Search me

Vulgarity vs Fashion in Pakistan

میں عام طور پر اس طرح کے ٹاپک کو اجتناب کرتا ہوں، کیونکہ میں بلاوجہ کا اپنے آپ کو راکھی ساونت نہیں دکھانا چاہتا ہوں، مگر جب ایک پاکستانی ٹی وی چینل کے ایوارڈ شو کی کلپس لیک ہوئی تو اندازہ ہوا دنیا کہاں پہنچ چکی ہے، اور میں کہاں بیٹھا ہوں، ویسے مجھے ۲۰۰۳ میں پاکستانی میڈیا کو دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ کہیں نہ کہیں پاکستان میں بھی یہ چیزیں زور پکڑیں گی، جو کہ ۱۷ سال بعد پاکستان میں ایک reality ہے، بے شک اس کا reaction بہت سخت آیا ہے مگر یاد کریں، پاکستان میں یہی چیز پہلے بھی ہوچکی ہے جب پاکستان میں پہلی پہلی دفعہ عورتوں کے سینیٹری نیپکنز کو introduce کرایا جارہا تھا، تو پہلی بار جتنا reaction آیا تھا، تیسری بار میں سوسائٹی نے accept کرلیا تھا۔ کیونکہ implementation کے دو طریقہ کار ہوتے ہیں، ایک forcefully implement کرائی جاتی ہے اور دوسرے معاملے میں implementation at will ہے، یہاں معاملہ forcefully implementation کا ہے، جہاں یہ بات بھی ماننے کی ہے کہ ۷ بار ایک چیز کو بار بار دکھایا جائے تو آہستہ آہستہ ہمارا ذہن اس تبدیلی کو ماننا اسٹارٹ کردیتا ہے، اور یہی چیز آج پاکستان میں حاوی ہے، کہ بذریعہ زور زبردستی اپنا حکم سر خم منوائیں۔

۲۰۰۳ میں

اگر آپ یہ پکچر اور اسی طرح کی اور پکچرز دیکھیں تو ایک چیز واضع ہوتی ہے کہ ۲۰۰۶ کے فون revolution سے پہلے کے زمانے میں یہ seduction کی  tactics نہیں ہوتی تھی بلکہ اس زمانہ میں ڈوپٹہ کو seduction tools کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اور اسی بناہ پر لڑکی کے لئے لڑکا اور لڑکے کے لئے لڑکی untouchable تھے، مگر اسکی وجہ سے دونوں جنس میں متوازن فرق رکھا جاتا تھا، جو کہ اچھی بات تھی، کیونکہ اس کی وجہ سے عورتوں کو بکاؤ مال کے طور پر نہیں treat کیا جاتا تھا۔ کیونکہ اسی وجہ سے آپ غور کریں ہمارے پاس کے لڑکی لڑکوں میں وہ مچیورٹی نہیں ہے، کیونکہ خود دیکھیں ایک پاکستانی لڑکی جو کراچی میں بیٹھی ہوئی اور ایک پاکستانی لڑکی جو پاکستان سے باہر بیٹھی ہے، دونوں کے ذہنی لیول کو دیکھ لیں فرق صاف ظاہر ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ ہے وہ ہے فلاں ڈھمکانا، مگر چونکہ ہم منافق ہیں، تو یہ بات کی وجہ سے ہم نے پاکستان کو کہاں ۱۹۵۰ میں ویسٹ جرمنی کو loan دیا تھا، اور آج ہم اس پستی میں ہیں۔

۲۰۰۶ کا موبائل ریوولوشن

 ۲۰۰۶ کا موبائل ریوولوشن اس صورتحال میں وہی کام کیا جو سلگتے ہوئے کوئلوں پر پنکھا کرتا ہے، یعنی آگ ذیادہ بھڑکائی بھی نہیں، بلکہ ہلکی پھلکی آگ سلگتے ہوئے رکھی، کیونکہ اس ریوولوشن سے پہلے لیپ ٹاپ کسی کے پاس ہوتا تھا تو دوسرے اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، مگر اس کے بعد موبائل کمپیوٹنگ کا زمانہ آتا ہے، یہاں موبائل سے مراد پورٹی بلیٹی ہے، کیونکہ پہلے جو بھی کام ہوتا تھا گھر پر موجود پی سی، اور پھر وہاں سے Lexar کی یو ایس بی سے آفس کے کمپیوٹر میں ٹرنسفر ہوتا تھا، مگر پھر اس ریوولوشن کے بعد ہر چیز real time میں اپ ڈیٹ ہونے لگی، اور مجھے کچھ کچھ یاد ہے فیس بک نے اسی زمانے میں فیس بک لائیو کا concept کو reveal کیا تھا جو آج ایک common چیز ہے، مگر یہی وہ point in time تھا جہاں سے یہ سب مسائل اسٹارٹ ہوئے، لوگوں کو اپنی احساس کمتری کو satisfy کرنے کے لئے فیس بک لائیو، واٹس ایپ لائیو، اسنیپ چیٹ وغیرہ کی سہولت میسر ہوئی، مگر چونکہ ہماری ذہنی ڈیویلپمنٹ نہیں ہوئی ہے، تو ہم نے اپنے اندر کی ٹھرک پن کو تسکین پہنچانے کے لئے استعمال شروع کردیا، جبکہ دوسری جانب جائیں جو ای سی بی یعنی انگلش کرکٹ بورڈ کا بھی ٹک ٹاک ہینڈلر موجود ہے مگر کیا وہاں ای سی بی کے ماتحت کرکٹرز کیا لندن کی لڑکیوں کی ٹھرک پن کی تسکین پہنچاتے ہیں؟؟؟ بات سوچ کی ہے۔ دنیا کو ہم کیا بتا رہے ہیں، کہ پاکستان یہ ہے، سوشلی ہم اتنے ٹھرکی ہیں۔۔۔ شرم کا مقام ہے ہمارے لئے دو وجہ سے، ایک تو ٹھرک پن دوسرا کس طرح پاکستان کو دنیا بھر میں ٹھرکی دیکھا رہے ہیں!

میں یہ نہیں کہہ رہا 

کہ جو بھی اس ایوارڈ شو میں ہوا بالکل ٹھیک ہوا، مگر میرا یہ پوائینٹ آف ویو یہ ہے کہ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو ایکٹیوٹی کے نام پر کیا دیا ہے؟ اسلام کو بالکل فالو کریں مگر بات ساری یہ ہے کہ majority wise ہمارے معاشرے میں کوئی ایکٹیوٹی ہے؟ ہم نے اپنے پیارے مذہب کو تعویذ وغیرہ کی نظر کردیا ہے، یہ بتائیں کتنے astronomical sites بنی ہوئی ہیں جہاں مجھ جیسے شوقین لوگ کراچی سے بذریعہ دوربین دوسرے سیاروں، چاند وغیرہ دیکھیں؟ صرف یہی نہیں، کوئی vocational training سینٹر اسٹارٹ کیا؟ کیا ہمارے پاس ایسا کلچر ہے کہ غبارے والے کے پاس بھی بڑے پیمانے پر بینک اکاؤنٹ موجود ہو؟ میں خود کہہ رہا ہوں، ایزی پیسہ اور جیز کیش کا اکاؤنٹ ۳۰ منٹ میں کھل جاتا ہے، جبکہ conventional banking account کم سے کم بھی ۱ دن میں کھلتا ہے، تو یہ سارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے اپنی خود کی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں ہیں، جس میں، میں خود بھی شامل ہوں، کیونکہ ۱۹۴۰ تک ہمارے آباؤ اجداد continuous training کے concept کو فالو کرتے تھے، کیونکہ گھر کے بڑے اپنے سے چھوٹوں پر برہم بازی کے بجائے زندگی جینے کے طریقے سکھاتے تھے اور ان کو experience کراتے تھے، آج کے کلچر میں کیا یہ ممکن ہے؟

