اور صحت مند طرز زندگی کو برقرار رکھنا شامل ہیں۔ فوری تسکین کا اثر اکثر قلیل مدتی خوشی سے ہوتا ہے لیکن طویل مدت میں منفی نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مالی عدم استحکام، خراب صحت، پیداواری صلاحیت میں کمی اور اہم اہداف کی طرف پیش رفت کی کمی ہو سکتی ہے۔ مزید برآں، یہ فوری انعامات پر عدم برداشت اور انحصار کی ذہنیت کو فروغ دے سکتا ہے، جو ذاتی ترقی اور کامیابی میں رکاوٹ ہے۔ اس کے برعکس، تاخیری تسکین کو اپنانے سے لچک، استقامت اور مقصد پر مبنی رویے جیسی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔ فوری تسکین پر طویل مدتی انعامات کو ترجیح دے کر، افراد اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں زیادہ سے زیادہ تکمیل، کامیابی اور اطمینان کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ یہ تاخیر سے تسکین کی ذہنیت کو پروان چڑھاتا ہے فیصلہ سازی میں بہتری، خود پر قابو پانے اور بااختیار بنانے کے احساس کا باعث بن سکتا ہے۔ ہمارے سوچنے کے نمونے تسکین کی طرف ہمارے رویوں سے گہرے طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ جو لوگ مستقل طور پر فوری تسکین کا انتخاب کرتے ہیں وہ تسلسل پر قابو پانے، اہداف کے تعین اور حصول میں دشواری اور طویل مدتی کامیابی پر مختصر مدت کی خوشی کو ترجیح دینے کے رجحان کے ساتھ جدوجہد کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، وہ افراد جو تاخیر سے تسکین کی مشق کرتے ہیں وہ زیادہ خود نظم و ضبط، اسٹریٹجک منصوبہ بندی، اور بامعنی مقاصد کے حصول میں وقت اور محنت لگانے کی خواہش کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تاخیری تسکین کی اہمیت کو سمجھنا ذاتی ترقی اور طویل مدتی کامیابی کے حصول کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے صبر، نظم و ضبط، اور زندگی کے چیلنجوں کو نیویگیٹ کرنے اور اپنی پوری صلاحیت کو سمجھنے میں تاخیر سے ملنے والے انعامات کی قدر کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاخیری تسکین کو ترجیح دے کر، افراد رکاوٹوں پر قابو پا سکتے ہیں، باخبر فیصلے کر سکتے ہیں، اور زندگی کی تکمیل اور بامقصد رفتار پیدا کر سکتے ہیں۔ آخر میں، جب کہ فوری تسکین فوری طور پر اطمینان فراہم کرتی ہے، یہ اکثر طویل مدتی ترقی اور تکمیل کی قیمت پر آتی ہے۔ دوسری طرف تاخیری تسکین کو اپنانے کے لیے صبر اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ مستقبل میں زیادہ انعامات اور کامیابی کا باعث بنتا ہے۔ تاخیر سے تسکین کی ذہنیت کو اپنانے سے، افراد لچک پیدا کر سکتے ہیں، اپنے اہداف حاصل کر سکتے ہیں، اور زیادہ بھرپور زندگی گزار سکتے ہیں۔





I can be contacted on my handler
Responsive advertisement
Best WordPress Hosting

صرف اور صرف رمضان کا با برکت مہینہ ہی کیوں؟

میں یہاں بغیر کسی بکواس کے صرف ایک بات کہوں گا، کہ کیونکر پاکستان میں مذہب کو ایسا مذاق بنایا جارہا ہے؟ مانتا ہوں کہ رمضان ہمارے لئے قدرے اہمیت کے حامل مہینہ ہے، مگر ایک مستقل مزاجی کے تناظر میں بات کروں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک حلقے میں ۳۰ دن کا روزہ جبکہ پاکستان میں ۲۹ دن کا روزہ، اور یہ بیماری اگر چہ ہے تو صرف رمضان کے مہینہ میں کیونکر ابھرتی ہے؟ 
جبکہ بھارت، بانگلادیش میں عید پرسوں ہوگی، تو یہ کیسے ممکن ہے، کہ صرف رمضان کے مہینے میں چاند کو ایسا کنٹرورشل بنایا جارہا ہے، اگر بڑی پکچر میں دیکھیں تو پاکستان اسلام سے ہے، اسلام پاکستان سے نہیں، ہمیں اپنی حیثیت یاد رکھنی چاہئے، کیا عید منانے میں اتنے اتاولے ہوگئے ہیں، کہ بقایا ۹ مہینوں میں اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے، کہ کونسا مہینہ ۲۹ کا ہے، اور کتنے ۳۰ کے، اس کا حساب صرف وہ لوگ رکھتے ہوں گے، جن کے گھروں میں گیارہویں شریف منائی جاتی ہے، تو ایسے میں ایسے کنٹرورشل مہینوں بنایا جارہا ہے۔

In the long run 

یہ میرا ذاتی ذاویہ ہے، جہاں مذہب کو سائیڈ لائن کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، اور ایک منظم کوشش کے تحط لوگوں کو مذہب سے detract کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس وقت جو millinials ہیں، وہاں تک تو بات صحیح ہے، مگر اصل بات وہاں سے کھڑی ہوتی ہے، جب آج کی Gen Z جب شوہر بیوی اور رشتہ اجدواج میں ملبوس ہوجائیں گے، تو جب یہ چھوٹی سوچ والی جنریشن سے کھل کر manupulation کری جارہی ہے، کیونکہ یہ جنریشن بہت جلدی manupulated ہوتی ہے، کیونکہ یہ لوگ بہت شارٹ سائیٹڈ ہوتے ہیں، bigger picture دیکھنے کی ان کی قابلیت نہیں ہے، تو ایسے میں already میں اپنی آنکھوں کے سامنے ہمارے بڑوں کی شارٹ سائیٹڈنس دیکھ رہا ہوں، ایسے میں مزید بڑے ہوجائیں گے، تو برائی مزید پھیلے گی، مگر بحیثیت معاشرہ ہم ویسے بھی برائی کو بُرا بھی تو بالکل نہیں سمجھتے، تو ایسے میں کوئی بعید نہیں کہ آگے مزید برائی بڑھے گی۔





I can be contacted on my handler
Responsive advertisement
Best WordPress Hosting

پاکستان میں الیکشن ۲۰۲۴ کے بعد

ویلکم ٹو پرانا پاکستان

اس بار جب میں اپنا ووٹ دینے اپنے پولنگ اسٹیشن جارہا تھا، اس بار میرے پاس فون نہیں تھا، کیونکہ الیکشنز سے پہلے کراچی میں جو بارشیں ہوئیں تھیں، اس میں بھیگ کر میرے فون کی اسکرین خراب ہوچکی ہے، جس کی وجہ سے میں فون کا کسی بھی طرح سے استعمال نہیں کرپایا، حالانکہ اس بار کافی GEN-Z کیٹیگری موجود تھی، جو الیکشن کا ووٹ ڈالنے کے بعد اسکول کے دروازے کے باہر آتے ہی فون آن کر کے اپنے انگوٹھے کی تصاویر ڈالنے میں مصروف تھے، اور میں ان کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ کاش میرے پاس میرا فون ہوتا۔