بے ترتیب ہم، اور ہمارے طور طریقے

ہم بے ترتیب اور haphazard ہیں، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ آگے کا پلان کرنا نہیں جانتے، اسی وجہ سے شارٹ کٹ یعنی ہماری زبان میں جگاڑ؛ اور اسی کا خمیازہ اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ لڑکیاں physical enticing کے mode میں ہوتے ہیں، جبکہ اگر نے ٹریننگ کو کلچر اپنے ملک میں اسٹارٹ کیا ہوتا تو ۲۰۰۳ سے بھی لے کرچلیں تو آج تک ایک کلچر بن چکا ہوتا جس طرح پاکستان میں ٹک ٹاک کا کلچر بن چکا ہے، تو اتنا ہی ٹائم یہاں دے دیا ہوتا تو آج کم سے کم ملک کا فائدہ ہوچکا ہوتا، مگر ملک کا کون سوچتا ہے، وہ بھی آج کے زمانے میں۔ کیونکہ میرا ذاتی پوائنٹ آف ویو ہے کہ لڑکیوں کو بکاؤ مال بنانے کے بجائے لڑکیوں کو as a resource  بناؤ جیسے تھائی لینڈ، اور متعدد ایسٹ ایشین ممالک نے بنایا، جس میں سنگا پور سر فہرست ہے، مگر اس کے لئے پراپر ووکیشنل ٹریننگ کے طریقہ کار کو laid down کرنا پڑے گا، اور یہی اصل مسئلہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا، پھل کھانے تو ہر کوئی آجاتا ہے مگر سوسائٹی میں اپنا حصہ ڈالنے کی مورل ذمہ داری کی شرم و حیا کسی میں نہیں ہے، تو ایسے میں ریاستِ مدینہ بنے گی، جب ہم خود منافق بھی ہیں، اور فرعون بھی بنے بیٹھے ہیں؟

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ

کہ لڑکیوں کو شٹل کاک میں بند کر کے رکھو،  مگر بات یہی ہے کہ جیسے ہر نئی چیز کے استعمال کا ایک user manual ہوتا ہے کہ کیسے استعمال کرنا ہے تاکہ صحیح طریقے سے استعمال کریں، کیونکہ جب ہم یعنی end user  صحٰح طریقے سے استعمال کریں گے تب ہی تو صحیح استعمال آئے گا، اور جب صحیح استعمال آئے گا تب ہی ایک maturity level بنے گا بصورتِ دیگر جب ہم میں مچیورٹی نہیں ہوگی تو اتنی اتنی سے باتوں میں arouseاور excited  ہوں گے، جیسے آج کل ہمارے چھوٹوں کو آئی فون استعمال کو ھوکا ہوچکا ہے، لینا ہے تو آئی فون ہی لینا ہے، میں خود ایک آئی فون کا اینڈ یوزر رہ چکا ہوں، اور میں نے جانا ہے کہ کس طرح آئی کلاؤڈ سے گوگل ڈرائیو پر اپنے پورے کونٹیکٹس اور کلینڈر ایکپورٹ کئے، کیونکہ معذرت کے ساتھ ایپل کے سپورٹڈ اسٹرکچر پاکستان میں فی الوقت میسر نہیں، مگر جیسے میں نے اوپر لکھا کہ ہمارے چھوٹوں کو شوق ہے کہ بس آئی فون ہو چاہے کِٹ کیٹگری کا ہی کیوں نہ ہو، مگر شو آف کرنا ہے کہ میرے پاس ایپل کے لوگو والا فون موجود ہے جس سے میں مرر ایمیج لے سکتا ہوں، خیر enough is enough اینڈ یوزر کی بات کی تو اسی ایسپیکٹ پر ایک اور چیز expose ہوئی کہ ہم consuming society ہیں، manufacturing society نہیں، ہمیں ہر چیز بنی بنائی اپنی گھر کی دہلیز پر چاہئے، جبکہ باہر کے ممالک میں اسی چیز کے لئے سوشل سروس نمبر موجود ہے جو کہ ہمارے پاس ماضی بعید میں وظیفہ کے نام پر دیا جاتا تھا، جو اب اسی طرح ختم ہوچکا ہے جیسے ڈائنو سار دنیا سے، مگر چونکہ ہم منافق بن چکے ہیں، اسی لئے ہمیں ہماری اپنی غلطی، غلطی نہیں لگتی، اور اپنا ہی تھوکا ہوا چاٹتے ہیں اور چاٹنے پر مجبور ہیں، اور اس میں حکومت سے ذیادہ ہم عوام کا قصور ہے، کیونکہ دنیا بھر میں یہی چلتا ہے کہ ڈیمانڈ اور سپلائی، یعنی طلب و رسد، اور خود دیکھیں، ہمیں کس چیز کی ہے؟؟؟ ٹھرک پن کی، اور جب ٹھرک ہماری طلب ہوگی تو ہمارے سیاست دان اور حکومتیں خوشی خوشی یہ خواہش پوری کریں گی، کیونکہ ان کو بھی اپنی حکومت پوری کرنے کے لئے حکم کا اِکا مل چکا ہوتا ہے، اور جو لفظ میں نے استعمال کیا ہے، مجھے خود استعمال کرتے ہوئے نجس لگتا ہے، ہماری ترجیع ہو، میں کیوں ترجیع کہہ رہا ہوں، میں اسی لئے کہہ رہا ہوں، کیونکہ کراچی کی کوئی بھی سڑک دیکھ لو، مردانہ کمزوری کے اشتہارات اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم بذات قوم ایک ٹھرکی قوم بن چکے ہیں، ملک کو blame نہیں کریں، blame goes to us as civilians of this gift from Allah، کیونکہ ہماری اپنی کرتوتوں کی وجہ سے پاکستان یہاں تک پہنچا ہے، کہ آج ہمارے گھروں کی لڑکیاں وہی کام کررہی ہیں جو پہلے ہیرا منڈی اور دوسری اسی طرح کے بازارِ حسن میں ہوا کرتا تھا، اور اس میں کوئی عار نہیں، کیونکہ یہ چیز ہماری ترجیحات میں شامل ہوچکی ہیں، اور ترجیحات بھی اس لیول کی کہ جب ہمیں یہ چیز ٹائم پر نہیں ملے گی، تو اس بات کی exploitation ہوگی جیسے اس بار کے ایوارڈ شو میں ہوئی،معذرت کے ساتھ نہ ہم میں فیشن سینس ہے نہ ہی عریانیت کا سینس ہے، مگر براہ مہربانی، اس طرح کی چیزوں سے پہلے پاکستان میں لوگوں کو شعور دیں، مگر معذرت کے ساتھ اگر شعور دے دیا تو ان لوگوں کی دکان کیسے چمکے گی؟ کیونکہ ان لوگوں کی دکان چل ہی ہماری ٹھرک پن پر ہے؛  تو ایسے میں پہلے پہل ہمارے گھروں کی عام لڑکیوں کے ذہن میں یہ بات لائی گئی کہ لڑکیوں کو protect کرنا ان کی exploitation ہے، جس کی وجہ سے آج ہماری لڑکیوں کو عادی بنایا پھر اس ایوارڈ کے نام پر برہنہ پن کا واٹر ٹیسٹ کیا گیا، جس کے نتیجے میں آئندہ آنے والے ۱۰ سالوں میں، میں ہمارے پاس سے بھی پاکستان کے اندر سے ایک ملکہ شراوت نکلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، کیونکہ ہم نے اپنے اندر سے دیکھنے اور سکھانے کا عنصر یک طرفہ طور پر تنسیخ کردیا ہے، میں پھر سے یہی کہوں گا کہ لڑکیاں اگر ایسے تنگ کپڑے پہنیں گی، تو اس کےmasses کو یعنی ہمارے پاس کے عام  لوگوں کو ریڈی تو کریں، لوگوں کو ٹرین تو کریں تاکہ ہماری خلقت ذہنی طور اس چیز کو accept کرے، نہ کہ لڑکیوں کو seductive figure کے طور پر ایک بکاؤ مال کے طور پر ٹریٹ کیا جائے، جو میرے نذدیک لڑکیوں کے ساتھ خود ذیادتی ہے، کیونکہ کوئی بھی شرمیلی عبایا والی لڑکی کے لئے کام کرنے کے لئے اس کلچر کے بعد گھر سے باہر نکلنا مشکل ہوجائے گا، کیونکہ اگر وہ گھر سے باہر نکلے گی تو اس چیز کا قوی امکان ہے کہ اس کو اپنا پردہ اتارنا پڑے گا، کیا ایسا کلچر ہم اپنے یہاں فروغ دینا چاہ رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے گھر میں موجود عورتوں کو دوسروں کی نظر کی تسکین کا باعث بنانے میں فخر ہے یا پھر ایک ایسا کلچر بنائیں جہاں ہر عورت گھر سے باہر اپنے امور اپنے کمفرٹ لیول میں رہتے ہوئے کرے، یا پھر ایسا کلچر جہاں گھر سے نکلنے والی ہر عورت سیکس سیمبل کے طور پر دیکھی جانی چاہئے؟ معذرت کے ساتھ یہ فسادی لبرلز سے مجھے یہی شکایت ہے ، حالانکہ میں کوئی کٹر مذہبی نہیں ہوں، (اس پر فخر نہیں ہونا چاہئے) مگر اسکا قطعی یہ مطلب نہیں کہ غلط کو غلط کہنے کی اخلاقی جرات نہیں ہو، مگر کم سے کم ایسا منافق نہیں، بلکہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ لوگوں کو شعور دیں نہ کہ انسانی حیوان اور حوس کا پجاری بنائیں، جو کہ معذرت کے ساتھ ہمارے لبرل خلقت اور میڈیا اس روش کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے کیونکہ ہمارے پاس شعور کی اشد کمی ہے، اگر شعور ہوتا تو یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس کو اتنا highlight  کیا جاتا۔

عید کا چاند

ہماری عوام کا عجب اُتاولہ پن

ابھی میں جب یہ لائین لکھ رہا ہوں، ابھی کچھ شہادتیں موصول ہوئی ہیں، جہاں اس بات کی شہادت دی گئی ہے کہ چاند دکھائی دے دیا گیا ہے، اور اس کا حتمی فیصلہ آئندہ کچھ وقت میں ہوجائے گا۔

میرا اپنا point-of-view

یہاں میرا یہ ماننا ہے کہ
  • آج ہم جدید دور میں موجود ہیں، ایسے میں Mars Rovers سیارہ مریخ کی مستقبل کی پوزیشن کا estimate لگا کر اپنے روورز کی ٹیک آف کرالیتے، تو کیا ہم زمین پر رہتے ہوئے یہی estimation probability نہیں اپنا سکتے؟
  • صرف رمضان اور چھوٹی عید میں چاند کی ۲۹ اور ۳۰ تاریخ پر اختلاف ہوتا ہے؟ باقی ۱۰ مہینے سب نارمل کیوں ہوتا ہے؟
  • جب ہمارے پاس City Concentric Annual Lunar Calendar موجود ہے، اس میں بھی میں نے دیکھا ہے کہ اس مہینے کا اختتام ۳۰ دنوں پر محیط ہے، تو ایسے میں یہ جہالت دیکھانے کی جلد بازی کس چیز کی؟
  • اگر عید منانے کی اتنی جلدی ہے، تو پہلے رمضان کے فرائص مکمل کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھنی چاہئے، کیونکہ میرا معصومانہ سوال یہی ہے کہ چونکہ عید، رمضان کے بعد آتی ہے، تو ایسے میں عید اس وقت ہی مکمل ہونی چاہئے جب رمضان المبارک کے فرائض ہم نے اس کی صحیح نیت کے ساتھ مکمل کیا ہے یا نہیں؟
  • اس Pandemic کے دوران جہاں سماجی دوری کی ضرورت اہمیت کی حامل ہے، تو ایسے میں کیا یہی ضروری ہے کہ تھوڑا صبر کا پیمانہ قائم رکھیں، ابھی پڑوسی ملک میں ہم نے قم کے میلے کے بعد پورے بھارت کی جو درگت ہوئی، آئی پی ایل postponed ہوئی، ان کے شمشان گھاٹ میں جلانے کی جگہ کی کمی ہوگئی ہے، مگر ہماری ترجیحات میں عید کی شاپنگ اور نئے نوٹ ہیں، اور نئے نوٹ کو دکھانے کے لئے عید منانی ہے، ورنہ majority عید کی صبح سو کر ہی یا گھروں کے اندر بیٹھ کر مناتے ہیں، اور شام میں نکلتے ہیں، 
  • اس پر بھی سونے پہ سہاگہ کہ شام کے اوقات میں لاک ڈاوٗن لاگو ہوتا ہے تو ایسے میں اتنا کیا اتاولا پن ہے کہ رمضان کے فرائض ادا نہیں کرکے آپ عید منا رہے ہیں؟
  • جب ایک Pandemic چل رہا ہے تو ایسے میں ترجیع میں یہ ہونا چاہئے کہ زندگی بچانی ہے، زندگی رہے گی تو آنے والے سالوں میں عید کے شوق پورے کرلیں، جب کہ یہاں یہ حالت ہے کہ ہماری پوری قوم Tomorrow Never Comes کے منطق منانے کے درپے ہے۔
  • جب ایسی صورتحال ہے تو ایسے میں ہر چیز صرف حکومت کے اوپر ڈالنا صحیح ہے یا پھر عوام کو بھی ذمہ داری کا احساس دکھانا ضروری ہے؟
کیا اس صورتحال میں یہ اتاولا پن دکھانا ضروری ہے؟

عوام کو بھی ذمہ داری دکھانی چاہئے

اب یہ لائن لکھنے پر مجھے کافی لوگ یہ کہہ کر criticize کریں گے کہ پوری دنیا کی عوام ایسی ہی ہوتی ہے، مانتا ہوں، مگر مجھے صرف یہی بات کی تصدیق کردیں کہ جب یہی عوام دبئی یا کسی اور ملک میں جاتے ہے، تو وہاں یہی رویہ جو پاکستان کی سرزمین میں قدم رکھتے ہی مادر پدر آزاد ہوجاتے ہیں، کیوں نہیں کر پاتے ہیں، یہ جگاڑیں جن کی بدولت کراچی میں لاک ڈاوٗن میں بھی رمضان بازار کو عید بازار میں تبدیل کردیا گیا ہے، under which authority وہ یہ سب کچھ کر رہے ہیں، جب ایک صورتحال موجود ہے جہاں سوشل ڈسٹینسنگ وقت کی اہم ضرورت ہے، تو تھوڑی ذمہ داری ہماری عوام پر بھی لاگو ہورہی ہے،

میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں

کیونکہ پاکستان میں بیشک حکومت نے کھانے پینے پر دن کی روشنی میں کھانے پینے کی مکمل ممانعت ہوتی ہے، کیوں ہوتی ہے؟ اس لئے کیونکہ عوام اس ممانعت میں اپنا حصہ اور اپنا contribution ڈالتی ہے جس کی وجہ سے شام ۴ بجے کے بعد کھانے کی دوکانیں کھلنا اسٹارٹ ہوتی ہیں، باقی پورا دن اپنی سماجی ذمہ داری سمجھتے ہوئے خود ہی دوکانیں بند رکھتے ہیں، تو اسی وجہ سے یہ پابندی اتنی کارگر ہوتی ہے، جبکہ سماجی دوری Mass Gathering کی پابندی کا اطلاق کیوں نہیں ہورہا ہے، اگر عوام نے پہلے سماجی دوری کا اطلاق اسی طرح جیسے روزے کے ٹائم میں کھانے پینے کی دکانیں بند کر کے کرتے ہیں، اسی طرح کرتے تو کیا اس لاک ڈاوٗن کی ضرورت پڑتی؟ اصل میں ہماری عوام میں شعور کی کمی ہے، جس کی بناہ پر اپنا کام ہوجائے، باقی سب گئے بھاڑ میں، کی منطق چل رہے ہیں۔ اگر عوام خود اس چیز کا اطلاق کرتی، اور حکومت کی leniency کو misuse نہیں کرتے، تو کیا صورتحال لاک ڈاوٗن کی جانب جاتی؟ یہ سوچ کا فقدان ہے ہم سب میں۔

ابھی کل ہی کی بات ہے

میں اپنی جاب کے سلسلے میں اپنی برانچ اے ٹی ایم کے مسئلے کی وجہ سے دستگیر جانا ہوا، اور رات ۱۲:۳۰ بجے جب میں وہاں سے نکل رہا تھا، تو مجال ہے کہ کہیں مجھے لاک ڈاوٗن کی صورتحال دکھی ہو، بیکری ہو، شاورما کی دکان ہو، آئس کریم پارلر ہو سب کھلے ہوئے تھے اور کہیں بھی مجھے ایسا احساس نہیں ہوا کہ کراچی میں لاک ڈاوٗن کی صورتحال ہے، جبکہ جیسے ہی میں دستگیر سے سیدھا لکی ون کی جانب نکلتا ہوں تو وہاں مجھے احساس ہوا کہ ہاں کراچی میں لاک ڈاوٗن ہورہا ہے،

ایسی بد احتیاطی کا فائدہ؟

الٹا نقصان ہے، اور ایسے لوگوں کو دشمنوں کی کوئی ضرورت نہیں، یہ اپنے دشمن خود ہیں، یعنی چلتے پھرتے ٹائم بم بن کر گھوم رہے ہیں۔

رہی بات عید بازار کی

اتنا فضول خرچی کس بات کی، اگر اللہ نے اتنا کچھ دیا ہے، پھر بھی اس صورتحال میں situation ہم سے کیا demand کررہی ہے، اور vice-versa کس جانب جارہے ہیں، مجھے اس حوالے صفحے کالے کرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں صرف اتنا کہوں گا، کہ جان ہے تو جہاں ہے، آج تھوڑی احتیاط کرلیں تو عید بعد میں بھی منائی جاسکتی ہے، کم سے کم اپنے لئے نہیں تو اپنے گھر والے، اپنی بیوی بچوں اور اپنے رشتہ داروں کا ہی سوچیں، کیونکہ آپ ان سب کے ساتھ inter-related ہیں تو ایسے میں آپ کے ایکشن سے ان لوگوں کو جو ناقابل تلافی نقصان ہوگا، اسکا کچھ سوچا ہے؟ کیا اس کے بارے میں سوچا ہے؟ نہیں سوچا ہے تو ہم سے بڑا حماقتی کوئی نہیں ہے۔

اس پر یہ واٹس ایپ والے حکیم لقمان

اللہ تعالی ان واٹس ایپ والے حکیم لقمانی انکل کی خرافات سے محفوظ رکھے، جو چیل اڑی کو بھینس اڑی کے منطق rumors کو بڑھاوا دیتے ہیں، پہلے زمانوں میں یہ کام محلے میں خالہ زبیدہ کیا کرتیں تھیں، جس کا ذمہ آج یہ واٹس ایپ والے انکلوں نے اپنے مضبوط کاندھوں پر اٹھا لیا ہے، میں again اس بات کی تصدیق کروں، کہ میں نہ کوئی عالم ہوں، نہ ہی کوئی فاضل، مگر صرف کوئی بھی معلومات میرے پاس آتی ہے تو اسکو ویلیڈیٹ Validate ضرور کرتا ہوں، بصورت دیگر آگے فارورڈ نہیں کرتا، کیونکہ یہ میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ بغیر تصدیق کے معلومات وہ بھی ایسی تفصیل جس کی کوئی تصدیق نہ ہو، اس کے بڑھاوے میں میری کوئی contribution ہو، بلکہ اسے اپنی انفرادی ذمہ داری سمجھتا ہوں، مگر معذرت کے ساتھ ہمارے آج کل کے بڑے اس چیز کی ذمہ داری کا احساس نہیں رکھتے، یہ نہیں دیکھ رہے ہیں، کہ آج کل سوشل میڈیا اتنا vibrant ہوچکا ہے کہ ٹویٹر پر منٹوں کے حساب سے مختلف ممالک کے ٹرینڈ تبدیل ہوچکے ہوتے ہیں، حالانکہ ہمارے بڑوں کو اس بات کی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔

کیونکہ

یہی انکلوں کی وجہ سے یہ موجودہ وبا کو casually لیا جارہا ہے، کیونکہ یہاں بھی cause and effect کا فارمولا لاگو ہوتا ہے، اور اگر ہمارے بڑے بزرگ اس طرح کا casual attitude رکھیں گے تو imagine کرلیں ہم کس جانب جارہے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح عید کے موقع پر بھی یہ انکل ہمارے ذہنوں میں wrong number ڈالنے کی ذمہ داری اپنے اوپر لی ہوئی ہے، کیونکہ۔۔۔کیونکہ۔۔۔کیونکہ۔۔۔ ہم نوجوانوں کے مقابلے صورتحال کو بغور دیکھنے کے بعد ہی ایکشن لینے کے بجائے جلد بازی ان بزرگوں کا شیوہ بن چکا ہے اور اسی وجہ سے ہمیں باہری دشمن کے بجائے ان انکلوں سے ذیادہ خطرہ ہے۔





مسجد الاقصی اور ہم مسلمانوں کے افعال

Identity Crisis اور مسلمان
دنیا میں قومیں اپنی
 شناخت سے پہچانی
 جاتی ہیں، جس سے 
آج کا مسلمان جوج رہا 
ہے۔

میں کوئی عالم فاضل نہیں مگر بات ہے عام سی اور شرم کی، کہ ہم مسلمانوں نے دنیا کو ترغیب دی کہ stereotype کے بجائے، چیزوں پر تحقیق کرنا اور logic پر مختلف چیزوں کو دیکھنا، اگر سادی زبان میں بات کروں تو یہ ہمارے آباو اجداد کی تلقین تھی جو انہوں نے دنیا کو پڑھایا، اور اس کی ریسرچ کی، کتابیں بنائیں،جامعہ الاظہر جیسی یونی ورسٹی بنائی، جس کی base پر آج کی موجودہ جامعۃ کام کرتی ہیں، آج انہی کی نشانیوں کو دنیا آپ ﷺ کی احادیث کے مطابق مسلمانوں کو دنیا کوئی لذیذ کھانے کے مترادف چٹ کرنے کے درپے ہیں۔

کسی بھی قوم کے لئے شناخت کیوں ضروری ہے؟؟؟

شناخت اور پہچان ایک طرح سے ایک دوسرے کے synonyms ہیں، اور پیچان اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے ضریعے آپ کو ایک عدد پہچان ملتی ہے، اور گمنامی میں نہیں گزارتے، اورابھی معذرت کے ساتھ پچھلے ۳۰ سالوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہے، اس میں ہمارے اپنے مسلمانوں کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے، ورنہ انگریز کی بھی منطق کو فالو کریں تو اپنا نظریہ دوسروں پر impose کرنے کے لئے انہی لوگوں میں سے اُن کے ہم خیال لوگوں کو جمع کرتے ہیں، اور ان کو استعمال کرتے ہیں، ٹھیک اسی طرح یہاں بھی مسلمانوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا ہاتھ ہوچکا ہے، کیونکہ جیسے میں نے اوپر کہا ہے کہ شناخت کسی بھی قوم کی development کے لئے ضروری ہوتی ہے، بصورت دیگر وہ دیگر اقوام کے ساتھ mix ہو کر انہی کی طرح ہوجاتے ہیں۔

دنیا میں دو ہی اقوام مذہب کی بنیاد پر آزاد ہوئے ہیں

ان میں سے ایک اسرائل ہے اور دوسرا پاکستان، اور دونوں اقوام قریباً ایک ہی طرح کی صورتحال کی بناہ پر آزادی لی تھی، کیونکہ اسرائل کا ایک زمانہ تھا وجود ہی نہیں تھا، اور ان کے لیڈران کو اس بات کی فکر تھی کہ کہیں ان کی قوم دوسرے اقوام کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی ہی شناخت نہ کھو جائیں، کیونکہ جب تک آپ میں ایک حد تک individualism رہے گی، تو جب تک آپ کی پیچان رہے گی ورنہ آپ انہی میں سے ہوجاو گے، ٹھیک اسی طرح پاکستان کے معاملے میں بھی یہی صورتحال تھی، کیونکہ جیسے قائدِ اعظم نے یہ بات کہی کہ اگر مسلمان یہاں رہے، تو زندگی بھر ہندوں اور انگریزوں کو اپنی loyalty دیکھانے میں زندگیاں گزر جائیں گی، جو کہ آج کے ہندوستان میں مسلمانوں کا حال ہے، جہاں آج بھی مسلمانوں کو طرح طرح کی باتیں سننی پڑتی ہیں، بلکہ Cross-Religion شادیاں بھی عام ہیں، جن کی وجہ سے مسلمانوں کی اپنی شناخت ہندوستان میں ٹھیک اسی طرح کی ہے جیسے ہمارے باتھ روم ٹوائلٹ رول کی ہوتی ہے، وہی حالات اس وقت مسلمانوں کی ہندوستان میں ہورہی ہے۔
مسلمانوں کی شناخت کافی چیزوں پر مبنی ہوتی ہے

اگر یہ اوپر والی ایمج کو بغور دیکھیں، تو شناخت میں کافی چیزیں آتی ہیں، جس میں عام طور پر بلڈنگ

بھی ہوتی ہے، جیسے کراچی میں فرئیر ہال ہے، جو انٹیک انگریزوں کی heritage میں شامل ہے، ٹھیک اسی طرح پہلے کی الفنسٹین اسٹریٹ جو آج کی زیب النسا اسٹریٹ ہے وہاں بھی انگریزوں کی نشانی کے طور پر یہ چیز کو مین ٹین کیا گیا ہے، یا پھر جیسے ایمپریس مارکٹ، جو کہ کراچی شہر کا ایک ہیریٹیج heritage ہے، کیونکہ اب یہ بلڈنگز کراچی کی پہچان بن چکیں ہیں، اور انگریزوں کی نشانی کی طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ اور یہ exercise دنیا بھر میں کی جاتی ہے، جیسے فرانس نے ایفل ٹاور پیرس کی نشانی کی طور پر استعمال کی جاتی ہے، اور اگر دنیا میں کسی شہر کو خوبصورت کہا جاتا ہے تو پیرس سے تشبیح دی جاتی ہے، جیسے ہمارے پاس کے سیاستدانوں نے بھی لاہور کو پیرس سے تشبیح دی گئ تھی۔(No Pun Intended)

واپس ٹاپک پر آتا ہوں

یہ تو مختلف ممالک کی نشانیوں کو بتایا ہے، جبکہ مسجد الاقصی جو کہ ہمارے لئے بحیثیت مسلمان بہت اہمیت کی حامل اس لئے بھی ہے، کیونکہ یہاں معاملہ کسی ملک کا نہیں ہے، اسلام کا ہے، جو کہ ہمارا ایمان سے متعلق ہے، جیسے اس وبا کی بناہ پر جمعہ کے روز کا تقدس پامال ہوچکا ہے، کیونکہ اب جس طرح لوگ جمعہ کی جماعت کو for-granted لیا ہے، ورنہ پہلے وہ بندہ جو کوئی نماز نہیں پڑھتا تھا وہ بھی کم سے کم جمعہ کی نماز پڑھ ہی لیتا تھا، مگر اب ان سب کو ایک بہانہ مل بھی چکا ہے کہ کورونا کو الزام دے کر جماعت کو bifurcate کرتے ہیں، ٹھیک اسی طرح اسلام کی شناخت میں سے ایک مسجد الاقصی ہے، جو مکہ مکرمہ سے پہلے ہمارا قبلہ ہوا کرتا تھا اور جہاں اچھے خاصے عرصہ منہ کر کے نماز پڑھتے رہے ہیں، اب اس کو توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور معذرت کے ساتھ scientifically کی جارہی ہے، کیونکہ ہم نے تو اپنی تحقیق کو پانی میں بہا دی ہیں، جبکہ یہ گورے لوگ اپنی تحقیق بلکہ ساتھ ساتھ مارے تحقیق کے نسخے بھی زمین بوس کیے اور نشانیوں کے طور پر سنبھال کر رکھے، اور markings سے دئے، اور اس کے بعد یہ تحقیق کو recover کیا اور اس کی بناہ پر آج یہ لوگ اس معراج پر ہیں اور ہم ہیں کہ قرآن پڑھنے کا ٹائم نہیں ہے مگر بلی گے گلے میں گھنٹی کی مانند قرآنی آیات کو گلے میں باندھ کر گھومتے ہیں، مطلب قرآن مجید جس کو فالو کرتے ہوئے موجودہ scientists نے کافی دریافتیں کی ہیں، اور ہم اس مذہب کے پیروکار قرآن کو صرف تعویز گنڈے کی حد تک limit کر کے رکھا ہے، جس کو ان لوگوں نے آہستہ سے ہمارے ذہنوں میں پیوست کردیا ہے، جس کی بناہ پر اب ہمارے دلوں میں ہماری شناخت یعنی اسلام کو آہستہ آہستہ سے دوسری چیزوں سے replace کیا ہے، جس کی بناہ پر اب ان لوگوں کی اتنی ہمت ہوچکی ہے کہ پہلے مسجد اقصی کی بنیادوں کو کھوکلا کیا گیا، اور اب تقریباً تیاری مکمل کرلی گئی ہے کہ مسجد الاقصی کو شہید کردیا جائے گا اور اس کو 3rd Temple سے تبدیل کردیا جائئے گا، کیونکہ ہم مسلمانوں کی ترجیحات تبدیل ہوچکیں ہیں، 

We are being ignorant of reality

نہ ہم نے

  1. کوئی تحقیق پر کام کیا؛
  2. Research and Development پر کوئی کام کیا؛
  3. تحقیق کی بنیاد پر اپنے آپ کو مضبوط کیا؛
  4. تحقیق کی بنیاد پر بحیثیت مسلمان اپنے آپ کو develop کیا؛
  5. اس حوالے سے کوئی تحقیقی مواد دنیا کو دیا؛ 
  6. فرسٹ ہینڈ انفارمیشن کے لئے ہم نے کوئی تحقیق کی؛
  7. ہمارا سارا تحقیق مواد انگریزوں سے ہوتے ہوئے ہی آتا ہے، اس میں ہماری اپنی کوئی محنت شامل نہیں ہوتی ہے؛

ایسے میں
We are being ignorant of the fact and unwilling
to learn

ہم ان لوگوں کے لئے آسان شکار ہیں، کہ پہلے ہمارے مواد کو ختم کیا، پھر ہمارے literates کو آہستہ سے پردے سے دور کیا، زیادہ تر کو defame کرکے نکالا گیا، حالانکہ ایسے لوگ آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں، ان کو رستے سے ہٹایا اور ان کو اپنے مٹیرئیل سے replace کیا، جس کی وجہ سے ہماری مذہبی تقدس آہستہ سے ہمارے ذہنوں اور دلوں سے دور ہوا، تو ایسے میں پہلے مسجد الاقصی، پھر آہستہ سے ہوتے ہوئے بادشاہی مسجد لاہور تک یہ سب کچھ آجائے گا اور ہم ان لوگوں کو ویلکم کر رہے ہوں گے، کیونکہ ہم میں یہ چیز آچکی ہے کہ تحقیق بالکل نہیں کرنی کہ ایسا ہو رہا ہے تو کیوں ہورہا ہے اور اسی بات کے ذریعے ہمیں exploit کیا جارہا ہے، جس کو ہم نے ماننا بالکل نہیں ہے

کیا ہم واقعی میں مستقبل میں ہیں؟

کس طرح ہماری مائنڈ پروگرامنگ کی جارہی ہے؟

زیادہ دور نہیں، پندرہ سال پہلے کی بات کررہا ہوں، جب آئی فون نے ایک جدت لائی تھی جہاں نوکیا اور بلیک بیری جیسے برینڈ موجود تھے، جو کہ فیچر فون کی کیٹیگری میں آتے تھے، ان کے مقابلے میں ایک ایسا فون کا مارکٹ میں آنا جس کو چلانے کے لئے ہمیں کوئی کی بورڈ کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ استعمال کے لئے اپ کی اسکرین ہی آپکا کی بورڈ بن رہا ہے، ایک جدت یعنی innovation تھی، جس کے بعد فیچر فون کے مقابلے میں فون کی ایک نئی کیٹگری کو introduce کیا گیا جسکو اسمارٹ فون کا نام دیا گیا جہاں سے اسمارٹ فون خاموشی کے ساتھ ہماری زندگیوں میں اس طرح سراعیت کی ہے، آج کے زمانے میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح اسمارٹ فونز نے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کے متبادل کے طور پر اپنے آپ کو کنفرم کردیا ہے!

مگر اس کا اِس ٹاپک سے کیا جوڑ؟؟؟

اس کا اس ٹاپک سے یقینی طور پر جوڑ ہے کیونکہ تھیوری آف ریلیٹیوٹی theory of relativity  کے حساب سے اگر کل (یعنی ماضی) اور حال کا موازنہ کریں تو میں اپنی ذاتی اور ناقص رائے کے مترادف موجودہ ٹائم پیریڈ میں ہم اس دورہے پر ہیں جہاں کے بعد ہم نئے پراسسز کو استعمال کرنے لگیں گے، اور پرانے طریقوں کو آہستہ آہستہ سے متروف کرنے لگیں گے۔

میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں؟

کیونکہ ہم پاکستانیوں کی ایک بری بات ہے کہ ہم ایک چیز کو فالو کرنے اسٹارٹ کردیتے ہیں تو ہوکا کی بنیاد پر استعمال شروع کردیتے ہیں، جیسے ۱۰ سالوں میں جس طرح سے سنیما کی جگہ سینی پلیکس Cineplex نے لی، تو ہر اینٹرٹینمنٹ گروپ نے کوشش کی، کہ اپنے شاپنگ ارینا Shopping Arena کے ساتھ ایک سینی پلیکس کی موجودگی ضروری ہے، جبکہ میں اگر ماضی میں لے کر جائوں، ۱۹۹۸ میں جب Blockbuster ایک بہت ہی زبردست وی ایچ ایس رینٹنگ سروس تھی، اُس نے مستقبل کے چلینجز کو Overlook کیا، اور نتیجہ میں آج Blockbuster کو کوئی نہیں جانتا بلکہ دنیا اب نیٹ فلکس اور اسی طرح کی متعدد اسٹریمنگ سروسز نے بلاک بسٹر کو یکسر ختم کردیا ہے، ٹھیک اسی طرح آج سینی پلیکس کے بزنس پر وہی وقت آرہا ہے جو early-2000s میں بلاک بسٹر اور کوڈیک Kodak کے ساتھ ہوا، جہاں مستقبل کے متعلق complacency کی وجہ سے آج ان کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے۔

وہ کیوں؟

ہو سکتا ہے میں Exaggerate  کررہا ہوں مگر (یہ میرا اپنی زاتی رائے ہے)، ابھی زیک اسنائڈر Zack Snyder کی Justice League ریلیز ہوئی، کیسے ہوئے، آن لائن اسٹریمنگ کے زریعے ایچ بی او میکس HBO max کے زریعے ہوئی، یعنی سطحی بات کروں تو جو کوڈیک اور بلاک بسٹر کے ساتھ ہوا تھا، اب ٹائم سینی پلیکس کے بزنس کی الٹی گنتی اسٹارٹ ہوچکی ہے جس میں تبدیلی ہم آنے والے دس سالوں میں یقینی طور پر دیکھنا اسٹارٹ کردیں گے، کیونکہ ایک سال پہلے تک کسی نے زوم کا نام بھی نہیں سنا تھا، مگر آج ہر آرگنائزیشن میں زوم پر میٹنگ، ٹریننگ کی جارہی ہوتی ہے، اور ہمارے اسمارٹ فون کے مستقل ایپلیکیشن یا ایپس میں سے ایک بن چکا ہے۔

ایسے میں

ایسے میں میری ناقص رائے کے مطابق اتاولے ہونے کا وقت نہیں ہے بلکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہمارے آس پاس جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، اس کو بغور دیکھیں اور دیکھنے کے بعد ہی اپنی opinion کو generate کریں، کیونکہ یہ زمانہ ایسا ہے جہاں بہت زیادہ تبدیلیاں آنے والی ہیں، تو اسکے حساب سے ہمیں ان تبدیلیوں کو یقینی طور پر دیکھنا ہوگا، اور ان چیزوں کو اگر ہم نے for-granted لیا تو اس کا نقصان بھی ہمیں ہی بھرنا ہوگا۔

لبرل پاکستانی خلقت

ہماری پاکستانی عوام اور انکی جگتیں 

میں عام طور پر اس ٹاپک پر بات کرنے سے گریزاں رہتا ہوں، مگر بات یہی ہے کہ کچھ ہمارے so-called لبرل پاکستانی عوام ہیں جو چیل اڑی کو بھینس اڑی کے مانند treat کرتے ہیں، جیسا کہ یہاں بتایا گیا ہے کہ گانا اتنا اچھا ہے، نصیبو لعل نے اتنی اچھی پچ اٹھائی ہے وغیرہ وغیرہ، مجھے اس سے کوئی دو رائے نہیں، کیونکہ واقعی میں جو پچ نصیبو لعل نے اٹھائی ہے، وہ قابل احترام اور قابل ستائش ہے، میں پھر سے یہ بات دوبارہ کہوں گا کہ اس حوالے سے اس میں کوئی دو رائے نہ ہی ہے نہ ہی ہونی چاہئے، مگر پہلے لنک میں یہ بات متواتر کہی گئی کہ دیکھیں کیسی editing ہے، بہن پہلی بات آج کے زمانے میں editing الگ چیز کا نام ہے جبکہ mixing الگ چڑیا کا نام ہے، تو براہ مہربانی جب آپ ایک گلوبل پلیٹ فارم پر یہ چیزوں کو highlight یعنی منظرِ عام پر لارہی ہوتی ہیں، تو براہ مہربانی come fully prepared۔ 

A Disclaimer Before I continue further

 یہ بات میں تصدیق کردوں کہ یہاں میرا مقصد یہ بالکل نہیں کہ home grown singers کی بے عزتی کروں، بلکہ یہاں (اور میں یہاں دوبارہ emphasis کروں گا) کہ مجھے مسئلہ شناخت کا ہے، کیونکہ پی ایس ایل پاکستان کا برینڈ ہے، تو پاکستان کے برینڈ کو کیوں اس طرح plagiarized  کیا جارہا ہے اور اس پر یہ کہ کچھ لبرلز کو میری یہ بات ناگوار گزر رہی ہے اور اس پر فرما رہے ہیں کہ میں لیکچر دے رہا ہوں، اگر میں لیکچر دے رہا ہوں اور آپ بہت پڑھے لکھے ہیں، تو کیا پڑھے لکھے ہونے کے ناطے کیا آپکی ذمہ داری نہیں بنتی کہ اگر (بقول آپ لوگوں کے) دھواں نکل رہا ہے تو اس کی روٹ کاز root cause کیا ہے؟؟؟ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ اگر کوئی پڑھا لکھا ہوتا ہے تو بحث بازی کرنے کے بجائے root cause کو identify کرنا ہوتا ہے بلکہ یہاں مجھے اپنی ایم بی اے کے کورس کی بزنس مینجمنٹ کی کلاس یاد آگئی کہ اگر کوئی مسئلہ آپ کو درپیش ہوتا ہے تو وہاں آپ نے تین سوال کے جواب دینے ہوتے ہیں، مسئلہ کا حل نکل جائے گا، کیا؛ کیوں؛ کیسے یعنی مسئلہ کیا ہے؛ مسئلہ کیوں ہوا ہے؛ اور مسئلے کو کیسے حل کیا جائے گا، مگر معذرت کے ساتھ ہمارے معاشرے میں یہ احساسِ کمتری موجود ہے کہ زبانی طور پر سامنے والے کو گرانا، بجائے اس کے کہ مسئلہ کو حل کریں، زبانی طور پر کلاشنکوف کا برسٹ مار کر سمجھتے ہیں کہ ہماری جیت ہوگئی۔ میرا صرف یہی کہنا ہے کہ ہمیں یہ احساسِ کمتری سے باہر نکل کر اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، اور بجائے اس کے کہ فضول کی بحث بازیوں میں اپنے آپ کو ملوث کریں، اور خاص طور پر جب آپ کو یوٹیوب جیسا پلیٹ فارم ملا ہوا ہے تو اس پر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، کیونکہ آپ کو نہیں پتا کہ آپ کے چند جملوں کا Ripple  یا پھر  Butterfly  یا پھر Snow Ball Effect  کیا ہوگا۔ پڑھے لکھے لوگ اس چیز کا خیال رکھتے ہیں، جو آپ جیسے بیوقوف for granted لیتے ہیں، ورنہ Accent کی بات کس نے کی ہے، پاکستان ایک بڑا ملک ہے اور جیسے کراچی شہر کے بارے میں یہ چیز کہی گئی ہے کہ ہر ۷ کلومیٹر کے بعد کلچر تبدیل ہوجاتا ہے تو کیا پورے پاکستان میں یہ چیز لاگو نہیں ہوتی؟ تو ایسے میں تفریق کون ڈال رہا ہے، مجھے نہ نصیبو لعل سے کوئی مسئلہ ہے نہ پنجابی سے بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ گل پنرہ جیسے اور لوک گلوکاروں کو موقع دیں مگر پاکستانی طریقے سے، کیونکہ میں personally یہ سمجھتا ہوں کہ پی ایس ایل پاکستان کا برینڈ ہے تو اس میں پاکستانیت جھلکنی چاہئے بجائے اس کے کہ ہم اپنی خود کی شناخت کھو دیں۔

میں ایسا اسی لئے کہہ رہا ہوں

کیونکہ یورپ میں دیکھ لیں، دور سے دکھنے میں یہ سب ایک ہی لگتے ہیں، مگر یہ لوگ اپنے heritage, کلچر پر کبھی compromise نہیں کرتے، کیونکہ ان کے نذدیک یہی ان کی شناخت ہوتی ہے، جبکہ یہاں ہم اپنی بنی بنائی شناخت کو compromise کرنے کے درپے لگے ہوئے ہیں۔ کس طرح ویسٹ اور ایسٹ جرمنی نے اپنے بیچ موجود تفریق کو ختم کیا اور اپنا ایک Common Culture بنایا اور اس پر ہی ہمیشہ استفادہ کیا, اور یہاں ہم دوسروں کو اتنا کاپی کررہے ہیں اور نہ صرف کاپی کررہے ہیں بلکہ فخر بھی کررہے ہیں۔

دوسری بات

علی ظفر کے معاملے میں میں اس ویڈیو سے متفق ہوں، کیونکہ واقعی میں علی ظفر کے پی ایس ایل کے پہلے تین ترانے بہت خوب گائے تھے مگر جس طرح پی ایس ایل ایک طرح سے پاکستان کے un-sung ہیروز کو پروموٹ کرتا ہے اس ڈپارٹمنٹ میں بھی پروموٹ کرنے کے اشد ضرورت تھی اور ہے، اسی لئے میں اس حصے میں اس ویڈیو کے کونٹینٹ سے بالکل متفق ہوں۔

مگر

آگے جو یہ محترمہ نے ماری ہیں، اس کو پتا نہیں کیا بولتے ہیں، مگر میں اسکو جگتیں مارنے کے مترادف سمجھوں گا، کیونکہ یہ محترمہ (جو بھی ہیں) کا کہنا تھا ہسپانوی (Spanish) گانے سنتے ہیں، الفاظ سمجھ نہیں آتے مگر محظوظ ہوتے ہیں، میری بہن مجھے صرف ایک بات بتاو، کہ (no offense) پہلے جب ہمارے گانے سنے جاتے تھے تو انڈین گانوں کے مقابلے میں ہمارے گانے stand at par ہوتے تھے، نہ کہ ہماری آج کی خلقت جو انڈین کونٹینٹ کو اپنے پاس adopt کرکے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کوئی تیر مار لیا ہے، کہاں اور کس اینگل سے کوئی Non-Asian جو پاکستان اور انڈیا کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا، اس چیز میں تفریق کر پائے گا کہ یہ گانا ایک پاکستانی پروڈکٹ تھی یا انڈین؟؟؟ کچھ اپنی شناخت رکھیں کیوں انڈین شناخت کو اپنانے کے لئے اتنے اتاولے ہورہے ہیں، 

یہ پی ایس ایل کا گانا یعنی ایک پاکستان کا اسٹینڈرڈ ایمیج بنانے کے لئے تھا یا ٹک ٹاک کے لئے؟؟؟

اور اس ٹک ٹاک کے فلٹرز کو یہ محترمہ editing سے تشبیح سے رہیں ہیں، جس پر مجھے اس پی ایس  ایل کے گانے کے ڈی او پی اور پروڈیوسر کی قابلیت پر شدید شکوک بھی ہے اور اس کے علاوہ جگاڑ مارنے کی طبعیت بھی لگتی ہے، کیونکہ میں نے ایسے ہی اس گانے کی "editing" اپنے لیپ ٹاپ پر کی اور تمام "فلٹرز" کو washout کیا تو کچھ بھی اس ویڈیو دیکھنے لائق نہیں تھا۔ تو ایسے میں کیا یہ محترمہ یہ ٹک ٹاک کے فلٹرز کو قابل ستائش بولیں گے تو پھر میں معذرت خواہ ہوں، کیونکہ میرے نذدیک ٹک ٹاک کے فلٹرز کو استعمال کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ بے شک میں زلفی کا انٹرویو سن رہا تھا جہاں وہ کہہ رہا تھا کہ کس طرح ۳ الگ الگ قسم کے genre کے سنگرز کو sync کرنا اس کے لئے چیلنج تھا، APPRECIATED مگر کیا یہ ضرورت تھی کہ پاکستانی پروڈکٹ میں انڈین تڑکا لگائیں؟؟؟ یہ میرا objection ہے۔

مجھے یہ ویڈیو نے آئی پی ایل کا "ہلاّ بول" کی یاد دلائی ہے

Law of Relativity کی بات مانوں تو کوئی بھی چیز اگر کسی ایک چیز پر اتنی تھوپی جائے تو سامنے والے انسان کی ایک طرح کی انسیت بن جاتی ہے، اور آہستہ آہستہ بیچ میں ایک فرق حائل ہوتا ہے وہ ختم ہوجاتا ہے، اب وہی چیز ہم یہاں کررہے ہیں، جہاں یہ موجودہ پی ایس ایل کا گانا سنتے ہوئے مجھے کہیں سے یہ گانا پاکستانی genre کے قریب کا بھی نہیں لگ رہا تھا۔

As Far As Enrique Iglesias Concerned

مجھے یہ بات دل پر لگی کیونکہ یہ سنگر میرا بھی پسندیدہ سنگر رہا ہے، خاص طور پر اس کا یہ گانا، یہ گانا، یہ گانا، یہ گانا جو کہ میرا اب تک کا سب سے پسندیدہ گانا ہے، اور اس کے علاوہ یہ گانا بھی میرے چند پسندیدہ گانوں میں شامل ہے، مگر ان زیادہ تر گانوں میں ایک چیز مشترک ہے کہ ان میں سے زیادہ تر گانے ہسپانوی زبان میں ہیں، خاص طور پر یہ گانا جس کی مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آئی ہے مگر میوزک پرسکون ہے، اور یہ بتانے کا مقصد یہی ہے کہ یہاں ہم کوا چلے ہنس کی چال اپنی بھی چال بھول گیا کے مترادف ہیں، جبکہ دنیا نے بلکہ ہمارے پڑوسی ملک انڈیا نے اپنی ہندی زبان کو اردو زبان کے پسِ پشت سے نکالنے کے لئے ہندی زبان کو اردو سے الگ کیا تاکہ کسی زمانے میں جب ہندی زبان اپنی آخری سانسیں لے رہے تھی، وہاں سے نکالی اور آج یہ حال ہے کہ ہمیں اردو زبان کی لغت اور الفاظ کا چناو کا نہیں پتا ہے مگر ہندی کو اردو میں ملا کر کوئی نئی زبان بنانے کے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ چکے ہیں۔ اور اس چیز کو ہم کہہ رہے ہیں، New Leap، شاباش ہے میڈم آپ کی سوچ پر، آپ میں اور جمعدار کی کچرہ گاڑی کے آگے موجود کھوتے میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ تصویر نہیں ڈال رہا ہوں، کیونکہ پہلی بات کاپی رائٹ کا مسئلہ اور پھر دوسری بات کچھ لوگوں کو بُرا لگ سکتا ہے۔

بلاگ میں مزید دیکھیں

Sponsors

Earn Money online with the Inspedium Affiliate Program
Unlimited Web Hosting