اس بار مجھے ۲۰۱۸ کے الیکشن کے مقابلے میں ذیادہ رش دیکھائی سے رہا تھا

کیونکہ پچھلی بار ایک گھنٹے میں واپس گھر آگیا تھا، اور نا صرف یہ بلکہ گھر آنے کے بعد اپنے والد صاحب کو دوبارہ لے کر گیا تھا، جس میں ۵ بجے سے پہلے میں نے دونوں کو نمٹا دیا تھا، جب کہ اس بار مجھے ۱۱ بجے سے ۴ بجے کا ٹائم لگ گیا تھا، میری بیوی کا بھی میرے ساتھ شادی ہونے کے بعد پہلی بار ووٹ تھا، 
مگر صرف رش کو الزام دینا ٹھیک نہیں، بلکہ میں نے اپنے آنکھوں سے دیکھا کہ اسکول کے ایک روم میں ۶،۶ آفیسرز بیٹھے ہوئے تھے، یعنی ۶ جگہ میری بک نمبر، سلسلہ نمبر وغیرہ دیکھا جارہا تھا، مطلب پانچویں اور چھٹے آفیسر سے مجھے بالترتیب صوبائی اور حکومتی پرچا دیا گیا، جس پر ووٹنگ نشانات موجود تھی، یعنی جب میں ووٹ ڈال رہا تھا، تو at the back of my mind میں یہ سوچ رہا تھا، کہ کیا واقعی میں ہم ۲۰۲۴ میں رہ رہے ہیں، جہاں سرحد پار الیکٹرونک ووٹنگ کی جاتی ہے، اور یہاں پرچوں کا جو استعمال دیکھ رہا تھا، جیسے میں نے اسکول کے روم میں دیکھا، ایک آفیسر میرا بک نمبر دیکھ رہا تھا، اس کے بعد دوسرا سلسلہ نمبر، پھر اس کے بعد اگلا بندہ چیک کر کے مجھے go ahead دے رہا تھا، پھر اگلا بندہ صرف انگوٹھے پر نیل پالش لگانے کی مہم پر تھا، پھر اس کے بعد پانچویں اور چھٹے نمبر کے آفیسر تھے جنہوں نے بالترتیب دونوں بیلٹ پیپرز پر میرے left hand thumb لئے گئے، اور پھر وہ بیلٹ پیپر پھاڑ کر مجھے دئے گئے، جس کو لیتے وقت میری صورتحال ایسی تھی جیسے میں نے کراچی چڑیا گھر میں شیر کو ہاتھ لگا لیا ہے، یہ ایک پیراگراف میرے پورے ۴ گھنٹے کی کہانی تھی، ایسے میں، میں جن لڑکوں کے ساتھ کھڑا تھا، وہ بھی یہی کہہ رہے تھے کہ الیکٹرونک بیلیٹنگ کیوں نہیں کرتے؟ کیونکہ میرے ساتھ ایک لڑکا کھڑا تھا، جو ایک سافٹوئیر کمپنی میں ڈیٹا بیس مینجمنٹ کرتا تھا، جبکہ میں اپنے بینک میں Microsoft Excel کے ساتھ tweaks کرنے کا شوقین ہوں، تو میری اس کے ساتھ گپ شپ شروع ہوگئی تھی، تو اس کی گفتگو سے مجھے یہ چیز عیاں ہوئی کہ یہ ایک untapped arena ہے جہاں سے pattern recognition کی جاسکتی ہے، جس کو ہم استعمال نہیں کرتے، جس کی وجہ سے foreign observers  یہ assessment اپنے ملک میں موجود سافٹوئیر ہاؤسز کو بھیجتے ہیں، (یاد ہے Cambridge Analytica 2018) مگر ہم اس untapped opportunity کو tap ہی نہیں کرتے ہیں، تو ایسے میں ہماری معصومیت کا کیا کہنا،

ہمارے بڑوں کو اس بات سے آگے دیکھنے کا موقع ملے

کہ اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کے علاوہ بھی چیزیں ہوتی ہیں، جس طرح آپ اپنے آپ کو بالکل ٹھیک ثابت کرنے میں اخلاقیات کی دھجیاں بنا رہے ہیں، کیونکہ اللہ تعالی جو رب العالمین ہیں (رب الانس، رب المسلمین، رب الپاکستانی، یا پھر رب الوالدین نہیں) کیونکہ اللہ تعالی نے جو کچھ بھی بنایا ہے، جس میں سیارے، سیارچے، سورج، ملکی وے وغیرہ؛ وہ سب ایک proper balance میں بنایا ہے، تو ایسے میں اللہ تعالی ایسے کیسے کرسکتے ہیں، کہ والدین یا بڑوں کو اس طرح کا فری ہینڈ دیا جائے، جس طرح میرے اوپر obligation ہیں، کیا ایسے میں ہمارے بڑوں پر ذمہ داری نہیں؟ میں بڑوں کا دشمن نہیں، نا ہی بد تمیزی کرنا چاہتا ہوں، مگر میں یہی بات کرتا ہوں، کہ جب اللہ تعالی نے آپ کو یہ حق دیا ہے، کہ you'd be eyes and ears for us to view the world by their point-of -view کیا اس حوالے کوئی ذمہ داری نہیں؟


feel free to support me via Dominance Pakistan

Support me on my ARTMO refers

I can be contacted on my handler
Responsive advertisement
Best WordPress Hosting

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting